جمعرات, اپریل 30, 2015

"بلاگ کہانی "

"بلاگ کیا ہے" 
بلاگ سوچنے محسوس کرنےاور پھرلفظ لکھنے کی صورت اپنے احساس کا اظہارکرنے کی صلاحیت رکھنے والے بچوں اور بڑوں کو اپنی طرف مائل کرتا وہ نیا کھلونا ہے جو کبھی بھی کہیں بھی بیٹھ کر کھیلا جا سکتا ہے بس اپنی انگلیوں کا لمس اور جدید دورکی ٹیکنالوجی کا ساتھ درکار ہے۔انٹرنیٹ پرایک مخصوص اکاؤنٹ بنا کر سوچ کو لفظ کے لباس میں بلا جھجکے لکھ دینا بلاگ کہلاتا ہے۔ 
ہمارا ذاتی بلاگ ہماری ڈائری کی طرح ہمارےاحساس کی خوشبو کا ایک رنگ برنگ گلدستہ ہوتا ہے۔جس طرح ڈائری میں ہم اپنی سوچ،اپنا تخیل لکھتے ہیں تو کہیں پڑھے گئے خوبصورت لفظ اورکبھی کسی کی زندگی کانچوڑ سنہرے اقوال بھی درج کرتے ہیں۔بالکل ایسا ہی معاملہ بلاگ کا بھی ہے فرق صرف یہ کہ ہم اپنی قیمتی ڈائری بہت سنبھال کر رکھتےاور چھپا کر لکھتے ہیں تو بلاگ کی صورت ایک ایسا قابلِ اعتماد دوست ملتا ہے کہ ہم سب کچھ بلاخوف وخطراس کے سپرد کر کے شانت ہوجاتے ہیں۔
بلاگ لکھنے والا بلاگر کہلاتا ہے۔ایک بلاگر کے لیے لکھنا ذمہ داری یا کام نہیں بلکہ سکون اور تنہائی کا ایک شاندار لمحہ ہے جو وہ اپنے ساتھ گزارتا ہے۔بلاگ بنا کسی ہچکچاہٹ کے اپنی سوچ اپنے دل کی باتیں لکھ دینے کا نام ضرور ہے لیکن اُسے بےدھیانی میں کبھی پوسٹ نہیں کرنا چاہیے۔ہم اپنے لکھے پر اگر دوسری نظر نہیں ڈال سکتے تو کسی اور سے یہ توقع رکھنا بےکار ہے کہ وہ پہلی نظر ڈالے اور وہ ٹھہر بھی جائے ۔
بلاگ لکھنا بلاگ پڑھنا تازہ ہوا کا جھونکا تو ہے پر صرف اُن کے لیے جن کو نئی دُنیا دیکھنے کی لگن ہو۔۔۔ جو اپنی زندگی متعین کردہ قواعد وضوابط ۔۔۔آرام دہ خواب گاہوں ۔۔۔ اور ڈرائنگ روم کی سیاست سے بری الذمہ ہوکربادِنسم جیسی فطری تازگی کےساتھ گزارنے کے خواہشمند ہوں۔
ادب ہو یا بلاگ ہمیشہ لکھنے والے کی ذات کا آئینہ اور اُس کی سوچ کا ترجمان ہوتا ہے۔ادب معاشرے کی روایات اور اصنافِ سخن کے دائرے میں گردش کرتا ہے تو بلاگ ایسی کسی بھی پابندی سے آزاد ہے۔
بلاگ کا معیار لکھاری کا مرہونِ منت ہے تواس کی تصدیق قاری کی نظر کرتی ہے۔معیاری بلاگ وہی ہوتا ہے جس میں لکھاری کا احساس پڑھنے والے کو چھو جائے اور وہ اسے اپنے دل کی بات لگے۔ لیکن ایسا تب ممکن ہے جب لکھنے والے نے دل سے لکھا ہو۔ ایک بلاگر لکھاری پہلے ہوتا ہے قاری بعد میں۔یا یوں کہہ لیں کہ قاری ہر کوئی ہو سکتا ہے لیکن بلاگر بننے کے لیے قاری نہیں بلکہ لکھاری ہونا اولین شرط ہے۔
بلاگ اور کتاب"۔"
کتاب اور بلاگ میں دور کا بھی رشتہ نہیں۔ کچھ بھی قدرِمشترک نہیں۔ کتاب زمانوں سے چلی آ رہی ہے اور بلاگ کا زمانہ دیکھنے والی آنکھوں کی تواپنی کتابِ زندگی ہی ابھی ابتدائی مراحل میں ہے۔
بلاگ ذہن میں در آنے والے بےساختہ خیالات اورفوری احساسات کو بلا کسی کانٹ چھانٹ کے لفظ کے سانچے میں ڈھال کر ساری دنیا کے سامنے بےدھڑک پیش کر دینے کا نام ہےجبکہ تجربات زندگی،شب وروز کی ریاضت،غوروفکر،اور سب سے بڑھ کر انسانوں اور اُن کے لکھےالفاظ کے گہرے مطالعہ اورعمیق سوچ بچار اور کانٹ چھانٹ کے بعد کتاب لکھنا وہ گوہرِ نایاب ہے جس کی چمک خودبخود ہی دلوں کو اپنی طرف مائل کرتی ہے۔ 
کتاب کی عظمت سے انکار نہیں اوراس کے پڑھنے کی لذت بھی شک وشبہے سے بالاتر ہے۔۔۔ لفظ سے محبت کرنے والوں کے لیے کتاب عشقِ خاص کا درجہ رکھتی ہے۔۔۔جولُطف محبوب کو چھونے،اُس کو اپنی مرضی سے برتنے میں ہے وہ مزا ہواؤں میں ہزار پردوں کے بعد لمس میں کہاں۔
بلاگ کو بےشک فارغ وقت۔۔۔ فارغ دماغ کی محبت ہی کہا جائے جو اکثراس وقت ضرورت بھی بن جاتی ہے جب گھٹن بڑھ جائے یااپنی سوچ کے نکاس کا اورکوئی راستہ دکھائی نہ دے۔ لیکن یہ بھی سچ ہےکہ جس کا جو محبوب ہو اُسے وہی بھاتا ہے۔۔۔ یہ نگاہ کا کمال ہے یا اپنی اوقات کا جو جیب دیکھ کر ہی سودا خریدنے کی طرف قدم بڑھاتی ہے۔
بلاگ لکھنا بلاگ پوسٹ کرنا کتاب لکھنے،کتاب چھپنے سے بھی بڑا نشہ ہے۔ وہ اس طرح کہ کتاب ایک بار چھپ جائے تو اس میں ردوبدل کی قطعاً گنجائش نہیں ۔ کتابت کی غلطی یا خیال کی پُختگی نظرثانی پرکتنا ہی مجبور کرے لیکن لفظ جلد کی قید میں آ کر پتھر پرلکیر کی طرح ثبت ہو جاتا ہے اور بڑے بڑے ناموں والےادباء کو چھوڑ کردوسرے ایڈیشن کا خواب ایک عام لکھاری دیکھنا تو کجا سوچ بھی نہیں سکتا۔ جبکہ بلاگنگ کی دُنیا میں لکھنے والا اپنی کائنات کا بلاشرکت غیرے مالک ہوتا ہے۔ لفظ اُس کے ساتھ رہتے ہیں ،ساتھ سوتے ہیں، اُس کے اندر سانس لیتے ہیں ۔جب چاہے انہیں چھو لے،لپٹا لےاوراُن سے خفا ہو جائے تو پرے بھی کردے۔
تخلیق اظہار چاہتی ہے لیکن کتاب کی صورت اپنے احساس کے اظہار کے لیے نہ صرف ہم دوسروں کے محتاج ہوتے ہیں کہ وہ اُنہیں اپنائیں۔۔۔ سراہیں۔۔۔ محسوس کریں۔پرنٹ میڈیا کی بات کریں تو اخباری تحاریر یا کالمز بےشک ہر روز لاکھوں نظروں کو چھوتے ہیں لیکن شام کو ردی کی ٹوکری کی نذر بھی ہو جاتے ہیں۔دوسری طرف بلاگ نہ تو لکھنے والے پر بوجھ بنتا ہے اور نہ ہی پڑھنے والے پر۔ بلاگ تو روزمرہ اخبار جتنی اہمیت بھی نہیں رکھتا کہ جس کا دن چڑھتے ہی بےچینی سے انتظار شروع ہوجاتا ہے اورشام تک خاص خبر ہوئی تو گرماگرم ۔۔۔ ورنہ اگلے روزنئے مصالحے،نئی ہانڈی کا تڑکا۔
بلاگ میں محفوظ ہونے کے بعد لفظ لکھنے والے کے ساتھ تو رہتے ہیں بلکہ "برقی کبوتر"اُنہیں دُنیا کے کونے کونے میں بھی پہنچا دیتےہیں اور لکھاری کے نام سے زیادہ اس کے لفظ کی تاثیر پڑھنے والوں کو روکتی ہے۔قاری بلاگر کی صورت تو کیا نام سےبھی واقف نہیں ہوتےجبکہ اس کے برعکس کتاب، کالم یا دوسری تخلیقات کو پڑھتے ہوئے لفظ سے پہلے سرورق یعنی نام پر ہی نگاہ ٹکتی ہے۔
بات مختصر یہ کہ بجا بلاگ بلاگ ہے اور کتاب کتاب۔ کتاب لکھنے کتاب چھپنے کا نشہ صاحب ِکتاب ہی جان سکتے ہیں۔کتاب لکھنا بڑا کام اور بڑے نام والوں کا کام ہے۔ لیکن اصل مرحلہ کتاب کا چھپنا اور پھر پڑھنے والوں تک اُس کی رسائی ہے۔ یہی اصل امتحان ہے۔اس سے بھی بڑا مسئلہ پڑھنے والوں کا اسے سراہنا ہے ورنہ سب خسارا ہے۔کتاب چھپوائے جانے سے لے کر پڑھوائے جانے تک دوسروں کی ضرورت یا اخلاقی احسان کی طالب ہوتی ہے جبکہ بلاگ ایسی کسی بھی قسم کی ضرورت یا طلب سے بالاتر ہے۔اس موقع پر صاحب ِکتاب یا صاحبِ نام کا یہ سوچنا یہ کہنا بجا ہو گا کہ "انگور کھٹے ہیں"۔ شاید اس سوال کا جواب وہ بلاگر بہتر طور پر دے سکیں جنہوں نے بلاگنگ میں نام کما کر صاحب ِکتاب کی صف میں قدم رکھا ہے۔بلاگ لکھنے سے جہاں خیال کو ایک مستند جگہ ایک ذریعہ میسر آتا ہے وہیں بلاگستان میں دوسرے بلاگرز کی تحاریر پڑھتے ہوئےسب کہنے کی آزادی کا احساس ہوتا ہے۔
!آخری بات
مطالعہ حاصلِ زندگی ہے تو لکھنا حاصلِ مطالعہ۔۔۔۔لفظ پڑھنے کا حق صرف لفظ لکھ کر ہی ادا کیا جا سکتا ہے۔کتاب ہو یا بلاگ جس کی قسمت میں لفظ کا جتنا حصہ لکھ دیا گیا وہ اُسے مل کرہی رہتا ہے اور لکھنے سے لے کر پڑھنے تک ہرکوئی اپنے ظرف کے مطابق اس بہتے چشمے سے فیض یاب ہوتا ہے۔
بلاگنگ زندگی کے پتھریلے راستے پرچلتے ہوئے ذرا سا سائباں ضرور ہے لیکن زندگی محض بلاگنگ یا لفظ کی کاری گری کا نام نہیں۔ لکھنا پڑھنا چاہے جتنا بھی اوڑھنا بچھونا بن جائے یہ من کو تو شانت کر سکتا ہے لیکن تن کا پیٹ نہیں بھر سکتا۔۔

منگل, اپریل 28, 2015

"اسلام آباد لٹریچر فیسٹول۔۔۔اپریل 2015"


 
"ادبی میلہ،بےادب لوگ"
کہنے کو تو ادبی میلے میں شرکت کی بنیادی وجہ ادبی شخصیات کو دیکھنا اور سننا تھا۔ کتابوں میں لکھے لفظ جب دل کو چھو جاتے ہیں تو جی کرتا ہے کہ کبھی ان کے لکھنے والے کو کہیں ایک نظر ہی دیکھ لیا جائے۔۔۔ بس آنکھ کے یقین کے لیے کہ یہ سحر انگیز لفظ لکھنے والے ہمارے جیسے ہیں اور ہماری دنیا میں سانس لیتے ہیں۔ قاری اور لکھاری کا یہ ساتھ اسی لیے کتاب تک ہی محدود نہیں رہتا اور لکھاری بھی اپنے اس کرشمے سے بخوبی آگاہ ہوتا ہے اسی لیے جب اس کا سامنا عام لوگوں سے ہوتا ہے تو ایک عجیب طرز کا تفاخر اس کے انداز میں جھلکتا ہے۔جیسے کسی پیر کے لیے اس کے مریدین کی آنکھ کی چمک انا کے بت پر چڑھاوے کا کام دیتی ہے۔ اسی طرح لفظ لکھنے والے قدآور لکھاری جب عام انسانوں کے قریب آتے ہیں تو انہیں ہر طرف بونے دکھتے ہیں۔۔اس بات سے انجان کہ انہی بونوں کے کاندھے پر سفر کر کے تو وہ اس مقام پر پہنچتے ہیں۔ایسا اکثر ہوتا ہے کہ کاغذ اور کتاب کی قید میں جکڑے لفظ لکھنے والا عام انسانوں کےسوال کے جواب دیتے وقت مصلحتوں اور اندیشوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ اور بڑی کامیابی سے دامن چھڑا لیتا ہے۔
علم دوست احباب کے ساتھ اسلام آباد کے ادبی میلے میں ملنا ایک الگ ہی احساس تھا۔وہ چہرے جن کے لفظ سے آشنائی تھی لیکن اُن سے مل کر یوں لگا جیسے پہلی بار سے پہلے بھی بہت بار مل چکی ہوں۔ ہم سب عام لوگ تھے۔۔ کوئی "ادبی شخصیت" یا "مستند لکھاری" ہرگز نہیں اس لیے کسی بھی ذاتی "پروٹوکول"یعنی لگی لپٹی رکھے بغیراردگرد سے بےپروا بس اپنے دل کی باتیں کرتے رہے۔ یاد رہے "ادبی شخصیات" تو اپنے دل کی نہیں دوسروں کے دل کی باتیں کرتی ہیں یعنی وقت کی نبض تھام کر آگے بڑھتے ہیں۔ شام ہوئی تو سب اپنے اپنے ٹھکانوں کی طرف پرواز کر گئے ۔اس ادبی میلے میں سب ادبی اور ہم بےادبی لوگ پل دوپل کو بس سانس لینے ٹھہرے تھےاور تین روز بھی بہت تھےسانس سے آس تک کے سفر میں۔ہم تو جیسے آئے ویسے ہی چل دیئے اور بےمول ہی سب فروخت کر دیا۔۔۔ جو مول لگا کر صدا لگاتے تھے وہ ذرا دیر اور رُکے رہے کہ بچا کچا "ساز وسامان " اٹھانا تو اُن کی مجبوری تھی۔ادبی وہ تھے جن کے اعزاز میں یہ میلہ لگا تھا جو اونچی کرسیوں پر بڑے فخر سے بیٹھے تھے اور اپنی عمر بھر کی تپسیا کا حاصل دیکھتے تھے۔ اور بےادبی ہم جیسے لوگ ہوتے ہیں جو لکھتےتو ہیں لیکن اپنے آپ سے بھی ڈرتے ہوئے کہ لوگ کیا کہیں گے۔ ایک عام انسان۔۔ عام عورت کے لیے بھی اپنی سوچ کولفظ میں لکھ کر کہہ دینا اگر اللہ کا بہت بڑا انعام ہے تو اس معاشرے کے نہ صرف پڑھے لکھوں بلکہ اپنوں کے سامنے بھی ایک طرح کا اعلانِ بغاوت ہے(۔نوٹ۔۔ ابھی میں نے کم پڑھے لکھوں یا غیروں کی بات نہیں کی کہ ان کے مسائل اور ہوتے ہیں ہمارے حوالے سے اور ہمیں ان کے حوالے سے)۔
ادبی میلے کا "ادبی" احوال۔۔۔
صرف ایک سیشن ہی سنا۔ جو سوا گیارہ بجے سے سوابارہ بجے کے دوران تھا ۔"کہانی کار" کے اس سیشن میں مستنصر حسین تارڑ نے اپنے آنے والی کتاب کے حوالے سے خیالات کا اظہار کیا۔ پندرہ کہانیوں کا یہ مجموعہ ان کی کہانیوں کی پہلی کتاب " سیاہ آنکھ میں تصویر" کی اشاعت کے پچیس برس بعد سامنے آ رہا ہے۔ انہوں نے اس پر بات کرتے ہوئے اپنے مخصوص انداز سے یوں آغاز کیا کہ آج ہم اس بچےکےخدوخال پر بات کر رہے ہیں جو ابھی پیدا ہی نہیں ہوا۔انہوں نے 15 کہانیوں کے عنوانات بتائے"اے مرے ترکھان" حاضرین کے ساتھ شئیر کی ۔جو سانحہ پشاور کے بعد لکھی تھی اور اس کے لفظ آنکھ نم کر گئے۔
کچھ کہانیوں کے عنوانات ان کی روانی کا ساتھ دینے کی ناکام کوشش میں جلدی جلدی نوٹ کیے۔ یہ عنوانات بذاتِ خود پوری کہانی کہتے ہیں۔
جوہڑ میں ڈوب چکی لڑکی۔۔۔ اس بارے میں بتایا کہ ان کے بچپن کی یاد میں ایک لڑکی جوہڑ میں ڈوب گئی اور کچھ عرصے بعد کوئی کہتا تھا کہ وہ اس میں زندہ ہے۔ اس احساس کے ساتھ کہانی کا اصل رنگ شاید کچھ اور ہو، یہ نہیں بتایا۔
پھولوں والی پہاڑی۔۔۔
مکوڑے دھک مکوڑے۔۔۔
ایک سنو ٹائیگر کی سرگزشت۔۔۔
میں ایک پُرہجوم شہر میں سے گزرتا تھا۔۔۔۔
باتیں کرتے ہاتھ گواہیاں دیتے پاؤں۔۔
اُن کی مائیں بھی روتی ہیں۔۔۔
زرد پیرہن کا بن ۔۔
ایک گونگے کی ڈائری۔۔۔
دھند کے پیچھے شہر۔۔
آرٹ گیلری میں بیتھون کی چاندنی راتیں۔۔۔
یہ کہانی کون لکھ رہا ہے۔۔۔
جلا ہے جسم وجاں۔۔
اور
"اسکوٹر کی پچھلی نشست پر بیٹھی لڑکی جو ہنستی تھی "
یہ سب سے خاص کہانی ہے ۔ اس بارے میں بھی جناب نے تفصیل سے بتایااور بہت سے لکھنے والوں کی اندرونی کیفیات کی عکاسی کی جو سوچ سفر کے موسموں میں ان پر اترتی ہیں اور بہت کم ان کو ماتھے کا جھومر بنا پاتے ہیں۔
اسی سیشن کا دوسرا حصہ آسڑیلیا میں بسنے والے ریحان علوی کے ناول "تعبیر کی تلاش" کی تقریبِ رونمائی تھی جس میں جناب تارڑ نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ اور دیارغیر میں رہنے والے قلم کاروں اور اس کتاب کے لکھاری کے ساتھ ربط کا اظہار اپنے مخصوص خوشگوار لہجےمیں کیا۔
آخری روز کامران سلیم کی کتاب"برڈز آف سیالکوٹ"کی تعارفی تقریب تھی جس میں مستنصر حسین تارڑ نے اپنی شرکت سے اُس کو خاص بنا دیا۔
میری ڈائری اور چند تازہ آٹوگراف۔۔۔
محترم جمیل الدین عالی کے بیٹے راجو جمیل سے ملاقات ہوئی اُن سے "ابا" کی خیریت پوچھی۔ اور انہوں نے بڑی اپنائیت سے جواب دیا ۔ پھر ان سے اپنی ڈائری کے اُسی صفحے پر دستخظ لیے جس پر اُن کے والد نے 29 سال پہلے دستخط کیے تھے۔جناب راجوجمیل نےاپنے والد جناب "جمیل الدین عالی"کو دکھانے کے لیےفوراً اس صفحے کواپنے کیمرے میں محفوظ کر لیا۔
اسی طرح جناب عطاءالحق قاسمی سے بھی اسی صفحے پر دستخط لیے جس پر اُن کے اُنتیس برس پہلے کے دستخط موجود تھے اور ساتھ ہی اُن کے ہاتھ سے لکھا اپنا یہ شعر بھی تھا۔
شام ہوتے ہی عطا کیوں ڈوبنے لگتا ہے دل
کچھ نہ کچھ ہونےکو ہےاورناگہاں ہونےکو ہے
اس شعر پر جناب کی توجہ مبذول کرائی تو کہنے لگے کہ میں آج بھی اس پر قائم ہوں اور اپنے پرانے دستخط دیکھ کر خوشگوار حیرت کا اظہار کیا۔

 انتظار حسین کے دستخط  جوپچھلے سال(2014) کے ادبی میلے میں لیے تھے۔
جناب عقیل حسین جعفری ۔۔تاریخ پاکستان کو محفوظ کرنے کے حوالے سے عقیل عباس جعفری کا ایک اہم مقام اور الگ پہچان ہے۔
کچھ خاص آٹو گراف ۔۔
کائنات۔۔ " دانہ دانہ دانائی " ۔۔ انگلستان کے سو رنگ۔۔دیوسائی میں ایک رات۔۔۔ نیوٹن ، کے لکھاری چھتیس سالہ جناب 
محمد احسن سے گفتگو کا موقع ملا اور انہوں نے بہت انکساری سے سوالوں کے تسلی بخش جواب دئیے۔
اپنے علاقے کے مخصوص دھیمے لہجے میں بات کرنے والے ہردلعزیز بلاگرعمربنگش سے بلاگنگ کے حوالے بہت سی اُلجھنوں اور مسئلوں پر بات ہوئی۔


   

جمعرات, اپریل 23, 2015

"محسن کشوں کے اس ملک میں"


محسن کشوں کے اس ملک میں۔۔۔جاوید چوہدری
اتوار 5 اپريل 2015 
گیٹ پر تالا تھا، میں پریشان ہو گیا، منگل کا دن تھا، سرکاری چھٹی بھی نہیں تھی، گیٹ کے ساتھ میوزیم کا بورڈ بھی تھا لیکن گیٹ بند تھا، گیٹ کے بعد لان تھا، لان کے ساتھ برگد کے بوڑھے درخت تھے اور ان درختوں اور اس لان کے ساتھ وہ پرشکوہ عمارت تھی جسے قائداعظم محمد علی جناح نے 1944ء میں اپنی رہائش کے لیے منتخب کیا، یہ اس وقت کراچی کی شاندار عمارتوں میں شمار ہوتی تھی، یہ عمارت1865ء میں تعمیر ہوئی۔

