تاریخ ِپیدائش۔۔۔۔۔ 24 نومبر 1952۔۔۔۔۔ کراچی
تاریخ ِوفات ۔۔۔۔۔۔26 دسمبر1994۔۔۔۔۔۔ اسلام آباد
شعری مجموعے
٭1) خوشبو۔ 1977
٭2)صد برگ۔ 1980
٭3)خودکلامی ۔1985
٭4) انکار۔1990
ماہ ِتمام (کلیات)۔ 1994۔وفات سے صرف تین ماہ قبل پروین شاکر نے خود اپنی متذکرہ چاروں کتابوں کی کلیات "ماہ تمام " کے نام سے چھپوائی۔
تاریخ ِوفات ۔۔۔۔۔۔26 دسمبر1994۔۔۔۔۔۔ اسلام آباد
شعری مجموعے
٭1) خوشبو۔ 1977
٭2)صد برگ۔ 1980
٭3)خودکلامی ۔1985
٭4) انکار۔1990
ماہ ِتمام (کلیات)۔ 1994۔وفات سے صرف تین ماہ قبل پروین شاکر نے خود اپنی متذکرہ چاروں کتابوں کی کلیات "ماہ تمام " کے نام سے چھپوائی۔
٭5)کفِ آئینہ۔۔۔۔1996 (بعد از وفات شائع ہوئی)۔
٭6)گوشۂ چشم (کالمز)۔
وہ مارگلہ کی نیلگوں پہاڑیوں سے دھیرے دھیرے اُترتی بادلوں سے ڈھکی ایک اُداس شام تھی۔زندگی سے اپنے لیے ذرا سا
وقت چُراتے ہوئے وہ اپنے کالج کی پرانی دوست کے ساتھ ایک لونگ ڈرائیو پرتھی ۔ 26دسمبر 1994 کے اُس سرد دن وقت تھا اورنہ ہی موقع کہ شام کو ایک شادی کی تقریب میں بھی جانا تھا،پرجب دوست نے آواز دی تو رہ نہ سکی ۔گاڑی میں بس وہ دو تھےاور ڈھیروں ان کہی باتیں۔ لانگ ڈرائیو اوروہ بھی اس خوبصورت شام سب کچھ گویا ایک خواب سا تھا۔
رشتوں کے لیے ہم ساری زندگی بھی دے دیں اُن کی طلب پوری نہیں پڑتی اورنہ ہی ہمارا سفر۔ بس ایک دائرے میں دیوانہ وارگرو وپیش سے بےخبرچکر کاٹتے چلے جاتے ہیں جبکہ دوست کے ساتھ ہم چند پل بھی گزارلیں تو جدائی اوراُداسی کے ملبوس میں لپٹے یہ گلاب لمحے تا زندگی مہک دیتے ہیں،دوست خواہ دل میں رہتا ہو یا دُنیا کے دوسرے حصے میں خوشبو کی لکیر ہمیشہ درمیان میں کھنچی رہتی ہے۔اس شام پتہ نہیں کیا کیا باتیں ہوئیں اورکہاں گئے۔ یاد ہے تو بس اتنا کہ "سپر مارکیٹ"میں ایک بڑی کتابوں کی دُکان میں تھےاورجانے کیا تلاش کرتے تھے،سپر مارکیٹ کا خاص "کاٹج چیز" جو کیلے کے پتوں پرملتا ہے،کھایا اورگہرے ہوتے اندھیرے میں گھر واپس آ گئے۔کون جانتا تھا یہ خوبصورت شام یادوں میں ہمیشہ گہری اُداسی لے کرطلوع ہو گی کہ جب رات کو شادی کی تقریب میں پتہ چلا کہ"خوشبو" کی شاعرہ آج ہم سے ہمیشہ کے لیے بچھڑ گئی ۔آنے والے مہمانوں میں"نورین طلعت عروبہ" بھی تھیں جو شاید اُس کے آخری سفر پرروانہ ہونے سے پہلے اُس سے مل کرآئی تھیں۔پروین شاکر کے لفظ سے قربت اگر کچی عمر کی پہلی محبت تھی تو اسلام آباد میں ہونے والے مشاعروں میں اُس دل پذیر شاعرہ کی جھلک گویا خوابوں کی مجسم تصویر اور پھر بھوری ڈائری میں اُس کومل شاعرہ کے دستخط اور اس کے ہاتھ سے لکھا گیا اس کا شعر ہمیشہ کے لیے ایک قیمتی یاد بن کر محفوظ ہو گیا تھا۔ اس رات یوں لگا جیسے کوئی تتلی پل میں چھب دکھلا کر نظروں سے ہمیشہ کے لیے اوجھل ہوگئی ہو۔غرض کہ وہ دن جو خواب اورخوشی کے انوکھے ملاپ سے شروع ہوا تھا دل گرفتگی اوردُکھ کے ان کہے احساس پراختتام پذیر ہوا۔
آندھی کی زد میں آئے پھول کی طرح "
میں ٹکڑے ٹکڑے ہو کے فضا میں بکھر گئی" ۔۔۔ پروین شاکراپنی آخری سانس کی کہانی بھی خود لکھ گئی۔
پروین شاکر کے بعد بس یوں لگا کہ "خوشبو" کے جانے سے خوشبو کا احساس ہی کھو گیا اورپھرشاعری کے حوالے سےکسی اوردرجانے کی خواہش ہی پیدا نہ ہوئی۔
خواب دیکھنے والی آنکھ اورخوابوں میں رہنے والا ہرمکین "خوشبو" کی سفیر کی قربت کے بھرپوراحساس سے واقف ہی نہیں بلکہ اُسے کبھی فراموش نہیں کرسکتا۔ لیکن اُس دورمیں پروین شاکر کے لفظوں سے شناسائی تو ہوئی لیکن آشنائی کی لذت نہ مل سکی کہ "خوشبو" لمس کی ترجمان تھی ۔ پروین شاکر نے چاہنے اورچاہے جانے کے احساس کو لفظ میں پرویا تھا اوروہ لڑکی ابھی لمس سے کوسوں دورصرف خیال وخواب کے رستے میں تھی۔ خوشبو اپنی جگہ آپ بناتی ہے۔اُس سمے اُس نے اپنی جگہ توڈھونڈ لی تھی لیکن مہک کا احساس برسوں بعد اپنی زندگی کے رنگوں میں تصویر کشی کرتے ہوئے جاگا تو پھر یوں لگا کہ جیسے"خوشبو" تو صرف اُس کے لیے ہی لکھی گئی تھی اور"خوشبو" کے لفظ لفظ میں اُس کا اپنا وجود بولتا تھا۔ بلاشبہ یہ پروین شاکر کا اعجاز تھا کہ' ستمبر'76' میں محض 24 سال کی عمرمیں جب "خوشبو" کا دیباچہ لکھا تو اُس نے وہ سب کہہ دیا جو برسوں کی مسافت کے بعد جسم وجاں پروارد ہوتا ہے۔ اُس نے اپنی"خوشبو" کے دیباچے میں یہ راز افشا بھی کر دیا اوراُس سے بڑھ کر کسی نے کبھی اپنے آپ کا جائزہ اتنے بھرپوراندازمیں نہیں لیا ہو گا۔ چار سال بعد 1980 میں آنے والی "صد برگ" کےانتظار سے،1985 کی"خود کلامی" کی لذت اورپھر1990"انکار"میں بغاوت سے لے کر اُس نے"ماہ ِتمام" میں سب کہہ کرگویا اپنی زندگی کا نوحہ خود ہی مکمل کر دیا۔ یہ اُس شاعرہ کاوجدان تھا کہ "خوشبو" ہی اُس کی ساری زندگی کا حاصل اورنچوڑٹھہری ۔آغازِسفر سےاختتام ِسفر تک کا احساس"خوشبو" میں ہرسو بکھرا ملتا ہے۔ حیرانی کی بات یہ ہے"خوشبو"جب صفحۂ قرطاس پراُبھری اُس وقت ہرانسان کی طرح پروین شاکر کو بھی اپنے مستقبل کا ذرہ برابرادراک نہ تھا۔ "خوشبو" کی پہلی غزل صفحہ 35 سے "خوشبو" کی آخری غزل صفحہ 356 تک اس کی زندگی کہانی کا لمحہ بہ لمحہ عکس ملتا ہے۔
