نیپال نگری"
نیپال نگری۔۔۔مستنصر حسین تارڑ
گندھارا کے مہاتمابدھ کے نام۔۔۔۔
سفر مارچ1998
اشاعت 1999۔
...36
"یہ آپ کو پیر نہیں مانتا۔۔۔۔ "ممتاز مفتی نے فاتحانہ انداز میں پروفیسر صاحب کو کہا۔" اسے آپ سے عقیدت نہیں ہے"
پروفیسر صاحب نے گولڈلیف کاسُوٹا لگایا اور کہا"یہ تو بہت احسن بات ہےکہ تارڑ صاحب مجھ سے عقیدت نہیں رکھتے کیونکہ۔۔جہاں سے عقیدت کا آغاز ہوتا ہے،وہیں سے جہالت شروع ہوجاتی ہے"۔
عقیدت اور ایکٹنگ میں بہت زیادہ فرق نہیں ہوتا۔دونوں کو طاری کرنا پڑتا ہے اور جہاں سے عقیدت کا آغاز ہوتا ہے وہیں
سے جہالت اس لیے شروع ہوتی ہے کہ اس کے بعد آپ سوال نہیں پوچھ سکتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
گوجرخان کے پروفیسر رفیق اختر کو میں تب سے جانتا تھاجب وہ اپنے آپ کو جوگی کہلاتے تھے اورمیرے بال بچوں کے لیے وہ اب بھی جوگی انکل تھے ۔ ۔ ۔پروفیسر صاحب کلین شیو،گولڈلیف سگریٹ کےکش لگاتے ہوئےایک ایسے عبادت گذار شخص تھے جنہوں نے مجھے قرآن اور خدا کے بارے میں وہاں تک قائل کیا جہاں تک میں ہو سکتا تھا۔ ۔ ۔کسی بھی بڑےسے بڑے جید عالم دین نے میرے شکوک کو اُس طرح زائل نہیں کیا تھا جس طرح جوگی صاحب نے منطق اور استدلال سے۔ ۔ ۔ اور اُس رنگ زبان سے۔ ۔ ۔چاہے وہ انگریزی ہو یا پنجابی اور میری خواہش ہے کہ مجھے اُن جیسا ایکپریشن نصیب ہو کہ ان کا پیرایہء اظہاربڑے سے بڑے ادیب کو حیرت میں ڈال دیتا ہے۔ ۔ ۔ مجھے متاثر کیا ۔ ۔ ۔اور میں آسانی سے متاثر ہونے والوں میں سے نہیں ہوں ۔ ۔ ۔
۔۔۔
میں ان پرندوں کی ڈار میں سے نہ تھا جو سولتی ہالیڈے اِن ہوٹل میں گھونسلا بنا کر.. بلکہ ایک ریڈی میڈ گھونسلے میں اتر کر چہچہانے لگتے ہیں.. بلکہ مجھے تو آوارگی سفر کے تنکے چن چن کر کسی منظر کے سامنے اپنا گھونسلا بنانا تھا... شاید ماؤنٹ ایورسٹ کے سامنے.. شاید انا پورنا کے دامن میں۔
159۔۔۔۔
آج تک یہ فیصلہ نہیں ہو سکا کہ جوئے کی جیت میں نشہ زیادہ ہوتا ہے یا سیاست کی جیت میں..
جوئے کا مثبت پہلو یہ ہے کہ یہ ایک انسان کے فخر میں قید ہوتی ہے... سیاست کی جیت میں ایک انسان پوری قوم کو قید کر لیتا ہے۔
۔۔۔۔
میں زندگی کے قمار خانے میں بہ رضاو رغبت آ تو گیا تھا.. اس کے باوجود کہ میں جیت نہیں سکتا.. کسی جھیل کرومبر.. کسی شاہ گوری کو اپنی ملکیت نہیں بنا سکتا تھا.. وادئ سوئنج کی بلندی پر کسی آبشار میں بھیگتے زرد پھولوں کو اپنے گھر میں نہیں لا سکتا تھا.. وادئ سوختر آباد کے کسی زرد سنو ٹائیگر کو اپنا نہیں بنا سکتا تھا.. دیو سائی کے میدانوں میں جو عجب رنگت اور شکل کے پھول کھلتے ہیں انہیں اپنے میدانوں میں نہیں لا سکتا تھا- سنو لیک پر تیرتی کشتیوں کے بادبانوں کا رخ موڑ کر انہیں اپنے ڈرائنگ روم کی زینت نہیں بنا سکتا تھا اس لئے میں ایک ہارا ہوا جواری تھا۔
چنانچہ میں اس قمار خانہ حیات سے اٹھ گیا۔
۔۔۔۔
میں نے ان حیرتوں کے بارے میں سوچا جن کے لئے میں نے زندگی گنوا دی... ان حیرتوں نے بہت سارے خطوں پر پرواز کی... کوہِ آرارات- جھیل جنیوا- قرطبہ کی شاموں اور سویڈن کے جنگلوں... روم- ارضِ روم- فرانس- ہرات- شاہ گوری- نانگا پربت اور جھیل کرومبر پر پرواز کی... لیکن خواہشوں اور حیرتوں کے قمار خانے میں مَیں ہمیشہ ایک ہارا ہوا جواری تھا۔ جو میں جیتنا چاہتا تھا وہ جیت نہ سکا...اور جو ہارنا چاہتا تھا وہ ہار نہ سکا۔
....296
ایک آوارہ گرد۔۔ایک کوہ نورد دنیا داروں سے اس لیے بہت سُپریئر ہوتا ہے کہ وہ اُن خطروں کو مول لیتا ہے جو نہ اُسے دولت سے مالامال کرتے ہیں اور نہ ثواب کا باعث بنتے ہیں۔وہ کسی بھی غرض کے تحت اپنی جان داؤ پر نہیں لگاتا بلکہ یہ اس کے من کی موج ہوتی ہے جو دنیا داروں کے حساب کتاب میں سراسر گھاٹے کا سودا ہوتا ہے ۔لیکن وہ بیوپاری نہیں ہوتا۔۔۔چونکہ وہ بےغرض ہوتا ہے اس لیے وہ جس وادی میں پہنچتا ہے،جس جھیل تک رسائی حاصل کرتا ہے وہ اُسی کی ہوجاتی ہے۔۔ان وادیوں اور جھیلوں کا کوئی سٹاک ایکسچینج نہیں ہوتا۔۔۔۔ان کے حصے کبھی نہیں گرتےکہ یہ ان کی پہنچ میں
ہی نہیں ہوتے جو کاروبار کرتے ہیں ۔۔
۔۔۔۔
اردو ادب کے ایک معتبر نقاد مظفرعلی سید نے کھٹمنڈو یاترا سے پیشتر.. اپنے کینسر زدہ بدن سے مختصر سانس کھینچتے ہوئے کہا تھا.. تم حضرت محل کی قبر پر ضرور جانا۔...
تو میں نے عرض کیا تھا.. شاہ جی اگر میں وہاں تک پہنچتا ہوں تو وہی دیکھوں گا جو دوسرے دیکھتے ہیں،ایک قبر کے سوا کیا دیکھوں گا-تو ان کی شرارت بھری آنکھوں میں ایک چمک پیدا ہوئی تھی.. مجھے یقین ہے کہ تم کچھ اور دیکھو گے۔اور وہ اور کچھ اور کیا تھا۔۔۔۔حضرت محل کی قبر کے درمیانی مستطیل کچے حصے میں سے ابھرتا ہوا ایک ناقابل یقین حد تک نیپال نگری کی رات میں بلند ہوتا ہوا سرو کا درخت۔...ٹیڑھا اور قدرے خشک ٹہنیوں والا سرو کا درخت۔
کسی بھی قبر کی مٹی میں سدا بہار کے بے معنی پھول لگائے جا سکتے ہیں.. اس کی کچی مٹی جب بارشوں سے بیٹھتی ہے تو کسی بھی قبر پر خودرو بدنما گھاس سر اٹھا سکتی ہے.. نا معلوم جھاڑیوں کے بیج پھوٹ سکتے ہیں.. ببول کے پودے اگ سکتے ہیں لیکن... ایک سرو کا درخت وہاں کیسے اگ آیا.. حضرت محل کے سینے میں جڑیں پھیلائے اور یہ جڑیں فرغانہ تک جاتی تھیں ایک سرو کا ٹیڑھا ترچھا درخت تھا جو کھٹمنڈو کی ملحد شب میں.. جس میں ایک پجاری مہاتما بدھ کے مجسمے چمکاتا تھا اور انا پورنا دیوی کے مندر کی گھنٹیاں بجتی تھیں اور حضرت محل کی قبر کے پار سڑک کے دوسرے کنارے سے وہ تالاب شروع ہوتا تھا جس میں نا معلوم دیوی کے چرنوں میں چراغ جلتے تھے اور ادھر نَے چراغے... وہ سرو یوں بلند ہوتا تھا جیسے عرش پر دستک دینے کو جاتا ہے.. فریاد کرتا ہے کہ میں تجھ تک پہنچ نہیں سکتا کہ میرے راستے کو ایک ہیئر ڈریسر،ایک بیوٹی سیلون اور ایک ٹریول ایجنسی کے بورڈ روکتے ہیں- میں جس کے نسوانی ڈھانچے میں جڑیں پھیلائے بلند ہوتا ہوں اُس نے جنگِ آزادی میں انگریزوں کا سامنا بے جگری سے کیا تھا... ان کے آگے ہتھیار نہیں ڈالے تھے اور لڑتی ہوئی لکھنئو سے نیپال کے ترائی کے جنگلوں میں اتر گئی تھی... اور میرے خدا نے میری لاج رکھ لی تھی اور وطن سے دور مارا تھا۔ سڑک کے پاس تالاب کی دیوی کے چرنوں میں چراغ جلتے تھے... اور ادھر لکھنئو کی شہزادی کی قبر پر... نَے چراغے.... نَے گلے... بس ایک سرو کا درخت۔....خاک میں جو صورتیں تھیں وہ لالہ و گل میں نہیں ایک سرو کے قد میں نمایاں ہو رہی تھیں۔۔۔۔....
