بدھ, اکتوبر 21, 2015

" خزاں "


زندگی موسموں کےآنے جانے کا نام ہے اور موت انہی موسموں کے ٹھہر جانے سے وجود میں آتی ہے۔زندگی موت کی یہ آنکھ مچولی ہم اپنے آس پاس مظاہرِ فطرت میں ہر آن دیکھتے چلے جاتے ہیں۔۔۔کبھی اپنے جسم وجاں میں اِن کا لمس محسوس کرتے ہیں تو کبھی بنا چکھے بنا دیکھے یوں اِس کا حصہ بن جاتے ہیں کہ سب جان کر بھی کچھ نہیں جان پاتے اور بہت کچھ سمجھتے ہوئے بھی سرسری گزر جاتے ہیں کہ ہماری عقل کی حد ہماری آنکھ کے دائرے سے باہر پرواز کرنے کی استطاعت نہیں رکھتی۔خزاں ہو یا بہار آنکھ کی چمک باقی رہے تو  دیکھنے    والی آنکھ ہررنگ میں زندگی کے نقش تلاش کر لیتی ہے۔
ایسی ہی ایک خزاں رُت کا احوال پہاڑوں کے ایک مکین کی زبانی۔۔۔۔
دُور پہاڑوں پر خزاں رُت کی پکار
خنک ہوا اور یہ رات
ادھر ذرا خزاں کا سنو
جب اکتوبر شروع خزاں شروع
شروعات اخروٹ کے درخت سے۔ ۔جب زمین پر اخروٹ گرنا شروع ہوتے آواز کے ساتھ ۔۔۔۔
آواز ایسی جیسے طبلِ جنگ۔۔۔
یوں کہ اک لمبی خزاں کی یلغار
مگر شروعات بہت سحرانگیز
جب ہوا اک مست کر دینے والی آواز کے ساتھ اپنے مدھر ساز بجائے۔۔۔
جب پتے زردی کا لبادہ اُوڑھ لیتے ہیں۔۔۔۔
ہوا کے ساتھ سرسراتے ہیں۔۔۔۔
خنکی بےخود کرنے والی۔۔۔۔
پھر ایک دم ہوا کا رُک جانا۔۔۔ یوں کہ ایک ایک پتہ گرتا محسوس ہو۔۔۔
جیسے آپ کی روح پہ وہ زردی گر رہی ہو۔۔۔
پھر سرِعام ایک ماتمی نظارہ۔۔۔۔ زمین پہ پڑے پتوں کے لاشے۔۔۔اور پیلے سُرخ پیرہن۔۔۔۔
اُن پتوں پہ چلنا آہستہ آہستہ ۔۔۔ہر قدم کے ساتھ وہ ٹوٹتے لاشے۔۔۔۔
ساتھ سنسان تاریک راتوں میں اخروٹ کے گرنے کی آواز۔۔۔
کرچ کرچ کی ایسی آواز جو رات کو آپ کی سماعتوں میں بسیرا کر کے رت جگا کرائے۔۔۔
ارے نادان!اصل خزاں پہاڑوں پر ہی تو ہوتی ہے۔جو پوری سردی آپ کو اُداس رکھتے ہیں۔۔۔ایک ایک پتے کے گرنے کی آواز دل پہ جا کر لگتی ہے۔۔۔اور اُن درختوں کو سوگوار دیکھ کر آپ کی آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔
.....
شجر بےسایہ ہو جائے تو سمجھو
بچھڑ جانے کا موسم آ گیا ہے
دریچے بند کر کے سونے والو
محبت عمر بھر کا رت جگا ہے
کہاں ہم اور کہاں ترک مراسم
مگر وہ لمحہ شاید آ گیا ہے

۔(امید فاضلی)۔ 

جمعرات, اکتوبر 08, 2015

" آفتِ ارضی۔۔۔ آٹھ اکتوبر 2005"


