جمعہ, اکتوبر 27, 2017

"خوشی اور آزادی"

خوشی اور آزادی دو ایسے احساسات یا رویے ہیں جو عورت اور مرد کےکردار کی بُنت میں  بنیادی اہمیت رکھتے ہیں۔خوشی سراسر عورت کے وجود سے عبارت ہے تو مرد کی ذات آزادی کی ترجمانی کرتی ہے۔
ایک خاندان اور رشتوں کی عافیت کے سائے میں آنکھ کھولنے والے بچے سے بات شروع کی جائےتو عمر کے پہلے سال  شِیرخوار بچہ یا بچی ایک ہی طرح کا ردِعمل ظاہر کرتے ہیں اورصرف پہنے جانے والے لباس کے رنگوں کی شوخی اُن کی  شخصی انفرادیت ظاہر کرتی ہے۔بچہ جیسےجیسے چلنے پھرنے اور بھاگنے دوڑنے کے قابل ہوتا ہے اپنی اپنی جنس کے محسوسات کا فرق  نمایاں ہونے لگتا ہےجو نہ صرف گھر کے ماحول بلکہ بچوں کے رویوں میں بھی دِکھتا ہے۔بچیوں کی موجودگی گھر میں رنگوں کی گہماگہمی اور شوخیوں سے بھرپور ہوتی ہے جبکہ بچے کی توجہ کا مرکز گھر سے زیادہ باہر کی دنیا ہوتی ہے۔۔۔
بچیاں بہت چھوٹی عمر سے ہی اپنے کپڑوں اور اُن کے لوازمات کے بارے میں حساس ہوتی ہیں تو اُن کی عمر کے لڑکے نہ ہونے کے برابر پہنے جانے والےلباس کی پروا کرتے ہیں۔خوشی کی تقاریب اور خاص طور پر عیدین کے مواقع پر گھر میں بچیوں یا بچوں کی موجودگی کا فرق نمایاں ہو کر سامنے آتا ہے۔چوڑیوں کی جھنکار،مہندی کی مہک اور رنگ برنگ چمکیلے پیرہن جہاں گھر کو خوشی سے بھردیتے ہیں وہیں  باورچی خانےسے اُٹھتی  کھانوں کی مہک گھر میں  صنفِ نازک کی  اہمیت کا احساس پیدا کرتی ہیں لیکن یہ بھی سچ ہے کہ  گھر میں جنم لیتی یہ رونق گھر کے مرد کی آنکھ کے بغیر  پھیکی اور بےمزہ ہی لگتی ہے،گھر میں کھانا  پکانے سے کھانا کھانے تک کی مصروفیات  مرد کے  نہ ہونے سے اپنی اہمیت کھو دیتی ہیں۔
۔"ہوس اگر مرد کی منفی خصلت ہے تو سراہنے والی نگاہ بھی صرف اور صرف مرد  کا ہی خاصہ ہے"۔کائنات  میں رنگ اگر عورت کے دم سے ہیں تو اس رنگ کی پہچان  مرد کی خاص صفت ہے۔گرچہقیمتی سے قیمتی  مکان بھی عورت کے وجود کے بغیر بےحیثیت ہے تو اپنےبھرپور وجود سے مہکتے  مکان  میں عورت کسی رشتے کےحصارمیں نہ  ملے تو وہ کسی گلدان میں خوش رنگ کاغذی پھول کی مانند ہوتی ہے جو گرفت میں آگر پل میں اپنی اصلیت جِتا دیتا ہےجبکہ اپنے مقدس رشتوں کے درمیان اپنی شناخت  گم کرتی عورت،کسی کے احساس سے بےپروا  گھر کے ہر گوشے میں محسوس کی جا سکتی ہے۔اسی طور مرد کے  ساتھ ساتھ جڑے کسی جائز رشتے  کے بغیر ایک مکمل مکان  بھی  عورت کو کنکریٹ سے بنی چاردیواری  کا تحفظ تو دیتا ہے لیکن  اپنی ذات کی گہرائیوں میں   اِسے بےسکون ہی رکھتا ہے۔
