"ادبی میلہ،بےادب لوگ"
کہنے کو تو ادبی میلے میں شرکت کی بنیادی وجہ ادبی شخصیات کو دیکھنا اور سننا تھا۔ کتابوں میں لکھے لفظ جب دل کو چھو جاتے ہیں تو جی کرتا ہے کہ کبھی ان کے لکھنے والے کو کہیں ایک نظر ہی دیکھ لیا جائے۔۔۔ بس آنکھ کے یقین کے لیے کہ یہ سحر انگیز لفظ لکھنے والے ہمارے جیسے ہیں اور ہماری دنیا میں سانس لیتے ہیں۔ قاری اور لکھاری کا یہ ساتھ اسی لیے کتاب تک ہی محدود نہیں رہتا اور لکھاری بھی اپنے اس کرشمے سے بخوبی آگاہ ہوتا ہے اسی لیے جب اس کا سامنا عام لوگوں سے ہوتا ہے تو ایک عجیب طرز کا تفاخر اس کے انداز میں جھلکتا ہے۔جیسے کسی پیر کے لیے اس کے مریدین کی آنکھ کی چمک انا کے بت پر چڑھاوے کا کام دیتی ہے۔ اسی طرح لفظ لکھنے والے قدآور لکھاری جب عام انسانوں کے قریب آتے ہیں تو انہیں ہر طرف بونے دکھتے ہیں۔۔اس بات سے انجان کہ انہی بونوں کے کاندھے پر سفر کر کے تو وہ اس مقام پر پہنچتے ہیں۔ایسا اکثر ہوتا ہے کہ کاغذ اور کتاب کی قید میں جکڑے لفظ لکھنے والا عام انسانوں کےسوال کے جواب دیتے وقت مصلحتوں اور اندیشوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ اور بڑی کامیابی سے دامن چھڑا لیتا ہے۔
علم دوست احباب کے ساتھ اسلام آباد کے ادبی میلے میں ملنا ایک الگ ہی احساس تھا۔وہ چہرے جن کے لفظ سے آشنائی تھی لیکن اُن سے مل کر یوں لگا جیسے پہلی بار سے پہلے بھی بہت بار مل چکی ہوں۔ ہم سب عام لوگ تھے۔۔ کوئی "ادبی شخصیت" یا "مستند لکھاری" ہرگز نہیں اس لیے کسی بھی ذاتی "پروٹوکول"یعنی لگی لپٹی رکھے بغیراردگرد سے بےپروا بس اپنے دل کی باتیں کرتے رہے۔ یاد رہے "ادبی شخصیات" تو اپنے دل کی نہیں دوسروں کے دل کی باتیں کرتی ہیں یعنی وقت کی نبض تھام کر آگے بڑھتے ہیں۔ شام ہوئی تو سب اپنے اپنے ٹھکانوں کی طرف پرواز کر گئے ۔اس ادبی میلے میں سب ادبی اور ہم بےادبی لوگ پل دوپل کو بس سانس لینے ٹھہرے تھےاور تین روز بھی بہت تھےسانس سے آس تک کے سفر میں۔ہم تو جیسے آئے ویسے ہی چل دیئے اور بےمول ہی سب فروخت کر دیا۔۔۔ جو مول لگا کر صدا لگاتے تھے وہ ذرا دیر اور رُکے رہے کہ بچا کچا "ساز وسامان " اٹھانا تو اُن کی مجبوری تھی۔ادبی وہ تھے جن کے اعزاز میں یہ میلہ لگا تھا جو اونچی کرسیوں پر بڑے فخر سے بیٹھے تھے اور اپنی عمر بھر کی تپسیا کا حاصل دیکھتے تھے۔ اور بےادبی ہم جیسے لوگ ہوتے ہیں جو لکھتےتو ہیں لیکن اپنے آپ سے بھی ڈرتے ہوئے کہ لوگ کیا کہیں گے۔ ایک عام انسان۔۔ عام عورت کے لیے بھی اپنی سوچ کولفظ میں لکھ کر کہہ دینا اگر اللہ کا بہت بڑا انعام ہے تو اس معاشرے کے نہ صرف پڑھے لکھوں بلکہ اپنوں کے سامنے بھی ایک طرح کا اعلانِ بغاوت ہے(۔نوٹ۔۔ ابھی میں نے کم پڑھے لکھوں یا غیروں کی بات نہیں کی کہ ان کے مسائل اور ہوتے ہیں ہمارے حوالے سے اور ہمیں ان کے حوالے سے)۔
