جمعہ, دسمبر 26, 2014

" الاسکا ہائی وے"


الاسکا ہائی وے پڑھتے ہوئے میرا احساس ۔۔۔۔ 
۔"الاسکا ہائی وے" محض ایک کتاب یا سفرنامہ  ہی نہیں  بلکہ لفظ کی مصوری کا عظیم شاہکار ہے۔اس دور دراز جگہ کے بارے میں اردو ادب میں  اگر پہلی کتاب ہے  تو یقیناً یہی آخری بار بھی ہے۔کتاب میں لکھے گئے لفظ جب اس مقام کی تصاویر دیکھنے کے بعد ذہن میں چمکتے ہیں تو دل جہاں ربِ کائنات کی صناعی پر سجدۂ شُکر ادا کرتا ہے وہیں ایک انسان کی صلاحیت،اُس کی محسوس کرنے کی حس کی خوبصورتی اور پھر اُس سے بڑھ کر بےمثال عمدگی سے لفظ میں محفوظ کر کے سب کے سامنے پیش کرنے کا اعتماد انسان کے اشرف المخلوقات ہونے کے یقین پر مہر ثبت کرتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔
الاسکا ہائی وے۔۔۔ مستنصر حسین تارڑ
سفر۔۔۔ ستمبر 2006
اشاعت۔۔۔ 2011
انتساب ۔۔
چنار کے ایک خزاں رسیدہ پتے کے نام۔۔
کُونج کے نام جو میری سفری رفیق تھی۔۔
اور یار ِ بےمثال تلمیذ حقانی کے نام۔۔۔
صفحہ۔۔۔107
اگرمجھ سے یہ دریافت کیا جائے کہ تم نے آج تک جتنے منظر نظروں کے سامنے پائے ہیں تو ان میں سے کن سات قدرتی عجائبات کا انتخاب کرو گے تو میں بہرطور شش وپنج میں پڑجاؤں گا اورفیصلہ نہ کرپاؤں گا۔ البتہ میری گردن پر ایک تیزدھار جاپانی سمورائے کی تلوار رکھ دی جائے کہ انتخاب کرو ورنہ جان سے جاؤ گے تو میں مجبوراً مندرجہ ذیل فہرست پیش کردیتا۔
٭1۔۔نانگاپربت کے دامن میں واقع گڈاولڈ فئیری میڈوز۔
٭2 کنکورڈیا کے برف زارجن پر شاہ گوری کی برفیں اُمڈتی ہیں۔
٭3 دُنیا کے طویل ترین برفانی راستے میں پڑتی سنو لیک۔
٭4 دیوسائی اےدیوسائی۔
٭5 ترشنگ کا گاؤں اور وادی روپل
٭6رتی گلی ، کرومبر اور سرال کی جھیلیں۔
٭7وادی کالاش،چترال میں اورترچ میر کی چوٹی۔
یقینی سات قدرتی عجائبات تو یونہی تمام ہوگئے لیکن یہ کہاں درج ہے کہ وہ صرف سات ہی ہوسکتے ہیں۔نو بھی تو ہوسکتے ہیں۔اس لیے
٭8 ڈاسن سٹی کے آسمان پر لہراتی شمالی روشنیاں۔
٭اور یہی"ٹاپ آف دی ورڈ روڈ"۔
صفحہ۔۔۔109
کچھ چہروں گیتوں اور منظروں کاچرچا اس لیے نہیں ہوتا کہ وہ دورافتادگی کی دھند میں روپوش ہوتے ہیں۔
صفحہ۔۔۔90
"ڈاسن سٹی کا چاند نگر۔۔۔شہردل کی گلیوں میں "
"ال ڈیراڈو ہوٹل۔۔۔"
ال ڈیراڈو۔۔۔ایک چاند نگر۔۔۔
صفحہ۔۔۔93
اُن کے عطا کردہ شعری مجموعے "چاندنگر"کے خستہ ہوتے پہلے ورق پر"مستنصرحسین تارڑ کے لیے۔۔۔ابنِ انشاء" 30/9/72 درج ہے تو یہ وہی چاند نگر ہےجہاں انشاء جی تو نہ پہنچے پر میں پہنچ گیا،وہ لکھتے ہیں۔۔
۔"ایڈگرایلن پوکی ایک نظم ہے ال ڈے راڈو۔۔۔یعنی شہرِتمنا۔۔۔اگر تمہیں اس شہرجادو کی تلاش ہے تو چاند کی پہاڑیوں کے ادھر سایوں کی وادیءطویل میں قدم بڑھائے گھوڑا دوڑاتے آگے سے آگے بڑھتے جاؤ۔شاعر کو بھی ذہنی طور پر سندبادجہازی یا یولیسس ہونا چاہیے یعنی اُس کے سامنے ایک نہ ایک ال ڈے راڈو ۔ایک نہ ایک چاندنگر کا ہونا ضروری ہے۔ سنا ہے اگر جادو کے موہوم شہروں کی طلب میں جولاں رہنے والے دیوانے نہ ہوتے تو یہ زندگی بڑی ہی سپاٹ اور بےرنگ ہوتی۔ لیکن نہ مجھے اپنا حُسن کا ال ڈےراڈو ملا ہے نہ زندگی کا شہرِ تمنا"۔
ابنِ انشاء کو اپنے حسن کا ال ڈے راڈو نہ ملا اورنہ ہی کوئی شہرِتمنا یا چاندنگر نصیب ہوا لیکن ڈاسن سٹی کی صورت میں وادیء یوکان میں خوابیدہ وہ مجھے مل گیا۔
صفحہ۔۔۔94
شہرِدل کی گلیوں میں
شام سے بھٹکتے ہیں
چاند کے تمنائی
بےقرار سودائی
دل گداز تاریکی
جاں گداز تنہائی
شہرِدل کی گلیوں میں
بےحساب تنہائی
بےحجاب تنہائی
شہر دل کی گلیوں میں۔۔۔
ڈاسن سٹی کی اس شب تاریک میں جاں گداز تنہائی ۔۔۔بےحساب تنہائی۔۔۔ بےحجاب تنہائی،شہر دل کی گلیوں میں۔۔۔صفحہ۔۔۔95"چاند نگر کے آسمان پر شمالی روشنیوں کے رنگین لہراتے سانپ"۔

صفحہ۔۔۔96
اس چاندنگر کی شب میں جاں گداز تنہائی ۔۔۔بےحساب تنہائی۔۔۔ بےحجاب تنہائی اور آسمانوں پر رنگوں کی ایک رام لیلا کھیلی جارہی ہے۔۔ایک ناٹک رچایا جارہا ہے۔
یہ شمالی روشنیاں کیا ہیں؟ اس کے بارے میں بہت سی تاویلیں ہیں،سائنسی دلائل ہیں اور کچھ توہمات بھی ہیں۔۔۔یعنی آرکٹک کے نواح میں جو آسمان ہیں اُن کے تلے بےشک پوری دُنیا کی مانند رات ڈیرے ڈالتی ہے لیکن کہیں دوردراز کے برف زاروں میں ابھی دن ہے،سورج کی زرد کرنیں بکھرتی ہیں تو یہ اُن کرنوں کا کرشمہ ہے کہ وہ تاریکی کی چادر پر۔۔۔وہ چادر جو آسمانوں پر بچھی ہے اُس پراترتی ہیں اور یوں وہاں عجوبہ رنگ تخلیق ہوتے ہیں اور وہ لہرئیے سانپوں کی مانند آسمان پر سرکتے اور کوندنے لگتے ہیں۔ وہ جو مولانا روم کے استفسار پر شمس تبریز نے کہا تھا کہ یہ وہ ہے جس کی تمہیں خبر نہیں تو ڈاسن سٹی کی رات میں جو کچھ آسمان کے سٹیج پر رنگوں کی صورت لہراتا ،دمکتا ،حرکت کرتا تھا۔سرسراتا دکھائی دیتا تھا یہ وہ تھا جس کی مجھے بھی خبر نہ تھی۔
اگر میں باہر کی دُنیا کو۔۔۔اس معجزے کی خبر کرتا ہوں اور وہ یقین نہیں کرتے تو پھر ان کو بھی کچھ خبر نہیں۔۔۔ انہیں معاف کردو کہ یہ نہیں جانتے۔

