جمعرات, اکتوبر 30, 2014

"عکس سے نقش تک"

مستنصر حسین تارڑ

عکس سے نقش تک"
 خیال کی طاقت پرواز کتنی ہی بلند کتنی ہی لامحدود کیوں نہ ہو جائے۔۔۔آنکھ کے لمس کی سچائی کو مات نہیں دےسکتی۔اس میں شک نہیں کہ آنکھ وہی تصویر دیکھتی ہے جو اس کے محدود چوکھٹے میں سما سکے۔ لیکن یہ تصویر کبھی ہمیشہ کے لیے وہیں ٹھہر بھی جاتی ہے۔ پہلی نظر بھی کیا چیز ہے کہ
ایک لمحے کی دوستی پہلی نظر کا پیار کبھی تو چلتی ٹرین کے منظر کی طرح ہوتا ہے اچھا تو لگا پرگزر گیا اور کبھی تصویر کے کلک کی طرح یادوں میں ہمیشہ کے لیے محفوظ رہ گیا۔
مستنصر حسین تارڑ کے سانس لیتے نرم ونازک لفظوں سے بہت پہلےمحترم اشفاق احمد کے" ایک محبت سو افسانے" میں اُن کی سوچتی اوراداس آنکھوں نے بطور اداکار اپنی شناخت کرائی تو ایک ڈرامہ نگار کے طورپر ذہن نے سر جھکاتے ہوئے ان کے مصنوعی کرداروں کے اندر سے اُن کا اصل کھوجنا شروع کیا۔ صبح کےاولین مارننگ شو نے 'تلاش' کے اس عمل کومہمیزکیا۔ لفظ سے عشق کی ان اولین ساعتوں میں جناب تارڑ کی"نکلے تری تلاش میں،خانہ بدوش،پیارکا پہلا شہر،جپسی اور ہنزہ داستان نے مسمرائز کیا۔
جناب کے لفظوں سے جانا کہ۔۔
عشق کا مفہوم کتنا وسیع ہے۔۔۔یہ  محض اپنے جیسے انسان کے محورکے گرد دیوانہ وار رقص کا نام نہیں۔ عشق راتوں کو جاگ کر تارے گننے اورمحبوب کی یاد میں تکیے بھگونے سے تکمیل کے مراحل طے نہیں کرتا ۔
 عشق فطرت سے ہم آہنگی اور قربت سےپروان چڑھتا ہے۔یہ اپنے مدار سے نکل کر ایک بڑے دائرے میں محوِرقص    ہونے کی خوشی فراہم کرتا ہے۔
آوارگی کی ہزارہا جہت کیا ہیں۔۔۔آوارگی وہ سفر ہے جو گھر سے بھاگنے پراُکساتا ہے۔۔۔تو جہاں گھر سے دوری تعلق مضبوط کرتی ہے۔۔۔ وہیں سوچ کا پھیلاؤ حقیقتِ دنیا سے بھی آگاہ کرتا ہے۔
 جنوں کا مثبت پہلو انسان کو ہوش وحواس سے بیگانہ نہیں کرتا بلکہ تمام حسیات کو ایک نئی تازگی اور توانائی بھی دیتا ہے۔
 اگر ادب وہی ہے جو زندگی کے ہر رنگ ہر پہلو کو چھو جائے تو ادیب بھی وہی ہے جس کی ذاتی زندگی کا نہ صرف ورق ورق کھلا ہو بلکہ اوروں کے لیے نشانِ راہ بھی ہو۔جو تخیل کی خوابناک وادیوں کا ہمسفر ہی نہ ہو بلکہ اپنے 'ہمسفر'کے ساتھ زندگی کے چیختے حقائق کا بخوبی سامنا کرنے کی اہلیت بھی رکھتا ہو۔
 جو ہوا کے دوش پر اور سوچ کے اُفق پر محسوس کرنے والے دلوں کی دھڑکن ہی نہ ہو بلکہ اپنے جگرگوشوں کے لیے باعثِ مسرت بھی ہو۔
جناب تارڑ کے مہکتے لفظوں نے بتایا کہ۔۔۔
شاعری، موسیقیت اور مصوری کے شاہکار بند کمرے میں بیٹھ کر تخیل کے زور پر ہی نہیں تخلیق کیے جاتے۔لیکن یہ بھی سچ ہے کہ تخیل کی بلندیوں کو چھونے والے لفظ بصارت اور بصیرت کے انوکھے ملاپ سے جنم لیتے ہیں۔
رومانویت صرف مردوعورت کے مابین فطری اورازلی کشش کا تسلسل  بھی نہیں۔محبت دو دلوں کے درمیان خفیہ رازونیاز کا نام ہی نہیں۔ یہ قدرت کے نظاروں،جھیل کناروں اوردودھیا چاندنی میں نہائی ہوئی فلک بوس چوٹی کے پہلو میں اپنے ساتھ وقت گزارنے کی حسین تنہائی بھی ہے۔ خود کلامی محض دیوانوں کی بڑ نہیں بلکہ رب کی شکرگزاری کا عظیم احساس بھی ہے۔
 محبت اپنے رشتوں سے چھپ کر تعلقات کی غلام گردشوں میں آنکھ مچولی کا کھیل نہیں۔۔۔ بلکہ لفظ سےعشق پورے یقین اوراعتماد کے ساتھ اپنے بڑوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کراظہار کی ایک کیفیت ہے۔ محبت کا یہ راستہ بڑوں کو بھی اپنے بچوں کی نگاہ میں معتبر بناتا ہے۔
زندگی صرف سانس کا آنا جانا ہی نہیں بلکہ موت کی سچائی اپنے سامنے دیکھ کر۔۔۔اس سے مقابلہ کرنے کا حوصلہ پیدا کرنے اس سے باتیں کرنے کا نام بھی ہے۔
 ادب لازوال ہے تو ایک ادیب کیسےاپنے لفظ کے معنی میں محدود ہو سکتا ہے۔اس کی نگاہ کی وسعت قدرتی مناظر فطرت کے رنگوں اور انسان کے فطری جذبات کا بڑی خوبی سے احاطہ کرتی ہے۔۔۔ تو بلند وبالا برفوں اورگہری کھائیوں میں موت سے قربت اوردہشت کی تصویر کشی سچ مچ سانسیں روکتی ہے۔
جناب تارڑکے تمام سفر ادھورے اور تشنہ رہتے۔۔۔ان کی روشنی ایک مخصوص دائرے میں گردش کر کے فنا ہو جاتی اگر یہ روشنی ان کی اپنی ہی ذات کو نہ اجالتی۔
 ۔"منہ ول کعبہ شریف" اور "غارحرا میں ایک رات" ایسی کتب ہیں کہ جنہوں نے جناب تارڑ کے لفظ کی ابدیت اور قبولیت پرمالک کی مہر ثبت کر دی ہے۔ بےشک یہ رب کا کرم ہے کہ وہ اپنے پیارے بندے کو کس طرح نوازتا چلا جاتا ہے۔۔ میرے لیے ان دونوں کتابوں کے سفرِمبارک کے الفاظ سے زیادہ اہم وہ احساس تھا جو بند جوتوں میں موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پُرپیچ وادیوں اور"قاتل" پہاڑوں سے ہوتا ہوا "مطاف" کے صحنِ مبارک میں مرمریں فرش پر سجدہ ریز ہوا تھا۔
 وہ احساس بہت قیمتی اور انمول تھا جس نے ایک دشت گرد اپنے تئیں "آوارہ گرد" دنیا دار کو دنیا میں رہتے ہوئے اس مقام پر سربسجود کرایا جہاں جاتے ہوئے دنیا کے بڑے سے بڑے فرماں بردار کے قدم بھی لڑکھڑا جاتے ہیں یہ نصیب کی بات تھی۔۔۔ کرم کے فیصلے تھے۔۔۔"سفرِزیست" کی پاکیزگی تھی۔ یہ اس 'آوارہ گرد' کے اندر کی سچائی تھی جس نے ماہ وسال کی محدود عمر میں "تلاش" کے سفر کی تکمیل ممکن بنائی۔
 آپ سے جانا کہ انسان کا ظاہر اس کے باطن کا عکاس ضرور ہوتا ہے لیکن اس کے باطن کی شہادت کبھی نہیں دے سکتا۔اور یہ بھی کہ دین کسی دین دار کی ذاتی میراث نہیں۔ یہ قلب پر اتری لبیک کی وہ کیفیت ہے جو روح کی گواہی خود دیتی ہے
یوں کہنا قصیدہ گوئی ہرگز نہیں کہ جناب تارڑ اردو زبان کے وہ واحد ادیب ہیں جن کے لفظ کےقاری نہ صرف ہر دور۔۔۔ہر زمانے اور ہرعمر کے ہیں بلکہ ہرقسم کے مکتبۂ فکرسے تعلق رکھنے والے ان کے لفظوں کی خوشبو میں اپنا ذوق تلاش کر لیتے ہیں۔ادب کی فہرستیں ویسے بھی تارڑ کے تخیل کے سامنے بےبس نظر آتی ہیں کہ ان کی جادو اثر نثر کے سامنے شاعر کا تخٰیل بھی ماند پڑھ جاتا ہے۔ یہ ادب برائے لذتِ یا محض وقت گزاری نہیں بلکہ اُن کی کتب ایک مستند سفری دستاویز، تہذیبی ورثہ اور فکشن کا حسین امتزاج بھی ہیں۔یہ کہنا بھی غلط نہیں کہ ابھی تک جناب تارڑ کو ادب میں ان کا جائز مقام نہیں مل سکا۔ اس میں کوتاہ نظری یا روایت پرستی نہیں بلکہ ابھی تک وہ مقام ہی طے نہیں ہوا جہاں ہم اُن کے لفظوں کو رکھ سکیں۔۔۔پرکھ سکیں۔ لیکن!!! ایک مقام بےمثال اورغیرمتنازع ہے۔۔۔ اپنے پڑھنے والوں کے دل میں ہمیشہ کے لیے جگہ بنانا۔
تارڑ صاحب کےساتھ لفظ کی ایک طویل رفاقت میں یہ جانا کہ" سفرزندگی تو ہے لیکن زندگی صرف سفرہی نہیں۔ زندگی کے اختتام سے پہلے ہمیں اپنے زمینی سفر کا پٹارا اپنے ہاتھوں سے بند کر کے ایک نئے سفر کے لیے خالی کر دینا چاہیے۔ ورنہ ساری کمائی لٹ جانے کا بھی اندیشہ رہتا ہے"۔
اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ جناب مستنصر حسین تارڑصاحب کو ذہنی اور جسمانی صحت کے ساتھ زندگی کے سفر پر اسی طرح مہکتا اور رنگ بکھیرتا رکھے۔آمین
۔۔۔۔۔۔
میرا احساس اور محترمہ ثمینہ طارق کا بلاگ " طویل سفر کے بعدایک خوشبو بھری ملاقات،مستنصر حسین تارڑ صاحب کے ساتھ"۔ 
 فطرت سے رومانس کا جو احساس جناب کے سفرناموں میں ملتا ہے وہ محبت کے جذبے کی آفاقیت پر یقین کی مہر ثبت کرتا ہے۔ محبت کی عام انسانی روش اور جبلی خواہشات کی غمازی کرتے لفظ "پیار کا پہلا شہر" اور جپسی میں یوں چپکے سے دل میں اتر جاتے ہیں کہ جیسے ہماری ہی کہی ان کہی ہو ۔ پھر وقت کی گرد جب ہر چیز کی اصلیت سے آگاہ کرتی ہے تو " غارحرا میں ایک رات " اور"منہ ول کعبہ شریف" اس عشق کی پاکیزگی کی گواہی دہتے ہیں ۔ تارڑ صاحب کے لفظوں کی خوشبو ہمیشہ اپنے آس پاس محسوس کی۔ چاہے وہ شمالی علاقوں میں پہاڑوں کی نکھری شفاف مہک میں ملی یا پھر غار حرا کی بلندیوں کو پاؤں کا بوسہ دینے کی سعادت نصیب ہوئی ۔
اور ہاں اس سال 20144 میں اسلام آباد کے ادبی میلے میں تارڑ صاحب سے چند لمحے کی ملاقات ہوئی۔ لیکن اس سے پہلے بڑی دیر تک ان کے سامنے بیٹھ کر ان کے آس پاس "عقیدت مندوں"کو دیکھ دیکھ کر مسکراتی رہی کہ " محبت کا جادو ہمیشہ سرچڑھ کر بولتا ہے۔ اوراس میں عمر کی قید نہیں۔جب بات لفظ سے محبت کی ہو تو پھر زمان ومکان کے فاصلے بھی بےمعنی ہو جاتے ہیں۔



