ہفتہ, جون 29, 2013

"فرنٹ سیٹ "

مرد اورعورت کا  باہمی رشتہ جسے زندگی بھر کا ساتھ کہا جاتا ہے درحقیقت ڈرائیور اورسواری کا ہے۔ عام معاشرتی رویے میں ڈرائیور گاڑی کا مالک ومختار ہوتا ہے۔۔۔ وہ اپنی مرضی کے سٹاپ پر گاڑی روکتا ہے۔۔۔ سواری اُس کی رضا پر رہتے ہوئے کہیں جانےیا نہ جانے کا فیصلہ کرتی ہے۔ لوگ گاڑی اورڈرائیور دیکھ کر سواری کی خوش نصیبی کا تعیّن کرتے ہیں۔ اس بات سے بےخبر کہ ڈرائیور کتنے غیرمحتاط طریقے سے گاڑی چلا رہا ہے؟ ڈرائیور اتنے لمبے سفر کی اہلیت رکھتا ہے یا نہیں ؟ گاڑی چلانے کا لائسنس مل جاناکسی کے بہترین ڈرائیور ہونے کی ضمانت نہیں۔ ایک چیز روڈ سنس ہے۔ سپیڈ بریکر یا کسی گڑھے کے عین سامنے پہنچ کر گاڑی رُکتی ہےتوسواری کسی اذیت سےگزرتی ہے وہ نہیں جانتا۔وہ اپنی پسند کا میوزک اونچی آواز میں سنتا ہے۔۔۔کسی منزل تک پہنچنے کے لیے اپنے فہم کے مطابق راستہ اختیار کرتا ہے۔۔۔ خواہ آگے جا کر وہ ایک بند گلی ہی کیوں نہ ہو۔ ڈرائیور سواری بٹھانے کے زعم میں مبتلا ہوتا ہے۔اُس کے خیال میں وہ دُنیا کا عقل مند ترین شخص اور سواری احساسات سے عاری کسی شے کا نام ہے۔وہ چاہتا ہے کہ یہ شے اُس کی ہر بات پر بغیر کسی منفی تاثر کے ہاں میں ہاں ملاتی چلی جائے۔
ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہےاور اللہ کسی پر اُس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔ اللہ کی رضا سے اگر ڈرائیور اور سواری کا ساتھ چھوٹ جائے۔۔۔ یا سواری اپنے آپ کو اس قدر مضبوط بنانے کی کوشش کرے کہ وہ اپنی گاڑی آپ چلا سکے تو پھر کہانی کا نیا موڑ یوں آتا ہے کہ سواری جس ڈرائیور کا انتخاب کرتی ہے وہ اُس کی مرضی کے تابع ہوتا ہے۔ وہ جہاں چاہے، جب چاہے، جس جگہ چاہے جا سکتی ہے۔ یہ مقام بڑی جدوجُہد اورقربانی کے بعد ملتا ہے۔۔۔بادی النظر میں تو یہ محض فرنٹ سیٹ سے بیک سیٹ کا سفر ہے۔۔۔ اورفرنٹ سیٹ بھی وہ جس کی بناوٹ میں پیوست نادیدہ سوئیاں اُسے کسی پل چین سے بیٹھنے نہ دیتی تھیں۔۔۔ ذرا سی ہلچل بھی ڈرائیورکی طبعءنازک پر ناگوار گزرتی تھی۔پچھلی سیٹ بظاہر تو بڑی آرام دہ اور پُرسکون دکھائی دیتی ہے۔۔۔ لیکن اتنی نازک ہے کہ اُس کی دیکھ بھال اور حفاظت کی کّلی ذمہ داری زندگی کی آخری سانس تک سر اُٹھا کر کرنا ہے ستم یہ کہ شکوے کی گنجائش بندوں کو تو چھوڑیں رب سے بھی نہیں ہے۔
قصہ مختصر فرنٹ سیٹ کے شیشے  اگرسختی سے بند تھے تو اے سی تو کام کر رہا تھا جبکہ پچھلی سیٹ پر اےسی (معاشرہ ) کی کولنگ مناسب نہیں ہے۔ شیشے نیچے کرنا چاہیں تو گرم لّو کے تھپیڑے نڈھال کر دیتے ہیں۔
! آخری بات
مرد عورت گاڑی کے دو پہیے ضرورہیں لیکن مرد کی مردانگی اُسے دوسرے پہیے کی اہمیت تسلیم کرنے سے روکتی ہی رہتی ہے۔اب یہ دوسرے پہیے کے ظرف کا کھیل ہے کہ وہ اپنی اہمیت جان کربھی کس طرح فاضل پہیے کی صورت اپنا سفر جاری رکھتا ہے۔
اکتوبرر2011،11

" ہنڈ ولا "

" آخری کہانی"
 اپنی بھرپور موجودگی کے مادّی اسباب کے ساتھ فرش سے عرش پر یا پھر شاید عرش سے فرش تک کا ایک طویل سفر طے کرنے کے بعد عورت اتنی تہی داماں ہو جاتی ہےکہ آخرکار پھونکیں مار کر اپنے ہی وجود کی بھٹی میں آگ سُُلگاتے ہوئے راکھ بنتی جاتی ہے۔اُس کی اہمیت کبھی ختم نہیں ہوتی ،پہچان ختم ہو جاتی ہے۔ آکسیجن کی طرح بےرنگ، بےبُو، بےذائقہ ہوجاتی ہے۔ڈھونڈنے والے' اُس کی طلب ' سے بےنیاز اُسے اپنے رنگ میں کھوجتے ہیں۔
"اپنی نظر کی عینک سے بھی کبھی کائنات کا احاطہ ممکن ہو سکا ہے؟"
 وہ آکسیجن جو بے بول بن مانگے ملتی رہتی ہے تو اُس کی قدر وقیمت کا احساس کبھی نہیں ہوتا ۔کچھ حقیقتیں آخری سانس آخری منظر سے پہلے آشکار نہیں ہوتیں -عورت بھی اِنہی سچائیوں میں سے ایک ہے۔
31 دسمبر 2012
ََ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"حساب کہانی "
کچھ نہ کچھ ہوگا اللہ بہتر جانتا ہے زمین کی کروٹ سے پہلے جب چرند پرند خوف زدہ ہو جاتے ہیں تو انسان کا اپنے ہی وجود میں پیوست ٹائم بم کی ٹک ٹک سُننا اچنبھے کی بات ہر گز نہیں ۔
یکم جنوری 2012۔۔۔۔
امی۔۔ 10 جنوری 1945 ۔۔۔ 67 برس 
 بیٹی۔۔ 25 جنوری 1967 ۔۔ 45برس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"اور کہانی ختم ہو گئی "
لیکن کہانی کبھی ختم نہیں ہوتی ۔ایک نئے عنوان سے جنم لینے والی کہانی درحقیقت وہی پرانی کہانی ہے۔
مارچ 4۔ 2012 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"نئی کہانی "
 بھرپور مہارت سے اپنے جسم وجاں کی ساری توانائی خرچ کر کے ڈرامے کا مرکزی کردار نظروں سے یوں اوجھل ہوا کہ ایک ثانیے کو ایسا لگا کہ میلہ ہی اُجڑ گیا ہو۔ لیکن یہ زندگی ایک کھیل۔۔۔ ایک تماشا ہی تو ہے۔ کردار آتے ہیں۔۔۔ کام کرتے ہیں۔۔۔ داد سمیٹتے ہیں اورچلے جاتے ہیں۔ نئے کردار نئی کہانی اتنی تیزی سے آگے بڑھاتے ہیں کہ نظر ابھی پچھلے منظر سے سَیر نہیں ہو پاتی کہ نیا موڑ آجاتا ہے۔ کیا ہیں ہم لوگ ؟ کیا ہے ہماری زندگی ۔؟ المیہ یہ ہے کہ کہانی بھی وہی ہے۔۔۔ کردار بھی وہی ہیں۔۔۔ سٹیج بھی وہی ہے۔۔۔ لیکن صرف ایک کردار کے چلے جانے سے ہر کردار اپنی ہئیت یوں تبدیل کرلیتا ہے کہ اُس کے برتاؤ میں زمین آسمان کا فرق آ جاتا ہے۔ ایکسڑا کردار بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتے ہیں کہ اپنی مرضی کے سین شامل کرتے جاتے ہیں۔ بظاہر یوں دکھتا ہے کہ سب بھانت بھانت کی بولیاں بول رہے ہیں۔۔۔ کہانی ایک دائرے میں آگے بڑھ رہی ہے۔ لیکن جو بھی ہے تماشائی اس صورت ِحال سے خوب لطف اندوز ہوتے ہیں۔۔۔اُنہیں کسی سے ہمدردی نہیں ہوتی۔ اگر ڈرامے کی مقبولیت کے دور میں وہ رشک وحسد سے تالیاں پیٹتے تھے۔۔۔ تو اب اس نفسا نفسی کے عالم میں بھی خودغرض بن کر نہ صرف تالیاں پیٹتے ہیں بلکہ 'ونس مور'کی صدا بھی لگائے جاتے ہیں۔ اس بات سے بےخبر کہ شاید آگے جا کر وہ بھی اس ڈرامے کا ایک کردار بن جائیں۔
وہ اس بہترین ڈرامے کا بدترین انجام  دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہ بات قطعی فراموش کر ڈالتے ہیں کہ یہ دُنیا اگر ایک کھیل تماشا اور دھوکہ ہے تو یہ دُنیا "مکافات ِعمل" بھی ہے۔اس میلے میں ہماری زندگی اونچائی کے رُخ پر بنا وہ گول جھولا ( ہنڈولا) ہے جس میں اگر ہم بلندی پر جاتے ہیں تو ذرا دیر بعد نیچے آنا بھی ہماری قسمت ہے۔
یکم اپریل 2012
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"حیرت کہانی "
یہ تو پتہ تھا کہ کچھ  ہوگا لیکن یہ معلوم نہ تھا کہ بہت کچھ ہو گا اور کارپٹ بومبنگ کی طرح ہوتا ہی چلا جائے گا اور وہ ہو گا جو اپنے آس پاس سنتے اور دیکھتے تو تھے یہ نہیں پتہ تھا کہ اس آتش فشاں کی راکھ میں اپنا گھر بھی آ جائے گا ۔ اس راکھ میں سے روشنی کی کرن تلاش کرنا اور نئے سرے سے نئی منزلوں کی تعمیر کرنا زندگی کی سب سے بڑی کمائی اور کامیابی ہے۔
دسمبر31۔۔2012
۔۔۔۔۔۔۔۔
بارہ برس قبل لکھے درج ذیل  لفظ آج اس لمحے بھی حسب حال ہیں۔بحیثیت قوم ہمارا حال ذرا سا بھی نہیں بدلا۔
" بمباری "
میں
 صبح سے شام کرنے والی
 ایک عام سی عورت ہوں
 لیکن
جب میں پڑھتی ہوں
'سُپر پاور ' اپنے دوستوں پر
 'غلطی" سے
  بم برسا دیتا ہے 
ایسے بم
کہ ادھوری نسلیں
 بانجھ زمینیں
 اُن کا ثمر ہیں
 میں سوچتی ہوں
سپر پاور کیا ہے  
فقط ایک چین ریکشن
 نسل ِآدم کے ہر مرد میں
 اس کے ذرات ہیں
 اور 
حوا کی بیٹی 
باغی نسلیں جنم دے رہی ہے
۔۔۔
میرا احساس ::
 " جنوری 2002 ! جب سپر پاور نے افغانستان پر پہلی بار "غلطی " سے ( carpet bombing) کی "