میں ٹکڑے ٹکڑے ہو کے فضا میں بکھر گئی" ۔۔۔ پروین شاکراپنی آخری سانس کی کہانی بھی خود لکھ گئی۔
پروین شاکر کے بعد بس یوں لگا کہ "خوشبو" کے جانے سے خوشبو کا احساس ہی کھو گیا اورپھرشاعری کے حوالے سےکسی اوردرجانے کی خواہش ہی پیدا نہ ہوئی۔
خواب دیکھنے والی آنکھ اورخوابوں میں رہنے والا ہرمکین "خوشبو" کی سفیر کی قربت کے بھرپوراحساس سے واقف ہی نہیں بلکہ اُسے کبھی فراموش نہیں کرسکتا۔ لیکن اُس دورمیں پروین شاکر کے لفظوں سے شناسائی تو ہوئی لیکن آشنائی کی لذت نہ مل سکی کہ "خوشبو" لمس کی ترجمان تھی ۔ پروین شاکر نے چاہنے اورچاہے جانے کے احساس کو لفظ میں پرویا تھا اوروہ لڑکی ابھی لمس سے کوسوں دورصرف خیال وخواب کے رستے میں تھی۔ خوشبو اپنی جگہ آپ بناتی ہے۔اُس سمے اُس نے اپنی جگہ توڈھونڈ لی تھی لیکن مہک کا احساس برسوں بعد اپنی زندگی کے رنگوں میں تصویر کشی کرتے ہوئے جاگا تو پھر یوں لگا کہ جیسے"خوشبو" تو صرف اُس کے لیے ہی لکھی گئی تھی اور"خوشبو" کے لفظ لفظ میں اُس کا اپنا وجود بولتا تھا۔ بلاشبہ یہ پروین شاکر کا اعجاز تھا کہ' ستمبر'76' میں محض 24 سال کی عمرمیں جب "خوشبو" کا دیباچہ لکھا تو اُس نے وہ سب کہہ دیا جو برسوں کی مسافت کے بعد جسم وجاں پروارد ہوتا ہے۔ اُس نے اپنی"خوشبو" کے دیباچے میں یہ راز افشا بھی کر دیا اوراُس سے بڑھ کر کسی نے کبھی اپنے آپ کا جائزہ اتنے بھرپوراندازمیں نہیں لیا ہو گا۔ چار سال بعد 1980 میں آنے والی "صد برگ" کےانتظار سے،1985 کی"خود کلامی" کی لذت اورپھر1990"انکار"میں بغاوت سے لے کر اُس نے"ماہ ِتمام" میں سب کہہ کرگویا اپنی زندگی کا نوحہ خود ہی مکمل کر دیا۔ یہ اُس شاعرہ کاوجدان تھا کہ "خوشبو" ہی اُس کی ساری زندگی کا حاصل اورنچوڑٹھہری ۔آغازِسفر سےاختتام ِسفر تک کا احساس"خوشبو" میں ہرسو بکھرا ملتا ہے۔ حیرانی کی بات یہ ہے"خوشبو"جب صفحۂ قرطاس پراُبھری اُس وقت ہرانسان کی طرح پروین شاکر کو بھی اپنے مستقبل کا ذرہ برابرادراک نہ تھا۔ "خوشبو" کی پہلی غزل صفحہ 35 سے "خوشبو" کی آخری غزل صفحہ 356 تک اس کی زندگی کہانی کا لمحہ بہ لمحہ عکس ملتا ہے۔
برسوں پہلے "پروین شاکر" کے ہاتھ سے لکھے لفظ عظیم شاعرہ کی خوشبو کی قربت کا احساس دلاتے ہیں۔
"پروین شاکر کی یادیں اوراس کی باتیں "
