جمعہ, اپریل 10, 2015

"ماں اور برداشت"

انسان کا سفرِزندگی برداشت کہانی ہے۔اس کے ہر طرزِعمل،ہر احساس کے دھارے برداشت سے پھوٹتے ہیں۔گرمی،سردی،بھوک،پیاس،خوشی،غم،محبت،نفرت کے جذبات میں برداشت کے بنیادی عناصر کے ساتھ ساتھ صبر،قناعت
،ظرف،آزمائش سب برداشت کی ہی شاخیں ہیں۔برداشت کا پیمانہ ہر ایک کے لیے جدا ہے۔۔۔انسانی فنگرپرنٹس کی طرح ایک جیسا دکھتے ہوئے بھی قطعی مختلف۔ مردوعورت اپنے جسمانی افعال وکردار کے تضاد اور دائرۂ عمل کی بدولت ساتھ رہتے ہوئے بھی برداشت کے الگ مرحلے طے کرتے ہیں۔
سمجھوتہ عورت کی فطرت بلکہ اس کی شخصیت کی بنت میں ازل سے پرو دیا گیا ہے۔ سمجھوتے کو برداشت کے ہم معنی سمجھا جائے تو عورت کی قوتِ تخلیق سے اس بات کو سمجھا جا سکتا ہے۔ جبکہ مرد کی فطرت میں یہ چیز شامل نہیں اس لیے حالات سے سمجھوتے کرتا مرد زیادہ اہم ہے۔جسمانی طورپرقوت تخلیق  عورت کی وہ ذمہ داری  ہے جس کی بجا آوری ایک مرد کے ساتھ جسمانی تعلق کے بغیرممکن ہی نہیں۔ایک خاص رشتے میں بندھنے کے بعدعورت کی ماں بننے کی صلاحیت  جس میں اُس کا کوئی ذاتی کمال ہرگز نہیں ،اس کی وجۂ تخلیق کے لاتعداد بکھرتے رنگوں میں سے ایک ہے  جس پراُس کے افعال وکردار کی عمارت استوار ہوتی ہے۔ وہ جڑ ہے جس سے نکلتی شاخیں اُسے ایک گھنا سایہ دار درخت بناتی ہیں۔
بچے کی ولادت کے کرب ناک عمل کو عورت کی برداشت کا امتحان کہا جاتا ہے،روتے پیٹتے سب اس امتحان سے گزرہی جاتی ہیں لیکن بہت کم کوئی اس مقام کو چھو پاتا ہےجب صبروشکرجسم میں جذب ہو کر روح سیراب کردے۔ہم میں سے اکثر زمانے کی ناقدری کا گلہ کرتی رہ جاتی ہیں ۔ یاد کریں وہ حدیثِ پاک ﷺ کہ جہنم میں عورتوں کے ہونے کی بڑی وجہ اُن کا ناشکرگزار ہونا ہے۔
عورت ماں کے روپ میں ایسا شجرِسایہ دار ہے جو وقت اورآزمائشوں کی بےرحم آندھیوں میں رہتے ہوئےآخری حد تک اپنی جڑ سے پیوست رہنے کی سعی کرتا ہے۔بچےعورت کی طاقت سمجھے جاتےہیں لیکن بچے سب سے بڑی کمزوری بھی ہیں۔ایک ایسی کمزوری جو اس کی شخصیت کو ہمیشہ کے لیےتہس نہس کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔
عورت جب ماں کارتبہ حاصل کر لے پھر ساری کی ساری ذمہ داری اس کی بنتی ہے نہ صرف اپنے پرائے کو سمجھنے کی بلکہ اس سے بڑھ کر اپنی طلب اور خواہش کی پہچان کی بھی۔زندگی اعتماد سے نہیں برداشت سے گزرتی ہے۔عورت  ماں بنتی ہے تو بچے اس کی برداشت کا پیمانہ ٹھہرتے ہیں۔دنیا کا کوئی رشتہ کوئی تعلق عورت کا بال بیکا نہیں کر سکتا۔ عورت کی برداشت کی حد یا تو بچوں کی خاطر اپنے احساس اپنی ذات کی قربانی دیتےدیتے ختم ہوتی ہے اور یا پھر انہی بچوں کی نظر میں بےوقعتی اسے خلا کا مسافر بنا دیتی ہے۔ایک عجیب سی بےزمینی ایک گہری لامکانی روح وجسم میں اُترتی ہے۔انسانوں کے ہجوم میں رہتے ہوئے تنہائی اور شکست کا آسیب اس طرح اپنی گرفت میں لیتا ہے کہ وہ اپنے آپ سےبھی کچھ کہنے سننے کے قابل نہیں رہتی۔پھر یوں ہوتا ہے کہ وہ مضبوط چٹان بھربھری مٹی کی مانند پل میں بکھر جاتی ہے اور کھوجنے والے اصل داستان ڈھونڈتے رہ جاتے ہیں لیکن سوائے سرورق کے کوئی بھی اصل کہانی نہیں جان پاتا۔

