بدھ, اپریل 15, 2015

"سویا ہوا محل"

پانچ اور چھ جنوری 2015 کی درمیانی رات کی خود کلامی ۔۔۔۔۔
جن کے دھندلے دن ہوتے ہیں اُن ہی کی راتیں کالی ہوتی ہیں۔۔۔رات سونے اور رونے کے لیے نہیں ہوتی ۔۔۔رات غور کرنے اور یاد رکھنے کے لیے بھی ہوتی ہے۔
اِس کھل جاسِم سِم میں ہر چیز اپنی جگہ پر حنوط تھی۔۔۔ "سوئے ہوئے محل" کی طرح۔۔۔ وقت دیوار پر 2014 کے کلینڈر کے آخری صفحے پر ٹھہرا ہوا تھا۔۔۔بستر پر تکیے کےنیچے سلیقے سے تہہ درتہہ ٹشو پیپر اور نیویا کریم کی چھوٹی سی نیلے رنگ کی ڈبی لمس کی منتظر تھی۔۔۔ اور تکیے کے ساتھ ایک بےجان ریموٹ کنٹرول بھی تو تھا۔۔۔ سامنے کی دیوار پر لگی کالی اسکرین کے نیچے لال نقطہ ظاہر کرتا تھا کہ بس انگلی کی معمولی سی جُنبش کی دیر ہے پھر "زندگی لوٹ آئے گی"۔
آنکھوں کے سامنے اسٹینڈ پر فوری پہننے والے کپڑے تھے تو ساتھ ہی اخبار پر استری کیے کپڑے اور ایک گلابی رنگ کا دھلا ہوا تولیہ نفاست سے تہہ کیے رکھا تھا۔ کھونٹی پر ٹارچ والی واکنگ اسٹک بھی ویسے ہی ٹنگی تھی۔ سارے منظر کی تصویر کشی کرتا بڑا سا گول آئینہ بھی مجھ سے باتیں کرتا تھا۔ اس کے اوپر کلمۂ طیبہ کا جگمگاتا اسٹکراور اس کے نیچے لکھا۔۔۔
یہ سب تمہارا کرم ہے آقا ﷺ
کہ بات اب تک بنی ہوئی ہے ۔ میری نگاہوں کے بوسے لیتا تھا۔ہاں!!! اس کے عین نیچے کسی اسٹیکر کی باقیات کی جھلک بھی تھی وہ جس کی تحریر صرف مجھے معلوم تھی اور میرے دل پر نقش تھی۔ شاید میں نے ہی بہت پہلے اس کو بہت پرانا اوربوسیدہ ہونے پر ہٹانے کی کوشش کی تھی۔ یاد کے اندھیرے میں روشن وہ ایک شعر تھا۔۔۔
پھول کی پتی سے نازک تھا میرا جگر
حالات نے اسے پتھر بنا دیا
آج اس کمرے میں رات کی مکمل تنہائی اور خاموشی میرے ساتھ نیند کرتے تھے۔ اس محل کا مکین آنکھیں کھول کر سوتا تھا تو میں کیسے یہاں اپنی زندگی کی پہلی رات آنکھیں بند کر کے سو سکتی تھی۔35 برس سے گھر کا ہر گوشہ میری نیندوں اور میرے خوابوں کا رازدار تھا۔حیرت کی بات ہے کہ اس کمرے کے مالک کی بھرپور موجودگی نے کبھی یہاں سونے کا خیال نہیں آنے دیا اور آج اُن کے چلے جانے کے بعد ایک دم خیال یوں آیا کہ جیسے گھر میں اس کمرے کے علاوہ سونے کے لیےاور کوئی جگہ ہی نہ بچی ہو۔۔
فجر کی اذان سےبھی بہت پہلے میرا ذہن بیدار تو ہو گیا لیکن میرے نافرمان جسم نے رات کی اوؔلین ساعتوں میں شکرگزاری کے 'نفلی' سجدے کا ساتھ نہ دیا پھر فرض کی ادائیگی کے وقت ذہن نے کان پکڑ کر اُٹھا دیا۔معمول کی تلاوتِ یٰسین اور پھر بعد میں سورہ فجر پڑھتے ہوئے اس کی آخری آیات پر پہنچی جو ہمیشہ سے میرے لیے دُنیا وآخرت کی بہترین دعا ہیں۔۔۔اور اس سوئے ہوئے محل کے جانے والے مکین کی زندگی کہانی کا آخری باب بھی۔۔۔"نفسِ مطمئنہ" جس کی دعا ہر صاحب ایمان کے دل سے نکلتی ہے، اُس کی عملی تصویر اس وقت میرے سامنے عیاں تھی۔