 وقت کا پہیہ  گردش کرتا ہے ،عمر کی گاڑی  کے دھیرے دھیرے سرکنے سے  جہاں بچیاں اپنی ذات کے ہالے میں  جھلکنے والی  شعوری "خوشیاں" سمیٹتی ہیں  وہیں  اپنی ذات سے باہر دکھائی دینے والی  لاشعوری "آزادی" بچوں کو طمانیت سے سرشار رکھتی ہے۔
خوشی اور آزادی کی آنکھ مچولی کھیلتے بےفکرے بچے گھر کے گوشۂ سکون سے نکل کر جب عملی زندگی کے محاذ پر قدم دھرتے ہیں،نئے رشتوں میں اپنے آپ کو سموتے ہیں تو پلک جھپکتے  میں گویا سب ختم ہو جاتا ہے۔عورت کے لیے اپنی ذات سے جڑی بےقیمت خوشیاں حاصلِ زیست تھیں تو اب اپنی ذات ہی دان کرنا پڑتی ہے دوسری طرف مرد جو اپنی ذات سے بےپروا ہر سمت  حرکت کے لیےآزاد تھا تو اب اپنا آپ اپنی ذات کے دائرے میں محدود کرنا پڑتا ہے۔ 
 مقدور بھر اہلیت کے  غلاف میں  اپنی خواہشوں اور ظرف کے کھنکتے سکوں کو سمیٹتے ہم  اپنا خاندان مکمل کرنے کی چاہ  کرتے ہیں۔ انسان کہانی بھی عجیب ہے۔ مرد اور عورت مل کر ایک  رشتے کی بنیاد رکھتے ہیں۔دنیا کی زندگی کمائی میں اولاد کی آمد لکھی ہو تو خاندان کے بڑھنے کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ انگلی پکڑ کر پہلا قدم رکھنے والے وقت گذرنے کے ساتھ کاندھے کو چھونے لگتے ہیں۔یوں ایک "لائف سائیکل" شروع ہو جاتا ہے۔شادی کرنا اپنے فطری تقاضوں کو سمجھتے ہوئے  سکون کی خاطر ایک دوسرے سے ناواقف مرد اور عورت کے  تازندگی ایک دوسرے کے ساتھ رہنے کا احساس ہےاور "نکاح" اسے معاشرے اور مذہب کے دائرے میں لانے کامعاہدہ ہے۔،اس معاہدے  میں فریقین کو جہاں بہت سی شرائط اور قواعدوضوابط کاسامنا کرنا پڑتا ہے وہیں اُس کی اصل  اور گہرائی کو سمجھنا بھی  بہت اہم ہے۔شادی اگر  جذبات اور احساسات کے بانٹنے کانام ہے تو نکاح اپنے خاندان، اپنی آنے والی نسل اور  معاشرے میں توازن برقرار رکھنے کے لیے اپنی ذات  کے حصار میں جنم لینی والی ذہنی  خوشی  اور شخصی آزادی اپنے آپ تک محدود رکھنے کے احساس اور سمجھوتےکا نام بھی ہے۔  
 نکاح  دراصل اجنبی مرد اور عورت  کے درمیان بننے والا لفظ کا وہ رشتہ ہے جو ان کی رضا سے ایک  ساتھ زندگی بسر کرنے  کی بنیاد رکھتاہے۔لیکن سچ یہ بھی ہے کہ میاں بیوی کے درمیان لفظ کا نہیں احساس کا رشتہ افضلیت رکھتا ہے۔ اور اس تعلق میں احساسِ ذمہ داری پہلے آتا ہےاور  احساسِ محبت بعد میں۔احساس کا رشتہ ہر رشتے سے بڑھ کر ہے اس کے علاوہ ہر رشتہ محض ذمہ داری  ہے  جسے نبھانا پڑتا ہےچاہے یہ محبت کا رشتہ ہی کیوں نہ ہو۔میاں بیوی کے درمیان محبت کا رشتہ ضروری نہیں لیکن ذمہ داری اور احساس کا رشتہ ہونا چاہیےلیکن جب ذمہ داری اور مجبوری کا ہو ،احساس کا نہ ہو تو بڑی گڑبڑ ہو جاتی ہے پھر یہ ٹوٹنے لگتا ہے۔ اس وقت اگر "خوف کا رشتہ" مل جائے تو بچ جاتا ہے۔کسی  تعلق  کے بکھرنے سے زندگی جڑنے کی ضمانت نہیں دی جا سکتی.زندگی  نے جلد یا بدیر  ہر حال میں بکھرنا تو ہے  ہی ،یہ حتمی ہے تو کیوں نہ تعلق کو بکھرنے سے روکا جائے۔   

"ریل گاڑی"

سفر زندگی ہے اور زندگی سفر کرنے کا نام ہے۔سفرِ زندگی کی بہت سی جِہت ہیں۔یہ اندرونی بیرونی دونوں طور پر ہمارے جسم وجاں پر وارد ہوتا ہے۔ سفر ذہنی  ہوتا ہے تو جسمانی بھی۔ ذہنی سفر جب تک جسم پر نہ اُترےکبھی  اِس کی گہرائی کی شدت کا  اندازہ نہیں ہو سکتا ۔اسی طرح جسمانی سفر انسان کو ذہنی طور پر ایسی منزلوں سے روشناس کراتا ہے جن کا  جسمانی حوالے سے تصور بھی ممکن نہیں۔
ریل کا سفر زندگی کے یادگار تجربات میں سے ایک ہے۔یہ ایک الگ ہی دنیا کی کہانی ہے۔ ریلوے اسٹیشن کے پلیٹ فارم سے لے کر سفر مکمل ہونے تک انسان سوچ سفر کی بہت سی منازل طے کرتا ہے۔یہ سفر ایک نہ بھولنے والا رومانس ہی نہیں حقائقِ زندگی کا ایک انمٹ باب بھی ہے۔ ریل کا سفر پلیٹ فارم سے شروع ہو جاتا ہے۔ پلیٹ فارم کبھی کسی کا نہ ہوا۔۔۔
لوگ آتے ہیں بیٹھتےہیں انتظار کرتے ہیں اور اپنی مطلوبہ گاڑی پر روانہ ہو جاتے ہیں۔زندگی میں سفر کے کسی بھی مقام پر پہنچنے کے لیےسواری   اور   پلیٹ فارم  لازم وملزوم ہیں۔جتنا تیزرفتار سفر  کا وسیلہ ہو گا  اتنی ہی اہمیت  کا حامل اُس  کا پلیٹ فارم بھی ہو گا۔سفر کے آغاز کے لیے قدموں تلے زمین کا پلیٹ فارم ہی کافی ہوتا ہے بس اُس پر اعتماد اور یقین کے ساتھ قدم رکھا جائے۔بعض اوقات پلیٹ فارم کے بغیر  کسی طور بھی 
 گھسِٹ گھسِٹ کرسفر تو طے ہو جاتا ہے  بےہنگم بےترتیب ہی سہی۔
 زندگی ریل گاڑی کے بند ڈبے میں سفر کرنے کا نام ہے جس میں ہمارے رشتے ہماری ضروریات کا خیال رکھتے ہیں تو ہمارے تعلقات ہماری حسیات کی ترجمانی کرتے ہیں۔ ایک لمحے کی دوستی پہلی نظر کا پیار کبھی تو چلتی ٹرین کے منظر کی طرح ہوتا ہے اچھا تو لگا پر گزر گیا اور کبھی تصویر کے کلک کی طرح یادوں میں ہمیشہ کے لیے محفوظ رہ گیا۔
 سرپٹ دوڑتی زندگی کی گاڑی منزل کے قریب آتی جاتی ہے،آخری اسٹیشن کی بتیاں دکھائی دینے لگتی ہیں،نادان مسافر سامان باندھنے اور زادِ سفر مضبوطی سے تھامے رکھنے کی بجائے مُڑ مُر کر نظر کو چھو جانے والے منظروں کو دیکھتا ہے جو پلک جھپکنے تک آنکھ میں ٹھہرے تھے تو کبھی اُن رفقاء کی طرف خالی خالی نظروں سے دیکھتا چلا جاتا ہے جن کا ساتھ کتنا ہی دل کے قریب نہ ہو،وہ پانی پر بنے نقش سے زیادہ پائیدار ہرگز نہیں۔وقت مٹھی میں بند ریت کی طرح سرکتا ہے اور انجان ہتھیلی میں رہ جانے والے قیمتی احساس کو سنبھالنے کی بجائے دسترس سے نکل جانے والے بےوقعت لمحوں کے سوگ میں ماتم کناں  ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں۔
 زندگی کی گاڑی بھی عجیب ہے  ۔ جب ذمہ داریوں کے تھکا دینے والے مشکل پلیٹ فارم عبور کر کے آسودگی کے آخری پلیٹ  فارم پر پہنچتی ہے تو  پتہ چلتا ہے کہ زندگی توراستے میں ہی کہیں  ختم ہو گئی تھی پر سفر   ابھی باقی ہے ۔وہ جو راستے میں سنبھالی گئیں   ناتمام خواہشیں اور خواب تھے اب دل میں کبھی کرچیاں اُن  کی اصلیت کی ٹیس دیتی ہیں ۔ یہ نہیں کہ آسودگی کے اس وسیع پلیٹ فارم   میں کہیں کوئی  کجی ہے  ۔بلکہ اب تو دُور دُور تک شفاف آسمان نئی منزلوں نئے راستوں کی نوید  سُناتا ہے  تو کہیں مخملی زمینیں قدم بوسی کی اجازت  چاہتی ہیں ۔اپنے ساتھ گزارنے  اور  اسباب ِ دُنیا  فتح کے لیے وقت ہی وقت ہے۔لیکن !!! نہیں ہے تو بس مہلتِ زندگی نہیں ۔کوئی ہے جو چپکے چپکے بس ایک ہی   راگ الاپے جا رہا ہے۔۔۔
"  اب عمر کی نقدی ختم ہوئی اب ہم کو ادھار کی حاجت ہے"
بلاگ سے انتخاب۔۔۔۔

"میرے پچاس سال"

"پچاس برس کی رام کہانی"

پچاس برس کا سفر  کیا ہے گویا سرپٹ بھاگتی زندگی کی  ریل گاڑی پچاس اسٹیشنوں پر پل بھر کر رُکی ہو۔بہت سوں کی تو یاد بھی
   باقی نہیں،بس یہ ہوا کہ ہر پڑاؤ پر سامان میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔اب جب طوق گلےتک آن پہنچے تو سوچنا پڑ گیا کہ اگلے کسی بھی اسٹیشن پر اترنا پڑ گیا توکس بوجھ سےکس طور جان چھوٹے گی اور کیا سامان ساتھ رہ جائے گا۔حد ہو گئی۔۔۔۔زندگی خواہ کتنی ہی بےکار اور لاحاصل ہی کیوں نہ گذرے،واپسی کی گھٹیاں سنائی دینے لگیں تو اُداسی اور مایوسی کی دُھول یوں قدموں سے لپٹتی ہے جیسے کچھ سانسیں اُدھار کی ملنے سےنہ جانے عظمت وکامیابی کا کون سا ماؤنٹ ایورسٹ سر کیا جا سکے گا۔

جمعرات, اکتوبر 19, 2017

"اَفَلَا يَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ "

سورۂ النساء(4) آیت 176۔۔۔سورہ محمد(47) آیت 38۔
ترجمہ۔۔"پھر کیوں قرآن پر غور نہیں کرتے "۔
"معلوماتَِ القران"
٭لفظ قران 32 سورتوں کی 65 آیات میں  آیا ہے۔لفظ قرآن،قرآن  پاک میں بطور معرفہ پچاس(50) بار اور بطور نکرہ اسی(80) بار آیا ہے۔یعنی پچاس بار قرآن کا مطلب کلام مجید ہے۔اور اسی بار ویسے کسی پڑھی جانے والی چیز کے معنوں  میں استعمال ہوا ہے۔
٭ قران پاک ۔۔۔
٭ وَقُرْاٰنٍ مُّبِيْنٍ۔۔۔ سورۃ الحجر(15) آیت (1)۔۔سورہ یٰس(36) آیت(69)۔
٭وَالْقُرْاٰنَ الْعَظِيْـمَ۔۔۔سورۃ الحجر(15) آیت (87)۔
٭وَالْقُرْاٰنِ الْحَكِـيْـمِ۔۔۔سورہ یٰس(36) آیت(2)۔
٭وَالْقُرْاٰنِ الْمَجِيْدِ۔۔۔سورہ ق(50)آیت(1)۔۔سورہ البروج(85) آیت (21)۔
٭لَقُرْاٰنٌ كَرِيْـمٌ۔۔۔سورہ الواقعہ(56)آیت(77)۔
۔۔۔
٭قرآن کریم میں اللہ پاک نے اپنی صفت ربوبیت کا ذکر سب سے زیادہ مرتبہ فرمایا ہے۔قرآن کریم میں لفظ رب ایک ہزار چار سو اٹھانوے مرتبہ آیا ہے۔
۔۔۔
٭قرآن کریم میں لفظ الرحمٰن ستاون بار اور الرحیم ایک سو چودہ مرتبہ آیا ہے۔
۔۔۔
٭قرآن کریم میں لفظ اللہ دو ہزار چھے سو اٹھانوے  بار آیا ہے۔
۔۔۔
٭پورا کلمہ طیبہ  قرآن کریم میں کسی ایک جگہ بھی نہیں آیا۔
۔۔۔
٭ "أعوذ بالله من الشيطان الرجيم"  ۔قرآن کریم میں کسی ایک جگہ بھی نہیں آیا۔  ارشادِباری ہے۔
٭سورہ النحل(16)  آیت 98۔
فَاِذَا قَرَاْتَ الْقُرْاٰنَ فَاسْتَعِذْ بِاللّـٰهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيْـمِ 
ترجمہ ۔“سو جب تم قرآن پڑھنے لگو تو شیطان مردود سے اللہ کی پناہ مانگ لیا کرو" ۔
٭ سورہ فٰصِلت(41) آیت36۔
وَاِمَّا يَنْزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطَانِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللّـٰهِ ۖ اِنَّهٝ هُوَ السَّمِيْعُ الْعَلِـيْمُ 
ترجمہ۔"اور اگر آپ کو شیطان سے کوئی وسوسہ آنے لگےتو اللہ کی پناہ مانگیے،بےشک وہی سب  کچھ سننے والا جاننے والا ہے"۔
۔۔۔
اَعُوْذُ بِاللّـٰهِ ۔۔۔سورہ البقرہ(2) آیت 67۔
مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِـيْمِ۔۔۔ سورہ آلِ عمران(3) آیت 36۔
۔۔۔
٭قرآن پاک میں لفظ اﷲ اکبرنہیں ہے۔
۔۔۔
٭قرآن کریم میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو گیارہ  مقامات پر " يَآ اَيُّـهَا النَّبِىُّ " پکارا گیا ہے۔
۔۔۔
٭تین سورتوں  سورة الاحزاب(33) ،سور ة الطلاق(65) اور سورة التحریم (66)کی ابتدا " يَآ اَيُّـهَا النَّبِىُّ"سے ہوتی ہے۔
۔۔۔
٭سورہ النور(24) وہ واحد سورت ہے جس کی ابتدا لفظ "سورۃ" سے ہوتی ہے۔