۔ 98۔۔۔آسمان کی سٹیج پر رنگ رنگیلے اداکار داخل ہوتے تھے۔۔تماشائیوں پراپنے اپنے رنگ کی پھوار ڈالتے انہیں بھگوکر اگلے پل سٹیج خالی کر دیتے۔
۔99۔۔ پھر یوں ہوا کہ ڈاسن سٹی پر تنے نیلگوں خیمہ آسمان پر سرکتے سورنگ سوہنےسانپ۔۔۔رنگوں کے جواربھاٹا آبشاریں اور جھرنے،کوندتے لہرئیے،یکدم تمام ہوئے،پردہ گر گیا۔ناٹک تمام ہوا،تماشا ختم ہوا۔۔۔آسمان تاریک اور چپ رہا۔اس میں سے کوئی پھلجھڑی چھوٹی اورنہ کوئی رنگوں کا جگنو ٹمٹمایا۔اُس آسمان کے صحرا میں قلانچیں بھرتے رنگ رنگ کے جتنے غزال تھے،رخصت ہوگئے۔ معجزے تادیر نہیں رہتے۔ طورکی جھاڑی تادیر روشن نہیں رہتی۔یوسف کو خریدنے والی بڑھیا بھی تھک ہار جاتی ہے۔۔۔اورنہ ہی کوئی بیمار ابد تک دم عیسیٰ کا منتظر رہتا ہے۔۔
نہ پری رہی ،نہ جنوں رہا۔
یہ سرائے ہے،یہاں کس کا ٹھکانہ ڈھونڈو
یاں تو آتے ہیں مسافر،سو چلے جاتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صفحہ 67۔۔۔۔پاکستان۔۔۔۔۔ میرا گھر۔۔۔۔۔زیروکلومیٹر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جن دنوں الاسکاہائی وے تعمیر ہو رہی تھی اور آپ جانتے ہوں گے کہ یہ ڈھائی ہزار کلو میٹر طویل شاہراہ صرف آٹھ ماہ اور بارہ دنوں کے اندر تکمیل کے مراحل طے کر گئی تو اس کی تعمیر میں شامل ایک امریکی مزدور جی آئی لنڈ لے یہاں واٹسن لیک کی بے مہر اور سرد ویرانی میں اپنے گھر کے لیے۔۔۔ہزاروں کلو میٹر دور امریکہ کی کسی ریاست میں واقع اپنے گھر کے لیے اتنا اداس ہوا کہ اس نے ویرانے میں ایک بورڈ نسب کر دیا کہ یہاں  واٹسن لیک سے میرا گھر اتنے کلو میٹر دوری پر واقع ہے۔۔۔پھر وہاں اس شاہراہ کی تعمیر میں جتنے بھی اپنے اپنے گھر کے لیے اداس ہونے والے لوگ تھے انہوں نے ایسے بورڈ نصب کرنے شروع کر دیئے کہ میں ہنری جیکسن۔۔۔۔۔اپنے اور یگان کے گھرسے۔۔۔تین ہزار کلو میٹر دور ہوں اور 
یوں سائن پوسٹوں کا ایک جنگل نمودار ہوتا گیا اور لمحہ موجود میں وہاں پچاس ھزار سائن پوسٹ ایستادہ ھیں۔

ہمارا قافلہ ناشتے سے فارغ ہو کر ایئرفورس لاج سے نکلا تو ابھی جیپوں کے انجن گرم نہیں ہوئے تھے جب دائیں جانب وہ
 سائن پوسٹ جنگل نظر آگیا ۔۔۔۔۔میرا جی چاہا کہ رک جائیں اور میں وہاں ایک سائن بورڈ آویزاں کر دوں جس پر رقم ہو۔۔۔پاکستان۔۔۔۔۔۔میرا گھر۔۔۔۔۔زیروکلو میٹر۔۔۔۔۔۔کہ وہ میرے دل میں ہے۔۔۔

صفحہ192۔۔۔
اگر تلمیذ اور مقبول ( مقبول جہانگیر) نہ ہوتے تو میں آج گمنام ستر برس کا بوڑھا ہوتا ،جس کے تحریر کردہ سفرنامے جن لکیردار کاغذوں والے رجسڑوں پر لکھے گئے تھے وہ کب کے بھربھرے ہو کر خاک میں خاک ہو چکے ہوتے ۔۔
صفحہ 193۔۔۔
مجھےگزشتہ حیات میں خالص پاسے کے سونے کے بنے ہوئےصرف تین دوست نصیب ہوئےہیں، خاور زمان۔سنگِ میل کے نیاز احمد اور تلمیذحقانی۔ان تینوں کی محبت اور بےوجہ خلوص نے مجھ کھوٹے کو ایسا کھرا کیا کہ میرا سکہ ہرسو بجنے لگا۔ اگر یہ نہ ہوتے تو آج میں جو ہوں،یہ نہ ہوتا۔
صفحہ۔۔۔143
جے22 گلبرگ3( لاہور)۔۔۔
مستنصرحسین تارڑ کا گھر۔ تقریباً چالیس برس کے عرصے میں اور 31 دسمبر 2015 کی شام تک،،، جنوری 2016 میں وہ ایک نئے گھر میں شفٹ ہو گئے۔

گھر پہ لگی نام کی تختی۔۔۔۔
 الاسکا ہائی وے پر سفر کے دوران کھینچی گئی تصاویر،جناب تارڑ کے آفیشل فیس بُک پیج سے










ماؤنٹ سین فرڈ… گلین ہائی وے (اینکریج ٹو ٹوک)۔






" شمشال بےمثال"

شمشال بےمثال۔۔۔ مستنصر حسین تارڑ
سفر...1999
اشاعت...2000
صفحہ ...194
میں دنیا کی تنہا ترین جگہ پر خوشی تلاش کرنے آیا تھا۔
کیا وہ مجھے مل گئی ؟
اگر خوشی مجھے کسی ایک جگہ پر مل جاتی تو میں اتنا دربدر کیوں ہوتا؟
اتنا خوار کیوں ہوتا؟
اس ایک جگہ پر دائمی خوشی میں ہمیشہ کے لیے قیام کیوں نہ کر لیتا؟
کسی شاہ گوری،جھیل کرومبر۔ ٹاپ میدان یا سنولیک پر قیام کیوں نہ کر لیتا۔
اس لیے۔۔۔ کہ خوشی کبھی نہیں ملتی۔
آپ دربدر ہوتے ہیں اور یہ کبھی نہیں ملتی۔
وادی شمشال میں بھی نہیں۔
دُنیا کی تنہا ترین جگہ پر بھی نہیں۔
تو پھر یہ کہاں ملتی ہے؟
اگر مجھے علم ہوتا تو میں اس مقام پر ٹھہر نہ جاتا۔۔۔یوں دربدر کیوں ہوتا؟
خوشی کی تلاش ہی دراصل خوشی ہے۔
اور یہ تلاش سانس کے آخری تار تک جاری رہتی ہے۔
بس یہی خوشی ہے۔

جمعرات, دسمبر 25, 2014

" رتی گلی سے ہیلوہالینڈ تک"

رتی گلی ۔۔۔ مستنصر حسین تارڑ
سفرکیا۔۔۔1956۔1963۔2003
اشاعت۔۔۔2005
۔"رتی گلی"جناب تارڑ کی تمام کتابوں میں اُن کے "ذہنی" سفر کے حوالے سےایک اہم کتاب ہے۔1956 میں ایک سترہ سالہ لڑکے کا زندگی کے پہلے سفر۔۔۔پہلی کوہ نوردی کا احوال،احساس اوراس کی جزئیات ہیں تواس کے بعد1963 میں اپنے جگری دوستوں کے ساتھ کیےگئے وادی کاغان کےایک یادگارسفر کی جھلکیاں ہیں۔اس کتاب کی ایک اور عجیب بات۔۔۔اس کے آخری صفحات میں اس خاص سفر کی کتاب کا نام (منہ ول کعبہ شریف) بھی ہے۔ وہ سفر۔۔۔جو آپ نے 2004 میں کرنا تھا اور کتاب تو بعد کی بات تھی۔
رتی گلی سے منتحب چند اقتباسات۔۔۔
صفحہ۔۔23۔24۔۔
کہیں میری کسی بوسیدہ البم میں۔۔ جسے باندھنے والے دھاگے بھی بھربھرے ہوکر اس کے اوراق کو بکھر جانے کی اجازت دینے کو ہیں۔۔۔ سینتالیس برس بیشتر کے زمانوں کی ایک تصویر ہے۔۔۔ بلیک اینڈ وائٹ۔۔ جس کا وائٹ بھی بھورا ہونے لگا ہے۔۔۔ میرے پہلے کیمرے ، ایک کوڈک بےبی براؤنی کمیرے سے کھنچی ہوئی۔۔۔۔جس میں ایک سترہ برس کا ، کچی اور کومل عمر کا چھریرے بدن کا۔۔۔ مجھے شاید دس بارہ دنوں کے بعد شیو بنانے کی حاجت ہوتی تھی۔۔۔
ایک لڑکا کھڑا ہے جھیل سیف الملوک کے کنارے ۔۔ پس منظر میں دور تک پانیوں پر کروٹیں ساکت ہیں۔۔
فوجی بوٹوں میں ، آرمی سویٹر میں ڈھیلی براؤن پتلون میں ، ایک گورکھا ہیٹ لاپرواہی سے کاندھوں پر لٹکائے ، چوڑے ماتھے پر مروجہ فیشن کی پیروی میں گھنگھریالے بالوں کی لٹ ڈالے ۔۔۔ کہیں دور افق کے پار تکتا ہوا۔۔۔ کہ یہ بھی مروجہ فیشن تھا کہ تصویر اتراتے ہوے کھو سے جاؤ اور اداسی سے افق کے پار تکتے جاؤ۔۔۔

 
اور اس لمحے اس لڑکے کو کیا علم کہ مستقبل میں کیا پوشیدہ ہے۔۔۔ کہ وہ بقیہ لڑکوں کی مانند کبھی بھی ایک کامیاب زندگی نہیں گزارے گا۔۔۔ کسی بڑے عہدے پر نہیں پہنچے گا۔۔۔ ایک بے مقصد آوارگی اور کوہ نوردی اس کا مقدر ہوگی۔۔۔ افق کے پار جو کچھ کاتب تقدیر نے لکھا تھا وہ اسے پڑھ نہ سکتا تھا۔۔ اگر پڑھ سکتا تو وہیں توبہ تائب ہو کر ذی ہوش اور نارمل ہوجاتا ۔۔۔۔ پر نہ ہوا۔۔۔
صفحہ۔۔۔124
کوہ نوردی نام ہی اگلی سویر کوچ کر جانے کا ہے۔۔۔ نئے منظروں کے چاؤ میں خیمے سمیٹ لینے کا ہے۔۔۔ یہ پہلی نظر میں شدید محبت میں مبتلا ہوجانے کا پھر اپنی ہوس پوری کرکے اگلی سویر بےوفائی کر جانے کا نام ہے۔
صفحہ۔165
نصیب کی تختی کو کوئی نہیں پڑھ سکتا۔
اس کی لکھائی تو تبھی سامنے آتی ہے جب جو لکھا ہوتا ہے وہ پورا ہونے کو ہوتا ہے۔
صفحہ۔۔۔248
اور اگلے برس کے آنے کی کوئی گارنٹی تو نہ تھی۔
کسی بھی اشٹام پیپر پر یہ تو درج نہ تھا کہ اگلے برس تک یہ جو تارڑ ہے موجود رہے گا۔اگر رہے گا تو اس میں سکت رہے گی۔اور اگر سکت رہتی ہے تو حالات میں بھی سکت رہتی ہے یا نہیں۔
میں اپنے خیمے کے باہر بیٹھا تھا۔
اور جیسے ہرنماز کے لیے"منہ ول کعبےشریف"کی نیت کی جاتی ہے ایسے میں بھی منہ ول رتی گلی کیے بیٹھا تھا۔
۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہالینڈ کی سفرِداستان۔۔۔ ستمبر1956۔1969۔نومبر2010
اشاعت2011
مستنصرحسین تارڑصاحب کی " ہیلو ہالینڈ" پڑھتے ہوئے میرا احساس ۔
برس ہا برس سے جناب تارڑ صاحب کے لفظوں سےان کے سفرزندگی کوجانا۔۔۔ ان کے خیالات اورتجربات کومحسوس کیا۔ لیکن اس طرح تو ہم اپنے بہت سے پسندیدہ لکھاریوں کے لفظ اور شاعروں کے کلام کو بھی دل سے قبول کرتے ہیں۔ جناب تارڑ کےلفظ کے لمس کی خاص بات جو دوسرے لکھاریوں سے ممتاز کرتی ہے وہ لفظ کےحوالے سے "پہلا پیار"کی اثرانگیزی اور شدت ہے جو وقت کی گرد پڑنے پر بھی ماند نہیں ہوتی۔ چاہے ہم اسے کہیں رکھ کر بھول جائیں۔۔۔جان بوجھ کر۔۔۔ نادانی سمجھ کر فراموش کر دیں اوربھلانا چاہیں۔ لیکن جب بھی سامنا ہو تو پھر اتنا ہی تازہ اتنا قریب لگے جیسے برسوں پہلے اور اب میں کوئی فاصلہ ہی نہیں ۔ یہ تاثیر صرف جناب تارڑ کے لفظ میں ملی۔ ان کی ہر نئی کتاب پہلے سے بھی زیادہ رگ جاں کو چھو گئی۔ اہم بات یہ ہے کہ جناب تارڑ کے لفظ محض ادب برائے لذت ہی نہیں۔۔۔اِن میں نہ صرف ماضی کے تاریخی حوالے ملتے ہیں بلکہ حال میں زندگی کے رنگ اپنے اندرجذب ہوتے نظر آتے ہیں۔ اور دنیا میں جہاں جہاں آپ سفر کرتے ہیں پڑھنے والا اسی طور اس منظر اس جگہ کو محسوس کرتا چلا جاتا ہے۔
لفظ کے سفر میں دوسرے پسندیدہ لکھنے والوں کی تاثیر بھی ادھوری نہیں کہ جب بھی پڑھو یہی لگتا ہے کہ وہ لفظ ہمارے لیے ابھی اترے ہیں۔ بس فرق یہ ہے کہ وہ لکھنے والے جا چکے ہوتے ہیں اپنے حصے کا کام کر کے۔ اب ان کے لفظ ہمیں ایک انجانی کسک بھی دے جاتے ہیں اور جناب تارڑ کا ہمارے ساتھ ہونا ایسی ہی خوشی دیتا ہے جیسے محبوب سامنے ہو۔۔۔۔اور۔۔۔ " تجھ کو دیکھیں کہ تجھ سے بات کریں"۔ستم یہ ہے کہ یہ محبوب ہر پل نئے انگ نئی چھب سے ملتا ہے۔ یوں "توبہ" باربار ٹوٹتی ہے بس ایک جام اور فقط ایک آخری جام کی معصوم سی خواہش پر۔
ہیلو ہالینڈ جناب تارڑ کے  سفرِسیاحت کے حوالے سے بہت اہم کتاب ہےکہ اس میں سیاحت کے رنگ میں زندگی کا پہلا سفر 17 سال کی عمر میں پھر 30 سال اور پھر 70 برس کا اور ہر عمر کے سفر کے الگ محسوسات اور جذبات ملتے ہیں ۔ہیلو ہالینڈ  کی ایک بہت خاص بات یہ بھی  ہے کہ  اس میں "نکلے تری تلاش میں" کے برسلزکے قیام کی کچھ حذف شدہ یادیں بھی شامل کی گئی ہیں۔
ہیلو ہالینڈ سے انتخاب۔۔۔
٭"پھول موسم کے نہیں محبت کے محتاج ہوتے ہیں۔۔
موسم چاہے کتنے ہی موزوں کیوں نہ ہوں اگر ان میں محبت شامل نہ ہو تو کلیاں لبِ بستہ ہی رہتی ہیں۔۔"
٭اور وہ جو شب تھی دسمبر کی، سرد اور سیاہ شب جب میری سٹڈی کے باہر دسمبر کی رت کے پالے اترتے تھے،چیڑ کے درخت کے بالوں میں ایک ہلکی دھند اترتی تھی یہاں تک کہ گارڈن لائٹس کی روشنیاں بھی ٹھٹھرتی مدھم ہوتی تھیں تب میں نےاس سفرنامے کا آغاز کیا تھا، یہ اتنا ہنگامہ خیز، مہمات سے بھرپور اور جنوں انگیز تو نہیں ہے جتنے میرے ماضی کے سفرنامے ہوا کرتے تھے، اس لیے کہ عمرکے پلوں تلے برسوں کے بہت پانی سے بہہ چکے ...تھےاور ان کے ساتھ میری نوخیزی، بے دریغی کے ساتھ وحشتیں اور محبت کی حدتیں بھی بہہ چکی تھیں۔ میں وہ نہ رہا تھا جو کہ کبھی تھا تو یورپ کا میرا یہ سفرنامہ کیسے ایک ’’نکلے تری تلاش میں‘‘ ، ’’اندلس میں اجنبی‘‘ یا ’’خانہ بدوش‘‘ ہوسکتا تھا۔ میں نے اسے اس لیے تحریر کردیا کہ مجھے اس مختصر سفر یورپ کے دوران ایسے محبت بھرے اور مہربان لوگ ملے جن کا میں مقروض ہوگیا۔اگر چہ یہ قرض بے جا محبتوں اور چاہتوں کا چکائے نہیں چکتا۔ اور کیا جانئے  کہ عمر کا یہ رخش گھوڑا کہ نہ پاؤں رکاب میں ہے اور نہ ہاتھ میں لگام ہے تو اب کبھی نہ رکے مجھے فنا کی وادیوں میں لے جائے تو اس سفر کو قلمبند کردوں اس سے پیشتر کہ دل کے ساتھ قلم بھی بند ہوجائے اور ہم رہیں، نہ رہیں بقول امیر مینائی
قیام روح پہ قالب میں اعتماد نہ کر
کچھ اعتبار نہیں مہماں رہے نہ رہے
شب وصال غنیمت ہے پھر خدا جانے
کہ صبح کو وہ قمر مہرباں رہے نہ رہے
۔145۔۔۔
خواب میں جو کچھ دیکھ رہا ہوں اُس کا دکھانا مشکل ہے
آئینے میں پھول کھلا ہے ہاتھ لگانا مشکل ہے
تو میں نے آشفتہ سری،دیوانگی،آوارگی اورخانہ بدوشی کے جتنے بھی خواب دیکھے۔۔۔انہیں اپنے سفرناموں اور ناولوں میں دکھانے کی سعی لاحاصل کرتا ہی رہا۔اور وہ پھول جووحشت اورسفر کا مذہب،قومیت اور رواجوں سے ماورا۔۔کبھی کسی دشتِ مرگ میں،کبھی بلیک فارسٹ،ایک فئیری میڈو میں،الحمرا کے ایوانوں یا الاسکا کے برف زاروں میں کِھلا اُسے دکھانے کی تخلیقی اذیت میں مبتلا رہا پھر دکھا نہ سکا کہ وہ ایک آئینے میں کھلا تھا۔۔
تو نصف صدی کے کل اور آج میں کچھ فرق نہ تھا۔۔وہ جنوں اور تحیر جو تب تھا،اب بھی ہے۔۔
سوائے آئینے میں دِکھتی شکل کے۔۔۔جس میں کبھی یونانی دیوتاؤں کے مجسمے دکھائی دیتے تھے اور اب موہنجوڈارو کے کھنڈروں کی اینٹیں نظرآتی ہیں ۔۔بس یہی فرق ہے تب میں اور اب میں ۔۔
۔2003 میں جناب مستنصرحسین تارڑ کے رتی گلی کی جانب سفر کی تصویری جھلک۔۔۔۔

منگل, دسمبر 23, 2014

" صبرکی چبھن "

آخری بار۔۔۔۔
آٹھ روزگزر گئے جانے کتنے رو ز۔۔۔کتنے برس۔۔۔ اسی طرح گزرجائیں۔ایک ہفتہ پہلے آج کے دن بہت سی ماؤں نے اپنے بچوں کے لیے آخری ناشتہ تیار کیا۔۔۔آخری باراُن کا یونیفارم استری کیا۔۔۔آخری بار انہیں ان کے بستروں سے اٹھایا۔۔۔آخری بار ان پر صبح صبح جھنجھلائیں۔۔۔آخری بار ہی انہیں ان کے شوہروں سے ڈانٹ پڑی ہو گی کہ تمہارے لاڈ نے ہی بچوں کو خراب کیا ہے۔۔۔اُن ماؤں نےآخری بارہی دل میں سوچا ہوگا۔۔۔جانے یہ بچے کب بڑے ہوں گے؟کب اپنی ذمہ داری کا احساس کریں گے؟ کب ہماری گودوں سے اتریں گے؟ اور کب ہم اپنی زندگی میں اپنی مرضی سے کچھ کر سکیں گی؟۔ اور اور۔۔۔ آخری بار ہی بچوں کے گھروں سے جانے کے بعد سکھ کا سانس لیا ہو گا۔۔۔ان کا بچا کچا کھایا ہو گا۔۔۔ان کے بکھرے کپڑے سمیٹے ہوں گے۔۔۔ان کی لاپرواہی اور سستی پر دل ہی دل میں اپنی تربیت کی خامی پر شرمندہ بھی ہوئی ہوں گی یا سوچا ہو گا کہ ہم بھی تو بچپن میں ایسے ہی تھے۔۔۔اپنی ماؤں کو یاد کیا ہو گا کہ انہوں نے کس طرح سے ہمیں پال پوس کرجوان کیا۔ اس افراتفری کے بعد جب سوچا ہو گا تو بہت سی ماؤں کو یاد آیا ہو گا کہ بچے نے ٹھیک سے ناشتہ نہیں کیا تھا۔۔۔ یا لنچ گھر بھول گیا تھا۔۔۔یا وہ کینٹین سے کچھ کھانے کے لیے پیسے مانگ رہا تھا اور ہم نے پیسے نہیں دئیے۔۔۔یا آج ہم نے اس کے ساتھ زیادہ ہی زیارتی کر دی۔۔ وہ چھٹی کرنا چاہ رہا تھا اسے زبردستی اسکول بھیج دیا۔ انہوں نے آخری بار ہی سوچا ہو گا کہ آج اس زیارتی کی تلافی کر دوں گی۔۔۔آج اس کے لیے اس کی پسند کا کچھ بناتی ہوں۔۔۔اور کچھ نہیں تو آج اس کو دوپہر کے کھانے پر پراٹھا بنا دوں گی۔اکثر دوپہر کواس کی پسند کا کھانا نہ ہو تو کہتا ہے کہ پراٹھا بنا دیں اورمیں ڈاٹتی ہوں کہ پراٹھا تو ناشتے میں ہی ملتا ہےتم بہت نخرے کرتے ہو۔۔۔بہن بھی خفا ہوتی ہے کہ آپ کو بس اپنے" شہزادے" کی ہی پروا ہے۔ خیران ماؤں کو آخری بارہی یقین آیا ہو گا کہ وہ اپنےبچوں کو منا لیں گی۔ اور۔۔۔۔دن ڈھلنے تک ایک قیامت کا سامنا کر کے آخری بار ہی انہوں نے "صبر" کا تلخ ذائقہ چکھا ہو گا۔ اوراگلے دن کی صبح دوسروں کی خاطر جینے کے لیے ان ماؤں نے ایک نئی زندگی شروع کی ہو گی۔اپنے اہل خانہ کو حوصلہ دیا ہو گا۔۔۔دوسروں کی تعزیت پران کا شکریہ ادا کیا ہو گا اورشاید گھر کے روٹین کے کام بھی شروع کر دیے ہوں گے۔
آٹھ روز گزر گئے اورشاید اسی طرح باقی زندگی بھی گزر جائے گی کہ کسی ماں کی اپنے بچے سے جدائی انہونی یا انوکھی بات نہیں۔ ماں کی محبت اورجذبات کی بہت مثال دی جاتی ہے لیکن ماں کی قوت برداشت کا پیمانہ کبھی بھی کوئی جانچ نہیں سکا اور نہ ہی ایسا ممکن ہے۔ اولاد کا اولین لمس۔۔۔ جنم دینے کی تکلیف ایک لٹمس ٹیسٹ ہےجو اتنی شدت کی ہے کہ شاید دنیا کا سب سے مضبوط اعصاب کا مرد بھی اس پر پورا نہ اتر سکے۔اگررب نے اس تکلیف کو برداشت کرنے کا ہنر عطا کیا ہے اور اپنی کتاب میں اس کرب کا ذکر پوری صراحت کے ساتھ بی بی مریم کے حوالے سے بیان فرمایا ہے تو پھر دنیا میں اولاد سے ملنے والے دکھ اس کا ذرا سا حصہ ہیں اور موت جو برحق ہے اس کو ماننا ہمارے ایمان کا لازمی جزو ہے اس سے انکار کی تو گنجائش ہی نہیں۔بےشک ماں کے لیے اولاد کی موت ایک نہ بھولنے والا صدمہ اور ہمیشہ کی اذیت ہے۔ماں شہید کی ہو تو ایک عجیب قوت سے اس دکھ کا سامنا کرتی ہے۔۔۔ پل پل اپنے بچے کو موت کے منہ میں جاتا دیکھے تو برف کی چٹان بن کر اپنے دکھ کے آتش فشاں کو سنبھال لیتی ہے۔ وہ بوڑھی مائیں بھی عجیب کیفیت میں زندہ رہتی ہیں جن کے جنازوں کو کاندھا دینے والے انکے سامنے چلے جاتے ہیں۔
وہ مائیں جن کے جیتے جاگتے بچے گزشتہ ہفتےانسانیت سوز دہشت گردی کا نشانہ بنے وہ تو اپنے بچوں کے ساتھ ہی زندہ قبر میں دفن ہو گئیں۔۔۔ان کے ساتھ خود بھی ہر سودوزیاں سے آزاد ہو گئیں کہ اب بچا ہی کیا جوکوئی لُوٹ سکے۔
اس ماں کے کرب کا تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے جو آخری بارہر ہر مرحلے سے گزر گئی۔ لیکن!!! اس ماں کی چیخیں کون سنے جو اپنے دل کا درد ذہن میں لاتے ہوئے خود بھی ہزار بار سوچتی ہے۔۔۔سر جھٹکتی ہے۔اپنا واہمہ ،مفی طرزِفکر کہہ کر دوسروں کی طرح "سب اچھا ہے۔۔۔اچھا ہو جائے گا" سوچنا چاہتی ہے۔
آج کا سب سے بڑا دکھ سب سے بڑی مایوسی اور سب سے بڑھ کر بےچینی پاکستان میں بسنے والی ان ماؤں کی ہے جو اپنے گھروں میں اپنے بچوں کے ساتھ خوش وخرم زندگی گزار رہی ہیں۔ لیکن ہر صبح وہ اپنے بچوں کو رخصت کرتی ہیں تو شام کا دھڑکا لگ جاتا ہے۔۔۔ایک فلم سی ذہن میں چلنے لگتی ہے دوسرے لفظوں میں ری وائنڈ ہو کر سامنے آ جاتی ہے۔ آخری بار صبر کا جام پی کراُن ماؤں کی زندگی کا ایک باب تو مکمل ہو گیا چاہے زبردستی بند کر دیا گیا ۔لیکن وہ مائیں جن کی زندگی کے ورق کھلے ہیں ان کو خوف اورشدید غصے سے زیادہ جذباتی استحصال کی چبھن ہے کہ روح میں پیوست کانٹے کی مانند اندر ہی اندر بڑھتی جا رہی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ گزشتہ ایک ہفتے میں صرف ابتدائی طبی امداد دی گئی یا پھر"ہو جائے گا،ہونا چاہیے، ہو رہا ہے،کر دیں گے، کر رہے ہیں"۔۔۔ کی نہ ختم ہونے والی گردانیں۔۔۔۔ کتنا ہی غم وغصہ کیوں نہ ہو ان وعدوں اورتسلیوں سے قوم بحیثیت مجموعی ہمیشہ سے بہلتی چلی آئی ہے۔۔۔امید کی شمع ہرآندھی طوفان میں ہمیشہ لرزتی رہی پر بجھی کبھی نہیں۔شاید یہی وجہ ہے کہ درندوں سے بڑھ کر انسان نما درندوں نے اسی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا۔ اس سانحے سے منسلک کسی شیطان نما انسان کا بال بھی بیکا نہیں ہوا؟فرض کریں کچھ پیش رفت ہوئی بھی تو اسے" قومی مفاد"میں راز کیوں رکھا گیا۔ یہ سانحہ قوم کی برداشت کا امتحان تھا۔اصل خدشہ یہی ہے ایک ہفتہ گزرجانے کے بعد ہمیشہ کی طرح قوم یا عام عوام نے اسے قسمت کا لکھا سمجھ کر قبول کر لیا ہے۔۔۔ ارباب اختیار اور صاحب اقتدار دونوں ہی اپنی جگہ پر محفوظ و مطمئن ہیں۔۔۔لیکن ماؤں کے دل کو قرار نہیں یہ موت سے بڑھ کر اذیت ہے۔۔۔ایک سکوت مرگ ہے جو جیتے جاگتے ہنستے کھیلتے چہروں میں سنائی دیتا ہے کہ اب نہ جانےکس ماں کی باری ہے؟۔۔۔ گھر میں بیٹھی ماؤں کے لیے اس سے بڑھ کرکون سی قیامت منتظر ہے؟
ہرانسان لاشعوری طور پر ہی سہی قیامت تک زندگی کی خواہش کرتا ہےاور شعوری طور پر کتنی ہی قیامتیں گزر جاتی ہیں اور وہ پھر بھی زندہ رہتا ہے۔
اللہ ہمیں مخلوق کے شر سے پناہ دے اور وسوسے ڈالنے والے شر سےبھی نجات دلائے۔اللہ ہمیں دہشت گردی سے شرپسندی کی اس جنگ میں ایمان کی سلامتی عطا فرمائے آمین۔
۔"اے اللہ جو حق ہے ہمیں اسے حق کر کے دکھا اوراس کے اتباع کی توفیق دے اورجوباطل ہے اسے باطل کرکے دکھا اور ہمیں اس سے بچنے کی توفیق دے ۔" آمین یا رب العالمین۔
آرمی پبلک اسکول میں بدترین دہشتگردی ۔۔۔۔سانحہ پشاور کے پسِ منظر پر ایک تحریر۔)۔) 
منگل ۔۔4 بجے شام
دسمبر23۔۔۔ 2014

منگل, دسمبر 16, 2014

" ماں کا دُکھ "

اپنے ذاتی مسائل سےاُلجھتے،معاشرے کے حالات پر کڑھتے اورسیاست کے تڑکے پرطنز کرتے ہوئے پکے گھروں میں   رہنے والے دوسرے پاکستانیوں کی طرح  ہم سب اپنے حال میں مست رہتے ہیں۔ دہشت گردی، حادثات اور ناگہانی آفات کی خبریں صرف خبریں ہی رہتی ہیں جب تک ہم ان کا حصہ نہیں بنتے۔ بظاہر ہر فورم پر کتنی ہی بےچینی کا اظہار کریں لیکن اندر سے مطمئن ہوتے ہیں۔۔۔لاشعوری طور پر ہی کیوں نہ ہوں۔ ہمارے رشتےناطے،محبتیں نفرتیں ہمارے اپنے حصارکے اندر ہی پھلتی پھولتی ہیں۔ ہم سب دبے لفظوں " سانوں کی" کی گردان کرتے اپنے روزوشب بِتاتے چلے جاتے ہیں۔عورت ہو یا مرد اُن کی "حساسیت" اپنے مفاد کی چھاؤں میں ہی پروان چڑھتی ہے۔اسی طرح ماؤں کے لیےاُن کے اپنے بچے۔۔۔ اُن کے دکھ ۔۔۔اُن کے سکھ ہی خاص ہوتے ہیں۔
لیکن!مامتا کا جذبہ سانجھا ہے۔ ماں کا احساس  ایک ماں سےبہترکوئی نہیں جان سکتا۔ چاہے وہ تخلیق کا اولین کرب ہو یا جدائی کی گھڑی کے طویل ترہونے کا احساس۔وہ ماں جس کے بچے اس کے ساتھ۔۔۔اس کے پاس رہتے ہیں۔اس کی زندگی کا جواز۔۔۔ اوراس کے صبح وشام کا حساب بھی ہوتے ہیں۔ صبح اگر ان کے کاموں سے شروع ہوتی ہے تو رات ان کو سلا کر آنکھیں موندتی ہے۔ وقت دبے پاؤں گزرتا ہے۔۔۔بچے بڑے ہوجاتے ہیں ماؤں کے قد سے بھی بڑے لیکن ماں کا دل کبھی بڑا نہیں ہوتا۔ پرندوں کی طرح اڑنا سکھانے کے بعد خوشی خوشی پرواز کی اجازت دینے تک بھی رات کے بڑھتے سائے اسے بچوں کی بخیریت گھر واپسی کا دھڑکا لگا دیتے ہیں۔ ایک ماں کے لیے دنیا کا سب سے بڑا سکون آور لمحہ رات کو اس کے بچوں کا اپنے اپنے بستروں پر موجود ہونا ہے۔رات اگر رازداں ہے تو رات بہت ظالم اور بےحس بھی ہے کہ اس کی تاریکی انسان کو راہ سے بھٹکاتی ہے تو تنہائی راہ میں آنے والی رکاوٹوں اوراذیتوں سے نبٹنے کا حوصلہ بھی کھو دیتی ہے۔ جس طرح ہردن کے بعد رات اوررات کے بعد دن طلوع ہوتا ہے۔۔۔اسی طرح غم کے دن کے بعد آنے والی رات اس سے بڑھ کر سیاہ اورناقابل برداشت ہوتی ہے۔بےشک اللہ کسی نفس پراس کی طاقت سے بڑھ کربوجھ نہیں ڈالتا۔لیکن! آہ! وہ پہلی رات۔۔۔ وہ لمحہ اس کا تصور ہی بڑا کرب ناک ہے جب ایک ماں دن کا آغاز بچے کو اٹھانے سے کرے اور رات کواپنے بچے کا بسترہمیشہ کے لیے خالی پائے۔ اور اور اگر اس کا بےجان لاشہ گھر کے آنگن میں پل دوپل کا مہمان ہو تو یہ رات کٹ بھی جائے لیکن اس کا دل بھی اس کے ساتھ کٹ جاتا ہے۔
! آخری بات
بچے کی ہمیشہ کے لیے جدائی کے بعد آنے والی پہلی رات اگر ماں کےصبرورضا کا اصل امتحان ہے تومائیں بھی سدا بچوں کے ساتھ نہیں رہتیں۔۔۔چاہے بچے کتنے ہی بڑے ہو جائیں۔۔۔ اورمائیں اپنا فرض اپنی ذمہ داری سے سبکدوش بھی ہو جائیں۔ لیکن ان کے جانے کے بعد آنے والی پہلی صبح کی خاموشی ایک عجیب سی تنہائی اندر اتار دیتی ہے۔۔۔ایک خاموش چیخ جسے صرف اپنے کان ہی سن سکتے ہیں۔بےوزنی کا احساس جیسے مرکز ثقل ختم ہو گیا ہو۔ماں کی زندگی اگر بچے کے گرد گھومتی ہے توماں جانے کے بعد بچے کو دکھائی دیتی ہے۔ اس سمے صرف اُس کا اپنا کاندھا اُس کا رازدار ہوتا ہے یا پھر جو اس درد سے آشنا ہو۔
"اللہ اکبر"
آرمی پبلک اسکول میں بدترین دہشتگردی ۔۔۔۔سانحہ پشاور کے پسِ منظر پر ایک تحریر۔)

جمعہ, دسمبر 12, 2014

"عشق نہ پُچھے ذات"

اُس کا اورمیرا ساتھ نہ جانے کب سے تھا۔ وہ میری محبت نہیں تھا۔۔۔ کبھی بھی نہیں تھا۔۔۔اُس نے مجھے کچھ بھی تو نہ دیا تھا۔۔۔نہ لمس۔۔۔نہ ذائقہ اورنہ ہی لذت۔ بس رنگ ہی رنگ تھا۔ہوا کی طرح اپنی مستی میں گم۔حیرت کی بات ہے کہ وہ میری دسترس میں تھا اور میں نے کبھی اُسے چھو کر محسوس نہیں کیا۔۔۔اُس کے بےرنگ ہوتے کھردرے بدن کو لبوں سے چھو کر رنگین کرنے کی بےمعنی خواہش تو دورکی بات اُس کی خوشبو اُس کی نرمی کو شاید ہی کبھی ہاتھ سے چھوا ہو۔بس وہ میرا تھا۔۔۔ میرے لیےتھا۔۔۔یہی کافی تھا۔ میرے بند کمرے کے دروازے کے باہر دیوار سے ڈھولگائےمیرا انتظار کرتا اورمیں اس سے نظر چرا کر گزر ہی نہ سکتی کہ وہ عین نظر کے سامنے منتظر ملتا۔اُس کا ہونا۔۔۔اُس کارقص کرنا۔۔۔اُس کا رنگوں سے مہک جانا پھراس کا اداس ہوجانا میرے لیے نئے موسموں کی نوید لیے ہوئے ہوتا۔یہ نہیں کہ میں اُسے جانتی نہیں تھی۔ میں بھی اکثر اسے خالی خالی نظروں سے دیکھتی تھی۔ کوئی ایسی یاد تھی جو مجھے یاد نہ پڑتی تھی۔
کسی شاعر نے کہا تھا۔۔۔
عمرایک ایسی بھی ہوتی ہے جس میں
اچھی لگتی ہے ہراِک بات حقیقت کےسوا
آج عمر کے ڈھلتے موسم میں اس بےنام محبت کے بارے میں سوچوں جس کی جڑیں وقت کے ساتھ گہری ہوتی چلی گئیں۔۔تو وہ ربط ۔۔۔ وہ بندھن "اداسی" کا تھا۔۔۔ایک منجمد آنسو۔۔۔ ایک بےآوازسسکی کی قربت کا تھا۔ جو برسوں بعد ضبط کے بندھن توڑ کر لفظ کی صورت کاغذ پرپھیل گیا۔اورٹوٹی مالا کی مانند خاموش چیخیں ہوا کے دوش پر بکھرتی چلی جا رہی ہیں۔
مٹی سے۔۔۔پودوں سے۔۔۔پھولوں سے اور درختوں سے میرا تعلق میری محبت روایتی نہیں تھی۔محبت ہو یا اُنسیت روایتوں کی محتاج نہیں ہوتی۔۔۔کب کوئی نگاہ،کوئی لمس،کوئی خوشبو،کوئی احساس روح کی گہرائی کو چھو جائے اور ہمیشہ ساتھ رہے شاید آخری سانس میں آخری یاد کی صورت۔اسی طرح ہمیں ملنے والی محرومیاں اور نفرتیں بھی کبھی ہمارے اندر سے باہر نہیں نکلتیں۔۔۔چاہے برداشت اورعفوودرگزر کے وقتی لبادوں سے ڈھانپ کر پُرسکون ہی کیوں نہ نظر آئیں۔اُن کی برہنگی ہمیشہ ایک آسیب کی طرح چپک کر احساس کو زخمی کرتی رہتی ہے۔
ایک شہری علاقے میں پلتے بڑھتے مٹی کا درد اس کا خوف یوں اندراترا کہ جاڑے کی بارشوں میں دادی کے گھر کی لپائی والی چھت کے پرنالے سے جب مٹی بہنے لگتی۔۔۔ توایک ننھی بچی اندرہی اندرسہم جاتی کہ ساری چھت "بہہ" رہی ہے۔۔۔گرنے والی ہے۔ شاید سوال بھی پوچھتی کہ چھت گرے گی تو نہیں؟۔ اس کا مسئلہ یہ بھی تھا کہ وہ سوال بہت کرتی تھی۔۔۔بےحساب کرتی تھی۔اس سے محبت کرنے والےجواب ضروردیتے۔اس مٹی کے گھر میں صرف "چھت" گرنے کا ہی عدم تحفظ تھا ورنہ محبتوں کے مضبوط حصار ایسے تھے کہ آج تک اسی طرح اپنی گرفت میں لیے ہوئے ہیں۔
 ہم بھی کیا لوگ ہیں۔۔۔ بچوں کےسوالوں کے جواب تو بڑے شوق اوردلچسبی سے دیتے ہیں۔لیکن! بڑے سوال کریں تو تمسخراُڑاتے ہیں۔ حالانکہ سوال تو سوال ہوتے ہیں۔سوال پوچھنے سے جواب دینے والے کی اہلیت کا پتہ چلتا ہے۔سوال وہی پوچھتا ہے جو سوچتا ہےاورجواب سے وہی انکار کرتا ہے جو جواب جانتا نہ ہو۔ اسی طرح زندگی میں بہت سارے سوال ایسے بھی ہوتے ہیں جن کا جواب سوائے ہماری ماں کے کوئی نہیں دے سکتا۔ اورہم بہت کم اپنی ماؤں سے پوچھتے ہیں۔۔۔ کبھی چھوٹے ہوتے ہیں تو جھجھک آڑے آتی ہے۔۔۔ذرا بڑے ہوتے ہیں تو بےوقوفی لگتی ہے۔۔۔ جب خود بڑے ہوجاتے ہیں تو ساری دنیا میں سب سے زیادہ بےوقوف مائیں ہی لگتی ہیں۔ جب مائیں بڑی ہوجاتی ہیں تو سوال بھول جاتے ہیں۔۔۔کھو جاتے ہیں۔ لیکن !!! جب مائیں چلی جاتی ہیں ہمیشہ کے لیے۔۔۔ تو یہ سوال پھر زندہ ہوجاتے ہیں اور کبھی زندگی کا سب سے اہم سوال بھی لگنے لگتے ہیں۔
ایسا ہی ایک سوال میرا بھی تھا جو امی کے سامنے کبھی بھی پوچھنے کی ہمت  نہ کرسکی۔ ہوا یہ کہ جب اپنی پہلی بیٹی کے لیے بہت سے رشتوں میں سے کسی ایک کے چننے کا وقت آیا توانہوں نےبچپن کی پرانی دوست کے اکلوتے آرمی آفیسر بیٹے کے مقابلے میں ایک نئی ملازمت والے دور پار کے بھرے پُرے خاندان کے بیٹے کے حق میں رائے دی۔اتنے برس گزر جانے کے بعد اس فیصلےکی اصل وجہ یا احساس کبھی معلوم نہ ہوسکا؟۔اب امی کے جانے کے دو سال بعد یہ "راز" بھی "صاحب" نے عام سے انداز میں بات کرتے ہوئے بتایا "کہ تمہاری امی کہتی تھیں کہ "جب ہم نے اپنا لان پکا کروایا تھا توبیٹی بہت اداس ہو گئی تھی"۔میرے لیے یہ بات کسی جھٹکے سے کم نہ تھی کہ میں نے تو کبھی بھی کچھ نہیں کہا؟کوئی گلہ شکوہ بھی نہیں کیا تھا؟۔ وہ کیسی ماں تھیں جنہوں نے ایک نئے گھر میں آ کر جب اس کے ہرے بھرے لان کو دیکھا تو انہیں اس میں اپنی بیٹی کی خواب آنکھیں ملیں اور شاید اسی لمحے انہوں نے فیصلہ کر لیا ہو کہ یہی وہ گھر ہے جہاں ان کی بیٹی خوش رہ سکتی ہے۔میں نہیں جانتی تھی کہ وہ مجھے جانتی ہیں۔ ہمارے بیچ دوستی یا بےتکلفی کا رشتہ بالکل بھی نہیں تھا۔اس میں سراسر قصور میرا ہی تھا یا شاید میں اپنی ذات اوراصل کی تلاش میں اتنی محو تھی کہ کبھی باہرنکل کر دیکھنے کی فرصت ہی نہ ملی اورانہوں نے بھی ہمیشہ ایک سیل بند نازک تحفے کی طرح سنبھال کر بہت احتیاط سےرکھا۔ہاں وہ مجھے جانتی تھیں میرے احساس کو سمجھتی تھیں۔۔۔جو چھوئی موئی کے پودے کی مانند پل میں بُجھ جاتا اوراگلے لمحےایسےکہ کچھ بھی نہ ہوا ہو۔۔۔انہیں پتہ تھا کہ ان کی بیٹی کے لیے زندگی کی آسائشوں سے زیادہ خواب اہم ہیں۔اب یاد کروں تو اپنے گھر کے لان میں جہاں میں بیٹھا کرتی تھی وہاں بھی عین اسی جگہ "باٹل برش" کا درخت تھا جیسا یہاں ہے۔ جب لان ختم ہوا تو شاید اس نے بھی میری اداسی کو محسوس کیا۔
 خیر یہ سب یاد کے اندھے کنوئیں میں دفن تھاجب تک کہ صاحب نے اپنےاس گھرمیں لگے"باٹل برش" کو کاٹنے کا ارادہ نہیں کیا تھا۔ جیسے ہی انہوں نے کہا کہ یہ چھوٹے پودوں کی دھوپ روکتا ہے اسے نکالنا ہے تواسی پل یہ مجھے آواز دینے لگا۔
میں نے اُسے غور سے دیکھا۔ شاید سب جانے والوں کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے کہ ساری زندگی ہم ان کے وجود سے بےخبر رہتے ہیں۔۔۔ لیکن جیسے ہی کوچ کی گھنٹیاں سنائی دیتی ہیں۔۔۔ ہماری سوئی ہوئی محبتیں بیدار ہوجاتی ہیں۔ انسان ساری زندگی توجہ کے لمس کا طلبگار رہتا ہے اور جب ہرضرورت سے بےنیاز ہونے لگتا ہے تو بےموسم کی بارش کی طرح سب اپنا اپنا حصہ ڈالنے آ جاتے ہیں۔
 نہ جانے ماں کی یاد تھی یا کیا تھا کہ وہ آنسو جن کا ایک قطرہ بھی ماں کے جانے پر نہ نکلا۔۔۔دو برس بعد جیسے ہی درخت کی ایک شاخ پر آری لگی تو کسی کی پروا کیے بنا بےقراری اور اذیت سے بہنے لگے۔ابھی تو شاخ نے کٹنا تھا سو کٹ گئی (یا میری وجہ سے صرف ایک شاخ پر ہی اکتفا کیا گیا؟ یہ نازک سوال میں نے ابھی تک نہیں پوچھاَ)۔ بعد میں میں نے سوچا کہ شجر تو ہم سے زیادہ سخت جان ہوتے ہیں۔آس پاس نظر دوڑائی تو سامنے ہی فالسے کا وہ درخت بھی تھا جس کا لگانے والا 30 برس پہلے دُنیا سے جاچکا تھا۔ اوراس کے ساتھی کی یاد میں ایک برستی طوفانی رات آج بھی تازہ تھی جب وہ ایک چھوٹے سے پودے کے لیے فکرمند تھے اوراسے بچانے کے لیے باہر نکلنا چاہ رہے تھے۔20 ستمبر 1984 کو رحلت سے پہلے انہوں نے اس کا پہلا پھل توڑا اور ذائقہ بھی چکھا تھا۔
 مجھے ایسا لگا جیسے بڑوں اور بچوں کے ساتھ یہ درخت بھی مجھ پر ہنس رہا ہے۔۔۔اور حیرانی سے کہتاہے کہ تم میرے جانے کا دُکھ کرتی ہو۔۔۔ لیکن! نہیں جانتیں کس کی قضا پہلے لکھی جاچکی ہے؟درخت کی آنکھوں سے اپنے قریب دیکھا تو پتہ چلا کہ میرےسامنے کتنے ہی پھل دار درخت اپنے حصے کی زندگی گزار کر،خوب پھل دے کر ختم ہو گئے۔۔۔ پھر نئے درخت نئے پھلوں نے اُن کی یاد بھی بھلا دی۔
میں سوچتی ہوں  کہ اگر درختوں کی زبان ہوتی تو نہ جانے اُن کے پاس زمانے کی بےثباتی کی کون کون سی کہانیاں ہوتیں۔ اور وہ مجھے ملامت کرتے شاید اسی کا نام زندگی ہے اور شاید اسی کا نام محبت ہے۔ وہ محبت جس کی پہچان جس کی پرکھ کے لیے ہم دردر پھرتے ہیں اور کہیں سے بھی سراغ نہیں ملتااور جب ملتا ہے تو بقول شاعر
"اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی"
میں نے جانا کہ آنکھ کھلی ہو تو ہرمنظر کے اندر نظارے ہی نظارے ہیں۔ جب باٹل برش کو قریب سے دیکھا تو اس
کے تنے کی ندرت اوراس کے گرد لپٹی موتیے کی بیل نے مسحور کر دیا۔ محبت واقعی احساس کا نام ہے ۔اس کا لینے۔۔۔دینے۔۔۔چھونے۔۔۔پانے۔۔۔کہنے یا صرف اپنی ملکیت بنا کر کسی اورکی نظر سے بھی بچا کر قبضہ کرنے کی خواہش کا نام نہیں۔ محبت صرف یقین کا نام ہے وہ یقین جو لمحۂ موجود میں جنم لیتا ہے تو ماننے میں آخری سانس تک کا در کھلا ہے۔میرا ایمان تو تھا پراپنی آنکھ سے بھی دیکھ لیا کہ ماں اوراللہ کی محبت میں کوئی نہ کوئی ربط ضرور ہےاورمحبت کا جواب ضرورملتا ہے۔ میں نے اپنے آنسوؤں سے جانا کہ اظہار بہت ضروری ہے قرار کے لیے۔ اور جب اظہار کر دیا جائے تو محبت خود ہی تسلی دے دیتی ہے۔۔۔رہنمائی کر دیتی ہے اورصبرعطا کر دیا جاتا ہے۔انسان کسی چیز کے لیےاس وقت تک بےچین ومضطرب رہتا ہے جب تک کہ وہ اس کی دسترس میں رہ سکتی ہے۔
 مجھے اپنی نادانی سے یہ بھی پتہ چلا کہ انسان کتنابےوقوفی کی حد تک خودغرض ہے کہ جو چیز اپنی ہے ہی نہیں اس پر اپنا اختیار سمجھتا ہےاوراس کی "حساسیت"صرف اپنے مطلب کی چیزوں سے ہی وابستہ رہتی ہے۔
 میری ناسمجھی نے مجھے بتایا کہ تخیل کی انتہا پرجا کر رقص کرتے ہوئے نگاہ اپنے قدموں پرمرکوزرہے تووہ مٹی کی نمومیں پیوست اورزرخیزرہتے ہیں اُن سےنکلتی خواہشوں کی لاتعداد جڑیں جہاں جذبات کی آندھیوں اور بےمہرطوفانوں میں سہارا دیتی ہیں۔۔۔وہیں فرار کی بےسود کسک کی اصلیت سےآگاہ کرتی ہیں۔
 گھنا اورپھل داردرخت آفتِ ناگہانی اورقضا کے حکم سے تو فنا ہو سکتا ہے لیکن اسے خود سے اُکھاڑ کر کسی دوسری جگہ کبھی بھی نہیں لگایا جا سکتا۔
!آخری بات
ہر رشتہ۔۔۔ہر رویے۔۔۔اور ہراحساس کو پانے کی ایک قیمت ہوتی ہے جو ہمیں بہرطورچکانا پڑتی ہے۔جانے ان جانے میں ہم ادا بھی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن شاید بہت کم سمجھ آتا ہے کہ"کس کی قیمت " پر "کیا" حاصل کر رہے ہیں۔ اسی لیے مایوسی اور خودترسی کی دلدل میں دھنس جاتے ہیں تو کبھی خودفریبی کے صحرا میں برہنہ پا کسی نخلستان کی اُمید پر بس چلتے چلے جاتے ہیں۔
 ۔"عزت کی قیمت پر زندگی گزاردیتے ہیں اور بعد میں پتہ چلتا ہے کہ یہ تو ہمارے خوابوں کی قیمت تھی"۔
۔۔۔۔۔۔
میرے کمرے کے دروازے سے جھانکتا منظر ۔۔
 پہلے فالسے کا درخت اور دور گیٹ کے پاس  'باٹل برش 
بوٹل بُرش کا تنا اور اس سے لپٹی موتیے  کی بیل۔۔۔۔۔