ادبی میلے کا "ادبی" احوال۔۔۔
صرف ایک سیشن ہی سنا۔ جو سوا گیارہ بجے سے سوابارہ بجے کے دوران تھا ۔"کہانی کار" کے اس سیشن میں مستنصر حسین تارڑ نے اپنے آنے والی کتاب کے حوالے سے خیالات کا اظہار کیا۔ پندرہ کہانیوں کا یہ مجموعہ ان کی کہانیوں کی پہلی کتاب " سیاہ آنکھ میں تصویر" کی اشاعت کے پچیس برس بعد سامنے آ رہا ہے۔ انہوں نے اس پر بات کرتے ہوئے اپنے مخصوص انداز سے یوں آغاز کیا کہ آج ہم اس بچےکےخدوخال پر بات کر رہے ہیں جو ابھی پیدا ہی نہیں ہوا۔انہوں نے 15 کہانیوں کے عنوانات بتائے"اے مرے ترکھان" حاضرین کے ساتھ شئیر کی ۔جو سانحہ پشاور کے بعد لکھی تھی اور اس کے لفظ آنکھ نم کر گئے۔
کچھ کہانیوں کے عنوانات ان کی روانی کا ساتھ دینے کی ناکام کوشش میں جلدی جلدی نوٹ کیے۔ یہ عنوانات بذاتِ خود پوری کہانی کہتے ہیں۔
جوہڑ میں ڈوب چکی لڑکی۔۔۔ اس بارے میں بتایا کہ ان کے بچپن کی یاد میں ایک لڑکی جوہڑ میں ڈوب گئی اور کچھ عرصے بعد کوئی کہتا تھا کہ وہ اس میں زندہ ہے۔ اس احساس کے ساتھ کہانی کا اصل رنگ شاید کچھ اور ہو، یہ نہیں بتایا۔
پھولوں والی پہاڑی۔۔۔
مکوڑے دھک مکوڑے۔۔۔
ایک سنو ٹائیگر کی سرگزشت۔۔۔
میں ایک پُرہجوم شہر میں سے گزرتا تھا۔۔۔۔
باتیں کرتے ہاتھ گواہیاں دیتے پاؤں۔۔
اُن کی مائیں بھی روتی ہیں۔۔۔
زرد پیرہن کا بن ۔۔
ایک گونگے کی ڈائری۔۔۔
دھند کے پیچھے شہر۔۔
آرٹ گیلری میں بیتھون کی چاندنی راتیں۔۔۔
یہ کہانی کون لکھ رہا ہے۔۔۔
جلا ہے جسم وجاں۔۔
اور
"اسکوٹر کی پچھلی نشست پر بیٹھی لڑکی جو ہنستی تھی "
یہ سب سے خاص کہانی ہے ۔ اس بارے میں بھی جناب نے تفصیل سے بتایااور بہت سے لکھنے والوں کی اندرونی کیفیات کی عکاسی کی جو سوچ سفر کے موسموں میں ان پر اترتی ہیں اور بہت کم ان کو ماتھے کا جھومر بنا پاتے ہیں۔
اسی سیشن کا دوسرا حصہ آسڑیلیا میں بسنے والے ریحان علوی کے ناول "تعبیر کی تلاش" کی تقریبِ رونمائی تھی جس میں جناب تارڑ نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ اور دیارغیر میں رہنے والے قلم کاروں اور اس کتاب کے لکھاری کے ساتھ ربط کا اظہار اپنے مخصوص خوشگوار لہجےمیں کیا۔
آخری روز کامران سلیم کی کتاب"برڈز آف سیالکوٹ"کی تعارفی تقریب تھی جس میں مستنصر حسین تارڑ نے اپنی شرکت سے اُس کو خاص بنا دیا۔
میری ڈائری اور چند تازہ آٹوگراف۔۔۔
محترم جمیل الدین عالی کے بیٹے راجو جمیل سے ملاقات ہوئی اُن سے "ابا" کی خیریت پوچھی۔ اور انہوں نے بڑی اپنائیت سے جواب دیا ۔ پھر ان سے اپنی ڈائری کے اُسی صفحے پر دستخظ لیے جس پر اُن کے والد نے 29 سال پہلے دستخط کیے تھے۔جناب راجوجمیل نےاپنے والد جناب "جمیل الدین عالی"کو دکھانے کے لیےفوراً اس صفحے کواپنے کیمرے میں محفوظ کر لیا۔
کہنے کو تو ادبی میلے میں شرکت کی بنیادی وجہ ادبی شخصیات کو دیکھنا اور سننا تھا۔ کتابوں میں لکھے لفظ جب دل کو چھو جاتے ہیں تو جی کرتا ہے کہ کبھی ان کے لکھنے والے کو کہیں ایک نظر ہی دیکھ لیا جائے۔۔۔ بس آنکھ کے یقین کے لیے کہ یہ سحر انگیز لفظ لکھنے والے ہمارے جیسے ہیں اور ہماری دنیا میں سانس لیتے ہیں۔ قاری اور لکھاری کا یہ ساتھ اسی لیے کتاب تک ہی محدود نہیں رہتا اور لکھاری بھی اپنے اس کرشمے سے بخوبی آگاہ ہوتا ہے اسی لیے جب اس کا سامنا عام لوگوں سے ہوتا ہے تو ایک عجیب طرز کا تفاخر اس کے انداز میں جھلکتا ہے۔جیسے کسی پیر کے لیے اس کے مریدین کی آنکھ کی چمک انا کے بت پر چڑھاوے کا کام دیتی ہے۔ اسی طرح لفظ لکھنے والے قدآور لکھاری جب عام انسانوں کے قریب آتے ہیں تو انہیں ہر طرف بونے دکھتے ہیں۔۔اس بات سے انجان کہ انہی بونوں کے کاندھے پر سفر کر کے تو وہ اس مقام پر پہنچتے ہیں۔ایسا اکثر ہوتا ہے کہ کاغذ اور کتاب کی قید میں جکڑے لفظ لکھنے والا عام انسانوں کےسوال کے جواب دیتے وقت مصلحتوں اور اندیشوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ اور بڑی کامیابی سے دامن چھڑا لیتا ہے۔
علم دوست احباب کے ساتھ اسلام آباد کے ادبی میلے میں ملنا ایک الگ ہی احساس تھا۔وہ چہرے جن کے لفظ سے آشنائی تھی لیکن اُن سے مل کر یوں لگا جیسے پہلی بار سے پہلے بھی بہت بار مل چکی ہوں۔ ہم سب عام لوگ تھے۔۔ کوئی "ادبی شخصیت" یا "مستند لکھاری" ہرگز نہیں اس لیے کسی بھی ذاتی "پروٹوکول"یعنی لگی لپٹی رکھے بغیراردگرد سے بےپروا بس اپنے دل کی باتیں کرتے رہے۔ یاد رہے "ادبی شخصیات" تو اپنے دل کی نہیں دوسروں کے دل کی باتیں کرتی ہیں یعنی وقت کی نبض تھام کر آگے بڑھتے ہیں۔ شام ہوئی تو سب اپنے اپنے ٹھکانوں کی طرف پرواز کر گئے ۔اس ادبی میلے میں سب ادبی اور ہم بےادبی لوگ پل دوپل کو بس سانس لینے ٹھہرے تھےاور تین روز بھی بہت تھےسانس سے آس تک کے سفر میں۔ہم تو جیسے آئے ویسے ہی چل دیئے اور بےمول ہی سب فروخت کر دیا۔۔۔ جو مول لگا کر صدا لگاتے تھے وہ ذرا دیر اور رُکے رہے کہ بچا کچا "ساز وسامان " اٹھانا تو اُن کی مجبوری تھی۔ادبی وہ تھے جن کے اعزاز میں یہ میلہ لگا تھا جو اونچی کرسیوں پر بڑے فخر سے بیٹھے تھے اور اپنی عمر بھر کی تپسیا کا حاصل دیکھتے تھے۔ اور بےادبی ہم جیسے لوگ ہوتے ہیں جو لکھتےتو ہیں لیکن اپنے آپ سے بھی ڈرتے ہوئے کہ لوگ کیا کہیں گے۔ ایک عام انسان۔۔ عام عورت کے لیے بھی اپنی سوچ کولفظ میں لکھ کر کہہ دینا اگر اللہ کا بہت بڑا انعام ہے تو اس معاشرے کے نہ صرف پڑھے لکھوں بلکہ اپنوں کے سامنے بھی ایک طرح کا اعلانِ بغاوت ہے(۔نوٹ۔۔ ابھی میں نے کم پڑھے لکھوں یا غیروں کی بات نہیں کی کہ ان کے مسائل اور ہوتے ہیں ہمارے حوالے سے اور ہمیں ان کے حوالے سے)۔
ادبی میلے کا "ادبی" احوال۔۔۔
صرف ایک سیشن ہی سنا۔ جو سوا گیارہ بجے سے سوابارہ بجے کے دوران تھا ۔"کہانی کار" کے اس سیشن میں مستنصر حسین تارڑ نے اپنے آنے والی کتاب کے حوالے سے خیالات کا اظہار کیا۔ پندرہ کہانیوں کا یہ مجموعہ ان کی کہانیوں کی پہلی کتاب " سیاہ آنکھ میں تصویر" کی اشاعت کے پچیس برس بعد سامنے آ رہا ہے۔ انہوں نے اس پر بات کرتے ہوئے اپنے مخصوص انداز سے یوں آغاز کیا کہ آج ہم اس بچےکےخدوخال پر بات کر رہے ہیں جو ابھی پیدا ہی نہیں ہوا۔انہوں نے 15 کہانیوں کے عنوانات بتائے"اے مرے ترکھان" حاضرین کے ساتھ شئیر کی ۔جو سانحہ پشاور کے بعد لکھی تھی اور اس کے لفظ آنکھ نم کر گئے۔
کچھ کہانیوں کے عنوانات ان کی روانی کا ساتھ دینے کی ناکام کوشش میں جلدی جلدی نوٹ کیے۔ یہ عنوانات بذاتِ خود پوری کہانی کہتے ہیں۔
جوہڑ میں ڈوب چکی لڑکی۔۔۔ اس بارے میں بتایا کہ ان کے بچپن کی یاد میں ایک لڑکی جوہڑ میں ڈوب گئی اور کچھ عرصے بعد کوئی کہتا تھا کہ وہ اس میں زندہ ہے۔ اس احساس کے ساتھ کہانی کا اصل رنگ شاید کچھ اور ہو، یہ نہیں بتایا۔
پھولوں والی پہاڑی۔۔۔
مکوڑے دھک مکوڑے۔۔۔
ایک سنو ٹائیگر کی سرگزشت۔۔۔
میں ایک پُرہجوم شہر میں سے گزرتا تھا۔۔۔۔
باتیں کرتے ہاتھ گواہیاں دیتے پاؤں۔۔
اُن کی مائیں بھی روتی ہیں۔۔۔
زرد پیرہن کا بن ۔۔
ایک گونگے کی ڈائری۔۔۔
دھند کے پیچھے شہر۔۔
آرٹ گیلری میں بیتھون کی چاندنی راتیں۔۔۔
یہ کہانی کون لکھ رہا ہے۔۔۔
جلا ہے جسم وجاں۔۔
اور
"اسکوٹر کی پچھلی نشست پر بیٹھی لڑکی جو ہنستی تھی "
یہ سب سے خاص کہانی ہے ۔ اس بارے میں بھی جناب نے تفصیل سے بتایااور بہت سے لکھنے والوں کی اندرونی کیفیات کی عکاسی کی جو سوچ سفر کے موسموں میں ان پر اترتی ہیں اور بہت کم ان کو ماتھے کا جھومر بنا پاتے ہیں۔
اسی سیشن کا دوسرا حصہ آسڑیلیا میں بسنے والے ریحان علوی کے ناول "تعبیر کی تلاش" کی تقریبِ رونمائی تھی جس میں جناب تارڑ نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ اور دیارغیر میں رہنے والے قلم کاروں اور اس کتاب کے لکھاری کے ساتھ ربط کا اظہار اپنے مخصوص خوشگوار لہجےمیں کیا۔
آخری روز کامران سلیم کی کتاب"برڈز آف سیالکوٹ"کی تعارفی تقریب تھی جس میں مستنصر حسین تارڑ نے اپنی شرکت سے اُس کو خاص بنا دیا۔
میری ڈائری اور چند تازہ آٹوگراف۔۔۔
محترم جمیل الدین عالی کے بیٹے راجو جمیل سے ملاقات ہوئی اُن سے "ابا" کی خیریت پوچھی۔ اور انہوں نے بڑی اپنائیت سے جواب دیا ۔ پھر ان سے اپنی ڈائری کے اُسی صفحے پر دستخظ لیے جس پر اُن کے والد نے 29 سال پہلے دستخط کیے تھے۔جناب راجوجمیل نےاپنے والد جناب "جمیل الدین عالی"کو دکھانے کے لیےفوراً اس صفحے کواپنے کیمرے میں محفوظ کر لیا۔
اسی طرح جناب عطاءالحق قاسمی سے بھی اسی صفحے پر دستخط لیے جس پر اُن کے اُنتیس برس پہلے کے دستخط موجود تھے اور ساتھ ہی اُن کے ہاتھ سے لکھا اپنا یہ شعر بھی تھا۔
شام ہوتے ہی عطا کیوں ڈوبنے لگتا ہے دل
کچھ نہ کچھ ہونےکو ہےاورناگہاں ہونےکو ہے
اس شعر پر جناب کی توجہ مبذول کرائی تو کہنے لگے کہ میں آج بھی اس پر قائم ہوں اور اپنے پرانے دستخط دیکھ کر خوشگوار حیرت کا اظہار کیا۔
کچھ نہ کچھ ہونےکو ہےاورناگہاں ہونےکو ہے
اس شعر پر جناب کی توجہ مبذول کرائی تو کہنے لگے کہ میں آج بھی اس پر قائم ہوں اور اپنے پرانے دستخط دیکھ کر خوشگوار حیرت کا اظہار کیا۔
انتظار حسین کے دستخط جوپچھلے سال(2014) کے ادبی میلے میں لیے تھے۔
جناب عقیل حسین جعفری ۔۔تاریخ پاکستان کو محفوظ کرنے کے حوالے سے عقیل عباس جعفری کا ایک اہم مقام اور الگ پہچان ہے۔
کچھ خاص آٹو گراف ۔۔
کائنات۔۔ " دانہ دانہ دانائی " ۔۔ انگلستان کے سو رنگ۔۔دیوسائی میں ایک رات۔۔۔ نیوٹن ، کے لکھاری چھتیس سالہ جناب
کائنات۔۔ " دانہ دانہ دانائی " ۔۔ انگلستان کے سو رنگ۔۔دیوسائی میں ایک رات۔۔۔ نیوٹن ، کے لکھاری چھتیس سالہ جناب
محمد احسن سے گفتگو کا موقع ملا اور انہوں نے بہت انکساری سے سوالوں کے تسلی بخش جواب دئیے۔
بہت اچھا لگا پڑھ کر۔شئیر کرنے کا شکریہ
جواب دیںحذف کریںاس بلاگ پوسٹ پرایک سوال اور میرا جواب ۔۔
جواب دیںحذف کریںHajra Rehan ۔۔لکھا تو خوب ہے نورین مگر کچھ بات سمجھ نہیں آرہی ۔ ۔ ۔کچھ اور تفصیل دیں تو ذرا ہمیں بھی پتہ چلے کہ بےادب کون تھا اور ادبی کون؟ ۔
Noureen Tabassum.۔۔۔ادبی وہ تھے جن کے اعزاز میں یہ میلہ لگا تھا جو اونچی کرسیوں پر بڑے فخر سے بیٹھے تھے اور اپنی عمر بھر کی تپسیا کا حاصل دیکھتے تھے۔ اور بےادبی ہم جیسے لوگ ہوتے ہیں جو لکھتےتو ہیں لیکن اپنے آپ سے بھی ڈرتے ہوئے کہ لوگ کیا کہیں گے۔ ایک عام انسان۔۔ عام عورت کے لیے بھی اپنی سوچ کولفظ میں لکھ کر کہہ دینا اگر اللہ کا بہت بڑا انعام ہے تو اس معاشرے کے نہ صرف پڑھے لکھوں بلکہ اپنوں کے سامنے بھی ایک طرح کا اعلانِ بغاوت ہے۔نوٹ۔۔ ابھی میں نے کم پڑھے لکھوں یا غیروں کی بات نہیں کی کہ ان کے مسائل اور ہوتے ہیں ہمارے حوالے سے اورہمیں ان کے حوالے سے۔
کائنات کا ہر ذرہ خآص ہے اور انسان ، تو بہت ہی خاص
جواب دیںحذف کریںسدا خوش رہیں