 
آیا ہے تو جہاں  میں مثالِ شرار دیکھ
دم دے نہ جائے ہستیء ناپائیدار دیکھ (علامہ اقبال)۔
انسانی زندگی حادثات وواقعات سے عبارت ہے۔تباہی ازل سےانسان کے ہم قدم رہی ہے۔ دنیا کو جائےعبرت کہا جاتا ہے اور عبرت کے یہ مناظر ہم ہر روز کسی نہ کسی شکل میں اپنے اِردگرد دیکھتے ہیں۔۔۔کبھی انسان پر انسان کے ہاتھوں ظلم سے اور کبھی قدرتی آفات کی صورت میں المیوں کی ایک بھیانک داستان ہماری نظر کے سامنے سے گزرتی جاتی ہے۔
پاکستان اور دنیا کی تاریخ زلزلوں سے بھری پڑی ہے۔دنیا کے بیشتر ممالک  میں مختلف درجوں کے زلزلے سارا سال آتے رہتے ہیں اور تباہی وبربادی کے انمنٹ نشان چھوڑ جاتے ہیں۔ لیکن ایسا ہی ایک زلزلہ پاکستان کے لاکھوں لوگوں کو تہس نہس کر دے گا یہ ہمارے وہم وگمان میں بھی نہ تھا۔
آٹھ اکتوبر2005 کو رمضان المبارک کا تیسرا روزہ تھا۔جمعے کی صبح آٹھ سے نو بجے کے درمیان  پاکستان کے شمال مشرقی پہاڑی علاقے میں7.6 شدت کا زلزلہ آیا۔ اس کے نتیجے میں انسانی جان مال کے ضیاع کی صورت میں ملکی تاریخ کا سب سے بڑا سانحہ وقوع پذیر ہوا۔انتہائی کم گہرائی میں ہونے والے اس عظیم ارضیاتی تغیر نے صوبہ سرحد اور آزادکشمیر کے اضلاع میں چہارسو قیامتِ صغریٰ برپا کر دی۔آزاد جموں وکشمیر اور صوبہ سرحد کی پندرہ تحصیلیں صفحۂ ہستی سے مٹ گئیں۔
آزاد جموں و کشمیر اور صوبہ سرحد کی 15 تحصیلیں صفحہ ہستی سے مٹ گئیں۔ - See more at: http://www.suchtv.pk/urdu/pakistan/general/item/23709-10th-anniversary-of-devastating-earthquake-in-pakistan.html#sthash.S0zh097n.dpuf
آزاد جموں و کشمیر اور صوبہ سرحد کی 15 تحصیلیں صفحہ ہستی سے مٹ گئیں۔ - See more at: http://www.suchtv.pk/urdu/pakistan/general/item/23709-10th-anniversary-of-devastating-earthquake-in-pakistan.html#sthash.S0zh097n.dpuf آزاد جموں و کشمیر اور صوبہ سرحد کی 15 تحصیلیں صفحہ ہستی سے مٹ گئیں۔
آزاد جموں و کشمیر اور صوبہ سرحد کی 15 تحصیلیں صفحہ ہستی سے مٹ گئیں۔ - See more at: http://www.suchtv.pk/urdu/pakistan/general/item/23709-10th-anniversary-of-devastating-earthquake-in-pakistan.html#sthash.S0zh097n.dpuf
آزاد جموں و کشمیر اور صوبہ سرحد کی 15 تحصیلیں صفحہ ہستی سے مٹ گئیں۔ - See more at: http://www.suchtv.pk/urdu/pakistan/general/item/23709-10th-anniversary-of-devastating-earthquake-in-pakistan.html#sthash.S0zh097n.dpuf
آزاد جموں و کشمیر اور صوبہ سرحد کی 15 تحصیلیں صفحہ ہستی سے مٹ گئیں۔ - See more at: http://www.suchtv.pk/urdu/pakistan/general/item/23709-10th-anniversary-of-devastating-earthquake-in-pakistan.html#sthash.S0zh097n.dpuf
