جمعرات, نومبر 01, 2012

" مِری سادگی دیکھـ"


کسی نے علامہ اقبال سے پوچھا… "عقل کی انتہا کیا ہے…؟" 
جواب ملا…"حیرت"… 
پھر پوچھا گیا… "حیرت کی انتہا…؟" 
جواب ملا…"عشق"… 
"عشق کی انتہا کیا ہے…؟" 
فرمایا… "عشق لا انتہا ہے… اس کی کوئی انتہا نہیں…"
سوال کرنے والے نے کہا… "لیکن آپ نے تو لکھا ہے… "تیرے عشق کی انتہا چاہتا ہوں"…
آپ نے مسکرا کر کہا…
"دوسرے مصرے میں اپنی غلطی کا اعتراف بھی کیا ہے کہ…"
"میری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں"…۔۔۔۔

عشق بےشک عظیم ہےلیکن اگرعمل کےساتھ ہوتولازوال اور پائیدارہے چاہے وہ قلم سے ہویا جان سے۔
یہ وہ فعل ہے جو  صرف عمل اور مسلسل عمل کا مرہونِ منّت ہے۔دل کا۔۔۔ نیت کا ۔۔۔یہاں تک کہ عقل کا بھی اس سے کوئی لینا دینا نہیں کہ دل کا حال صرف اللہ جانتا ہے۔
مُختصر یہ عشق اظہار ہے اور کچھ بھی تو نہیں ۔عشق اپنے آپ کو زمین سے لگانے ، اپنی انا کُچل کر ،اپنی ذات کے زرق برق پیرہن سے باہر نکل کر محبوب کی عظمت اس کی بڑائی کا اعتراف کرنے کا نام ہے۔ یہ سبق کسی کو سمجھایا نہیں جا سکتا۔۔۔کسی کو حفظ نہیں کرایا جا سکتا۔ عشق کی انتہا اگر کوئی ہےتو وہ جنون ہے۔۔۔دیوانگی ہے۔جواپنی ذات کی نفی کر کے۔۔۔اپنا آپ مار کر۔۔۔ اپنے مدار میں سے نکل کر کسی اور کے مدار میں محوِرقص ہونے کا نام ہے۔لیکن یاد رہے یہ محبوب کی چاہ ہرگز نہیں۔جاننے والے جان گئے۔اسی لیے"علامہ اقبال" نے کہا۔۔
"مِری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں" 
عشق اوّل اور عشق ہی آخر ہے۔ اس کی کوئی انتہا کوئی حد نہیں، جتنا کوئی جذب کرسکے اتنی اس کی حد ہے جتنا سنبھال سکے وہی اس کی انتہا ہے۔کہتے ہیں چاہ دیوانگی بن جائے تو عشق کہلاتی ہے۔ لیکن اصل میں چاہ آگہی کی انتہا کو چھو لے توعشق بن جاتی ہے۔عقل عشق کی محافظ ہے اورچاہ عقل کے بغیر محض ہوس ہے۔۔۔ طلب ہے۔۔۔ بےوقت کی بھوک ہے۔
عشق وہوس کی بےقراری میں بال برابر فرق ہے.اسی لیے طالب ومطلوب اکثراس کو پہچاننے میں غلطی کر جاتے ہیں۔ عشق وہوس دونوں کی تشنگی ایک سچائی ہے جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ عشق مان لینے سر جھکا کر بیٹھنے اور جھولی پھیلانے کا نام ہے۔ جبکہ ہوس نہ صرف مانگنے بلکہ قبضہ کرنے کی شدید خواہش سے مشروط ہے۔۔۔ وہ خواہش جو پوری ہوبھی جائے پھر بھی پوری نہیں پڑتی۔
محبت کاروبار ہے۔ اس میں نفع نقصان ہی تو دیکھا جاتا ہے۔ لیکن اپنا نہیں محبوب کا۔ اور جس کاروبار میں اپنا نفع نقصان دیکھا جائے وہ" ہوس " ہے۔بےغرض محبت تو ہم اللہ سے بھی نہیں کرسکتے۔ انسان تو دورکی بات ہے۔غرض کی تعریف اہم ہے کہ یہ لالچ ہے۔۔۔لذت ہے۔۔۔ہوس ہے۔۔۔خوف ہے یا پھر ہماری چاہنے اورچاہے جانے کی معصوم سی خواہش ہے۔

