موت اللہ کے اختیارمیں ہے اور قتل کرنا انسان کے بس میں۔ جسمانی طور پر جب کسی انسان کا قتل کیا جاتا ہے تو وہی وقت رب نے اُس کی موت کا مقرر کیا ہوتا ہے۔لیکن جب ذہنی طور پر کسی انسان کا قتل ہوتا ہے تو اُس کی موت کا وقت وہ نہیں ہوتا۔ وہ عام انداز میں اپنی زندگی گزارتا جاتا ہے۔ قاتل بھی اس بات سے بے خبر رہتا ہے۔ مقتول خود ہی لاش کے ٹکڑے سمیٹ کر بوری میں بند کر کے زندگی کے سرد خانے میں جمع کرا دیتا ہے۔ وقت آنے پر پہچان کی فائل کُھلتی ہے اور رب کا کارندہ اُسے مالکِ حقیقی کے پاس پہنچا دیتا ہے۔
رشتے اور تعلق جہاں ہمارا مان۔۔۔ ہمارا سرمایہ ہوتے ہیں وہیں ایک ذمہ داری بھی ہوتے ہیں ۔ ایک انسان سے ہمارے کئی رشتے کئی تعلق ہوتے ہیں ۔ہر رشتے کوسمجھنے کے لیے وقت چاہیے۔اور ہر تعلق کو وقت پر سمجھنا ہی اصل کامیابی اور راہ َسکون ہے۔ دنیا میں رہنے،رشتوں اور تعلقات کو سمجھنے اور اُنہیں برتنے کا قاعدہ سیکھنا ہو تو صرف اور صرف زمین پر غور کرو۔ روح کے راز اگر کائنات کےعلم میں ہیں تو جسم کے راز زمین بہتر جانتی ہے۔ زمین کی سب سے خاص،اہم اور بنیادی چیز اس کی کششِ ثقل ہےجو ایک متوازن نظامِ حیات کی بقا کی خاطرخود سے وابستہ ہر شے اور اپنی حد کے اندر آنے والے ہر ذرے کو یکساں طور پر گرفت میں رکھتی ہے۔اس میں بال برابر فرق آ جانے کا نام قیامت ہے۔
زندہ رہنا یا زندہ ہونا آج کل کے دور میں بڑی بات نہیں ۔۔۔ دفنائے جانے کا اعزاز ملنااصل بات ہے۔ بہت سی زندہ لاشیں بےگور وکفن جابجا بکھری پڑی ہیں۔ اُن کے مردہ جسموں کی بو ہمیں اکثر وبیشتر اپنی اوقات یاد دلاتی رہتی ہے۔
ہماری ضرورت ہماری تلاش صرف ایک کاندھا ہے چاہے زندگی میں ملے یا مرنے کے بعد۔اُس کاندھے پر ہمارے آنسوؤں کا بوجھ ہوتا ہے تو کبھی اس کے آنسو ہمارا بوجھ اُٹھاتے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ ہمیں اپنا بوجھ خود اُٹھانا ہے آگے بڑھ کر اپنے جنازے کو خود کاندھا دینا ہےورنہ سفراتنا لمبا اوربوجھ اتنا بھاری ہے کہ کاندھے بدلتے جاتے ہیں اور راستہ نہیں کٹتا۔
بات جتنی جلد سمجھ آ جائے اُتنا اچھا ہے کیونکہ جنازے انتظار نہیں کرتے جنازے رُخصت چاہتے ہیں نہ صرف اپنی سلامتی کے لیے بلکہ دوسروں کے آرام وسکون کے لیے بھی ۔
رشتے اور تعلق جہاں ہمارا مان۔۔۔ ہمارا سرمایہ ہوتے ہیں وہیں ایک ذمہ داری بھی ہوتے ہیں ۔ ایک انسان سے ہمارے کئی رشتے کئی تعلق ہوتے ہیں ۔ہر رشتے کوسمجھنے کے لیے وقت چاہیے۔اور ہر تعلق کو وقت پر سمجھنا ہی اصل کامیابی اور راہ َسکون ہے۔ دنیا میں رہنے،رشتوں اور تعلقات کو سمجھنے اور اُنہیں برتنے کا قاعدہ سیکھنا ہو تو صرف اور صرف زمین پر غور کرو۔ روح کے راز اگر کائنات کےعلم میں ہیں تو جسم کے راز زمین بہتر جانتی ہے۔ زمین کی سب سے خاص،اہم اور بنیادی چیز اس کی کششِ ثقل ہےجو ایک متوازن نظامِ حیات کی بقا کی خاطرخود سے وابستہ ہر شے اور اپنی حد کے اندر آنے والے ہر ذرے کو یکساں طور پر گرفت میں رکھتی ہے۔اس میں بال برابر فرق آ جانے کا نام قیامت ہے۔
اپنی زندگی میں وہ رشتے یا تعلق جن سے کسی بھی طرح فرار ممکن ہو سکے یا بدلے جا سکیں اور کچھ نہیں تو خواہش یا تخیل کے زور پر ہی اُن کو نیا تخلیق کیا جاسکے،اُن پر قانع رہا جائے، اپنے پیدائشی رشتوں اور مقدر سے بنے تعلقات کو سمجھ کر اُن سے سمجھوتہ کیا جائے دوسرے لفظوں میں جو جیسا جہاں مل گیا اُسے قبول کر لیا جائے تو اپنے آپ سے جھگڑا ختم ہو جاتا ہے۔جبکہ ہم رشتوں کو لباس کی طرح بدلنے کی چاہ کرتے ہیں اور اپنے آپ اپنے ماحول سے آخری حد تک غیریت برتتے ہیں۔رشتوں کے قتل سے جہاں شدید اذیّت ہوتی ہے وہیں بوجھ بھی ہلکا ہوتا ہے جیسے موسمِ سرما کے بعد نئے موسم کے آغاز سے کپڑوں کا وزن کم ہو جاتا ہے۔انسان ہے۔۔۔اپنے وجود کے بچھڑےحصے کو کھوجتا تو ہے۔سنبھل جائے تو باقی رہ جانے والے کے لیے خود کو تیار کر لیتا ہے۔اللہ کا کرم ہر حال میں تلاش کرتا ہے کہ بنیادی رشتہ تو قائم ہے ہمیں ملنے والا سکون کا رشتہ ختم ہو گیا تو کیا۔۔۔ ہمارے پاس دینے والا سکون کا رشتہ تو موجود ہے۔اللہ نے اتنی طاقت اتنی صلاحیت دی ہے کہ اپنی انا سے آنکھیں بند کر کے رب کی توفیق سے منزل کی جانب گامزن تو ہے۔ بڑی بات جو جاننے کی ہے کہ بنیادی رشتوں کو بچانا اوّلین ترجیح ہونا چاہیے۔اگر بنیاد پر ہی ضرب لگ گئی تو عمارت کیسے بچے گی۔رشتوں کو لباس کی مثال سے بیان کریں کہ ہم لباس کے لوازمات کو تو سنبھال کر رکھیں اور بنیادی لباس کے چیتھڑے اُڑائیں تو پھر ہمیں کیسے موسم کی دست بُرد سے پناہ ملے گی۔یہی ہمارا المیہ بھی ہے ہم دکھاوا۔۔۔بناوٹ ۔۔۔ عارضی خوشی کے حصول میں اس حد تک آگے نکل جاتے ہیں کہ ہمارے ضروری رشتے پیچھے کھڑے رہ جاتے ہیں غریب رشتہ دار کی طرح۔۔۔ جو وقت پڑنے پر کام آتے ہیں کسی ستائش کسی صلے کی تمنّا کیے بغیر۔
حرفِ آخرزندہ رہنا یا زندہ ہونا آج کل کے دور میں بڑی بات نہیں ۔۔۔ دفنائے جانے کا اعزاز ملنااصل بات ہے۔ بہت سی زندہ لاشیں بےگور وکفن جابجا بکھری پڑی ہیں۔ اُن کے مردہ جسموں کی بو ہمیں اکثر وبیشتر اپنی اوقات یاد دلاتی رہتی ہے۔
ہماری ضرورت ہماری تلاش صرف ایک کاندھا ہے چاہے زندگی میں ملے یا مرنے کے بعد۔اُس کاندھے پر ہمارے آنسوؤں کا بوجھ ہوتا ہے تو کبھی اس کے آنسو ہمارا بوجھ اُٹھاتے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ ہمیں اپنا بوجھ خود اُٹھانا ہے آگے بڑھ کر اپنے جنازے کو خود کاندھا دینا ہےورنہ سفراتنا لمبا اوربوجھ اتنا بھاری ہے کہ کاندھے بدلتے جاتے ہیں اور راستہ نہیں کٹتا۔
بات جتنی جلد سمجھ آ جائے اُتنا اچھا ہے کیونکہ جنازے انتظار نہیں کرتے جنازے رُخصت چاہتے ہیں نہ صرف اپنی سلامتی کے لیے بلکہ دوسروں کے آرام وسکون کے لیے بھی ۔