بدھ, جنوری 29, 2014

"جوتی"

عورت پیر کی جوتی ہے" ۔۔۔۔یہ جملہ ایک گالی سے کم نہیں۔۔۔نہ صرف دینے اورلینے والےکے لیے بلکہ ایسا سوچنے والے کے لیےبھی منفی طرزِفکر کا عکاس اور بظاہر مرد کی حاکمیت اورعورت کی طرف سے خود ساختہ مظلومی کا اشتہاردکھتا ہے۔غور کیا جائے تو یہ بہت بڑا انعام بھی ہےکہ جوتی کا پیر سے وہی رشتہ ہےجو لباس کا جسم سے۔ قرآن پاک میں عورت اورمرد کے جائزتعلق کی دلیل"لباس"سے دی گئی ہے۔ سوچا جائےتو لباس کے بغیرانسان کچھ بھی نہیں۔ وہ نہ صرف جسمانی بلکہ اخلاقی اورمعاشرتی طورپر بھی اس سچائی کے بغیرزندہ نہیں رہ سکتا۔ لباس کے بعد جوتا انسان کی زندگی کا لازمی عنصر ہے۔ دُنیا کے پتھریلے راستوں پر چلنے میں بنیادی کردارجوتے کا ہی ہوتا ہے۔ عام معنوں میں جوتا ہمیشہ جوڑے کی شکل میں استعمال کیا جاتا ہے،اوردونوں پیر کے جوتے ایک جیسےاورایک سی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اُن کی بناوٹ میں جو معمولی سا پوشیدہ فرق ہے وہی اُنہیں ایک دوسرے سے جُدا کرتا ہے۔
برسوں آگہی کے آبِ حیات کا قطرہ قطرہ رگوں میں جذب کرنےکے بعد اب زہرکی صورت لفظوں میں اُتارنے تک اور پوری زندگی میں نہ صرف بہت قریب سےبلکہ معاشرے،کتابوں،ماضی قریب اورماضی بعید کی تواریخ کے مطالعے کے بعد اس جائز بندھن کے حوالے سے یہی محسوس ہوا کہ"عورت اگر اپنی کھال کی جوتیاں بھی بنا کرمرد کو پہنا دے پھر بھی وہ اپنی زندگی میں عورت کے کردارکے حوالے سے سدا کا ناشکرا ہی رہے گا"۔
کائناتِ انسانی کی اولین تخلیق ہونے کا استحقاق رکھتے ہوئے ۔۔۔۔دُنیا اور معاشرے میں آسمانی کتابوں سے لے کر زمینی حقائق تک اور منطقی استدلال سے جذباتی طرزِفکر تک ہر جگہ "مرد" کو اولیت حاصل ہے۔ روحانیت کے مراتب ہوں یا تصوف کے مسائل مرد کا مقام سب سے اونچا ہے۔معاشی جدوجہد اور جسمانی محنت ومشقت میں بھی اُس کی برتری سے انکار ممکن ہی نہیں۔ اسی لیے تو مرد عورت پر "قوام" ہے۔۔یوں وہ ہر طرح کی سوچ میں آزاد اور ہر طرح کے عمل میں بھی خودمختار ہے۔اُس کی جبلت میں پرویا گیا حاکمیت کا یہ احساس عمر کے ہر دور میں بننے والے رشتوں میں لاشعوری طور پر سربلند رکھتا ہے۔ 
اللہ کے کلام کی حقانیت سے انکارنہیں اوردل سے ایمان ہے۔ جب اس میں ربِ کائنات نےفرما دیا کہ"مرد عورت پر قوام ہے"۔اورنبی کریمﷺ کی ایک حدیث ِپاک کا مفہوم ہے"کہ جہنم میں عورتوں کی موجودگی کی بڑی وجہ اُن کا مرد کے حوالے سے ناشکرگزار ہونا ہے"۔ تو ہم کون ہوتے ہیں فتوٰی دینے والے کہ کون زیادہ ناشکرا ہے مرد یا عورت ۔
اللہ نے انسان کوعقلِ سلیم عطا کی ہےاورقرآن پڑھنے سے زیادہ اس پرغوروفکرکرنےکی تلقین کی گئی ہے ہے۔ ہم لفظ پڑھتے ہیں اورآگے بڑھ جاتے ہیں۔ حکم مانتے ہیں لیکن غورنہیں کرتے۔عورت کی ناشکری کی وجہ محض یہ نہیں کہ وہ مرد کی برائی کرتی ہے بلکہ اُس کی ناشکری یہ ہے کہ وہ نہ صرف مرد کو بلکہ اپنےآپ کو بھی سمجھنے میں ناکام رہتی ہے۔ جو جس خمیر سے بنا ہو اُس کی ہئیّت تو بدلی جا سکتی ہے لیکن خاصیت نہیں۔ مرد کے خمیرمیں اگرحاکمیت لکھ دی گئی ہے تو عورت کے خمیرمیں بھی تواپنی "میں" کی نفی کرکے ایک نئے وجود کی تخلیق لکھی گئی ہے۔
عورت کو ایک نئی زندگی ایک نئے وجود کو سامنے لانےکی بیش بہا صلاحیت عطا کی گئی ہے۔ اپنی ذات کو وقت اورحالات کے تقاضوں کے مطابق ڈھال لینا تو اس عظیم معجزے کے سامنے کچھ بھی نہیں۔ بات صرف اپنے کردار کے احساس کی ہے۔ ایک نئی نسل کو پروان چڑھانے کی ہے۔
باپ۔۔۔۔ وہ انسان جو بچے کی پیدائش سے پہلے اگر اپنے وجود کےاس حصے سے بےخبر رہتا ہےتو بعد میں اولاد کے ساتھ ذہنی ہم آہنگی بھی کبھی نہیں پیدا کرپاتا جو ماں سے لمس کے رشتے کی بدولت ایک فطری عمل ہے۔
باپ کو اپنی مشقت کے احسان کا اکثر گلہ رہتا ہے کبھی اندر ہی اندر چپ سادھ کر تو کبھی خوفناک "جنریشن گیپ" کی صورت۔ کہ ساری عمر گنوا کر بھی اس کے ہاتھ کچھ نہیں آتا۔ اور ماں کو ہمیشہ سے بچا کچا کھانے کی عادت بچا لیتی ہے بچی کچی زندگی میں باسی محبت کی آس ہی اس کے لیے بہت بہت کافی ہوتی ہے۔
مرد اتنا کم عقل کیوں ہے کہ اپنی ماں کے ساتھ احترام کا عکس اپنے بچوں کی ماں میں دکھائی نہیں دیتا۔اپنی ماں چاہے ساتھ رہتی ہو یا ہمیشہ کے لیے جدا ہو چکی ہو وہ آسمان ہے تو اپنے بچوں کی ماں جو اسے زمین پر اپنے وجود کا احساس دیتی ہے۔۔۔ دنیا کی نظر میں معتبر بناتی ہے وہ اسے انہی کے سامنے پاتال میں دھکیل دیتا ہے۔ دکھ ناقدری کا نہیں۔۔۔ حیرانی جہالت پر ہے اسی شاخ پر ضرب لگانے کی جس پر آشیاں ہے۔ کوتاہ نظری یا ناشکری کا یہ احساس وقت گزرنے کے بعد بھی بہت کم کسی کو ہوتا ہے اور اگر ہو بھی تو اپنی کمزوری بہت کم ہی کسی نے ظاہر کی ہے۔
اہم یہ ہے کہ عورت چاہے ماں ہے یا بیوی۔۔۔ وہ کبھی بھی ناقدری کا آسیب خود پر مسلط نہ ہونے دے۔۔۔اولاد کی طرف سے یا شوہر کی طرف سے۔ کہ اس کا سراسر نقصان اس کی اپنی ذات کو پہنچتا ہے یا پھر اس کے بچوں کو اور ان کی زندگی کے تسلسل میں بھی۔
عورت کے لیے خاص سبق یہی کہ آنکھ بند کر کے اپنا فرض ادا کرے اور حق کی طرٖف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھے تو پھر ہی بات بنتی ہے۔
تصویر کا دوسرا رُخ یہ ہے کہ عورت سے بڑا بلیک میلر بھی اور کوئی نہیں۔بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں عورت یا تو مظلوم ہے اور یا پھر مرد سے ہر سطح پر برابری اور مقابلہ کرنے کی جنگ اور جنون میں مبتلا۔درحقیقت ایسا کچھ بھی نہیں بلکہ اس کے الٹ ضرور ہے۔عورت اپنے جسمانی افعال وکردار کے پسِ منظر میں کمزور ضرور ہے لیکن مظلوم ہرگز نہیں۔ ۔”ماں” کا رتبہ عورت کی ذاتی خوبی نہیں بلکہ اللہ کا فضل ہے لیکن اکثر وہ اسے اپنی طاقت سمجھ کر”خودترسی” کا شکار ہو جاتی ہے۔ مرد اور عورت اس رشتے میں بندھنے کے بعد اگر ایک دوسرے کی برابری کا حق تسلیم کر لیں تو پھر کوئی مسئلہ نہ رہے۔ لیکن ہوتا یہ ہے کہ دونوں میں سے کوئی ایک اپنی انا کا بت سجا کر دوسرے سے سجدوں کی توقع پال لیتا ہے۔ یوں زندگی اگر مگر میں گزر جاتی ہے یا کاغذ کا رشتہ خزاں رسیدہ پتے کی طرح ہر وقت قضا کے جھکڑوں کی زد میں رہتا ہے۔توازن ہر رشتے ہر رویے کی بنیادی شرط ہے۔ جہاں مرد ذرا کمزور ہوتا ہے عورت حاوی ہو جاتی ہے۔ عورت مرد کا تعلق بہت کم کہیں برابری کی شفاف سطح کو چھو سکا ہے اور وہ بھی جگہ جگہ سمجھوتے کی گرہ لگا کر ۔کبھی سمجھوتے کی گرہ عورت کی ذمہ داری بن جاتی ہے تو کبھی مرد خاموشی سے اپنی ذات میں گرہیں لگاتا چلا جاتا ہے۔ا گرچہ عورت اپنی پوری زندگی ہی کیوں نہ اس رشتے کو بچانے کی نذر کر دے لیکن معاشی معاشرتی اور اخلاقی لحاظ سے حد درجہ دباؤ کی وجہ سے اور سب سے بڑھ کر اپنی فطرت کے برخلاف زیادہ سمجھوتے مرد کا ہی مقدر ہیں۔
عورت کی زندگی میں آنے والا مرد خواہ وہ رشتوں کے حوالے سے آئے یا تعلقات کا جامہ پہن کر وہ کبھی بھی عورت کی طلب کی خوشبو کو چھو نہیں سکتا۔ ہاں بیٹے سے خون کا رشتہ ہوتا ہے تو اس کو اس بات کا احساس ہو جاتا ہے بہت اچھی طرح ۔۔۔ لیکن۔۔۔ اپنی شادی کی پہلی رات جب وہ ایک دوسری عورت کے سامنے ہوتا ہے اوراُس کی ماں حیات ہو اس وقت تو اس کی پہلی بات یہی ہوتی ہے کہ "میری کوئی چاہ نہیں کوئی ڈیمانڈ نہیں بس میری ماں کا خیال رکھنا اُس بےچاری نے بہت کڑا وقت دیکھا ہے"۔ اور یہ 'بےچاری' فقط حاشیہ آرائی ہے ورنہ اگلے روز کی صبح لاشعوری طور پر ہی سہی" وہ " اپنی دُنیا میں سب سے طاقتورمالکن بن کرسامنے آتی ہے۔
اُن نام نہاد حقوق نسواں کی علم بردار خواتین کے نام ایک راز کی بات ۔۔۔۔
ماننا شکست کا نام ہے اور شکست کھانا وہ بھی ایک کمزور اور محکوم عورت سے مردانگی کی توہین ہے۔عورت کے لیے مرد کی فطرت کے اس پہلو کو سمجھنا اور پھر ماننا بہت ضروری ہے۔ اپنی خودساختہ انا کو جھکانے کا فن عورت کے لیے مشکل ضرور ہے لیکن بند کمرے میں ایک مرد کے ہاتھوں جوتے کھانا بہتر ہے بجائے اس کے سرِعام "گینگ ریپ" کا شکار ہو کرمعاشرے کی ہمدردیاں سمیٹی جائیں۔عورت نے صرف جھکنا ہے ورنہ ٹوٹ جاتی ہے۔
مرد کی فطرت ۔۔۔۔ 
بیٹی ہو یا عورت سے کوئی اور تعلق خواہ ماں کا ہی کیوں نہ ہوجب تک ایک درجہ نیچے رہے،مرد اپنے تحفظ کے حصار کی بڑائی میں خوشی خوشی اپنی جان مال بےدریغ نچھاور کرتا ہے۔لیکن جیسے ہی عورت کی برابری کا احساس قریب آئے اس کا رویہ بدل جاتاہے۔مرد کی برائی ہرگز نہیں بس اس کی فطرت میں لکھی گئی برتری کی کرشمہ سازی ہے۔ 
!آخری بات
جب کوئی کوہ پیما 'ماؤنٹ ایورسٹ' سر کر لیتا ہے تواس کے پاس واپسی کے سوا کوئی راستہ نہیں بچتا ۔عورت کو خواہ پاؤں کی جوتی سے بھی کمترمحسوس کیا جائے لیکن اُس کے دل کے ماؤنٹ ایورسٹ پربہت کم کسی کے قدموں کے نشان اُترتے ہیں اوراس تک پہنچنا بھی ہر کسی کے بس کا روگ نہیں۔ لیکن جو اس برف کے سامنے سجدہ ریز ہو گیا اُسے پھر کہیں اورجانے کے ضرورت نہیں پڑتی۔
۔۔۔۔۔۔
ملائم گرم سمجھوتے کی چادر
یہ چادر میں نے برسوں میں بنی ہے
کہیں بھی سچ کے گل بوٹے نہیں ہیں
کسی بھی جھوٹ کا ٹانکا نہیں ہے
اسی سے میں بھی تن ڈھک لوں گی اپنا
اس سے تم بھی آسودہ رہو گے
نہ خوش ہو گے نہ پژمردہ رہو گے
اسی کو تان کر بن جائے گا گھر
بچھا لیں گے تو کھل اٹھے گا آنگن
اٹھا لیں گے تو گر جائے گی چلمن
ملائم گرم سمجھوتے کی چادر
یہ چادر میں نے برسوں میں بنی ہے
(زہرہ نگاہ)