باٹل برش ۔۔۔ خزاں کی اداسی لیے ۔۔
 چار دسمبر 2014
تیس برس پرانا فالسے کا درخت ۔۔۔
  خزاں  کی قربت اور پھرجون کے آغاز میں۔۔۔


اسلام آباد  کا لان جو پکا کرا دیا گیا۔۔
 

منگل, دسمبر 09, 2014

" پرت در پرت"

" پرت در پرت"
 کچھ انسان پیازکی مانند ہوتے ہیں۔۔۔ پرت اتارتے جاؤ۔۔۔آنسو بہاتے جاؤ۔۔۔ آخر میں اکثر کائی زدہ ،بدبودار ہی نکلتے ہیں۔
 کچھ بند گوبھی کی طرح بھی ہوتے ہیں کہ بنا کسی خوشبو یا احساس کے پرت اتارتے جاؤ۔آخر میں یوں پاک ان چھوئے لگتے ہیں جیسے ہمارے ہی لیے اتارے گئے ہوں۔
 کچھ انسان کریلے کی طرح ہوتے ہیں۔۔۔ انہیں برتنے کا طریقہ نہ آئے۔۔۔چاہت کا قرینہ نہ آئے اور اپنانے کا سلیقہ نہ آئے تو اُن کی کڑواہٹ کے سامنے اُن کی خوش نمائی اور زیبائی ہوا ہو جاتی ہے۔جو اس راز کو جان جاتے ہیں(کہ یہ راز اتنا بھی پوشیدہ نہیں ہوتا) وہ نہ صرف اس کڑواہٹ کو دل وجان سے قبول کرتے ہیں بلکہ اپنے ذوق اپنے ظرف اوراپنی ضرورت کے مطابق اس کڑواہٹ میں سے لذت اور ذائقے کا شہد کشید کر لیتے ہیں۔
ہم میں سےہر شخص ہری مرچ سے آشنا ہے اور کسی نہ کسی حد تک اُس کی محبت میں گرفتار بھی ہے۔ ہری مرچ انسان کی ذات اس کی خصلت کی عکاس بھی ہے۔ہری مرچ چال ڈھال سے لے کر نین نقش تک پل پل رنگ بدلتی جاتی ہے۔کبھی اتنی بھرپور اتنی خوش رنگ کہ دل بےاختیار کھنچا چلا جائےاور قریب جا کر چھونے اور چکھنے میں اتنی بےضرر،اتنی بےلذت کہ جیسے گیلی پھلجھڑی۔اوریوں بھی ہوتا ہے کہ بظاہر منحنی سی ہری مرچ انسان کے چودہ طبق روشن کردے۔ ہری مرچ لذت کام ودہن کا وہ جزوِ زریں ہے جس کے بغیر وصال میں ہجر کی تشنگی محسوس ہوتی ہے۔ اور اس کے سنگ زندگی کے دسترخوان پر اگر رنگ بکھرتے ہیں تو وہیں اس کی قربت کا تیکھا پن اندر تک جلا کر بھی عشق کا الاؤ مزید بھڑکا دیتا ہے۔
کچھ لوگ بینگن کی خاصیت رکھتے ہیں اپنے کام سے کام  رکھنے والے۔رنگوں اور شوخی کی اپنی ہی دُنیا میں مگن ۔نہ لینے میں اور نہ دینے میں۔قدردان اپنے ہنر سے سجا سنوار کر جس سانچے میں ڈھالنا چاہے ڈھال لے۔ ساتھی انفرادیت کا خواہش مند ہو تو چمتکار بھی دکھاتے ہیں ورنہ گرد سفر میں گم ہو جاتے ہیں۔
کچھ لوگ کچھ رشتے آلو کی طرح کم مایہ لیکن اہم ہوتے ہیں۔ جب تک ملتے رہیں ساتھ رہیں ان کی قدر کا احساس نہیں ہوتا ۔ہر رنگ میں رنگ جاتے ہیں اور اسے گلنار بنا دیتے ہیں۔ان کا ساتھ طمانیت اور تقویت کا غیر مرئی احساس دیتا ہے۔۔۔ایک ایسا شجرسایہ دار جو ہر آندھی طوفان میں پناہ گاہ ثابت ہوتا ہے۔
۔۔۔۔۔
پڑھنے والوں سے گزارش ہے کہ  کسی سبزی پر اپنا احساس لکھنا چاہیں تو ضرور شئیر کریں۔ شکریہ


بدھ, دسمبر 03, 2014

"لفظ نگری"

  "قاری اور لکھاری"
کسی لکھاری کے لفظ نظر کے لمس کو چھو کر دل پر دستک دیں تو اپنی محبت میں گرفتارکر لیتے ہیں۔ ہم اُن منظروں کےساتھی بن جاتے ہیں جو سوچ سفر کے موسم میں لفظ کی صورت کاغذ پر نکھرتے ہیں۔یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ منظر یہ لہجہ اجنبی نہیں ہمارے دل کی آواز بھی ہے۔قربت کا احساس بڑھے تو محبت عشق میں بدل جاتی ہے۔
لفظ سچا ہو دل سے نکلا ہو تو عشق بھی سچا ہوتا ہے پھر یہ عشق عقل وشعور کی آکسیجن بن کر ہماری آنکھ کے کینوس پربکھرتے رنگوں کو ایک مربوط پیکر میں ڈھال دیتا ہے۔سچا عشق زندگی برتنے،زندگی پرکھنے کا قرینہ سکھاتا ہے۔۔۔زندگی کا مفہوم اُجالتا ہے اور عمر کے بڑھتے سایوں میں قدم قدم پر رہنمائی کرتا ہے۔
لفظ سے عشق کرتے کرتے نہ جانے کب ہم لکھاری کے سحر میں گرفتار ہوجاتے ہیں۔۔۔انجانے میں ہی سہی لفظ سے بڑھ کر شخصیت کی قربت کی چاہ بڑھ جاتی ہے۔اُس کا ہمارے دور میں ہونا یا نا ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ لفظ کی صورت اُس کی قربت کی خوشبو ہمیشہ اپنے حصارمیں لیےرکھتی ہے۔ یہ خوشی بسا اوقات کسک اورخلش اس وقت بنتی ہے جب وہ ہمارے دور میں ہمارے قریب بھی ہو۔۔۔اورمل نہ پائیں ۔اس چاہ کی جھلک اکثر دیکھنے کو ملتی بھی ہے۔۔۔ جب اچانک ہمارا پسندیدہ لکھاری ہمیں اپنے درمیان اپنے قریب نظر آجائے۔ اُس کے دستخط،اس کے ساتھ تصویر اور چند لمحے کی ملاقات ہی اس عشق کی کمائی ٹھہرتی ہے۔یہاں ذرا سی غلطی ہو جاتی ہے کہ ہم لفظ کی طرح لکھنے والے کے وجود کو بہت اونچا مقام دے بیٹھتے ہیں۔ شخصیت کا بُت پہلی نظر یا پہلی ملاقات میں ٹوٹ بھی سکتا ہے۔ اس میں سراسر قصور ہمارا بھی ہے کہ لکھنے والا ہمارے جیسا عام انسان ہی ہوتا ہے اپنے کردار میں اورافعال میں۔ کبھی بت یوں ٹوٹتا ہے۔۔۔جب ہم قول وفعل کا تضاد دیکھتے ہیں یا لفظ اور کردار میں کہیں سے بھی مماثلت دکھائی نہیں دیتی۔اکثر کاغذی رشتے۔۔۔صوتی ہم آہنگی جب رسائی کی حدت میں جذب ہوتے ہیں تو خزاں رسیدہ پتوں کی طرح بےجان لگتے ہیں تو کبھی پُرشور ڈھول کی طرح اندر سے خالی۔ اس لمحے ہماری محبت ہمارا عشق چپکے سے دل کے مدفن میں اُتر جاتا ہے۔ 
لکھاری جس مٹی میں پلا بڑھا ہواس کی خوشبو سے کبھی فرار حاصل نہیں کر سکتا اور مٹی سے وابستہ اس کے پڑھنے والے بھی اسے اسی طور محسوس کرتے ہیں۔ بڑے ادب یا چھوٹے ادب کے فرق سے ناآشنا قاری معاشرے کا عام آدمی ہوتا ہے کوئی مستند نقاد نہیں۔کسی لکھاری کو پسند کرنے والوں کو درحقیقت اس کے لفظ میں اپنے دل اپنی سوچ سے قربت کی مہک آتی ہے۔ لکھاری کے لفظ اس کے عہد اور اس کے ماحول  کے سائے میں پنپتے  تو ہیں لیکن اُس کی ظاہری کردار سے تال میل نہیں کھاتے۔ایک لکھاری انسانوں کی چیختی چلاتی دُنیا میں اپنے اندر کے شور پر دھیان دیتا ہے تو  اردگرد اٹھنے والے تلاطم اُس کے اندر ایک گہری خاموشی اُتار دیتے ہیں۔شخصیت کا یہ تضاد  اس کی اصل طاقت  ہوتا ہے تو  اس کے باطن کی غمازی کرتے ہیں۔
محبت ہو یا عشق۔۔۔رشتوں اورتعلقات کے پڑاؤ سے گزرتا ہو یا لفظ کے لمس سے بارآورہوتا ہو جب تک "مجاذ" سے نکل کر حقیقت کی دہلیز کو نہیں چھوتا تکمیل کی خوشبو سے دورہی رہتا ہے, ہمیشہ درکا بھکاری رہتا ہے سرکا تاج کبھی نہیں بن سکتا۔اسی طرح ایک لکھاری کو معاشی ناہمواریاں اورعائلی ناکامیاں تخلیقِ فن کی معراج پر تو لے جا سکتی ہیں لیکن کامیاب انسان کا لیبل چسپاں نہیں کر سکتیں۔ وقت سب سے اہم پیمانہ ہے۔ جہاں ہم محبت کرنے اسے اپنانے میں اپنی زندگی کی قیمتی سوچ نذر کر دیتے ہیں وہیں مسترد کرنے میں ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کرتے۔ یہی ہماری سب سے بڑی خامی ہے۔جس کا احساس وقت پر ہو جائے تو ہمیشہ کے خسارے سے بچا جا سکتا ہے۔
رشتوں اور تعلقات کی محبت سفرِزندگی کے ساتھ رنگ بدلتی ہے تو ہر رنگ میں خود کو بحسن وخوبی ڈھالتی بھی ہے۔اسی طرح لفظ کی چاہ تتلی کی طرح ہرخوش رنگ پھول کی طرف راغب ہوتی ہے۔۔۔بقدرِظرف اپنا حصہ سمیٹتی ہے اور پرواز کر جاتی ہے۔
اہم بات یہ ہے کہ ہر محبت ہر عشق ہر چاہ اور ہر لمس عارضی ہے،مجازی ہے،دنیاوی ہے۔جب تک اس کا رُخ حقیقی لذت اور روحانی تسکین کی طرف نہیں مڑتا۔۔۔تلاش کا عمل جاری رہتا ہے۔ 
انا کے رنگ گہرے اورعقیدے کے رنگ کچے ہوں تو تلاش کا یہ سفر لاحاصل رہتا ہے۔ 
زندگی کے رنگوں کی قوس قزح جب تک ایک ابدی اورالوہی رنگ کی نشاندہی نہ کرے۔۔۔مکمل تصویر نہیں بنتی۔ لفظ کی تلاش کا سفر جب تک خالق کائنات کے لفظ تک رسائی حاصل نہیں کرتا کبھی اس کا مفہوم واضح نہیں ہوتا۔اسی طرح جو انسان کے لفظ سے انجان ہو وہ رب کے لفظ کی پہچان سے بھی غافل رہتا ہے۔ حق یہ بھی ہے کہ جس کی محبت انسان تک آ کر رُک گئی یا جس کی تلاش انسان کے لفظ پر آ کر ختم ہو جائے وہ ہمیشہ بند گلی کا مسافر ہی رہتا ہے۔
!آخری بات
حقیقی مسرت اورکامیابی انسان کے لکھے لفظ سے انسان کے لیے لکھے لفظ تک جذبیت میں پوشیدہ ہے۔

"سیٹل اور سیٹل منٹ"

سورۂ فرقان(25) آیت 2۔۔   وَخَلَقَ كُلَّ شَىْءٍ فَقَدَّرَهٝ تَقْدِيْـرًا ترجمہ۔ اور جس نے ہر شے کو پیدا کیا اور پھر اس کے لیے ایک اند...