۔'ترجمہ آیت(1)۔"یہ ایک سورت ہے جسے ہم نے نازل کیا ہے اور اس کے احکام ہم نے ہی فرض کیے ہیں اور ہم نے اس میں صاف صاف آیات نازل کی ہیں تاکہ تم سمجھو"۔
۔۔۔ 
٭قرآن پاک میں سب سے زیادہ الف استعمال ہوا ہے اور سب سے کم ظ استعمال ہوا ہے۔
۔۔۔
٭قرآن پاک میں  صحابہ کرام میں سے صرف ایک صحابی حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نام آیا ہے۔(سورۂ الاحزاب آیت 37 )۔
۔۔۔
٭قرآن میں کسی عورت کانام نہیں آیاہے فقط”حضرت مریم علیہا السلام“کا۔بی بی ”مریم “کانام قرآن میں 34مرتبہ آیاہے۔
۔۔۔
٭ سورۃ یوسف(12) کی  تیسری آیت میں حضرت یوسف علیہ السلام کےقصے کو "احسن القصص" کہا گیا ہے۔
نَحْنُ نَقُصُّ عَلَيْكَ اَحْسَنَ الْقَصَصِ 
 ترجمہ آیت 3۔۔ہم تمہارے پاس بہت اچھا قصہ بیان کرتے ہیں۔
۔۔۔
٭ قرآن پاک میں صرف دو بندوں کی کنیت ذکر ہے۔
ابن مریم ( سورہ النساء(4)،آیت 157)۔
ابی لہب   ۔۔سورۂ لہب(111)۔۔ ابولہب کا اصل نام عبدالعزیٰ تھا جو ایک کہ شرکیہ نام ہے عزیٰ اس بت کا نام تھا جسے قریش کے کفار پوجتےتھے اور عبدالعزیٰ کا معنی عزیٰ کا غلام۔۔اللہ پاک نے ابولہب کوشرکیہ نام سے پکارنے کی  بجائے  کنیت سے مخاطب کیا۔
۔۔۔
قرآن کریم کے مطابق سیدنا موسٰی علیہ السلام کو نو معجزے عطا فرمائے گئے۔۔۔۔
٭٭٭وَلَقَدْ اٰتَيْنَا مُوْسٰى تِسْعَ اٰيَاتٍ بَيِّنَاتٍ۔۔۔سورۂ بنی اسرائیل(17) آیت 101۔۔اور  ہم نے موسٰی کو نو کھلی نشانیاں 
دی تھیں۔
٭٭٭٭٭فِىْ تِسْعِ اٰيَاتٍ۔۔۔سورة النمل (27) آیت 12۔۔
۔۔۔
٭پانچ نبی جن کے نام اللہ رب العزت نے ان کی پیدائش سے قبل بتا دیے تھے۔
٭1)سیدنا عیسٰی علیہ السلام ۔۔۔سورة آل عمران(3) آیت (45)۔
٭2)سیدنا اسحاق علیہ السلام ،3) سیدنا یعقوب علیہ السلام۔سورة ھود (11)آیت (71)۔
٭4)سیدنا یحیٰی علیہ السلام۔۔۔سورة مریم(19) آیت (7)۔
٭5)سیدنا احمد صلی اللہ علیہ وسلم۔۔۔سورة الصف (61)آیت (6)۔
۔۔۔
٭قرآن میں لفظ ابلیس گیارہ مرتبہ آیا ہے۔
۔۔۔
٭ قرآن کریم میں  چھ     فرشتوں کے نام آئے ہیں۔
۔(1) جبریل(3 بار)۔۔سورۂ بقرۂ (2)آیت 97،آیت 98،سورۂ التحریم(66) آیت 4۔
۔(2) میکائیل۔ ۔۔سورۂ بقرۂ (2)آیت 98۔
۔(3) رعد۔۔سورۃ الرعد(13) آیت 13۔ 
۔(4) مالک۔۔سورۂ الزخرف(43) آیت 77۔
۔(5) ہاروت(6) ماروت۔۔سورۂ بقرہ (2) آیت 102۔
۔۔۔
٭قرآن پاک میں چند مومنین کے نام آئے ہیں۔
عمران۔۔سورہ آلِ عمران(3)۔آیت(33)۔
لقمان۔۔سورہ لقمان(31)،آیت(12)۔
،ذوالقرنین ۔۔سورہ الکہف(18)،آیت (83)۔
طالوت۔۔سورہ البقرہ(2)۔آیت(247)۔
۔۔۔