ہفتہ, جنوری 25, 2014

"ایک کہانی بڑی پرانی "

پچیس جنوری 2014 ۔۔۔۔۔
وہ ایک باتونی بچی تھی ۔ ہروقت بےچین رہتی ،سوال پوچھتی ،چیزوں کے اندرجھانکتی۔اپنے پیاروں کی آنکھ کا تارا تھی اور سب خوشی خوشی اپنے طور پراُسے مطمئن کرنا چاہتے۔ وہ پھولوں سے تتلیوں سے باتیں کرتی تورنگ برنگے پتھروں سے بھی جی لگاتی ،سنگِ مرمر کےٹکڑے کہیں پڑے ملتے تو جھولی میں بھر لیتی اورکہتی گھر بناؤں گی تو اُس میں لگاؤں گی ۔ رات کے وقت پودوں کی اُداسی کو اپنے اندر محسوس کرتی ۔ کوئی پھول کی خوشبو کا تمنائی ہوتا ہے وہ پتوں کی سرد تاریکی پر ٹھٹک جاتی ،رُک جاتی ۔ دن کو ہوا کے نرم جھونکوں کی طرح اُڑتی پھرتی ۔ کبھی کسی کی تسکین کرتی کبھی کوئی اس کے قریب رہنا چاہتا ۔ وہ اپنے کام اپنے مقصد سے کبھی غافل نہیں رہی ۔ نصابی کتابیں اُس کے لیے سب سے اہم تھیں ۔ بڑی ہوتی گئی تو گھر سے اسکول کے سفر میں اُستاد سے پرنسپل تک سب اُس کے گرویدہ تھے۔ وہ خوب بولتی ،چھٹیوں کے بعد اسکول آ کر اپنے قصے سب کو سناتی ۔اورتو اور اپنے شفیق پرنسپل کے دفتر جا کر ان کے پوچھنے پرگزشتہ رات سینما میں دیکھی گئی فلم پربےدھڑک تبصرہ بھی کرتی۔اپنے غیر نصابی کام ذمہ داری سےکرنے کے ساتھ جماعت میں اچھے نمبرلینا تو سب سے پہلا فرض تھا۔
ذرا بڑی ہوئی تو لفظ سےمحبت ہو گئی ۔ وہ لفظ جمع کرتی ،لفظ پڑھتی ۔الف لیلیٰ کی کہانیوں سےبات شروع ہوئی تو گویا عمروعیار کی زنبیل کی طرح ایک پٹارہ ہی کھل گیا ہو کہ پھر اُس نے پیچھے پلٹ کرنہ دیکھا۔ لوگوں سے باتیں کر کے دُنیا کی نئی جہت دریافت کرنے کی خواہش اُسے کتابوں کی طرف کھینچ لائی کہ کتابیں تو خاموش ساتھی ہوتی ہیں اور درست جگہ پہنچاتی ہیں۔ سفر کچھ اس تیزی سے بڑھ رہا تھا کہ دس گیارہ برس کی عمرمیں"سب رنگ"،"جاسوسی " اور "سسپنس ڈائجسٹ "سےلے کر"اردو ڈائجسٹ" اور پھر"حکایت ڈائجسٹ" بڑے ذوق وشوق سے لیکن بڑوں سے محتاط رہتے ہوئے پڑھنے کانشہ سا پڑتا چلا گیا ۔ساتھ ساتھ پریوں کی کہانیاں بھی پڑھتی اور چوری چوری خواتین کے رسالے بھی ۔ایک شوق جاسوسی اورسسپنس والی کہانیاں بھی تھیں۔شرلاک ہومز اور ڈاکٹر واٹسن کے کردار اورپھر جناب اشتیاق احمد کی تازہ آنے والی کتابیں توگویا دُنیا کی سب سے بڑی نعمت تھیں جن کا بڑی بےچینی سے انتظار کیا جاتا اوراپنی عیدی اور پاکٹ منی اسی لیے گن گن کرسنبھالی جاتی ۔ وہ محلے کی لائبریری سے بھی کتابیں لاتی اورپڑھ کر اگلے روز واپس کردیتی ۔ کوئی اس کی راہ میں حائل نہیں تھا کہ وہ اسکول کی کتابیں بھی اسی ذوق وشوق سے پڑھتی تھی اورقرآن پاک بھی بہت کم عمری میں مکمل پڑھ لیا تھا۔
اُس کی تلاش"لفظ" میں تھی ۔ وقت دھیرے دھیرے سرک رہا تھا لیکن وہ بہت تیزی سے کبھی کسی سوچ کی ڈال پر اور کبھی کہیں ۔ وہ میلوں میں جاتی،جھولے جھولتی ، فلمیں دیکھتی اورڈرامے بھی اورہر وقت سیکھنے اورجاننے کی جستجو میں رہتی۔لفظ سے محبت کے اس سفر میں نصابی کُتب بھی پیچھے نہ تھیں۔ہرمضمون ایک نئی دنیا میں لے جاتا اوروہ "اُس" دنیا میں آنے کا حق ادا کرنے کی دل سے کوشش کرتی۔ہائی اسکول میں اُساتذہ کی خاص توجہ کا مرکز بنی تو اُن کی محنت سے چمک آئی یوں کہ بورڈ میں  پوزیشن لی اوروظیفہ بھی ملا۔
وہ باتونی بچی جوں جوں بڑی ہوتی گئی خاموشی اُس کی روح میں گھر کرنے لگی۔ لفظ اورانسان کے درمیان گہرا تضاد اُس کی سمجھ سے باہر تھا۔ وہ انسان کی سچائی لفظ سےماپتی تھی لیکن حقیقت کی دُنیا میں ایسا بالکل بھی نہ تھا۔ اُسے معلوم ہوا کہ علم اورعمل میں کئی جگہ وسیع خلیج ہے۔ کہیں علم ہے توعمل ندارد اورکہیں انسان چاہتے ہوئے بھی علم کے مطابق عمل نہیں کرسکتا ۔اورکبھی عمل محض کاغذی پھولوں کی مانند دکھتا ہے۔
انسانی فطرت کے مکروہ چہرے اُسے اپنی ذات کے خول میں بند رہنے پر مجبور کرتے تو محبتوں کی موسلادھار بارشیں بھی بے یقینی کی بنجر زمین کو سیراب نہ کر پاتیں۔ وہ محبتوں کی کھوج میں محبتوں سے دور بھاگنے لگی ۔ وہ انسان کی تلاش میں تھی ۔ اِسی تلاش نے اُسے اندر کے انسان سے ملا دیا ۔ پھر اُسے سب سے بڑا فساد اپنے اندر نظر آیا کہ جب ہم اللہ سے چاہتے ہیں کہ ہمیں معاف کر دے تو ہم بندوں کو کیوں نہیں معاف کرتے۔اللہ سے ہم ہر وقت اپنے بڑے بڑے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں اور اپنے جیسے انسانوں کے چھوٹے چھوٹے قصور معاف کرنے میں جان نکلتی ہے۔
یہ سوال سر اُبھارتے،وہ جواب ڈھونڈتی پھرتھک کر خرگوش کی طرح سو جاتی جب آنکھ کھلتی ،منزل تو سامنے نظر آ جاتی پر رستہ نہ دکھائی دیتا تھا ۔ وہ سوچتی کہ میں اللہ کا شکر ادا نہیں کر پا رہی یا مجھ میں برداشت کی کمی ہے۔ عقل کہتی اے انسان! تو نے تو برداشت کرنے میں اپنی ساری توانائی خرچ کردی ہے اب تو تیرے پاس تیزی سے سرکتے ماہ وسال کے سوا کچھ بھی نہیں بچا۔سوچوں کی انہی بھول بھلیوں میں وہ  الجھنے لگی۔دُنیا کو جاننے اور پھر خود کو سمجھنے کی کوشش نے اُسے توڑ کر رکھ دیا۔ پھراپنے کرچی کرچی وجود کو خود ہی جوڑ کر اُس نےنئی زندگی کا آغاز کیا تو رنگوں روشنیوں کی ایک عجیب کائنات منتظر تھی ۔ پہلا قدم اُٹھانے کی دیر تھی راستے خود بخود ہی اس کے قدموں کی دھول بنتے چلے گئے۔
 باتونی لڑکی سے گونگی عورت کے اس سفر میں اس نے نہ جانے کیا کیا کھویا اورکیا پایا؟جان کربھی نہ جان سکی۔۔۔جانا تو بس اتنا کہ جتنی بُری طرح اس نے اپنے احساس کونظرانداز کیا اتنا برا شاید کسی اورنے اس کے ساتھ نہ کیا ہوگا۔اور جس طور اپنی  حدودوقیود کے اندر رہتے ہوئے آسمان کو چھونے کی سعی کی شاید اس سے زیادہ کوئی بھی اس "تنہا پرواز" کی لذت سےآشنا نہ ہوا ہو گا۔ایسی پروازکہ جس کی تربیت کبھی کسی سے نہ لی تھی اوراس کے اسرارورموز سے آگہی میں ہمسفر بھی کوئی نہ تھا۔قوتِ پرواز رہنما تھی تورُکاوٹ بھی یہی کہ اپنی حدود سے آگے بڑھنے کی اجازت نہ دیتی تھی،سرد مہری اورناقدری کے احساس کی  برف کی سلیں جامد گلیشئیربن کر بھی اُس کے اندر کے آتش فشاں کو روک نہ سکیں۔
وہ باتونی لڑکی اپنے آپ سے باتیں کرتی ،اُن کو لفظوں میں سمو کر شانت ہو جاتی۔ اب اس کی زبان نہیں اُس کے لفظ بولتے تھے۔لفظوں کو راستہ ملا تو اس کے وجود کا ہرانگ چیخنے لگا ۔ خیال کی مدھر رم جھم جب موسلا دھار بارش کی صورت برستی تو ہراحساس ہرجذبہ معصوم صورت بنائے کھڑا ملتا اوروہ مسکرا مسکرا کراُن کی "اصل" جانتے ہوئے بھی بس دیتی جاتی بانٹتی جاتی۔
کرنا بھی کیا تھا پاس رکھ کر، جب سب یہاں ہی چھوڑ جانا ہے۔خالی ہاتھ سب جھاڑ کر جانا مقدر ہے تو پھر دے دو جہاں تک ہوسکے۔جتنی استطاعت ہے جتنی"اوقات" ہے اورجتنا "وقت"۔
 وقت کبھی کسی کو نہیں ملا اورنہ کسی کا ہوا ہے۔ کبھی ہم گزرجاتے ہیں پرہمارا وقت رہ جاتا ہے۔اورکبھی ہم رہ جاتے ہیں لیکن ہمارا وقت گزر جاتا ہے۔ زندگی نے اُسے یہی پیغام دیا تھا کہ اگر ہم اپنے آپ سے دوستی کر لیں اپنے آپ کو جان جائیں تو لوگوں کو جاننا آسان ہو جاتا ہے۔

جمعرات, جنوری 09, 2014

" بُت شِکن "

ہر انسان کی زندگی میں کبھی نہ کبھی کوئی بُت شکن ضرور آتا ہے۔جتنا بڑا مندر ہو گا اُتنا ہی وقت لگےگا۔۔۔ارادوں،خواہشوں اورعقیدوں کے بُت مسمار کرنے میں ۔ اس لیے جتنی جلدی اپنے بُت خود توڑ لو اچھا ہے۔۔۔ ورنہ آخری بُت شکن کا کچھ پتہ نہیں کہ کب آن دھمکے۔ پھر یقین کا بُت تو سلامت رہتا ہے لیکن عمل کی مٹی بھربھری ہو چکی ہوتی ہے۔
 انسان سے بڑا سومنات کہیں نہیں،کوئی نہیں۔ہر بُت شکن کے بعد نئے عزم نئے حوصلے سےپہلے سے بھی زیادہ مضبوط فصیلیں لگا کر عقل وفہم کے بُت تراشتا ہے۔ نہیں جانتا کہ کب جذبات کی منہ زورآندھیاں بُت شکن کی صورت سب کچھ تہہ وتیغ کر ڈالیں۔
 سب یقین کی کرامات ہیں۔یقین اگر بُت پر بھی ہو تو جواب ضرور ملتا ہے ورنہ آج دنیا میں کوئی ایک بھی بت پرست نہ ہوتا۔ ایک عام انسان کیسے کسی کے یقین کے سامنے پتھر بن سکتا ہے بس اُس کے پاؤں کی زنجیریں اسے بےحرکت بنا دیتی ہیں۔۔۔کچھ بھی کہنے کچھ بھی سننے سے۔
۔"تصورِبُتاں"۔۔۔ پُجاری ہمیشہ محروم ہی رہتا ہے چاہےساری زندگی دان کر دے۔ توحید پرست ہمیشہ پا لیتا ہے اگر آخری سانس سے پہلے ادراک ہو جائے۔

۔"بُت" ۔۔۔ بتوں سے محبت انسان کی جبلت ہے تو انہیں دل میں جگہ نہ دینا انسان کی کامیابی۔بُت ہر احساس سے ماورا ہوتے ہیں چاہے گھر میں رکھیں یا گھر سے باہر انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ فرق انسان کے عقیدے میں ضرور پڑ جاتا ہے۔مندر بغیر بت کے ایسا ممکن ہی نہیں۔توحید پرستی بھی بت پرستی کی حقیقت جانے بنا دل میں نہیں اُترتی۔
( حضرت ابراہیم علیہ السلام کا قصہ۔۔۔سُوۡرَةُ الاٴنعَام آیت 74۔۔83 )
!آخری بات
 بُت ٹوٹنے کے لیے ہی ہوتے ہیں چاہے خواہشوں کے ہوں یا مٹی کے۔اگر اپنے ہاتھوں سے اُنہیں سنوارکرخود ہی ریزہ ریزہ کر دو اور اس مٹی سے چراغ بنا لو تو اُن کی روشنی سدا تمہاری روح کو منور کرتی رہے گی ورنہ بُت تو ٹوٹ ہی جایا کرتے ہیں وقت کی تلوارسے۔

اتوار, جنوری 05, 2014

"سرقہ"

چہرہ انسان کے جسم کا آئینہ ہوتا ہے اور لفظ اُس کی سوچ کی پرتیں کھولتے ہیں۔
جسمانی طور پر قریب آنے والے ہمارا چہرہ پڑھ کرہماری شخصیت کا تانا بانا بنتے ہیں۔ ہمارا لہجہ۔۔۔ ہماری آواز دیکھتے ہیں۔۔۔ ہماری طلب جانچتے ہیں۔ کبھی گزر جاتے ہیں۔۔۔ کبھی ٹھہر جاتے ہیں۔ جبکہ سوچ سفر کے ساتھی ہمارے لفظوں سے ہمارا چہرہ تراشتے ہیں۔اُس میں اپنے فہم یا اپنے دل کی آواز کے مطابق رنگ بھرتے ہیں۔
 ایک چہرہ انسان کے دل کا بھی ہوتا ہے جس تک رسائی ہرایک کے بس کی بات نہیں۔۔۔ اور نہ ہی ہرایک کو اسے چھونے کا اختیار ملتا ہے۔ مادی وجود کا چہرہ ہو یا لفظ سے شخصیت کی پہچان۔۔۔ ہردو چہروں کا اصل میک اپ کی دبیز تہوں میں بڑی کامیابی سے چھپایا جا سکتا ہے۔۔۔ایک نیا چہرہ اتنی کامیابی سے نظروں کو چکاچوند کرتا ہے کہ اصل نقل کا فرق پہچاننا مشکل ہو جاتا ہے۔
 اپنی روزمرہ زندگی میں ہم اس جادوئی میک اپ کے کرشمے دیکھتے رہتے ہیں بس"پیسہ پھینک تماشہ دیکھ" والی بات ہے۔ جیسے ایک نئی زندگی کا آغازکرنے کے لیے سب سے پہلی خواہش۔۔۔ پہلی طلب اپنےاصل چہرے کو چھپا کر عارضی چمک دمک سے آراستہ کرنے کی ہوتی ہے۔ وہ چہرہ جس کی زندگی محض رنگوں روشنیوں اورجانےانجانے لوگوں کی اچھی یا بری نظر کے چند گھنٹوں پرمحیط ہوتی ہے۔ دھلائی کے بعد جب اصل چہرہ سامنے آئے وہ بالکل الٹ ہو تو پھرصرف سمجھوتے کا غازہ ہی کام کرتا ہے۔ یہ انسانی فطرت بھی ہے کہ ہم ہمیشہ اپنی اصل شخصیت کی کمتری کے احساس میں مبتلا رہتے ہیں اوراس سے انکار بھی نہیں کیا جا سکتا کہ" لوگ صرف ہمارا چہرہ ہی تو دیکھتے ہیں"۔
لفظ لکھنے کے لیے لفظ بولنے کے لیے بھی بناؤ سنگھار کی اہمیت اور ضرورت سے انکار نہیں۔ کہیں روٹی روزی کا سوال ہے۔۔۔ کہیں دنیاوی امتحانات میں کامیابی معیار ہے۔۔۔ تو کہیں اپنے جذبۂ خودنمائی کی تسکین مقصود ہے۔
لفظ کہانی چہرہ کہانی کی طرح ہوتے ہوئے بھی اس سے یوں مختلف ہےکہ لفظوں کی ملمع سازی ہرکس وناکس کی گرفت میں نہیں آتی۔ بعض اوقات نسلیں گزرجاتی ہیں۔۔۔ صدیاں بیت جاتی ہیں۔۔۔اس جادو کا توڑ کبھی نہیں ملتا۔ کھرے اور سچے لفظ اپنا مقام رکھتے ہیں۔ حال میں جگہ نہ بھی بنا پائیں۔۔۔ آنے والے وقتوں میں تاریخ کا حصہ بن کرکاغذ کے اوراق میں زندہ رہتے ہیں۔ شاید کسی کی یاد میں جگنو کی چمک بن کریا پھرکسی بوسیدہ ڈائری میں سوکھے ہوئے پھولوں کےنشان کی صورت۔ اوراگرکچھ نہ بھی ہو تو لکھنے والے کو دلی سکون دیتے ہیں۔۔۔ اپنےوجود کی شناخت کا ہنرعطا کرتے ہیں۔
 آج کل ٹیکنالوجی کا دور ہے۔ لفظوں کی چوری پکڑنے کے جدید ترین طریقے دستیاب ہیں۔۔۔ جو چند لمحوں میں ہی سب کچا چٹھہ سامنے لے آتے ہیں۔ لیکن اس چوری کو ابھی صرف نصاب کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔۔۔ طالب علم کی ذہنی استعداد کا اندازہ لگانے کے لیے کہ کسی مضمون کو لکھتے وقت کہاں تک اُس کا تخلیقی جوہر سامنے آیا ہے۔
 یہ حیرت انگیز سافٹ وئیر بہت کمال کی چیز ہے۔ اساتذہ اس کی مدد سے لمحوں میں لفظ کی چوری پکڑتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ ہمارے 'ذہین' طالب علم اس کا بھی توڑ نکال ہی لیتے ہیں ۔ ترقی یافتہ ممالک میں "پلیجریزم" بہت بڑا جرم ہے اور اگر اس کا ذرا سا بھی شائبہ ہو جائے تو لکھنے والے کا پورا کیریر داؤ پر لگ جاتا ہے۔
ادب کے حوالے سے اور خصوصاً اردو ادب میں شاید ہی کسی  نے اس سافٹ ویر کو استعمال کیا ہو گا۔ صرف پڑھنے والے کا احساس ہے جو کسی کی تحریر پڑھتے وقت ہوتا ہے۔ ہم میں سے اکثر اس تجربے سے گزرتے ہیں جب کسی کے لکھے لفظ یوں لگیں کہ پہلی بار سے پہلے بھی کہیں اور پڑھے ہوں۔ یہ بات یہ خیال حق ہے بالکل اسی طرح۔۔۔ جیسے کسی انجان کا چہرہ بہت شناسا بہت اپنا اپنا سا لگے اور ذہن پر زور ڈالنے کے بعد بھی یاد نہ آئے کہ اس سے پہلے کب اور کہاں ملے تھے۔
 اصل چہرے کا بناؤسنگھار کسی حد تک جائز ہے کہ یہ انسان کی چاہنے اور چاہے جانے کی فطری خواہش اورطلب بھی ہے۔کسی کے لفظ سے اپنا قد اونچا کرنے کی کوشش کرنا بہت بڑا جرم ہےجو علمی بددیانتی کے زمرے میں آتا ہے۔ وہ جرم جو ایک فن ہے اور پکڑنے والے جب تک ثبوت نہ ہو شک ویقین کے درمیان معلق رہتے ہیں۔ حقیقت صرف لکھنے والا ہی جانتا ہے اور پڑھنے والا اپنے گمان کو حقیقت سمجھتا ہے۔
!آخری بات
 مطالعہ بےشک علم حاصل کرنے کا راستہ ہے لیکن لکھنا ایک الگ صلاحیت ہے جو آمد کی مرہونِ منت ہے آورد کی نہیں۔ 
 پلیجریزم یعنی سرقہ پڑھنے والے کی اصطلاح ہے لیکن اُس اصطلاح کو کیا نام دیا جائے جب لکھنے والے کواپنا احساس، خیال یا اسی طرح کا نفس ِمضمون خود لکھنے کے بعد بہت جلد کہیں اور لکھا مل جائے۔روزمرہ کے اخباری کالم میں۔۔۔ کسی پرانے اخبار میں۔۔۔ کسی الماری میں رکھی پرانی کتاب میں اور یا پھرمیڈیا کی رنگین دُنیا میں کہیں بھی سماعتوں کو چھو جائے اور حد تو یہ ہے کہ کسی کو فی البدیہہ سنتے وقت اپنا خیال۔۔۔اپنے لفظ اس کی زبان سے ادا ہو جائیں۔ اس لمحے دل تشکر کے بس ایک ہی احساس کا ورد کرتا ہے۔
وہ ہے "مہر" ۔۔"سند"
جسے دُنیا کا کوئی بھی انسان دینے کی اہلیت نہیں رکھتا ۔اور یہی احساس شوقِ سفر کو مہمیز کرتا ہے،اپنے اندر کی دُنیا کی وسعتیں کھوجنے پر اُُکساتا ہے اور اپنی ذات پراعتماد بھی قائم رکھتا ہے۔

جمعہ, جنوری 03, 2014

" محمد صلی اللہ علیہ وٰاٰلہ وسلم "

" محمد صلی اللہ علیہ وٰاٰلہ وسلم "
" مُحمد رسُول اللہ "
( محمد اللہ کے رسول ہیں )
آیت ِبالا میں نبی ﷺ کا نام بھی ہے اور حضور ﷺ کا منصب بھی بتایا گیا ہے۔ ہردواعتبار سے آیت ِبالا خصوصیات ِنبویہ کی مظہر ہے۔ واضح ہو کہ انبیائے کرام علیہم السلام میں سے کسی نبی کا نام ایسا نہیں پایا جاتا کہ وہ نام ہی اپنے مسمٰی کے کمالاتِ نبوت کا شاہد ہو۔ جیسے
آدم ۔۔۔۔۔ گندم گوں ۔ ابوالبشر کا یہ نام اُن کے جسمانی رنگ کو ظاہر کرتا ہے۔
نوح۔۔۔۔۔ آرام ۔ باپ نے ان کو راحت وآرام کا موجب قرار دیا ۔
اسحٰق ۔۔۔۔۔ ضاحک ،ہنسنے والا ۔ ہشاش بشاش چہرے والے تھے ۔
یعقوب ۔۔۔۔۔ پیچھے آنے والا ۔ یہ اپنے بھائی عیسو کے ساتھ توام پیدا ہوئے تھے۔
موسٰی ۔۔۔۔۔۔ پانی سے نکالا ہوا ۔ جب ان کا صندوق پانی سے نکالا ،تب یہ نام رکھا گیا۔
یحیٰی ۔۔۔۔۔ عمر دراز۔ بڈھے ماں باپ کی بہترین آرزوؤں کا ترجمان ہے ۔
عیسٰی ۔۔۔۔ سُرخ رنگ ۔ چہرہ گلگوں کی وجہ سے یہ نام تجویز ہوا ۔
" محمدﷺ ۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ ذات جس کی تعریف کی گئی "

بدھ, جنوری 01, 2014

" 2013 ۔۔۔۔ الوداع"

" 2013 ۔۔۔۔ الوداع"
اس سال میں نہ صرف اجنبی چہروں نے میرے الفاظ کے سہارے مجھے دریافت کیا بلکہ میں نے بھی اپنی اندر اتنی نئی دنیائیں دیکھیں کہ اُن کے رنگوں کی ہمہ گیری اورجذبوں کی روانی نے قدم رُکنے نہیں دیئے۔ سوچ کو لفظ کا لباس پہنانا اتنا خوبصورت اتنا فرحت بخش بھی ہو سکتا ہے میں اس سے پہلے سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔ لفظ پریوں کی طرح دبے پاؤں اترتے اورمیں اسی خاموشی کے ساتھ اُن کو کبھی کاغذ کبھی اپنےبلاگ کے حوالے کردیتی۔ دُنیا کے وسیع افق پر تنہا پرواز کرنا ایک عجیب سرخوشی کی کیفیت تھی اس"سولو فلائیٹ " کی لذت کوایک ہوابازہی بہترمحسوس کر سکتا ہے۔
سوچ سفر میں میرے لیے ہر پرواز ہی ناقابل فراموش تھی کہ لفظ لکھنے کے بعد جب میرے اندر اترتا تو اتنی سرشاری اتنی لذت ملتی کہ دل کرتا جلد سے جلد دوسروں کو بھی اس کے لمس میں شریک کیا جائے اورکسی ایک کا اتنا سا اظہار بھی کہ اس نے میرے لفظوں کو چھوا ہے مجھے میری مزدوری دے دیتا۔ آج اس پل میرے لیے بہت مشکل ہے کہ سال کےچند بلاگ منتخب کروں لیکن وہ خاص بلاگ جن کے لکھنے کی تازگی آج بھی میرے ساتھ ہے اور مجھے ان لمحوں کی یاد دلاتی ہےجو میری زندگی میں شاید پہلی اورآخری بارآئے۔ میں صرف اپنی یاداشت کے آرکائیو کی خاطراُن کے لنک یہاں محفوظ کرنا چاہتی ہوں۔
میرا اپنی نظر میں سب سے خوبصورت بلاگ جو گھر کے لان میں بیٹھ کرملگجے اندھیرے میں تقریباً ایک سے دو گھنٹے میں اس شام کی صبح لکھا جب کپتان کو چوٹ لگی تھی۔ رات کولکھنے کا ذرا سا بھی خیال نہ تھا بس ایک احساس تھا اور پھرنماز فجرکےبعد ایک جذب کےعالم میں لکھتی چلی گئی اوراسی روز دن دو بجے پوسٹ بھی کردیا۔
"عمران خان کے لیے"
"نظر لگ گئی"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ تقریباً چوبیس گھنٹوں پر محیط میرے شب وروز کی کہانی ہے جو انجان زمینوں پرانجان چہروں کے درمیان میری زندگی کی کتاب میں شامل ہوئی۔اس اجنبی ماحول میں بھرپور اپنائیت ملی اوراُس سے بڑھ کر قلم نے جس رفتار سے میری سوچ کا ساتھ دیا وہ میرے لیے زندگی کا یادگار تجربہ تھا ۔ میں وہ ناتجربہ کار فوٹوگرافر تھی جو صحیح طور پر فوکس کرنے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتا لیکن پھر بھی سوچوں کی یلغارکے ہر ہر لمحے کو یوں چابکدستی سے کاغذ پر اتارتی کہ لکھنے کی لذت میں اپنا آپ بھول جاتی۔
"ضلع گجرات کے ایک گاؤں کا سفر"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ میرے ان چند بلاگز میں سے ایک ہے جو مختصر ترین وقت میں بلاگ پرہی روانی میں لکھا اورپھراُسی وقت پوسٹ
بھی کیا۔
"حمید کاشمیری کی شفقت کی خوشبو"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سال کے آخری مہینوں میں عظیم لکھاریوں کی قربت کے احساس سے مہکتے میرے وہ بلاگ بھی تھے۔ جن کو لکھنے
کا اپنا لطف تھا کہ حال میں ماضی کا لمحہ یوں محسوس کرنا جیسےابھی اسی وقت گرفت میں آگیا ہو۔
ممتاز مفتی اور وہ۔۔۔۔۔
پروین شاکرکے نام ۔۔۔۔
"خوشبو سے خوشبو تک"
میرے بہت پیارے دوست تو میرے وہ بلاگ ہیں کہ جن میں اُترکرمیں نے اپنا آپ تلاش کیا۔ میری سوچ میرے احساس کی ترجمانی کرتے ان بلاگز کا چناؤ بہت مشکل ہے اور کسی کے لیے ان کا سمجھنا شاید اس سے بھی مشکل۔ لیکن یہ میرا قیمتی اثاثہ ہیں ۔ کچھ تلخ ،کچھ الجھے اورکچھ خواب لمحے۔۔۔۔ بس میرے سچے کھرے جذبے ہیں اور یہی میرے لیے کافی ہے۔ لفظ محسوس کرنے والے اذہان کی ممنون ہوں۔ اورتنقید کرنے والوں کی تہہ دل سے شکرگزارکہ ان کے کہہ دینے کا حوصلہ میرے اعتماد میں اضافہ کرتا ہے۔
آخری بات!
اس سال ناآشنا چہروں نے جہاں میرے لفظوں سے میری تصویرکشی کی، وہیں اس سفر میں ملنے والے چہروں کو پڑھنا میرے لیے ایک جہانِ حیرت بھی تھا ۔جس میں ڈوب ڈوب کر مجھے سچے موتی بھی ملتے اورایسے سنگریزے بھی جوخود بخود ہی میری راہ میں آتے اور پھر وقت کی گرد میں گم ہو جاتے۔
زندگی کا ایک نیا سبق یہ بھی ملا کہ ہمیں ملنے والے احساس لہروں کی مانند ہیں۔ یہ آتے ہیں اورگزر جاتے ہیں۔ان کو روکنا نہیں چاہیے۔ ہماری قسمت نے ان لہروں میں جو لکھا ہے وہ مل کر رہتا ہے۔ برداشت کا ہنرعطا ہو جائے تو جوہر ملتے ہیں ورنہ وہ ہماری جلد بازی کے سبب نظروں سے اوجھل رہتے ہیں۔ اورپاؤں کی سرکتی ریت کی مانند ایسے ساتھ بھی ملتے ہیں جنہیں وقت خود ہی ہماری گرفت سے دور لے جاتا ہے۔ بس اپنے آپ پر یقین سب سے اہم ہے۔

"سیٹل اور سیٹل منٹ"

سورۂ فرقان(25) آیت 2۔۔   وَخَلَقَ كُلَّ شَىْءٍ فَقَدَّرَهٝ تَقْدِيْـرًا ترجمہ۔ اور جس نے ہر شے کو پیدا کیا اور پھر اس کے لیے ایک اند...