"حاضر سروس کو سیلیوٹ مارا جائے تو بات بنتی ہے "
فوج میں بھرتی کے بعد ایک عام اصُول یہ ہے کہ اپنے سے بڑے عُہدے دار کو اُس کے مقام پردیکھ کر سیلیوٹ کیا جائے۔یہ نہ صرف اُس کی بڑائی کا اعتراف ہے بلکہ اپنی وفاداری کا اظہار بھی ہے کہ اس کی ہر بات ماننی ہے۔ اُس کی عزت کرنا ہے، اُس کو وہ مقام دینا ہے جس کا وہ حقدار ہے اس میں بڑائی چھوٹائی کا کوئی معیار نہیں یہاں تک کہ باپ بھی اپنے بیٹے کو سیلیوٹ کرتا ہے اگراُس کا عُہدہ اپنے بیٹے سے کم ہو۔ فوج کا ایک مرحلہ ریٹائرمنٹ کا بھی ہوتا ہے اُس کے بعد سیلیوٹ مارنے کی نہ اہمیت ہوتی ہےاورنہ ضرورت ۔ سیلیوٹ لینے والا بھی اس خواہش سے بےنیاز ہوجاتا ہے کیونکہ وہ اپنے حصّے کا کام مُکمل کر چُکا ہوتا ہے۔زندگی میں اُسے جو ملنا تھا مِل گیا اورجو اُس نے دوسروں کو فیض پُہنچانا تھا وہ پُہنچا دیا۔اب ہرشخص اپنے کیے کا خود ذمہ دار ہے ۔۔۔" حُکم دینے اور ماننے کا دور ختم ہوگیا "
The Phase of order and obey has gone
فوج کا یہ اہم اصول ہر انسان کی زندگی پر لاگو ہوتا ہے۔ہر وہ شخص جس نے ہماری زندگی میں مثبت کردار ادا کیا ہمیں اُس کی زندگی میں اُس کے سامنے ہی اُسے عزت دینی چاہیے،سیلیوٹ کرنا چاہیے۔یہی نہیں بلکہ ہمیشہ کے لیے اس دنیا سے چلے جانے کے بعدکسی کی محبت میں آنسو بہانا بھی بےکار ہے۔"ہمیں انسان کی زندگی میں اُس کے سامنے رونا چاہیے"۔
وضاحت یوں کہ جانے والا اگر بد تھا تو پھر اُس کا شرفتنہ انگیز تھا۔نیک تھا تو ہمیں اُس کی طرح نیکی کرنے کی توفیق کیوں نہ ملی۔دُکھی تھا تو ہم اُس کے دُکھوں کا ازالہ نہ کر سکے۔ہمارا پیارا تھا تو ہم نےاُسے دل سے لگا کر کیوں نہ رکھا۔
اُس کا پیار ہم پرقرض تھا جس کو اُس کی زندگی میں ادا کرنا ہمارافرض تھا۔اُس کے سامنے کم ازکم ایک بارآنسوبہا کراُس کی محبت وخدمت کا اعتراف کرکے شاید ہم اُسے دُنیا کی سب سے بڑی خوشی دے دیتے۔لیکن ہم تو اُس کی نوازشات کی بارش میں بھیگ کر زندگی کا لُطف لیتے رہےاور وہ زندگی سے دُورہوتا گیا۔دوسروں کو راحت وسکون دیتے دیتےاُس کی ذات وقت کے گلیشیئر میں دفن ہوتی چلی گئی۔بروقت ہنگامی امداد سے شاید کچھ سانسیں لوٹ آتیں پر ہمیں پھر بھی عمل کی توفیق نہ ہوئی۔اب جب بازی پلٹ گئی جانے والا چلا گیا تو رونا بیکارِمحض ہے۔اب تو خوش ہونے کا مقام ہے۔۔۔اگر بد تھا تو اپنے انجام کو پہنچ گیا۔ نیک تھا تواپنی نیکیوں کا اجر پا لے گا۔ہم نے اُس کی قدر نہیں کی۔۔۔اللہ کے ہاں اعلیٰ مقام پر ہو گا۔
ہم اس کی خدمات کا حق ادا نہ کر سکے۔۔۔باری تعالیٰ اپنے بندے کی محبت کا پورا بدلہ عطا کرتا ہے۔رونا صرف اپنی نااہلی پر۔۔۔ ایک خوشبو سےمحرومی کے احساس پر ہو تو جائز ہےورنہ اپنے آپ کو فریب دینے کے مترادف ہے۔
فوج میں بھرتی کے بعد ایک عام اصُول یہ ہے کہ اپنے سے بڑے عُہدے دار کو اُس کے مقام پردیکھ کر سیلیوٹ کیا جائے۔یہ نہ صرف اُس کی بڑائی کا اعتراف ہے بلکہ اپنی وفاداری کا اظہار بھی ہے کہ اس کی ہر بات ماننی ہے۔ اُس کی عزت کرنا ہے، اُس کو وہ مقام دینا ہے جس کا وہ حقدار ہے اس میں بڑائی چھوٹائی کا کوئی معیار نہیں یہاں تک کہ باپ بھی اپنے بیٹے کو سیلیوٹ کرتا ہے اگراُس کا عُہدہ اپنے بیٹے سے کم ہو۔ فوج کا ایک مرحلہ ریٹائرمنٹ کا بھی ہوتا ہے اُس کے بعد سیلیوٹ مارنے کی نہ اہمیت ہوتی ہےاورنہ ضرورت ۔ سیلیوٹ لینے والا بھی اس خواہش سے بےنیاز ہوجاتا ہے کیونکہ وہ اپنے حصّے کا کام مُکمل کر چُکا ہوتا ہے۔زندگی میں اُسے جو ملنا تھا مِل گیا اورجو اُس نے دوسروں کو فیض پُہنچانا تھا وہ پُہنچا دیا۔اب ہرشخص اپنے کیے کا خود ذمہ دار ہے ۔۔۔" حُکم دینے اور ماننے کا دور ختم ہوگیا "
The Phase of order and obey has gone
فوج کا یہ اہم اصول ہر انسان کی زندگی پر لاگو ہوتا ہے۔ہر وہ شخص جس نے ہماری زندگی میں مثبت کردار ادا کیا ہمیں اُس کی زندگی میں اُس کے سامنے ہی اُسے عزت دینی چاہیے،سیلیوٹ کرنا چاہیے۔یہی نہیں بلکہ ہمیشہ کے لیے اس دنیا سے چلے جانے کے بعدکسی کی محبت میں آنسو بہانا بھی بےکار ہے۔"ہمیں انسان کی زندگی میں اُس کے سامنے رونا چاہیے"۔
وضاحت یوں کہ جانے والا اگر بد تھا تو پھر اُس کا شرفتنہ انگیز تھا۔نیک تھا تو ہمیں اُس کی طرح نیکی کرنے کی توفیق کیوں نہ ملی۔دُکھی تھا تو ہم اُس کے دُکھوں کا ازالہ نہ کر سکے۔ہمارا پیارا تھا تو ہم نےاُسے دل سے لگا کر کیوں نہ رکھا۔
اُس کا پیار ہم پرقرض تھا جس کو اُس کی زندگی میں ادا کرنا ہمارافرض تھا۔اُس کے سامنے کم ازکم ایک بارآنسوبہا کراُس کی محبت وخدمت کا اعتراف کرکے شاید ہم اُسے دُنیا کی سب سے بڑی خوشی دے دیتے۔لیکن ہم تو اُس کی نوازشات کی بارش میں بھیگ کر زندگی کا لُطف لیتے رہےاور وہ زندگی سے دُورہوتا گیا۔دوسروں کو راحت وسکون دیتے دیتےاُس کی ذات وقت کے گلیشیئر میں دفن ہوتی چلی گئی۔بروقت ہنگامی امداد سے شاید کچھ سانسیں لوٹ آتیں پر ہمیں پھر بھی عمل کی توفیق نہ ہوئی۔اب جب بازی پلٹ گئی جانے والا چلا گیا تو رونا بیکارِمحض ہے۔اب تو خوش ہونے کا مقام ہے۔۔۔اگر بد تھا تو اپنے انجام کو پہنچ گیا۔ نیک تھا تواپنی نیکیوں کا اجر پا لے گا۔ہم نے اُس کی قدر نہیں کی۔۔۔اللہ کے ہاں اعلیٰ مقام پر ہو گا۔
ہم اس کی خدمات کا حق ادا نہ کر سکے۔۔۔باری تعالیٰ اپنے بندے کی محبت کا پورا بدلہ عطا کرتا ہے۔رونا صرف اپنی نااہلی پر۔۔۔ ایک خوشبو سےمحرومی کے احساس پر ہو تو جائز ہےورنہ اپنے آپ کو فریب دینے کے مترادف ہے۔
انسان کی اچھائیاں اُس کے ہمیشہ کے لیے نظروں سے اوجھل ہونے کے بعد ہی نظر آتی ہیں اور اُن کی روشنی کافی دیر تک پیچھے رہ جانے والوں کے تاسف کا ساتھ دیتی ہےجبکہ انسان کی برائیاں اُس کے ساتھ دفن ہونے میں ذرا سی بھی تاخیر نہیں کرتیں اور اس سے ملنے والے زخم پیچھے رہنے والوں کےلیےکتنا ہی ناسور کیوں نہ بن جائیں وقت کا مرہم بہت جلد ان کے داغ بھی مٹا دیتا ہے۔
زندگی کہانی یہی تو ہے کہ کبھی تصویر کے ایک ہی چوکھٹے میں لگا دوسرا عکس دکھائی نہیں دیتا۔کبھی ہم کسی کے بہت قریب ہو
کر بھی بہت دور ہوتے ہیں۔اہم یہ ہے کہ ہماری موجودگی کا احساس باقی رہے ۔نہ صرف ہمارے سامنے بلکہ ہمارے جانے کے بعد بھی،اور یہ احساس جب تک خود ہم میں اپنے لیے بیدار نہیں ہو گا دوسرے کبھی اس کی گرد کو بھی نہیں چھو سکیں گے۔
فروری 15۔۔2012
زندگی کہانی یہی تو ہے کہ کبھی تصویر کے ایک ہی چوکھٹے میں لگا دوسرا عکس دکھائی نہیں دیتا۔کبھی ہم کسی کے بہت قریب ہو
کر بھی بہت دور ہوتے ہیں۔اہم یہ ہے کہ ہماری موجودگی کا احساس باقی رہے ۔نہ صرف ہمارے سامنے بلکہ ہمارے جانے کے بعد بھی،اور یہ احساس جب تک خود ہم میں اپنے لیے بیدار نہیں ہو گا دوسرے کبھی اس کی گرد کو بھی نہیں چھو سکیں گے۔
فروری 15۔۔2012
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں