ہر انسان کی زندگی میں کبھی نہ کبھی کوئی بُت شکن ضرور آتا ہے۔جتنا بڑا مندر ہو گا اُتنا ہی وقت لگےگا۔۔۔ارادوں،خواہشوں اورعقیدوں کے بُت مسمار کرنے میں ۔ اس لیے جتنی جلدی اپنے بُت خود توڑ لو اچھا ہے۔۔۔ ورنہ آخری بُت شکن کا کچھ پتہ نہیں کہ کب آن دھمکے۔ پھر یقین کا بُت تو سلامت رہتا ہے لیکن عمل کی مٹی بھربھری ہو چکی ہوتی ہے۔
انسان سے بڑا سومنات کہیں نہیں،کوئی نہیں۔ہر بُت شکن کے بعد نئے عزم نئے حوصلے سےپہلے سے بھی زیادہ مضبوط فصیلیں لگا کر عقل وفہم کے بُت تراشتا ہے۔ نہیں جانتا کہ کب جذبات کی منہ زورآندھیاں بُت شکن کی صورت سب کچھ تہہ وتیغ کر ڈالیں۔
سب یقین کی کرامات ہیں۔یقین اگر بُت پر بھی ہو تو جواب ضرور ملتا ہے ورنہ آج دنیا میں کوئی ایک بھی بت پرست نہ ہوتا۔ ایک عام انسان کیسے کسی کے یقین کے سامنے پتھر بن سکتا ہے بس اُس کے پاؤں کی زنجیریں اسے بےحرکت بنا دیتی ہیں۔۔۔کچھ بھی کہنے کچھ بھی سننے سے۔
۔"تصورِبُتاں"۔۔۔ پُجاری ہمیشہ محروم ہی رہتا ہے چاہےساری زندگی دان کر دے۔ توحید پرست ہمیشہ پا لیتا ہے اگر آخری سانس سے پہلے ادراک ہو جائے۔
۔"بُت" ۔۔۔ بتوں سے محبت انسان کی جبلت ہے تو انہیں دل میں جگہ نہ دینا انسان کی کامیابی۔بُت ہر احساس سے ماورا ہوتے ہیں چاہے گھر میں رکھیں یا گھر سے باہر انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ فرق انسان کے عقیدے میں ضرور پڑ جاتا ہے۔مندر بغیر بت کے ایسا ممکن ہی نہیں۔توحید پرستی بھی بت پرستی کی حقیقت جانے بنا دل میں نہیں اُترتی۔
( حضرت ابراہیم علیہ السلام کا قصہ۔۔۔سُوۡرَةُ الاٴنعَام آیت 74۔۔83 )
!آخری بات
بُت ٹوٹنے کے لیے ہی ہوتے ہیں چاہے خواہشوں کے ہوں یا مٹی کے۔اگر اپنے ہاتھوں سے اُنہیں سنوارکرخود ہی ریزہ ریزہ کر دو اور اس مٹی سے چراغ بنا لو تو اُن کی روشنی سدا تمہاری روح کو منور کرتی رہے گی ورنہ بُت تو ٹوٹ ہی جایا کرتے ہیں وقت کی تلوارسے۔
انسان سے بڑا سومنات کہیں نہیں،کوئی نہیں۔ہر بُت شکن کے بعد نئے عزم نئے حوصلے سےپہلے سے بھی زیادہ مضبوط فصیلیں لگا کر عقل وفہم کے بُت تراشتا ہے۔ نہیں جانتا کہ کب جذبات کی منہ زورآندھیاں بُت شکن کی صورت سب کچھ تہہ وتیغ کر ڈالیں۔
سب یقین کی کرامات ہیں۔یقین اگر بُت پر بھی ہو تو جواب ضرور ملتا ہے ورنہ آج دنیا میں کوئی ایک بھی بت پرست نہ ہوتا۔ ایک عام انسان کیسے کسی کے یقین کے سامنے پتھر بن سکتا ہے بس اُس کے پاؤں کی زنجیریں اسے بےحرکت بنا دیتی ہیں۔۔۔کچھ بھی کہنے کچھ بھی سننے سے۔