بدھ, جون 26, 2013

" قیمت "

 کسی مکان کا کرایہ اُس کے محل ِوقوع ،اُس کی خوبصورتی اور اُس کی افادیت کے مطابق ہوتا ہے۔ سب سے پہلے محل ِوقوع آتا ہے۔ جو مکان جتنا شہر کے درمیان ہو گا، جتنے خوبصورت ماحول میں ہو گا۔۔۔اُتنی ہی اس کی قدروقیمت بڑھتی جائے گی۔ دوسرے نمبر پر خوبصورتی آتی ہے کہ عمدہ طریقے سے بنا ہو گا توآنکھوں کو بھلا لگے گا۔پھر افادیت کہ اُس میں رہنے والوں کے آرام وسکون کے لیے کیا مہیا کیا گیا ہے۔
 کچھ مکان بظاہر ان تمام خصوصیات سے لیس ہوتے ہیں لیکن اُن میں غیرمحسوس انداز میں ایسا ہوتا ہے کہ رہنے والے   پل پل   بےچین رہتے ہیں،کہنے کو کچھ نہیں کہہ سکتے مثال کے طور پر بعض مکانوں میں نہ جانے کہاں سے سیم آ جاتی ہے یا پھر کہیں نہ کہیں دیمک لگی ہوتی ہے۔۔۔کبھی فرش اتنے چکنے ہوتے ہیں کہ ہر وقت سنبھل کر چلنا پڑتا ہے۔۔۔کبھی اتنے نازک شیشے ہوتے ہیں کہ اُن کو برتتے برتتے انسان خود ریزہ ریزہ ہو جاتا ہے۔یہ سب بادی النظر میں نہیں دکھتا جیسے کہیں قیمتی اور بھاری پردے ڈال دئیے جاتے ہیں۔۔۔کہیں گرنے کے خوف سے انسان چلنا ہی بھول جاتا ہے۔۔۔کہیں ٹوٹنے کے ڈر سے چیزوں کا استعمال متروک ہو جاتا ہے۔ جو بھی ہو کرایہ دار کو اِن تمام خصوصیات اور سہولیات کے مطابق ہی کرایہ ادا کرنا پڑتا ہے۔
کچھ مکان محل ِوقوع کے اعتبار سے تو خاص نہیں ہوتےپراُن کی بناوٹ اورخوبصورتی لاجواب ہوتی ہے۔انسان اس کی کشش میں افادیت کے بارے میں بھی سمجھوتہ کر لیتا ہے۔۔۔ جیسے شہر سے باہر بنا کوئی مکان جس میں گیس بجلی کی فراہمی بھی مستقل نہ ہو کرایہ اس کا بھی زیادہ ہی ہوتا ہے۔
 کچھ مکان اپنی افادیت کے لحاظ سے اپنی مثال آپ ہوتے ہیں۔وہ اگرچہ شہر سے باہر ہوتے ہیں،شہر کےاندر بھی ہو سکتے ہیں  یا پھرعالیشان محلوں کے بیچ ۔یہ اپنی دُنیا آپ ہوتے ہیں اِن میں وہ سب کچھ ہوتا ہے کہ باہر دیکھنے کی بھی فرصت نہیں ملتی۔ وہ کسی اُونچی پہاڑی پر بنا کسی کا ایک کمرے کا گھر بھی ہو سکتا ہے جس میں درمیان میں چولہا رکھ کر گھر گرم کیا جاسکتا ہے۔ یہ دریا کنارے بنی ایک کُٹیا بھی ہو سکتی ہے جو چراغ روشن کر کے مسافروں کی راہنمائی کرتی ہے۔ یہ کسی لق دق صحرا میں نخلستان کا وہ گوشہ بھی ہو سکتا ہے جو بھٹکے ہوؤں کو سیراب کرتا ہے۔کرایہ دار کو کرایہ یہاں بھی ادا کرنا پڑتا ہےجو کہ باہمی اعتماد ومشاورت سے طے کرلیا جاتا ہے۔ 
 کرایہ دار وقت کے ایک خاص فریم کا حصہ ہوتا ہے۔اُس کی اصلیت اُس کے جانے کے بعد کھلتی ہے۔۔اُس کے سامنے کسی کو اُس کے گھر جھانکنے کی بھی اجازت نہیں ہوتی اور نہ ہی مالک مکان اپنا استحقاق استعمال کرتا ہے۔ کبھی کرائے دار گھر تباہ وبرباد کر کے چلے جاتے ہیں۔۔ بس چلے تو بہت کچھ اُکھاڑ کر بھی لے جاتے ہیں۔ بعد میں جابجا اُدھڑے پلاسٹر۔۔۔ٹوٹے شیشے اور کائی زدہ بدبو دار کمرے جانے والوں کے اندر کا حال سناتے ہیں۔ کبھی کوئی مکین اتنا محتاط بھی ہوتا ہے کہ اپنی موجودگی کا ذرا سا بھی نام ونشان نہیں چھوڑتا ۔وہ امانت دار کے طور پر ایک سرائے جان کر قیام کرتا ہے۔۔۔ نہ کچھ لیتا ہےاور دینے کے وقت بھی کنجوسی کی حد تک احتیاط برتتا ہے۔
 یہ دونوں رویے غلط ہیں۔ دُنیا اگر ایک سرائے ہے تو یہ چلتی رہتی ہے۔۔۔میلہ لگا رہتا ہے۔ ہمارے بعد آنے والوں نے یہاں اسی جگہ قیام کرنا ہوتا ہے۔ وہ ہمارے قدموں کے نشان سے اس سرائے کے اسرارورموز جاننے کا حق رکھتے ہیں۔ہمارا رویہ قیام کے دوران اچھا یا برا محض اس وجہ سے ہوتا ہے کہ ہم نے یہاں کیسا ماحول پایا؟ اور ہمیں یہاں سے کتنا فیض حاصل ہوا۔ ہم میں سے بہت کم یہ سوچتے ہیں کہ ہم نے کہاں تک اپنی آمد اور قیام کا حق ادا کیا۔
یہ ساری تمہید آدم وحواکی وہ ازلی کہانی ہے جو آج تک اپنی تلخ سچائی کے ساتھ جاری وساری ہےـ
 مرکزی کردار مکان یعنی مرد کا ہے اورعورت اپنی تقدیر کے مطابق الاٹ شدہ مکان کی ادائیگی کرتی رہتی ہے۔
محل ِوقوع سے مراد مرد کا وہ مقام ہے جو معاشرہ اُس کی محنت  قابلیت اور صلاحیت کے مطابق اُسے عطا کرتا ہے۔ خوبصورتی سے مراد مرد کا معاشی طور پر مُستحکم ہونا ہے۔ زندگی کی گاڑی کے پہیےکو رواں رکھنے کے لیے پیسہ بہرحال گریس کا کام دیتا ہے۔افادیت محبت کے ہم پلہ ہے جس کی اہمیت کبھی کم نہیں ہوتی۔کسی بھی چیز میں کمی بیشی اُس کی افادیت کو ملحوظ ِخاطر رکھ کر برداشت کی جاسکتی ہےلیکن اگر صرف افادیت یکھی جائے اور باقی چیزوں کو پس ِپُشت ڈال دیا جائے تو پھر افادیت بچتی ہے اور نہ سائباں صرف چاردیواری ہی رہ جاتی ہے۔
 ہمارے معاشرتی نظام سے منسلک گھر میں مرد اور عورت  یکساں  اہمیت  کے حامل ہیں۔
۔۔عورت گھر کی سب سے قیمتی "شے" ہے  تو مرد گھر کے لیے سب سے ضروری "عنصر"۔۔
۔(بادی النظر میں بیان کیے گئے گئے جملے سے شدید اختلاف کیا جا سکتا ہے کہ مرد اور عورت احساسات و جذبات میں گندھے جیتے جاگتے انسان ہیں جبکہ "شے اور عنصر"  جیسے  الفاظ مادی اور بےجان اشیا  چیزوں کے ضمن میں استعمال ہوتے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ زندگی الفاظ کے اُلٹ پھیر سے سمجھ نہیں آتی لیکن  زندگی برتنے کا قرینہ سیکھنے میں ذہن کے پردے پر جھلملانے   والے ہر نقش،ہر عکس اور ہر لفظ کا اپنا کردار ضرور ہوا کرتا ہے)۔
جس گھر میں قیمتی اشیا کی قدر نہ ہو اور ضروری کی اہمیت کا احساس  نہ ہو وہ گھر نہیں محض سرائے  ہی کی حیثیت رکھتا ہے۔ جہاں جیب  میں کھنکتے سکوں کی موجودگی سب کچھ قابلِ حصول  اور گرفت میں ہونے  کا یقین دلاتی ہے۔ایسے گھر میں معاشرتی اور مذہبی اقدار کی گرہیں اپنے اپنے مدار میں رواں تو رکھتی ہیں لیکن فرار کی بےسود خواہش کبھی سرد نہیں ہوتی۔
!حرف ِآخر
قیمت!یہ چارحرفی لفظ ہماری زندگی کا نیوکلیس  ہی توہے۔ہماری کامیابیاں۔۔۔ہماری ناکامیاں اس کے مدار میں گھوم رہی ہیں۔
 جان کی قیمت مال ہوسکتی ہے اورمال کی جان۔ایمان کی قیمت عقل ہےاورآخرت کی محنت۔سکون کی قیمت برداشت ہے۔۔۔ درگزر ہے توعذاب کی قیمت ناشکری ہے۔ صبح کی قیمت ایک اندھیری رات ہے تو پُرسکون رات کی قیمت ایک تھکا دینے والا دن بھی ہے۔
" رشتوں کی قیمت سمجھوتہ ہے تو دوستی کی بے نیازی"


پیر, جون 17, 2013

" سمندر اور بہتا چشمہ "

"دل دریا سمندروں ڈونگے کون دلاں دیاں جانے ہو " 
 سمندروں کو ہی سمندروں کا سراغ ملتا ہے۔عام ندی نالے کیا جانیں سمندر کی وسعت اور اُس کی آغوش جو ہر درد کا درماں بن جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سمندر کا پانی میٹھا نہیں ہوتا۔اُس کے پانیوں میں ٹھہری صدیوں کی ناآسودگی اُسے کھارا بنا دیتی ہے جس سےنگاہ کی تسکین تو ہو جاتی ہے۔ وجود کی تشنگی تو سیراب ہوسکتی ہے۔لیکن پیاس کی شدّت کم نہیں ہوتی۔
 سمندر صرف ایک بات پر فوقیت رکھتا ہے کہ اُس کی پناہ ہر روگ سے جان چھڑا دیتی ہے۔جبکہ ندی نالے ہر خواہش سے بےپروا صرف بہتے چلے جاتے ہیں۔گنگناتے۔۔۔ اونچے نیچے رستوں سے گزرتے۔۔۔شور مچاتے۔۔۔ پینے والوں کو سیراب کرتے۔۔۔۔
 سمندر اُس کی محبت نہیں تھا۔۔۔عشق نہیں تھا۔۔۔جنون نہیں تھا۔وہ سمندر سے ہزاروں میل کی دوری پر تنہا بہتا ایک میٹھا مدھر چشمہ تھا۔جو ہر ملن۔۔۔ہر ملاپ کی لذت سے ناآشنا بس اپنی مستی میں جئے جاتا تھا۔سمندر کی نارسائی اُس کی روح میں تو تھی لیکن جسم میں نہیں۔اُس کی طلب بہتے جانا اور پاتے جانا تھی۔صاف شفاف بہتا پانی جو اپنے اندر عجائبات ِفطرت کی خوبصورتی کا ایک جہان آشکار کرتا ہے۔اپنی طرف ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے والوں کو خوشی عطا کرتا ہے۔ ان کے لیے خاص ہے جو ایک راہ پر چلیں اور پلٹ کر نہ دیکھیں۔
 دور سانس لیتے لامحدود سمندروں کے نگر نگر پھرنے والے مسافر۔۔۔ مہینوں جن کے قدم مٹی کو چھو نہیں پاتے وہ کبھی اس لذت کے امین نہیں ہو سکتے۔ بہت سوں کو توبعد میں مٹی کی چادر بھی نصیب نہیں ہوتی۔اس میں شک نہیں کہ سمندروں کی وسعت قدم روکتی ہے۔۔۔اُس کا سحر چاندنی راتوں میں بےچین کر دیتا ہے۔۔۔مدوجزرکہانی دل ودماغ کو اتھل پتھل کر دیتی ہے۔سمندر کا کنارہ بھی تو کنارہ نہیں ہوتا۔۔۔قدموں تلے ریت قدم روکتی ضرور ہے پرقدم جمانے کی اجازت کبھی نہیں دیتی۔ وہ ریت جس پر خوابوں کے گھروندے تو تعمیر کیے جا سکتے ہیں لیکن ارمانوں کے محل ذرا سی ٹھیس لگنے سے بکھر جاتے ہیں۔
 بہتے چشموں اور سرسبز پہاڑوں کے بیچ بنے مٹی کے گھرمقدر کی لینڈ سلائیڈوں اورطوفانی بارشوں کے آسیب میں  ہمہ وقت گرفتار رہتے ہیں۔ فطرت سے قربت کا احساس اپنی زندگی اپنی مرضی سے جینے اور پھر اسی مٹی کی خاک میں خاک ہونے کا اطمینان ہزارخواہشوں پر بھاری ہے۔
!حرفِ آخر
 دکھ۔!!! کبھی بہتا چشمہ دیکھا ؟۔۔۔۔قریب سے؟۔۔۔اس میں بہت سے رنگ دکھتے ہیں ۔۔ایک پوری کائنات۔۔۔۔
 ہمیں اس کے رنگوں سے غرض نہیں ہونا چاہیے بس اپنی پیاس کا خیال رکھنا اہم ہے۔ناسمجھ آنکھ رنگوں کی کھوج میں آخری رنگ پیاس کا سمجھتی ہے اور خود کو چشمہ۔
 بہتا چشمہ چاہے پانی کا ہو یا محبت کا ہمارے حصے میں ہماری مٹھی کے برابر ہی آتا ہے۔اس سے زیادہ کی لاحاصل خواہش ہمیں سیراب ہو کر بھی تشنہ رکھتی ہے۔بہتے چشمے بہت نازک ہوتے ہیں ذرا سی رُکاوٹ دیکھ کر خاموشی سے رُخ تو بدل لیتے ہیں لیکن کبھی خشک نہیں ہوتے۔۔۔"
بہتے چشمے سے کوئی فیض نہ اٹھائے تو یہ چشمے کی نہیں پیاسے کی کم بختی ہے"۔۔

جمعہ, جون 14, 2013

" حمید کاشمیری " ایک تاثر

 ایک انسان دوست منفرد لکھاری
ڈرامہ نگار،ناول نگار اور کالم نگار
مُختصر تعارف
تاریخ ِپیدائش :یکم جون ۔۔۔۔۔۔1930
جائے پیدائش ۔۔۔۔۔۔ بانسرہ گلی تحصیل مری ۔۔۔ پاکستان
تاریخ ِوفات : 6 جولائی ۔۔۔۔2003
جائے مدفن ۔۔قبرستان میوہ شاہ کراچی
زندگی میں انسان احساسات کے مختلف مراحل طے کرتا ہے۔ دیکھنا ،سمجھنا ،محسوس کرنا پھرجذب کرنا اور آخری مرحلہ اُس کا اظہار بھی ہے۔ یہ وہ صلاحیت ہے جو ہرانسان کو ودیعت کی گئی ہے اب یہ پہچان کا کھیل ہے کہ کوئی اُس کو اپنی زندگی میں کس طرح شامل کرے۔
حمید کاشمیری کا نام ذہن کے اُفق پر اُس وقت اُبھرا جب میں دیکھنے اور جذب کرنے کے مرحلے میں تھی اور اس شخصیت کی گہرائی اور سوچ سے ناواقف تھی ۔ زندگی کے مختلف چہروں کی نمائندگی کرتے اُن کے ڈراموں کے رنگ برنگ کردار اپنی طرف متوجہ کرتے۔ پل بھر کو گرفت میں لیتے پھر کہیں اور کوئی خوشبو مجھے اپنی جانب لے جاتی۔ یہ رنگوں اور خوشبوؤں کی دنیا تھی اور میں تتلی کی طرح بےقرار روح ۔ رفتہ رفتہ اِس لکھاری کا نام میرے احساس میں اپنی جگہ بناتا چلا گیا ۔جب شوخ رنگوں سے پرے زندگی کے کڑوے کسیلے پھیکے رنگ بھی دیکھنے کو ملے تو اُن کی تحاریر پرنظر تھم سی گئی ۔عورت کہانی کو اُن کے ڈراموں کی شکل میں مجسم دیکھا تو یہ حساس لکھاری بہت اپنا اپنا سا لگا۔
وہ مشفق باپ جو بیٹیوں سے محبت بھی کرتا تھا اور اُن کے دکھ اسے بےچین بھی رکھتے۔ وہ محبت کے ہاتھوں مجبور اُن کے پاؤں کے چھالوں کا مرہم بننا چاہتا۔اُس کے بس میں ہوتا تو راستے کے سارے کانٹے پلکوں سے چُن لیتا لیکن اُس کےہاتھ میں قلم تھا۔اُس نے قلم کو اپنی طاقت بنا کر معاشرے میں عورتوں کے ساتھ روا جانے والی ناانصافیوں اور ظلم کے خلاف آواز بلند کی لیکن اس انداز میں کہ شفقت ِپدری بھی ماند نہ پڑتی اور محبت کی خوشبو پتھر دلوں کو ایک لحظہ سوچنے پر اُکساتی۔وہ لکھتا رہا۔۔۔وہ بھول گیا کہ وہ ایک مرد ہے آزاد ،خود مختار ،طاقت ور جو چاہے کرے۔اُسے یاد رہا توبس یہ کہ وہ ایک باپ ہے جس کا دھیما لہجہ ہی بیٹیوں کےکامیاب مستقبل کا ضامن ہوتا ہے۔حسن ِاتفاق کہ اُس عظیم لکھاری کی بیٹی میری دوست بن گئی۔16 جنوری2002کی ایک شام پہلی اور آخری بار جناب"حمید کاشمیری"کو قریب سے دیکھا اور سنا۔اُن لمحوں کی یادگارمیری ڈائری میں جگمگاتے اُن کے ہاتھ سے لکھے یہ لفظ میرا اثاثہ ہیں۔۔۔
۔"خدا آپ کو زندگی کے ہر امتحان میں کامیاب وکامران کرے ہمیشہ عزت کے ساتھ زندہ رہیں"۔
یہ لفظ اُن کی شخصیت کی عملی تفسیر بھی تھے کہ عزت ہر شے کی مقدم ہے۔ زندگی کے رنگوں کو اجاگر کرنے میں شاید اُن کا اتنا ہی حصہ تھا کہ ایک سال بعد جولائی 2003 کو وہ اس جہان ِفانی سے کوچ کر گئے۔ لیکن اپنے رنگ تحاریر کی صورت اور اپنی خوشبو اپنی بیٹوں میں چھوڑ گئے۔وہ محبت جو اُن کے لفظوں میں جھلکتی تھی اب اُس کا عکس اُن کی بیٹی کی آنکھوں میں ملنے لگااور بیٹی صدقۂ جاریہ کی مثال بن گئی۔لفظ سے محبت جو اُس کے خون میں تھی اب یہ کشش اُسے قرآن کے قریب لے آئی۔اُس نے قرآن پڑھنا،سمجھنا اور لکھنا شروع کر دیا۔۔وہ اٹک اٹک کر پڑھتی، سمجھ کر دُہراتی اور کاغذ قلم تھام کر مشکل سے لکھتی۔ یہ بہت کٹھن اور لمبا سفر تھا۔وہ سر جھکائے دھیمی رفتار سے اپنی راہ چلتی رہی یہاں تک کہ 2013 آن پہنچا اور یکم جون 2013 کو شاید ہی کسی بیٹی نے اپنے لکھاری باپ کو اس کے جنم دن پر اتنا انمول تحفہ دیا ہو گا کہ اُس نے ساڑھے چھ سال کی مدت میں پورا قرآن پاک ترجمہ تفسیر کےساتھ باقاعدہ طور پرمکمل پڑھا اور اب 7جولائی 2013 کو اس لکھاری کی دسویں برسی پر صدقۂ جاریہ کا یہ بےمثال تحفہ یقیناً حیات ِابدی میں اُن کے لیے خاص ہو گا۔ان شاءاللہ
کل رات جناب حمید کاشمیری سے ایک بار پھر ملاقات کا موقع ملا۔ لیکن اس بار وہ خود نہیں تھے اُن کی خوشبو تھی ۔۔۔اُن کے رنگ تھے۔۔۔اُن کی زندگی کا سرمایہ تھا جو میری نظروں کے سامنے تھا۔ جناب کی اہلیہ،تین بیٹیاں،ایک بیٹا اوراُس کی شریک ِحیات سے ملاقات ہوئی ۔عقل نے ایک بار پھر دل کی گواہی کا ساتھ دیا وہ واقعی لکھاری باعمل تھا۔جو آہنگ،دھیما پن، اورمحبت کی نرمی اُن کے لہجے اُن کے لفظ میں تھی وہ اُن کے جگرگوشوں میں بھی درجہ بدرجہ دیکھنے کو ملی ۔اپنائیت اور گرم جوشی کا احساس میرا اپنی سوچ پر یقین مستحکم کر گیا کہ لفظ کو زوال نہیں اگر سچا ہے دل سے نکلا ہے تو اُس کی عظمت چہرے کی سرخی بن کر خون میں شامل ہو جاتی ہے اوراُس کی چمک دیکھنے والی نگاہوں کو خیرہ کرتی ہے۔
آج 15 جون 20013 کو اُن کے اُسی نواسے کی زندگی کا اہم ترین دن ہے جب وہ ایک نئے سفر کا آغاز کر رہا ہے۔وہ نواسا جس کی محبت اُنہیں کشاں کشاں شہر ِکراچی سے ان سردیوں کی شاموں میں لے آئی تھی۔اور میری یاد کے آرکائیو میں آتش دان کے قریب اُن کا سراپا ہمیشہ کے لیے ٹھہر گیا۔
اللہ پاک سے دل کی گہرائیوں سے دعا گو ہوں کہ
اُن کے گھرانے پر ہمیشہ چاہتوں اور برکتوں کی پھوار رم جھم کی صورت برستی رہے اور صحت سلامتی والی زندگی کے ہمراہ بچوں کی خوشیوں کا چراغاں اس گھر پر یوں ہی جاری وساری رہے۔ زندگی کا یہ نیا سفر جسمانی اور ذہنی سکون کی نوید لیے رواں دواں رہے۔
نم آنکھوں کا یہ احساس بھی میرے ہمراہ ہے کہ وہ باپ جس کی خوشبو نے مجھے یہ لفظ لکھنے پر مجبور کیا اگر وہ یہاں ہوتے تو نہ جانے اپنی محبتوں کو کس انداز سے سپرد ِقلم کرتے۔
کیسے اپنے لفظوں کی مالا پرو کر اپنی لخت ِجگر کے ٹکڑے کا سہرا لکھتے۔ اُسے اپنی کن دعاؤں اورچاہتوں سے نوازتے۔ جانے کیسے خواب بسے تھے اُن کی آنکھوں میں اپنے پیاروں کے لیے۔اب ان خوابوں کی تعبیر کے موقع پر خوشی کے آنسو جُدائی کے دُکھ پر حاوی ہو گئے ہیں شاید یہی اُن کی آخری خواہش بھی تھی کہ اُن کا باغ سدا خوشیوں سے مہکتا رہے۔
اللہ پاک جناب حمید کاشمیری کے درجات بلند کرے اور اُن کے اہل ِخانہ کواپنے گھروں میں شاد وآباد رکھے۔
آمین یا رب العالمین
! آخری بات
علم کتاب میں نہیں زندگی میں ہے جو علم کتاب میں قید ہو وہ بُک شیلف کی زینت تو بن سکتا ہے لیکن دل کی الماری کے کواڑ تک بھی نہیں پہنچ پاتا۔


