بدھ, اپریل 08, 2015

" جیوے جیوے پاکستان"

جمیل الدین عالی
ادیب،شاعر،سفرنامہ نگار،کالم نگار
اصل نام۔۔۔ مرزا جمیل الدین احمد خان
تاریخَ پیدائش۔۔20 جنوری 1926
بمقام۔۔۔ دہلی(ہندوستان)۔
تاریخِ وفات۔۔۔23نومبر2015
بمقام ۔۔۔کراچی
تصانیف۔۔۔’ 
۔نظمیں،دوہے،گیت (1957)۔
(۔'جیوے جیوے پاکستان‘(قومی نغمے1974
۔’دنیا میرے آگے‘،’تماشا مرے آگے‘، آئس لینڈ (سفرنامے)۔
نقارخانے میں۔۔وفا کر چلے،دعا کر چلے،صدا کر چلے (کالموں کا مجموعہ)۔
۔لاحاصل(1974)،اے مرے دشت سخن (آخری شعری مجموعہ)،اک گوشۂ بساط(خاکہ نگاری)۔
۔’حرفےچند‘(کتابوں پر دیپاچے، تین جلدیں)۔
’انسان ‘(طویل نظم) ۔۔۔
۔عالی صاحب کی ایک کتاب ،اُن کی غیر معمولی طویل ترین نظم ’انسان ‘ ہے ،اس نظم کی پہلی جلد 7800مصرعوں پر مشتمل ہے۔اُنہوں نے ’انسان ‘کو 1950 ء کے عشرے میں شروع کیا اور 2007ء میں یہ طویل ترین نامکمل نظم، پہلے حصے کے طور پر شایع ہوئی ایک اندازے کے مطابق عالی صاحب اپنے انتقال تک اس اہم نظم کے دس ہزار سے زاید مصرعے لکھ چکے تھے ۔یہ نظم طوالت کے علاوہ،اپنی فارم،اپنے اسلوب ،اپنے ڈکشن اور اپنے ہمہ جہتی موضوعات کے سبب بھی اہم ہے۔ اس نظم کا مرکزی کردار انسان اور اس کا تاریخی و ارتقائی سفرہے۔
چند اشعار۔۔۔۔
اُس وقت سے میں ڈرتا ہوں
جب وقت سے میں ڈر جاؤں
(لاحاصل۔۔۔۔ جمیل الدین عالی)
۔۔۔۔
اب جو یہ میرے بغیر انجمن آرائی ہے
لوگ کہتے ہیں کہ تم کو میری یاد آئی ہے
۔۔۔۔
عالی کس کو فرصت ہوگی ایک تمہی کو رونے کی
جیسے سب یاد آجاتے ہیں تم بھی یاد آ جاؤ گے
۔۔۔۔
تپتی دھوپوں میں بھی آکر ساتھ بہت دے جاتے ہیں۔۔۔۔
چاند نگر کے انشاء صاحب ۔۔۔۔۔۔ عالی جن کا ہالا تھا۔۔۔۔
۔۔۔۔۔
جمیل الدین عالی ۔۔۔۔ایک نام۔۔۔۔ ایک تاریخ۔۔۔ایک عہد۔۔۔ایک سرمایہ۔۔۔ایک تحفہ اور ایک ایسی یاد جو ہمارے ساتھ ہے ہمارے پاس ہے لیکن ہم جان کر بھی انجان ہیں ۔ یہ بات نہیں کہ ہم اُس کے کردار سے بےخبر ہیں۔۔۔۔یہ بھی نہیں کہ صرف کتاب دوست ہی اس نام سے واقف ہیں ۔۔۔یہ ہرگز نہیں کہ تعلیم اور علم سے بےبہرہ جناب کے لفظ سےناآشنا ہیں۔۔۔ پاکستان میں رہنے والوں سے قطعِ نظر دُنیا کے دوردراز خطوں میں رہنے والا کوئی پاکستانی جو محض لفظ پاکستان سے ہی واقف ہو ۔۔اُس کی سماعتوں پر پاکستان کے ساتھ ساتھ "جیوے جیوے پاکستان"نے بھی کبھی ضرور دستک دی ہو گی۔
۔"جیوے جیوے پاکستان" پاکستان اور پاکستانیت کا وہ اسم اعظم ہے کہ جس کی دُھن جس لمحے ذہن پر دستک دے لفظ خود ہی قطار باندھ کر سامنےآ جاتے ہیں۔اِس کے لکھنے والے سے کوئی واقف ہو یا نہ ہو اس ملی نغمے کا مطلب کوئی جانتا ہو یا نہ ہو لیکن اس کلام کا احساس سب بھلا دیتا ہے۔اردو زبان میں لکھے گئے اس کے بول ایسا سحر رکھتے ہیں اس کی دُھن اس طور اثرانداز ہوتی ہے کہ ذرا دیر کو سب بھلا کردل سے "جیوے پاکستان" کی صدا ضرور نکلتی ہے۔
کچھ خاص باتیں گوگل سے جناب عالی کے بارے میں ۔۔۔۔ 
آپ کے دادا نواب علاءالدین احمد خان مرزا غالب کے دوست اور شاگرد بھی رہے۔ آپ کے والد نواب سر امیرالدین احمد خان شاعر تھے۔ اور آپ کی والدہ سیدہ جمیلہ بیگم خواجہ میردرد کے خاندان سے تھیں۔ جناب عالی کا پہلا تخلص " مائل" تھا۔

جمیل الدین عالی‘ فن اور شخصیت/

٭جمیل الدین عالی
شخصیت وفن کا تحقیقی وتنقیدی مطالعہ
مصنفہ: ڈاکٹر فہمیدہ عتیق
ناشر: انجمن ترقی اردو پاکستان
صفحات: 424
قیمت:500 روپے
٭رانا نسیم کا تبصرہ کتب "بُک شیلف" سے
یہ کتاب ہمہ جہت شخصیت ڈاکٹر جمیل الدین عالی کے فن وشخصیت کے گوشوں کا احاطہ کرتا تحقیقی مقالہ ہے۔ مقالہ نگار ڈاکٹر فہمیدہ عتیق اب اس دنیا میں نہیں ہیں۔ انھوں نے اس مقالے میں بڑی جاں فشانی سے جمیل الدین عالی کے شخصی اور فنی پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے اور اس تحقیقی وتنقیدی مطالعے میں عالی جی کی زندگی کے تمام گوشے سمودیے ہیں اور مختلف عنوانات کے تحت جمیل الدین عالی کی پوری زندگی اور خدمات کا جائزہ لیا گیا ہے۔
جن میں"حیات وشخصیت‘‘،’’عالی کی شاعری کا پس منظر‘‘،’’عالی کی شاعری کی ارتقائی منازل‘‘،’’عالی کی نثرنگاری"،’’سماجی وعلمی خدمات‘‘ کے زیرعنوان باب شامل ہیں۔ محترمہ فہمیدہ عتیق نے یہ مقالہ بڑی محنت سے تحریر کیا ہے، جس میں جمیل الدین عالی کے خاندانی پس منظر سے لے کر ان کی زندگی کے اہم واقعات، وہ پس منظر جس میں ان کی شاعری پروان چڑھی، ان کے کلام اور نثر کا تنقیدی جائزہ اور بہ حیثیت دانش ور اور بیوروکریٹ جمیل الدین عالی کی ادبی وسماجی خدمات سمیت ان کی زندگی کا ہر گوشہ سمودیا گیا ہے۔
(تبصرہ نگار: کتاب دوست۔۔رانا نسیم۔14جولائی 2013)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭میری ڈائری کا ایک ورق ۔۔۔سترہ مارچ 1986 کو  محترم جمیل الدین عالی کا آٹوگراف اور پھر تقریباً 29 برس بعد اُسی صفحے پر اُن کے ۔بیٹے "راجو جمیل" کے دستخط ۔۔۔ 
٭جیوے پاکستان۔۔۔
آواز۔۔۔شہناز بیگم 
دھن۔۔۔۔ سہیل رانا
(سال 1972(پاکستان ٹیلی وژن
یہ ترانہ اور چند خوبصورت آوازیں ۔
نگہت اکبر۔۔۔1984 (ریڈیو پاکستان)۔
افشاں احمد ۔۔۔1987( پاکستان ٹیلی وژن )۔
شبنم مجید۔۔۔2001( سونک میوزک)۔

4 تبصرے:

  1. محترمہ نورین تبسم صاحبہ ۔ سلام مسنون
    جناب جمیل الدین عالی کے ھوالے سے آپ کی مختصر سی تحریر ’’ ہم سب ‘‘ پر پرھنے کو ملی ۔ موصوف کے لیے آپ کی محبت و عقیدت بالکل درست ہے ۔ وہ تھے ہی ایسی شخصیت کہ ہر کوئی ان سے پیار کرتا تھا، ہے اور کرتا رہے گا ۔ خاکسار کو ؓھی ان سے ایک تعلق خاص رہا ہے ۔ وہ میرے ہاں یہاں کوپن ہیگن میں کوئی ایک ہفتہ بھر رہے اور پھر لکھنؤ میں بھی ان سے ملاقات رہی ۔ ان کی چار کتابیں میرے پاس میں جن پر انہوں نے بڑی شفقت و الفت سے میرے لیے اپنے دستخط کر رکھے ہیں ۔ لکھنؤ میں ان کے ساتھ اپنی ملاقات کی تجدید کے لیے ایک لنک شیئر کر رہا ہوں۔ ملاحظہ کریں
    http://www.urduhamasr.dk/blog/?page_id=95&album=10&photo=103
    والسلام
    نصر ملک ۔ کوپن ہیگن / ڈنمارک
    www.urduhamasr.dk

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. وعلیکم السلام
      محترم آپ نے اپنی یادیں شئیر کیں،بہت اچھا لگا۔
      میرے بلاگ پر تشریف لائے اس کے لیے بےحد ممنون ہوں۔امید کرتی ہوں کہ آپ آئندہ بھی اپنے خیالات اور احساسات سے مستفید کرتے رہیں گے۔

      حذف کریں
  2. جناب جمیل الدین عالی کی تصاویر کے لیے اس لنک پر کلک کریں ۔۔
    https://www.facebook.com/yaadainaalijeeki/

    جواب دیںحذف کریں
  3. بی بی سی ڈاٹ کام ۔۔
    23 نومبر 2015
    پاکستان کے نامور شاعر اور ریٹائرڈ بینکار جمیل الدین عالی کراچی میں انتقال کر گئے ہیں، ان کی عمر 90 سال تھی۔ وہ ایک نجی ہپستال میں زیر علاج تھے جہاں پیر کی دوپہر کو ان کا انتقال ہوا۔
    جمیل الدین عالی کی پیدائش 20 جنوری 1925 کو نواب امیرالدین کے گھر ہوئی۔ انھوں نے دہلی سے اکنامکس میں بی اے کی ڈگری حاصل کی تھی اور بعد میں وزارتِ کامرس میں اسسٹنٹ کے طور پر ملازمت اختیار کی۔
    برصغیر کی تقسیم کے بعد جمیل الدین عالی نے اپنے خاندان کے ساتھ ہجرت کی اور یہاں سول سروس میں شامل ہوئے۔ کراچی یونیورسٹی سے ایف ای ایل اور ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی اور 1966 میں انھوں نے نیشنل بینک میں ملازمت اختیار کی جہاں سے نائب صدر کے عہدے سے ریٹائرڈ ہوئے۔ اس دوران وہ نیشنل بینک کے مشیر کے علاوہ وزیرِ مالیات غلام اسحاق خان کے ساتھ بھی منسلک رہے۔
    جمیل الدین عالی کا شمار ان ادییوں میں کیا جاتا ہے جو اردو کی ترقی کے لیے کوشاں رہے، وہ انجمن ترقی اردو اور اردو ڈکشنری بورڈ کے ساتھ بھی سرگرم رہے ۔ان کا شمار پاکستان رائٹرز گلڈ کے بانیوں میں ہوتا ہے، وہ پچاس برس تک ہر ہفتے روزنامہ جنگ میں ’نقارخانے میں‘ کے عنوان سے کالم لکھتے رہے۔
    جمیل الدین عالی کا شمار ان ادییوں میں کیا جاتا ہے جو اردو کی ترقی کے لیے کوشاں رہے، وہ انجمن ترقی اردو اور اردو ڈکشنری بورڈ کے ساتھ بھی سرگرم رہے ہیں۔ ان کا شمار پاکستان رائٹرز گلڈ کے بانیوں میں ہوتا ہے۔ وہ 50 برس تک ہر ہفتے روزنامہ جنگ میں ’نقارخانے میں‘ کے عنوان سے کالم لکھتے رہے۔
    جمیل الدین عالی ملی نغموں کے بھی مقبول شاعر رہے۔ انھوں نے 1965 کی جنگ میں ’اے وطن کی سجیلے جوانوں، میرے نغمے تمہارے لیے ہیں‘ گیت لکھا جس نے نورجہاں کی آواز میں کافی مقبولیت حاصل کی۔ 90 کے دہائی میں ’جیوے جیوے پاکستان‘ مقبول رہا۔ اس کے بعد پاکستان میں اسلامی سربراہی کانفرنس کے لیے ’ہم مصطفوی مصطفوی ہیں‘ لکھا جسے مہدی ظہیر نے گایا۔
    حکومت پاکستان نے ان کی کارکردگی کے اعتراف میں انھیں ہلالِ امتیاز اور تمغہ حسن کارکردگی سے بھی نوازا۔ ان کی لکھی گئی نظموں اور غزلوں کے کل 11 مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔
    جمیل الدین عالی نے سیاست میں بھی قدم رکھا۔ انھوں نے 1977 میں کراچی کے حلقہ 191 سے پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر انتخابات میں حصہ لیا لیکن ناکام رہے بعد میں 1997 میں وہ ایم کیو ایم کے حمایت سے سینیٹر بنے۔
    http://www.bbc.com/urdu/entertainment/2015/11/151123_jamil_uddin_aali_hk

    جواب دیںحذف کریں

"کتبہ"

"کتبہ" جس طورانسانوں کی دنیا اور انسانوں کے ہجوم میں ہر آن اضافہ ہو رہا ہے تو اس طرح قبرستان بھی تیزی سے آبادہو رہے ہیں۔ گھر...