ان کی ایک عادت یہ تھی کہ وہ کسی بھی محفل میں اپنے جوتے اتار دیا کرتیں اور ننگے پیر پھرا کرتیں ،واپسی پر اکثر ہی جوتے گم ہو جایا کرتے اور انہیں ننگے پیر گھر آنا پڑتا،وہ گاڑی بھی جوتا اتار کر چلایا کرتیں،ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ وہ اسلام آباد کی جناح سپر مارکیٹ میں جوتوں کی دکان کے سامنے گاڑی روکے زورزور سے ہارن بجا رہی تھیں ، شاپ سے سیلزمین باہر آیا تو پتا چلا کہ پروین شاکر ہیں اور ننگے پیر ہیں انہیں جوتا چاہیے،اصل میں وہ کسی تقریب میں اپنا جوتا کھو بیٹھی تھیں اور اب جہاں جانا تھا وہاں بغیر جوتے کے جا نہیں سکتی تھیں۔ ان کے سفر میں جوتے کبھی آڑے نہیں آئے۔ کوئی چیز ان کی راہ میں حائل نہیں ہوئی۔
نہ جانے وہ کیا سوچتا ہو گا کہ گیارہ برس کے ساتھ ( 1976۔۔۔1987) میں کون خوش قسمت رہا اورکون بدقسمت، کس نے
کیا کھویا اور کس نے کیا پایا۔ ہم سفر " ڈاکٹر نصیر علی " کے ساتھ ۔۔۔۔
"اللہ پاک پروین شاکر کی ابدی دنیا کی منزلیں آسان کرے "
" پروین شاکر کی اپنی پسندیدہ غزل "
یارب! مرے سکوت کو نغمہ سرائی دے
زخمِ ہُنر کو حوصلہ لب کشائی دے
لہجے کو جُوئے آب کی وہ نے نوائی دے
دُنیا کو حرف حرف کا بہنا سنائی دے
رگ رگ میں اُس کا لمس اُترتا دکھائی دے
جو کیفیت بھی جسم کو دے ،انتہائی دے
شہرِ سخن سے رُوح کو وہ آشنائی دے
آنکھیں بھی بند رکھوں تو رستہ سجھائی دے
تخیلِ ماہتاب ہو، اظہارِ آئینہ
آنکھوں کو لفظ لفظ کا چہرہ دکھائی دے
دل کو لہو کروں تو کوئی نقش بن سکے
تو مجھ کو کربِ ذات کی سچی کمائی دے
دُکھ کے سفر میں منزلِ نایافت کُچھ نہ ہو
زخمِ جگر سے زخمِ ہُنر تک رسائی دے
میں عشق کائنات میں زنجیر ہو سکوں
مجھ کو حصارِ ذات کے شہر سے رہائی دے
پہروں کی تشنگی پہ بھی ثابت قدم رہوں
دشتِ بلا میں، رُوح مجھے کربلائی دے
یارب! مرے سکوت کو نغمہ سرائی دے
زخمِ ہُنر کو حوصلہ لب کشائی دے
لہجے کو جُوئے آب کی وہ نے نوائی دے
دُنیا کو حرف حرف کا بہنا سنائی دے
رگ رگ میں اُس کا لمس اُترتا دکھائی دے
جو کیفیت بھی جسم کو دے ،انتہائی دے
شہرِ سخن سے رُوح کو وہ آشنائی دے
آنکھیں بھی بند رکھوں تو رستہ سجھائی دے
تخیلِ ماہتاب ہو، اظہارِ آئینہ
آنکھوں کو لفظ لفظ کا چہرہ دکھائی دے
دل کو لہو کروں تو کوئی نقش بن سکے
تو مجھ کو کربِ ذات کی سچی کمائی دے
دُکھ کے سفر میں منزلِ نایافت کُچھ نہ ہو
زخمِ جگر سے زخمِ ہُنر تک رسائی دے
میں عشق کائنات میں زنجیر ہو سکوں
مجھ کو حصارِ ذات کے شہر سے رہائی دے