سامنے ایک کرسی پر چار اور پانچ جنوری کے ربڑبینڈ میں لپٹے ان چھوئے اخبار پڑے تھے(ابھی ابھی میں نے چھ جنوری کا بھی لا کر رکھا ہے) جسے اخبار والا ڈال کر ایک دم ہی چلا گیا اور میں اس سے بات کرنےکا انتظار کرتی رہ گئی۔ اخبارلانے والوں کی بھی عجیب زندگی ہے،پَو پھٹنے سے پہلے بیدار ہو کر اپنے حصے کا کام شروع کرتے ہیں اور اخبار ڈالتے وقت سیکنڈوں میں اخبار پھینک کر غائب ہو جاتے ہیں۔ خیرمیں نے اپنے آپ کو یہ سوچ کر تسلی دی کہ شاید ابھی اس ماہ اخبار کا بل ادا نہیں کیا گیا تو جب بل لینے آئے گا آئندہ اخبار لانے سے منع کردوں گی کہ اخبار پڑھنے والا اب ہر خبر سے بےنیاز ہو گیا ہے۔
جنوری کی 3 تاریخ تھی ۔ ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب ابو کو سانس کی گھٹن محسوس ہوئی۔اس کرب کی حالت کوبڑے ضبط سے برداشت کرتے ہوئےبچوں کی نیند خراب ہونے کے احساس سے فوری ہسپتال جانے سے منع کرتے رہے۔ فجر تک زبردستی ہسپتال گئے۔۔۔اپنےاسی کمرے سے خود چل کر۔۔۔
اپنی قوتِ ارادی کو آخری حد تک مجتمع کرتے ہوئے۔۔۔اور بیٹیوں کو بھی اپنے ہوش وحواس قابو میں رکھنے کی تلقین کرتے ہوئے۔ اتوار 4 جنوری 2015(12 ربیع الاول) کومغرب کی اذان سے ذرا پہلے اسلام آباد کے پمز ہسپتال میں ابو کا انتقال ہوا۔ کچھ دیر بعد اُن کو گھر لے آئے اور گھر کے ڈرائنگ روم میں ایک چارپائی پر لٹا دیا۔۔۔۔ یہ کیسا عجیب وقت تھا کہ گھر کا مالک اپنے پیروں سے چل کر گیا اور 24 گھنٹوں کے اندر تھوڑی دیر کے لیے واپس تو آیا لیکن نہ اپنے پیروں پر اور نہ ہی اپنے کمرے میں۔ اس رات وہ کمرہ بند تھا اور بند ہی رہا۔۔۔
ابو کا یہ کمرہ ہر لحاظ سے گھر کا ماسڑ کنڑول روم تھا۔۔۔جس کے دروازے پر اندر آنے کی اجازت کی سرخ بتی ہر وقت جلتی رہتی،ہم ہمیشہ جھجھکتے ہوئے داخل ہوتے بےشک یہ صرف ہمارا ہی فاصلہ تھا ورنہ اُن کے جاگنے کے علاوہ نیند کی حالت میں بھی اُن کو آواز دینے کی ضرورت پیش آتی تو اسی وقت جواب مل جاتا۔ وہ دنیا کے شاید واحد نانا تھے جن کے چھوٹے بچے گھر میں اودھم مچائے رکھتے اور انہوں نے کبھی شور یا نیند خراب ہونے کی شکایت نہ کی بلکہ ہم بڑوں کا بچوں کو ڈانٹنا یا چپ کرانا بھی پسند نہیں کرتے تھے۔بس اس وقت رات دیر تک جاگنے پر سرزنش کرتے جب صبح بچوں کو گھوڑے پیج پر سوتے دیکھتے۔ وہ کہتے تھے کہ پہلے نماز وقت پر پڑھو پھر جو چاہے کرو۔یہاں یہ سطریں لکھتے ہوئے پطرس بخاری کا جملہ یاد آیا " کام کے وقت ڈٹ کر کام کرو تا کہ کام کے بعد ڈٹ کر بےقاعدگی کر سکو"۔ ابو اس جملے کی چلتی پھرتی مثال تھے۔
وہ بچوں کے بچوں سے بڑھ کر دوست تھے۔۔۔اُن کے لاڈ اٹھاتے،فرمائشیں پوری کرکےبگاڑنے والے مہربان نانا تھے۔بچوں کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں پر پیسےیوں خرچ کرتے جیسےکوئی لاٹری نکلی ہو۔ چودہ اگست کے لیے پہلے سے پٹاخوں کی ڈبیاں نہ صرف خود لا کر بچوں کے لیے اسٹاک کر کے چھپا کر رکھتے بلکہ بڑوں سے نظر بچاتے ہوئے مٹھی میں چھپا کر بچوں کو پیسے دیتے۔اپنے ساتھ آئس کریم کھلانے لے کر جانا روز کا کام تھا جو ان کے ساتھ ظہر کی نماز پڑھنے جاتے ان کے مزے ہو جاتے۔ وہ بڑی فراخ دلی سے کھلائے جاتے اور خود بھی کھاتے بلکہ کہتے کہ بچوں کے طفیل میرا بھی بھلا ہو جاتا ہے ورنہ اس عمرمیں اکیلے آئس کریم کھاتے ہوئےلوگوں کی حیرت سے شرم آتی ہے۔ ہم جانتے تھے یہ صرف بہانے بازی ہے۔۔۔انہوں نے ساری زندگی لوگوں کی پروا نہ کی بلکہ ایک طرح سے جوتے کی نوک پر رکھا، یہ تکبر نہیں صرف عاجزی کی انتہا تھی کہ رب کے سوا کسی کا خوف پاس نہ پھٹکنے دیا۔۔وہ اقبال کے اس مصرعے کی تفسیر اپنے آپ کو سمجھاتے زندگی گزار گئے۔۔۔۔
جھپٹنا پلٹنا ، پلٹ کر چھُٹنا
لہو گرم رکھنے کا ہے اِک بہانہ
گھر میں سیڑھیوں کے پاس کھڑکی پر لگی ابو کے ہاتھ سے لکھی تختی۔۔۔
اگلے روز 5 جنوری کو ظہر کے وقت اُن کا جسدِخاکی گھر سے روانہ ہوا۔ میرا یہ احساس 5 اور 6 جنوری کی درمیانی شب کی کہانی ہے جب سب کے چلے جانے کے بعد میں ان کے کمرے میں اُن کے بستر پر تھی اور میرے ساتھ صرف میرا احساس تھا جسے کسی حد تک سمیٹ کر لفظ میں لکھنے کی کوشش کی۔
جانتی ہوں کہ کبھی احساس کی شدت کے آگے لفظ بہت بےمعنی اور بےجان دکھتے ہیں۔لیکن احساس کے موتیوں کی وقت پر قدر نہ کی جائے تو وہ وقت کے گہرے سمندروں میں اتنی تیزی سے ڈوب جاتے ہیں کہ بعد میں بس یاد کی بہت ہلکی سی جھلک رہ جاتی ہے۔اور اسی طرح جب کوئی بےرحم احساس سارے بدن کو سنگسار کر کے اس میں زہر بھر دے تو اس لمحے اگر زہر کا توڑ نہ کیا جائے تو کرچی کرچی جسم کی نیلاہٹ  جینے دیتی ہے اور نہ ہی مرنے کی راہ دکھتی ہے۔
اللہ پاک ابو کی آگے کی منزلیں آسان کرے اور اُن کو اپنے رب سے بہترین گمان کا خزینہ عطا  کرے آمین۔
ابو کے ہاتھ سے لکھے ہوئے اور لگے ہوئے چند لفظ ۔۔۔ویسے تو گھر کے ہر ذرے میں ابو کے ہاتھ کا لمس ہمیشہ باقی رہے گا جب تک اس گھر کی بنیادیں موجود ہیں۔


     

2 تبصرے:

  1. Aisi tehreer sirf ek beti hi likh saktii hey ..

    What can I say Noureen once again you wrote the words deep inside my heart for my mother who left us last year in Jan suddenly just the way your father did ...

    Main ney aaney main thori dair ker dii aur unn Ko janey ki buhat jaldi thi ...

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. دلوں کے احساس سانجھے ہوتے ہیں۔۔۔۔ بس اظہار کے انداز مختلف ۔۔۔۔ کسی کا آنسو کی صورت دکھتا ہے تو کسی کا لفظ کی صورت اور کوئی دل میں جذب کر کے سب کی نظر سے بچا لیتا ہے لیکن ایسے دکھ کبھی روگ بھی بن جایا کرتے ہیں۔

      حذف کریں

"کتبہ"

"کتبہ" جس طورانسانوں کی دنیا اور انسانوں کے ہجوم میں ہر آن اضافہ ہو رہا ہے تو اس طرح قبرستان بھی تیزی سے آبادہو رہے ہیں۔ گھر...