"بلاگ کیا ہے"
بلاگ سوچنے محسوس کرنےاور پھرلفظ لکھنے کی صورت اپنے احساس کا اظہارکرنے کی صلاحیت رکھنے والے بچوں اور بڑوں کو اپنی طرف مائل کرتا وہ نیا کھلونا ہے جو کبھی بھی کہیں بھی بیٹھ کر کھیلا جا سکتا ہے بس اپنی انگلیوں کا لمس اور جدید دورکی ٹیکنالوجی کا ساتھ درکار ہے۔انٹرنیٹ پرایک مخصوص اکاؤنٹ بنا کر سوچ کو لفظ کے لباس میں بلا جھجکے لکھ دینا بلاگ کہلاتا ہے۔
ہمارا ذاتی بلاگ ہماری ڈائری کی طرح ہمارےاحساس کی خوشبو کا ایک رنگ برنگ گلدستہ ہوتا ہے۔جس طرح ڈائری میں ہم اپنی سوچ،اپنا تخیل لکھتے ہیں تو کہیں پڑھے گئے خوبصورت لفظ اورکبھی کسی کی زندگی کانچوڑ سنہرے اقوال بھی درج کرتے ہیں۔بالکل ایسا ہی معاملہ بلاگ کا بھی ہے فرق صرف یہ کہ ہم اپنی قیمتی ڈائری بہت سنبھال کر رکھتےاور چھپا کر لکھتے ہیں تو بلاگ کی صورت ایک ایسا قابلِ اعتماد دوست ملتا ہے کہ ہم سب کچھ بلاخوف وخطراس کے سپرد کر کے شانت ہوجاتے ہیں۔
بلاگ لکھنے والا بلاگر کہلاتا ہے۔ایک بلاگر کے لیے لکھنا ذمہ داری یا کام نہیں بلکہ سکون اور تنہائی کا ایک شاندار لمحہ ہے جو وہ اپنے ساتھ گزارتا ہے۔بلاگ بنا کسی ہچکچاہٹ کے اپنی سوچ اپنے دل کی باتیں لکھ دینے کا نام ضرور ہے لیکن اُسے بےدھیانی میں کبھی پوسٹ نہیں کرنا چاہیے۔ہم اپنے لکھے پر اگر دوسری نظر نہیں ڈال سکتے تو کسی اور سے یہ توقع رکھنا بےکار ہے کہ وہ پہلی نظر ڈالے اور وہ ٹھہر بھی جائے ۔
بلاگ لکھنا بلاگ پڑھنا تازہ ہوا کا جھونکا تو ہے پر صرف اُن کے لیے جن کو نئی دُنیا دیکھنے کی لگن ہو۔۔۔ جو اپنی زندگی متعین کردہ قواعد وضوابط ۔۔۔آرام دہ خواب گاہوں ۔۔۔ اور ڈرائنگ روم کی سیاست سے بری الذمہ ہوکربادِنسم جیسی فطری تازگی کےساتھ گزارنے کے خواہشمند ہوں۔
ادب ہو یا بلاگ ہمیشہ لکھنے والے کی ذات کا آئینہ اور اُس کی سوچ کا ترجمان ہوتا ہے۔ادب معاشرے کی روایات اور اصنافِ سخن کے دائرے میں گردش کرتا ہے تو بلاگ ایسی کسی بھی پابندی سے آزاد ہے۔
بلاگ کا معیار لکھاری کا مرہونِ منت ہے تواس کی تصدیق قاری کی نظر کرتی ہے۔معیاری بلاگ وہی ہوتا ہے جس میں لکھاری کا احساس پڑھنے والے کو چھو جائے اور وہ اسے اپنے دل کی بات لگے۔ لیکن ایسا تب ممکن ہے جب لکھنے والے نے دل سے لکھا ہو۔ ایک بلاگر لکھاری پہلے ہوتا ہے قاری بعد میں۔یا یوں کہہ لیں کہ قاری ہر کوئی ہو سکتا ہے لیکن بلاگر بننے کے لیے قاری نہیں بلکہ لکھاری ہونا اولین شرط ہے۔
بلاگ اور کتاب"۔"
کتاب اور بلاگ میں دور کا بھی رشتہ نہیں۔ کچھ بھی قدرِمشترک نہیں۔ کتاب زمانوں سے چلی آ رہی ہے اور بلاگ کا زمانہ دیکھنے والی آنکھوں کی تواپنی کتابِ زندگی ہی ابھی ابتدائی مراحل میں ہے۔
بلاگ ذہن میں در آنے والے بےساختہ خیالات اورفوری احساسات کو بلا کسی کانٹ چھانٹ کے لفظ کے سانچے میں ڈھال کر ساری دنیا کے سامنے بےدھڑک پیش کر دینے کا نام ہےجبکہ تجربات زندگی،شب وروز کی ریاضت،غوروفکر،اور سب سے بڑھ کر انسانوں اور اُن کے لکھےالفاظ کے گہرے مطالعہ اورعمیق سوچ بچار اور کانٹ چھانٹ کے بعد کتاب لکھنا وہ گوہرِ نایاب ہے جس کی چمک خودبخود ہی دلوں کو اپنی طرف مائل کرتی ہے۔
کتاب کی عظمت سے انکار نہیں اوراس کے پڑھنے کی لذت بھی شک وشبہے سے بالاتر ہے۔۔۔ لفظ سے محبت کرنے والوں کے لیے کتاب عشقِ خاص کا درجہ رکھتی ہے۔۔۔جولُطف محبوب کو چھونے،اُس کو اپنی مرضی سے برتنے میں ہے وہ مزا ہواؤں میں ہزار پردوں کے بعد لمس میں کہاں۔
بلاگ کو بےشک فارغ وقت۔۔۔ فارغ دماغ کی محبت ہی کہا جائے جو اکثراس وقت ضرورت بھی بن جاتی ہے جب گھٹن بڑھ جائے یااپنی سوچ کے نکاس کا اورکوئی راستہ دکھائی نہ دے۔ لیکن یہ بھی سچ ہےکہ جس کا جو محبوب ہو اُسے وہی بھاتا ہے۔۔۔ یہ نگاہ کا کمال ہے یا اپنی اوقات کا جو جیب دیکھ کر ہی سودا خریدنے کی طرف قدم بڑھاتی ہے۔
بلاگ لکھنا بلاگ پوسٹ کرنا کتاب لکھنے،کتاب چھپنے سے بھی بڑا نشہ ہے۔ وہ اس طرح کہ کتاب ایک بار چھپ جائے تو اس میں ردوبدل کی قطعاً گنجائش نہیں ۔ کتابت کی غلطی یا خیال کی پُختگی نظرثانی پرکتنا ہی مجبور کرے لیکن لفظ جلد کی قید میں آ کر پتھر پرلکیر کی طرح ثبت ہو جاتا ہے اور بڑے بڑے ناموں والےادباء کو چھوڑ کردوسرے ایڈیشن کا خواب ایک عام لکھاری دیکھنا تو کجا سوچ بھی نہیں سکتا۔ جبکہ بلاگنگ کی دُنیا میں لکھنے والا اپنی کائنات کا بلاشرکت غیرے مالک ہوتا ہے۔ لفظ اُس کے ساتھ رہتے ہیں ،ساتھ سوتے ہیں، اُس کے اندر سانس لیتے ہیں ۔جب چاہے انہیں چھو لے،لپٹا لےاوراُن سے خفا ہو جائے تو پرے بھی کردے۔
تخلیق اظہار چاہتی ہے لیکن کتاب کی صورت اپنے احساس کے اظہار کے لیے نہ صرف ہم دوسروں کے محتاج ہوتے ہیں کہ وہ اُنہیں اپنائیں۔۔۔ سراہیں۔۔۔ محسوس کریں۔پرنٹ میڈیا کی بات کریں تو اخباری تحاریر یا کالمز بےشک ہر روز لاکھوں نظروں کو چھوتے ہیں لیکن شام کو ردی کی ٹوکری کی نذر بھی ہو جاتے ہیں۔دوسری طرف بلاگ نہ تو لکھنے والے پر بوجھ بنتا ہے اور نہ ہی پڑھنے والے پر۔ بلاگ تو روزمرہ اخبار جتنی اہمیت بھی نہیں رکھتا کہ جس کا دن چڑھتے ہی بےچینی سے انتظار شروع ہوجاتا ہے اورشام تک خاص خبر ہوئی تو گرماگرم ۔۔۔ ورنہ اگلے روزنئے مصالحے،نئی ہانڈی کا تڑکا۔
بلاگ میں محفوظ ہونے کے بعد لفظ لکھنے والے کے ساتھ تو رہتے ہیں بلکہ "برقی کبوتر"اُنہیں دُنیا کے کونے کونے میں بھی پہنچا دیتےہیں اور لکھاری کے نام سے زیادہ اس کے لفظ کی تاثیر پڑھنے والوں کو روکتی ہے۔قاری بلاگر کی صورت تو کیا نام سےبھی واقف نہیں ہوتےجبکہ اس کے برعکس کتاب، کالم یا دوسری تخلیقات کو پڑھتے ہوئے لفظ سے پہلے سرورق یعنی نام پر ہی نگاہ ٹکتی ہے۔
بات مختصر یہ کہ بجا بلاگ بلاگ ہے اور کتاب کتاب۔ کتاب لکھنے کتاب چھپنے کا نشہ صاحب ِکتاب ہی جان سکتے ہیں۔کتاب لکھنا بڑا کام اور بڑے نام والوں کا کام ہے۔ لیکن اصل مرحلہ کتاب کا چھپنا اور پھر پڑھنے والوں تک اُس کی رسائی ہے۔ یہی اصل امتحان ہے۔اس سے بھی بڑا مسئلہ پڑھنے والوں کا اسے سراہنا ہے ورنہ سب خسارا ہے۔کتاب چھپوائے جانے سے لے کر پڑھوائے جانے تک دوسروں کی ضرورت یا اخلاقی احسان کی طالب ہوتی ہے جبکہ بلاگ ایسی کسی بھی قسم کی ضرورت یا طلب سے بالاتر ہے۔اس موقع پر صاحب ِکتاب یا صاحبِ نام کا یہ سوچنا یہ کہنا بجا ہو گا کہ "انگور کھٹے ہیں"۔ شاید اس سوال کا جواب وہ بلاگر بہتر طور پر دے سکیں جنہوں نے بلاگنگ میں نام کما کر صاحب ِکتاب کی صف میں قدم رکھا ہے۔بلاگ لکھنے سے جہاں خیال کو ایک مستند جگہ ایک ذریعہ میسر آتا ہے وہیں بلاگستان میں دوسرے بلاگرز کی تحاریر پڑھتے ہوئےسب کہنے کی آزادی کا احساس ہوتا ہے۔
!آخری بات
مطالعہ حاصلِ زندگی ہے تو لکھنا حاصلِ مطالعہ۔۔۔۔لفظ پڑھنے کا حق صرف لفظ لکھ کر ہی ادا کیا جا سکتا ہے۔کتاب ہو یا بلاگ جس کی قسمت میں لفظ کا جتنا حصہ لکھ دیا گیا وہ اُسے مل کرہی رہتا ہے اور لکھنے سے لے کر پڑھنے تک ہرکوئی اپنے ظرف کے مطابق اس بہتے چشمے سے فیض یاب ہوتا ہے۔
بلاگنگ زندگی کے پتھریلے راستے پرچلتے ہوئے ذرا سا سائباں ضرور ہے لیکن زندگی محض بلاگنگ یا لفظ کی کاری گری کا نام نہیں۔ لکھنا پڑھنا چاہے جتنا بھی اوڑھنا بچھونا بن جائے یہ من کو تو شانت کر سکتا ہے لیکن تن کا پیٹ نہیں بھر سکتا۔۔
بلاگ سوچنے محسوس کرنےاور پھرلفظ لکھنے کی صورت اپنے احساس کا اظہارکرنے کی صلاحیت رکھنے والے بچوں اور بڑوں کو اپنی طرف مائل کرتا وہ نیا کھلونا ہے جو کبھی بھی کہیں بھی بیٹھ کر کھیلا جا سکتا ہے بس اپنی انگلیوں کا لمس اور جدید دورکی ٹیکنالوجی کا ساتھ درکار ہے۔انٹرنیٹ پرایک مخصوص اکاؤنٹ بنا کر سوچ کو لفظ کے لباس میں بلا جھجکے لکھ دینا بلاگ کہلاتا ہے۔
ہمارا ذاتی بلاگ ہماری ڈائری کی طرح ہمارےاحساس کی خوشبو کا ایک رنگ برنگ گلدستہ ہوتا ہے۔جس طرح ڈائری میں ہم اپنی سوچ،اپنا تخیل لکھتے ہیں تو کہیں پڑھے گئے خوبصورت لفظ اورکبھی کسی کی زندگی کانچوڑ سنہرے اقوال بھی درج کرتے ہیں۔بالکل ایسا ہی معاملہ بلاگ کا بھی ہے فرق صرف یہ کہ ہم اپنی قیمتی ڈائری بہت سنبھال کر رکھتےاور چھپا کر لکھتے ہیں تو بلاگ کی صورت ایک ایسا قابلِ اعتماد دوست ملتا ہے کہ ہم سب کچھ بلاخوف وخطراس کے سپرد کر کے شانت ہوجاتے ہیں۔
بلاگ لکھنے والا بلاگر کہلاتا ہے۔ایک بلاگر کے لیے لکھنا ذمہ داری یا کام نہیں بلکہ سکون اور تنہائی کا ایک شاندار لمحہ ہے جو وہ اپنے ساتھ گزارتا ہے۔بلاگ بنا کسی ہچکچاہٹ کے اپنی سوچ اپنے دل کی باتیں لکھ دینے کا نام ضرور ہے لیکن اُسے بےدھیانی میں کبھی پوسٹ نہیں کرنا چاہیے۔ہم اپنے لکھے پر اگر دوسری نظر نہیں ڈال سکتے تو کسی اور سے یہ توقع رکھنا بےکار ہے کہ وہ پہلی نظر ڈالے اور وہ ٹھہر بھی جائے ۔
بلاگ لکھنا بلاگ پڑھنا تازہ ہوا کا جھونکا تو ہے پر صرف اُن کے لیے جن کو نئی دُنیا دیکھنے کی لگن ہو۔۔۔ جو اپنی زندگی متعین کردہ قواعد وضوابط ۔۔۔آرام دہ خواب گاہوں ۔۔۔ اور ڈرائنگ روم کی سیاست سے بری الذمہ ہوکربادِنسم جیسی فطری تازگی کےساتھ گزارنے کے خواہشمند ہوں۔
ادب ہو یا بلاگ ہمیشہ لکھنے والے کی ذات کا آئینہ اور اُس کی سوچ کا ترجمان ہوتا ہے۔ادب معاشرے کی روایات اور اصنافِ سخن کے دائرے میں گردش کرتا ہے تو بلاگ ایسی کسی بھی پابندی سے آزاد ہے۔
بلاگ کا معیار لکھاری کا مرہونِ منت ہے تواس کی تصدیق قاری کی نظر کرتی ہے۔معیاری بلاگ وہی ہوتا ہے جس میں لکھاری کا احساس پڑھنے والے کو چھو جائے اور وہ اسے اپنے دل کی بات لگے۔ لیکن ایسا تب ممکن ہے جب لکھنے والے نے دل سے لکھا ہو۔ ایک بلاگر لکھاری پہلے ہوتا ہے قاری بعد میں۔یا یوں کہہ لیں کہ قاری ہر کوئی ہو سکتا ہے لیکن بلاگر بننے کے لیے قاری نہیں بلکہ لکھاری ہونا اولین شرط ہے۔
بلاگ اور کتاب"۔"
کتاب اور بلاگ میں دور کا بھی رشتہ نہیں۔ کچھ بھی قدرِمشترک نہیں۔ کتاب زمانوں سے چلی آ رہی ہے اور بلاگ کا زمانہ دیکھنے والی آنکھوں کی تواپنی کتابِ زندگی ہی ابھی ابتدائی مراحل میں ہے۔
بلاگ ذہن میں در آنے والے بےساختہ خیالات اورفوری احساسات کو بلا کسی کانٹ چھانٹ کے لفظ کے سانچے میں ڈھال کر ساری دنیا کے سامنے بےدھڑک پیش کر دینے کا نام ہےجبکہ تجربات زندگی،شب وروز کی ریاضت،غوروفکر،اور سب سے بڑھ کر انسانوں اور اُن کے لکھےالفاظ کے گہرے مطالعہ اورعمیق سوچ بچار اور کانٹ چھانٹ کے بعد کتاب لکھنا وہ گوہرِ نایاب ہے جس کی چمک خودبخود ہی دلوں کو اپنی طرف مائل کرتی ہے۔
کتاب کی عظمت سے انکار نہیں اوراس کے پڑھنے کی لذت بھی شک وشبہے سے بالاتر ہے۔۔۔ لفظ سے محبت کرنے والوں کے لیے کتاب عشقِ خاص کا درجہ رکھتی ہے۔۔۔جولُطف محبوب کو چھونے،اُس کو اپنی مرضی سے برتنے میں ہے وہ مزا ہواؤں میں ہزار پردوں کے بعد لمس میں کہاں۔
بلاگ کو بےشک فارغ وقت۔۔۔ فارغ دماغ کی محبت ہی کہا جائے جو اکثراس وقت ضرورت بھی بن جاتی ہے جب گھٹن بڑھ جائے یااپنی سوچ کے نکاس کا اورکوئی راستہ دکھائی نہ دے۔ لیکن یہ بھی سچ ہےکہ جس کا جو محبوب ہو اُسے وہی بھاتا ہے۔۔۔ یہ نگاہ کا کمال ہے یا اپنی اوقات کا جو جیب دیکھ کر ہی سودا خریدنے کی طرف قدم بڑھاتی ہے۔
بلاگ لکھنا بلاگ پوسٹ کرنا کتاب لکھنے،کتاب چھپنے سے بھی بڑا نشہ ہے۔ وہ اس طرح کہ کتاب ایک بار چھپ جائے تو اس میں ردوبدل کی قطعاً گنجائش نہیں ۔ کتابت کی غلطی یا خیال کی پُختگی نظرثانی پرکتنا ہی مجبور کرے لیکن لفظ جلد کی قید میں آ کر پتھر پرلکیر کی طرح ثبت ہو جاتا ہے اور بڑے بڑے ناموں والےادباء کو چھوڑ کردوسرے ایڈیشن کا خواب ایک عام لکھاری دیکھنا تو کجا سوچ بھی نہیں سکتا۔ جبکہ بلاگنگ کی دُنیا میں لکھنے والا اپنی کائنات کا بلاشرکت غیرے مالک ہوتا ہے۔ لفظ اُس کے ساتھ رہتے ہیں ،ساتھ سوتے ہیں، اُس کے اندر سانس لیتے ہیں ۔جب چاہے انہیں چھو لے،لپٹا لےاوراُن سے خفا ہو جائے تو پرے بھی کردے۔
تخلیق اظہار چاہتی ہے لیکن کتاب کی صورت اپنے احساس کے اظہار کے لیے نہ صرف ہم دوسروں کے محتاج ہوتے ہیں کہ وہ اُنہیں اپنائیں۔۔۔ سراہیں۔۔۔ محسوس کریں۔پرنٹ میڈیا کی بات کریں تو اخباری تحاریر یا کالمز بےشک ہر روز لاکھوں نظروں کو چھوتے ہیں لیکن شام کو ردی کی ٹوکری کی نذر بھی ہو جاتے ہیں۔دوسری طرف بلاگ نہ تو لکھنے والے پر بوجھ بنتا ہے اور نہ ہی پڑھنے والے پر۔ بلاگ تو روزمرہ اخبار جتنی اہمیت بھی نہیں رکھتا کہ جس کا دن چڑھتے ہی بےچینی سے انتظار شروع ہوجاتا ہے اورشام تک خاص خبر ہوئی تو گرماگرم ۔۔۔ ورنہ اگلے روزنئے مصالحے،نئی ہانڈی کا تڑکا۔
بلاگ میں محفوظ ہونے کے بعد لفظ لکھنے والے کے ساتھ تو رہتے ہیں بلکہ "برقی کبوتر"اُنہیں دُنیا کے کونے کونے میں بھی پہنچا دیتےہیں اور لکھاری کے نام سے زیادہ اس کے لفظ کی تاثیر پڑھنے والوں کو روکتی ہے۔قاری بلاگر کی صورت تو کیا نام سےبھی واقف نہیں ہوتےجبکہ اس کے برعکس کتاب، کالم یا دوسری تخلیقات کو پڑھتے ہوئے لفظ سے پہلے سرورق یعنی نام پر ہی نگاہ ٹکتی ہے۔
بات مختصر یہ کہ بجا بلاگ بلاگ ہے اور کتاب کتاب۔ کتاب لکھنے کتاب چھپنے کا نشہ صاحب ِکتاب ہی جان سکتے ہیں۔کتاب لکھنا بڑا کام اور بڑے نام والوں کا کام ہے۔ لیکن اصل مرحلہ کتاب کا چھپنا اور پھر پڑھنے والوں تک اُس کی رسائی ہے۔ یہی اصل امتحان ہے۔اس سے بھی بڑا مسئلہ پڑھنے والوں کا اسے سراہنا ہے ورنہ سب خسارا ہے۔کتاب چھپوائے جانے سے لے کر پڑھوائے جانے تک دوسروں کی ضرورت یا اخلاقی احسان کی طالب ہوتی ہے جبکہ بلاگ ایسی کسی بھی قسم کی ضرورت یا طلب سے بالاتر ہے۔اس موقع پر صاحب ِکتاب یا صاحبِ نام کا یہ سوچنا یہ کہنا بجا ہو گا کہ "انگور کھٹے ہیں"۔ شاید اس سوال کا جواب وہ بلاگر بہتر طور پر دے سکیں جنہوں نے بلاگنگ میں نام کما کر صاحب ِکتاب کی صف میں قدم رکھا ہے۔بلاگ لکھنے سے جہاں خیال کو ایک مستند جگہ ایک ذریعہ میسر آتا ہے وہیں بلاگستان میں دوسرے بلاگرز کی تحاریر پڑھتے ہوئےسب کہنے کی آزادی کا احساس ہوتا ہے۔
