" 2013 ۔۔۔۔ الوداع"
اس سال میں نہ صرف اجنبی چہروں نے میرے الفاظ کے سہارے مجھے دریافت کیا بلکہ میں نے بھی اپنی اندر اتنی نئی دنیائیں دیکھیں کہ اُن کے رنگوں کی ہمہ گیری اورجذبوں کی روانی نے قدم رُکنے نہیں دیئے۔ سوچ کو لفظ کا لباس پہنانا اتنا خوبصورت اتنا فرحت بخش بھی ہو سکتا ہے میں اس سے پہلے سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔ لفظ پریوں کی طرح دبے پاؤں اترتے اورمیں اسی خاموشی کے ساتھ اُن کو کبھی کاغذ کبھی اپنےبلاگ کے حوالے کردیتی۔ دُنیا کے وسیع افق پر تنہا پرواز کرنا ایک عجیب سرخوشی کی کیفیت تھی اس"سولو فلائیٹ " کی لذت کوایک ہوابازہی بہترمحسوس کر سکتا ہے۔
سوچ سفر میں میرے لیے ہر پرواز ہی ناقابل فراموش تھی کہ لفظ لکھنے کے بعد جب میرے اندر اترتا تو اتنی سرشاری اتنی لذت ملتی کہ دل کرتا جلد سے جلد دوسروں کو بھی اس کے لمس میں شریک کیا جائے اورکسی ایک کا اتنا سا اظہار بھی کہ اس نے میرے لفظوں کو چھوا ہے مجھے میری مزدوری دے دیتا۔ آج اس پل میرے لیے بہت مشکل ہے کہ سال کےچند بلاگ منتخب کروں لیکن وہ خاص بلاگ جن کے لکھنے کی تازگی آج بھی میرے ساتھ ہے اور مجھے ان لمحوں کی یاد دلاتی ہےجو میری زندگی میں شاید پہلی اورآخری بارآئے۔ میں صرف اپنی یاداشت کے آرکائیو کی خاطراُن کے لنک یہاں محفوظ کرنا چاہتی ہوں۔
میرا اپنی نظر میں سب سے خوبصورت بلاگ جو گھر کے لان میں بیٹھ کرملگجے اندھیرے میں تقریباً ایک سے دو گھنٹے میں اس شام کی صبح لکھا جب کپتان کو چوٹ لگی تھی۔ رات کولکھنے کا ذرا سا بھی خیال نہ تھا بس ایک احساس تھا اور پھرنماز فجرکےبعد ایک جذب کےعالم میں لکھتی چلی گئی اوراسی روز دن دو بجے پوسٹ بھی کردیا۔
"عمران خان کے لیے"
"نظر لگ گئی"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ تقریباً چوبیس گھنٹوں پر محیط میرے شب وروز کی کہانی ہے جو انجان زمینوں پرانجان چہروں کے درمیان میری زندگی کی کتاب میں شامل ہوئی۔اس اجنبی ماحول میں بھرپور اپنائیت ملی اوراُس سے بڑھ کر قلم نے جس رفتار سے میری سوچ کا ساتھ دیا وہ میرے لیے زندگی کا یادگار تجربہ تھا ۔ میں وہ ناتجربہ کار فوٹوگرافر تھی جو صحیح طور پر فوکس کرنے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتا لیکن پھر بھی سوچوں کی یلغارکے ہر ہر لمحے کو یوں چابکدستی سے کاغذ پر اتارتی کہ لکھنے کی لذت میں اپنا آپ بھول جاتی۔
"ضلع گجرات کے ایک گاؤں کا سفر"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ میرے ان چند بلاگز میں سے ایک ہے جو مختصر ترین وقت میں بلاگ پرہی روانی میں لکھا اورپھراُسی وقت پوسٹ
بھی کیا۔
"حمید کاشمیری کی شفقت کی خوشبو"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سال کے آخری مہینوں میں عظیم لکھاریوں کی قربت کے احساس سے مہکتے میرے وہ بلاگ بھی تھے۔ جن کو لکھنے
کا اپنا لطف تھا کہ حال میں ماضی کا لمحہ یوں محسوس کرنا جیسےابھی اسی وقت گرفت میں آگیا ہو۔
ممتاز مفتی اور وہ۔۔۔۔۔
پروین شاکرکے نام ۔۔۔۔
"خوشبو سے خوشبو تک"
میرے بہت پیارے دوست تو میرے وہ بلاگ ہیں کہ جن میں اُترکرمیں نے اپنا آپ تلاش کیا۔ میری سوچ میرے احساس کی ترجمانی کرتے ان بلاگز کا چناؤ بہت مشکل ہے اور کسی کے لیے ان کا سمجھنا شاید اس سے بھی مشکل۔ لیکن یہ میرا قیمتی اثاثہ ہیں ۔ کچھ تلخ ،کچھ الجھے اورکچھ خواب لمحے۔۔۔۔ بس میرے سچے کھرے جذبے ہیں اور یہی میرے لیے کافی ہے۔ لفظ محسوس کرنے والے اذہان کی ممنون ہوں۔ اورتنقید کرنے والوں کی تہہ دل سے شکرگزارکہ ان کے کہہ دینے کا حوصلہ میرے اعتماد میں اضافہ کرتا ہے۔
آخری بات!
اس سال ناآشنا چہروں نے جہاں میرے لفظوں سے میری تصویرکشی کی، وہیں اس سفر میں ملنے والے چہروں کو پڑھنا میرے لیے ایک جہانِ حیرت بھی تھا ۔جس میں ڈوب ڈوب کر مجھے سچے موتی بھی ملتے اورایسے سنگریزے بھی جوخود بخود ہی میری راہ میں آتے اور پھر وقت کی گرد میں گم ہو جاتے۔
زندگی کا ایک نیا سبق یہ بھی ملا کہ ہمیں ملنے والے احساس لہروں کی مانند ہیں۔ یہ آتے ہیں اورگزر جاتے ہیں۔ان کو روکنا نہیں چاہیے۔ ہماری قسمت نے ان لہروں میں جو لکھا ہے وہ مل کر رہتا ہے۔ برداشت کا ہنرعطا ہو جائے تو جوہر ملتے ہیں ورنہ وہ ہماری جلد بازی کے سبب نظروں سے اوجھل رہتے ہیں۔ اورپاؤں کی سرکتی ریت کی مانند ایسے ساتھ بھی ملتے ہیں جنہیں وقت خود ہی ہماری گرفت سے دور لے جاتا ہے۔ بس اپنے آپ پر یقین سب سے اہم ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں