اتوار, جنوری 25, 2015

"عام عورت۔۔۔خاص بات"

پچیس جنوری 2015۔۔۔۔
کرۂ ارض پر اربوں انسانوں کے ہجوم میں شامل وہ ایک عام سی عورت تھی۔۔۔فانی انسان۔۔۔جس کی زندگی کا سفر دُنیاوی جھمیلوں۔۔۔ذاتی مسائل۔۔۔خاندانی اُلجھنوں اورمعاشی معاشرتی گرہوں کو سمجھتے سلجھاتے۔۔۔گنتی کےچند سالوں میں صبح وشام طے کرتے گزر جاتا ہے۔شاید یہی قانونِ فطرت بھی ہے کہ مالک کی تخلیق کردہ کائنات کا ہر پرزہ ایک لگے بندھے ٹائم ٹیبل پر عمل کرتا ہے۔سورج سے لے کر چاند تک,آسمان سے لے کر زمین کی گہرائی تک زندگی مسلسل حرکت میں ہے۔اس نظام  میں انسان جسے اشرف المخلوقات کا درجہ دیا گیا ہے سب سے زیادہ بےقیمت دکھتا ہے،وہ اس لامحدود زندگی اور اس کے ثمرات کو اپنی محدود عمر میں حاصل کر ہی نہیں سکتا۔اپنی عقل اپنے فہم کے بل پر دُنیا میں اعلیٰ سے اعلیٰ مقام حاصل کر لے،ایک عالم کو اپنی ذات کے طواف پر مائل کر دے اپنی روشنی سے جگ کو منور بھی کردے لیکن!!!وہ اندھیراگڑھا۔۔۔تنہائی اورتاریکی بالاآخر اُس کا انجام ہے۔انسان کی تمام تر ترقی اور قابلیت صرف اُس کے سامنے۔۔۔اُس کی زندگی میں اہمیت رکھتی ہے۔ جیسے ہی آنکھ بند ہوتی ہے اُس کی کتاب زیست بھی بند ہوجاتی ہے۔جس جہاں میں ہر کوئی اپنی اپنی کتاب مکمل کرنے کی فکر میں ہے وہاں بند کتاب کھولنے کی کسی کو فرصت ہے اور نہ ہی ضرورت۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ انسان جیتا ایسے ہے جیسے کبھی مرے گا نہیں اور پھر یوں مر جاتا ہے جیسے کہ کبھی تھا ہی نہیں۔ 
ہمارا ایمان ہے کہ عورت ہو یا مرد کوئی بھی عام نہیں ہوتا۔ ایسا سوچنا رب کی تخلیق میں شرک کے برابر ہے۔ خالق نے ہر انسان کو دوسرے انسان سے مختلف بنایا ہے اس کی یہی انفرادیت اسے"خاص"بناتی ہے۔
۔"ایک عام سی عورت" کہنا ہرگز رب کی مصوری میں کمی کا اشارہ نہیں صرف دنیا کی نظر سے بات کی جو صرف ظاہر دیکھ کر باطن کو جاننے کا زعم رکھتے ہیں۔اُن کے نزدیک ڈگری،تعلیم،مادی وسائل،خاندان اور خاندانی پس منظر کسی فرد کی اصل شناخت ٹھہرتے ہیں۔اس"شناخت"سے ہٹ کر اگر کہیں روشنی کی کرن نظر آ جائے تو اس کی اپنی طرف سے جائز ناجائز تاویلات پیش کی جاتی ہیں۔ لیکن اس سے بھی بڑی ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ عورت کو اس کا خاندان ماں بہن اور بیوی کے سوا کسی اور روپ میں قبول نہیں کرتا۔ایسا ہونا بھی چاہیے کہ عورت کا اصل مقام اس کا گھر اور حقیقی شناخت اُس کے رشتے ہیں۔ رب نے اولاد کی نعمت عطا کی تو اس کے بچے اور"ماں"کا رتبہ دنیا کے ہر انعام اور دادوتحسین سے بڑھ کر ہے۔اس احساس کا یہ مطلب ہرگزنہیں کہ ایک عورت کا حوالہ اس کے رشتے ہی ہوں یااس کی ذات اور صلاحیت کی تکمیل صرف شوہرکو راضی کرنے اور بچے پالنے سے ہی ممکن ہے۔ صرف عورت ہی نہیں بلکہ مرد کو بھی اپنے مقصدِ حیات کے بارے میں جاننے کی سعی کرتے رہنا چاہیے۔بے شک ہم آخری سانس تک نہیں جان سکتے کہ رب نے ہمیں کیوں پیدا کیا ۔ تلاش کا سفر بہتے پانی کی طرح ہے جو چلتا جائے تو زندگی بخش ہے اورکھڑا رہے تو نہ صرف دوسروں کے لیے زحمت اور موت ہے بلکہ اپنا بھی بھلا نہیں کر سکتا۔
اُس عام سی عورت کی خاص بات اُس کی اپنی نظر میں بس یہی تھی کہ وہ مٹھی میں سے ریت کی طرح پھسلتے لمحوں  سے کچھ ریت کے ذرے اپنے دامن میں سمیٹ لیتی اور پھر ان کی جگمگاہٹ کو چھپانے کی بجائے سب کے سامنے آشکار کر دیتی۔ 
وہ  جانتی بہت کچھ تھی لیکن مانتی کم کم تھی اسی لیے تو ایک عام سی عورت تھی۔ اس نے جان لیا تھا کہ جس پل مان لیا اُس سمے اُس کا سفر رُک جائے گا۔اور چلنا اُس کی مجبوری تھا۔ جو اُسے جانتے تو نہ تھے۔۔۔ لیکن مانتے تھے وہ بہت خاص تھے اور یہی اُس عام عورت کا سرمایہ تھا۔وہ جان گئی تھی کہ دلوں پر راج کرنے کے لیے پہلے اپنے دل کو فتح کرنا پڑتا ہے۔۔۔جیت اسی کی ہوتی ہے جو اپنےاندر کیآواز پر دھیان دیتا ہے۔یہ سب کہنا لکھنا بہت آسان ہے لیکن اس سفر میں قدم قدم پر اتنےپیچ وخم اور ایسی بند گلیاں آتی ہیں کہ جہاں یکدم سب کیا کرایا صفر ہو جاتا ہے۔ہر حال میں اللہ کے شکر کا احساس شاملِ حال نہ ہو تو انسان اپنے وجود کے اندر قید ہو کر رہ جائے۔
!راز کی بات
اعتماد اور بےنیازی عام عورت کے باطن کا وہ گوہرِ خاص تھا جو صرف اُس کے سامنے جگمگاتا اور زندگی کے ہربڑھتے قدم پر سہارا بھی دیتا ورنہ ظاہری طور پر قریبی رشتے اپنے تحفظ کا ایسا کڑا حصار رکھتے کہ کبھی اپنی ذات پر یقین بھی غیر متزلزل ہونے لگتا۔ بےنیازی صرف رب اور اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے سے عبارت ہے۔کوئی بھی شے کوئی بھی جذبہ بےکار یا بےمصرف نہیں ۔یہ ہماری سمجھ کا ہیرپھیر ہے۔ ہر شے کو عزت اور وقت دو۔بعد میں وقت ہی اس کی اصلیت سے آگاہ کر دے گا۔
سفرِزندگی کا اسم اعظم ۔۔۔۔"ہر حال میں شکر۔۔۔عطا میں شکر اورمنع میں بھی شکر"زندگی کا تجزیہ ایک جملے میں۔۔۔دُنیا میں کوئی ہمیں اتنا نقصان نہیں پہنچا سکتا جتنا ہم خود اپنے آپ کو پہنچاتے ہیں۔ اور ایک لفظ میں زندگی کا سب سے اہم سبق۔۔۔ "پہچان" ہے۔ اپنے سامنے ہماری اپنی پہچان۔۔۔دوسروں کی پہچان۔۔۔رشتوں کی پہچان۔۔۔ جذبات کی پہچان ۔۔۔رویوں کی پہچان اور سب سے بڑھ کر اپنے خالق کی پہچان۔ پہچان کا یہ علم ہی ہمارے علم اور جہالت کے درمیان فرق واضح کرتا ہے۔ یہی علم ہمارے لیے خزانوں کے منہ کھولتا ہے تو اس سے لاعلمی اگر دُنیا میں ہمیں مایوسیوں اور رسوائیوں کے پاتال میں دھکیل دیتی ہے تو آخرت میں اسی پہچان کے بارے میں حساب لیا جائے گا۔
 اللہ ہم سب کو اپنی پہچان کا علم عطا فرمائے اور علم کو سمجھنے کے ساتھ اس پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
۔25جنوری2015

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

"کتبہ"

"کتبہ" جس طورانسانوں کی دنیا اور انسانوں کے ہجوم میں ہر آن اضافہ ہو رہا ہے تو اس طرح قبرستان بھی تیزی سے آبادہو رہے ہیں۔ گھر...