جمعرات, جون 13, 2013

" واپسی "

ایک ماں کا وجود
 مٹی کے سپرد کر کے 
ایک ماں کی مٹی 
وجود میں گوندھنے کی
 خواہش لے کر
 وہ
 اپنی دُنیا میں لوٹ آئی

"ماضی حال "

"ماضی حال "
کھونے سے کل بھی ڈر لگتا تھا
بچھڑنے سے آج بھی ڈر لگتا ہے
گرنے سے کل بھی ڈر لگتا تھا
ٹوٹنے سے آج بھی ڈر لگتا ہے 
اندر کا بچہ کبھی بڑا نہیں ہوتا
 سر اُٹھانے سے سایہ جدا نہیں ہوتا

۔۔۔۔۔۔
چاہو تو رستہ مل ہی جاتا ہے
میں بے سمت جنگل تو نہیں
۔۔۔۔۔۔
تبسم چہرے سے عیاں ہے
تھکن آنکھوں میں نیہاں ہے
سفر دستورِزمانہ ٹھہرا ورنہ
مقدر لکیروں میں پنہاں ہے
۔۔۔۔۔

" وہ "

" اُداس لمحوں میں رہنے والی اُداس لڑکی "
اُداس رنگوں میں سجنے والی
رنگین لڑکی
اُداس باہوں میں سمٹنے والی 
حسین لڑکی
اُداس کانٹوں پہ چلنے والی
گلاب لڑکی
اُداس راہوں پہ سوچنے والی
خواب لڑکی
اُداس سوچوں میں آنے والی
تسکین لڑکی
اُداس نظروں میں بسنے والی
جبین لڑکی
اُداس آنکھوں پہ مٹنے والی
غزال لڑکی
اُداس لبوں پہ بکھرنے والے
 سوال لڑکی

پیر, جون 10, 2013

" معصومیت "

معصومیت قدرت کا نام ہے۔
یہ مالک کے کرم میں ہے۔ موسم کے بدلنے میں ہے۔ پھول کے بے پروا کھلنے میں ہے۔ تتلی کے اُڑنے میں ہے۔ نرم ہوا کے لمس میں ہے ،ایک پل کی دھوپ چھاؤں میں ہے۔ بارش کی رم جھم میں ہے۔ کوئل کی کوک میں ہے۔
بچے کی ہنسی میں ہے ۔ لڑکی کی دوشیزگی میں ہے۔ لڑکے کی حیرت میں ہے۔عورت کےبھروسے میں ہے۔ مرد کی آزادی میں ہے۔ محبت کی ردا میں ہے۔ وعدے کی وفا میں ہے۔
معصومیت   کوبچپن سے مشروط سمجھا جاتا ہے۔جو ہرگذرتے پل ہم سے دور ہوتا چلا جاتا ہے۔درحقیقت بچپن کبھی کہیں نہیں جاتا، وہ گردشِ زمانہ سے ڈر کر چُھپ کر ضرور بیٹھ جاتا ہے ہمارے اندر ،لیکن اس سے ملنا چاہو تو کبھی اپنے آپ کو بچوں سے باتیں کرتے دیکھ لو ، ان کی معصومیت پر ہنستے دیکھ لو ، ایک پل کے لیے ہمارا بچپن لوٹ آتا ہے- اگلے ہی پل ہمارے زخم ہماری انّا ہمیں بڑا ہونے کا احساس دلا دیتی ہے- یہ مدہم سا عکس جُگنو کی روشنی کی طرح ہوتا ہے جو کزرے زمانے کی ایک جھلک بھی دکھلا دیتا ہے - کرچیوں کو سمٹینا چاہو تو یادوں کے لوح چون سے اکٹھا کر کے ایک نئی شناخت بھی دی جا سکتی ہے۔
معصومیت کیا ہے ؟ نادانی کا دوسرا نام - بےوقوفی کا رنگین لباس - اگر کوئی معصوم کہہ دے تو ہم خوشی سے پھولے نہیں
 سماتے اور بےوقوف کہہ دیا تو مرنے مارنے پرتُل جاتے ہیں یا احساسِ ندامت میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ہمارے نزدیک عقل مندی معاملہ فہمی اور چالاکی وہ طاقتور ہتھیار ہیں جن کو آراستہ کر کے زندگی کی جنگ جیتی جا سکتی ہے۔
کبھی ہماری سادگی چالاکی سمجھی جاتی ہے تو کبھی ہم اپنی چالاکی کو سادگی کے پردے میں چھپا لیتے ہیں -بے شک دُنیا ایک دلدل ہے۔، جابجا گہری کھائیاں ہیں اور آنکھیں کھول کر سفر طے کرنا سفر بخیر کی نوید ہے لیکن زندگی کا ہر فیصلہ چالاکی اور دانش مندی سے کاسۂ لیس ہو کر نہیں ہوتا اور نہ کرنا چاہیے ہمیں آنے والے پل کی کچھ خبر نہیں کوئی نہیں جانتا اُس کے کس عمل کا کس قول کا کیا نتیجہ نکلے -اسی طرح بعض اوقات بےخبری اور نادانی کے فیصلے بھی مالامال کر دیتے ہیں-زندگی کے فیصلوں کے نتائج اگر ہمارے حق میں نہ نکلیں توسوچ کا فرق پھر واضح ہوتا ہے۔
حساب کتاب کا سبق دھوکا دے جائے تو اپنے آپ کو کوستے ہیں کہ تخمینہ لگانے میں ہماری غلطی تھی لیکن اگر معصومیت سے خطا ہو جائے تو طبیعت پر بار نہیں پڑتا کہ یہ تو ہماری عادت ہے ـ

"مول تول "

محبتوں کا کوئی مول تول نہیں ہوتا۔جہاں ملے جس بھاؤ ملے خرید لو چاہے اس کی قیمت تمہاری بےوقوفی ہو، کم عقلی ہو یا نادانی ہو۔چھان پھٹک نہ کرو۔۔۔ شک نہ کرو۔۔۔ خوب سے خوب تر کی تلاش میں مت بھاگو۔۔۔ باریک بینی اور نکتہ چینی سے اس کے اندر نہ جھانکو۔ بس یہ جان لو یہ وہ جنس ہے جو بہت خاص ہے اور اُس کا نصیب ہے جو اس کو پہچانے اور حاصل کرے۔
 محبت وہ محبوبہ ہے جو ہر ایک کے لیے اپنی باہیں نہیں پھیلاتی۔ محبت راستے میں ملنے والا وہ خوشنما پھول ہے جو صرف تمہارے لیے کِھلتا ہے صرف تمہاری آنکھ کے لیے۔ محبت کے لیے یہی بہت ہے کہ اس کو پہچان لیا جائے۔ محبت کی قیمت چالاکی یا دُور اندیشی ہرگز نہیں اس قیمت پر اس کو خرید بھی لیا جائے تو محبت کی زندگی بہت مختصر ہو جاتی ہے۔
 محبت وہ آسمانی تحفہ ہے جو زندگی کی شب کے کسی لمحے تم پر اُترتا ہے شرط یہ ہے اُس پل اُسے پانے کی طلب جاگ رہی ہو ورنہ بےخبری کی نیند تمہیں اُس سے محروم بھی کر سکتی ہے۔
 محبت ہمیشہ خواب جیسی بلکہ خواب ہی ہوتی ہے۔۔۔حقیقت بن کر صرف اُن نگاہوں کا نصیب بنتی ہے جو نہ صرف اپنے خوابوں پر بلکہ حقیقت پر بھی ایمان رکھتے ہیں۔ یہ صرف ایمان کا کرشمہ ہے۔۔۔ایمان ہماری طاقت ہے جو زندگی کے ہر موڑ پر رہنمائی کرتا ہے۔ اللہ پر ایمان دین پر ایمان دُنیا وآخرت میں کامیابی کے راستےپر لے جاتا ہے اور بندوں پر ایمان ہمیں انسانوں کی پرکھ عطا کرتا ہے۔ ہر وہ شخص جو زندگی میں ملتا ہے اور آنکھ جس کو محسوس کرے اُس کا ہم سے کوئی نہ کوئی تعلق اور وہ کسی نہ کسی سبق کا ذریعہ ضرور بنتا ہے۔ اللہ پر ایمان ہمیں اللہ کے قریب لے جاتا ہے اور یہ قربت محبت میں ڈھل جاتی ہے۔ انسان پر ایمان جب ہمیں اُس کے قریب کرتا ہے تو ہمیں نہ صرف اُس سے بلکہ اپنی ذات سے بھی آگاہی ہوتی ہے۔ ملنے والا ہر انسان ہماری ذات پر بُرا یا اچھا تاثر ضرور چھوڑتا ہے وہ یا تو ہم سے سب چھین لیتا ہے ہماری عزت ،وقار،خوداعتمادی ،مال ودولت اور یا پھر اس طور مالا مال کرتا ہے کہ دُنیا کے سب خزانے اس کے سامنے ہیچ نظر آتے ہیں۔۔ملنے والی سب تکلیفیں اور پانے والی سب لذتیں کہیں بہت دُور رہ جاتی ہیں۔انسان کی روح سے قربت کمزوری نہیں طاقت بن کرہماری رہنمائی کرتی ہے جو ہمیں دوسرے انسانوں سے ملنے والے دُکھ بھلا دیتی ہے۔یہ قربت ہمیں اپنی پہچان عطا کرتی ہے۔اُس کی پہچان عطا کرتی ہے جو سب محبتوں کا پیدا کرنے والا ہے۔ہماری روح کی ساتھی بن کر زمانے میں سر اُٹھا کر چلنے کا حوصلہ بنتی ہے۔انسان سے محبت اس وقت کمزوری بنتی ہے جب ہمیں اُس کے جسم سے بھی محبت ہو جائے ہم روح کے ساتھ جسم کے بھی تمنائی بن جائیں۔جسم کو جسم کی محبت مل ضرور جاتی ہے لیکن یہ عارضی ہوتی ہے وقت کی قید میں ہوتی ہے۔ زمانے کی نگاہوں میں ہوتی ہے۔ محبت جب اتنے ٹکڑوں میں ملےتو کبھی بھی سیری کی کیفیت پیدا نہیں ہوتی ۔ محبت جب اتنے رشتوں میں بٹی ہوئی ملے تو ہمارا حصہ بہت کم بہت معمولی رہ جاتا ہے اور یہ محرومی مایوسی میں بدل جاتی ہے۔۔۔ جو محبت خوشی سے شروع ہو کر مایوسی میں بدل جائے جان لو وہ محبت نہیں محبت کا دھوکا تھا جو تم نے خود اپنے آپ کو دیا۔ محبت کبھی فریب نہیں دیتی اور نہ قید ہوتی ہے۔ ہم خود ہی اپنے آپ کو جان بوجھ کر اس کی زنجیر میں باندھ لیتے ہیں اور بعد میں سارا الزام اس پر دھر دیتے ہیں۔
محبت صرف بانٹنے  اور دینے کا نام ہے جتنا کسی کو سیراب کرو گے اُتنی ہی تمہارے اندر کی پیاس بُجھے گی جتنی محبت بانٹو گے اُتنی ہی واپس ضرور ملے گی شرط یہ ہے کہ تم خالص دو کسی صلے کسی توقع کےبغیر تو تمہیں خالص ملے گی بےکراں بے پایہ۔

جمعہ, جون 07, 2013

" اظہار "

کائنات اظہار کا نام ہے ہر طرف جلوہ ہی جلوہ ۔ آنکھ صرف علامت ہے بینائی کی ۔ایک نشان ہے جو چہرے پر سجا ہے لیکن یہ نشان اتنا بھرپور اتنا طاقتور ہے کہ اُس نے ہمارے پورے وجود کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔
ہماری حسّیات ہماری آنکھیں بن گئی ہیں۔ دیکھنا،سننا،چکھنا،چھونا،بولنا،محسوس کرنا سب کاتعلق بصارت سے بڑھ کربصیرت سے ہے۔ وہ بصیرت جو سب کہہ دیتی ہے سب سمجھا دیتی ہے لیکن بیان نہیں کی جاسکتی۔کسی حد تک کوشش کرسکتے ہیں کہ جو ہم نے دیکھا ہے،جانا ہے اُس کا اظہار بھی کرسکیں۔
 ذہن میں در آنے والے خیالات خوشبو کی طرح ہوتے ہیں ۔دل بےاختیار انہیں الفاظ کی ڈائری میں محفوظ کرنا چاہتا ہے ۔لیکن خوشبو بھی کبھی قید ہوسکی ہے۔کچھ عرصہ بعد ڈائری کھولیں تو سوکھے پھول ہماری فقط ایک اچھی یاد کی علامت کے طور پر ضرور موجود ہوتے ہیں۔پر صفحات پر نمودار ہونے والے دھبے کسی دوسرے کو ہمارے احساسات سے بےخبر ہی رکھتے ہیں۔
لکھنا اظہار کا سب سے مؤثر ذریعہ ہے۔۔۔ہم دل کے کاغذ پرلکھتے ہیں اورایک ذاتی ڈائری کی طرح اس کو اپنی   بھی نظر  سے  چھپا کرمحفوظ رکھتے ہیں۔لفظ بھی اپنے ہونے کا ثبوت مانگتے ہیں،زیادہ مجبور کریں تو ہم کورے کاغذ پر لکھتے ہیں اوردوسروں کی نظروں سے پوشیدہ ہی رکھتے ہیں۔کبھی وقت سے ڈر جائیں تو اپنے قیمتی اثاثے نذرِآتش بھی کر دیتے ہیں یا یادوں کی البم میں سجا کر کہیں رکھ کر بھول جاتے ہیں۔وقت مہلت دے توکبھی ہمارا چھپا ہوا اثاثہ ایک مدفن شدہ خزانے کی طرح  ہمارے سامنے بازیافت ہو جاتا ہے،اس کے لیے بہت کھدائی کرنا پڑتی ہے ہاتھ شل اور قدم بوجھل ہو جاتے ہیں۔پانے کی جستجو اور مکمل ہونے کی چاہ ہمسفر ہو تو محنت اکارت نہیں جاتی۔تنہائی اور کرب کے اندھیروں سے نکل کر ہی اس کی تابناکی سامنے آتی ہے۔جتنا مرضی چھپا کر رکھیں اُس کی چمک اُس کی خوشبو پھیلتی جاتی ہے۔ یہ وہ خزانہ ہے جو جتنا بانٹیں بڑھتا ہے نہ صرف لینے والے بلکہ دینے والے کو بھی مالامال کر دیتا ہے۔
پڑھنا اہم تو ہے لیکن لکھنا زیادہ اہم ہے۔کسی بھی کاغذ کی سند اُس وقت تک نہیں ملتی جب تک اُس پرمہر نہ ہو، اسی طرح کسی خیال کسی حرف کی سند بھی لازمی ہے ۔خیال کی سند خیال تک رسائی اور حرف کی سند حرف تک رسائی کی صورت ملتی ہے۔ حرف لکھنے کے لیےاعتماد چاہیے اپنی ذات پر۔۔۔ دوسرے کی شناخت پر۔زبان سے کسی کے بارے میں کچھ کہہ دینا،دل میں کسی کی تعریف کرنا یا دل سےاُسے اپنا لینا سب بےمعنی ہے۔ جب تک حرف کا لفظ کی صورت ثبوت نہ ہو۔
لکھنا حرف کا کاغذ پرہو یا سبق کی طرح دل پرنقش  ہرحال میں زندگی سمجھنے کا قرینہ ہے۔ کوشش یہ کرنا چاہیےکہ جس طرح دل کےسرورق پر مٹائے نہیں مٹتا اسی طرح کاغذ پر بھی جو لکھا جائےوہ یقین اور اعتماد کی سچائی کے ساتھ لکھا جائے۔ بناوٹ اور دکھاوے کی روشنائی سے لکھی جانے والی تحریر وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ نہ صرف پڑھنے والوں کے ذہن سے محو ہو جاتی ہے بلکہ لکھنے والے کے لیے بھی ریت پر لکھی تحریر ثابت ہوتی ہے، جسے وقت کا طوفان کبھی بھی مٹا کر نیست ونابود کرسکتا ہے۔
ہر انسان سوچ سفر کے اِن مقامات سے گزرتا ہے فرق صرف یہ کوئی ذرا دیر کوٹھہر جاتا ہے تو کوئی بےخبری میں گُزر جاتا ہے۔خیال تازہ بھول کی طرح ہم میں سانس لیتا ہے،جلد محسوس کر لواور سنبھال لوتواچھا ہے ورنہ مہک رہتی ہے اور نہ تازگی بس ایک مرجھایا ہوااحساس باقی رہ جاتا ہے۔کبھی کوئی تحریر قلم کی سیاہی سے نہیں یاد کے آنسو سے لکھی جاتی ہے،وہ آنسو جو آنکھ کی روشنی بھی ہوتےہیں،کوئی اُن سے غربت کے لباس کی طرح خفا رہتا ہے تو کوئی فخر کے بناوٹی لبادے میں چھپا جاتا ہے،یوں ایک کمی ایک کسک سی رہ جاتی ہے کہ جو نہیں کہا وہی تو حاصلِ تحریر تھا۔یہی ہمارا المیہ بھی ہیں کہ جو کہتے ہیں وہ مکمل طور پر کبھی کہہ نہیں پاتے اور جو سوچتے ہیں وہی ایک مکمل زندگی کہانی ہوتی ہے۔
انسان اپنے تجرباتِ زندگی لفظ کی صورت کاغذ پر لکھتا ہے،بےجان کاغذ پر اُبھرے نقش لکھاری کی وہ آواز ہوتے ہیں جنہیں صرف اُس کے اپنے کان سننے کا حوصلہ رکھتے ہیں اور جب آواز کا شور بڑھ جائے تو لفظ بےساختہ کاغذ پر بکھرنے لگتے ہیں۔ سوچ کا بہاؤ تندوطوفانی ریلے کی طرح انسان کی پوری شخصیت تہس نہس بھی کر سکتا ہےاگر اس پر لفظ کی صورت بند نہ باندھا جائے۔ضبط وبرداشت کے اس پلِ صراط کو بہت کم کوئی پار کرنے میں کامیاب ہوتا ہے۔ ہم اپنے اندر سے اُٹھنے والی آوازوں کو سمجھنے میں اکثر ناکام رہتے ہیں کبھی آس پاس کی آوازوں سے ہم آہنگ نہ ہوتے جان کر خودفراموشی کے غلافوں میں لپیٹ کر بھولنا چاہتے ہیں۔
بیان کا سلیقہ اور اظہار کا ہنر آ جائے تو انسان ہر بات کہہ سکتا ہے۔کچھ نہ کہہ سکنا ہماری کمزوری ہوتی ہے یا پھر مجبوری اور ہم اکثر اپنی کمزوری پر مجبوری کے پردے ڈال کر خود کو دھوکا دیتے ہیں۔خیال آزاد سہی لیکن یہ آزادی مادرپدر آزاد ہرگز نہیں ہونا چاہیے۔ بندشِ خیال سے آراستہ لفظ قاری کو سمجھ نہ بھی آئیں نفسِ مضمون کی کسی حد تک جھلک ضرور دکھلا دیتے ہیں۔حقیقت کا ایک پہلو یہ بھی ہےکہ زندگی کے بہت سے تلخ حقائق،فطری وجبلی افعال  لفظ کی چادر میں جس حد تک بھی ڈھانپ دیے جائیں پھر بھی پڑھنے والوں کی طبعءنازک پر گراں ہی گزرتے ہیں۔
دُنیا کے چوک پر بقول ممتاز مفتی 'اپنے پوتڑے دھونا' کتنا ہی بہادری اور جئرات والا اقدام کیوں نہ ہو۔۔۔پاس سے گزرنے والے شک یا ناگواری کی باس میں دامن بچا کر ہی گزرتے ہیں۔ فرقۂ ملامتیہ کے پیروکار صدیوں سے پُراسرار اور صاحبِ تشکیک ہی رہے ہیں ۔۔۔وقت چاہے اُن کے گِرد  پھیلی دھند کو کتنا ہی صاف کر کے حقیقی نقش اُجاگر کیوں نہ کر دے۔۔۔اپنے'حال' میں ہمیشہ قابلِ سنگ زنی ہی ٹھہرتے ہیں۔ ظاہری آنکھ ظاہر دیکھ کر فیصلہ سناتی ہے۔ انسان ڈولتے قدموں سہی ماضی پر تو یقین کر لیتا ہے لیکن حال پر ثابت قدمی کی حد تک بےیقین رہتا ہے۔
نظر وہی دیکھتی ہے جو اُسے دکھتا ہے۔نگاہ کی گہرائی بہت کم کسی کا نصیب ہے۔سڑک کنارے پڑے ننگ دھڑنگ مجذوب ہوں یا جسمانی وذہنی مصائب وآلام کی شدتوں میں گھرے لوگ۔۔۔ہم کبھی نہیں جان سکتے کہ یہ کسی کردہ یا ناکردہ گناہ کی پکڑ ہے؟ یا پھر آزمائش کے اسباقِ مسلسل؟۔۔۔ توبہ کی طرف بڑھتے قدم ہیں؟ یا عشق کی وادیوں سے بلند ہوتی جنوں کی لافانی منزلیں ؟۔
!حرفِ آخر
اپنی زبان اپنے محسوسات کا بہترین ذریعہ ہے۔ زبان سے محبت کرو،اظہار کا ہنر جان جاؤ گے۔
اظہار چاہے لفظ کی صورت ہو یا کسی اور صلاحیت کا وصف خوشبو کی طرح ہے جسے کسی مزاج آشنا یا صاحبِ ذوق کے انتظار 
میں چھپایا نہیں جا سکتا۔ اب پانے والا کا ظرف کہ وہ کس حد تک محسوس کرے اور کیا کشید کرے۔
لفظ خوشبو کی طرح ہے بےمول،بے محابا،بے غرض۔ پھولوں کے کسی گلدستے میں سے ضروری نہیں کہ ہمیں ہر پھول کی خوشبو ہی پسند آئے یا راس آئے۔بعض لوگوں کو پھول کی خوشبو سے بھی الرجی ہوتی ہے۔ جو خوشبو جہاں ملے اسے  محسوس کرنے  میں تاخیر نہیں کرنا چاہیے ورنہ"وقت رہتا ہے اور نہ خوشبو"۔

" لباس ِیار "

جس طرح کہا جاتا ہے کہ سب مرد ایک سے ہوتے ہیں ۔ اسی طرح سب عورتیں بھی ایک جیسی ہوتی ہیں ۔ یہ اُن کا لباس ہے جو اُنہیں دوسروں سے الگ کرتا ہے۔
فہم کا لباس بے وقوفی کا لباس ،انا کا لباس عاجزی کا لباس،امارت کا لباس غربت کا لباس،تفاخر کا لباس تذلیل کا لباس ،ڈگری کا لباس نالائقی کا لباس ،علم کا لباس جہالت کالباس،برتری کالباس کمتری کالباس،خوبصورتی کا لباس بدصورتی کالباس ،چاہ کالباس محبوب کا لباس، بےقدری کا لباس نارسائی کا لباس-کبھی یہ لباس بنے بنائے مل جاتے ہیں ریڈی میڈ قسمت کی دُکان سے۔ کبھی زندگی عورت کے سائز کے مطابق اِن کی کتربیونت کر کے وقتاًفوقتاً پہناتی رہتی ہے۔ کبھی زمانے کا جبر کانٹوں کی صورت انہیں عورت کے وجود کاحصہ بنا دیتا ہے تو کبھی پھولوں کی سیج پر بچھا لباس اُس کی روم روم مہکا دیتا ہے۔ شاید بہت کم ایسا ہوتا ہے بلکہ نہ ہونے کے برابر کہ عورت اپنی مرضی کا کوئی لباس زیب ِتن کر سکے۔اکثر اسے اس بات پر کوئی گلہ شکوہ بھی نہیں ہوتا۔ وہ چُپ چاپ دُنیا کی الماری کے کواڑ کھولے جو لباس سامنے نظر آئے پہن لیتی ہے۔لڑتی جھگڑتی بھی ہے اپنےآپ سے اپنے مالک سےاپنے خدا سے لیکن دل کا بھید کبھی نہیں کھولتی نہ اپنے آپ پر اور نہ کسی پہ۔ضدیں کرتی ہے کسی اور چیز کے لیے اور تمنا کسی اور شے کی کرتی ہے۔ راز کی بات یہ ہے کہ اگر پسند کا لباس مل بھی جائے پھر بھی اُس کی تلاش کبھی ختم نہیں ہوتی اور یہ بےقراری ہی عورت کو اپنی ذات پریقین کا ابدی لباس عطا کرتی ہے۔
حرفِ آخر
حُسن عورت کا وہ لباس ہے جو جتنا نظر آتا ہے اُس سے کہیں زیادہ اُس کے وجود کا حصہ ہوتا ہے جو کسی کونظر نہیں آتا اور کبھی تو دیکھنے والوں کو اس کا پرتو بھی نہیں ملتا لیکن حُسن اور خوبصورتی اس کے جوڑ جوڑ میں سلی ہوتی ہے۔لباس کی مہک جس کو چھو جائے وہی اس کی اصل جاننے کا حقدرار ٹھہرتا ہے۔ اہم یہ ہے کہ یہ مہک عورت کے وجود کاحق ہی ادا نہیں کرتی بلکہ پانے والے کو بھی اپنی اصلیت کی پہچان عطا کرتی ہے۔

منگل, جون 04, 2013

" میکن ایک تاثر "

یکم جون 2013 کوضلع گجرات کے ایک گاؤں کی سفرداستان"۔ "
میکن--- جی ٹی روڈ سے متصل لالہ موسیٰ اور گجرات کے سنگم پر واقع ایک گاؤں کا نام ہے۔ یہ تقریباً چوبیس گھنٹوں پر محیط میرے شب وروز کی کہانی ہے جو انجان زمینوں پرانجان چہروں کے درمیان میری زندگی کی کتاب میں شامل ہوئی۔اس اجنبی ماحول میں بھرپور اپنائیت ملی اوراُس سے بڑھ کر قلم نے جس رفتار سے میری سوچ کا ساتھ دیا وہ میرے لیے زندگی کا یادگار تجربہ تھا ۔ میں وہ ناتجربہ کار فوٹوگرافر تھی جو صحیح طور پر فوکس کرنے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتا لیکن پھر بھی سوچوں کی یلغارکے ہر ہر لمحے کو یوں چابکدستی سے کاغذ پر اتارتی کہ لکھنے کی لذت میں اپنا آپ بھول جاتی۔
چلے جاؤ ۔۔۔۔۔۔ اس سے پہلے کہ جانا پڑجائے
دے دو ۔۔۔۔۔۔ اس سے پہلے کہ لے لیا جائے
لے لو ۔۔۔۔۔۔ اس سے پہلے کہ زبردستی لینا پڑجائے
جذب کر لو۔۔۔۔۔۔ اس سے پہلے کہ پتھر بن جاؤ
بہت بار پڑھا کئی بار سُنا کہ"جنےلہور نئیں ویکھیا او جمیا ای نئیں" ۔لیکن آج اپنے پنجاب کے ضلع گجرات کے ایک گاؤں میں اُس کی تازہ ہوا اور قدرتی ماحول میں سانس لیتے بےساختہ نکلا "جنے میکن نئیں ویکھیا او کُج نئیں ویکھیا "۔
جانتی تو تھی پر آج یقین ِکامل ہو گیا کہ جنت واقعی دوقدم کے فاصلے پرہوتی ہے اور ہم پہلا قدم ہی نہیں اُٹھا پاتے اور اُس کو ایک داستان ِالف لٰیلی کی طرح سنتے اور اُس کی چاہ میں مر مر کر جیتے جاتے ہیں۔
خوبصورتی واقعی ہمارے اندر کے حُسن کا نام ہے اور ہم اَسے دور دراز آئینوں میں کھوجتے اور پانے کی حسرت لیے دُنیا سے رُخصت ہو جاتے ہیں۔ 
لفظ واقعی قوت ِاظہار کا طاقتور ذریعہ ہیں لیکن احساس کی گہرائی اورطمانیت کی لہر کو شاید ہی کوئی مکمل طور پر قلمبند کر سکے۔
ایک مکمل اور آرام دہ گھرجس کا ایک اِک گوشہ اپنے مکینوں کے ذوق ِنظراوردُوراندیشی کی خوشبو سے مہکتا دیدہ دل فرش ِراہ کیے ہوئے ہے۔سادگی سے چیزوں کی اصل کے بھید کھولتے مکین ہمیں ہماری خودساختہ معاملہ فہمی اور عقل مندی کی داد دیتے نظرآئے۔ ہم شہروں میں رہنے والے خیالوں ہی خیالوں میں نہ جانے کس گوشۂ عافیت کے خواب دیکھتے ہیں۔۔۔ اپنی پہنچ سے دُور۔ نہیں جانتے کہ آنکھ کھول لیں تو خواب کی تعبیر بھی مل سکتی ہے۔
کل ایسا ہی ہوا باتوں باتوں میں دوست نے اُداسی سےکہا"مجھے گاؤں جانا ہے تم سے مل نہ پاؤں گی" تو نہ جانے کیوں میں نے فوراً کہا مجھے بھی جانا ہے،میں نے کبھی پنجاب کا کوئی گاؤں قریب سے نہیں دیکھا،اُسے محسوس تو کیا ہے مگر اس کی خوشبو جذب نہیں کی۔ قبولیت کا کون سا لمحہ تھا کہ اگلے روزاُس کے ہمراہ اُس کے گاؤں کے گھر میں تھی ۔ وہاں سب ویسا ہی تھا جیسا میرے خواب میں تھا۔جدید طرز ِزندگی کے لوازمات سے آراستہ خالص اور قدرتی رنگوں کی تاثیر سے بھرپور۔
میں گھر سے صبح سویرے چائے کا کپ پی کرنکلی اور وہاں جا کر پہلی فرمائش صرف خالص دودھ کی تھی وہ بھی بغیر چینی کے۔۔۔ میں اُس میں سے اُس کی اصل کشید کرنا چاہتی تھی۔
گھرکے کُھلےکُھلے دالانوں میں جون کی گرم دوپہر منہ چھپائے پھرتی تھی اور پاپلرکے سایوں میں فراٹے بھرتی ہوا میرے گال چومتی خوش آمدید کی صدائیں لگاتی تھی ۔ آزادی ،تنہائی اور ملکیت کا امتزاج میری آنکھوں کو نم ہونے سے روکتا تھا - دُنیا میں خوشی اور سکون اتنی آسانی سے اور بےمول بھی مل جاتا ہے مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہ آتا تھا۔یہ کیسی قید تھی جس سے فرار کی خواہش دل بےچین کر دیتی تھی -ابھی میں پیچھے رہ جانے والے رشتوں اور تعلقات اورواپسی کے سفر کو سوچنا بھی نہیں چاہتی تھی۔ یہ وقت یہ لمحہ میرا تھا میرے لیے تھا۔ میں وہ شہزادی تھی جس نے جو چاہا پا لیا ،بھوک پیاس سے بے نیاز صرف اس منظر کو زیادہ سے زیادہ سمیٹنے کی ہوس تھی اور لفظ میرے ہمسفر تھے۔ مجھے اکثر اپنا آپ اُس سیاست دان کی طرح لگتا تھا جو رہتے تو ائیرکنڈیشنڈ محلوں میں ہیں اور غریبوں کی ہمدردی میں تقریریں کرکے میلہ لُوٹ لیتے ہیں۔
پرآج بخت بھی میرے لیے اس دیہاتی ماحول میں ہرطرف آسائشوں کی مہمان داری کرتا تھا۔ چھوٹی الائچی کے پودے کے پتے میرے ہاتھوں کو چھوتے تھے۔۔۔تو کہیں کالی مرچ کے درخت کی پتیاں مجھے اُس کی کہانی سناتی تھیں اورمیں 'سکھ چین' کے سایوں میں قدرت کی کاری گری پر سجدۂ شکر ادا کرتی تھی ۔ پودوں سے باتیں کرتے ہوئے مجھے بتایا گیا کہ چند برس قبل یہاں ایک کیکر کا درخت ہوا کرتا تھا جس پرانگور کی بیل چڑھتی گئی ۔۔اپنی قسمت سے بےپروا یہاں تک کہ جب بارآور ہوئی تو پتہ چلا کہ کیکر پر انگور کبھی نہیں پنپ سکتا ۔ اس لمحے دیکھنے والوں نے دیکھا کہ کس طرح کیکر کے کانٹے انگور کے خوشوں کوزخمی کرتے تھے مجھے بے اختیار 'میاں محمد بخش 'کے لازوال اشعار یاد آگئے۔
نیچاں دی اشنائی کولوں تے فیض کسے نئیں پایا
ککر تے انگور چڑھایا ہر گُچھا زخمایا
سچ ہے کہ محبت پانا بھی ہر کسی کا نصیب نہیں اور ہر ایک اس کا اہل بھی نہیں ہوتا بلکہ نااہل محبت کی نرمی اور نازکی کو اپنے کُھردرے پن سے زخمی ہی کر دیتا ہے- محبت کی بیل بھی صرف اُن کاندھوں پر چڑھتی ہے جو اسے سنبھالنے کا قرینہ جانتے ہوں۔ جو محبت کا بوجھ سہار سکے محبت کی خوشبو اوراُس کا رس اُسی کا مقدر ہے۔
گیارہ بجے دن
صبح کے گیارہ بجے تھے اور ابھی ایک رات بھی میرے قبضۂ قدرت میں آنے کے لیے بےچین تھی۔جس کا تصور مجھے فرحت انگیز خوشی دیتا تھا۔کُھلےصحن میں پانی کے چھڑکاؤ کے بعد بچھی چارہائیوں پرمٹی کی سوندھی مہک کے حصار میں سونا میرے بچپن کی وہ یاد تھی جو خواب کی صورت اب بھی دل پر دستک دیتی تھی اور آج اُس یاد نے حقیقت بن کر پھر ایک خوبصورت یاد میں تبدیل ہونا تھا۔آج چاندنی رات تو یقیناً نہیں تھی لیکن مبارک ماہ ِرجب کی 22ویں رات ضرور تھی شاید اللہ کو یہی منظور تھا کہ ایک خاص رات کا عکس ہمیشہ میری سوچ کے آئینے پر ثبت رہے۔
زندگی کے سفر میں تازہ دم ہونے کے لیے پڑاؤ بہت ضروری ہےاور پڑاؤ کبھی ہماری مرضی اور منصوبہ بندی سے نہیں ملتا۔آج صبح بھی آتے ہوئے راستے میں بھائی نے کہا کہ گاؤں کی سیر کے لیے یہ موسم قطعاً مناسب نہیں۔ سرسوں پھول کر ختم ہو چکی اورگندم کی بالیاں خشک ہو کرکٹائی بھی ہو گئی ہے اب گاؤں میں مٹی اور گرمی کےسوا کچھ نہ ہو گا لیکن!!! میں خوابوں میں رہنے والی سب جانتے ہوئے اُسی گرمی اور بےفیض فضا پر ہرحال میں اپنی آنکھوں کا اعتبار چاہتی تھی۔۔۔کہتی تھی کہ وقت کبھی ہمارے ساتھ نہیں چلتا،ہمیں کبھی اپنی مرضی اور پسند کا ماحول نہیں ملتا اس لیے جو مل رہا ہے جیسے مل رہا ہے اُسے اپنا لیں اور اس میں اپنے خیال کے رنگ بھر لیں۔اور یہی آج ہوا،جب یہاں پہنچ کر خواب وخیال حقیقت بن کر نظروں کے سامنے تھا اور رنگوں کی برسات وجود کو شرابور کرتی تھی۔
آنے والی رات کی طرح کل صبح کا پیام بھی میرے دل کو گدگدا رہا تھا۔سورج کی اولین کرنوں سے بھی پہلے کی خنک ہوا میں صبح کا تصور ایک حسین خواب سے کم نہ تھا۔ برسوں پہلے کالام کی وادی میں اُترنے والی صبح کی یاد میرے دل پر اُسی طرح نقش تھی۔جب صبح کی سیر کے دوران کالام کی بلندی پر پوش آرام گاہوں کے سنگ حدِنظر تک پھیلے سبزیوں کے کھیتوں میں سے جھانکتے شلغم اور گاجر اپنی طرف توجہ مبذول کراتے تھے اور تھکے ماندے سیاح اپنی نیند کو ہی حاصل ِسفر جان کر محوِخرام تھے۔
چھ بجے شام
سورج ڈھلنے میں ابھی وقت تھا،شام کی سُنہری دھوپ میں سرسراتی نرم ہوا میرے لبوں کو چومتی میرے بالوں سے اٹکھیلیاں کرتی تھی اور میں دوپہر میں گاؤں کی گلیوں میں اپنے سفر اور اُن چہروں پر لکھتی تھی جو آج پڑھے۔
ہر گھر ایک کہانی تھا اور ہر چہرہ ایک مکمل تصویر۔چھوٹی مگر پکی گلیوں میں ایستادہ شاندار گھر جہاں اپنے مکینوں کے ذوق اور خوشحالی کے امین تھے وہیں ان سجے سجائے کمروں میں سناٹے کی گونج بھی سنائی دیتی تھی۔وضع دار میزبان گرم جوشی سے ملتے لیکن اُن کے اندر پھیلی تنہائی کی پکارنہ جانے کیوں مجھے اُداس کرتی تھی ،روزگار کی مشقت نے ان گھروں کو مادی طور پر تو مالامال کر دیا تھا لیکن ساتھی کی دُوری ایک ان کہے چُُپ میں بدل گئی تھی۔
اس میں کوئی شک نہیں سب بہت مطمئن و مسرور دکھتے تھے شاید مجھے اپنی ذات کی تنہائی کا عکس ان میں نظر آیا ہو؟ انہی روشن کمروں کی بھول بھلیوں میں گھومتے پھرتے ایک ایسے گھر میں بھی میرے قدم پڑے جو برسوں سے بند تھا۔۔۔ دُھول مٹی اور ناقدری کی بو اُس کے گوشے گوشے میں سانس لیتی تھی اور وہ قبرستان کی سی چُپ لیے وقت کے رحم وکرم پر تھا-ایک پل کو زندگی کا یہ روپ دیکھ کرمیں ٹھٹک گئی کہ یہ بھی حقیقت ہے مکین چلے جاتے ہیں مکان رہ جاتے ہیں۔
کبھی گھر بسا کر بسنا بہت مشکل لگتا ہے تو کبھی نئی منزلوں کی چاہ میں گھر بسا کر خالی بھی کرنا پڑ جاتا ہے۔نئے سنگ ِمیل کی تلاش میں یہ پڑاؤ ہمیشہ ساتھ تو رہتا ہے لیکن صرف یاد کے جھروکے میں بیتے کل کی کہانی کی صورت۔
ان پُرآسائش خوبصورت سجے سجائے گھروں کے چہرے بھی حیرت انگیز طور پر دل ودماغ پر خوشگوار تاثر چھوڑتے تھے بناوٹ سے پاک عام بول چال میں دیسی بدیسی زبان میں قرینے سے گفنگو کرتے مُسکراتی آنکھوں سے خاطرمدارات کرتے میری بےتکلفانہ باتوں کو توجہ سے سنتے میرے قریب آتے تھے۔
ایک 2 سالہ بچے سے "لب پہ آتی ہے دعا" سُن کر عجیب سی راحت ملی تو ایک بچی نے مجھے اپنا لکھا مضمون "انسان اور آدمی "سنایا یہاں صرف میں تھی اور میرا نام۔۔۔کوئی اور تمغہ کوئی نام یا کوئی رشتہ میرے ساتھ نہ تھا یہ اجنبی چہرے عجب اپنائیت سے میرا نام پکارتے اور میرا وجود انہیں ان جانی بےغرض خوشی دیتا تھا-وہ میرا جسم کھوجتے اور میں اُن کی روح تک جھانکتی تھی میری عمر کے بیتے ماہ وسال وہ حقیقت تھے جو انہیں میرے لبوں سے سن کر بھی اپنی آنکھوں پر یقین نہ آتا تھا ۔ میری مٹی میں گندھی بےنیازی اور اپنائیت کا امتزاج انہیں مجھ سے دور بھی رکھتا اور قریب آنے پر مجبور بھی کرتا۔ میں سب جانتی تھی سب دیکھتی تھی مگر اپنے ازلی ہرجائی پن کے طفیل اس وقت صرف محبوب کی قربت چاہتی تھی -وہ محبوب جو ہمیشہ میرے خوابوں کا ہمسفررہا تھا آج یہاں اسوقت میرے سنگ تھا مکمل تنہائی کی یہ لذت جو ہمیشہ میرا خواب رہی تھی اب یہاں مجھے اپنی نظروں سے اوجھل نہ ہونے دیتی تھی سب سے بڑی بات آج میرے پاس ڈھیروں ڈھیر وقت تھا۔۔۔ میرا اپنا۔ اپنےساتھ گزارنے کے لیے۔۔۔۔ شاید میری زندگی سے بھی زیادہ۔
نفاست سے لگے کنوؤں ،مالٹے اور انار کے باغ کے قریب بیٹھی میں اس سرمئی شام کے اُجالے کو اپنے اندر جذب کرتی تھی اوراس گھڑی کو لفظوں میں سمیٹنے کی ناکام کوشش کرتی تھی جو ڈھلتی جا رہی تھی۔ پرندوں کے الوداعی نغمے ،کوئل کی مانوس کوک اور مغرب کی اذان کی آواز زندگی کا ایک خوبصورت اور نہ بھولنے والا دن ختم ہونے کی نوید سناتی تھی ۔ اللہ اکبر۔
یہ دن میری زندگی کے کینوس پر پھیلے دنوں میں سے ایک تھا جو زندگی کی خوشگوار حقیقتوں کے ساتھ بہت سے تلخ حقائق پر سے بھی پردہ اُٹھا گیا۔ اس خوش حال دیہات میں زندگی کے ایسے چُبھتے رنگ اور اُلجھے دھاگے بھی ملے جن کا حل سوائے سمجھوتے کے اور کچھ نہ تھا۔
نو بجے رات
رات ہولے ہولے اپنے پر پھیلانے لگی تھی۔۔۔ابھی ہوا میں وقت کا مقابلہ کرنے کی سکت باقی تھی لیکن پھر بھی ذرا دیر کو ہوا کی کٹی پتنگ کہیں سانس لینے رُکی تھی۔دن کی تپش نڈھال کرتی تھی اور میں اپنے آپ کو ہوا کے رحم وکرم پر چھوڑ کر کھلی چھت پر بےدم اُس کے لمس کی منتظر تھی جو مجھے دھیرے دھیرے تھپکتی تو تھی پر سیراب نہ کرتی تھی۔ چہارجانب پھیلا اندھیرا اور کتوں کے بھونکنے کی آوازیں رات کی آمد کا اشارہ دیتی تھیں ۔
دو بجے رات
گرمی اور مچھروں پر پہلی بار پیار آیا کہ اُنہوں نے میری آنکھیں کھول دیں اور تاروں بھرا آسمان نگاہوں کو سلامی دینے لگا۔ رات کا مکمل سناٹا اور میں،آسمان پر چمکتے تارے میرا انتظار کر رہے تھے۔ آخری تاریخوں کا چاند رات کے اس پہر اپنی ساری چاندنی میرے وجود پر نچھاور کرنے کے لیے بےچین تھا-اُس کے لمس کو میرے وجود کی چاہ تھی۔کتنی دیر تک اُسے دیکھ کر میں اپنی نظروں سے آرتی اُتارتی رہی یہاں تک کہ قریبی مسجد سے درود تاج پڑھنے کی پُراثر آوازآئی جس کا ایک اِک لفظ واضح اور مکمل سنائی دیتا تھا۔میں اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کر رہی تھی کہ میری آنکھ کھل گئی جو مجھے یہ دولت سمیٹنے کا موقع ملا۔ پھر فجر کی پہلی اذان بھی میرے کانوں میں اُتری۔
پانچ بجے صبح
صبح اتنی خوبصورت بھی ہو سکتی ہے یہ میں نے کبھی خواب میں بھی نہ سوچا تھا۔میں جو اپنے خوابوں پر ایمان کی حد تک یقین رکھتی تھی ایسا حسین خواب میرے وہم وگمان میں بھی نہ آیا تھا۔ میں گھر کی پچھلی طرف بنے ٹیرس پر بیٹھی حدِنظر تک پھیلے کھیت ہی کھیت دیکھتی تھی یوں جیسے سمندر کنارے دُور تک دیکھتے رہیں پانی ہی پانی لیکن شاید سمندر کنارہ بھی اتنا مکمل اور پُرسکون نہ ہوتا ہو کہ اُس کے پاس سوائے آسمان اور نیلگوں پانی کی وُسعت ،ہوا کے رقص لہروں کے تلاطم اور خاموش پرندوں کی ڈاروں کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔لیکن یہاں اس لمحے اس صبح تو میری اس کائنات میں موجود ہر ذرّہ رنگوں اور خوشبوؤں سے مہکتا مجھے اپنے اندر سمونا چاہتا تھا اور میں خاموشی سے اپنے آپ سے نکل کر اس کے مدار میں محو ِرقص تھی۔صبح کی پاک اور تازہ ہوا کے جھونکے مشام ِجاں کو معطر کرتے تھے،چڑیوں کی چہچہاہٹ کوئل کی کوک میرے دل کو اپنی طرف پکارتی تھی۔نئے سفر کی تیاری پر کمربستہ پرندے ابھی اپنے آپ کو تازہ دم کرتے تھے۔زمین کے وسیع وعریض کینوس پر بکھرے لکیروں اور رنگوں سے سجے مستطیل رنگ نظر کو تسکین پہنچاتے تھے۔ گندم کی فصل کٹ چکی تھی اس لیے خاکی اور سُنہرا رنگ نمایاں تھا کہیں کہیں چارے کے لیے تیارکیے گئے کھیت بھرپور تاثر دیتے تھے۔ 
چھ بجے صبح
خالص دودھ کا ایک لبالب گلاس پینے کے بعد میں اب پھر اپنی اُسی جگہ پر تھی ۔ سورج آہستہ آہستہ بلند ہو رہا تھا ۔ ہوا بدستور اُسی طرح شوخ تھی بلکہ اب کچھ زیادہ گستاخ ہو گئی تھی شاید اُسے میرا انداز پسند آیا تھا ۔ اس سے ذرا دیر پہلے میں نیچے بھینسوں کے باڑے میں تھی گھر کی مالکن خود سارا کام کر رہی تھیں، تازہ چارہ کھیت سے توڑ کر مشین کی مدد سے کاٹ کر بھینس کو کھلایا کہ دودھ دوہنے سے پہلے اُس کی خاطر کرنا فرض ہوتا ہے میرے سامنے دودھ دوہنا شروع کیا پھر میں نے جھاگ والے کچے دودھ کا ذائقہ چکھا لیکن کیا کیا جائے ہمارا اپنا شہری پن !!!کہ مجھے اُبلا ہوا دودھ ہی پینا تھا -اس ٹیرس پر ایک خاص اور عجیب چیز مجھے مسحور کرتی تھی وہ تھی میرے ساتھ مکمل تنہائی۔۔۔ دُور بہت دور کہیں کہیں کوئی انسان یا جانورچلتے پھرتے نظر آتے تھے۔
گھر والے بھی مجھے "پہچان" کر اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے۔یہ کیسا اتفاق اورعجیب حقیقت ہے کہ جو ہمارے قریب ہوتے ہیں وہ ہمیں جانتے نہیں اور اجنبی چہرے جو زندگی میں پہلی بار ملیں وہ ایک ہی نظر میں ہمارے اندر باہر سب دیکھ لیتے ہیں ، اور ہمیں جس وقت جس چیز کی ضرورت ہو ہم اِسی آسانی سے بلا جھجکے اُن سے کہہ بھی دیتے ہیں۔۔اپنا حق جانتے ہوئےاور وہ دھیمی مسکراہٹ سے ہمیں خرید بھی لیتے ہیں۔میری فرمائشیں ختم ہونے میں نہ آرہی تھیں اب مجھے ٹیوب ویل کے پانی کے مزے چاہیں تھے صرف بجلی کی عدم دستیابی راہ کی رکاوٹ تھی شاید یہ میری آخری خواہش تھی اور اب واپس جا کر احساس ہونا تھا کہ کیا رہ گیا،جو دسترس میں آسکتا تھا لیکن شاید میری اتنی ہی صلاحیت تھی جذب کرنے کی۔محبتوں کا یہ سفر فقط چند گھنٹوں کا مہمان تھا۔اب اپنے دیس واپس جانا تھا۔میں وہ شہزادی تھی جو راستہ بھٹک کر اس نگر آپہنچی تھی اور حیرانی سے ایک اور جہاں آراستہ دیکھتی تھی جو صرف میرے لیے تھا اورمیں اُس کے لیے۔
مجھے بھوک بھی لگ رہی تھی خالص آٹے کا پراٹھا مکھن اور لسی کے ساتھ میرا منتظر تھا۔ اللہ ان مخلص میزبانوں کو صحت سلامتی والی لمبی زندگی عطا فرمائے جنہوں نے میری زندگی کے رنگوں میں ایک بیش قیمت انمول رنگ کا اضافہ کیا اور اپنے محبتوں بھرے تحائف سے مالامال کر کے رُخصت کیا۔
آخری بات
یہ خواب لمحوں کا وہ سفر تھا جو حقیقت کی دُنیا میں میری آنکھ پر اُتراور یہ صرف نگاہ کا کمال ہے جو کسی منظرکسی کیفیت کو کس طور محسوس کرے۔ اور حق یہ ہے کہ یہ صرف پہلی نگاہ کا کمال ہے شاید میں بھی یہ منظر دوبارہ اس طور نہ محسوس کر سکوں۔جو لمحہ گزر گیا وہ دوبارہ لوٹ کر کبھی نہیں آتا۔ جو لمس چھو جائے وہ دوبارہ نہیں ملتا،بس اُس کو پاس رکھنے، اس کو پانے کی ہوس ہمیں اُس سے بچھڑنے نہیں دیتی۔ لیکن جو چلا گیا سو چلا گیا اب نئی منزلیں نئے راستے یہی زندگی کہانی ہے۔اگر بیتے پل ،پیچھے چھوڑ آنے والے چہروں سے دل لگا لیں تو آگے کے لیے کچھ باقی نہیں بچتا۔اپنے آپ کو حالات کے دھارے پر چھوڑ دیں تو شاید آگے اس سے بھی بڑھ کر نئے منظر خوش آمدید کہہ رہے ہوں۔
یہاں کسی بڑے زمین دار کا ڈیرہ نہیں بلکہ ایک پڑھے لکھے خاندان کا گوشۂ عافیت ضرور تھا جو زندگی بھر کی جدوجہد کے بعد برگد کے درخت کی سی چھاؤں رکھتا تھا۔ایک اعتراف اپنے سامنے کہ اگر یہاں جدید دور کی سہولیات نہ ہوتیں تو مجھے یہ سفر پریوں کی داستان نہ لگتا ۔ ایک اعتراف پڑھنے والوں کے سامنے کہ میں مانتی ہوں دیہاتی زندگی کا یہ رُخ اُس کی اصل نہیں۔ اصل حقیقت تو بہت کڑوی اورکربناک ہے۔کچے گھروں میں رہنے والے تلخ مسائل سے نبردآزما لوگوں کے لیے زندگی خود ایک بہت بڑا روگ ہے۔ہردیہاتی علاقے کی زندگی اتنی حسین نہیں ہوتی بلکہ زندگی کی تلخیوں کو سمیٹنے میں زیادہ ہی بےصبری ہوتی ہے۔ یہ صرف شہری لوگوں کا رومانس ہے جو وہاں کچھ وقت گُزار کر محسوس کرتے ہیں۔ لیکن میں سمجھتی ہوں کہ خواب دیکھنے پر ہر کسی کا حق ہے۔ خواب کی کوئی قیمت نہیں اور نہ ہی حدود ہوتی ہیں اور جب خواب پورا ہو جائےتو اس پر بھی کوئی وضاحت نہیں دینا چاہیے۔
جو ملے رب کی رضا سے جھولی میں بھر لو۔ خوشی مل رہی ہے اُسے سمیٹو گے تو آگے جا کر خوشی ہی بانٹو گے اگر پھول کے ساتھ لگے کانٹوں پر ہی دل جلاتے رہے تو خار بن کر کسی کا دل ہی زخمی کرو گے۔
جھولی بھرتے جاؤ اور جھولی خالی بھی کرتے جاؤ تاکہ سفر جاری رہے۔
سفربخیر
"رہے نام اللہ کا "

"سیٹل اور سیٹل منٹ"

سورۂ فرقان(25) آیت 2۔۔   وَخَلَقَ كُلَّ شَىْءٍ فَقَدَّرَهٝ تَقْدِيْـرًا ترجمہ۔ اور جس نے ہر شے کو پیدا کیا اور پھر اس کے لیے ایک اند...