۔"تصورِبُتاں"۔۔۔ پُجاری ہمیشہ محروم ہی رہتا ہے چاہےساری زندگی دان کر دے۔ توحید پرست ہمیشہ پا لیتا ہے اگر آخری سانس سے پہلے ادراک ہو جائے۔
۔"بُت" ۔۔۔ بتوں سے محبت انسان کی جبلت ہے تو انہیں دل میں جگہ نہ دینا انسان کی کامیابی۔بُت ہر احساس سے ماورا ہوتے ہیں چاہے گھر میں رکھیں یا گھر سے باہر انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ فرق انسان کے عقیدے میں ضرور پڑ جاتا ہے۔مندر بغیر بت کے ایسا ممکن ہی نہیں۔توحید پرستی بھی بت پرستی کی حقیقت جانے بنا دل میں نہیں اُترتی۔
( حضرت ابراہیم علیہ السلام کا قصہ۔۔۔سُوۡرَةُ الاٴنعَام آیت 74۔۔83 )
!آخری بات
بُت ٹوٹنے کے لیے ہی ہوتے ہیں چاہے خواہشوں کے ہوں یا مٹی کے۔اگر اپنے ہاتھوں سے اُنہیں سنوارکرخود ہی ریزہ ریزہ کر دو اور اس مٹی سے چراغ بنا لو تو اُن کی روشنی سدا تمہاری روح کو منور کرتی رہے گی ورنہ بُت تو ٹوٹ ہی جایا کرتے ہیں وقت کی تلوارسے۔
خوبصورت تحریر واقعی "بت ٹوٹنے کے لئے ہی ہوتے ہیں"
جواب دیںحذف کریںبُت ٹوٹ جاتے ہیں۔۔۔۔ پر دیکھا جائے تو بُت ٹوٹنے کے لیے ہی بنے ہیں۔۔۔ اور انسانی بُت جس حال میں بھی ٹوٹے، اگر اللہ چاہے تو بُت ہمیشہ سبق کے لیے ہی ٹوٹے گا۔۔۔۔ اور ٹوٹتا بھی اسی لیے ہے۔۔۔ اسلیے بس دعا کیجائے اور پریشان نا ہوا جائے۔۔۔ آل از ویل
جواب دیںحذف کریںاور جیہڑا مندر ہی بتوں سے خالی ہو، ادھر بت شکن آ کر کیا توڑے گا۔؟؟۔
جواب دیںحذف کریںپجاری کا سر؟؟۔
مندر بغیر بت کے ایسا ممکن ہی نہیں۔ اور توحید پرستی بھی بت پرستی کی حقیقت جانے بنا دل میں نہیں اُترتی (حضرت ابراہیم علیہ السلام کا قصہ)
حذف کریں
جواب دیںحذف کریںریت سے بت نہ بنا اے مرے اچھے فنکار
ایک لمحے کو ٹھہر، میں تجھےپتھرلادوں
===================
میں ترے سامنے انبار لگا دوں، لیکن
کون سے رنگ کا پتھر ترے کام آئےگا
سرخ پتھر جسے دل کہتی ہے بےدل دنیا؟
یا وہ پتھرائی ہوئی آنکھ کا نیلا پتھر
جس میں صدیوں کے تحیّر کے پڑے ہوں ڈورے؟
کیا تجھے روح کے پتھر کی ضرورت ہوگی؟
جس پہ حق بات بھی پتھر کی طرح گرتی ہے
اک وہ پتھر ہے جسے کہتے ہیں تہذیبِ سفید
اس کے مرمر میں سیاہ خون جھلک جاتا ہے
ایک انصاف کا پتھر بھی تو ہوتا ہے، مگر
ہاتھ میں تیشۂ زر ہو تو وہ ہاتھ آتا ہے
جتنے معیار ہیں اس دور کے سب پتھر ہیں
جتنے افکار ہیں اس دور کےسب پتھر ہیں
شعر بھی، رقص بھی، تصویرو غنا بھی پتھر
میرا الہام، ترا ذہن رسا بھی پتھر
اس زمانے میں تو ہر فن کا نشاں پتھر ہے
ہاتھ پتھر ہیں ترے،میری زباں پتھر ہے