پہروں کی تشنگی پہ بھی ثابت قدم رہوں
دشتِ بلا میں، رُوح مجھے کربلائی دے
"آخری ٹی وی مشاعرے ( پی ٹی وی) میں پروین شاکر نے یہ دو غزلیں پڑھیں"
٭بخت سے کوئی شکایت ہے نہ افلاک سے ہے
یہی کیا کم ہے کہ نسبت مجھے ،اس خاک سے ہے
خواب میں بھی تجھے بھولوں تو روا رکھ مجھ سے
وہ رویہ جو ہوا کا خس و خاشاک سے ہے
بزم انجم میں قبا خاک کی پہنی میں نے
اور میری ساری فضیلت اسی خاک سے ہے
اتنی روشن ہے تیری صبح کہ ہوتا ہے گماں
یہ اجالا تو کسی دیدہ نمناک سے ہے
ہاتھ تو کاٹ دیئے کوزہ گروں کے ہم نے
معجزے کی وہی امید مگر چاک سے ہے
٭بخت سے کوئی شکایت ہے نہ افلاک سے ہے
یہی کیا کم ہے کہ نسبت مجھے ،اس خاک سے ہے
خواب میں بھی تجھے بھولوں تو روا رکھ مجھ سے
وہ رویہ جو ہوا کا خس و خاشاک سے ہے
بزم انجم میں قبا خاک کی پہنی میں نے
اور میری ساری فضیلت اسی خاک سے ہے
اتنی روشن ہے تیری صبح کہ ہوتا ہے گماں
یہ اجالا تو کسی دیدہ نمناک سے ہے
ہاتھ تو کاٹ دیئے کوزہ گروں کے ہم نے
معجزے کی وہی امید مگر چاک سے ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭بابِ حیرت سے مجھے اِذنِ سفر ہونے کو ہے
تہنیت اَے دِل کہ اَب دیوار دَر ہونے کو ہے
کھول دیں زنجیرِ دَر حوض کو خالی کریں
زندگی کے باغ میں اب سہ پہر ہونے کو ہے
موت کی آہٹ سنائی دے رہی ہے دِل میں کیوں
کیا محّبت سے بہت خالی یہ گھر ہونے کو ہے
گردِ راہ بن کر کوئی حاصل سفر کا ہو گیا
خاک میں مل کر کوئی لعل و گہر ہونے کو ہے
اک چمک سی تو نظر آئی ہے اپنی خاک میں
مجھ پہ بھی شاید توجہ کی نظر ہونے کو ہے
گمشُدہ بستی مسافر لوٹ کر آتے نہیں
معجزہ ایسا مگر بارِ دگر ہونے کو ہے
رونقِ بازار محفل کم نہیں ہے آج بھی
سانحہ اس شہر میں کوئی مگر ہونے کو ہے
گھر کا سارا راستہ اس سر خوشی میں کٹ گیا
اس سے اگلے موڑ کوئی ہمسفر ہونے کو ہے
یہ خوبصورت غزل پروین شاکر کی اپنی آواز میں درج ذیل لنک میں ملاحظہ فرمائیں۔
تہنیت اَے دِل کہ اَب دیوار دَر ہونے کو ہے
کھول دیں زنجیرِ دَر حوض کو خالی کریں
زندگی کے باغ میں اب سہ پہر ہونے کو ہے
موت کی آہٹ سنائی دے رہی ہے دِل میں کیوں
کیا محّبت سے بہت خالی یہ گھر ہونے کو ہے
گردِ راہ بن کر کوئی حاصل سفر کا ہو گیا
خاک میں مل کر کوئی لعل و گہر ہونے کو ہے
اک چمک سی تو نظر آئی ہے اپنی خاک میں
مجھ پہ بھی شاید توجہ کی نظر ہونے کو ہے
گمشُدہ بستی مسافر لوٹ کر آتے نہیں
معجزہ ایسا مگر بارِ دگر ہونے کو ہے
رونقِ بازار محفل کم نہیں ہے آج بھی
سانحہ اس شہر میں کوئی مگر ہونے کو ہے
گھر کا سارا راستہ اس سر خوشی میں کٹ گیا
اس سے اگلے موڑ کوئی ہمسفر ہونے کو ہے
یہ خوبصورت غزل پروین شاکر کی اپنی آواز میں درج ذیل لنک میں ملاحظہ فرمائیں۔
"خوشبو کی پہلی غزل صفحہ 35"
کھلی آنکھوں میں سپنا جھانکتا ہے
وہ سویا ہے کہ کچھ کچھ جاگتا ہے
وہ سویا ہے کہ کچھ کچھ جاگتا ہے
تیری چاہت کے بھیگے جنگلوں میں
میرا تن، مور بن کرنا جانتا ہے
میرا تن، مور بن کرنا جانتا ہے
مجھے ہر کیفیت میں کیوں نہ سمجھے
وہ میرے سب حوالے جانتا ہے
وہ میرے سب حوالے جانتا ہے
میں اس کی دسترس میں ہوں، مگر وہ
مجھے میری رضا سے مانگتا ہے
مجھے میری رضا سے مانگتا ہے
کسی کے دھیان میں ڈوبا ہوا دل
بہانے سے مجھے بھی ٹالتا ہے
بہانے سے مجھے بھی ٹالتا ہے
سڑک کو چھوڑ کر چلنا پڑے گا
کہ میرے گھر کا کچا راستہ ہے
کہ میرے گھر کا کچا راستہ ہے
خوشبو " کی آخری غزل صفحہ 356"۔۔۔ پروین شاکر نے چوبیس سال کی عمر میں اپنی پہلی کتاب کی آخری غزل میں اپنی زندگی کے ماہ تمام کا عکس رقم کر دیا تھا۔
کیا ذکرِ برگ وبار ، یہاں پیڑ ہل چُکا
اب آئے چارہ ساز کہ جب زہر کِھل چُکا
کیا ذکرِ برگ وبار ، یہاں پیڑ ہل چُکا
اب آئے چارہ ساز کہ جب زہر کِھل چُکا
جب سوزنِ ہوا میں پرویا ہو تارِ خوں
اے چشمِ انتظار ! ترا زخم سِل چُکا
اے چشمِ انتظار ! ترا زخم سِل چُکا
آنکھوں پہ آج چاند نے افشاں چُنی تو کیا
تارہ سا ایک خواب تو مٹی میں مِل چُکا
تارہ سا ایک خواب تو مٹی میں مِل چُکا
آئے ہوائے زرد کہ طوفان برف کا
مٹّی کی گود کرکے ہری ، پُھول کھِل چُکا
مٹّی کی گود کرکے ہری ، پُھول کھِل چُکا
بارش نے ریشے ریشے میں رَس بھردیا ہے اور
خوش ہے کہ یوں حسابِ کرم ہائے گِل چُکا
خوش ہے کہ یوں حسابِ کرم ہائے گِل چُکا
چُھوکر ہی آئیں منزلِ اُمید ہاتھ سے
کیا راستے سے لَوٹنا ، جب پاؤں چِھل چُکا
کیا راستے سے لَوٹنا ، جب پاؤں چِھل چُکا
اُس وقت بھی خاموش رہی چشم پوش رات
جب آخری رفیق بھی دُشمن سے مِل چُکا
جب آخری رفیق بھی دُشمن سے مِل چُکا
What a read....
جواب دیںحذف کریںپروین شاکر کی سحر انگیز شاعری اور کرشماتی شخصیت پر یہ ایک پُراثر تحریر ھے۔ پروین شاکر پر بہت کچھ اور بہت اچھا لکھا گیا ھے یہ ان میں سے ایک ھے۔ پروین لفظ صرف اس کے شعور اور لاشعور ھی کی غمازی نہیں کرتے بلکہ اس کی تقدیر کی ردا بُنتے ھیں۔ اپنی کُلیات کو اس نے اپنی زندگی میں ھی ماہِ تمام کا عنوان دے دیا تھا۔
جواب دیںحذف کریں