٭قرآن پاک میں چند قبیلوں اور قوموں کے نام آئے ہیں۔
ثمود۔۔سورۃ الاعراف(7)،آیت(73)۔سورہ الفرقان(25) آیت 38۔ 
عاد۔۔1)سورہ ہود(11)،آیت(5)۔ 2) سورہ الفجر(89)۔آیت(6)۔
یاجوج ماجوج ۔۔سورہ الکہف(18)۔آیت(94)۔
قومِ سبا۔۔سورہ سبا(34)۔آیت(15)۔
قومِ تبع۔۔سور ہ الدخان(44)۔آیت (37)۔
قبیلہ" قریش ۔۔سورۃ القریش(106)۔
۔۔۔
٭قرآن کریم میں دو مساجد کا نام آیا ہے۔
الْمَسْجِدِ الْحَرَام, الْمَسْجِدِ الْاَقْصَى(مسجد اقصٰی، مسجد الحرام ) سورہ الاسرا(15) آیت (1)۔
۔۔۔
٭ قران پاک میں دوممالک کا نام آیا ہے۔
مصر ۔سورہ یونس(10)۔آیت 87۔۔سورہ یوسف (12) آیت21۔
روم(سورہ الروم30)۔
۔۔۔
٭ قران پاک میں   دو     وادیوں کا ذکر ہے۔
  ۔بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًى۔۔سورہ طہٰ(20)آیت 12۔۔ سورہ النازعات(79) آیت (16)۔
الْوَادِ الْاَيْمَنِ۔سورہ القصص(28)۔آیت30)۔
۔۔۔
٭قرآن کریم میں  چار شہروں کے نام  ہیں۔
۔1)مکہ۔۔
مکہ۔۔سورۃ فتح(48)آیت 24۔بکہ۔سورہ آلِ عمران(3)آیت 96۔۔البلد۔ سورہ البلد(90)۔
۔2)یثرب (مدینہ منورہ کا قدیم نام)۔۔سورہ الاحزاب (33) آیت13۔
۔3)بابل۔۔سورہ البقرہ(2) آیت 102۔
۔4)مدین ۔۔سورہ القصص (28) آیت 23۔
۔۔۔
٭قرآن کریم میں چار پہاڑوں کا نام آیا ہے۔
کوہ جودی۔۔سورہ ہود(11) آیت44۔
کوہِ صفا۔۔کوہِ مروہ۔سورہ البقرہ(2)آیت 158۔
 کوہِ طور(کوہ سینا،طورِسینا)سورہ البقرہ(2)آیت 93۔سورہ طور(52)۔سورۃ المومنون(23)آیت20۔سورہ  والتین(95) آیت2۔
۔۔۔
٭قرآن پاک میں دو دنوں کے نام آئے ہیں ۔
جمعہ۔ سورہ الجمعہ (62) آیت(9) ۔۔ہفتہ  السَّبْتِ۔(سورہ البقرہ(2) آیت65۔
۔۔۔
٭قران پاک میں  سات پھلوں کے نام ہیں۔۔۔  کھجور،انگور،انار، بیری،کیلا،انجیر،زیتون
کھجور (نَخْلٌ) ۔انگور(اَعْنَابٍ)۔۔سورۂ الانعام(6)آیت 99۔۔سورہ النحل(16) آیت 67۔سورۂ الکہف(18)۔آیت 32۔
انار (رُمَّانٌ)۔۔سورۂ  الرحمٰن55 آیت 68۔۔
بیری(سِدْرٍ)سورۂ واقعہ56۔آیت 28۔
کیلا(طَلْـحٍ)۔۔سورۂ الواقعہ56 ،آیت 29۔
انجیر(التِّيْنِ)،زیتون(الزَّيْتُوْنِ)سورۂ والتین95۔
۔۔۔
٭قرآن کریم میں چار سبزیوں کا ذکر ہے۔سورہ البقرۂ2،آیت61۔۔
بَقْلِهَا(ساگ) وَقِثَّـآئِهَا(لہسن) وَفُوْمِهَا(ککڑی) وَعَدَسِهَا(مسور) وَبَصَلِهَا(پیاز)۔
۔۔۔
٭قرآن کریم میں چار دھاتوں کا ذکر آیا ہے۔
لوہا (الْحَدِيْدَ)۔۔سورۂ الحدید57۔آیت 25۔
سونا(الذَّهَب)چاندی(الْفِضَّةِ) ۔۔سورہ آلِ عمران(3) آیت14۔
تانبا(مُهْلِ)سورۂ الکہف18۔آیت29۔
۔۔۔
٭قرآن کریم کی سات سورۂ مبارکہ حیوانوں کے نام پر ہیں۔
سورۂ البقرة(2) گائے۔۔
سورۂ الانعام(6)مویشی۔۔
سورۂ النحل(16)شہد کی مکھی۔۔
۔سورة النمل(27)چیونٹیاں۔۔
سورۂ العنکبوت(29)مکڑی۔۔
سورةۂ العادیات(100)گھوڑے۔۔
سورة الفیل(105)ہاتھی۔۔
۔۔۔
٭قرآن کریم میں چارپرندوں کا ذکر آیا ہے۔
٭1)وَالسَّلْوٰى(بٹیر)۔۔۔سورۂ البقرہ(2) ۔آیت(57)۔
٭2)غُـرَابً(کوا)۔۔۔سورۂ المائدہ(5)۔ آیت(31)۔
٭3) الْـهُـدْهُدَ (ہدہد)۔۔۔سورۂ النمل(۔ آیت (20) ۔
٭4)اَبَابِيْلَ(ابابیل)۔۔سورۂ الفیل (105)۔
۔۔۔
٭ قران کریم میں پانی والے اور رینگنے والے جانور۔۔
وَالضَّفَادِ( مینڈک) سورہ الاعراف(7) آیت133۔
لْحُوْتَۖ(مچھلی) سورہ الکہف (18)آیت 63۔
ثُـعْبَانٌ۔(اژدھا )۔سورہ الاعراف(7)،آیت 107۔ سورہ الشعرا(32) آیت 26۔
 ۔۔۔
٭ قران پاک میں  درج ذیل چوپایوں کا ذکر ہے۔
٭الْعِجْل(بچھڑا) سورہ البقرہ(2) آیت51۔
٭قِرَدَةً(بندر)سورہ البقرہ (2) آیت 65۔
٭بَقَرَةً،(گائے)سورہ البقرہ(2)۔آیت۔67۔
٭حِمَار(گدھا)سورہ البقرہ(2)۔آیت259۔
٭الْخِنزِيْـرِ(  سؤر)سورہ البقرہ(2)۔آیت۔173۔
٭الْمَعْزِ(بکری)سورہ الانعام(6)۔آیت 143۔
٭الْغَنَـمِ(بکریاں)۔سورہ الانعام(6)۔آیت ۔146۔سورہ الانبیا(21) آیت 78۔
٭الضَّاْن(بھیڑ) سورہ  الانعام(6)۔آیت143۔
٭(اونٹ)۔۔۔
۔٭الْاِبِلِ۔سورہ  الانعام(6)۔آیت144۔الْجَمَلُ ۔۔ سورہ الاعراف(7)  آیت40۔
٭٭الْكَلْبِۚ(کتا)۔سورہ الاعراف(7) آیت 176۔۔سورہ الکہف(18)۔آیت (18)۔
٭الـذِّئْبُا(بھیڑیا)۔سورہ یوسف(12)،آیت13۔۔
٭٭٭٭٭٭٭وَالْخَيْلَ(گھوڑے) وَالْبِغَالَ(خچر) وَالْحَـمِيْـرَ(گدھے)۔۔سورہ النمل(16) آیت(8)۔
٭نَعْجَة(دُنبی (بھیڑ) سورہ ص (38) آیت 23۔
٭٭٭٭قَسْوَرَةٍ (شیر)۔سورہ المدثر(74) آیت 51۔
٭الْفِيْلِ(ہاتھی)سورہ فیل((105)۔
۔۔۔
٭ قران پاک میں  آٹھ حشرات الارض کے نام  ہیں  ۔۔
 بَعُوْضَةً(مچھر )۔۔سورہ البقرہ(2)۔۔آیت26۔
وَالْجَرَادَ وَالْقُمَّلَ (ٹڈی ،جوئیں )۔سورہ الاعراف(7) آیت133۔۔۔سورہ القمر(54) آیت 7۔
 النَّحْلِ(شہد کی مکھی)۔۔سورہ النحل(16)۔آیت68۔
الـذُّبَابُ (مکھی) سورہ الحج(22) آیت 73۔
النَّمْلُ(چیونٹی)۔۔سورہ النمل(27)۔ آیت18۔
الْعَنْكَـبُوْتِۚ(مکڑی)۔۔سورہ العنکبوت(29)۔ آیت41۔
الْفَرَاشِ(پروانہ پتنگہ ،تتلی)۔سورہ القارعہ(101) آیت 4۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"سیٹل اور سیٹل منٹ"

سورۂ فرقان(25) آیت 2۔۔   وَخَلَقَ كُلَّ شَىْءٍ فَقَدَّرَهٝ تَقْدِيْـرًا ترجمہ۔ اور جس نے ہر شے کو پیدا کیا اور پھر اس کے لیے ایک اند...