عشق صرف خالق کے لیے ہے۔اگر بندوں سے بچتے ہوئے عشق کی راہ پر گامزن ہوئے۔۔۔ تو راستہ طویل اور سفر لاحاصل ہو جائے گا۔عشق حقیقی کا راستہ دنیا میں سے ہو کے گزرتا ہے۔ جو اس راستے کے اسرار ورموز جان گیا۔۔۔اس کا سفر آسان ہے۔ منزل سامنے ہوتو راستے میں نظر نہیں بھٹکا کرتی ۔ جو راستے کو ہی منزل سمجھ بیٹھا اس کا سفر ہمیشہ ادھورا ہے۔ 
سو وہ مجازی عشق ومحبت جو عقل کی انتہا کو نہیں چھوتا اور دلیل سے سکون نہیں پاتا۔ وہ ہوس کے سوا کچھ بھی نہیں۔عشق حقیقی کے حوالے سے بھی عقل کی اولیت سب سے پہلا سرا اور آخری یقین ہے.یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ عشق حقیقی سفر ہے جس کو طے کرنا ہے۔ منزل اور کامیابی کا احساس سفر میں کبھی نہیں ملتا ۔‬ ‫جوعشق حقیقی کی اصل لذت سے روشناس ہو گیا وہ اس دنیا کا نہ رہا۔
عشق مجازی کیفیت ہے اور عشق حقیقی جذبیت۔
کیفیت جھلکتی ہے۔۔۔چھلکتی ہے۔۔۔بدلتی ہے۔۔۔ بہکتی ہے۔۔۔سنبھلتی ہے۔غرض کہ کبھی یکساں نہیں رہتی ۔ جبکہ جذب کرنا وہ صفتِ خاص ہے جو صرف خاص کا نصیب ہے۔۔۔اوراس کا جو خاص ہو کربھی خاص نہ لگے۔۔۔کہ یہ باطن کا سفر ہے ظاہر سے اس کا کوئی علاقہ نہیں۔
جذبیت اسی کا مقدر ہے جس کے اندرکچھ پانے کی طلب ہو۔۔۔ تشنگی کا احساس باقی ہو۔اور سب سے بڑھ کر پانے کے بعد دینے کی صلاحیت بھی رکھتا ہو۔جس میں جذب کرنے کے بعد دینے کی اہلیت نہیں وہ اپنی ذات میں بیش قیمت ہو سکتا ہے۔۔نقش ہائے رنگ رنگ سے زمانے پر راج کر سکتا ہے۔زندگی کا حسن دوبالا کرسکتا ہے لیکن ! زندگی بخش نہیں ہو سکتا۔ انا کی فنا میں کچھ لوگ مجاز کے پردے میں حقیقت کا ادراک کر لیتے ہیں اورکچھ انا کے ساتھ اپنا وجود بھی دان کر کے حقیقت کو مجاز میں چھپا جاتے ہیں۔عشق مجازی سے عشق حقیقی تک کا یہ سفرلاحاصل کبھی نہیں رہتا ۔۔۔ اگر کوئی سچے دل سے اس کی طلب رکھتا ہو۔وہ عشقِ مجاز جو دربدری سے نجات دلا کر ایک راستے کا مسافر بنا دے۔۔۔ اس راستے کا جو مالکِ حقیقی سے ملا دے وہی سچا عشق ہے- پرعشقِ ِ حقیقی کی پہچان کیسے ہو۔۔۔ اگر ایک کو اوّل وآخر مان لیا جائے اور بعد میں پتہ چلے کہ یہ تو خسارہ تھا عمر پھر کا۔ وہ عشقِ مجازی جو ذات کاآئینہ یوں جگمگا دے کہ ہر چہرہ محبوب کا عکس بن جائے اور محبوب کی محبت ہر رشتے میں تازگی بھر دے تو جان جاؤ کہ محبوب سچا ہے۔ جو عشق ' مجاز' سے شروع ہو کر اسی پر ختم ہو جائے اس سے زہریلا پھل ۔۔اس سے بڑی امربیل اور کوئی نہیں۔جو محبوب تمہیں اپنی ذات سے باہر نہ نکلنے دے وہ ایک بند گلی ہے اس سے جتنا جلد باہر آ سکو آ جاؤ کہ وہ سفر کااختتام ہے اور سفر مکمل ہو جائے تو ایک سرد موت مُنتظر ہوتی ہے ورنہ محبوب کی قربت کی سرشاری موت کو بھی وصال بنا دیتی ہے اور زہر کا پیالہ یوں لبوں کوچھوتا ہے گویا آبِ حیات ہو۔
حرفِ آخر!
عشق لافانی جذبہ ہے... اس کی تکمیل ایک فانی انسان سے ممکن ہی نہیں ۔عورت کا احساس عشق کے جذبے کے حوالے سے بہت طاقتور ہوتا ہے کہ اس کی ذات سے عشق مجازی کے سوتے پھوٹتے ہیں جو عشق حقیقی کی راہ کے اولین سنگ میل بھی ہو سکتے ہیں ۔ یہ اس کی طاقت ہے تو کمزوری بھی کہ وہ لاکھ کوشش کر لے کبھی عشق مجازی کی انتہا تک نہیں پہنچ سکتی۔۔۔۔ عشق حقیقی کی راہ کے لیے اسے خود سے کیے گئے عشق مجازی کو سمجھنا پڑتا ہے۔








1 تبصرہ:

  1. حسن یاسر نے کہا۔۔
    عشق اور محبت کے سلسلے کبھی عقلی دلیلوں سے طے نہیں ہوتے۔۔۔مجازی محبت حقیقت کا قرب عطا کر دے ایسا ممکن تو ہے لیکن اس کی شدت میں فرق ہو سکتا ہے لیکن جذبے کو ہوس سمجھنا کہاں تک درست ہو گا کیوں کہ ہو سکتا ہے مجازی محبت کسی کے روزوشب کو بدل تو دے اسے حقیقت کی طرف راغب تو کر دے لیکن اس میں شدت پیدا نہ کر سکے تو کیا اسے خامی تصور کیا جائے اور ہوس کو محبت میں عمل دخل کس حد تک ہے ؟ یہ سوال بھی خاصا اہم ہے۔
    27 مئی 2015

    جواب دیںحذف کریں

"سیٹل اور سیٹل منٹ"

سورۂ فرقان(25) آیت 2۔۔   وَخَلَقَ كُلَّ شَىْءٍ فَقَدَّرَهٝ تَقْدِيْـرًا ترجمہ۔ اور جس نے ہر شے کو پیدا کیا اور پھر اس کے لیے ایک اند...