پچیس جنوری 2014 ۔۔۔۔۔
وہ ایک باتونی بچی تھی ۔ ہروقت بےچین رہتی ،سوال پوچھتی ،چیزوں کے اندرجھانکتی۔اپنے پیاروں کی آنکھ کا تارا تھی اور سب خوشی خوشی اپنے طور پراُسے مطمئن کرنا چاہتے۔ وہ پھولوں سے تتلیوں سے باتیں کرتی تورنگ برنگے پتھروں سے بھی جی لگاتی ،سنگِ مرمر کےٹکڑے کہیں پڑے ملتے تو جھولی میں بھر لیتی اورکہتی گھر بناؤں گی تو اُس میں لگاؤں گی ۔ رات کے وقت پودوں کی اُداسی کو اپنے اندر محسوس کرتی ۔ کوئی پھول کی خوشبو کا تمنائی ہوتا ہے وہ پتوں کی سرد تاریکی پر ٹھٹک جاتی ،رُک جاتی ۔ دن کو ہوا کے نرم جھونکوں کی طرح اُڑتی پھرتی ۔ کبھی کسی کی تسکین کرتی کبھی کوئی اس کے قریب رہنا چاہتا ۔ وہ اپنے کام اپنے مقصد سے کبھی غافل نہیں رہی ۔ نصابی کتابیں اُس کے لیے سب سے اہم تھیں ۔ بڑی ہوتی گئی تو گھر سے اسکول کے سفر میں اُستاد سے پرنسپل تک سب اُس کے گرویدہ تھے۔ وہ خوب بولتی ،چھٹیوں کے بعد اسکول آ کر اپنے قصے سب کو سناتی ۔اورتو اور اپنے شفیق پرنسپل کے دفتر جا کر ان کے پوچھنے پرگزشتہ رات سینما میں دیکھی گئی فلم پربےدھڑک تبصرہ بھی کرتی۔اپنے غیر نصابی کام ذمہ داری سےکرنے کے ساتھ جماعت میں اچھے نمبرلینا تو سب سے پہلا فرض تھا۔
ذرا بڑی ہوئی تو لفظ سےمحبت ہو گئی ۔ وہ لفظ جمع کرتی ،لفظ پڑھتی ۔الف لیلیٰ کی کہانیوں سےبات شروع ہوئی تو گویا عمروعیار کی زنبیل کی طرح ایک پٹارہ ہی کھل گیا ہو کہ پھر اُس نے پیچھے پلٹ کرنہ دیکھا۔ لوگوں سے باتیں کر کے دُنیا کی نئی جہت دریافت کرنے کی خواہش اُسے کتابوں کی طرف کھینچ لائی کہ کتابیں تو خاموش ساتھی ہوتی ہیں اور درست جگہ پہنچاتی ہیں۔ سفر کچھ اس تیزی سے بڑھ رہا تھا کہ دس گیارہ برس کی عمرمیں"سب رنگ"،"جاسوسی " اور "سسپنس ڈائجسٹ "سےلے کر"اردو ڈائجسٹ" اور پھر"حکایت ڈائجسٹ" بڑے ذوق وشوق سے لیکن بڑوں سے محتاط رہتے ہوئے پڑھنے کانشہ سا پڑتا چلا گیا ۔ساتھ ساتھ پریوں کی کہانیاں بھی پڑھتی اور چوری چوری خواتین کے رسالے بھی ۔ایک شوق جاسوسی اورسسپنس والی کہانیاں بھی تھیں۔شرلاک ہومز اور ڈاکٹر واٹسن کے کردار اورپھر جناب اشتیاق احمد کی تازہ آنے والی کتابیں توگویا دُنیا کی سب سے بڑی نعمت تھیں جن کا بڑی بےچینی سے انتظار کیا جاتا اوراپنی عیدی اور پاکٹ منی اسی لیے گن گن کرسنبھالی جاتی ۔ وہ محلے کی لائبریری سے بھی کتابیں لاتی اورپڑھ کر اگلے روز واپس کردیتی ۔ کوئی اس کی راہ میں حائل نہیں تھا کہ وہ اسکول کی کتابیں بھی اسی ذوق وشوق سے پڑھتی تھی اورقرآن پاک بھی بہت کم عمری میں مکمل پڑھ لیا تھا۔
اُس کی تلاش"لفظ" میں تھی ۔ وقت دھیرے دھیرے سرک رہا تھا لیکن وہ بہت تیزی سے کبھی کسی سوچ کی ڈال پر اور کبھی کہیں ۔ وہ میلوں میں جاتی،جھولے جھولتی ، فلمیں دیکھتی اورڈرامے بھی اورہر وقت سیکھنے اورجاننے کی جستجو میں رہتی۔لفظ سے محبت کے اس سفر میں نصابی کُتب بھی پیچھے نہ تھیں۔ہرمضمون ایک نئی دنیا میں لے جاتا اوروہ "اُس" دنیا میں آنے کا حق ادا کرنے کی دل سے کوشش کرتی۔ہائی اسکول میں اُساتذہ کی خاص توجہ کا مرکز بنی تو اُن کی محنت سے چمک آئی یوں کہ بورڈ میں پوزیشن لی اوروظیفہ بھی ملا۔
وہ باتونی بچی جوں جوں بڑی ہوتی گئی خاموشی اُس کی روح میں گھر کرنے لگی۔ لفظ اورانسان کے درمیان گہرا تضاد اُس کی سمجھ سے باہر تھا۔ وہ انسان کی سچائی لفظ سےماپتی تھی لیکن حقیقت کی دُنیا میں ایسا بالکل بھی نہ تھا۔ اُسے معلوم ہوا کہ علم اورعمل میں کئی جگہ وسیع خلیج ہے۔ کہیں علم ہے توعمل ندارد اورکہیں انسان چاہتے ہوئے بھی علم کے مطابق عمل نہیں کرسکتا ۔اورکبھی عمل محض کاغذی پھولوں کی مانند دکھتا ہے۔
انسانی فطرت کے مکروہ چہرے اُسے اپنی ذات کے خول میں بند رہنے پر مجبور کرتے تو محبتوں کی موسلادھار بارشیں بھی بے یقینی کی بنجر زمین کو سیراب نہ کر پاتیں۔ وہ محبتوں کی کھوج میں محبتوں سے دور بھاگنے لگی ۔ وہ انسان کی تلاش میں تھی ۔ اِسی تلاش نے اُسے اندر کے انسان سے ملا دیا ۔ پھر اُسے سب سے بڑا فساد اپنے اندر نظر آیا کہ جب ہم اللہ سے چاہتے ہیں کہ ہمیں معاف کر دے تو ہم بندوں کو کیوں نہیں معاف کرتے۔اللہ سے ہم ہر وقت اپنے بڑے بڑے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں اور اپنے جیسے انسانوں کے چھوٹے چھوٹے قصور معاف کرنے میں جان نکلتی ہے۔
یہ سوال سر اُبھارتے،وہ جواب ڈھونڈتی پھرتھک کر خرگوش کی طرح سو جاتی جب آنکھ کھلتی ،منزل تو سامنے نظر آ جاتی پر رستہ نہ دکھائی دیتا تھا ۔ وہ سوچتی کہ میں اللہ کا شکر ادا نہیں کر پا رہی یا مجھ میں برداشت کی کمی ہے۔ عقل کہتی اے انسان! تو نے تو برداشت کرنے میں اپنی ساری توانائی خرچ کردی ہے اب تو تیرے پاس تیزی سے سرکتے ماہ وسال کے سوا کچھ بھی نہیں بچا۔سوچوں کی انہی بھول بھلیوں میں وہ الجھنے لگی۔دُنیا کو جاننے اور پھر خود کو سمجھنے کی کوشش نے اُسے توڑ کر رکھ دیا۔ پھراپنے کرچی کرچی وجود کو خود ہی جوڑ کر اُس نےنئی زندگی کا آغاز کیا تو رنگوں روشنیوں کی ایک عجیب کائنات منتظر تھی ۔ پہلا قدم اُٹھانے کی دیر تھی راستے خود بخود ہی اس کے قدموں کی دھول بنتے چلے گئے۔