ایک منٹ کے اندر زبردست چنگھاڑ کے ساتھ زلزلے کے پےدرپے شدید جھٹکوں نے لوگوں کو  گھروں سے باہر نکلنے کی مہلت ہی نہ دی۔بلندوبالاعمارتیں خس وخاشاک کا ڈھیر بن گئیں،ہزاروں لوگ ٹنوں ملبے تلے دب گئے۔بہت کم لوگ اپنی جانیں بچانے میں کامیاب ہوئے۔پہاڑ اپنی جگہ سے سرک گئے،سڑکیں لینڈ سلائیڈنگ کی نذر ہو گئیں اور ان پر رواں دواں گاڑیاں دریا میں جا گریں، رُکاوٹوں کے باعث  دریا کے بہاؤ تھم گئے اور سیلاب کا خطرہ پیدا ہو گیا۔غرض یہ کہ بےچارگی اور بےبسی کی ایک نہ ختم ہونے والی داستان نےجنم لیا۔جہاں بےشمار لوگ دنیا سے رخصت ہوئے وہیں شدید جسمانی اور ذہنی گھاؤ ہزاروں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محتاجی دے کر زندہ درگور کر گئے۔خاندان کے خاندان  ختم ہو گئے،بچے اپنے پیاروں سے بچھڑ گئے۔ہزاروں تعلیمی ادارے بچوں کے مدفن بن گئے۔ایک محتاط اندازے کے مطابق ایک لاکھ کے قریب افراد ہلاک ہوئے،ہزاروں ذہنی اور جسمانی طور پرمعذور ہوگئے۔اس سے بڑھ کر لاکھوں افراد نہ صرف سر پر چھت بلکہ پیروں تلے آبائی علاقوں کی زمین سے بھی محروم ہو گئے۔ان علاقوں کوزلزلے کے ممکنہ خدشے کے پیشِ نظر رہائش کے لیے خطرناک قرار دے کر ریڈزون کہا گیا۔اقوامِ متحدہ کے مطابق اسی لاکھ سے زائد آبادی اس المیے سے متاثر ہوئی
کہیں اجڑی اجڑی سی منزلیں کہیں ٹوٹے پھوٹے سے بام ودر
یہ وہی دیار ہے دوستو جہاں لوگ پھرتے تھے رات بھر  (ناصرکاظمی)۔
آزادکشمیر کا دارالخلافہ مظفرآباد جو حسین وادیوں جہلم اور نیلم کے سنگم پر ہونے کی وجہ سے بین الاقوامی معیار کا سیاحتی شہر بن رہا تھا لمحوں میں یہ جیتا جاگتا شہرعہدِجدید کا آثارِقدیمہ بن گیا۔ دیکھنے والے اسےنئےعہد کا ہڑپہ کہتے جہاں صدیوں تک دے ہوئے ملبے سے انسانی اعضاءاور تہذیبِ انسانی سے وابستہ دوسری اشیاء برآمد ہو کر آنے والے دور میں تہذیبوں  کے لیے عبرت کا سامان بنتی رہیں گی۔آزادکشمیر کے وزیرِاعظم بےساختہ کہہ اُٹھے کہ میں اب قبرستان کا وزیرِاعظم ہوں۔
زلزلے کی تباہ کاریوں سے قریبی شہر دارالحکومت اسلام آباد بھی محفوظ نہ رہا۔اس کے سیکٹر ایف ٹین میں جدید سہولیات سے آراستہ رہائشی ٹاور  پہلے ہی جھٹکے میں زمین بوس ہوگیاجس میں قریباً سو کے قریب افراد جاں  بحق ہوگئے۔ 
 افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر 
ہرفرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
آٹھ اکتوبر کا زلزلہ جہاں ایک بہت بڑی قدرتی آفت تھا وہیں یہ ہر لحاظ سے پوری پاکستانی قوم کا امتحان بھی ٹھہرا۔گلگت سے کراچی تک  اور خیبر سے گوادر تک پاکستانی عوام نے ہر طرح کے اختلافات پسِ پشت ڈال کر متاثرینِ زلزلہ کی بھرپور جانی اور مالی امداد کی۔جدید مشینری کی عدم دستیابی کے باوجود آہنی عزم کے بل بوتے پر ہمارے جوان زندگیاں بچانے میں  پیش پیش رہے۔ہسپتالوں میں خون دینے والوں کی قطاریں لگ گئیں۔ایک جذبہ تھا۔۔۔ایک لگن تھی جس کے پاس جو صلاحیت تھی اُس نے قوم کے سامنےرکھ دی نہ صرف اندرونِ ملک بلکہ بیرونِ ملک سے بھی دردمند پاکستانی کشاں کشاں اپنی قوم کی مدد کو چلے آئے۔انسانی جذبوں اور اٹوٹ رشتوں کی ایک نئی تاریخ رقم ہوئی۔اُداسی اور غم کی اندھیری شام کے بعد ایک نیا سورج طلوع ہوا جس نے فرقہ واریت،لسانی تعصب،علاقائی تفریق اور سیاسی گروہ بندیوں سے قوم کو آزاد کر دیا۔اہلِ پاکستان نے پوری دنیا سے یہ منوا لیا کہ عام حالات میں یہ قوم جس قدر بکھری ہوئی اور الگ الگ راستوں کی مسافر نظر آتی ہے مصائب اور آفات کے وقت تسبیح کے دانوں کی طرح جُڑ جاتی ہے۔علامہ اقبال نے بہت پہلے اس حقیقت کا ادراک ان الفاظ میں کیا۔۔۔
نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
آٹھ اکتوبر کو آنے والے زلزلے کے بعد اگر پاکستانی قوم کا جذبۂ خدمت  اُبھر کر سامنے آیا تو انسان کی سفاکی اوربےحسی کے لرزہ خیز واقعات نے انسانیت کا سر شرم سے جھکا دیا۔جب مرتے ہوئے جسموں سے زیورات نوچے گئےتو کہیں بہت سےبےسہارا بچےاورخواتین نامعلوم افراد کی خباثت کی بھینٹ چڑھ گئے۔سینکڑوں ابھی تک لاپتہ ہیں جن کی موت یا زندگی کے بارے میں ان کے پیارے شاید ہمیشہ شک وشبے کا شکار رہیں گے۔
اس ہولناک زلزلے کو آئے ایک عشرہ گذر گیا اور آج یہ عالم ہےکہ اِن علاقوں کے بہت سے لوگ اب بھی خیموں اورعارضی مکانوں میں مقیم ہیں۔زلزلے سے منہدم ہو چکے تعلیمی ادارے بمشکل پچاس فیصد بحال ہوئے۔صوبہ سرحد  میں وادی کاغان کا سیاحتی دروازہ بالاکوٹ کا شہر جو تقریباً پورا کا پورا تباہ ہو گیا تھا فالٹ لائن پر ہونے کی وجہ سے یہاں حکومت کی طرف سے کوئی ترقیاتی کام نہیں کیا گیا۔حکومتی سطح پر  بحالی کے اقددامات صرف دعوؤں اور وعدوں کی حد سے آگے نہ بڑھ سکے۔اپنی نسلوں کو حرام کی دولت وراثت میں دینے والے اہلِ اقتدار نے کرپشن اور لوٹ مار کی بہتی گنگا میں اپنا حصہ خوب وصول کیا، وقت گذرنے سے مالی اور معاشی زخم تو کسی حد تک مندمل ہو ہی گئے لیکن ایک قومی سانحہ محض ان خاندانوں کی ذاتی یاد بن کر رہ گیا جن کے اپنے  اس زلزلے کی نذر ہو گئے تھے۔    
رو میں ہے رخشِ عمر کہاں دیکھیئے تھمے
نَے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں(غالب)۔
 نوٹ: زیرِنظر مضمون میں حوالوں کے لیے اخباری  مضامین سے مدد لی گئی۔

منگل, اکتوبر 06, 2015

"منظر، قربت اور نگاہ "

 محبت کے رنگ خواہ فطرت میں ملیں یا انسان کے اپنے اندر جھلکیں جب تک کسی ساتھ کی قربت نہ ملے مہک سے دور ہی رہتے ہیں۔ مہک سے خالی منظر بےجان تصویر میں دِکھتا تو ہے کسی حد تک محسوس بھی کیا جا سکتا ہے لیکن بہت اندر تک جذب نہیں ہو سکتا۔ پہنچ سے دور بہت دور روح میں جذب ہونے والا منظر ہیرے کی طرح ہوتا ہے انمول اور کم یاب،پر جب تک جوہری کی نگاہ نہ پڑے اور تراش خراش کے مرحلے سے نہ گذرے بےمول اور گمنام ہی رہتا ہے۔ نگاہ کے لمس کے بعد کیمرے کا کلک فطرت کے شاہکار کو محفوظ کر دیتا ہے۔خوبصورتی "نگاہ" میں ہوتی ہے ورنہ منظر ہو یا چہرہ ہر دل میں گھر نہیں کرتا۔منظر کی محبت ہو یا محبت کا منظر ساتھ کی قربت سے مہکتے ہیں تواپنے بھید کھولتے ہیں۔فطرت سے ہم آہنگی روح میں جذب ہو کر ایک عجیب سی سرشاری اور طمانیت کا تحفہ عطا کرتی ہے۔لیکن اس سےعجیب بات یہ ہےکہ کسی منظر کسی احساس کو ساتھ کی قربت نہ ملے تو جہاں ایک گہری تنہائی جنم لیتی ہے وہیں تنہائی کی اُداسی گر مثبت رُخ اختیار کر لے تو ایسے شاہکار تخلیق ہوتے ہیں جن کا عشرِعشیر بھی کسی ساتھ کے ساتھ ممکن نہیں۔انسان اپنی ذات میں ایک مکمل کائنات بن جاتا ہے۔انسانی فطرت کی یہ کایا پلٹ صرف دیکھنے والی آنکھ ہی سمجھ سکتی ہے ورنہ ظاہری آنکھ کبھی رقصِ بسمل تو کبھی جوشِ جنوں کی کارفرمائی قرار دیتی ہے۔اصل کشش نگاہ میں ہے جس کے حصار میں کوئی بھی منظر کوئی بھی حسن اپنا آپ،اپنی اصل دان کر دیتا ہے۔اب یہ لینے والی آنکھ کا ظرف ہے کہ وہ پتھر کے بت کی طرح بس اپنی "میں" میں مست رہتی ہے یا پھر اسے جذب کر کے اس کی خوشبو آگے پھیلا دیتی ہے۔
 یہ  کمال نگاہ کا  ہی ہے کہ کس رنگ میں کون سا منظر اُس کے سامنے اُترتا ہے  یا  وہ کس منظر کو کس رنگ میں دیکھتی ہے۔ ہر متنفس ایک جیسا ہو کر بھی اپنی الگ پہچان الگ شناخت رکھتا ہے۔آنکھ کھلی ہو تو ہر جگہ اللہ کی رحمت کی قربت محسوس کی جا سکتی ہےماننے والوں کے لیے ہر منظر میں نشانیاں ہیں۔لیکن شک کرنے والوں کے لیےراہ میں دلائل کے پہاڑ حائل ہیں تو کہیں شک کی کھائیاں۔
 اپنے آپ کو دوسروں کی ظاہری نگاہ سے ضرور دیکھو لیکن عمل اپنے دل کی آواز پر کرو نہ کہ اپنے علم کی بنیاد پر کہ علم کی بنیاد پر عمل کرنے کا یقین اکثر انا اور تکبر کی طرف لے جاتا ہے۔ انسان کو اس کے دل سے سچی گواہی اور کہیں سے نہیں ملتی ۔ دل کی سچائی کے لیے صرف ایک شرط کہ اس پر رب تعالیٰ کی طرف سے مہر نہ لگی ہوئی ہو۔اللہ سب اہل دل کو اس کا اہل بنائے رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
زندگی کے چیختے چلاتے حقائق ہوں یا فطرت کا منظر کسی کو رنگ کا کوئی شیڈ زیادہ دکھتا ہے تو کسی کو کم۔ اللہ اپنی افضل تخلیق کو کیسے کیسے رنگ کیسے کیسے نقش عطا کرتا ہےہم کبھی نہیں جان سکتے لیکن رب کی تخلیق سے محبت کرنا اس کو محسوس کرنا رب سے قربت کا ایک وسیلہ ہے اور کچھ بھی تو نہیں۔
منظر ہمیشہ دوسرے کی آنکھ سے دیکھ کر ہی واضح ہوتا ہے۔دُنیا ایک آئینہ خانہ ہے۔جابجا بکھرے آئینےہمیں ہمارا اصل چہرہ دکھاتے ہیں ۔آئینہ کوئی بھی ہو عکس کی خوبصورتی اُس کے درمیان فاصلے سے مشروط ہے۔ حد سے بڑی قربت نہ صرف منظر دھندلا دیتی ہے بلکہ سوچ کے کینوس کو بھی محدود کر دیتی ہے۔  آئینے شفاف ہوں تو ہمارے اعتماد میں اضافہ کرتے ہیں۔ دھندلے۔۔۔کرچی کرچی آئینے ہمارے وجود کو ہزار ٹکڑوں میں بانٹ دیتے ہیں۔نوکیلے عکس کے یہ آئینے بہت تکلیف دیتے ہیں۔کہیں ایک بھی آئینہ ہمارے نقش کا رازداں بن جائے تو سکون کی ایک گھڑی اذیت کے ہزارہا برس پر بھاری پڑتی ہے۔
لیکن کیا کیا جائے ! سکون کا یہ پل نرم ہوا کے جھونکے کی طرح ہے اور کرب کی شدت رگوں میں اتر کر ہڈیوں کا گودا تک نچوڑ لیتی ہے۔"وجود کے تپتے ریگ زار میں ہوا کی یہ سرگوشیاں سرابِ نظر ہی ہیں اور کچھ بھی نہیں"۔

"عقل"

آفاق کی منزل سے گیا کون سلامت
اسباب لٹا یاں راہ میں ہر سفری کا
(میر تقی میر)
کائنات کا سب سے بڑا سچ انسان کا اشرف المخلوقات ہونا ہے اور انسان کا سب سے بڑا شرف اپنے اس اعزاز کو پہچاننا ہے۔
اللہ کی عطا کردہ نعمتوں میں سب سے بڑا تحفہ"عقل"ہے اللہ کی عطا جان کر جب وہ اس نعمت کو استعمال کرتا ہے تو ایمان کی بلندی چھو لیتا ہے اورجب اپنے آپ کو عقلِ کُل جان کر اپنے خدا خود تخلیق کرتا ہے تو ذلت کے گڑھے کو اپنی معراج تصور کر کے اپنی جنت دُنیا میں بنا لیتا ہے۔
عقل انسان کی سب سے بڑی رہنما۔۔۔ سب سے مخلص دوست اور سب سےعظیم نعمت ِاٖلٰہی ہے۔ اس کے بل بوتے پر انسان حیرت انگیز کارنامےسرانجام دیتا ہے تو کہیں تلاشِ ذات کی کٹھن منازل یوں طے کرتا چلا جاتا ہے جیسے کوئی پھولوں کی روش پرسہج سہج اُترے اور انجان کانٹوں کا لمس ایک لحظے کی ٹیس سے زیادہ محسوس نہ ہو۔عقل نہ صرف محبتوں کی پہچان سکھاتی ہے بلکہ عشق وجنوں کی بھول بھلیوں سے بحسن وخوبی بچا کر نکالنے کی بھی صلاحیت رکھتی ہے۔
عقل بہت کچھ ہے لیکن عقل سب کچھ نہیں۔عقل "کُل" کے ایک "جزو" سے بھی کم تر ہے۔عقل کو مختارِکل کا درجہ دینے والے وقت کے فرعون بن جاتے ہیں۔ عقل انسان کو فخر وغرورکا نشہ اتنی خاموشی سے لگا دیتی ہے کہ آخری سانس سے پہلے تک انسان اس کے خمار میں مدہوش رہتا ہے۔
ہمیں کہا گیا ہے۔۔۔عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں ۔۔۔ تم غورکیوں نہیں کرتے ۔۔۔ تم سوچتے کیوں نہیں۔
جب کہا گیا کہ آنکھوں والے نابینا ہیں تو اس کا کیا مطلب ۔۔۔ یہی کہ بصارت بصیرت کے ساتھ موجود ہو تو کوئی منظر واضح ہوتا ہے۔ انسان اور حیوان کا بنیادی فرق سوچ کا ہے۔۔۔ سوچ کے انداز کا ہے۔
ایک سچ یہ بھی ہے کہ کچھ چیزوں کا فیصلہ عقل نہیں وقت کرتا ہے۔اور کچھ باتیں عقل سے توبہت سی باتیں عمر سے سمجھ آتی ہیں۔ دعا یہ کرنا چاہیے کہ جب ہماری عمر اُن باتوں کو سمجھنے کے قابل ہو جائے تو ہماری عقل بھی سلامت رہے ورنہ عمر کے تجربے بےکار ٹھہرتے ہیں۔اور عقل سے بات سمجھنے کا بس ایک اصول ہے کہ مانتے جاؤ سنتے جاؤ اور فیصلے صادر نہ کرو وقت خود ہی ہر شے کی اصلیت ظاہرکر دے گا۔
عقل اورجنون دو متضاد رویے ہیں۔۔۔ ایک دوسرے سے بہت دوردریا کے دو کنارے جو کبھی نہیں ملتے۔ ہرقدم سوچ کر رکھو تو سفر طے ہوتا ہے ورنہ قدم قدم پرکھائیاں اوردلدل ہیں۔
عقل کا چور دروازہ صرف انہی کو دکھتا ہے جن کی تلاش کا سفر جاری ہے ورنہ اپنے آپ کو حالات کے دھارے پر چھوڑنے 

والے ڈوبتی ناؤ کی طرح بنا کسی نام ونشان کے صفحۂ ہستی سے مٹ جایا کرتے ہیں۔


"کتبہ"

"کتبہ" جس طورانسانوں کی دنیا اور انسانوں کے ہجوم میں ہر آن اضافہ ہو رہا ہے تو اس طرح قبرستان بھی تیزی سے آبادہو رہے ہیں۔ گھر...