!آخری بات
مطالعہ حاصلِ زندگی ہے تو لکھنا حاصلِ مطالعہ۔۔۔۔لفظ پڑھنے کا حق صرف لفظ لکھ کر ہی ادا کیا جا سکتا ہے۔کتاب ہو یا بلاگ جس کی قسمت میں لفظ کا جتنا حصہ لکھ دیا گیا وہ اُسے مل کرہی رہتا ہے اور لکھنے سے لے کر پڑھنے تک ہرکوئی اپنے ظرف کے مطابق اس بہتے چشمے سے فیض یاب ہوتا ہے۔
بلاگنگ زندگی کے پتھریلے راستے پرچلتے ہوئے ذرا سا سائباں ضرور ہے لیکن زندگی محض بلاگنگ یا لفظ کی کاری گری کا نام نہیں۔ لکھنا پڑھنا چاہے جتنا بھی اوڑھنا بچھونا بن جائے یہ من کو تو شانت کر سکتا ہے لیکن تن کا پیٹ نہیں بھر سکتا۔۔
بہت خوب۔ زبردست لکھا ہے۔ بس آخری جملے سے معمولی سا اختلاف ہے۔ میرا خیال ہے کہ ”بلاگ کا معیار لکھاری ہی بناتا ہے مگر اس کی تصدیق قاری ہی کرتا ہے۔ ورنہ لکھاریوں کی اکثریت اگر کسرِنفسی سے کام نہ لے تو حقیقت میں انہیں اپنا لکھا معیاری ہی لگتا ہے۔“ :-)
جواب دیںحذف کریںبہت دفعہ بات ابھی ڈرافٹ کے طور پر پوسٹ کی ھوتی ھے، بعد میں کاٹ چھانٹ اور تبدیلی بھی کرتے ھیں، لیکن بلاگ ایگریگیٹر اس کو اسی طرح محفوظ کر لیتے ھیں جیسی وہ پہلی بار پبلش ھوئی تھی۔
جواب دیںحذف کریںمیرا بہت سارا مواد ابھی تک اسی طرح پچھلے سالوں سے ڈرافٹس میں موجود ھے۔
قاری،لکھاری اور مواد سے وہ تکون مرتب ھوتی ھے جو کسی تحریرکو زندگی عطا کرتی ھے لکھا ھوا لفظ لکھے جانے کے بعد لکھاری کا نہیں رھتا سو اس کا معیار بھی لکھاری کی گرفت سے آزاد ھو جاتا ھے اب قاری اپنے احساسات، علم،فکر،حالات اور ضرورت کے مطابق اس تحریر سے استفادہ کرتا ھے۔
جواب دیںحذف کریںبہت سے ماہرینِ ادب کا اس بات پہ اتفاق رائے ہے کہ تحریر کسی لکھاری کی شخصیت کی آئینہ دار ہوتی ہے ۔۔۔۔ادبی شہ پاروں کو پڑھتے ہوئے مصنف کی ذات ہمیشہ ذہن میں رہتی ہے .. .لیذا بلاگ کا مواد لکھاری کی شخصیت کا پرتو ہوتا ہے اور پھر اُس مواد کے مطابق ہی اُسی طرح کے قارئین فالو کرتے ہیں
جواب دیںحذف کریںسدا خوش رہیں
بجافرمایا.
جواب دیںحذف کریںہم اپنےلیےلکھتےہیں اپنےجذبات واحساسات کوصفحات پہ منتقل کرتےہیں چاہےتصویر کسی اور کی بن رہی ہولکیریں فنکار ہی کی ہوتی ہیں فنکاراپنی آنکھ کامنظر ہماری سوچ میں ڈال رہاہوتاہے.
قاری کو بھی باذوق ہوناچاہیےاور لکھاری کی توکوشش ہی ہوگی کہ وہ کینوس پہ جورنگ بکھیرےاسےخاص و عام سے داد ملے
https://daleel.pk/2016/12/11/19967
جواب دیںحذف کریںThis shines like a guiding light
جواب دیںحذف کریں