موسس سوماکی نے ڈیزائن کیا، یہ بعد ازاں فلیگ اسٹاف ہاؤس بنی اور سندھ کے جنرل کمانڈنگ آفیسر کی سرکاری رہائش گاہ قرار پائی، فلیگ اسٹاف ہاؤس میں جنرل ڈگلس گریسی جیسے لوگ رہائش پذیر ہوئے، یہ گھر 1940ء میں پارسی تاجر سہراب کاؤس جی نے خرید لیا، قائداعظم کو قیام پاکستان کے آثار نظر آئے تو آپ نے 1944ء میں یہ عمارت سہراب کاؤس جی سے ایک لاکھ 5ہزار روپے میں خرید لی، دہلی سے قائداعظم کی رہائشگاہ کا سامان یہاں شفٹ ہوا اور یہ عمارت قائداعظم کے نام منسوب ہو گئی، قائداعظم کے انتقال کے بعد یہ عمارت محترمہ فاطمہ جناح کا گھر بن گئی، فاطمہ جناح 9 جولائی 1967ء تک یہاں مقیم رہیں۔
ان کا انتقال اسی گھر کی بالائی منزل پر ہوا، جنازہ بھی یہیں سے اٹھا، یہ گھر 1984ء میں قائداعظم اور فاطمہ جناح کی یادوں کا عجائب گھر بنا دیا گیا، میں منگل کے دن کراچی میں قائداعظم میوزیم پہنچا لیکن گیٹ پر تالا دیکھ کر پریشان ہو گیا، مجھے رینجرز کا ایک جوان دور کھڑا دکھائی دیا، وہ دور سے چلایا ’’میوزیم بند ہے،، میں نے چلا کر پوچھا ’’کیوں؟،، اس کے پاس کوئی جواب نہیں تھا، وہ مجھے ہاتھ کے اشارے سے آگے جانے کی ہدایت کرنے لگا مگر میں ڈھیٹ بن گیا، وہ غصے کے عالم میں گیٹ پر آیا، مجھے پہچانا اور اس کا رویہ تبدیل ہو گیا۔
اس نے گیٹ کھول دیا، میں نے گیٹ پر تالے کی وجہ پوچھی، اس کا جواب تھا ’’ سیکیورٹی ریزن، ویسے بھی یہاں کون آتا ہے‘‘ میرے دکھ میں اضافہ ہو گیا، میں نے پورچ میں عمارت کی تصویر لینی چاہی تو رینجر نے روک دیا، میری حیرت میں مزید اضافہ ہو گیا، میں نے وجہ پوچھی، جواب ملا ’’میوزیم میں فوٹو کھینچنا منع ہے‘‘ میری ہنسی نکل گئی، میں نے اس سے کہا ’’بھائی صاحب انسان اگر میوزیم میں تصویر نہیں بنائے گا تو کہاں بنائے گا‘‘ وہ بیچارہ خاموش ہو گیا، یہ میری زندگی کا پہلا میوزیم تھا جس میں تصویر کشی سے روک دیا گیا، آپ دنیا بھر کے عجائب گھروں میں تصویریں بناتے ہیں۔
یہ تصویریں آپ کا اثاثہ ہوتی ہیں لیکن یہ پاکستان ہے جہاں میوزیمز میں تالے بھی ہوتے ہیں اور تصویر کشی بھی جرم ہوتی ہے، سامنے برآمدہ تھا، برآمدے سے گزر کر عمارت کے پیچھے گیا، عمارت کے پیچھے سرونٹ کوارٹرز اور عمارت کے منیجر کا دفتر ہوتا تھا، یہ حصہ آج کل میوزیم کے ملازمین کے زیر استعمال ہے، میوزیم میں داخلہ بیک سائیڈ سے ہوتا ہے، میں وہاں پہنچا تو یہاں بھی دروازے پر تالا لگا تھا، میں نے دائیں بائیں دیکھا، ایک صاحب دور برآمدے میں بیٹھے تھے۔
میں نے ہاتھ سے انھیں اشارہ کیا اور چلا کر پوچھا ’’ یہ تالا کون کھولے گا‘‘ اس نے بھی چلا کر جواب دیا ’’چوکیدار نماز پڑھنے گیا ہے‘‘ میں برآمدے میں نیچے بیٹھ گیا اور اپنے آپ سے پوچھا ’’اگر ہمارے قائد زندہ ہوتے تو کیا کوئی سرکاری ملازم سرکاری عمارت کو تالا لگا کر چابی جیب میں ڈال کر نماز پڑھنے چلا جاتا؟‘‘ جواب خاموشی کے سوا کچھ نہ تھا۔
عمارت کے کیئرٹیکر رشید صاحب بھلے آدمی ہیں، یہ 35 برس سے یہاں خدمات سرانجام دے رہے ہیں، ان کے لہجے میں درد بھی تھا اور یاس بھی۔ وہ نماز پڑھ کر میرے پاس آئے اور قائداعظم کی رہائش گاہ کا دروازہ کھول دیا، قائد کی خوشبو کا جھونکا دوڑ کر باہر نکلا، میں نے دہلیز کے اندر قدم رکھ دیے، اندر کی دنیا عجیب تھی، آپ نے اگر یہ دیکھنا ہو ہمارے قائد کس قدر نفیس اور اعلیٰ ذوق کے حامل تھے تو آپ کو ایک بار! صرف ایک بار ان کی رہائش گاہ کی زیارت اور ان کے زیر استعمال سامان کو دیکھنا چاہیے۔
آپ ان کے حسن ذوق کے عاشق ہو جائیں گے، دروازے سے اندر داخل ہوتے ہی برتنوں کی الماری تھی، یہ برتن قائد کے زیراستعمال رہے، برتنوں میں جاپان اور چین کی طرف سے تحفے میں دیا گیا چینی کا ٹی سیٹ بھی تھا، چائے کے دو کپ اسی طرح رکھے تھے جس طرح 65 سال پہلے رکھے جاتے تھے، یہ زہر کی نشاندہی کرنے والے کپ تھے۔
کپ میں اگر زہریلا مادہ ڈال دیا جاتا تو یہ کپ فوراً ٹوٹ جاتے، برتنوں کی الماری سے دائیں جانب قائد کی اسٹڈی تھی، اسٹڈی میں امریکی ٹیلی فون سیٹ بھی تھا اور قائد کی اسٹڈی ٹیبل، کرسی، ہاتھ دھونے والا پیالہ، آپ کے جرمن شیفرڈ کا پیتل کا مجسمہ، کتابوں کا ریک، کتابوں کی الماری، الماری میں کتابیں اور صوفہ سیٹ بھی تھا، سینٹرل ٹیبل پر شیشے کے نیچے قائد اعظم کے وزٹنگ کارڈز بھی رکھے تھے، ڈائننگ ہال میں بھی برتنوں کی الماری تھی اور الماری پر ہاتھ دھونے والا بڑا پیالہ رکھا تھا، دیوار پر قائداعظم اور فاطمہ جناح کی تصویر لگی تھی، یہ تصویر اسٹڈی کے صوفے پر لی گئی تھی۔
وہ صوفہ آج بھی اسی پوزیشن میں پڑا ہے، ڈائننگ ہال میں بارہ افراد کے لیے ڈائننگ ٹیبل تھی، یہ ٹیبل ممبئی کے کسی رئیس نے قائد کو گفٹ کی، ڈائننگ ہال میں شیشے کے دو شو کیس بھی تھے، یہ دونوں قیمتی لکڑی سے بنے تھے، ایک شو کیس میں برتن تھے جب کہ دوسرے پر ڈرائی فروٹ کی ٹرے پڑی تھی، کارنس پر لیمپ رکھا تھا اور دیوار پر قائد اعظم کا وہ مشہور پورٹریٹ تھا جس میں آپ نے آنکھ پر ایک شیشے کی عینک لگا رکھی تھی، ڈائننگ ہال کے ساتھ لکڑی کی سیڑھیاں اوپر جاتی ہیں، آپ سیڑھیوں کے سامنے کھڑے ہوں تو آپ کو سیڑھیوں کے نیچے گلابی رنگ کے تین صوفے اور کوٹ لٹکانے والا ہینگر نظر آئے گا۔
یہ جگہ قائد کے دور میں ویٹنگ روم تھی ۔ سیڑھیوں پر قائد اعظم کی تین تصویریں ہیں، وہ ایک تصویر میں فاطمہ جناح اور اپنی صاحبزادی دینا واڈیا کے ساتھ کھڑے ہیں، کیئر ٹیکر رشید صاحب نے بتایا ’’قائد کی صاحبزادی دینا واڈیا2004ء میں جنرل مشرف کے دور میں کراچی تشریف لائیں، وہ سیڑھیوں پر اس تصویر کے سامنے رک گئیں اور دیر تک روتی رہیں‘‘ یہ تصویر دیکھ کر میری آنکھوں میں بھی آنسو آ گئے، قائد اعظم کی دوسری تصویر جوانی کی تھی جب کہ وہ تیسری تصویر میں محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ کھڑے تھے، آپ جب بالائی منزل پر پہنچتے ہیں تو بائیں جانب محترمہ فاطمہ جناح کا بیڈ روم آتا ہے۔
یہ اسی حالت میں ہے جس میں محترمہ نے اسے آخری صبح چھوڑا تھا، محترمہ کے سلیپر تک بیڈ روم کے ساتھ پڑے ہیں، بیڈ کی پائنتی پر دو کرسیاں اور درمیان میں گول میز ہے، میز پر دھات کا پیالہ رکھا ہے، کمرے میں لکڑی کے شو کیس اور ریک بھی ہیں جب کہ ڈریسنگ ٹیبل پر لالٹین کی وہ تصویر پڑی ہے جو ایوب خان کے خلاف الیکشن کے دوران محترمہ فاطمہ جناح کا انتخابی نشان تھی، کوریڈور کی دیوار پر وہ تصویر بھی لگی ہے جس میں مسلم لیگی رہنماؤں نے محترمہ کو ایوب خان کے خلاف الیکشن کے لیے تیار کیا تھا، فاطمہ جناح کے کمرے کے ساتھ ان کا ڈریسنگ روم اور واش روم ہے، یہ دونوں بھی اصلی شکل میں موجود ہیں۔
آپ کوریڈور میں دائیں جانب جائیں تو پہلے ایک سٹنگ روم آئے گا، جہاں ایک چھوٹی ڈائننگ ٹیبل اور دو کرسیاں رکھی ہیں، کمرے کے دونوں کونوں میں کارنس ہیں اور کارنس پر دھات کے گل دان رکھے ہیں، کارنس کے درمیان دروازہ ہے، یہ دروازہ قائد اعظم کے بیڈ روم اورا سٹنگ روم میں کھلتا ہے، اسٹنگ روم میں قائد کے صوفے، ایزی چیئر، چھڑیاں، شمعدان، کتابوں کی الماری، شوکیس ، کاغذات کی الماریاں اور ڈریسنگ ٹیبل ہے، الماری میں ہاتھی دانت کی بنی خوبصورت چھڑی بھی موجود ہے، ساتھ ہی قائد اعظم کا بیڈ روم اور باتھ روم ہے، قائد اعظم کا بیڈ سنگل ہے، بیڈ کی ایک سائیڈ ٹیبل پر آپ کی بیگم رتی بائی کی فریم شدہ تصویر رکھی ہے، دوسری سائیڈ ٹیبل پر سیاہ رنگ کا ٹیلی فون سیٹ دھرا ہے۔
اس کے ساتھ فرشی ٹیبل لیمپ ہے، دیوار کے ساتھ دوسرا چھوٹا ٹیبل ہے جس پر جگ اور گلاس رکھا ہے، ایک ایزی چیئر بھی ہے، سنگل صوفہ پڑا ہے، صوفے کے سامنے میز پر قرآن مجید کا نسخہ رکھا ہے، قرآن مجید کی جلد چاندی کی ہے، ایک کونے میں کتابوں کی الماری ہے اور اس کے ساتھ کاغذات کا باکس ہے، یہ باکس کا فور سے بنایا گیا تھا، آپ باکس کھولیں تو آپ کو کافور کی خوشبو بھی آتی ہے، بیڈ روم کے ساتھ قائد کا باتھ روم ہے، باتھ روم انتہائی ماڈرن تھا۔
اس میں سفید باتھ ٹب بھی تھا، سفید واش بیسن بھی اور سفید امپورٹڈ کموڈ بھی، باتھ روم کے ساتھ قائد اعظم کے کپڑوں کی الماری ہے، رشید صاحب نے خصوصی مہربانی فرمائی اور الماری کھول دی، الماری میں قائد اعظم کے کپڑے لٹکے ہوئے ہیں، یہ کپڑے دیکھ کر میری آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے، میں اندر سے دکھی ہو گیا، باتھ روم کے کونے میں گندے کپڑوں کی ٹوکری بھی رکھی ہے اور باہر ریک پر قائد اعظم کے دو جوتے بھی پڑے ہیں، یہ دونوں جوتے ہینڈ میڈ اور قیمتی ہیں۔
میں قائد اعظم کی رہائش گاہ کی سیڑھیوں پر بیٹھ گیا، میں نے کیئر ٹیکر سے پوچھا ’’کیا لوگ قائد اعظم کے گھر کی زیارت کے لیے آتے ہیں‘‘ وہ دکھی آواز میں بولا ’’سال چھ مہینے میں کوئی ایک آدھ بندہ آ جاتا ہے اور بس‘‘ میرے آنسو دوبارہ رواں ہو گئے، میں روح تک قائد اعظم سے شرمندہ ہو گیا، قائد اعظم کے پاکستان میں اٹھارہ کروڑ لوگ رہتے ہیں، یہ اٹھارہ کروڑ لوگ اس ملک کے ’’بینی فشری‘‘ ہیں، ایم کیو ایم ملک کے بانیان کی جماعت کہلاتی ہے، مسلم لیگ قائد اعظم کی جماعت ہے۔
جماعت اسلامی اور دوسری مذہبی سیاسی جماعتیں قائد اعظم کو رحمت اللہ علیہ کہتی ہیں اور پاکستان پیپلز پارٹی چالیس سال سے روح پاکستان کے دعوے کر رہی ہے لیکن اس ملک میں قائد اعظم کا کوئی نہیں، ان کے گھر پر تالے پڑے ہیں اور کمرے بے چراغ ہیں، افسوس قائد اعظم سب کے ہیں لیکن میاں نواز شریف، عمران خان، آصف علی زرداری اور الطاف حسین سے لے کر ممنوں حسین تک قائد اعظم کا کوئی نہیں، یہ لوگ اس شخص کے گھر کا دروازہ تک نہیں کھولتے جس کے صدقے یہ آج حکمران ہیں، محسن کشوں کے اس ملک میں قائد کا گھر بے چراغ بھی ہے اور ویران بھی۔
۔۔۔ 
۔متعلقہ تحریر اوراس قومی یادگار کے بارے میں قابلِ قدر تاریخی معلومات۔۔روزنامہ دُنیا سے۔پچیس دسمبر2014 کو شائع ہوا" ۔
قائد اعظم ہاؤس میوزیم قائد اعظم ہاؤس میوزیم قائد اعظم ہاؤس میوزیم قائد اعظم ہاؤس میوزیم از شیخ نویداسلم
قائد کا بیڈروم
محترمہ فاطمہ جناح کا بیڈروم
محترمہ فاطمہ جناح کاڈریسنگ روم
ْقائد کاڈریسنگ روم
سٹنگ روم
سیڑھیاں،صوفے اور ہینگر