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نیپال نگری پر محمد احسن کا احساس۔۔۔
مجھے تارڑ صاحب کے دو سفرناموں پر ہمیشہ حیرت اور خوشی رہی ہے..... رتی گلی اور نیپال نگری. رتی گلی سفرنامہ میں تارڑ صاحب رتی گلی جھیل تک نہیں پہنچے اور نیپال نگری میں وہ ماؤنٹ ایورسٹ کے قریب جانا تو درکنار، اُس کا مشاہدہ بھی نہ کر سکے. گویا سعودی عرب جانا اور بغیر عمرہ وطن لوٹنا. مگر یہی دو سفرنامے مجھے پُرامید بھی کرتے ہیں کہ راہ بھی منزل ہوتی ہے... منزل ہاتھ سے نکل جائے تب بھی راہ کی اہمیت کم نہیں ہوتی.. راہ کا سفرنامہ بھی جائز ٹھہرتا ہے
نیپال نگری۔۔۔مستنصر حسین تارڑ
گندھارا کے مہاتمابدھ کے نام۔۔۔۔
سفر مارچ1998
اشاعت 1999۔
...36
"یہ آپ کو پیر نہیں مانتا۔۔۔۔ "ممتاز مفتی نے فاتحانہ انداز میں پروفیسر صاحب کو کہا۔" اسے آپ سے عقیدت نہیں ہے"
پروفیسر صاحب نے گولڈلیف کاسُوٹا لگایا اور کہا"یہ تو بہت احسن بات ہےکہ تارڑ صاحب مجھ سے عقیدت نہیں رکھتے کیونکہ۔۔جہاں سے عقیدت کا آغاز ہوتا ہے،وہیں سے جہالت شروع ہوجاتی ہے"۔
عقیدت اور ایکٹنگ میں بہت زیادہ فرق نہیں ہوتا۔دونوں کو طاری کرنا پڑتا ہے اور جہاں سے عقیدت کا آغاز ہوتا ہے وہیں
سے جہالت اس لیے شروع ہوتی ہے کہ اس کے بعد آپ سوال نہیں پوچھ سکتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
گوجرخان کے پروفیسر رفیق اختر کو میں تب سے جانتا تھاجب وہ اپنے آپ کو جوگی کہلاتے تھے اورمیرے بال بچوں کے لیے وہ اب بھی جوگی انکل تھے ۔ ۔ ۔پروفیسر صاحب کلین شیو،گولڈلیف سگریٹ کےکش لگاتے ہوئےایک ایسے عبادت گذار شخص تھے جنہوں نے مجھے قرآن اور خدا کے بارے میں وہاں تک قائل کیا جہاں تک میں ہو سکتا تھا۔ ۔ ۔کسی بھی بڑےسے بڑے جید عالم دین نے میرے شکوک کو اُس طرح زائل نہیں کیا تھا جس طرح جوگی صاحب نے منطق اور استدلال سے۔ ۔ ۔ اور اُس رنگ زبان سے۔ ۔ ۔چاہے وہ انگریزی ہو یا پنجابی اور میری خواہش ہے کہ مجھے اُن جیسا ایکپریشن نصیب ہو کہ ان کا پیرایہء اظہاربڑے سے بڑے ادیب کو حیرت میں ڈال دیتا ہے۔ ۔ ۔ مجھے متاثر کیا ۔ ۔ ۔اور میں آسانی سے متاثر ہونے والوں میں سے نہیں ہوں ۔ ۔ ۔
۔۔۔
میں ان پرندوں کی ڈار میں سے نہ تھا جو سولتی ہالیڈے اِن ہوٹل میں گھونسلا بنا کر.. بلکہ ایک ریڈی میڈ گھونسلے میں اتر کر چہچہانے لگتے ہیں.. بلکہ مجھے تو آوارگی سفر کے تنکے چن چن کر کسی منظر کے سامنے اپنا گھونسلا بنانا تھا... شاید ماؤنٹ ایورسٹ کے سامنے.. شاید انا پورنا کے دامن میں۔
159۔۔۔۔
آج تک یہ فیصلہ نہیں ہو سکا کہ جوئے کی جیت میں نشہ زیادہ ہوتا ہے یا سیاست کی جیت میں..