کامیاب شادی شدہ زندگی کے ابتدائی سالوں میں ایک صحت مند بچے کی ماں بننے کا وہ پہلا لمحہ ایک عورت کے لیے زندگی کی سب سے بڑی جیت ہوتا ہے۔ وہ جیت جو اُسے اپنی نظر کے آئینے سے بڑھ کر دوسروں کی نظر میں قابلِ رشک دکھاتی ہے۔ خودفریبی کے اِن ایام کے بعد عورت کی ہار کا جو سفر شروع ہوتا ہے وہ اُس کی آخری سانس تک جاری رہتا ہے۔

دردِزہ سے حالتِ نزع کا درمیانی عرصہ صرف اور صرف ایک لفظ "قربانی" سے عبارت ہے۔ اپنی ذات،اپنے جسم، اپنی صلاحیت،اپنے وقت،اپنی سوچ،اپنی خواہشات،اپنے جذبات،اپنے احساس، اپنی انا،اپنی خودداری،اپنا مفاد،اپنے رشتے،اپنے تعلق، اپنی معاشی اور معاشرتی ضروریات یہاں تک کہ اپنی آخرت کی فکر بھی داؤ پر لگ جاتی ہے۔بےیقینی کے پہلے احساس کی جیت کی اصلیت بہت کم ہی یقین کے آخری لمحے کسی کے سامنے کھلی ہے ورنہ بےخبری کی عینک سب اچھا ہی دکھاتی ہے اور یہ بھی اللہ کا بڑا کرم ہے۔

عورت کی زندگی ایک سعیءمسلسل ہےجو کولہو کے بیل کی طرح ایک دائرے میں سفر کرتے گزرتی ہے لیکن اُس مشقتی کو پیروں تلے زمین تو نصیب ہے۔عورت کی توساری عمر ذرا سی زمین کی خاطر مزدوری کرتے گزر جاتی ہےاور شاید وہ زمین اُسے کبھی نصیب نہیں ہوتی۔ ہاں!!!خوش فہمیوں کے محلات اوراُمیدوں،آرزؤں کی لگژری فلک بوس رہائش گاہیں اُسے ہواؤں میں شاداں وفرحاں رکھتی ہیں۔ مالک کا بہت بڑا کرم ہے کہ عورت سب کچھ جانتے بوجھتے بھی انجان بنی رہتی ہے کہ اس میں نہ صرف اُس کی بھلائی ہے بلکہ اس سے وابستہ رشتوں کی ڈور بھی مضبوطی سے بندھی رہتی ہے۔برداشت اور صبر کا پہلا سبق جو عورت کے خمیر میں شامل ہے بس اس کو اپنی نسل میں شامل کرنا ہے۔ دیانت داری اور امانت داری کی کوکھ سے پروان چڑھنے والے ہمیشہ ضمیر کی آواز سنتے ہیں۔اورماؤں کے لیے قابل فخر باعث تقلید ہوتے ہیں۔ ورنہ اندھی تقلید کے مارے خود بھی ڈوبتے ہیں اور ماؤں کو بھی ساری عمر کا روگ لگا دیتے ہیں۔
حرفِ آخر
 کامیاب عورت وہ ہے جو صرف "ماں" ہے اورکچھ بھی نہیں۔اپنے ملنے والے تمام رشتوں،تمام تعلقات میں اگر اُس نے ماں کا کردار نہیں نبھایا تو وہ ناکام ہے۔خیال رہے اس کردار کے لیے مامتا کا احساس اہم ہے،اولاد کا جنم دینا یا نہ دینا اہم نہیں جو قسمت کے فیصلے ہیں۔ یہ احساس جو دنیا کے سب سے خالص رشتے کی بنیاد ہےاوراسی احساس میں دُنیا کے سب سے خوبصورت جذبے کی نمو بھی ہے۔