باتونی لڑکی سے گونگی عورت کے اس سفر میں اس نے نہ جانے کیا کیا کھویا اورکیا پایا؟جان کربھی نہ جان سکی۔۔۔جانا تو بس اتنا کہ جتنی بُری طرح اس نے اپنے احساس کونظرانداز کیا اتنا برا شاید کسی اورنے اس کے ساتھ نہ کیا ہوگا۔اور جس طور اپنی حدودوقیود کے اندر رہتے ہوئے آسمان کو چھونے کی سعی کی شاید اس سے زیادہ کوئی بھی اس "تنہا پرواز" کی لذت سےآشنا نہ ہوا ہو گا۔ایسی پروازکہ جس کی تربیت کبھی کسی سے نہ لی تھی اوراس کے اسرارورموز سے آگہی میں ہمسفر بھی کوئی نہ تھا۔قوتِ پرواز رہنما تھی تورُکاوٹ بھی یہی کہ اپنی حدود سے آگے بڑھنے کی اجازت نہ دیتی تھی،سرد مہری اورناقدری کے احساس کی برف کی سلیں جامد گلیشئیربن کر بھی اُس کے اندر کے آتش فشاں کو روک نہ سکیں۔
وہ باتونی لڑکی اپنے آپ سے باتیں کرتی ،اُن کو لفظوں میں سمو کر شانت ہو جاتی۔ اب اس کی زبان نہیں اُس کے لفظ بولتے تھے۔لفظوں کو راستہ ملا تو اس کے وجود کا ہرانگ چیخنے لگا ۔ خیال کی مدھر رم جھم جب موسلا دھار بارش کی صورت برستی تو ہراحساس ہرجذبہ معصوم صورت بنائے کھڑا ملتا اوروہ مسکرا مسکرا کراُن کی "اصل" جانتے ہوئے بھی بس دیتی جاتی بانٹتی جاتی۔
کرنا بھی کیا تھا پاس رکھ کر، جب سب یہاں ہی چھوڑ جانا ہے۔خالی ہاتھ سب جھاڑ کر جانا مقدر ہے تو پھر دے دو جہاں تک ہوسکے۔جتنی استطاعت ہے جتنی"اوقات" ہے اورجتنا "وقت"۔
وقت کبھی کسی کو نہیں ملا اورنہ کسی کا ہوا ہے۔ کبھی ہم گزرجاتے ہیں پرہمارا وقت رہ جاتا ہے۔اورکبھی ہم رہ جاتے ہیں لیکن ہمارا وقت گزر جاتا ہے۔ زندگی نے اُسے یہی پیغام دیا تھا کہ اگر ہم اپنے آپ سے دوستی کر لیں اپنے آپ کو جان جائیں تو لوگوں کو جاننا آسان ہو جاتا ہے۔
وہ ایک باتونی بچی تھی ۔ ہروقت بےچین رہتی ،سوال پوچھتی ،چیزوں کے اندرجھانکتی۔اپنے پیاروں کی آنکھ کا تارا تھی اور سب خوشی خوشی اپنے طور پراُسے مطمئن کرنا چاہتے۔ وہ پھولوں سے تتلیوں سے باتیں کرتی تورنگ برنگے پتھروں سے بھی جی لگاتی ،سنگِ مرمر کےٹکڑے کہیں پڑے ملتے تو جھولی میں بھر لیتی اورکہتی گھر بناؤں گی تو اُس میں لگاؤں گی ۔ رات کے وقت پودوں کی اُداسی کو اپنے اندر محسوس کرتی ۔ کوئی پھول کی خوشبو کا تمنائی ہوتا ہے وہ پتوں کی سرد تاریکی پر ٹھٹک جاتی ،رُک جاتی ۔ دن کو ہوا کے نرم جھونکوں کی طرح اُڑتی پھرتی ۔ کبھی کسی کی تسکین کرتی کبھی کوئی اس کے قریب رہنا چاہتا ۔ وہ اپنے کام اپنے مقصد سے کبھی غافل نہیں رہی ۔ نصابی کتابیں اُس کے لیے سب سے اہم تھیں ۔ بڑی ہوتی گئی تو گھر سے اسکول کے سفر میں اُستاد سے پرنسپل تک سب اُس کے گرویدہ تھے۔ وہ خوب بولتی ،چھٹیوں کے بعد اسکول آ کر اپنے قصے سب کو سناتی ۔اورتو اور اپنے شفیق پرنسپل کے دفتر جا کر ان کے پوچھنے پرگزشتہ رات سینما میں دیکھی گئی فلم پربےدھڑک تبصرہ بھی کرتی۔اپنے غیر نصابی کام ذمہ داری سےکرنے کے ساتھ جماعت میں اچھے نمبرلینا تو سب سے پہلا فرض تھا۔
ذرا بڑی ہوئی تو لفظ سےمحبت ہو گئی ۔ وہ لفظ جمع کرتی ،لفظ پڑھتی ۔الف لیلیٰ کی کہانیوں سےبات شروع ہوئی تو گویا عمروعیار کی زنبیل کی طرح ایک پٹارہ ہی کھل گیا ہو کہ پھر اُس نے پیچھے پلٹ کرنہ دیکھا۔ لوگوں سے باتیں کر کے دُنیا کی نئی جہت دریافت کرنے کی خواہش اُسے کتابوں کی طرف کھینچ لائی کہ کتابیں تو خاموش ساتھی ہوتی ہیں اور درست جگہ پہنچاتی ہیں۔ سفر کچھ اس تیزی سے بڑھ رہا تھا کہ دس گیارہ برس کی عمرمیں"سب رنگ"،"جاسوسی " اور "سسپنس ڈائجسٹ "سےلے کر"اردو ڈائجسٹ" اور پھر"حکایت ڈائجسٹ" بڑے ذوق وشوق سے لیکن بڑوں سے محتاط رہتے ہوئے پڑھنے کانشہ سا پڑتا چلا گیا ۔ساتھ ساتھ پریوں کی کہانیاں بھی پڑھتی اور چوری چوری خواتین کے رسالے بھی ۔ایک شوق جاسوسی اورسسپنس والی کہانیاں بھی تھیں۔شرلاک ہومز اور ڈاکٹر واٹسن کے کردار اورپھر جناب اشتیاق احمد کی تازہ آنے والی کتابیں توگویا دُنیا کی سب سے بڑی نعمت تھیں جن کا بڑی بےچینی سے انتظار کیا جاتا اوراپنی عیدی اور پاکٹ منی اسی لیے گن گن کرسنبھالی جاتی ۔ وہ محلے کی لائبریری سے بھی کتابیں لاتی اورپڑھ کر اگلے روز واپس کردیتی ۔ کوئی اس کی راہ میں حائل نہیں تھا کہ وہ اسکول کی کتابیں بھی اسی ذوق وشوق سے پڑھتی تھی اورقرآن پاک بھی بہت کم عمری میں مکمل پڑھ لیا تھا۔
اُس کی تلاش"لفظ" میں تھی ۔ وقت دھیرے دھیرے سرک رہا تھا لیکن وہ بہت تیزی سے کبھی کسی سوچ کی ڈال پر اور کبھی کہیں ۔ وہ میلوں میں جاتی،جھولے جھولتی ، فلمیں دیکھتی اورڈرامے بھی اورہر وقت سیکھنے اورجاننے کی جستجو میں رہتی۔لفظ سے محبت کے اس سفر میں نصابی کُتب بھی پیچھے نہ تھیں۔ہرمضمون ایک نئی دنیا میں لے جاتا اوروہ "اُس" دنیا میں آنے کا حق ادا کرنے کی دل سے کوشش کرتی۔ہائی اسکول میں اُساتذہ کی خاص توجہ کا مرکز بنی تو اُن کی محنت سے چمک آئی یوں کہ بورڈ میں پوزیشن لی اوروظیفہ بھی ملا۔
وہ باتونی بچی جوں جوں بڑی ہوتی گئی خاموشی اُس کی روح میں گھر کرنے لگی۔ لفظ اورانسان کے درمیان گہرا تضاد اُس کی سمجھ سے باہر تھا۔ وہ انسان کی سچائی لفظ سےماپتی تھی لیکن حقیقت کی دُنیا میں ایسا بالکل بھی نہ تھا۔ اُسے معلوم ہوا کہ علم اورعمل میں کئی جگہ وسیع خلیج ہے۔ کہیں علم ہے توعمل ندارد اورکہیں انسان چاہتے ہوئے بھی علم کے مطابق عمل نہیں کرسکتا ۔اورکبھی عمل محض کاغذی پھولوں کی مانند دکھتا ہے۔
انسانی فطرت کے مکروہ چہرے اُسے اپنی ذات کے خول میں بند رہنے پر مجبور کرتے تو محبتوں کی موسلادھار بارشیں بھی بے یقینی کی بنجر زمین کو سیراب نہ کر پاتیں۔ وہ محبتوں کی کھوج میں محبتوں سے دور بھاگنے لگی ۔ وہ انسان کی تلاش میں تھی ۔ اِسی تلاش نے اُسے اندر کے انسان سے ملا دیا ۔ پھر اُسے سب سے بڑا فساد اپنے اندر نظر آیا کہ جب ہم اللہ سے چاہتے ہیں کہ ہمیں معاف کر دے تو ہم بندوں کو کیوں نہیں معاف کرتے۔اللہ سے ہم ہر وقت اپنے بڑے بڑے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں اور اپنے جیسے انسانوں کے چھوٹے چھوٹے قصور معاف کرنے میں جان نکلتی ہے۔
یہ سوال سر اُبھارتے،وہ جواب ڈھونڈتی پھرتھک کر خرگوش کی طرح سو جاتی جب آنکھ کھلتی ،منزل تو سامنے نظر آ جاتی پر رستہ نہ دکھائی دیتا تھا ۔ وہ سوچتی کہ میں اللہ کا شکر ادا نہیں کر پا رہی یا مجھ میں برداشت کی کمی ہے۔ عقل کہتی اے انسان! تو نے تو برداشت کرنے میں اپنی ساری توانائی خرچ کردی ہے اب تو تیرے پاس تیزی سے سرکتے ماہ وسال کے سوا کچھ بھی نہیں بچا۔سوچوں کی انہی بھول بھلیوں میں وہ الجھنے لگی۔دُنیا کو جاننے اور پھر خود کو سمجھنے کی کوشش نے اُسے توڑ کر رکھ دیا۔ پھراپنے کرچی کرچی وجود کو خود ہی جوڑ کر اُس نےنئی زندگی کا آغاز کیا تو رنگوں روشنیوں کی ایک عجیب کائنات منتظر تھی ۔ پہلا قدم اُٹھانے کی دیر تھی راستے خود بخود ہی اس کے قدموں کی دھول بنتے چلے گئے۔
باتونی لڑکی سے گونگی عورت کے اس سفر میں اس نے نہ جانے کیا کیا کھویا اورکیا پایا؟جان کربھی نہ جان سکی۔۔۔جانا تو بس اتنا کہ جتنی بُری طرح اس نے اپنے احساس کونظرانداز کیا اتنا برا شاید کسی اورنے اس کے ساتھ نہ کیا ہوگا۔اور جس طور اپنی حدودوقیود کے اندر رہتے ہوئے آسمان کو چھونے کی سعی کی شاید اس سے زیادہ کوئی بھی اس "تنہا پرواز" کی لذت سےآشنا نہ ہوا ہو گا۔ایسی پروازکہ جس کی تربیت کبھی کسی سے نہ لی تھی اوراس کے اسرارورموز سے آگہی میں ہمسفر بھی کوئی نہ تھا۔قوتِ پرواز رہنما تھی تورُکاوٹ بھی یہی کہ اپنی حدود سے آگے بڑھنے کی اجازت نہ دیتی تھی،سرد مہری اورناقدری کے احساس کی برف کی سلیں جامد گلیشئیربن کر بھی اُس کے اندر کے آتش فشاں کو روک نہ سکیں۔
وہ باتونی لڑکی اپنے آپ سے باتیں کرتی ،اُن کو لفظوں میں سمو کر شانت ہو جاتی۔ اب اس کی زبان نہیں اُس کے لفظ بولتے تھے۔لفظوں کو راستہ ملا تو اس کے وجود کا ہرانگ چیخنے لگا ۔ خیال کی مدھر رم جھم جب موسلا دھار بارش کی صورت برستی تو ہراحساس ہرجذبہ معصوم صورت بنائے کھڑا ملتا اوروہ مسکرا مسکرا کراُن کی "اصل" جانتے ہوئے بھی بس دیتی جاتی بانٹتی جاتی۔
کرنا بھی کیا تھا پاس رکھ کر، جب سب یہاں ہی چھوڑ جانا ہے۔خالی ہاتھ سب جھاڑ کر جانا مقدر ہے تو پھر دے دو جہاں تک ہوسکے۔جتنی استطاعت ہے جتنی"اوقات" ہے اورجتنا "وقت"۔
وقت کبھی کسی کو نہیں ملا اورنہ کسی کا ہوا ہے۔ کبھی ہم گزرجاتے ہیں پرہمارا وقت رہ جاتا ہے۔اورکبھی ہم رہ جاتے ہیں لیکن ہمارا وقت گزر جاتا ہے۔ زندگی نے اُسے یہی پیغام دیا تھا کہ اگر ہم اپنے آپ سے دوستی کر لیں اپنے آپ کو جان جائیں تو لوگوں کو جاننا آسان ہو جاتا ہے۔
کچھ باتیں ان کہی رہنے دو
جواب دیںحذف کریں`
کچھ باتیں ان کہی رہنے دو
کچھ باتیں ان سنی رہنے دو
سب باتیں دل کی کہہ دیں اگر
پھر باقی رہ جائے گا
سب باتیں ان کی سن لیں اگر
پھر باقی کیا رہ جائے گا
اک اوجھل بے کلی رہنے دو
اک رنگیں ان بنی دنیا پر
اک کھڑکی ان کھلی رہنے دو
( منیر نیازی)
جواب دیںحذف کریںمیری کہانی بھی اسی طرح کی ہے۔
البتہ میرے محلے میں لائبریری نہیں بلکہ وڈیو سینٹر تھا، جس سے میں اباجی کے وی سی آر نہ خریدنے کے باعث خاطر خواہ تعلیمی فائدہ نہیں اٹھا سکا۔
میں خشکا ہونے کے باوجود، کوئی پوزیشن بھی نہیں لے سکا۔ وہ اصل میں بات یہ تھی کہ ماسٹر بشیر نے بس سوٹیاں مارنے پر زور رکھا، اس لیے امتحانی کمرے میں دماغ اور دایاں ہاتھ دونوں ہی سُن ہو گئے۔ بائیں ہاتھ سے لکھنے کی کوشش کی۔ شائد پوزیشن بھی آجاتی۔ لیکن لگتا ہے کہ پیپر چیک کرنے والوں کو میری لکھائی کی سمجھ نہیں آئی۔ پیپر ری چیکنگ کی درخواست بھی دی، لیکن پھر بھی پوزیشن نہیں آئی۔
بس جی۔ بورڈ والے بہت ہی ناانصافی کرتے ہیں۔ ان کو پوزیشنیں دے دیتے ہیں جن کو ان کی ضرورت ہی نہیں ہوتی۔
لیکن اچھا ہی ہوا کہ پوزیشن نہیں آئی۔ مشاہدہ یہ ہے کہ پوزیشن ہولڈر بچارے فل ٹائم خشک اور مغرور ہو جاتے ہیں اور کسی کو خاطر میں ہی نہیں لاتے۔ گلیوں میں رُلتے ہیں اور آخر عمر میں اپنے میڈل فٹ پاتھ پر بیچنے کی خبریں لگوا رہے ہوتے ہیں۔ بندہ پوچھے کہ اگر بیچنے ہی تھے تو جب ملے تھے اس وقت بیچ۔ اب پچاس سال بعد پرانے میڈل کا کوئی کیا دے گا۔
بس جی۔ خشکے کی معاشی ذہانت لوگوں کے ساتھ رابطہ نہ رکھنے اور اپنے آپ کو عقل کل سمجھنے کی بناء پر بس کم کم ہی ہوتی ہے۔
حادثے ہر انسان کی زندگی میں ہوتے ہیں۔ لیکن کوشش کرنی چاھیئئے کہ گاڑی احتیاط سے چلائی جائے۔ اکثر اوقات سیٹ بیلٹ بندھی ہونے کی وجہ سے خود کی جان بچ جاتی ہے، لیکن پچھلی سیٹ پر پھدکتے بچوں کا قیمہ بن جاتا ہے۔
، میں اسی لیے اپنی بیگم کو ڈرائیونگ کی کلاسیں دلا رہا ہوں، تاکہ اگر کل کلاں میرے ساتھ کوئی حادثہ ہو تو وہ گاڑی میں بچے سکول چھوڑ کر آنے کے قابل ھو۔ بچے سکول سے لیٹ نہیں ہونے چاھیئں، ورنہ ان کے خشکے کلاس فیلو زندگی کی دوڑ میں آگے نکل سکتے ہیں۔
کیا یہ آپ بیتی ہے یا جگ بیتی۔؟
اگر تھوڑی سی ربڑ، مصالحہ و ہیرو ہیروئن ولن کے عجیب نام ڈالیں تو ہو سکتا ہے کہ خواتین کے ماہناموں میں بہت آسانی سے چھپ جائے۔
بڑی دیر کی مہرباں آتے آتے
حذف کریںبس وہ پہلی اورآخری پوزیشن تھی اس کے بعد اس کا بھی بہت کچھ "سُن" ہو کر رہ گیا اور زندگی کی دوڑ میں"خشکہ" ہو کر بھی کبھی کوئی میڈل نہ مل سکا اس لیے خبر لگوانے والی"خبر"کی پُرزور تردید کی جاتی ہے۔ ذہانت معاشی تو کیا معاشرتی بھی نہیں۔ اسی لیےتو"بےکار" ہوکر پیدل سفر کے مزے میں ہے۔ راز کی بات سن لیں آئندہ آگے جا کر کام آئے گی" آخری عمر میں خبر بننے سے بہتر ہے کہ پیدل چلا جائے،مزے کا مزہ اور بونس کی عمر الگ"۔
آپ بیتی ہو یا جگ بیتی، بلاگ لکھنے کا یہی توفائدہ ہے کہ بنا "مصالحے" کے، بغیر کسی احسان یا خرچے کےآسانی سے چھپ جاتی ہے اور" انڈے ٹماٹروں"کے مزے سے لے کر پھیکے شلغم تک سب باآسانی ہضم بھی ہو جاتے ہیں۔
ٹائٹل سے کتاب کا دیباچہ کبھی نہیں لکھا جا سکتا ۔کبھی تو پوری کتاب حفظ کر کے بھی اس پر بحث نہیں کی جاسکتی جب تک کہ اس کو سمجھا نہ جائے یا محسوس نہ کیا جائے۔گلہ نہیں آپ جو سمجھتے ہیں جو محسوس کرتے ہیں لکھ دتیے ہیں
جواب دیںحذف کریںیہ بھی بہت بڑی بات ہے ورنہ منافقی آج کل کی ضرورت ہے۔دل سے چاہوں گی آپ کے "جوتے" برستے رہیں۔
عورتیں ویسے بھی بہت ڈھیٹ ہوتی ہیں ۔ مرنے پر آئیں تو نظر کے تیر سے بھی شکار ہو جاتی ہیں
اور زندہ رہنے کی خواہش پال لیں تو " ممی" کی صورت حنوط ہو جاتی ہیں۔
خدا کے واسطے اب یہ نہ کہنا کہ کہاں سے چرائے یہ " ڈائیلاگ" سب آپ کی چنگاری کا کمال ہے
" آخری عمر میں خبر بننے سے بہتر ہے کہ پیدل چلا جائے،مزے کا مزہ اور بونس کی عمر الگ"۔yai bohat keemti baat kahi aap nai
جواب دیںحذف کریںآج سے 20 پرس پہلے اکثر گھروں میں کچھ ایسا ہی رواج تھا
جواب دیںحذف کریںلیکن پھر کتابیں بڑھنے والوں اور ٹی وی دیکھنے کا رجحان چل پڑا
اور اب انٹرنیٹ پر کتابیں بہت ہیں
لیکن پڑھنے والے ناپید ہیں
کچھ ملتی جلتی سی کہانی ہے
اور یہی آکثر پڑھاکو کہیں گے