جوئے کا مثبت پہلو یہ ہے کہ یہ ایک انسان کے فخر میں قید ہوتی ہے... سیاست کی جیت میں ایک انسان پوری قوم کو قید کر لیتا ہے۔
۔۔۔۔
میں زندگی کے قمار خانے میں بہ رضاو رغبت آ تو گیا تھا.. اس کے باوجود کہ میں جیت نہیں سکتا.. کسی جھیل کرومبر.. کسی شاہ گوری کو اپنی ملکیت نہیں بنا سکتا تھا.. وادئ سوئنج کی بلندی پر کسی آبشار میں بھیگتے زرد پھولوں کو اپنے گھر میں نہیں لا سکتا تھا.. وادئ سوختر آباد کے کسی زرد سنو ٹائیگر کو اپنا نہیں بنا سکتا تھا.. دیو سائی کے میدانوں میں جو عجب رنگت اور شکل کے پھول کھلتے ہیں انہیں اپنے میدانوں میں نہیں لا سکتا تھا- سنو لیک پر تیرتی کشتیوں کے بادبانوں کا رخ موڑ کر انہیں اپنے ڈرائنگ روم کی زینت نہیں بنا سکتا تھا اس لئے میں ایک ہارا ہوا جواری تھا۔
چنانچہ میں اس قمار خانہ حیات سے اٹھ گیا۔
۔۔۔۔
میں نے ان حیرتوں کے بارے میں سوچا جن کے لئے میں نے زندگی گنوا دی... ان حیرتوں نے بہت سارے خطوں پر پرواز کی... کوہِ آرارات- جھیل جنیوا- قرطبہ کی شاموں اور سویڈن کے جنگلوں... روم- ارضِ روم- فرانس- ہرات- شاہ گوری- نانگا پربت اور جھیل کرومبر پر پرواز کی... لیکن خواہشوں اور حیرتوں کے قمار خانے میں مَیں ہمیشہ ایک ہارا ہوا جواری تھا۔ جو میں جیتنا چاہتا تھا وہ جیت نہ سکا...اور جو ہارنا چاہتا تھا وہ ہار نہ سکا۔
....296
ایک آوارہ گرد۔۔ایک کوہ نورد دنیا داروں سے اس لیے بہت سُپریئر ہوتا ہے کہ وہ اُن خطروں کو مول لیتا ہے جو نہ اُسے دولت سے مالامال کرتے ہیں اور نہ ثواب کا باعث بنتے ہیں۔وہ کسی بھی غرض کے تحت اپنی جان داؤ پر نہیں لگاتا بلکہ یہ اس کے من کی موج ہوتی ہے جو دنیا داروں کے حساب کتاب میں سراسر گھاٹے کا سودا ہوتا ہے ۔لیکن وہ بیوپاری نہیں ہوتا۔۔۔چونکہ وہ بےغرض ہوتا ہے اس لیے وہ جس وادی میں پہنچتا ہے،جس جھیل تک رسائی حاصل کرتا ہے وہ اُسی کی ہوجاتی ہے۔۔ان وادیوں اور جھیلوں کا کوئی سٹاک ایکسچینج نہیں ہوتا۔۔۔۔ان کے حصے کبھی نہیں گرتےکہ یہ ان کی پہنچ میں
ہی نہیں ہوتے جو کاروبار کرتے ہیں ۔۔
۔۔۔۔
اردو ادب کے ایک معتبر نقاد مظفرعلی سید نے کھٹمنڈو یاترا سے پیشتر.. اپنے کینسر زدہ بدن سے مختصر سانس کھینچتے ہوئے کہا تھا.. تم حضرت محل کی قبر پر ضرور جانا۔...
