جناب مستنصرحسین تارڑ کی نوفروری 2014 کراچی کی ایک تصویر اور اس پر میرا احساس۔۔۔۔۔
"لمحۂ موجود"
وہ ایک " لمحۂ موجود
جو کلک نے امر کر دیا۔۔۔۔
زمانوں کے لیے
لفظ رقص کرتے ہیں تمہارے نام کے اطراف
تمہارا لمس تمہارے قلم کی تخلیقی قوت کی گواہی دیتا ہے۔
اور تم سارے قرض اتارتے ہو صرف ایک "شکریہ"کہہ کر ۔
کیا یہ محض اتفاق ہے۔۔۔۔۔۔ اگر ہے تو
اتنا حسین اتنا مکمل اتفاق بھی
چشم فلک نے کم کم ہی دیکھا ہوگا۔
تم تو جانتے ہو یہ سب
اور مانتے بھی ہو
سنو ایک آخری بات بھی سن لو
اس کاغذی لمس میں
تم یہی کہتے ہو
کہ ذرا دیر کو ٹھہرا ہوں اس دنیائے فانی میں
اور میں۔۔۔۔
تارڑ" کے بغیر بھی
اتنا ادھورا نہیں دکھتا
تارڑ میرا فخر ہے
تو
مستنصر حسین میری شناخت
۔۔۔۔۔
وہ شخص جس کے لفظ دل کے تار چھو جائیں اور لفظ کی کی خوشبو ہمیں اپنا اسیر کر لے،اُس سے ملنے کی خواہش ایک فطری عمل ہے۔ خاص طور پر اگر وہ ہماری دنیا میں ہمارے آس پاس بھی ہو۔ ورنہ جو ہم سے پہلے دنیا سے جا چکے، ان سے حالِ دل کہنے کی ایک حسرت سی رہ جاتی ہے۔اور جس کو لفظ سے قربت کے ساتھ ساتھ اپنے محبوب لکھاری کی جھلک بھی نصیب ہو جائے اس کا نشہ وہی جانےبقول شاعر،،جس تن لاگے وہ تن جانے۔ یہ دنیا تو بس چل چلاؤ کا میلہ ہے ہم میں سے کتنے اُن لکھاریوں کو ایک نظر دیکھنے سے ترستے رہ جاتے ہیں جن کے لفظ ہمیں سرور دیتے ہیں۔ کبھی وہ ہم سے پہلے جا چکے ہوتے ہیں تو کبھی ہمارے زمانے میں ہوتے ہوئے بھی ہماری پہنچ سے دور ہوتے ہیں۔زندگی مہلت دے تو انسان کبھی نہ کبھی اپنے پیارے سے مل ہی لیتا ہےلیکن اہم یہ ہے کہ مل کر محبت برقرار رہے ورنہ اکثر محبتیں کچے رنگوں کی طرح ملن کی پہلی بارش میں ہی بےرنگ ہو جاتی ہیں۔
یہ25 اپریل 2014 کی ایک شام کہانی ہے۔اسلام آباد کے مارگلہ ہوٹل میں ادبی میلے کی افتتاحی تقریب جاری تھی،اپنی بہن کے ساتھ کچھ دیر ٹھہر کر پھر شیما کرمانی کے کلاسیکی رقص کی بوریت سے اُکتا کر جیسے ہی میں نے ہال سے باہر قدم رکھا اچانک سامنے سے جناب مستنصرحسین تارڑ تن تنہا بلا کسی پروٹوکول کے تیزی سے اندر جاتے دکھائی دیے ۔
مجھ سے پہلے میری بہن کی نظر پڑی تو اس نے کہا دیکھو تارڑ !!! تیس برس سے زائد جناب تارڑ کے لفظ سے قربت کے بعد آج اس لمحے میں نے پہلی بار ان کو اپنے سامنے اور اتنا قریب دیکھا۔ ہرانسان کی طرح عمر کے ماہ وسال نے اُن پر بھی اپنے نشان ثبت کیے تھے۔ کیا کیا جائے کہ پڑھنے والوں کے ذہن میں لفظ کی طرح لکھاری کا چہرہ بھی یکساں تازگی کے ساتھ محفوظ رہتا ہے خاص طور پر اگر لفظ کی تازگی میں بھی ذرہ برابر فرق نہ آیا ہو۔ذرا قریب آئے تو میں نے ڈائری آگے بڑھا دی،کسی قدر خشک لہجے میں جواب ملاکہ آج میں نے کسی کو آٹوگراف نہیں دینا۔میرا دل جو خواہ مخواہ ہی کانچ کا بنا ہوا ہے(اورمیں اسے ان بریک ایبل کہتی ہوں) اسی وقت ٹوٹ گیا۔اگر ساتھ کوئی نہ ہوتا تو شاید اسی وقت لوٹ جاتی۔ لیکن بہن نے اُن سے کہا۔۔ اچھا صرف ایک تصویر۔سو چند لمحے رُک کر انہوں نے ایک کلک کی اجازت دے دی۔
اس کے بعد میں نے تارڑ کو ہمیشہ کے لیے کھو دیا۔ایک عجیب سی اداسی اندر ہی اندر سرایت کر گئی۔اس وقت بہت پہلے پڑھے ہوئے جناب تارڑ کے لفظ ہی یاد آئے۔۔۔کیا اُن کا کہنا درست تھا؟ کہ"کچھ صاحبِ کتاب سے کتاب ہی میں ملیں تو بہتر ہے"۔ پھر اپنے آپ کو سمجھایا کہ میں اس میلے میں خاص طور پر تو جناب تارڑ کے لیے نہیں آئی تھی اور نہ ہی مجھے اُن کی آمد کے بارے میں معلوم تھا۔ میں تو اردو زبان کے محترم لکھاری جناب رضاعلی عابدی کی مہمان تھی اور وہ ابھی کچھ دیر پہلے ہی تو تقریب میں پہلی قطار میں بیٹھے ہونے کے باوجود میرا رقعہ پڑھ کر فوراً باہر آ گئے تھے۔ اب میں اُن کے ساتھ لاؤنج میں ایک صوفے پر بیٹھی تھی اور خفت سے بتاتی تھی کہ جناب تارڑ ملے تو کیا ہوا۔انہوں نے بھی جناب تارڑ کی اسی بات کی تائید کی کہ آج وہ کسی کو آٹوگراف نہیں دیں گے۔ میں سوچتی تھی کہ صرف آج ہی تو میں یہاں تھی۔ میلہ ویسے تو تین روز کے لیے تھا لیکن میرے لیے آج ہی سب کچھ تھا ۔کل کے میں نے کبھی خواب نہ دیکھے تھے اور کل سے اُمید رکھنا میں نے سیکھا ہی نہ تھا۔ ۔اسی دوران تقریب ختم ہو گئی اورحسنِ اتفاق کہ تارڑ بالکل سامنے والے صوفے پر آ کر بیٹھ گئے۔ اور پھر ان کو ایک نظر دیکھنے،بات کرنے والے عقیدت مندوں اور پھر آٹوگراف کے خواہش مندوں کا ایک تانتا سا بندھ گیا۔ میں اُن کے چہرے پڑھتی اور مسکراتی کہ محبت اور عقیدت کیسے رنگ بکھیر رہی ہے۔
اب مجھے آٹوگراف لینے کی ٹھنڈ پڑ چکی تھی۔بس دیکھتی تھی اور سوچتی تھی کہ یہ انجان نہیں جانتا کہ سامنے کوئی کتنے برس سے اس کے لفظ کے عشق میں مبتلا ہے اور آج یہ لمحہ اس کےعشق سفر کا حاصل ہے۔ اس لمحے ایسے ہی ایک نارسا لمحے کی یاد کسک بن کر میرے دل پہ دستک دیتی تھی کہ میں"احمد فراز" سے کبھی بھی نہ مل سکی۔اگرچہ وہ میرے شہر میں مجھ سے بہت قریب بھی تھے لیکن پہلے اُن کی خودساختہ جلاوطنی اور پھر میری شہر بدری نے فاصلے کم ہونے نہ دئیے۔
میں بس جناب مستنصرحسین تارڑ کے ساتھ برسوں کے تعلق کے اوراق پلٹتی جاتی تھی۔۔ پہلی یاد ایک چوری کی تھی ۔۔ جب اُن کے پاکستان ٹیلی وژن پر مارننگ شوکے زمانے میں پی ٹی وی اسلام آباد کے ایک انجنیئر سے منگنی کے بعد اس کا فون نمبر چپکے سے لے کر ملایا اور تارڑ سے بات کرنا چاہی وہاں سے حسب معمول ٹالنے والا جواب ہی ملا۔ پھر برسوں بےخبری میں ہی گزر گئے۔لیکن لفظ سے رشتہ قائم رہا اور احساس کا تعلق کبھی سرد نہ ہوا۔ اب آمنا سامنا ہوا تو خیال آیا کیا یہی وہ شخص تھا جس کا عکس برسوں سے میری سوچ کے پردے پر جھلملاتا رہا ؟۔۔جس کی روح لفظ کے مندروں میں بھٹکتی تھی اور ستائش کی بےجان مورتیوں کے سامنے سجدہ ریز ہوتی تھی؟ ۔۔ پھر خیال آیا کہ اس کے قدم بھی تو بلندیوں کے پتھروں کے ہم رکاب ہوئے تھے؟۔۔ جس کا خواب بھی آ جانا اس نفسا نفسی کے عالم میں بڑے کرم کی بات ہے۔۔۔اُس کے ہاتھوں نےاُس درِدستک کو چھو کر یہ سوال تو ضرور کیا ہو گا کہ "میں کون ہوں اور میں کیوں اس مئے خانے میں ناآسودہ اور خوار رہا؟۔۔۔ خمار کے نشے میں مدہوش ہو کر بھی اُن جالیوں سے اُس کی آنکھ کے لمس نے یہ سوال بھی کیا ہوگا کہ دُنیاوی لذتوں کے بوسے کیوں میری قسمت میں لکھ دئیے گئے ؟ میں بھی تو تقدیر کا غلام تھا تو ایسی کایا پلٹ ایسا عروج بھی اگر میرے نصیب میں لکھا تھا تو دل وجان سے اِسے قبول کرنے میں کیوں سراپا ملامت بنا رہا ؟ نہ صرف اپنوں بلکہ غیروں کی تشکیک کے سایوں نے میرا قد گھٹانے کی لاکھ سعی کی لیکن مجھے چلنا تھا چلتا رہا اور چلتا چلا گیا۔
میں اداسی کی بارش میں بھیگتی جا رہی تھی کہ یکدم جیسے روشنی سے چمکی اور سب واضح ہو گیا۔غلطی سراسر میری تھی۔ مجھے لفظ سےعشق تھا اور لفظ کے حوالے سے اس لکھاری سے انسیت تھی تومیں کیوں غیر ارادی طور پر شخصیت کو لفظ پر اہمیت دے رہی تھی اور یہ وہی راز تھا جو میں اپنے لیے بھی ہرگز پسند نہ کرتی تھی اور میرے اندر سے بھی تو یہی پکار اٹھتی تھی کہ"میں نے اپنے لفظ سرِ بازار رکھے ہیں اپنی ذات نہیں"۔ لمحوں میں میرا موڈ بدل گیا اور پھر جب اُن کے پاس رش کم ہوا بلکہ جب کوئی نہ تھا تو ساتھ جا بیٹھی اور ڈائری بڑھا دی کہ اب مجھے "ٹھکرائے" جانے کا ڈر نہ تھا۔ میرا نام پوچھ کر انہوں نے اپنی روایتی خوش دلی سے دستخط کیے، پھر میں نے انہیں بتایا کہ پہلے میں آپ کو پڑھتی تھی اب میرے بچے پڑھتے ہیں اور ٹریکنگ پر جاتے ہیں اُن دنیاؤں کی سیر کرتے ہیں جو صرف عشق خاص کی چاہ رکھنے والوں کے سامنے اپنی چھب دکھلاتی ہیں۔ میں اُن کی آنکھوں سے ان منظروں کو محسوس کرتی ہوں۔ اور اسی فضا میں سانس لینے لگتی ہوں۔ بس یہ ہے کہ خیریت سے واپس آنے تک جان سولی پر ٹنگی رہتی ہے کہ موت کو پڑھ کر اس سے لطف اٹھانا ایک عجیب سے رومانوی سنسنی بھری شدید کشش رکھتا ہے لیکن کسی اپنے کا اسی جگہ پر جانا سب کچھ بھلا دیتا ہے۔ صرف دعا رہ جاتی ہے۔
جناب مستنصرحسین تارڑ کے حوالے سے اس ادبی میلے کی ایک اور یاد۔۔۔
بلاگ "اسلام آباد ادبی میلہ 2014 " سے چند سطریں۔۔
۔"مرزا غالب" کے سیشن سے پہلے"ارض شمال" کے نام سے گلگت بلتستان کے شاعروں کا سیشن تھا۔ 'رواداری' میں بیٹھ گئی تو اچانک پچھلی نشستوں پر بیٹھے" مستنصر حسین تارڑ" صاحب پر نظر پڑی۔بہت اچھا لگا۔ آپ نےبلتی شاعروں کو دل کھول کر دل سے داد دی اور مجھے دل ہی دل میں شرمندگی ہوئی کہ ہمارے دیس کے دوردراز خطوں کے یہ باسی اپنے اظہار میں کتنے سادہ اور تنہا ہیں اورہم شہر میں رہنے والوں کی ناقدری کے باعث کتنے اداس ہیں ۔ خیر سوال جواب کے سیشن میں جناب مستنصر حسین تارڑ کو سننے کا موقع ملا تو چند لفظ ذہن میں رہ گئے( مفہوم بیان کرنے کی کوشش کرتی ہوں)۔ آپ نے کہا (مفہوم) " کہ لوگ مجھے کہتے ہیں کہ کیوں بار بار اور اس عمر میں ان علاقوں کو جاتے ہیں۔ تو میں کہتا ہوں کہ "شمال سے ہوائیں اور دعائیں مجھے بلاتی ہیں"۔
آخری بات
فطرت کاعام اصول بھی تو یہی ہے کہ جب ہم جسمانی طور پرکسی کو دل سے محسوس کرتے ہیں تو ذہنی طور پر بھی اس سے قربت کے خواہاں ہوتے ہیں۔ اسی طرح اس کے برعکس جب کسی ذہن ، سوچ اور کسی کے لفظ سے قربت محبت میں بدل جائے تو پھر اس کے جسمانی وجود اور احساسات سے اُنسیت بھی بڑھ جاتی ہے۔ خاص طور پر جب وہ اپنے بارے میں سب کہہ دیتا ہو۔۔۔ اپنی خامیوں پر خود ہنستا ہو اور خوبیوں کو بھی تنقیدی نگاہ سے دیکھتا ہو۔ یوں جناب تارڑکے زمینی سفر سے زیادہ ذہنی سفر میں ایک عجیب سی کشش ہے۔ شاید اس لیے کہ ہم عمر کے ہر دور میں جو کچھ محسوس کرتے ہیں۔ جناب تارڑ کے لفظ اس کی بخوبی ترجمانی کرتے ہیں۔
اپنی ذات کے اندر سفر کرنے کے لیے جناب تارڑ کے لفظ ہمارے لیے اُس جگنو کی مانند ہیں جو اندھیری رات میں پل کو چمکتا ہے اور محض ایک ثانیے کو سہی راستہ روشن ضرور کردیتا ہے۔ منزل کی نشاندہی اس کی ذمہ داری نہیں بس وہ کلفتِ سفر کی تھکان ضروراتار دیتا ہے۔جناب تارڑ کے لفظ کے ساتھ جڑا مسکراہٹ سے زیادہ خالص رشتہ آنسو کا ہے جو لفظ پڑھنے سے زیادہ محسوس ہونے سے آنکھ نم کر دیتے ہیں۔۔۔ ہنستے ہنستے ایک دم رُلا بھی دیتے ہیں اور روتے روتے تسلی بھی دے دیتے ہیں ۔ اسی کا نام زندگی ہے اور اسی کا نام ادب ہے جو دلوں میں گھر کر جاتا ہے۔
مستنصر حسین تارڑ کے سفر نامے ۔۔۔۔
عام طور پر جناب تارڑ کی کتابوں جن میں خاص طور پران کے سفر ناموں سے۔۔ اور ان کے لفظوں کی سحرطرازی سے لوگ متاثر ہوتے ہیں۔لیکن میرے نزدیک جناب تارڑ کی زندگی کی کھلی کتاب اہم ہے۔۔عمر کے بدلتے موسم کے ساتھ ان کا ذہنی سفر اہم ہے۔۔ اور سب سے بڑھ کر ان کے وہ لفظ اہم ہیں جو پڑھنے والے کے دل کی آواز بن کر اسے قربت کا احساس دلاتے ہیں۔اور"متاثر ہونا" بھی درست لفظ نہیں کہ اس سے عقیدت جھلکتی ہےجو جہالت کی بند گلی کی طرف لے جاتی ہے کہ اس کے بعد انسان کوئی سوال پوچھنے کے قابل نہیں رہتا
اس میں شک نہیں کہ لفظ سے محبت کے سفر میں جناب تارڑ کے سفرنامے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اُن کے"سفر ناموں کی خاص بات یہ کہ اُنہوں نے اپنے ہر احساس کے ساتھ انگریزی والا "سفر"کیا۔اس "سفر" کی روداد کے بیان کے لیےانہوں نے ناول ،کالمز،سفر نامہ نگاری،ڈرامہ نگاری سے لے کر اداکاری تک کے رنگ استعمال کیے۔یوں آپ کے احساس کی مکمل تصویر سامنے آئی اور ہماری روح کو چھو گئی۔۔
جواب دیںحذف کریںمارچ 2014 میں میں اپنے پسندیدہ لکھاری " مستنصر حسین تارڑ" سے پہلی بار ملی۔ نومبر میں ان کی تحاریر اور اپنے تعلق پر دو بلاگ لکھے۔ سوچ سفر کے اس مرحلے میں درج ذیل بلاگ کے لفظ بھی کہیں چپکے سے دھیان میں اتر آئے۔سو یہ بلاگ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
"لفظ نگری"
http://noureennoor.blogspot.com/2014/12/lafz-nagri.html
ایک متوازن اور عمدہ تحریر۔ لفظ و بیان اور احساسات کے حوالے سے انسانی نفسیات اور سب سے پڑھ کر اپنے اندر کی اکھاڑ پچھاڑ کو سمجھنے کی ایک اچھی کوشش۔ خوش رہیں
جواب دیںحذف کریں