بدھ, اکتوبر 22, 2014

"سید قاسم محمود"

"سید قاسم محمود"
کتھے مہر علی کتھے تیری ثنا
گستاخ اکھیاں کتھے جا لڑیاں
جب ایک ابھرتا ادیب روحانی واردات سے گزرا"۔"
سید قاسم محمود
پیدائش::17 نومبر1928
وفات::31 مارچ 2010
سید قاسم محمود صاحبِ طرز ادیب تھے۔ سالہا سال تک متعدد اخبارات اور رسائل سے منسلک رہےاورفیض احمد فیض، سید عابد علی عابد اور دیگر بہت سے مشاہیر کے ساتھ کام کیا۔ انسائیکلوپیڈیا پاکستانیکا، انسائیکلوپیڈیا فلکیات اور انسائیکلوپیڈیا ایجادات تصنیف کیے۔ تشریح القرآن پانچ زبانوں عربی، انگریزی، اردو، ہندی اور گجرات میں کی۔ اس کے علاوہ متعدد کتب تصنیف اور تراجم کئے۔ یہ مضمون انہوں نے حلقہ ارباب ذوق کی ایک نشست میں پڑھا۔
۔۔۔۔۔
جب میرے لیے حکم نامہ صادر ہوا کہ حضرت مجدد پیر مہر علی شاہؒ کو تحریری یا تقریری خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے حاضر ہو جاؤں تو ظاہر ہے کہ میں نے پانچ سات متعلقہ کتابیں یکجا کیں۔ مطالعے کو مجتمع کیا۔ خاص خاص واقعات و افکار کی نشاندہی کی۔ ان کے درمیان منطق کے جوڑ اور تفہیم کے پیوند بھی لگا لئے تو ذہن میں ایک مضمون مرتب ہو گیا۔
آج صبح اس مضمون کو قلمبند کرنے کا وقت آیا تو حسب معمول دست قدرت نے مصنف کے ہاتھ سے قلم چھین لیا اور اسے کتاب خانے سے نکال کر بڑی بے رحمی سے زندگی کے کنوئیں میں پھینک دیا‘ اور کہا کہ اب لکھ‘ اور خدا کو حاضروناظر جان کر لکھ۔ کتاب زیست کے گھنے اوراق ایک ایک کر کے کھڑکھڑانے لگے۔
۔5 دسمبر 1957ء بروز جمعرات داتا دربار کی مسجد ‘ ظہر کاوقت‘ میں خواجہ غریب نوازؒ کے حجرۂ اعتکاف کے پاس سرنیہوڑائے‘ بیٹھا بیٹھا‘ دھوپ کے ساتھ ساتھ سرک رہا ہوں۔ مسجد کے سائے مقبرے کے دالان میں‘ ستونوں سے ٹکرا کر قدرے ترچھے ہو ئے ہیں۔ پہلوان صاحب حسب دستور نماز پڑھنے کے بعد میرے پاس آ کر بیٹھ گئے۔ پہلوان صاحب مسجد کے دیرینہ خادم ہیں۔ بوڑھے ہو گئے ہیں۔ لڑکپن میں یہاں گجرات کے ایک گاؤں سے آئے تھے۔ ابا جی نے ان کو مجھ مجنوں کی خبر گیری پر مامور کر رکھا ہے۔
پہلوان صاحب نے اپنی مخصوص گھسی ہوئی آواز میں‘ مخصوص سرگوشی کے انداز میں میرے کان میں کہا: ’’آج تجھے دیکھنے پیر گولڑہ شریف آ رہے ہیں۔ عصر اور مغرب کے درمیان آئیں گے۔ شورش کاشمیری اخبار والا ان کے ہمراہ آئے گا۔ تیرا باوا بتا کے گیا ہے"۔
پیروں‘ مرشدوں اور مشائخ کا وہاں آنا اور ایک گریجویٹ پاگل کو دیکھنا ایک معمول بن کر رہ گیا تھا۔ اس لیے‘ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے‘ میں نے اس خبر کا بھی کوئی خاص اثر نہ لیا اور گم سم‘ مست الست آلتی پالتی مارے بیٹھا رہا۔ لوگ کہتے ہیں کہ ان دنوں میرا دماغ چل گیا تھا۔ میں پاگل ہو گیا تھا۔
آٹھ ماہ قبل مئی میں اچانک میرا دماغ پٹڑی سے اتر گیا تھا۔ ’’اچانک‘‘ تو نہیں کہنا چاہیے‘ کیونکہ اس کے آثار میری پیدائش سے پہلے ہی قائم ہو چکے تھے۔ جنیٹک انجینئرنگ بتاتی ہے کہ میرے ڈی این اے میں تصوف کی لہک ماں کی طرف سے آئی۔ درویشی کی ترنگ باپ کی طرف سے۔ مزدوری کی عادت میراث نہیں‘ حالات اور ماحول کانتیجہ ہے۔ شروع ہی سے دل پر اثر بڑی بڑی‘ موٹی موٹی چیزوں کا نہیں پڑتا تھا۔ نازک‘ ہلکی‘ صاف ستھری‘ ننھی ننھی‘ شفاف آئینہ چیزیں اثر کرتی تھیں۔
بچپن میں جب میں پانچویں جماعت میں پڑھتا تھا تو اپنے سکول ٹیچر حافظ رشید احمد کے ہمراہ پانی پت‘ بو علی شاہ قلندرؒ کے مقبرے پر جانے کااتفاق ہوا۔ حافظ جی لوح مزار کے قریب آ نکھیں بند کر کے‘ ہاتھ باندھ کر چپ چاپ بیٹھ گئے۔ تھوڑی دیر کے بعد ان کا چہرہ متغیر ہو گیا اور ان کی بند آنکھوں سے ایک ‘ فقط ایک چمکدار ‘ ننھا سا آنسو نکلا‘ اور میرے قلب پر آن گرا۔ آج تک وہ آنسو گرا نہیں‘ اسے برابر پھیلتے ہوئے محسوس کر رہا ہوں۔
جوانی میں اٹھارہ ملازمتیں کیں۔ایک ملازمت ایسی ملی‘ جہاں تین چار علمائے کرام اپنے اپنے رنگ میں تصوف کے مارے ہوئے تھے۔ ڈاکٹر بشارت علی قریشی‘ جو ان دنوں سوشیالوجی آف قرآن پر کام کر رہے تھے۔ بعد میں جامعہ کراچی سے آن ملے۔ لطیف ملک ایم اے‘ جنہوں نے ہندوستان پاکستان کے بزرگان دین کے حالات و کوائف میں متعدد کتب تصنیف کیں۔ پروفیسر مشتاق بھٹی چشتی قادری جو اپنے ایم اے کے ساتھ ایم او ایل ضرور لکھنا پسند کرتے تھے۔
ان تینوں حضرات کا دل پسند موضوع تصوف تھا اور اس موضوع کا معمول ما بدولت۔ تینوں اپنے اپنے دعاوی کا چشم دیدگواہ مجھے بنانے کی کوشش کرتے تھے‘ اور نادیدہ چشم دید گواہی نے میرے اندر عملی جذبۂ شہادت کے جراثیم پیدا کر دیئے۔
اتفاق سے ان دنوں لاہور میں ایک ایم اے پاس‘ سوٹڈ بوٹڈ‘ ٹائی والا شخص بہت شہرت حاصل کر گیا تھا جو اپنے دفترآتے جاتے‘ اپنی نئی چمکیلی سائیکل پر سوار‘ سڑکوں پر دایاں ہاتھ لہرا لہرا کر‘ بلند آواز میں آیات قرآنی کا ورد کر کے لوگوں سے خود کو پاگل اور فاتر العقل کہلواتا تھا۔ اس کے متعلق مشہور تھا کہ چلہ الٹ گیا ہے۔ چلہ کیا ہوتا ہے؟ سیدھا پڑے تو کیا ہوتا ہے؟ الٹ جائے تو کیا ہوتا ہے؟ میرے اس عملی جذبے کے جراثیم کو غذا اس شخص نے فراہم کی۔