تو میں نے عرض کیا تھا.. شاہ جی اگر میں وہاں تک پہنچتا ہوں تو وہی دیکھوں گا جو دوسرے دیکھتے ہیں،ایک قبر کے سوا کیا دیکھوں گا-تو ان کی شرارت بھری آنکھوں میں ایک چمک پیدا ہوئی تھی.. مجھے یقین ہے کہ تم کچھ اور دیکھو گے۔اور وہ اور کچھ اور کیا تھا۔۔۔۔حضرت محل کی قبر کے درمیانی مستطیل کچے حصے میں سے ابھرتا ہوا ایک ناقابل یقین حد تک نیپال نگری کی رات میں بلند ہوتا ہوا سرو کا درخت۔...ٹیڑھا اور قدرے خشک ٹہنیوں والا سرو کا درخت۔
کسی بھی قبر کی مٹی میں سدا بہار کے بے معنی پھول لگائے جا سکتے ہیں.. اس کی کچی مٹی جب بارشوں سے بیٹھتی ہے تو کسی بھی قبر پر خودرو بدنما گھاس سر اٹھا سکتی ہے.. نا معلوم جھاڑیوں کے بیج پھوٹ سکتے ہیں.. ببول کے پودے اگ سکتے ہیں لیکن... ایک سرو کا درخت وہاں کیسے اگ آیا.. حضرت محل کے سینے میں جڑیں پھیلائے اور یہ جڑیں فرغانہ تک جاتی تھیں ایک سرو کا ٹیڑھا ترچھا درخت تھا جو کھٹمنڈو کی ملحد شب میں.. جس میں ایک پجاری مہاتما بدھ کے مجسمے چمکاتا تھا اور انا پورنا دیوی کے مندر کی گھنٹیاں بجتی تھیں اور حضرت محل کی قبر کے پار سڑک کے دوسرے کنارے سے وہ تالاب شروع ہوتا تھا جس میں نا معلوم دیوی کے چرنوں میں چراغ جلتے تھے اور ادھر نَے چراغے... وہ سرو یوں بلند ہوتا تھا جیسے عرش پر دستک دینے کو جاتا ہے.. فریاد کرتا ہے کہ میں تجھ تک پہنچ نہیں سکتا کہ میرے راستے کو ایک ہیئر ڈریسر،ایک بیوٹی سیلون اور ایک ٹریول ایجنسی کے بورڈ روکتے ہیں- میں جس کے نسوانی ڈھانچے میں جڑیں پھیلائے بلند ہوتا ہوں اُس نے جنگِ آزادی میں انگریزوں کا سامنا بے جگری سے کیا تھا... ان کے آگے ہتھیار نہیں ڈالے تھے اور لڑتی ہوئی لکھنئو سے نیپال کے ترائی کے جنگلوں میں اتر گئی تھی... اور میرے خدا نے میری لاج رکھ لی تھی اور وطن سے دور مارا تھا۔ سڑک کے پاس تالاب کی دیوی کے چرنوں میں چراغ جلتے تھے... اور ادھر لکھنئو کی شہزادی کی قبر پر... نَے چراغے.... نَے گلے... بس ایک سرو کا درخت۔....خاک میں جو صورتیں تھیں وہ لالہ و گل میں نہیں ایک سرو کے قد میں نمایاں ہو رہی تھیں۔۔۔۔....
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نیپال نگری پر محمد احسن کا احساس۔۔۔
مجھے تارڑ صاحب کے دو سفرناموں پر ہمیشہ حیرت اور خوشی رہی ہے..... رتی گلی اور نیپال نگری. رتی گلی سفرنامہ میں تارڑ صاحب رتی گلی جھیل تک نہیں پہنچے اور نیپال نگری میں وہ ماؤنٹ ایورسٹ کے قریب جانا تو درکنار، اُس کا مشاہدہ بھی نہ کر سکے. گویا سعودی عرب جانا اور بغیر عمرہ وطن لوٹنا. مگر یہی دو سفرنامے مجھے پُرامید بھی کرتے ہیں کہ راہ بھی منزل ہوتی ہے... منزل ہاتھ سے نکل جائے تب بھی راہ کی اہمیت کم نہیں ہوتی.. راہ کا سفرنامہ بھی جائز ٹھہرتا ہے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں