جمعہ, جنوری 30, 2015

"دُلہن ایک رات کی "

"دُلہن ایک رات کی"
زندگی ۔۔۔۔اے دُنیا کی زندگی۔۔۔ تو ایک رات کی دُلہن ہی تو ہے۔۔۔ہوش اُڑا دینے والے فریب کی خوشبو سے مہکتی۔۔۔دسترس میں یوں کہ جیسے اب کوئی درمیاں دوسرانہیں۔۔۔ہر پل نئے رنگ اور نئی چھب سے اپنی ذات کے بھید کھولتی۔۔۔زندگی تو وہ مئے اسرار ہے جس کا نشہ بن پئیے ہی سرچڑھ کر بولتا ہے۔۔۔کیا زاہدِ خشک کیا بادہ خوار سب ترے در کے بھکاری۔۔۔تِری اِک نگاہِ کرم کی آس میں۔۔۔قربت کے خمار میں مسحور ومخمور۔ اتراتی ہے یوں کہ جہاں میں کوئی تجھ سا نہیں۔۔۔ہاتھ تھامتی ہے کہ کبھی ساتھ نہ چھوڑے گی۔۔۔ساتھ ہےتو اتنا قریب کہ سانس میں سانس مل جائے۔اور جب آس کا فاصلہ رہ جائےتو اتنی چالبازی سے دور پھینکتی ہے کہ ٹھوکر کھانے والا اسے اپنی ہی کمزوری سمجھتا ہے۔ ایسی بےوفا محبوبہ جو خود بلاتی ہے۔۔۔ دور جانے نہیں دیتی اور پاس آتی بھی نہیں۔ رنگوں کی پچکاریاں بکھیر کر شرابور کردیتی ہے اور خود دور کھڑی تماشا دیکھتی ہے۔ ایسی خوش گلو کہ اپنی آواز کے مدہم سروں سے کل عالم کو بےخود کردے اور انسان۔۔۔ اپنا شرف جو اس کافر ادا کی جان نکالنے پر قادر ہے فراموش کر بیٹھے اور رینگنے والا بےضرر حیوان بن کر رہ جائے۔
یہی تو اس کا کمال ہے کہ لُٹنے والا سب لٹا کر بھی شانت۔۔۔ اور جب دو چار ہاتھ لب بام رہ جائے یقین کی منزل سب آشکار کر دیتی ہے۔ زندگی تو فریب نظر سہی لیکن تو حقیقت بھی تو ہے ایسی حقیقت کہ جس پر کھلی آنکھ سے چھو کر بھی یقین نہیں آتا۔جیسے ہی آنکھ بند ہونے لگے آنکھ کے نور کو چھو کر اس کے اندر اتر جاتی ہے۔ آنکھ کا یقین ۔۔۔عین الیقین علم الیقین کے پائیدان پر کھڑا انتظار کرتا رہا اور حق الیقین سب ارمان حسرت بھری آنکھ میں سمیٹ کر رُخصت ہوا۔ سب فتح کرنے کا جنون انسان کو یہ بھلا دیتا ہے کہ یہ سنہری خواب گاہ دراصل جادو نگری ہے۔۔۔ فریب نگاہ ہے۔ وہ نگاہ جس کے بارے میں کہا گیا۔۔۔۔۔۔سورۂ ق (50) آیت 22،ترجمہ ۔۔۔
بےشک تو اس سے غفلت میں تھا اب ہم نے تجھ پر سے پردہ اٹھا دیا تو آج تیری نگاہ تیز ہے۔

جمعرات, جنوری 29, 2015

"سمجھ۔۔۔ناسمجھ"

"سمجھ۔۔۔ناسمجھ"
لوگ ۔۔۔۔۔
کتا سمجھتے ہیں اور بھونکنے کی اجازت بھی نہیں دیتے۔۔۔۔
زمین پر تھوک کر گزر جاتے ہیں اور چاٹنے کے لیے پلٹتے بھی ہیں۔۔۔۔
حرام کا تخم کہتے ہیں اور خوشبودار پھل کا آخری رس تک نچوڑنا چاہتے ہیں۔۔۔
آنکھ پر مصلحت کی پٹی باندھ دیتے ہیں اور نابینا کہہ کر مذاق اُڑاتے ہیں۔۔۔
گلے میں پھانسی کا پھندا ڈالتے ہیں اور ساتھ اپنی خواہشوں کی فہرست بھی تھما دیتے ہیں۔۔۔
زندگی کے باکسنگ رنگ میں ناک آؤٹ کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اُن کی فتح کے جشن پر تالیاں بھی پیٹی جائیں۔۔۔
بنجر زمین کا الزام لگاتے ہیں اور چھپے ہوئے خزانوں کی چمک سے نظریں چرا لیتے ہیں۔۔۔
زندگی کی خوشیاں جھولی بھر بھر سمیٹتے ہیں اور اسی جھولی میں چھید کیے جاتے ہیں۔۔۔
منہ پر زورسے ہاتھ رکھ دیتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ہاتھ اور پاؤں سے چیخ کی آواز نہ سنائی دے۔۔۔
انسان کو روبوٹ جانتے ہیں اور لمس کی چاہ کی ہوس رکھتے ہیں۔۔۔
وجود کو قبرستان بنا کر زندگی کے قہقہوں کی تمنا پالتے ہیں۔۔۔
سر کے تاج کو زمانے کے حوالے کر کے چاہتے ہیں کہ اس پر خراش نہ آئے۔۔۔
بستر پر کانٹے بچھا کر کروٹ بدلنے پر اُن کی چُبھن کا الزام دھرتے ہیں۔۔۔
اپنے آپ کو عقلِ کُل جان کر فیصلے صادر کرتے ہیں اور کٹہرے سے جانے بھی نہیں دیتے۔۔۔
سانس نکلنے پر آہ بھرتے ہیں نہیں جانتے کہ جان تو آس کی ڈور ٹوٹنے پر ہی نکل جاتی ہے۔۔۔
مرنے کے بعد جنازے پر بین کرنے کو دل وجان سے راضی لیکن زندہ لاش کو کاندھے کی بھیک دینا گوارا نہیں۔۔۔
اپنے آپ کو فرشتہ اور دوسرے کو انسان بھی نہیں سمجھتے۔۔۔
جسم سے چادر نوچ لیتے ہیں پھر بےپردگی کے طعنے دیتے ہیں ۔۔۔
لفظ کے تیروں اور لہجے کے نشتروں سے سرِعام بےلباس کرتے ہیں اور منہ چھپانے کی بھی پناہ نہیں دیتے۔۔۔
انگلی پکڑ کر چلنا سیکھنے والے لاٹھی کو بےقیمت کہہ کر رد کر دیتے ہیں۔۔۔
آج میں اُڑتے ہیں اور زمین کے کل سے بے خبر ہوتے ہیں۔۔۔
خود غرضی کی حد تک اپنی غرض سے غرض رکھتے ہیں لیکن اپنا بھلا کبھی نہیں کر سکتے۔۔۔
خودغرض ہونا بہت بڑی نعمت ہے۔ انسان کو صرف اپنی غرض کی پہچان ہو جائے تو نہ صرف اُس کی دُنیا بلکہ عاقبت بھی سنور جائے۔
!آخری بات
توقعات اور فتنوں کے لباس خود اُتار دو تاکہ تمہارے کورے بدن پر عزت کا لباس آسانی سے پہنایا جا سکے۔



ہر بات سمجھی نہیں جا سکتی۔۔۔سمجھائی نہیں جا سکتی۔ یہ تو ہم سب جانتے ہیں کچھ چیزیں بلکہ کائنات کی سب سے بڑی سچائی بھی محسوس کی جائے تو سمجھ آئی ہے ۔۔۔ ہمارا ایمان بنتی ہے۔ ہم خود اپنے آپ کو نہیں سمجھ سکے تو کوئی ہماری تحریر کیا سمجھے گا۔یہ صرف احساس کا کھیل ہے ہماری سوچ کے لمس کو کوئی ایک بھی چھو جائے، اپنی ذات پر اعتماد کے لیے بہت ہے ورنہ ہمارا خالق ہماری نیت جانتا ہے اور وہی اس کا اجر دینے والا ہے۔کیا کیا جائے۔۔۔ ہم انسان ہیں  جب تک انسان سے دل کی بات نہ کہہ دیں چین نہیں آتا۔

منگل, جنوری 27, 2015

" پھر وہی دشت۔۔۔۔۔"

اِک تصویر تھی کیا جانئیے کس کی تصویر"
"نقش موہوم سےاور رنگ اُڑا سا لوگو
(ابنِ انشاء۔۔۔ اس بستی کے اِک کوچے میں )
تین برس پہلے کمپیوٹر سے دوستی کی تو اول روز سے ڈیسک ٹاپ کی یہ تصویر میرے ساتھ تھی جیسے ہی نیٹ آن کرتی میرے سامنے آ جاتی ۔ میری دوست ۔۔۔ میری ہم نشیں ۔۔۔میرے دکھ سکھ کی ساتھی ۔۔۔۔۔جس کا احساس مجھے آج ہوا۔ یہ بےجان تصویر انجانے میں میری ذات کے بھید کھولتی ہے۔دُور اونچے پہاڑوں پر تنہا ہرا بھرا قطعۂ زمین ۔۔۔ کہیں کہیں تاروں کی مانند جھلملاتے۔۔۔کھلتے ننھےزرد پھول۔۔۔ بےکراں نیلا آسمان۔۔۔مست بےپروا بھٹکتے بادل۔۔۔دور کہیں دوسری کائنات میں چھپی ہوئی آخری منزل۔ سب میرا عکس ہی تو ہے۔ مجھ سے کہتا ہے کہ دنیا میں صرف تم ہی تو نہیں ۔ میں بھی تو تمہارےجیسا ہوں۔ تنہا ہوں تو غم نہیں ۔ دیکھو میری طرف غور سے یہاں زندگی کی روشنی دکھتی ہےتو زندگی کی دلہن اپنے مخملیں بستر پر آس لگائے انتظار بھی کرتی ہے۔۔۔۔ میں صرف ان کی دسترس میں ہوں جو مجھے چھونے کا حوصلہ رکھتے ہوئے صعوبتیں برداشت کر کے گھڑی دو گھڑی میرے پاس ٹھہرتے ہیں ۔۔۔۔میں خوشی سے انہیں اپنے وجود پر قدم رکھنے کی اجازت دیتا ہوں اور یاد کی تازگی دے کر رُخصت کر دیتا ہوں۔ جو میرے بن جاتے ہیں وہ بار بار لوٹ کے آنا چاہتے ہیں اور نہ بھی آ سکیں تو میری مہک سدا ان کے ساتھ رہتی ہے۔ اس بےجان تصویر نے شکوہ کیا کہ دیکھو ہماری محبتیں ہمارے عکس ہمارے آس پاس ہمارے اندرہی تو سانس لیتے ہیں لیکن ہم ان سے صرفِ نظر کرتے ہوئے نہ جانے کن دنیاؤں میں اپنی لاحاصل چاہتیں کھوجتےرہ جاتے ہیں ۔
۔۔۔۔۔
یہ سطریں لکھتے ہوئے ابن انشاء یاد آئے۔۔۔۔اُن کے لفظ یاد آئے جو برسوں پہلے ڈائری پر لکھے اور آج اپنی اسی ڈائری کو سامنے رکھ کر بلاگ پر سجاتی ہوں۔ 


نہیں جانتی کہ جب لکھے تو اس وقت سفرِزندگی کی ترجمانی کرتے تھے؟ یا آج کی کہانی کہتے ہیں؟۔ لیکن خوشگوار حیرت سے زیادہ اپنی ذات۔۔۔ اپنی سوچ کی پختگی پر یقین برقرار ہے کہ وہ پندرہ سولہ سال کی کچی شاخ اس وقت بھی اُن آندھیوں طوفانوں سے بےخبر نہیں تھی جو گردش وقت نے اس کے نصیب میں لکھ رکھے تھے۔ بےشک یہ رب کا وہ خاص فضل ہے جو وہ ایک راہ پر چلنے والوں کو عطا کرتا ہے۔ کہتا ہے کہ قدم جمے رہیں۔۔۔ جڑیں مضبوط ہوں تو صرف وقت ہی فنا کے فیصلے صادر کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ انسان کی زندگی کے راز بھی کھولتا ہے کہ دنیا سے چلے جانا صرف نظر سے ہٹ جانے کا نام ہے ورنہ لفظ کی سچائی انسان کوہر دور میں زندہ رکھتی ہے۔ بس وہ اپنی زندگی میں ناقدری کی خلش کا شکار ہو کر جیتے جی مر جاتا ہے۔ اور آخری اہم بات یہ کہ لفظ کی خوشبو انسان کی پہلی محبت پر اعتبار بھی قائم رکھتی ہے کہ وہ آخری سانس تک بھی ساتھ نہیں چھوڑتی۔ ابن انشاء کے لفظ میری لفظ سے پہلی محبت بلکہ پہلا عشق تھے اور یہ عشق آج بھی روح میں جذب ہو کر تسکین دیتا ہے۔

 پھر وہی دشت ۔۔۔
ہو نہ دنیا میں کوئی ہم سا بھی پیاسا لوگو 
جی میں آتی ہے کہ پی جائیں یہ دریا لوگو
کتنی اس شہر کے سخیوں کی سُنی تھی باتیں 
ہم جو آئے تو کسی نے بھی نہ پوچھا لوگو
اتفاقاً ہی سہی ، پر کوئی در تو کُھلتا 
جھلملاتا پسِ چلمن کوئی سایا لوگو
سب کے سب مست رہے اپنے نہاں خانوں میں
کوئی کچھ بات مسافر کی بھی سُنتا لوگو

ہونگے اس شہر میں کچھ اس کے بھی پڑھنے والے
یوں تو یہ شخص بھی مشہور تھا خاصا لوگو
کسی دامن ، کسی آنچل کی ہوا تو ملتی 
جب سرِ راہ یہ واماندہ گرا تھا لوگو 

ایک تصویر تھی کیا جانیئے کس کی تصویر
نقش موہوم سے اور رنگ اُڑا سا لوگو
ایک آواز تھی کیا جانیئے کس کی یہ آواز
اس نے آواز کا رشتہ بھی نہ رکھا لوگو


کچھ پتا اس کا ہمیں ہوتو ،تو تمہیں بتلائیں
کون گھر ؟کون نگر؟کون محلہ لوگو
چند حرفوں کا معمہ تھا وہ الجھا سلجھا
اُس نے تو نام بھی پورا نہ بتایا لوگو
ہائے یہ درد کہ مشکل سے تھما تھا دل میں
چاند پونم کا ابھی سے نکل آیا لوگو

پھر وہی دشت ، وہی دشت کی تنہائی ہے
وحشتِ دل نے کہیں کا بھی نہ رکھا کوگو
اُس میں ہمت ہےتو در آئے، اُٹھا دے یہ حصار
اپنے گنبد میں تو در ہے نہ دریچہ لوگو
جی کی جی ہی میں رہیں حسرتیں طوفانوں کی
یہ سفینہ تو کنارے ہی پہ ڈوبا لوگو

 آج کی ڈاک سے کیا کوئی لفافہ آیا
کیسی سرگوشیاں کرتے  ہو ،ارےکیا لوگو
کوئی پیغام زبانی بھی تو نہیں،کچھ بھی نہیں
ہم نے اپنے آپ کو بہت دیر سنبھالا لوگو

بند آنکھیں ہوئی جاتی ہیں ،پساریں پاؤں
نیند سی نیند ! ہمیں اب نہ اٹھانا لوگو
ایک ہی شب ہے طویل، اتنی طویل، اتنی طویل
اپنےایّام میں امروز نہ فردا لوگو

اب کوئی آئے تو کہنا کہ "مسافر تو گیا"
یہ بھی کہنا کہ "بھلا اب بھی نہ جاتا لوگو" 
راہ تکتےہوئے پتھرا سی گئی تھیں آنکھیں
آہ بھرتے ہوئے چھلنی ہوا سینہ لوگو
ہونٹ جلتے تھے جو لیتا تھا کبھی آپ کا نام
اس طرح اور کسی کو نہ ستانا لوگو

پیر, جنوری 26, 2015

"سرسوں کا ساگ "

ہم نہیں جانتے کہ دینے والا کون ہے اور مانگنے والا کون ۔۔۔ داتا کون ہے اور بھکاری کون۔۔۔ سب نیت کے کھیل ہیں۔۔۔ نیت کا پھل ہے۔ اپنی عقل کامل کے زیرِاثرکسی غریب مجبور کام کرنے والےسے کام کرا کر اور پیسے دے کر سمجھتے ہیں کہ ہم اس کے رزق کا وسیلہ بنے ہیں۔
آج صبح کی بات ہے کہ گھر میں کام کرنے والی معمول کے وقت پر آئی .میں اتفاق سے باہر ہی تھی ۔اتوار سے پہلے اس کا پرس بس میں رہ گیا تھا۔ اس بارے میں پوچھا تو کہنے لگی شکر ہے اللہ کا کہ بس والا گراں کا تھا اس لیے بٹوہ مل گیا۔ پیسے تو صرف ڈیڑھ سو تھے لیکن شناختی کارڈ بھی تھا جو پہلے ہی میاں کے مرنے کی وجہ سے بڑی مشکل سے بنا۔ میں کارڈ اس سے لے کر دیکھنے لگی۔ لفظ کہیں بھی مل جائے میرے لیے نعمت ہے۔ پہلے تو نام پر چونک گئی۔۔۔ "ارزم" کہنے لگی اصل نام "ازرم" ہے۔۔۔۔ کارڈ پر غلط درج ہو گیا ہے۔پھر پتہ دیکھا تو پہلی بار اس کے علاقے کا پتہ چلا۔ شوہر کی وفات کے بعد بچوں کی پڑھائی کی خاطر گھروں میں کام کرنے لگی ۔بچے گاؤں میں ہی ہیں۔ ہفتے کے بعد ان کے پاس جاتی ہے۔
کام کے دوران بار بار اس کا فون بجتا ،لگتا تھا کسی کو بہت جلدی ہے۔ اسی دوران گیٹ پر گئی واپس آئی تو سرسوں کا ساگ ہاتھ میں تھا۔کہنے لگی کہ ایک باجی کے لیے کسی گرائیں سے مہینہ پہلے ساگ کا کہا تھا۔ بارش نہیں ہوئی تو دیر ہو گئی ساگ ملنے میں۔ اب ضرورت بھی نہیں دینے کی اور وہ زبردستی دے کر چلا گیا ہے۔آپ رکھ لیں۔ میں ساگ کو دیکھتی تھی اور سوچتی تھی کہ کس سے کہا اور کہاں سے ملا۔ ساگ بازار میں بہت ہے اور جیب میں اسے خریدنے کی استطاعت بھی رب کا شکر ہے اور کھاتے بھی رہتے ہیں ۔حیرت کی بات یہ ہے کہ چند روز پہلے اس کام والی کے قریبی علاقے سے کسی سے ساگ کی فرمائش کی اور ساگ پہنچانے کا ذریعہ نہیں تھا ۔ اور آج گھر پر کوئی خاموشی سے دے گیا۔
وہ کام والی ہمارے کم ازکم ایک وقت کے کھانے کا وسیلہ ضرور تھی۔
ہمارا رب کسی انسان کو کسی دوسرے انسان کا محتاج کبھی نہیں بناناچاہتا ۔ انسان ہی تھڑدلا ہے کہ وہ بہت جلد رب کی رحمت سے مایوس ہو کر انسان کے سامنے ہاتھ پھیلا دیتا ہے ۔

کچھ دیر بعد باہر جا کر دیکھا تو ساس آدھے سے زیادہ کاٹ چکی تھیں ۔ باقی بچے ہوئے کے بارے میں پوچھنے لگیں ۔اسی وقت خیال آیا کہ دو گھر دور اپنی دوست سے پوچھ لوں۔بقول محترم اشفاق احمد " دتے میں سے ہی دینا تھا "۔ فون کیا تو اس نے کہا دے دو ۔ اسی حال میں چادر لے کر فوراً دینے نکلی۔ ابھی گیٹ کھول کر بمشکل دو قدم بھی نہیں اٹھائے تھے کہ اُس کی بیٹی یونیورسٹی سے آتے ہوئے ہمارےگھر کے آگے سے گزر کر جارہی تھی۔ اسے پیچھے سے آواز دے کر بلایا اور تھما کر لوٹ آئی ۔ ذہن میں اللہ کی پکار روم روم میں لرزہ طاری کرنے لگی کہ۔۔۔ "اگر وہ چل کر میری طرف آتا ہے تو میں دوڑ کر اس کی طرف جاتا ہوں۔“(صحیح بخاری شریف جلد 2 )۔ جی چاہا کہ ساری دنیا کو بتا دوں کہ دیکھ لو رب واقعی شہ رگ سے زیادہ قریب ہے ۔۔ ماں باپ سے کئی گنا زیادہ خیال رکھتا ہے ۔۔ ہماری معمولی سی بھی خواہش پوری کرتا ہے ۔ وہ تو چند قدم کی مشقت سے بھی بچا لیتا ہے اور ہم ایک پل کی زندگی کے خود ساختہ دکھوں کوبرداشت نہیں کر پاتے۔ اور پھر یہ خیال بھی آیا کہ جو لوگ ماں باپ کے ہمیشہ کے لیے چلے جانے کے بعد یہ کہتے ہیں کہ اب ہمارے لیے دعاؤں والے ہاتھ نہیں رہے یا اب دنیا میں کوئی ہمارا خیال رکھنا والا نہیں رہا تو وہ انجانے میں شرک کے مرتکب ہو جاتے ہیں۔ ہمارا رب تو آخری سانس تک ہمارا ہے اور اس وقت بھی ہمارا ساتھ نہیں چھوڑے گا جب دُنیا کے سب رشتے سب محبتوں کو بس اپنی پڑی ہوگی ۔ اپنے خیال کی تصدیق کے لیے ایک اللہ کے بندے سے رابطہ کیا اور اس نے اپنے مصروف وقت میں سے کچھ وقت نکال کر یہ حدیث ہدیہ کی ۔ جزاک اللہ
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث قدسی میں حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:”میں اپنے بندے کے گمان کے مطابق ہوتا ہوں اور جب وہ میرا ذکر کرتا ہے تو میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں۔پس اگر وہ مجھے اپنے دل میں یاد کرے تو میں بھی اسے دل میں یاد کرتا ہوں ۔اگر وہ مجھے مجمع کے اندر یاد کرتا ہے تو میں بھی اس سے بہتر مجمع کے اندر اسے یاد کرتا ہوں اور اگر وہ بالشت بھر میرے قریب ہو تا ہے تو میں گز بھر اس سے قریب ہوجاتا ہوں ،اگر وہ گز بھر میرے قریب ہوتا ہے تو میں دونوں ہاتھوں کے پھیلاﺅ کے برابر اس سے قریب ہو جاتا ہوں اگر وہ چل کر میری طرف آتا ہے تو میں دوڑ کر اس کی طرف جاتا ہوں۔“(صحیح بخاری شریف جلد 2 )۔
آخری بات



اتوار, جنوری 25, 2015

" پاگل سی لڑکی"

یہاں اِک پاگل لڑکی رہتی تھی
اپنی دُھن میں چلتی تھی
اور اپنی باتیں کرتی تھی
چاہت کے سمندر میں 
خوابوں کے جزیرے پر
جل پری سی وہ لگتی تھی
بند مٹھی کی تتلی تھی
ٹوٹی چوڑی جیسی تھی
سوچ سفر کے مندر میں
دیوی بن کر بیٹھی تھی
خوشبو جیسی باتوں کو
چاندی جیسے جذبوں کو
خود کلامی کہتی تھی
اپنے حسن کے سونے کو
بھربھری مٹی کہتی تھی
دکھ سہتی سکھ دیتی تھی 
پھر بھی یہی کہتی تھی  
 یہاں  اِک پاگل لڑکی رہتی تھی 

"عام عورت۔۔۔خاص بات"

پچیس جنوری 2015۔۔۔۔
کرۂ ارض پر اربوں انسانوں کے ہجوم میں شامل وہ ایک عام سی عورت تھی۔۔۔فانی انسان۔۔۔جس کی زندگی کا سفر دُنیاوی جھمیلوں۔۔۔ذاتی مسائل۔۔۔خاندانی اُلجھنوں اورمعاشی معاشرتی گرہوں کو سمجھتے سلجھاتے۔۔۔گنتی کےچند سالوں میں صبح وشام طے کرتے گزر جاتا ہے۔شاید یہی قانونِ فطرت بھی ہے کہ مالک کی تخلیق کردہ کائنات کا ہر پرزہ ایک لگے بندھے ٹائم ٹیبل پر عمل کرتا ہے۔سورج سے لے کر چاند تک,آسمان سے لے کر زمین کی گہرائی تک زندگی مسلسل حرکت میں ہے۔اس نظام  میں انسان جسے اشرف المخلوقات کا درجہ دیا گیا ہے سب سے زیادہ بےقیمت دکھتا ہے،وہ اس لامحدود زندگی اور اس کے ثمرات کو اپنی محدود عمر میں حاصل کر ہی نہیں سکتا۔اپنی عقل اپنے فہم کے بل پر دُنیا میں اعلیٰ سے اعلیٰ مقام حاصل کر لے،ایک عالم کو اپنی ذات کے طواف پر مائل کر دے اپنی روشنی سے جگ کو منور بھی کردے لیکن!!!وہ اندھیراگڑھا۔۔۔تنہائی اورتاریکی بالاآخر اُس کا انجام ہے۔انسان کی تمام تر ترقی اور قابلیت صرف اُس کے سامنے۔۔۔اُس کی زندگی میں اہمیت رکھتی ہے۔ جیسے ہی آنکھ بند ہوتی ہے اُس کی کتاب زیست بھی بند ہوجاتی ہے۔جس جہاں میں ہر کوئی اپنی اپنی کتاب مکمل کرنے کی فکر میں ہے وہاں بند کتاب کھولنے کی کسی کو فرصت ہے اور نہ ہی ضرورت۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ انسان جیتا ایسے ہے جیسے کبھی مرے گا نہیں اور پھر یوں مر جاتا ہے جیسے کہ کبھی تھا ہی نہیں۔ 
ہمارا ایمان ہے کہ عورت ہو یا مرد کوئی بھی عام نہیں ہوتا۔ ایسا سوچنا رب کی تخلیق میں شرک کے برابر ہے۔ خالق نے ہر انسان کو دوسرے انسان سے مختلف بنایا ہے اس کی یہی انفرادیت اسے"خاص"بناتی ہے۔
۔"ایک عام سی عورت" کہنا ہرگز رب کی مصوری میں کمی کا اشارہ نہیں صرف دنیا کی نظر سے بات کی جو صرف ظاہر دیکھ کر باطن کو جاننے کا زعم رکھتے ہیں۔اُن کے نزدیک ڈگری،تعلیم،مادی وسائل،خاندان اور خاندانی پس منظر کسی فرد کی اصل شناخت ٹھہرتے ہیں۔اس"شناخت"سے ہٹ کر اگر کہیں روشنی کی کرن نظر آ جائے تو اس کی اپنی طرف سے جائز ناجائز تاویلات پیش کی جاتی ہیں۔ لیکن اس سے بھی بڑی ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ عورت کو اس کا خاندان ماں بہن اور بیوی کے سوا کسی اور روپ میں قبول نہیں کرتا۔ایسا ہونا بھی چاہیے کہ عورت کا اصل مقام اس کا گھر اور حقیقی شناخت اُس کے رشتے ہیں۔ رب نے اولاد کی نعمت عطا کی تو اس کے بچے اور"ماں"کا رتبہ دنیا کے ہر انعام اور دادوتحسین سے بڑھ کر ہے۔اس احساس کا یہ مطلب ہرگزنہیں کہ ایک عورت کا حوالہ اس کے رشتے ہی ہوں یااس کی ذات اور صلاحیت کی تکمیل صرف شوہرکو راضی کرنے اور بچے پالنے سے ہی ممکن ہے۔ صرف عورت ہی نہیں بلکہ مرد کو بھی اپنے مقصدِ حیات کے بارے میں جاننے کی سعی کرتے رہنا چاہیے۔بے شک ہم آخری سانس تک نہیں جان سکتے کہ رب نے ہمیں کیوں پیدا کیا ۔ تلاش کا سفر بہتے پانی کی طرح ہے جو چلتا جائے تو زندگی بخش ہے اورکھڑا رہے تو نہ صرف دوسروں کے لیے زحمت اور موت ہے بلکہ اپنا بھی بھلا نہیں کر سکتا۔
اُس عام سی عورت کی خاص بات اُس کی اپنی نظر میں بس یہی تھی کہ وہ مٹھی میں سے ریت کی طرح پھسلتے لمحوں  سے کچھ ریت کے ذرے اپنے دامن میں سمیٹ لیتی اور پھر ان کی جگمگاہٹ کو چھپانے کی بجائے سب کے سامنے آشکار کر دیتی۔ 
وہ  جانتی بہت کچھ تھی لیکن مانتی کم کم تھی اسی لیے تو ایک عام سی عورت تھی۔ اس نے جان لیا تھا کہ جس پل مان لیا اُس سمے اُس کا سفر رُک جائے گا۔اور چلنا اُس کی مجبوری تھا۔ جو اُسے جانتے تو نہ تھے۔۔۔ لیکن مانتے تھے وہ بہت خاص تھے اور یہی اُس عام عورت کا سرمایہ تھا۔وہ جان گئی تھی کہ دلوں پر راج کرنے کے لیے پہلے اپنے دل کو فتح کرنا پڑتا ہے۔۔۔جیت اسی کی ہوتی ہے جو اپنےاندر کیآواز پر دھیان دیتا ہے۔یہ سب کہنا لکھنا بہت آسان ہے لیکن اس سفر میں قدم قدم پر اتنےپیچ وخم اور ایسی بند گلیاں آتی ہیں کہ جہاں یکدم سب کیا کرایا صفر ہو جاتا ہے۔ہر حال میں اللہ کے شکر کا احساس شاملِ حال نہ ہو تو انسان اپنے وجود کے اندر قید ہو کر رہ جائے۔
!راز کی بات
اعتماد اور بےنیازی عام عورت کے باطن کا وہ گوہرِ خاص تھا جو صرف اُس کے سامنے جگمگاتا اور زندگی کے ہربڑھتے قدم پر سہارا بھی دیتا ورنہ ظاہری طور پر قریبی رشتے اپنے تحفظ کا ایسا کڑا حصار رکھتے کہ کبھی اپنی ذات پر یقین بھی غیر متزلزل ہونے لگتا۔ بےنیازی صرف رب اور اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے سے عبارت ہے۔کوئی بھی شے کوئی بھی جذبہ بےکار یا بےمصرف نہیں ۔یہ ہماری سمجھ کا ہیرپھیر ہے۔ ہر شے کو عزت اور وقت دو۔بعد میں وقت ہی اس کی اصلیت سے آگاہ کر دے گا۔
سفرِزندگی کا اسم اعظم ۔۔۔۔"ہر حال میں شکر۔۔۔عطا میں شکر اورمنع میں بھی شکر"زندگی کا تجزیہ ایک جملے میں۔۔۔دُنیا میں کوئی ہمیں اتنا نقصان نہیں پہنچا سکتا جتنا ہم خود اپنے آپ کو پہنچاتے ہیں۔ اور ایک لفظ میں زندگی کا سب سے اہم سبق۔۔۔ "پہچان" ہے۔ اپنے سامنے ہماری اپنی پہچان۔۔۔دوسروں کی پہچان۔۔۔رشتوں کی پہچان۔۔۔ جذبات کی پہچان ۔۔۔رویوں کی پہچان اور سب سے بڑھ کر اپنے خالق کی پہچان۔ پہچان کا یہ علم ہی ہمارے علم اور جہالت کے درمیان فرق واضح کرتا ہے۔ یہی علم ہمارے لیے خزانوں کے منہ کھولتا ہے تو اس سے لاعلمی اگر دُنیا میں ہمیں مایوسیوں اور رسوائیوں کے پاتال میں دھکیل دیتی ہے تو آخرت میں اسی پہچان کے بارے میں حساب لیا جائے گا۔
 اللہ ہم سب کو اپنی پہچان کا علم عطا فرمائے اور علم کو سمجھنے کے ساتھ اس پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
۔25جنوری2015

جمعہ, جنوری 23, 2015

ایمانِ زندگی"

ڈاکٹرصاحب
تاریخ پیدائش.....15 دسمبر 1938
بمقام.... ضلع سہارن پور... ہندوستان
تاریخِ وفات...... 4 جنوری 2015۔۔۔بمطابق 12 ربیع الاول۔1436 ہجری
بمقام.... اسلام آباد.... پاکستان
جائے مدفن....۔ایچ الیون قبرستان۔۔۔اسلام آباد
زندگی کیا ہے عناصر میں ظہور ِترتیب
موت کیا ہے اِنہی اجزاء کا پریشاں ہونا
اُمید زندگی جو 28 دسمبر2014 اور 4 جنوری کے درمیانی عرصے تک آنکھ مچولی کھیلتی رہی بالاآخر 4 جنوری 2015 کی شام"ایمانِ زندگی" میں بدل گئی۔ 
ایمان۔۔۔۔ اس زندگی پر ایمان۔۔۔ جس کی حقیقت صرف رب جانتا ہے۔انسان کے عزم اور حوصلے پر ایمان۔۔۔ جس کی نیت رب جانتا ہے اور وہی اس کا اجر دیتا ہے۔ انسان کے تضاد پر ایمان۔۔۔ کہ اس میں فطرت کے سارے رنگ یوں باہم ملے جُلےہیں کہ کسی ایک رنگ کی جھلک سے کبھی بھی اس کا مجموعی تاثر جانا نہیں جا سکتا۔ انسان کے ظاہروباطن کے بھرپور اور مکمل ہونے پر ایمان۔۔۔ اور سب سے بڑھ کر اپنے رب پر ایمان کہ وہ دلوں کا حال جانتا ہے اور ہر شے پر قادر ہے۔
لفظ سوچ کا رزق ہوتے ہیں۔ ہمیں نہ صرف اپنے کہے کا ادراک ہونا چاہیے بلکہ اسے سمجھنا بھی چاہیے۔ "اُمید زندگی " بلاگ کی تحریک جس احساس سے ملی اور جس عنوان سے آغاز کرنا چاہا ،بلاگ پوسٹ کرتے وقت وہ عنوان اور الفاظ حذف کر دئیے کہ شاید پڑھنے والے کا احساس میرے احساس کو تسلیم نہ کرے لیکن آج اس لمحے اپنے احساس کی سچائی اور لفظ پر یقین نے حوصلہ دیا کہ وہ حذف شدہ لفظ بھی سامنے لے آؤں۔
" وعلیکم السلام"
آج کی رات اس نامہربان لمس کی رات نہیں تھی۔ لیکن آج کی رات تو میری رات بھی نہ تھی ۔کچھ نہ کچھ ایسا ضرور تھا جو مجھے بےچین کرتا تھا اور میں بلاوجہ خاموشی اور بےاعتنائی کی چادر اوڑھ کر اپنے ہمسفر کے سامنے سوتی بنتی تھی۔ اپنے آغاز سے وہ رات ایک معمول کی رات تھی لیکن محض گھنٹے دو گھنٹے کے بعد آنکھ بند ہونے سے پہلے اس طور کھل گئی کہ میں مشینوں کی قید میں جکڑے جسم کے سینے پر سر رکھے وہ سرگوشیاں سن رہی تھی جو لاشعور سے نکل کر شعور کی بےخودی میں بند آنکھوں اور لرزتے لبوں سے ادا ہو رہی تھیں۔ وہ جسم جو میری اولین شناخت تھا آج اپنے جسم کے سب سے اہم اور شاید آخری لمس سے آشنائی کے مرحلے میں تھا اور میں اس لمحے اس کی ہمسفر ہونے کی کوشش کرتی تھی۔ " کانٹے دار جھاڑی پر سے کپڑے کے لباس کی طرح لیر لیر ہوتے" اس عمل کا یہ مرحلہ میری روح کو عجیب سکون دے رہا تھا۔ دل ہی دل میں اپنے لیے بھی ایسے نقارۂ کوچ کی خواہش کرتی تھی۔ سینے میں  اٹھنے والے شدیددرد کے بعد دوا کے زیرِاثر اب ان کےہلتے لب مسلسل کلمۂ طیبہ ،درودشریف اور استغفار پڑھتے تھے تو کبھی ہونٹوں کی ایک تسلسل سے جُنبش سے سورۂ یٰسین کی تلاوت محسوس ہوتی۔ انسانی آنکھ اور اس کےسوچنے سمجھنے کی محدود عقل کی صلاحیت کے تحت میرے خیال میں پردہ گرنے کو ہی تھا۔ ۔لیکن میں نہیں جانتی تھی کہ جو دکھائی دے رہا ہے وہ حقیقت ہوتے ہوئے بھی مکمل حقیقت نہیں۔ کچھ دیر بعد ابو کی آنکھ کھلی تو کسی اور دُنیا کا منظر ان کے سامنے تھا۔ وہ ہمیں دیکھتے ہوئے بھی نہ دیکھتے تھے اور ہمیں سنتے ہوئے بھی کسی اور کو بڑی محویت سے سن رہے تھے۔ چہرے کے تاثرات سے کبھی مسکراتے کبھی تاسف کا اظہار کرتے اور سیدھا ہاتھ بار بار وعلیکم السلام کہتے ہوئے ملانا چاہتے پھر مایوس ہو کر ہاتھ نیچے کر لیتے یا ہم ان کے بڑھے ہاتھ کو تھام لیتے۔ کچھ دیر بعد وہ ہماری دنیا میں لوٹ آئے۔ متلی کی کیفیت کے بعد جب طبیعت بحال ہوئی تو پہلے الفاظ یہ ادا کیے کہ وہ مجھے لینے آئے تھےمیں ہاتھ بڑھا رہا تھا لیکن انہوں نے ہاتھ نہیں ملایا کہ ابھی تمہارا وقت باقی ہے۔ اور میری اماں اور ابا بھی ساتھ ہی تھے۔جو مجھ سے ملنے کو بےچین تھےاماں باہیں کھول کر میرا بچہ کہہ کر بلاتی تھیں۔یہ کہتے ہوئے میرے ابو چھوٹے بچوں کی طرح اپنی ماں کو یاد کر کے ایک لمحے کو رونے لگے۔ پھر ہمیں تسلی دی کہ فکر کی کوئی بات نہیں ۔۔۔ابھی وقت نہیں آیا۔۔۔میں ابھی نہیں مروں گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شفا انٹرنیشنل سے آنے کے بعد اگلے روز کی صبح وہی معمول کی صبح تھی۔ چوبیس گھنٹے پہلے کی حقیقت ایک بھیانک خواب کے سوا کچھ معلوم نہ ہوتی تھی۔ ابو کےاگلے چند روز بچوں کے ساتھ خوش گپیاں کرتے گزرے۔ اور پورے 6 روز بعد عین اسی ہفتے اور اتوار کی درمیانی رات دوبارہ سانس کی ناہمواری شروع ہوئی تو اب درد بالکل بھی نہیں تھا بس ماتھے پر پسینہ آ رہا تھا بہت زیادہ اور اب اُن کے کہے کے مطابق "شفا "کی بجائے "پمز" لے کر گئے اور راستے میں انہیں یقین دلاتے رہے کہ دیکھیں ہم پمز ہی جا رہے ہیں ۔ سوچتی ہوں کہ انسان پر ایک ایسا وقت بھی آتا ہے جب زمین پر پہلا قدم رکھنا سکھانے والا۔۔۔ راستہ دکھانے والا اتنا بےبس ہو جاتا ہے کہ اپنے سارے فیصلے کرنے کا اختیار کھو دیتا ہے۔ لیکن اس بےاختیاری میں مایوسی شرط نہیں۔ جو اس سفر کے لیے تیار رہتے ہیں وہ اس سفر کی جزئیات کا بھی خیال رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ چاہے اُن کے سامنے ان کی یہ باتیں " دیوانے کی بڑ" یا "خود پرستی" کے زمرے میں گنی جائیں۔ دنیا سے جانے کے بعد کی جزاوسزا ہمارا اور رب کا معاملہ ہے۔۔۔ یہ "ون ٹوون ریلیشن شپ" ہے۔ جبکہ دُنیاوی معاملات کا تعلق ہماری ہوش وحواس کی صحت مند زندگی تک ہی محدود ہے۔ دُنیا کے بکھیڑے جو ہم سے متعلق ہوں انہیں جتنا ہو سکے شعور کی آخری سانس تک سلجھانے کی سعی کرتے رہنا چاہیے۔ ایسا نہ کیا جائے تو ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ کوئی انسان جاتے جاتے بھی اپنے لواحقین کے لیے زندگی دشوار بنا جاتا ہے۔ سب سے بڑھ کر مرنے کے بعد کی رسومات۔۔۔جن سے جانے والے کو رتی برابر بھی فیض نہیں پہنچتا۔ خیر ابو نے ممکن حد تک ہم لوگوں کو ان مشکلات سے بچانے کی کوشش کی۔انہوں نے  اپنی بیٹیوں کو نہ صرف کسی سہارے کی توقع کے بغیر زندگی جینا سکھایا بلکہ موت کی اٹل حقیقت کو سمجھنے اور اپنے ہوش وحواس قائم رکھنے کی آخری وقت تک تلقین کرتے رہے۔ 4 جنوری کی شام مغرب سے ذرا پہلےان کی اکھڑتی سانسیں دھیرے دھیرے خاموش ہو گئیں۔


موت برحق ہے۔اس 'حق 'کوجانے والا جانے سے پہلے جتنا جلد تسلیم کر لےاُس کے لیے واپسی کے سفر میں آسانی ہو جاتی ہے۔کہا جاتا ہے کہ مرنے سے پہلے مرنا موت ہے۔ لیکن مرنے سے پہلے مرنے کے لیے تیار رہنا ہی اصل زندگی ہے ۔جب تک ہم مرنے سے پہلے مریں گے نہیں تو اس زندگی کی چکاچوند آخری سانس تک حسرت بن کر ہماری آنکھ کے پردے پر جھلملاتی رہے گی۔ دُنیا کی زندگی کی محبت میں سرتاپا غرق رہنے والے آخری لمحات میں بھی اس خانہ خراب کی اُلفت سے
دامن بچا کر گزر ہی نہیں سکتے۔ کامیاب وہی ہوتے ہیں جو  دُنیا کی زندگی کی خوشیوں کو بھرپور طور پر محسوس کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے مسئلوں اور غموں کو سمجھتے ہوئے ممکن حد تک سنوارنے کی کوشش کریں اور پھر سب کچھ منجانب اللہ کا ایمان رکھتے ہوئے "راضی بارضا" ہو جائیں۔عمر کے بڑھتے سالوں میں موت کے سناٹوں کی چاپ سنائی دینے لگے تو اپنی زندگی کے اس سب سے اہم سفر ۔۔۔آخری لمس کے لیے نہ صرف زادراہ تیار رکھیں بلکہ اپنے آپ کو اسے برداشت کرنے کا حوصلہ دیتے رہیں ۔۔۔ پیغمبر سے لے کر اولیاءاللہ تک سب نے اس سفر پر اسی راستے سے گزرنا ہے ۔ سب سے اہم بات کہ انسان کو یہ پہچان ہو جانی چاہیے کہ دُنیا کے ہر رشتے ہر تعلق اور ہر مادی شے کی چاہ صرف اس کی سانس کی ڈور سے بندھی ہے اُس کے بعد وہ فنا تو سب فنا۔ اس لیے اگر نفرتوں سے جان چُھٹنا دُنیا کے عذابوں سے نجات پا جانا نعمت ہے تو سب لذتوں سے محرومی بھی محض سراب جدائی ہی ہے۔
دوست کی بات۔۔۔۔
ابو کی تدفین سے اگلے روز "المعرفت" کے روح رواں بہت محترم پروفیسر ڈاکٹر صوفی عبدالطیف صاحب ہمارے گھر تشریف لائے۔ آپ کو وفات کی بروقت اطلاع مل چکی تھی لیکن اسی روز آنکھ کے آپریشن کی وجہ سے نماز جنازہ میں شرکت نہ فرما سکے۔آپ ابو کے دیرینہ ساتھی اور ابو کے لیےایک محترم مرشد کا درجہ رکھتے ہیں۔ ہم جانتے تو تھے لیکن دونوں جانب اس احساس کی شدت سے بےخبر تھے۔ ان کے مطابق کافی عرصے سےتفصیلی ملاقات یا ابو نے ان کےدرس میں شرکت بھی نہ کی تھی۔ لیکن ان کے جذبات اتنے بےساختہ اور قربت کا احساس ایسا گہرا تھا کہ جیسے ابھی کوئی پیارا اچانک پاس سے ہمیشہ کے لیے اٹھ کر چلا گیا ہو۔ آپ نےہمارے اس گھر میں صبح عید اور گھر میں بہنوں کی تقریب نکاح کے حوالے سے اپنی یادیں شئیر کیں ۔۔۔جب جناب سےخصوصی دعا کی درخواست کی جاتی تھی۔ آپ کہہ رہے تھے کہ یہی وہ جگہ ہے جہاں نماز عید کے بعد ایک لمبا دسترخوان سجا ہوتا تھا ۔ مسجد میں سب احباب کو دعوتِ عام کے بعد لوگ جوق درجوق آتے اور پھر طعام کے بعد مجھ سے دعا کی درخواست کی جاتی۔ فرمایا کہ آج میں رسمی طور پر تعزیت یا دعا کے لیے نہیں آیا بلکہ میرے دل میں شدت سے یہ خواہش اُبھری کہ اُس جگہ بیٹھ کر جانے والے کی مغفرت کی دعا کروں جہاں بیٹھ کر میں اس کی زندگی ،روزی رزق اور سب کی بھلائی اور سلامتی کی دعا کیا کرتا تھا۔ اُن کی پُراثر اور پرمغز دعا میں سے چند لفظ ذہن میں ٹھہر سے گئے ۔ فرمایا:: جب انسان دنیا سے جاتا ہے تو وہ انتقال کر جاتا ہے۔انتقال یعنی منتقل ہونا۔ یہ انتقال پانچ چیزوں کا ہوتا ہے۔ سب سے پہلے لباس بدل دیا جاتا ہے ۔۔۔پھر مقام بدل دیا جاتا ہے۔۔۔پھر ساتھی بدل جاتے ہیں ۔۔۔اس کی زبان بدل جاتی ہے دنیا میں جو بھی زبان بولتا ہے قبر میں عربی زبان میں ہی سوال جواب ہوتے ہیں ۔آخری بات جو جانتے تو تھے لیکن سمجھ اب آئی ۔۔۔۔۔فرمایا کہ ُاُس کی آنکھ بدل دی جاتی ہے۔ دُنیا کی آنکھ بند ہو جاتی ہے اور دوسری آنکھ کھل جاتی ہے جس سے وہ کسی اور کائنات کسی اور جہان کے منظر دیکھتا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔
جناب پروفیسر عبدالطیف صاحب نے ابو کے انتقال 4 جنوری کے بعد آنے والے پہلے درس قران ہفتہ 10 جنوری ابو کے لیے خصوصی دعا بھی کرائی۔ آن لائن نشر ہونے والی اس دعا میں جانے کہاں کہاں سے آمین کی سدا بلند ہوئی۔۔۔کاش!!! ابو آپ یہ جان سکتے۔۔۔۔ ورنہ چار بیٹیوں اور واحد ذہنی معذور بیٹے کا ساتھ آپ کو ہمیشہ ناقدری اور نصیب کا گلہ دیتا رہا۔ بےثمر بےفیض موسم کا خود ساختہ احساس آپ کی آنکھ میں ٹھہر گیا تھا۔ جس نے نہ صرف زندگی کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں کی لذت چھین لی بلکہ بےاعتباری کی شدید دھند میں فراغت والی روشن صحت مند زندگی کہیں کھو کر رہ گئی۔اللہ آپ کے لیے اگلے جہان میں ابدی خوشیوں اور راحت کا سامان مہیا کرے۔آمین یارب العالمین۔
اہم بات
ہم ساری زندگی اس انسان کی اصل قدروقیمت سے لاعلم رہتے ہیں جو ہمارا ہوتا ہے ہمارے ساتھ سانس لیتا ہے اور ہماری زندگی کے چین کے لیے اپنی زندگی کی دھوپ چھاؤں میں فرق روا نہیں رکھتا، لیکن اس کے جانے کے بعد اس کا وہ چہرہ نظر آتا ہے جس سے ہم زندگی بھر ناآشنا رہے۔یہ وقت انتہائی افسوس اور گہرے تاسف کا ہوتا ہے۔ ایسا چہرہ جو اس کے دوستوں کے سامنے وا تھا اور وہ ہم سے اس بارے میں معذرت خواہانہ رویہ رکھتا رہا۔یہ انسانی فطرت بھی ہے کہ ہمارے اہل خانہ ہمارے دکھ سکھ کے سانجھے دار کبھی ان لوگوں کی قربت تسلیم نہیں کرتے جن سے ہمارا ذہنی رشتہ ہوتا ہے۔ ذہنی اور جسمانی رشتوں کے مابین یہ دوریاں بسااوقات ایک وسیع خلیج میں بھی بدل جایا کرتی ہیں۔ اللہ پاک ہمیں وقت سے پہلے اپنوں کی پہچان نصیب فرمائے کہ وہ ہمارے ہیں اور ہم اُن سے ہیں ۔۔۔ اُن کی شخصیت کے مثبت اور منفی پہلو سب ہمارے ہیں اور ہم انہیں ان کی خامیوں خوبیوں سمیت دل سے جتنا جلد قبول کر لیں اچھا ہے۔ اس طرح نہ صرف انہیں سکون کی چند گھڑیاں دے سکیں گے بلکہ خود بھی ان کے جانے کے بعد اپنے حصے کا کام کر نے کے احساس سے پرسکون اور صابر رہیں گے۔ اللہ ہم سب کے لیے دُنیا وآخرت میں آسانیاں عطا فرمائے ۔ آمین۔
جنوری 23 ،2015
پانچ بجے شام
اسلام آباد
پاکستان

بدھ, جنوری 14, 2015

".مرکزِثقل "


".مرکزِثقل "
والد کی جدائی کے بعد احساس ہوا کہ اصل تعلق وہی ہوتا ہے جو آپ کی خوشی میں دو قدم پیچھے رہ کر خاموشی سے آپ کا ساتھ دے اور غم میں غیر محسوس طریقے سے بنا کسی صلے کے لڑکھڑاتے قدموں کو ہمت عطا کرے۔ جدائی حق ہے ۔ بچھڑنا مقدر ہے۔کسی پیارے کی جدائی پر صبر کی تلقین کی جاتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دکھ اور تکلیف میں صبر ہی ایک مسلمان کا واحد سہارا ہے۔خاص طور پر وہ انسان جو دنیا میں ہمارے وجود کا وسیلہ بنتے ہیں اُن کی جدائی کے بعد یوں لگتا ہے کہ جیسے انسان کے پاؤں تلے سے زمین سرک جائے یا سر پر آسمان نہ رہے۔ دکھ کی بات اگر ہے تو یہ کہ ان کی زندگی میں ہمیں ان کا اس طور احساس نہیں ہوتا۔ اپنے پیارے کا ہمارے ہاتھوں میں آخری سفر طے کرنا اور اس کا اپنی زندگی سے مطمئن ہونا ہمارے لیے"شکر" کا مقام ہے کہ اللہ نے اسے دنیا کی زندگی کےآخری امتحان میں سرخرو کیا۔عزت کی زندگی کی دعا تو ہم ہر قدم پر مانگتے ہیں لیکن عزت کی موت بھی بہت بڑی نعمت ہے کہ انسان کا سفر آخرت نہ صرف اس کے لیے آسانی کا باعث ہو بلکہ اس کے عزیزواقارب کے لیے بھی آسانیاں پیدا کرے ۔ اللہ جس حال میں رکھے راضی رہنا چاہیےاور جس طور لے جانا چاہے اُسے من وعن تسلیم کر لینا چاہیے۔ ہم یہ دعا تو بےدھڑک بغیر غور کیے مانگتے ہیں کہ اللہ ہر آزمائش سے بچائے لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ ہمارا رب " نعمت دے کر بھی آزماتا ہے اور نعمت لے کر بھی آزماتا ہے"اللہ سے دعا یہ کرنی چاہیے کہ آزمائش کی ہر گھڑی میں ثابت قدم رکھے۔اپنے پیارے سے محبت کی انتہا یہی ہے کہ اس کی جدائی کو رب کی رضا جان کر اس سفر میں بھی جہاں تک ہو سکے اس کے لیے آسانی مہیا کی جائے.اللہ پاک ہم سب کو اپنے والدین کے لیے بہترین صدقہ جاریہ بننے کی توفیق عطا کرے۔ میرے والد کی سوچ ان کے لفظ میرے پاس امانت ہیں اور میری کوشش ہو گی کہ میں اپنی استطاعت کے مطابق ان کی خوشبو بکھیر سکوں۔اللہ پاک ہم سب کو اپنی پہچان کا علم عطا کرے۔
بےشک ہمارا رب جانتا ہے ہم نہیں جانتے۔ خوشی کے پیچھے چھپے غم کی اصلیت کیا ہے اور غم کے بعد کیا خوشی ہمارا مقدر ہے۔
۔"مشکلوں میں گھر جائو گے تو کچھ لوگ ترس کھائیں گے کچھ افسوس کریں گے.. مگر تم انگلیوں پر شائد گن لو ایسے لوگ جو واقعی تمہارے لئے دل سے پریشان ہوں گے,تمہاری مشکل کا حل نکالنے میں سرگرداں ہوں گے.ایسے لوگ تمہیں میسر ہوئے تو تم واقعی خوش نصیب ہو..وگرنہ تو بھی اچھا ہے..کہ تم فریب کی آنچ سے بچ کر تم پر ترس کھاتےکھاتے, افسوس کرتے لوگوں کو دیکھ تو لو گے۔۔تمهاری آزمائش تو گزرہی جائے گی لیکن تمہیں سیانا کرجائے گی۔(کسی نامعلوم کی بہت اہم بات) "۔

ہفتہ, جنوری 10, 2015

" نورجہاں "

نورجہاں
تاریخ پیدائش۔۔۔10 جنوری 1945
تاریخ انتقال۔۔۔4 مارچ 2012
ویسے تو میں دُنیا کی زندگی کےہر حساب کتاب،سوال جواب،جمع تفریق اور سب سے بڑھ کر سانس اور آس کے سودوزیاں    سے تین برس پہلے ہی آزاد ہو چکی ہوں۔ لیکن! اگر میں دُنیا میں سانس لے رہی ہوتی تو آج کے روز میرا ستر برس کا سفر مکمل ہوجاتا اورمیری بیٹی جسے گزشتہ کچھ برسوں سے ہر احساس کو لفظ کے غلاف میں محفوظ کرنے کا ایک نشہ سا ہے۔۔۔ضرور کاغذ قلم میرے ہاتھ میں تھماتی۔۔۔جانے وہ کیا لکھوانا چاہتی؟ کیا سننا چاہتی؟ میری زندگی تو ایک کھلی کتاب کی طرح سب کے سامنے رہی تھی۔۔۔جس کے اولین ورق سے لے کر آخری ورق کے آخری حرف۔۔۔آخری فل سٹاپ تک وقت نہ صرف جلی حروف بلکہ حالات کے ہائی لائیٹر سے نمایاں کرتا گیا بلکہ قسمت کا بےرحم قلم انڈرلائن بھی کرتا چلا گیا۔
وہ سب  کچھ تو جانتی ہے جو اُس کی آنکھوں کے سامنے تصویر ہوا۔۔۔اُس کے کانوں کے پردے پر کبھی سرگوشیوں۔۔۔کبھی بےربط ادائیگیوں،کبھی خاموشیوں تو کبھی نظروں کی زبان میں بےآواز چیخوں کی صورت میری آخری ہچکی تک چلتا رہا۔
کیا کچھ تو اس نے لکھ دیا اتنے برسوں میں میری مرضی کے بغیر۔ میں اگر اس کے ساتھ ہوتی تو شاید کبھی بھی اس بات کی اجازت نہ دیتی۔ وہ پگلی تو جلتے سورج کے نیچے تنہا کھڑی برف کے محل بناتی ہے۔۔۔اپنے آپ کو قطرہ قطرہ پگھلتے دیکھتی ہے۔ وہ جان کر بھی نہیں جاننا چاہتی کہ یہ فنا ہونے کی لذت اس کے خوابیدہ آتش فشاں کو مزید بیدارکر دیتی ہے۔ میں اسے بتاتی سمجھاتی کہ سب مان لو۔ جیسا دکھتا ہے اسے قبول کر لو کہ یہی رسم دنیا ہے وقت کا چلن ہے۔ اس سے کہتی کہ اندر کی تھکن ظاہر ہونے لگے تو انسان باہر کے کام کا نہیں رہتا۔ ہمارے رشتے ہمارے تعلق ہمارے لباس کی طرح ہیں۔۔۔ لباس چاہے کتنا ہی بوسیدہ اور پرانا ہو جائے سب داغ سب زخم چھپا لیتا ہے۔ اس کی بنت اور بناوٹ پر غور کرنا چھوڑ دو۔۔۔ کیوں وہ سوال حل کرنا چاہتی ہو جس کا جواب صرف وقت جانتا ہے۔
اگر میں اس سے سب کہہ سکتی اس کی سن سکتی تو شاید اسے کچھ بھی کہنے کی ضرورت ہی نہ پڑتی۔ میری کوکھ میں دوسرے وجود کا اولین لمس وہی تو ہے۔۔۔وہ تو دنیا میں سانس لینے سے پہلےسے مجھے جانتی ہے۔۔۔ میری کہی سے زیادہ ان کہی کا ادراک رکھتی ہے۔ یہ اور بات کہ اس کا اظہار اس نے میرے جانے کے بعد کیا۔ میں تو اس کی پیدائش کے اولین لمحے سے اس کے جسم کے ہر راز اورسوچ کے ہرپہلو سے بخوبی آشنا تھی۔ بےخبری اورلاتعلقی کی چادرمیری مجبوری تھی کہ اپنی ذات کے سوامیرے پاس اسے کچھ بھی دینے کا اختیار نہ تھا۔ اورمیری ذات رشتوں کے اتنے ٹکڑوں میں بٹی ہوئی تھی کہ وہ ساری عمر اس میں سے اپنا حصہ ہی ڈھونڈتی رہی۔وہ بہت صابرتھی جو مل جاتا چپ   کر کے لے لیتی۔۔۔اسی کو متاع جاں جان کر مجھ سے کبھی شکوہ نہ کرتی۔ لیکن پھر وہ تھکنے لگی۔۔۔ لڑنے لگی ۔۔۔مجھ سے دور بھاگنے لگی۔ میری سردمہری اور روایتی خوف اُسے اپنے خول میں مقید رکھتا۔ مجھے سب دِکھتا تھا سمجھ میں آتا تھا۔ دور رہنا میری بھی تومجبوری تھا کہ قربت کے لمحوں میں اگر اسے میری آنکھ کی نمی دِکھ جاتی تو بہت بکھر جاتی۔۔۔ شاید زندگی کے ضابطوں کو پل میں توڑ دیتی یا پھرخود ٹوٹ جاتی۔ وہ مجھے نہیں جانتی تھی۔لیکن میں اس کے پل پل کے احساس سے آشنا تھی کہ وہ میرا ہی تو عکس تھی۔۔۔ میری کسی خواہش کا مجسم اظہار تھی۔ میرے لیے یہی بہت تھا کہ وہ مکمل ہے مطمئن ہے اور زندگی نے اس کے لیے اپنی نعمتوں کے دروازے وسیع کر دئیے ہیں۔ اس کا وجود میرے ادھورے خوابوں کو تسکین دیتا تھا۔ میں کیوں اس سے اپنے دکھ باٹتی کہ اس کے آنسو میرے آنسو تھے اور مجھ میں اس کے آنسو دیکھنے کا حوصلہ بھی تونہ تھا۔ میرے جانے کے بعد اس نے اپنے آنسوؤں کو لفظ کی زبان دے دی۔ اپنی خاموشی کو تخیل کی مسند پر بٹھا کر باعث تکریم جانا۔ اپنی حدود جان لیں اور اُن سے سمجھوتہ بھی کر لیا۔ 
انسانوں سے رشتے اور تعلق اگر ہمارا لباس ہیں تولباس جسم کا پردہ ہوتا ہے زخم لگنے پر لباس سرکتا ہے تو جسم کی برہنگی بھی دکھتی ہے۔اس لیے جتنا ہو سکے برداشت کرنا چاہیے۔ میں نے بھی تو ایسا ہی کیا تھا۔ اب سوچتی ہوں شاید وہ ٹھیک ہی کرتی ہے کہ اس نے یہی دیکھا میری برداشت کی حد جب ختم ہو گئی تو جسم نے ہار مان لی۔ خٰیر یہ زندگی کہانی بھی عجیب ہے۔۔۔ اسے گزارنے کا کوئی ایک اصول ہم سب کے لیےمقرر نہیں کر سکتے۔ ہر ایک اپنے اپنے طور پراپنی صلاحیت اور اہلیت کے مطابق اپنا کردار ادا کرتا ہے اور چلا جاتا ہے۔
!آخری بات
میں اپنی زندگی کہانی کبھی نہ لکھتی کیونکہ میں جانتی ہوں کہ یہاں کہانی وہی گھسی پٹی چل رہی ہے۔ کردار بس وقت اور حالات کے تحت اپنا حلیہ بدلتے رہتے ہیں۔ لیکن پھر بھی کچھ نہ کچھ ضرور لکھتی ۔ شاید شاعری کی زبان میں مختصر حال دل کہتی ۔۔۔لمبی کہانیاں کبھی نہ لکھتی کہ جو بیت گیا سو بیت گیا۔ بکھرے ماضی میں بےشک میرے لیے بہت سی قیمتی یادیں اورگہرے سناٹے تھے۔۔۔میں ان کو یاد ضرور رکھتی تھی، یاد کرتی تھی ۔لیکن حال کو سیمٹنا اور اس کے اندھیروں کو دور کرنے کی سعی کرنا میرا مقصد حیات تھا۔ جس سے میں آخری سانس تک غافل نہ رہی۔
اللہ ہم سب کے لیے دنیا وآخرت میں آسانیاں عطا فرمائے۔آمین

جمعہ, جنوری 02, 2015

" پرندے"

جب ہم کسی کے قریب آتے ہیں۔۔۔بہت قریب،تو توقع کے بنجرے میں قید ہوجاتے ہیں۔۔۔رفتہ رفتہ محبت کا سنہری قفل ہماری قوت گویائی سلب کر لیتا ہے۔۔۔مصلحتوں کی بےرحم تلواریں پر کُتر دیتی ہیں۔ محبتوں کے ثمر دیکھنے والی نظروں کو تو سیراب کرتے ہیں لیکن قوت پرواز کا بانجھ پن اپنی ذات کے اندر پیاس کے صحرا اُتار دیتا ہے۔
کھلی فضاؤں میں کسی اُونچی شاخ پر پل دوپل کے ساتھی اگرچہ مہربان موسموں میں ملتے ہیں۔۔۔ جبلی خواہشات کی تسکین کرتے ہیں اوراپنے اپنے آسمانوں کے سفر پر نکل جاتے ہیں۔ اُن کی محبت کے امین گھونسلے زمانے کی تند ہواؤں۔۔۔ وقت کی بےمہر اورغیر محفوظ شاخوں پر بنتے ہیں اورکم ہی پنپتے ہیں۔ لیکن ! یہ قدرت کے فیصلے ہیں کہ آزاد فضاؤں کے باسیوں کی نسلیں ہی پھلتی پھولتی ہیں اور بنجرے کے قیدی اپنے جیسے 'کلون' پیدا کرکے فنا ہو جاتے ہیں۔گرچہآسمانوں کی جستجو سے ہی طاقت پرواز کا اندازہ ہوتا ہےپھر بھی پرندے جتنا جلد گھر لوٹ آئیں اچھا ہے ورنہ ڈار سے بچھڑ کر کہیں کے نہیں رہتے۔
کائنات کے ذرے ذرے میں انسان کے لیے اسباقِ زندگی لکھ دئیے گئے ہیں۔ انسان کی فلاح اسی میں ہے کہ اُس کا جسم قوانین انسانیت کے تابع رہے اور  اُس کی روح آزاد فضاؤں کی ہمسفر رہے۔

جمعرات, جنوری 01, 2015

"اُمیدَ زندگی"

"اُمیدَ زندگی"
یکم جنوری 2015۔۔۔۔ بمطابق 9 ربیع الاول 1436 ہجری
پہلی دعا۔۔۔پہلا احساس ۔۔۔
سورہ البقرہ۔۔۔آیت 286

ترجمہ ۔۔۔
اللہ کسی شخص پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا،ہر شخص جو نیک عمل کرتا ہے اس کا فائدہ اسی کو ہے اور جو بدی کرتا ہے اس کا انجا م بھی اسی کو بھگتنا ہے۔پروردگار! ہم سے بھول چوک ہو گئی ہو تو اس کا مواخذہ نہ فرما، پروردگار! ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال جو تو نے ہم سے پہلوں پر ڈال دیا تھا۔ پروردگار! ہم جس بوجھ کے اٹھانے کی طاقت نہیں رکھتے وہ ہمارے سر پر نہ رکھ۔ پروردگار! ہمارے گناہوں سے درگزر فرما اور ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم فرما، تو ہمارا مالک ہے، کافروں کے مقابلے میں ہماری نصرت فرما۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کوئی کچھ بھی کہے پر ہرانسان کے اندر کچھ نہ کچھ ایسا ضرور ہوتا ہے جو اسے خبردار کرتا رہتا ہے۔۔۔دل کی دھڑکن اگر جسم کی سلامتی کا اعلان کرتی ہے تو دماغ کی لہریں ایسی فریکوئنسی محسوس کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں جو چمکداردن میں کالے بادلوں کی پیش گوئی کرتی ہے۔ کبھی ہم اسے اپنا واہمہ سمجھتے ہیں کبھی کسی خواب مسلسل کو منفی طرزِفکرکہہ کر نظرانداز کر دیتے ہیں۔ کچھ ایسی ہی سوچ کہانی سال 2011 سے شروع ہوئی ۔۔۔ جو خدشات میں گزرا اور 2012 کے آغاز(جنوری) میں امی کے برین ہیمریج اور پھر مارچ میں وفات نے سب رشتے ناطوں کو الٹ پلٹ کر رکھ دیا۔ زندگی کے اس "نائن الیون" سے پہلے ہر منظر ماں کی آنکھ سے فلٹر ہو کر میری آنکھ میں تصویر ہوتا تھا۔اُن کے بعد میری بینائی اوراس پر یقین کا اصل امتحان تھا۔ 2012 اگر خود کو سنبھالتے۔۔۔ٹوٹنے سے بچاتے گزرا تو 2013 خودفراموشی اور بےخبری کا سال تھا۔۔۔ قوس قزح کے رنگوں کو گرفت میں لینے کی بےمعنی جستجو اورخواہشوں کی تتلیوں کو چھونے کی لاحاصل لیکن لذت بخش کسک کے نام تھا۔ تخیل کی طاقتِ پرواز جسم کو خاطر میں نہ لاتی اور جسم معصوم بچے کی طرح انگلی تھامے بس چلتا چلا جاتا۔ 2014 میں بھی تقدیر کا قلم سب اچھا ہی لکھتا تھا۔ بس کبھی میرے خواب تعبیروں کے ڈریکولا کا روپ دھار کر خون خشک کر دیتے۔ اپنے حد سے بڑھے نامعلوم کے کھوج سے میں خود بھی عاجز تھی۔ سال 2014 اپنے آغاز سے ہی ایسا احساس لیے ہوئے تھا کہ
۔"کچھ نہ کچھ ہونے کو ہے 
اور ناگہاں ہونے کو ہے"۔
چینی تقویم کے مطابق سال2014 میرا سال تھا ۔۔۔گھوڑے کا سال۔ جو اس سال میں پیدا ہونے والوں کو راس نہیں آتا۔ کچھ نہ کچھ ہوتا ضرور ہے۔اب یہ کہانیاں کس سے کہتی کون سنتا کہ ایسا سوچنا اگر شرعی طور پر جائز نہ تھا تو نفسیاتی اعتبار سے بھی کمزوری کی علامت تھا۔
۔2014 بھی سوچوں کے انہی مدوجزر میں گزرتا چلا جا رہا تھا تاوقت کہ دسمبر کا آخری ہفتہ بھی ختم ہونےلگا۔
ستائیس دسمبر کے دن کے بعد آنے والی رات واہمے اورحقیقت کے مابین یقین کی رات تھی۔ ابو سینے میںاچانک   اٹھنے والے درد کے باعث "شفا انٹرنیشنل" کے سی سی یو میں تھے اور میں ان کے سینے پر سر رکھے ورد آیات کی سرگوشیاں سنتی تھی ۔۔۔ عجیب منظر اور اس سے بڑھ کرعجیب سوچ تھی کہ اللہ تعالیٰ اگر انسان کو اتنی مہلت دے دے تو زندگی سے اس سے بڑھ کر آخری تحفہ اور کوئی بھی نہیں مل سکتا۔ ورنہ ہم میں سے اکثر تو جیسے روتے آتے ہیں اسی طرح حسرت آمیز بےبسی کے ساتھ روتے اور رلاتے ہوئے چلے جاتے ہیں۔ وہ سکون اور اطمینان کی بےمثال کیفیت میں تھے تو میں کیوں پریشان ہوتی۔ وہ جسم جو زمین پر میری موجودگی کا جواز تھا۔۔۔ میری روح کو جسم کا لباس عطا کرنے کا وسیلہ ٹھہرا تھا۔۔۔ میں اُُن کے یخ ہوتے پاؤں کو اپنے ہاتھوں کی گرمی سے تسکین دینے کی کوشش کرتی۔ وہ جو ہمیں آرام وسکون دینے کی خاطرزندگی کی تپتی رہگزر پر برہنہ پا چلتے رہے اور کبھی اپنے پاؤں چھونے نہ دئیے۔
کیا ماں کیا باپ ۔۔۔بچے ساری عمر ان دو رشتوں سے دل ہی دل میں خفا رہتے ہیں۔۔۔دُنیا میں سب سے زیادہ یہی دو رشتے ہمارے ہرمسئلے کی جڑ لگتے ہیں۔ بچپن سے جوانی تک ان کا ہماری زندگی کے ہر کام میں دخل دینا۔۔۔اپنی بات منوانے کے لیے زبردستی کرنا۔۔۔تعلیم سے لے کر نئی زندگی نیا سفر شروع کرنے تک کے فیصلے کرنا اور اپنے کہے کو حرفِ آخر سمجھنا بہت جھنجھلا دیتا ہے۔ اگر مذہب اور اخلاقیات کے پہرے نہ ہوں اور عقل کے قفل نہ لگے ہوں تو ہم کب کے اس قید سے فرار ہو جائیں۔ زندگی میں ایسا وقت بھی آتا ہے کہ جب ہمارے اندر بغاوت سر ابھارنے لگتی ہے۔اگر اللہ کی مدد اور ایمان کی مضبوطی نہ ہو تو ہم گھر کی بنیاد رکھنے والے کو گھر سے نکالنے پر تُل جاتے ہیں۔ ہماری آنکھ اس وقت کھلتی ہے جب ہم خود ماں باپ بنتے ہیں اورزندگی کے چکر کے گول ہونے پر سٹپٹا جاتے ہیں۔
ماں باپ اگر ہمارے لیے دُنیا کی سب سے بہترین نعمت ہیں تو اپنے آپ کو اس کرم کا اہل ثابت کرنا بہت بڑی آزمائش بھی ہے۔ قصہ مختصر ماں باپ کی زندگی میں ان کی اتنی شدت اور چاہت سے طلب نہیں ہوتی جتنی کہ ان کے ہمیشہ کے لیے چلے جانے کے احساس سے اور جب چلے جائیں تو ان کی جگہ کے خالی پن کو محسوس کر کے۔۔۔ جسے دنیا کا کوئی بھی رشتہ کوئی بھی تعلق پُر نہیں کر سکتا۔ یہی قانون قدرت ہے۔ زندگی کے پلیٹ فارم پر ایک قطار میں سب اپنی باری کے منتظر ہیں کب کس کا بلاوا آ جائے؟ اور کب کسے قطار کے درمیان سے اُٹھا کر معلوم منزل کے نامعلوم سفر پر روانہ کر دیا جائے؟ ہم یہ سوچ کر مطمئن رہتے ہیں کہ ابھی قطار میں ہمارا نمبر کافی پیچھے ہے۔
اس شب شفا کےسی سی یو میں جسم وروح کے ریشے ریشے میں جذب ہو کر ساری توانائی ساری روشنی نچوڑ کر سمیٹ لینے والے عدوئے جاں کے قدموں کی سرسراہٹ ہم سب نے اپنے بہت قریب محسوس کی۔ لیکن آج کی رات اُس کی رات نہیں تھی۔ ایک نظر انسان کی تھی تو ایک فیصلہ رب کا بھی تھا جو لوح محفوظ پر لکھ دیا گیا تھا۔ مسیحا اپنے علم کی بدولت اپنے فیصلے پر قائم تھے۔۔۔ فوری طور پر دل کی بائی پاس سرجری ہی ان کے نزدیک واحد حل تھا سانس کی ڈور جوڑنے کے لیے۔ مکمل ہوش میں آ کر ابو پہلے سے بھی زیادہ سکون میں تھے جیسے ایک بھیانک خواب دیکھا ہو اور آنکھ کھلنے پر اپنے آپ کو ٹٹول کر اللہ کا شکر ادا کیا ہو۔
زندگی کی کوانٹٹی سے زیادہ ہم نے زندگی کی کوالٹی کے حق میں فیصلہ کیا اور یوں چوبیس گھنٹے سے پہلے ہی گھر لوٹ آئے۔ اگلی شب ابو اپنے کمرے میں یوں سو رہے تھے کہ جیسے گزشتہ رات کبھی زندگی میں آئی ہی نہ تھی۔ مجھےتجربہ کار مسیحاؤں کے دوٹوک الفاظ یاد آتے تھے کہ دل کی مرکزی شریان جو آگے تین شریانوں کو خون کی سپلائی دیتی ہے وہ نوے فیصد سے زیادہ بلاک ہے۔ اب وہی دل کسی بھی بیرونی مدد سے بےنیاز چھوٹےبچے کی طرح اپنے نرم وگرم کمبل میں سمٹا اتنا آسودہ تھا جیسے ایک لمبے سفر کے بعد گھر لوٹ آیا ہو۔ ۔میں رات کو بار بار اٹھ کر دیکھتی اور سوچتی کہ گزشتہ رات اور آج کی رات میں سے کیا حقیقت ہے؟ اور کیا فسانہ تھا ؟۔ ہمارا ایمان ہے کہ موت کا فرشتہ صرف اور صرف ایک بار آتا ہے اور اپنا کام مکمل کر کے لوٹ جاتا ہے۔ تو پھر یہ سب کیا تھا؟ کیوں تھا؟ اور کیسے تھا؟ خیال آیا کہ گزشتہ رات ایک ہمزاد سے ملاقات ہوئی اور اس نے لاشعور کو اس شدت سے جکڑا کہ شعوری طور پرسب اس کی اصل میں موجودگی سے گھبرا گئے اور تو اور مشینوں پر نمودار ہونے والے ہندسے سانسوں کی ڈوبتی ناؤ اور آس کی بجھتی شمع پر مہر لگاتے چلے گئے۔ سال کے اگلے چند روز گومگو کی کیفیت میں گزر گئے۔ اکتیس دسمبر کی رات آئی اور نئے سال کا سورج طلوع ہوا۔
صبح کے مہربان سورج کی اولین حدت اور بادلوں سے پاک آسمان کی قربت بھی میرے ذہن پر چھائی دھند دور کرنے سے قاصر تھی۔ خالی ذہن کے ساتھ لان میں بیٹھی جمع شدہ پرانے اخباروں کے لفظوں اورخبروں سے زندگی پڑھتی اور زندگی ڈھونڈتی تھی۔ زندگی کے میلے میں گم ہو جانے والے چھوٹے بچے کی طرح ہر چہرے کو تکتی،خوف قدم روکتا پھرخاموشی سے آگے بڑھ جاتی۔اپنا آپ کبھی اس کبوتر کی مانند دکھتا جو بلی آتے دیکھ کر آنکھیں موند لیتا ہے۔ابھی کچھ دیر پہلے قائداعظم کے یومِ ِپیدائش پرپچیس دسمبر ایڈیشن کو پڑھتے ہوئے ایک جملے پر ٹھٹھک گئی ۔جب آخری دنوں میں ان کی بہن محترمہ فاطمہ جناح نےمحبت سے کہا کہ وہ اتنا زیادہ کام نہ کریں تو انہوں نے فوری جواب دیتے ہوئے کہا کہ "کیا تم نے کبھی سنا ہے کہ کوئی جنرل عین اس وقت چھٹٰی پرچلا گیا ہو جب اس کی فوج میدان جنگ میں اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہو"َ۔ یہ پڑھتے ہوئے ذرا دیر کو یوں لگا کہ جیسے بادلوں سے ڈھکے آسمان پر سورج کی پہلی کرن نے جھلک دکھائی ہو۔ ابو نے بھی تو یہی کہا تھا کہ ابھی وقت نہیں آیا۔۔۔ وہ زندگی کے اس موڑ کو سمجھ کرجان کر بالکل نارمل تھے تو میں کیوں گھبرا رہی تھی۔ اتنی دیر میں اپنے فون پر دوستوں کے نئے سال کے حوالے سے پیغامات دیکھے تو ایک دم دھند چھٹ گئی اور رستہ دکھائی دینے لگا۔ زندگی بےشک زندہ رہنے کی خواہش کا نام ہے۔انسان اپنے عزم اور مضبوط قوت ارادی سے بڑے بڑے طوفانوں کے رخ موڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ موت برحق ہے اس سے فرار کبھی بھی نہیں ۔ اللہ سے دعا کرنا چاہیے کہ ہمیں زندگی کےاس آخری امتحان میں سرخرو کرےآمین۔
نوٹ : آخری امتحان کی کہانی " ایمان ِزندگی " میں کہنے کی کوشش کی ہے۔     

"سیٹل اور سیٹل منٹ"

سورۂ فرقان(25) آیت 2۔۔   وَخَلَقَ كُلَّ شَىْءٍ فَقَدَّرَهٝ تَقْدِيْـرًا ترجمہ۔ اور جس نے ہر شے کو پیدا کیا اور پھر اس کے لیے ایک اند...