حصول رزق کے بعد فراغت کے اوقات میں یہ ٹیڑھے میڑھے سوالات لے کر بزرگان لاہور کی خدمت میں حاضری دیا کرتا ۔ مجھے بڑی آسانی سے نماز کی طرف لگا دیا گیا۔ میں بڑا زبردست پنج وقتہ نمازی بن گیا اور خود کو خوش کرنے کے لئے یہ مصرع گنگنایا کرتا ’’درجوانی توبہ کردن شیوۂ پیغمبر است‘‘ ہوتے ہوئے تخلیہ اختیار کیا۔ تخلیے میں عبادت کا لطف دو چند ہوا۔ بتایا گیا کہ اگر تم واقعی چلہ کھینچنا چاہتے ہو تو پہلے چالیس روز تک مسجد میں تہجد اد ا کرو۔ پھر گویا تم چلہ کشی کے لئے مبتدی اور امیدوار بن جاؤ گے۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ مئی میں، میں مسجد داتا دربار میں انتہائی خلوص‘ خشوع وخضوع اور کامیابی سے تہجد گزاری کر رہا تھا۔ چالیسویں رات 27 رمضان المبارک کو پڑتی تھی‘ اور اس رات ٹھیک بارہ بجے 27 مئی‘ منگل کے دن کو شروع ہونا تھا۔ میں نے پہلی رات کا تعین اس حساب سے کیا تھا کہ چالیسویں رات 27 رمضان کو آ کر زیادہ بابرکت ثابت ہو۔
ان دنوں میں ہفت روزہ ’’لیل ونہار‘‘ کا نائب مدیر تھا۔ جناب فیض احمد فیض نے مجھے ایک ماہ پہلے سے ’’جنگ آزادی نمبر‘‘ کی ترتیب و تدوین پر مامور کر رکھا تھا۔ 1857ء کی جنگ آزادی کی یاد میں یہ خصوصی شمارہ 10 مئی کو صبح کو شائع کرنا مقصود تھا۔10 مئی جمعہ کو یہ شمارہ دھوم دھام سے مارکیٹ میں آیا۔ مجھے سستانے کے لئے دو یوم کی چھٹی دی گئی کہ آگے چلیں گے دم لے کر۔ 13 مئی کو میں چوبیس گھنٹے کا استعفیٰ دے کر مسجد میں آ بیٹھا۔ سوچا یہ تھا کہ کیوں نہ ان بقیہ پندرہ راتوں کے ساتھ ساتھ پندرہ دن بھی ذرا قوت مدرکہ کی گہرائی اور قوت متخیلہ کی پہنائی میں گزاری جائیں‘ کہ نتیجہ زیادہ اچھے نمبروں کے ساتھ نکلے تو چلے کی امیدواری زیادہ پختہ اور مستحکم ہو جائے۔
۔27 رمضان المبارک کی شب مسجد میں پاکیزہ روحیں جشن منا رہی تھیں۔ فضائل کاو فور تھا۔ میں بھی روح کی جاں گسل کیفیتوں میں نہا رہا تھا۔ تجلیوں کی پھوار اپنے قلب پر براہ راست محسوس کر رہا تھا۔ جانے کیسے‘ کب ‘ کیونکر مجھ سے یہ واردات ظہور میں آئی کہ میں نے ایک ہی جھٹکے سے اپنا گریبان چاک کر لیا۔ دھاری دار قمیص تار تار کی‘ صحن مسجد میں اسے رواں رواں کیا اور سیڑھیاں اتر کر باہر نکل گیا۔
درویشوں کی لمبی قطار ختم کر کے جب میلارام کے کارخانے کے پاس پہنچا تو شلوار بھی اتار کر گندے نالے میں بہادی‘ اور یوں علائق دنیاوی سے کنارہ کش ہو کر اپنے جسم اور اپنی روح کو عریاں کر لیا۔ بے لباس ہوا تو جیسے گاؤں کا کتا اجنبی شہر میں آ کر دہشت زدہ ہو جاتا ہے‘ میں بھی دہشت زدہ ہو کر بھونکنے لگا۔ بہکنے بنکارنے لگا۔ بھائی گیٹ کا سدا بہار چوک‘ لوہاری دروازے کا پولیس زدہ چوک‘ انار کلی‘ نیلا گنبد‘ غرض رات بھر میں پاگلوں کی طرح چیختا رہا۔ جو میرے منہ میں آیا‘ اگلتا گیا‘ منہ سے باؤلے کتوں کی سی جھاگ نکلنے لگی۔
دو پہرہ دار سپاہیوں اور لوگوں نے الف ننگے لاوارث نوجوان لڑکے کو زبردستی پکڑا اور اسے قابو کر کے داتا دربار کی مسجد کے پچھواڑے ایک جھونپڑی میں چار پائی سے باندھ دیا۔ التہاب ذات کا مارا ہوا منہ زور سرکش گھوڑا بلبلاتا رہا۔ تاایں کہ بڑے مجاور حاجی غلام رسول وہ چیخیں سن کر وہاں پہنچے۔ انہوںنے مجھے شناخت کر لیا۔ فوراً گھر سے ابا جی کو بلوا بھیجا۔ ابا جی نے میری یہ حالت دیکھتے ہی فوراً ہتھیار ڈال دیئے۔ دس سال پہلے 1947ء میں اپنے قصبے کے چار ہزار شہیدوں کے گلے کٹوانے کے بعد ان میں اتنی قوت مزاحمت نہ رہی تھی کہ وہ اپنے چودہ افراد کے کنبے کے واحد کفیل کی ذہنی موت کا مقابلہ کر سکتے۔ وہ سجھ گئے کہ مجھ پر کسی کا سایہ ہے۔ انہوں نے اس سایے کے آگے ہاتھ جوڑ دیئے کہ آپ اس کے ساتھ جو چاہیں‘ سلوک کریں اسے کم از کم تہبند باندھنے دیں‘ تاکہ اس کی ماں بہنیں تو اسے دیکھنے آ جایا کریں۔ یہ ہماری عزت کا سوال ہے۔ ایک سے ایک بڑھ کر تہبند میرے لئے لائے گئے‘ میں نے سب پھینک دیئے‘ کھانے کے قاب اور ڈشیں آئیں‘ جن کو میں دیکھے بغیر وحشت سے سڑکوں پر پھینک دیتا۔
پہلا اتوار آیا تو وائی ایم سی اے میں حلقہ ارباب ذوق کے جوائنٹ سیکرٹری کی جستجو ہوئی کہ اس کے پاس ہفتہ وار کارروائی کا بھی رجسٹر تھا اور مجلس عاملہ کا بھی۔ سیکرٹری شہرت بخاری موٹر سائیکل پر بھاگے بھاگے گھر آئے۔ میرا بھائی محمد علی شہرت بخاری کو میرے پاس لے آیا۔ شہرت صاحب تو ہکا بکا رہ گئے۔ ایسا دانا بینا‘ شوخ و شنگ‘ قہقہہ بار آدمی پاگل کیسے ہو سکتا ہے۔
حلقے کے اجلاس کے فوراً بعد بیس پچیس ادیبوں کا کارواں میرے دیدار کو آیا۔ قیوم نظر‘ اعجاز حسین بٹالوی‘ ناصر کاظمی‘ انتظار حسین‘ انجم رومنی‘ امجد الطاف وغیرہ سب نے باری باری اپنے ننگے یار کو چھیڑا کہ بولے گا۔ لیکن واں ایک چپ سب کے جواب میں ۔ نہ مسکراہٹ‘ نہ تبسم‘ نہ لہجہ نہ ادا۔ ایک پتھر کا بت تھا جس سے وہ ہم کلام تھے۔
رائے ٹھہری کہ یہ ’’نفسیات جنوں‘‘ کا کیس ہے۔ چنانچہ ہمارے سابق باس ڈاکٹر ایم افضل (حال وزیر تعلیم) کے کہنے پر کرنل رفیع الزماں‘ جوایئر فورس میں ماہر نفسیات تھے‘ فاتحانہ ہمیں دیکھنے آئے اور مایوسانہ واپس چلے گئے۔ اپنا فیصلہ سنایا کہ مکمل فاتر العقل ہوا۔
کسی نے کہاکہ اس پر ملنگ سوار ہے۔ کسی نے کالا جادو ہے۔ کہا گیا کہ اس نے جس جگہ پر پیشاب کیا تھا‘ وہیں ایک بزرگ کی قبر تھی‘ ان کے زیر عتاب ہے‘ دیگ چڑھاؤ ‘ کسی نے کہا‘ جن کاسایہ ہے‘ کسی نے رائے دی‘ حضرت خضر کا سایہ ہے‘ چلہ الٹ گیا ہے‘ زیادہ پڑھنے لکھنے سے دماغ چل گیا ہے‘ جنسی خواہشات کا دباؤ ہے‘ معاشیات کا کھنچاؤ ہے۔ اعصاب کا تناؤ ہے۔ کوئی مخفی خواہش ہے جو رگ پٹھوں میں اتر گئی ہے۔ کالا جادو اتارنے والے آئے تھے‘ پیر آئے‘ لائے گئے‘ حکیم آئے‘ ڈاکٹر آئے‘ سات سات دالیں اکٹھی کر کے راوی کے کنارے جنتر منتر کئے گئے۔ سات سات کنوؤں کا پانی جمع کر کے اتار ا کیا گیا۔
میرے چھوٹے چھوٹے بھائی روز مجھے دیکھنے آتے اور چوری چوری دیکھ کر چلے جاتے۔ بہنیں آتیں‘ اور رو رو کر آنکھیں سرخ کر کے چلی جاتیں۔ اماں جی کی آنکھیں مستقل روتی رہتیں۔ ایک روز وہ آئیں اور میری انگلی سے منگنی کی انگوٹھی اتار کر لے گئیں۔ لڑکی والوں نے بڑی مشکل سے تو ’’ہاں‘‘ کی تھی کہ ادیب کو بیٹی کون دے۔ وہ ادیب ہی نہیں‘ پاگل بھی ہے۔
ہمارے سابق باس حکیم احمد شجاع آئے۔ ایک نظر بھر کر دیکھا اور ہمدردانہ آہیں بھرتے ہوئے چلے گئے۔
ہمارے مشفق استاد سید عابد علی عابد کئی مرتبہ آئے۔ ہر مرتبہ گالیوں سے نوازا کہ الو کے پٹھے کو لاکھ سمجھایا کہ اپنی بساط سے آگے نہ بڑھ۔ زمانۂ جاہلیت میں ٹی ایس ایلیٹ کا موازنہ شیخ سعدی سے کرے گا تو وہی کچھ ہونا چاہئے تھا جو ہوا۔
ہمارے سابق باس جسٹس ایس اے رحمن آئے اور ہائے کس ادا سے آئے کہ اپنے ہمراہ ایک ڈاکٹر بھی لائے۔ وہ اگر چیف جسٹس تھے تو ہم بھی شہنشاہ تھے اور ان کو فقیر سے زیادہ کا درجہ دینے کے لئے تیار نہ تھے۔ ان کو دیکھا تو ہم نے شان بے نیازی سے منہ پھیر لیا۔ وہ اپنا سامنہ لے کر چلے گئے۔
مولانا حامد علی خاں اور مولانا غلام رسول مہر دونوں لمبی کار میں اکٹھے آئے۔ دیکھا اور آپس میں کچھ باتیں کرتے ہوئے چلے گئے۔
حلقہ ارباب ذوق والوں نے اخباروں میں خبر دے دی تھی کہ ابھرتا ہوا ادیب سید قاسم محمود ایک ناقابل فہم صدمے کا شکار ہو کر پاگل ہو گیا اور اب وہ داتا دربار کے باہر فقیروں میں عریاں بیٹھا ہے۔
اخباری نمائندے آئے۔ میری تصویریں اتاری گئیں۔ طرح طرح کی خبریں بننے لگیں۔
آغا شورش کاشمیری کیوں نہ آتے۔ ان کے ’’چٹان‘‘ کو مستقل ہفتہ وار ادبی سرگرمیوں کا کالم نہ ملا تو انہیں کالم نویس کی جستجو ہوئی۔ معلوم ہوا۔ آغا جی کو یقین نہ آیا۔ دوڑے دوڑے میرے پاس پہنچے۔ کچھ اندازہ کیا۔ کچھ تو لا‘ شام کو پھر آئے۔ پانچ چھ مشٹنڈے ان کے ہمراہ تھے۔ ان کی سکیم یہ تھی کہ مجھے ایک دفعہ اس بیمار ماحول سے نکال کر کہیں اچھے‘ صحت مند ماحول میں لے جائیں اور علاج کرایا جائے تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔ آغا صاحب کی پرجوش قیادت میں مجھے ڈنڈا ڈولی کر کے قریب ایک تانگے کی طرف لے جایا جانے لگا‘ لیکن میرے اندر کے ملنگ یا جن نے ان سب کی وہ مرمت کی کہ وہ اپنے منصوبے میں کامیاب نہ ہو سکے۔
کرنا خدا کا کیا ہوا کہ رفتہ رفتہ میں از خود ترقی یا تنزلی کی منزلیں طے کرنے لگا۔ کوئی ایک ماہ بعد ایک روز خود بخود لباس کی خواہش ہوئی۔ میں نے ابا جی سے اشارے سے کہا کہ تہبند چاہئے۔ اس بیماری کی خاص بات یہ تھی کہ میں بول نہیں سکتا تھا۔ میرے ہونٹ آپس میں سل گئے تھے۔ تہبند باندھ کر میں جھونپڑی سے نکلا اور فقیروں کے ساتھ ان کی قطار میں جا بیٹھا۔ ایک سینئر فقیر نے غصے سے گھورا۔ خیر یہ ہوئی کہ میں غرایا نہیں‘ چپ رہا۔ اس لئے صلح ہو گئی۔ دوسرے روز اسی فقیر نے اپنے بھنڈارے کے حصے میں سے مجھے مٹھی بھر چاول دینے چاہے۔ میں نے انکار کر دیا‘ کیونکہ مجھے کھانے کی طلب ہی نہ تھی۔
کافی دن کے بعد مجھ میں کھانے کی خواہش پیدا ہوئی۔ لوگ چٹکی چٹکی لنگر بانٹنے آتے۔ اس روز میں نے بھی ہاتھ پھیلا دیا۔ ایک کلچہ‘ اوپر چنے کی دال‘ میں نے آدھا کھا کر باقی کتوں کے آگے پھینک دیا جو ہم فقیروں کے گرد یوں منڈلاتے رہتے تھے جیسے ہم داتا کے گرد منڈلاتے رہتے تھے۔ ایک دن میں نے ابا جی سے اشارے سے کہا کہ میرے لئے کرتا لاؤ۔ کرتا آ گیا۔ پھر میں نے سر پر ہاتھ رکھ کر ٹوپی مانگی‘ جالی دار ٹوپی آ گئی۔
اب بھی میں فقیروں کی قطار ہی میں رہا۔
یا تو میں ہر وقت آلتی پالتی مارے بیٹھا رہتا تھا جیسے ٹانگیں آپس میں جڑ گئی ہوں‘ یا ایک روز خود بخود وہاں سے ا ٹھا اور مسجد میں جا کر وضو کرنے لگا۔ وضو کر کے داتا کے مزار کی جالی پکڑ کر خاموش گم سم گھڑا ہو گیا۔ آج یوں لگتا ہے کہ میں وہاں کئی برس تک یونہی کھڑا رہا۔
پھر میں پانچوں وقت کی باجماعت نمازوں میں شریک ہونے لگا۔ ساری رات صحن مسجد میں کھڑا عبادت کرتا رہتا ۔ البتہ دن کے وقت خواجہ غریب نواز ؒ کے حجرۂ اعتکاف کے پاس سرنیہوڑائے بیٹھا رہتا۔ جب سے سردیاں آئی تھیں‘ دھوپ کے ساتھ ساتھ سرکتا رہتا۔
📷
عصر کی نماز کے بعد آغا شورش کاشمیری میرے پاس آئے۔ ان کے پیچھے پیچھے پیر گولڑہ شریفؒ تھے اور ان کے چند مرید اور ہمارے پہلوان صاحب۔ آغا صاحب نے پیر صاحبؒ سے کہا: ’’یہ ہے ہمارا وہ دوست سیدزادہ ہے۔ انتہائی ذہین اور شریف ہے۔ اچھا لکھنے والاہے۔ اسے دیکھئے کیا ہو گیا ہے۔‘‘
پیر صاحب نے یہ نہیں چاہا کہ مجھے کھڑا کیا جائے۔ وہ خود ہی میرے پاس آ کر بیٹھ گئے۔ ان کی پیروی میں ان کے مرید بھی‘ آغا صاحب بھی‘ اور پہلوان صاحب بھی بیٹھ گئے۔ پیر صاحبؒ نے میری طرف غور سے دیکھا۔ پھر دیکھا۔ میری آنکھوں میں دور تک جھانکا۔ آغا جی سے فرمایا: ’’رہنے دیجئے یہیں۔ آپ کا کیا جاتا ہے۔ یہاں رہے گا تو کچھ حاصل کر لے گا۔‘‘
آغا شورش نے کہا: ’’نہیں جی‘ بھرا پرا کنبہ اس کے سر پر ہے‘ تباہ ہو جائے گا۔ اس کی خلاصی کرائیں۔‘‘
پیر صاحبؒ نے فرمایا: ’’اچھا آج رات بات کروں گا۔‘‘ یہ گویا واضح اشارہ تھا‘ داتا گنج بخشؒ کی طرف۔
اس رات‘ کوئی دو بجے ہوں گے۔ چاند پوری آب و تاب کے ساتھ دمک رہا تھا اور میں شدید سردی کے باوجود محض ایک کرتے میں‘ عین صحن مسجد کے وسط میں کھڑا محو عبادت تھا۔ اچانک مجھے کیا ہوا کہ میں مسجد میں گر گیا۔ پھر میں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ خود بخود میری آواز کھل گئی۔ گڑگڑا کر دعا مانگنے لگا۔
اچانک میرے کانوں سے شائیں شائیں کی آوازیں آنے لگیں‘ جیسے کسی نے ان پر ڈاٹ لگا رکھی تھی‘ اور وہ ڈاٹ ہٹا دی گئی ہے۔ میں مسجد سے اٹھا اور دیوانہ وار اپنے گھر کی طرف دوڑا۔ زور زور سے دستک دی۔ اوپر والی منزل کی کھڑکی سے ابا جی نے پوچھا: ’’کون ہے؟‘‘
’’میں آ گیا ہوں‘‘ یہ پہلے بول تھے جو میری زبان سے آٹھ ماہ میں پہلی مرتبہ ادا ہوئے تھے۔
والدہ محترمہ‘ چاروں بھائی‘ تینوں بہنیں جاگ گئے۔ ان کی آنکھوں میں خوشی کے قمقمے یوں جگمگا رہے تھے کہ میں رب غفور کے حضور دست بدعا ہوں کہ ہر شخص کو یہ منظر عطا کرے۔
میں نے غسل کیا۔ کپڑے پہنے‘ نارمل آدمیوں کی طرح داتا صاحبؒ کی مسجد میں فجر کی نماز ادا کی‘ ناشتے میں دس بیس پراٹھے ہڑپ کر گیا‘ صدیوں کا بھوکا تھا۔ پھر ان گٹھڑیوں کو کھولا جن میں میری کتابیں‘ مجھے مردہ سمجھ کر‘ باندھ دی گئی تھیں۔ اپنا کام شروع کر دیا‘ اور الحمدللہ آج تک کر رہا ہوں۔
صدر محترم! 5 دسمبر 1957ء سے آج 1984ء تک‘ ستائیس برس ہو رہے ہیں‘ کوئی دن ایسا نہیں گیا جب میں نے گولڑہ شریف جانے کی آرز ودل میں محسوس نہ کی ہو۔ کتابی آرزو نہیں ‘ قلبی آرزو لیکن اس آرزو کے ساتھ شک کا سانپ بھی پھنکارتا ہوا نظر آتا ہے۔ کیا انہوں نے مجھ پر احسان کیا کہ پاگل پن سے نجات دلا کر دینا میں نارمل انسانوں کے ساتھ زندگی بسر کرنے کے لئے بھیج دیا؟ یا کیا انہوں نے مجھ پر یہ ظلم کیا کہ ایک بہشتی ماحول سے نکا ل کر پاگل خانے میں بھجوا دیا؟ پاگل خانہ وہ تھا کہ یہ ‘ جہاں اب میں رہ رہا ہوں۔
وہاں میرے دماغ کی گراریاں پوری رفتار سے گھومنے لگی تھیں۔ تنو مند خیالات کی ولادت کی رفتاراپنے جو بن پر تھی۔ قلب شفاف اور منزا رہنے لگا تھا۔ میرا حسی‘ قلبی اورنفسی نظام باہم مربوط اور ہم آہنگ ہو کر ایک مکمل وحدت بن گیا تھا۔ وہاں یوں لگتا تھا جیسے پوری کی پوری کائنات میرے وجود کے اندر سمائی ہوئی ہے‘ اور میں‘ فقط میں ہوں اور اگر میرے باہر کوئی وجود رکھتا ہے تو وہ واحد ذات مطلق‘ جس کے آگے سربہ سجود ہونے میں عجب سرشاری تھی۔ من وتو کے سوا دل میں کسی اور کاچراغ نہ جلتا تھا۔
میرا یہ خاکی‘ آنی فانی جسم‘ لطیف و نفیس روح کے جھولے میں ہلکا پھلکا سا‘ فضا میں تیرتا رہتا تھا۔
یہاں یوں لگتا ہے کہ جیسے ہر نئے قدم پر ایک نئے خدا کا سامنا ہے جس کے آگے سربہ سجود ہونا از روئے قانون و رواج ضروری ہو۔ معمولی علیک سلیک اور روزمرہ کی بول چال کے لئے بھی پہلے منافقت کے احساس سے گزرنا پڑتا ہے۔ ہر سانس جو میرے اندر جاتا ہے اور میرے پھیپھڑوں سے باہر آتا ہے‘ سراسر آلودہ ہے‘ میں فضائی آلودگی کی بات نہیں کر رہا۔ میں روحانی کثافت کی بات کر رہا ہوں۔ اپنے تنفس کو تو میں لمبے لمبے سانس لے کر ٹھیک کر لیتا ہوں۔ نفس میں جو روزانہ غلاظت اردگرد کے ماحول سے پیدا ہو رہی ہے‘ اس کے اخراج کا کوئی نظام برسرعمل نہیں ہے۔ ڈاکٹر لوگ طر ح طرح کے نت نئے آلات سے دل کا ای سی جی وغیرہ کر لیتے ہیں۔ سوچتا ہوں کہ قلب کا ای سی جی کون کرے گا۔
وہاں میں خلاء میں معلق رہنے کے باوجود بھرا بھرا سا تھا۔
یہاں بھری پری دنیا میں رہنے کے باوجود میں کھوکھلا سا ہوں۔
وہاں زبان بندھی تھی‘ لیکن ذہن و ضمیر جاگا ہوا تھا اور ہر چیز کا ہوش تھا۔
یہاں زبان کھلی ہے‘ لیکن قلب و ضمیر سویا ہوا ہے اور کسی چیز کا ہوش نہیں۔
وہاں تمام علائق کی زنجیریں توڑ کر بیٹھنے کے باوجود دل سے محبت کا طوفان اٹھتا رہتا تھا۔
یہاں تمام علائق سے رشتے استوار رہنے کے باوجود دل میں حقارت و نفرت کے بگولے اٹھتے رہتے ہیں۔
وہاں کا حرف آغاز یہ تھا کہ آؤ محبت کریں۔
یہاں کا حرف آغاز یہ ہے کہ آؤ نفرت نہ کریں۔
سوچتا رہتا ہوں کہ گولڑہ شریف پہنچ بھی جاؤں تو وہاں کہوں گا کیا؟ ممنونیت سے شکریہ ادا کروں گا یا شکوے کرنے بیٹھ جاؤں گا؟
یہ کیسے دریافت کروں گا کہ وہ لمحہ مجھ پر کیوں آیا جب میں نے اپنا گریباں چاک کیا تھا اور قمیض تارتار کی تھی؟ وہ کسی لغزش کی سزا تھی یا کسی حرکت کا انعام تھا؟ مجھ پر کسی جن کا سایہ تھا یا کسی ملنگ کا قبضہ تھا؟ میرا دماغ خراب ہو گیا تھا یا عتاب نازل ہوا تھا؟ کیوں‘ مگر کیوں؟ اور وہ ایک دم سجدے سے ا ٹھ کر پھر دنیا کی طرف بھاگ آنا کسی قصور کی پاداش تھی یا کسی امتحان کا نتیجہ تھا؟ اور ایک دفعہ وہاں پہنچ گیا تو پھر سائنس کا پتلا اور ٹیکنالوجی کا پرزہ بن کر یہ بھی معلوم کروں گا کہ اہل قبول سے باتیں کیونکر ہوتی ہیں۔
صدرمحترم! میں بہت الجھا ہوا‘ گم شدہ آدمی ہوں‘ نہیں جانتا کہ ’’پانا‘‘ کسے کہتے ہیں۔ مخالف سمتوں سے آنے والے متلاطم‘ ژولیدہ‘ بپھرے ہوئے سوالات نے مجھے جیتے جی مار رکھا ہے۔ یہ طے شدہ بات ہے کہ ایک نہ ایک دن میں انشاء اللہ ضرور گولڑہ شریف حاضری دینے جاؤں گا‘ لیکن وہاں میں اپنی قلبی کثافت‘ روحانی غلاظت اور نفسی الجھاؤ کے ساتھ نہیں جانا چاہتا‘ جو ان ستائیس برسوں میں بہت بڑھ گئی ہے۔
جب میں داتا صاحبؒ گیا تھا تو میں معصوم تھا۔ معصومیت میں میرے ساتھ یہ سلوک ہوا کہ اب نہ جانے کیسا سلوک ہو۔ ڈرتا ہوں‘ خوف آتا ہے۔
شاید کوئی ہو جو میرا خوف دور کرے‘ میری الجھنیں سلجھائے‘ مجھے راستہ دکھائے۔ میری رہنمائی کرے‘ ورنہ اپنے اپنے جہنم میں ہرکوئی جھلس رہا ہے۔ میں بھی جھلس رہا ہوں۔ اسی باطنی الاؤ ہی سے تو ایک چوٹ کھائی ہوئی‘بلبلائی ہوئی فریاد نے عرش عظیم کو ہلا دیا تھا۔
کتھے مہرعلی‘ کتھے تیری ثنا
گستاخ اکھیاں‘ کتھے جا لڑیاں
از سید قاسم محمود
(۔17نومبر1984 کو لکھا گیا "۔)
بشکریہ:: سنڈے ایکسپریس۔۔۔آپ بیتی۔۔۔اتوار31 اگست 2014


بدھ, اکتوبر 15, 2014

"لاپتہ افراد"



 سورۂ البقرۂ (2)۔۔۔ترجمہ آیت 286۔۔
۔"اللہ کسی نفس کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔ اچھے کام کرے گا تو اُس کو اُن کا فائدہ پہنچے گا اور برے کام کرے گا تو اُسے اُن کا نقصان پہنچے گا۔۔ اے ہمارے رب اگرہم بھول جائیں یا غلطی کر بیٹھیں تو ہم سے مواخذہ نہ کرنا۔اے پروردگار ہم پر ایسا بوجھ نہ ڈال جیسا تو نے ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالا تھا۔اے پروردگار جس بار کو اٹھانے کی طاقت ہم میں نہیں وہ ہم پر نہ رکھ۔۔ ہمارے گناہوں سے درگزر کر اور ہمیں بخش دےاور ہم پر رحم فرما۔تو ہی ہمارا مالک ہے اور کافروں کی قوم پرہماری نصرت فرما"۔
ہم دعاؤں پر یقین رکھتے ہیں ان کی فضیلت سے بھی آگاہ ہیں ۔ لیکن! دعا رابطہ ہے۔۔۔دل کی پکار ہے۔۔۔عاجزی ہے۔یقین ہےتو صرف اس بات کا ہے کہ ہمارا خالق ہمیں سن رہا ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ ہمارے حق میں ہماری دعا بہتر ہے؟۔۔۔ جو ہم مانگ رہے ہیں اس کا ملنا یا نا ملنا ہمارے لیے کتنا اہم ہے؟۔ روزمرہ زندگی میں چھوٹی موٹی کھو جانے والی ان چیزوں کے لیے تو دعاؤں کو اس نیت سے پڑھ لینا چاہیے کہ شاید مالک ہمیں یاد دلا دے۔ گھر میں کھو جانے والی چھوٹی سی سوئی کے لیے بھی آدمی کتنا پریشان ہو جاتا ہے کہ بستر یا قالین پر پاؤں میں نہ چبھ جائے۔ لیکن کچھ گمشدہ چیزیں کبھی نہیں ملتیں۔۔۔ہم دعائیں مانگ مانگ کر تھک جاتے ہیں۔اہم بات اس "تھکنے"سے پہلے اللہ کی رضا میں راضی ہونا ہے اوریہی سب سے مشکل کام اور اصل امتحان ہے۔ جس کے لیے پہلے سے کی گئی کوئی تیاری معنی نہیں رکھتی۔
اپنے پیارے اپنے خونی رشتے میں سے کسی کی موت ہمارے نزدیک انسان کا سب سے بڑا غم ہے۔اوراچانک موت تو ہمیشہ کا ایک نہ بھولنے والا صدمہ دے جاتی ہے۔ لیکن سانحہ وہ بھی ہے جب کوئی اپنا گھر سے جائے اور واپس ہی نہ آئے۔ ایسے دنیا سے لاپتہ ہو جائے کہ جیسے کہیں تھا ہی نہیں کبھی آیا ہی نہ تھا۔ اس لمحے"موت"بہت بڑا انعام لگتی ہے کہ مرنے کا یقین ہونے۔۔۔ آخری بار چہرہ دیکھنے۔۔۔ زمین میں دفنائے جانے کی باتیں تو چھوڑیں۔۔۔ جانے والے کے لیے دعائے مغفرت تو کی جا سکتی ہے۔اور اس طرح جانے والا تو اپنے پیچھے رہ جانے والوں کو ہمیشہ زندگی کے دوزخ میں چھوڑ جاتا ہے۔۔۔ کہ نہ اس کے "لاپتہ ہو جانے۔۔۔ ہمیشہ کے لیے چلےجانے کا یقین آتا ہے اورنہ واپسی کی امید نظر آتی ہے۔ انسان دوسرے انسانوں کو معذرت خواہانہ صفائیاں پیش کرتے کرتے بےیقینی اور تنہائی کے آسیب میں گرفتار ہوجاتا ہے۔ اوردوسرے رشتے چاہتے ہوئے بھی اسے اس گرداب سے نکال نہیں سکتے۔
وقت سب سے بڑا مرہم ہے اس میں کوئی شک نہیں۔ لیکن اللہ کا فضل اورایمان کی سلامتی کی دعا ہر حال میں مانگنا چاہیے۔سچ ہےکہ مشکل کی گھڑی میں انسان اتنا پریشان ہوتا ہے کہ کھوئے ہوئے کے لیے جہاں بھی ذرا سا امکان نظر آتا ہے ہاتھ پھیلا دیتا ہے۔ یہ وقت ایمان کی سلامتی کا اصل امتحان بھی ہے۔
اللہ پاک آزمائش کی ہر گھڑی میں سرخرو کرے۔ ویسے بھی اللہ کا فرمان ہے کہ "وہ کسی نفس پر اس کی استطاعت سے بڑھ کر بوجھ نہیں ڈالتا" اور یہی ہماری دعا بھی ہونی چاہیے کہ اللہ ہم پر وہ بوجھ نہ ڈالے جو اٹھانے کی ہم میں سکت نہ ہو۔
آمین یا رب العالمین۔
دن12 بجے
اکتوبر15، 2014
۔۔۔۔۔
"ثمر"دعا کے حوالے سے 13 فروری 2012 کو لکھا گیا ایک احساس جو نومبر11، 2012 کو بلاگ کی صورت محفوظ کیا۔
۔۔۔


منگل, اکتوبر 14, 2014

"چراغ"

زندگی اپنے آپ کو تلاش کرنے کے ایک مسلسل عمل کا نام ہے۔ حقیقت میں ہمارے رشتے ہمارے تعلق ساری زندگی ہمارےوجود کے بخیے اُدھیڑ کر نہ جانے تلاش کے کون کون سے مراحل طے کرتے ہیں اور اسی طرح ہم بھی اپنے آپ سے انجان ان کی ذات کی بھول بھلیوں میں اپنے آپ کو کھوجتے چلے جاتے ہیں۔ اس لاحاصل سفر میں ہاتھ کسی کے کچھ نہیں آتا بظاہر زروجواہر سے لدے پھندے بھی نظر آئیں۔
جب تک ہم اپنے آپ کو۔۔۔ اپنی روشنی کو نہیں پہچانیں گے ہم کبھی بھی دنیا کے سمندر میں آنکھیں چکاچوند کر دینے والی روشنیوں کا سامنا نہیں کر سکیں گے۔ مٹی سے بنے انسان اپنی ہی مٹی کی خوشبو محسوس نہیں کریں گے تو وہ کس طرح اپنی تخلیق کا حق ادا کرسکتے ہیں۔آسمان کی وسعتوں کو چھونے کےآرزو مند اپنی محدود طاقت پرواز پرایمان نہیں لائیں گے تو اپنی ذات کے حصار سے نجات نہیں ملے گی۔ اپنے رنگوں کی مہک عالم بےخودی میں رقص پر مجبور بھی کر دے لیکن جب تک اپنے پیروں کو نہیں دیکھیں گے جنوں کی کیفیت سے باہر نہیں نکل پائیں گے۔
 اصل بات اپنی اہلیت کو پہچاننا پھر بھی نہیں بلکہ اہم بات یہ ہے کہ پہچان کے بعد ہم کس طرح اپنے آپ کو اس کا اہل ثابت کرتے ہیں۔ آیا اہلیت کا ڈھول پیٹ کر سارے جہان کو اکٹھا کر لیتے ہیں۔۔۔ان کو مسمرائز کر کے نہ صرف ان کی بلکہ اپنی بھی لمحاتی تشفی کرتے ہیں،اپنی خودستائش کے بت کو اونچا مقام دے کر۔۔۔ اس کے قدموں میں بیٹھ کر دوسروں کی ناقدری کا گلہ کرتے زندگی تمام کرتے ہیں۔ ایسے ڈھول اورایسے بتوں کی قربت ان کی اصل کبھی نہ کبھی ضرور سامنے لے آتی ہے۔ دوسروں کے سامنے نہ بھی آئے لیکن انسان اپنے اندر کا حال جانتا ہے وہ کبھی اپنی ذات میں مطمئن نہیں رہ سکتا۔
لفظ کے حوالے سے اس کردار کی قریب رہنے والوں کو نہ تو ضرورت  ہوتی ہے اور نہ ہی کبھی بھی اپنا آپ اس طرح جتانے کی تمنا ہونی چاہیے۔خود کلامی کے لیے کہیں بس ذرا سی جگہ مل جائے یہی بہت ہے۔نیت کا اجر رب کے ذمے ہے کہ وہ کس طرح اپنے بندے کو دیتا چلا جاتا ہے۔چاہنا اور چاہےجانے کی خواہش انسان کی فطرت اورجبلت کا حصہ ہے چاہے وہ جسم کی خوشنمائی ہو یا سوچ کی زیبائی۔ جسم کی طلب اس وقت تک سوہان روح بنی رہتی ہے جب تک وہ مٹی میں نہ مل جائے اورجسم کی تشنگی جسم کے ساتھ ہی پیوند خاک ہو جاتی ہے۔کتنے خوشنما چہرے وقت کی گرد میں گم ہو کرفنا ہو گئےباقی رہا تو سوچ کا سفر ۔۔۔خیال کی وسعت اور جستجو کی پکار جس نے نہ صرف آنے والے انسان کی ذہنی تشفی کی بلکہ اس کے لیے زندگی کو آسان بنانے کی راہ بھی ہموار کی۔لفظ کہانی کا سفر"چراغ" کی مثل ہے دیکھا جائےتو "چراغ" کا ہرمفہوم لفظ کی سفر کہانی پر پورا اُترتا ہے۔
 چراغ۔۔۔مٹی کا ننھا دیا صدیوں سے ہماری زندگی کا حصہ چلا آرہا ہے۔ روشنی کی رفتارماپنے کے اس ترقی یافتہ دورمیں وہ ٹمٹماتا دیا جوآج صرف ہماری زبان وبیان کی چاشنی میں نظر آتا ہے تو نئی نسل کے لیے خوشی کی تقاریب میں اس کو تھامنا عجیب سی اپنائیت اور چہروں پر جگمگاہٹ لاتا ہے۔۔۔اور مزاروں پرعقیدت مند بڑے ذوق وشوق سے اپنی منتوں مرادوں اور خواہشوں کے دیئے روشن کرتے ہیں۔ 
 چراغ ۔۔۔جو اندھیری راتوں میں امید کی کرن بن کر نمودار ہوتا ہے۔وقت کی گرد کبھی بھی اسے نگاہوں سے اوجھل کرسکتی ہے۔ عورت کو چراغ خانہ کہا گیا ہےاور صدیوں سے یہ بھی مستند بات سمجھی جاتی ہے کہ "گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے"۔اس رمزکو سمجھنا ایک عورت کے لیے بہت اہم ہے شاید ساری زندگی کہانی کا سب سے اہم سبق بھی جس پر کامیابی یا ناکامی کا فیصلہ ہونا ہے۔ چراغ سے چراغ جلتے رہیں تو یہی اس کی زندگی کی کمائی ہے۔ چراغ سے چراغ جلتا رہے تو روشنیوں کا سفر خواب جیسا توہوتا ہے لیکن خواب نہیں ہوتا۔
!حرف آخر 
ہمارا وجود اہرام کی طرح کا وہ عجوبہ ہے جس پر صدیوں سے قدموں کے نشان تو اتر رہے ہیں لیکن اس کی ہیئت۔۔۔ اس کی تحریر کاتب تقدیر کے سوا کوئی نہیں جان سکتا۔ اہرام کے کاتب تو ہزارہا برس قبل مٹ چکے لیکن ہمارا کاتب ہمیں آخری سانس تک سمجھنے کے مواقع دیتا رہتا ہے۔ بے شک ہم خود بھی اپنی تخلیق کا راز کبھی نہیں جان سکتے۔ لیکن ! جب تک وجود کے اس روزن میں سانس کی کھڑکی کھلی ہے ہر لمحے تازہ ہوا کا جھونکا کتاب ِزیست کا ایک نیا ورق پلٹتا جاتا ہے۔اپنے وجود کی رنگا رنگی دیکھ کر خالق کے حضور سربسجود ہونے کی تڑپ میں یقین وخلوص کا عنصر بڑھتا ہےتو' چراغ سحری' کی مانند لمحہ لمحہ فنا کی جانب گامزن روشنی نئی زندگی کی امید بھی روشن رکھتی ہے۔

جمعہ, اکتوبر 03, 2014

"مسجد نمرہ "



 ۔3 اکتوبر 2014 بمطابق 9  ذی الحج 1435 ہجری۔۔۔۔ 
"لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ لاَ شَرِيْكَ لَكَ لَبَّيْكَ إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ وَالْمُلْكَ لاَشَرِيْكَ لَكَ "
"مسجد نمرہ "
میدان عرفات میں واقع دو ہجری میں تعمیر کردہ مسجد نمرہ دنیا کی وہ واحد مسجد ہے۔۔۔
جہاں سال میں ایک بار۔۔۔ فقط ایک ہی روز اذآن کی آواز گونجتی ہے ۔اور صرف ایک وقت کی نماز ادا کی جاتی ہے۔
اس ایک اذان کے تحت ظہر اور عصر کی دو نمازیں یکجا کر کے "قصر" کہہ کر پڑھی جاتی ہیں۔ 
یہ روز نو ذی الحج کا ہے جب حج کا سب سے اہم اور لازمی رکن "وقوف عرفات" ادا کیا جاتا ہے۔
نو ذی الحج سال کا وہ خاص دن بھی ہوتا ہے جب میدان عرفات میں آنے والے حاجی مغرب کا وقت ہونے کے باوجود نماز مغرب ادا نہیں کرتے،سورج ڈھلنے کے بعد عرفات سے مزدلفہ روانہ ہو جاتے ہیں ۔
پورا سال مسجد نمرہ میں اذان اور باجماعت نماز نہیں ہوتی ۔ سال کے دوسرے ایام میں عرفات آنے والے زائرین مسجد نمرہ میں انفرادی طور پر نوافل ادا کرسکتے ہیں۔
مفتی اعظم"شیخ عبدالعزیز"مسلسل 34 واں خطبۂ حج ارشاد کرنے کی سعادت حاصل کریں گے ۔ 
مسجد نمرہ دنیا کی وہ واحد مسجد بھی ہے جہاں ایک نماز کے وقت  مسلمان سب سے بڑی تعداد میں  نمازِ باجماعت ادا کرتے ہیں ۔


"سیٹل اور سیٹل منٹ"

سورۂ فرقان(25) آیت 2۔۔   وَخَلَقَ كُلَّ شَىْءٍ فَقَدَّرَهٝ تَقْدِيْـرًا ترجمہ۔ اور جس نے ہر شے کو پیدا کیا اور پھر اس کے لیے ایک اند...