4 تبصرے:

  1. عورت کا ظاھر تو کچھ بھی نہیں وہ تو سرا سر باطن ھے اسی لیے وہ ایک پوشیدہ چھپا ھوا وجود ھے وہ صرف اپنے رشتوں میں عیاں ھوتی ھے،ماں ، بہن اور بیٹی بن کر۔

    جواب دیںحذف کریں
  2. آپ نے پُرمغز اور سیر حاصل تحریر لکھی ہے ۔ میں چونکہ کم عِلم اور ادب جسے انگریزی میں لِٹریچر کہتے ہیں سے نابلد ہوں چنانچہ میں صرف اتنا ہی سمجھ پایا ہوں کہ عورت ماں ۔ بہن ۔ بیووی اور بیٹٰ ہر رُوپ میں نہائت عمدہ اور خوبصورت ہے ۔ اسی طرح مرد باپ ۔ بھائی ۔ خاوند اور بیٹے کے رُوپ میں اچھا لگتا ہے ۔ اللہ نے مرد کو بُردباری عطا کی ہے اور عورت کو حُسن اور رحم ۔ مرد کو عورت کی حفاظت اور نان و نُفقہ تفویض کیا یے اور عورت کو مرد کے کھر کی رکھوالی اور اولاد کی تربیت ۔ عورت میں تکلیف برداشت کرنے کی بہت صلاحیت رکھی گئی ہے جو مرد میں نہیں ہے ۔ اسی لئے عورت نہ صرف 9 ماہ بچے کو پیٹ میں اُٹھائے پھرتی ہے بلکہ پیدائش کے بعد جوانی تک ہی نہیں اپنی موت تک اُس کیلئے جان قربان کرنے کو تیار رہتی ہے اور اُس کیلئے ہر مصیبت جھیلتی ہے ۔ لیکن عورت کے جذبات کو ذرا سی ٹھیس بھی لگ جائے تو ریزہ ریزہ ہو جاتی ہے ۔ مرد جسمانی تکلیف کے سامنے ڈھیر ہو جاتا ہے لیکن جذباتی کچوکے برداشت کرتا رہتا ہے ۔ فساد کی جڑ وہ اطوار ہیں جو ان دونوں میں سے کوئی اپنی حیثیت کو چھوڑ یا بھُول کر اختیار کرتا ہے یا اپنے آپ کو دوسرے کا کام کرنے میں بہتر سمجھنے لگتا ہے

    جواب دیںحذف کریں
  3. خوبصورت تحریر ۔۔۔۔ بلاشبہ عورت کمزور ہوتے ہوئے بھی بہت مضبوط ہے اور مضبوط ہوتے ہوئے بھی اندر سے کمزور ہی ہے ۔۔۔۔ اپنی کمزوری اور طاقت کا متوازن احساس ہی ذندگی کو آسان بنا دیتا ہے۔

    جواب دیںحذف کریں

"کتبہ"

"کتبہ" جس طورانسانوں کی دنیا اور انسانوں کے ہجوم میں ہر آن اضافہ ہو رہا ہے تو اس طرح قبرستان بھی تیزی سے آبادہو رہے ہیں۔ گھر...