محبت طواف ہے۔۔۔ محبت تلاش ہے۔۔۔محبت آغازِسفر ہے۔ محبت پانے کا نہیں کھوجنے کا نام ہے۔۔۔ محبت رُکنے کا نہیں بہنے کا نام ہے۔۔۔ محبت گھنٹیاں بجا کر بڑے اہتمام کے ساتھ خواہشات کے پرساد کی تھالیاں ہاتھوں میں لے کرمحبوب کا بُت بنا کراُس کو پُوجنے۔۔۔ آنکھیں بند کر کے اُس کے قدموں میں بیٹھنے کا نام نہیں ہے۔ یہ شرک ہے۔۔۔محبت کی توہین ہے۔
محبت اپنے آپ کو بُھلا کر۔۔۔اپنی میَں کی نفی کر کے۔۔۔ اپنی انّا کےغبارے میں سے ہوا نکال کر۔۔۔اپنے آپ کو بےحقیقت مان کر۔۔۔اپنی ذات کے مدار سے نکل کر۔۔۔ محبُوب کے گِرد دیوانہ وارگھومنے کا نام ہےلیکن یہ بےساختگی بےتکلفی بھی قاعدے،قانون،حسنِ ترتیب، موقع محل سے منسوب ہے۔
مُحبت دُنیا کے سارے قاعدے قانون بُھلا کرمحبوب کی مرضی پرچلنے کا نام ہے۔اپنی چاہ اہم ہے یا محبوب کی چاہ؟یہی اصل بات ہے۔۔۔اصل کہانی ہے۔
محبت ساری تشنگی،ساری پیاس بُجھانے کا نام ہے۔۔۔ محبت سَیری کا نام ہے۔۔۔ وہ سَیری جو قُربت کی خواہش بڑھا دیتی ہے۔۔۔ وصال کی چاہ تیز کر دیتی ہے۔
محبُوب لازوال ہے تو محبت پابند کیسے ہو سکتی ہے؟ اس کو کیونکر مُکمل کہا جاسکتا ہے۔
مُحبت صرف عقل سے مشروط ہے۔۔۔ سمجھ سےعلاقہ رکھتی ہے کہ محبُوب سب برداشت کر لیتا ہے لیکن اندھا دُھند اپنی طرف دوڑنے والے نہیں۔اُس کی چاہت ہے کہ جو آئے پورے یقین پورے بھروسے سے آئے۔۔۔ اپنے آپ کو سنبھال کر اپنا وجود پوری امانت داری سے اُس کے سَپُرد کرے۔
مُحبت قریب ہونے کا نام ہے۔۔۔ محبت قربت کی خاطر سیڑھیاں چڑھنےکا نام ہے۔۔۔ محبت آگے سے آگے بڑھنے کا نام ہے۔ محبت رُکاوٹ نہیں راستہ ہے۔ محبت بُلند ہونے۔۔۔ محبُوب کو دیکھنے۔۔۔اُس سے بات کرنے۔۔۔ اُس کو چُھونے کی خواہش کا نام ہے۔۔۔ وہ خواہش جو صرف انسان کا نصیب ہے کہ فرشتے ایسی بات سوچ بھی نہیں سکتے۔
مُحبت اپنی زندگی اورمعاملاتِ زندگی بطریقِ احسن ادا کرنے اور محبت کی ڈبیا اپنے وجود کے اندر اپنے آپ سے بھی چُھپا کر۔۔۔کسی اور نظر سے بچا کرتروتازہ رکھنےکا نام ہے۔محبت آخری سانس سے پہلے محبوب سے اظہارِمحبت کا نام ہےکہ ساری زندگی وقت ہی وقت ہےپرجب احساس کی شِدّت میں خلوص کی حِدّت شامل ہوجائے تو بیڑہ پار،ورنہ بعد میں جا کر محبوب سے گِلہ شکوہ اور تاّسف وندامت کا اظہارکرنا۔۔۔دوبارہ سےآغاز کرنے کا وعدہ چاہنا سب بےمعنی سب بےکار ہے۔
محبت اپنے آپ کو بُھلا کر۔۔۔اپنی میَں کی نفی کر کے۔۔۔ اپنی انّا کےغبارے میں سے ہوا نکال کر۔۔۔اپنے آپ کو بےحقیقت مان کر۔۔۔اپنی ذات کے مدار سے نکل کر۔۔۔ محبُوب کے گِرد دیوانہ وارگھومنے کا نام ہےلیکن یہ بےساختگی بےتکلفی بھی قاعدے،قانون،حسنِ ترتیب، موقع محل سے منسوب ہے۔
مُحبت دُنیا کے سارے قاعدے قانون بُھلا کرمحبوب کی مرضی پرچلنے کا نام ہے۔اپنی چاہ اہم ہے یا محبوب کی چاہ؟یہی اصل بات ہے۔۔۔اصل کہانی ہے۔
محبت ساری تشنگی،ساری پیاس بُجھانے کا نام ہے۔۔۔ محبت سَیری کا نام ہے۔۔۔ وہ سَیری جو قُربت کی خواہش بڑھا دیتی ہے۔۔۔ وصال کی چاہ تیز کر دیتی ہے۔
محبُوب لازوال ہے تو محبت پابند کیسے ہو سکتی ہے؟ اس کو کیونکر مُکمل کہا جاسکتا ہے۔
مُحبت صرف عقل سے مشروط ہے۔۔۔ سمجھ سےعلاقہ رکھتی ہے کہ محبُوب سب برداشت کر لیتا ہے لیکن اندھا دُھند اپنی طرف دوڑنے والے نہیں۔اُس کی چاہت ہے کہ جو آئے پورے یقین پورے بھروسے سے آئے۔۔۔ اپنے آپ کو سنبھال کر اپنا وجود پوری امانت داری سے اُس کے سَپُرد کرے۔
مُحبت قریب ہونے کا نام ہے۔۔۔ محبت قربت کی خاطر سیڑھیاں چڑھنےکا نام ہے۔۔۔ محبت آگے سے آگے بڑھنے کا نام ہے۔ محبت رُکاوٹ نہیں راستہ ہے۔ محبت بُلند ہونے۔۔۔ محبُوب کو دیکھنے۔۔۔اُس سے بات کرنے۔۔۔ اُس کو چُھونے کی خواہش کا نام ہے۔۔۔ وہ خواہش جو صرف انسان کا نصیب ہے کہ فرشتے ایسی بات سوچ بھی نہیں سکتے۔
مُحبت اپنی زندگی اورمعاملاتِ زندگی بطریقِ احسن ادا کرنے اور محبت کی ڈبیا اپنے وجود کے اندر اپنے آپ سے بھی چُھپا کر۔۔۔کسی اور نظر سے بچا کرتروتازہ رکھنےکا نام ہے۔محبت آخری سانس سے پہلے محبوب سے اظہارِمحبت کا نام ہےکہ ساری زندگی وقت ہی وقت ہےپرجب احساس کی شِدّت میں خلوص کی حِدّت شامل ہوجائے تو بیڑہ پار،ورنہ بعد میں جا کر محبوب سے گِلہ شکوہ اور تاّسف وندامت کا اظہارکرنا۔۔۔دوبارہ سےآغاز کرنے کا وعدہ چاہنا سب بےمعنی سب بےکار ہے۔
سب سے ضروری بات یہ ہےکہ جتنی جلدی محبت کی اہمیت وضرورت کا احساس ہو جائے۔۔۔اُس کی پرکھ شاملِ حال ہوجائے اُتنا جلد معاملاتِ زندگی میں نکھار پیدا ہوتا جاتا ہے۔ اُلجھے دھاگے سُلجھنے لگتے ہیں۔۔۔ بگڑے کام سنورنے لگتے ہیں۔۔۔کھوئی ہوئی توانائی بحال ہونےسے انسان ایک نئے عزم نئے حوصلے کےساتھ گردشِ دوراں سے نبردآزما ہونے کا ہنر جان لیتا ہے۔
محبت تخلیقِ کائنات کی وہ بُنیادی حقیقت ہے جو کون ومکاں کی ہر شے پر حاوی ہے۔
حرفِ آخر
محبت صرف عشقِ مجازی سے عشقِ حقیقی کا سفر ہے۔
محبت تخلیقِ کائنات کی وہ بُنیادی حقیقت ہے جو کون ومکاں کی ہر شے پر حاوی ہے۔
حرفِ آخر
محبت صرف عشقِ مجازی سے عشقِ حقیقی کا سفر ہے۔
کوزہ میں دریا بند کر دیا ہے۔
جواب دیںحذف کریںکمال کی تحریر ہے
بہت شکریہ جناب! میں خود بھی بعد میں پڑھ کر حیران رہ جاتی ہوں ۔ لفظ لکھتی نہیں لکھوائے جاتے ہیں۔ اس تحریر کو ایک بارعشق مجازی کے حوالے سے بھی پڑھیں۔
حذف کریںاسے عشق مجازی کی نظر سے بھی کئی بار پڑھا۔
جواب دیںحذف کریںکیا محبت اظہار کی محتاج بھی ہے؟ حقیقی ہو یا مجازی محبت یکطرفہ نہیں ہوتی اسی لئے چاہنے سے زیادہ چاہے جانے کا نشہ زیادہ ہوتا ہے۔