ڈائنگ روم اور برتنوں کا شوکیس

ڈرائنگ روم
قائد کے جوتے





 
قائد اعظم ہاؤس میوزیم

منگل, اپریل 21, 2015

"پہلی ملاقات۔۔۔پہلی نظر "


 جناب مستنصرحسین تارڑ کی نوفروری 2014 کراچی کی ایک تصویر  اور اس پر میرا احساس۔۔۔۔۔
"لمحۂ موجود"
وہ ایک " لمحۂ موجود
جو کلک نے امر کر دیا۔۔۔۔
زمانوں کے لیے
لفظ رقص کرتے ہیں تمہارے نام کے اطراف
تمہارا لمس تمہارے قلم کی تخلیقی قوت کی گواہی دیتا ہے۔
اور تم سارے قرض اتارتے ہو صرف ایک "شکریہ"کہہ کر ۔
کیا یہ محض اتفاق ہے۔۔۔۔۔۔ اگر ہے تو
اتنا حسین اتنا مکمل اتفاق بھی
چشم فلک نے کم کم ہی دیکھا ہوگا۔
تم تو جانتے ہو یہ سب
اور مانتے بھی ہو
سنو ایک آخری بات بھی سن لو
 اس کاغذی لمس میں
تم یہی کہتے ہو
کہ ذرا دیر کو ٹھہرا ہوں اس دنیائے فانی میں
اور میں۔۔۔۔
تارڑ" کے بغیر بھی
اتنا ادھورا نہیں دکھتا
تارڑ میرا فخر ہے
تو
مستنصر حسین میری شناخت
۔۔۔۔۔
وہ شخص جس کے لفظ  دل کے تار چھو جائیں اور لفظ کی کی خوشبو ہمیں اپنا اسیر کر لے،اُس سے  ملنے کی خواہش ایک فطری   عمل ہے۔ خاص طور پر اگر وہ ہماری دنیا میں ہمارے آس پاس بھی ہو۔ ورنہ جو ہم سے پہلے دنیا سے جا چکے، ان سے حالِ دل کہنے کی ایک حسرت سی رہ جاتی ہے۔اور جس کو  لفظ سے قربت کے ساتھ ساتھ  اپنے محبوب لکھاری  کی جھلک بھی  نصیب ہو جائے اس کا نشہ وہی جانےبقول شاعر،،جس تن لاگے وہ تن جانے۔ یہ دنیا تو بس چل چلاؤ کا میلہ ہے ہم میں سے کتنے اُن لکھاریوں کو ایک نظر دیکھنے  سے  ترستے رہ جاتے  ہیں جن کے لفظ ہمیں سرور دیتے ہیں۔ کبھی  وہ ہم سے پہلے جا چکے ہوتے ہیں تو کبھی ہمارے زمانے میں ہوتے ہوئے بھی ہماری پہنچ سے دور ہوتے ہیں۔زندگی مہلت دے تو انسان کبھی نہ کبھی اپنے پیارے سے مل ہی لیتا ہےلیکن اہم یہ ہے کہ مل کر محبت برقرار رہے ورنہ اکثر محبتیں کچے رنگوں کی طرح ملن کی پہلی بارش میں ہی بےرنگ ہو جاتی ہیں۔
یہ25 اپریل 2014 کی ایک شام کہانی ہے۔اسلام آباد کے مارگلہ ہوٹل میں ادبی میلے کی افتتاحی تقریب جاری تھی،اپنی بہن کے ساتھ کچھ دیر ٹھہر کر پھر شیما کرمانی کے کلاسیکی رقص کی بوریت سے اُکتا کر جیسے ہی میں نے  ہال سے باہر قدم رکھا اچانک سامنے سے جناب مستنصرحسین تارڑ تن تنہا بلا کسی پروٹوکول کے تیزی سے اندر جاتے دکھائی دیے ۔
مجھ سے پہلے میری بہن کی نظر پڑی تو اس نے کہا دیکھو تارڑ !!! تیس برس سے زائد جناب تارڑ کے لفظ سے قربت کے بعد آج اس لمحے میں نے پہلی بار ان کو اپنے سامنے اور اتنا قریب دیکھا۔ ہرانسان کی طرح عمر کے ماہ وسال نے اُن پر بھی اپنے نشان ثبت کیے تھے۔ کیا کیا جائے کہ پڑھنے والوں کے ذہن میں لفظ کی طرح لکھاری کا چہرہ بھی یکساں تازگی کے ساتھ محفوظ رہتا ہے خاص طور پر اگر لفظ کی تازگی میں بھی ذرہ برابر فرق نہ آیا ہو۔ذرا قریب آئے تو میں نے ڈائری آگے بڑھا  دی،کسی قدر خشک لہجے میں  جواب ملاکہ آج میں نے کسی کو آٹوگراف نہیں دینا۔میرا دل جو خواہ مخواہ ہی کانچ کا بنا ہوا ہے(اورمیں اسے ان بریک ایبل کہتی ہوں) اسی وقت ٹوٹ گیا۔اگر ساتھ کوئی نہ ہوتا تو شاید اسی وقت لوٹ جاتی۔ لیکن بہن نے اُن سے کہا۔۔ اچھا صرف ایک تصویر۔سو چند لمحے رُک کر انہوں نے ایک کلک کی اجازت دے دی۔
اس کے بعد میں نے تارڑ کو ہمیشہ کے لیے کھو دیا۔ایک عجیب سی اداسی  اندر ہی اندر سرایت کر گئی۔اس وقت بہت پہلے پڑھے ہوئے جناب تارڑ کے لفظ ہی یاد آئے۔۔۔کیا اُن کا کہنا درست تھا؟ کہ"کچھ صاحبِ کتاب سے کتاب ہی میں ملیں تو بہتر ہے"۔ پھر اپنے آپ کو سمجھایا کہ میں اس میلے میں خاص طور پر تو جناب تارڑ کے لیے نہیں آئی تھی اور نہ ہی مجھے اُن کی آمد کے بارے میں معلوم تھا۔ میں تو اردو زبان کے محترم لکھاری جناب رضاعلی عابدی کی مہمان تھی اور وہ ابھی کچھ دیر پہلے ہی تو تقریب میں پہلی قطار میں بیٹھے ہونے کے باوجود میرا رقعہ پڑھ کر فوراً باہر آ گئے تھے۔ اب میں اُن کے ساتھ لاؤنج میں ایک صوفے پر بیٹھی تھی اور خفت سے بتاتی تھی کہ جناب تارڑ ملے تو کیا ہوا۔انہوں نے بھی جناب تارڑ کی  اسی بات کی تائید کی کہ آج وہ کسی کو آٹوگراف نہیں دیں گے۔ میں سوچتی تھی کہ صرف آج ہی تو میں یہاں تھی۔ میلہ ویسے تو تین روز کے لیے تھا لیکن میرے لیے آج ہی سب کچھ تھا ۔کل کے میں نے کبھی خواب نہ دیکھے تھے اور کل سے اُمید رکھنا میں نے سیکھا ہی نہ تھا۔ ۔اسی دوران تقریب ختم ہو گئی اورحسنِ اتفاق کہ تارڑ بالکل سامنے والے صوفے پر آ کر بیٹھ گئے۔ اور پھر ان کو ایک نظر دیکھنے،بات کرنے والے عقیدت مندوں اور پھر آٹوگراف کے خواہش مندوں کا ایک تانتا سا بندھ گیا۔ میں اُن کے چہرے پڑھتی اور مسکراتی کہ محبت اور عقیدت کیسے رنگ بکھیر رہی ہے۔
 اب مجھے آٹوگراف لینے کی ٹھنڈ پڑ چکی تھی۔بس دیکھتی تھی اور سوچتی تھی  کہ یہ انجان نہیں جانتا کہ سامنے کوئی کتنے برس سے اس کے لفظ کے عشق میں مبتلا ہے اور آج یہ لمحہ اس کےعشق سفر کا حاصل ہے۔ اس لمحے ایسے ہی ایک نارسا لمحے کی یاد کسک بن کر میرے دل پہ دستک دیتی تھی کہ میں"احمد فراز" سے کبھی بھی نہ مل سکی۔اگرچہ وہ میرے شہر میں مجھ سے بہت قریب بھی تھے لیکن پہلے اُن کی خودساختہ جلاوطنی اور پھر میری شہر بدری نے فاصلے کم ہونے نہ دئیے۔ 
میں بس  جناب مستنصرحسین تارڑ کے ساتھ برسوں کے تعلق کے اوراق پلٹتی جاتی تھی۔۔ پہلی یاد ایک چوری کی تھی ۔۔ جب اُن کے  پاکستان ٹیلی وژن  پر  مارننگ شوکے زمانے میں پی ٹی وی اسلام آباد کے ایک انجنیئر سے منگنی کے بعد اس کا فون نمبر چپکے سے لے کر ملایا اور تارڑ سے بات کرنا چاہی وہاں سے حسب معمول ٹالنے والا جواب ہی ملا۔ پھر برسوں بےخبری میں ہی گزر گئے۔لیکن لفظ سے رشتہ قائم رہا اور احساس کا تعلق کبھی سرد نہ ہوا۔ اب  آمنا سامنا ہوا  تو خیال آیا کیا یہی وہ شخص تھا جس کا عکس برسوں سے میری سوچ کے پردے پر جھلملاتا رہا ؟۔۔جس کی روح لفظ کے مندروں میں بھٹکتی تھی اور ستائش کی بےجان مورتیوں کے سامنے سجدہ ریز ہوتی تھی؟ ۔۔ پھر خیال آیا کہ اس کے قدم بھی تو بلندیوں کے پتھروں کے ہم رکاب ہوئے تھے؟۔۔ جس کا خواب بھی آ جانا اس نفسا نفسی کے عالم میں بڑے کرم کی بات ہے۔۔۔اُس کے ہاتھوں نےاُس درِدستک کو چھو کر یہ سوال تو ضرور کیا ہو گا کہ "میں کون ہوں اور میں کیوں اس مئے خانے میں ناآسودہ اور خوار رہا؟۔۔۔ خمار کے نشے میں مدہوش ہو کر بھی اُن جالیوں سے اُس کی آنکھ کے لمس نے یہ سوال بھی کیا ہوگا کہ دُنیاوی لذتوں کے بوسے کیوں میری قسمت میں لکھ دئیے گئے ؟ میں بھی تو تقدیر کا غلام تھا تو ایسی کایا پلٹ ایسا عروج بھی اگر میرے نصیب میں لکھا تھا تو دل وجان سے اِسے قبول کرنے میں کیوں سراپا ملامت بنا رہا ؟ نہ صرف اپنوں بلکہ غیروں کی تشکیک کے سایوں نے میرا قد گھٹانے کی لاکھ سعی کی لیکن مجھے چلنا تھا چلتا رہا اور چلتا چلا گیا۔
میں اداسی کی بارش میں بھیگتی جا رہی تھی کہ یکدم جیسے روشنی سے چمکی  اور سب واضح ہو گیا۔غلطی سراسر میری تھی۔ مجھے لفظ سےعشق تھا اور لفظ کے حوالے سے اس لکھاری سے انسیت تھی تومیں کیوں غیر ارادی طور پر شخصیت کو لفظ پر اہمیت دے رہی تھی اور یہ وہی راز تھا جو میں اپنے لیے بھی ہرگز پسند نہ کرتی تھی اور میرے اندر سے بھی تو یہی پکار اٹھتی تھی کہ"میں نے اپنے لفظ سرِ بازار رکھے ہیں اپنی ذات نہیں"۔ لمحوں میں میرا موڈ بدل گیا اور پھر جب اُن کے پاس رش کم ہوا بلکہ جب کوئی نہ تھا تو ساتھ جا بیٹھی اور ڈائری بڑھا دی کہ اب مجھے "ٹھکرائے" جانے کا ڈر نہ تھا۔ میرا نام پوچھ کر انہوں نے اپنی روایتی خوش دلی سے  دستخط  کیے، پھر میں نے انہیں   بتایا کہ  پہلے میں آپ کو پڑھتی تھی اب میرے بچے پڑھتے ہیں اور ٹریکنگ پر جاتے ہیں اُن دنیاؤں کی سیر کرتے ہیں جو صرف عشق خاص کی چاہ رکھنے والوں کے سامنے اپنی چھب دکھلاتی ہیں۔ میں اُن کی آنکھوں سے ان منظروں کو محسوس کرتی ہوں۔ اور اسی فضا میں سانس لینے لگتی ہوں۔ بس یہ ہے کہ خیریت سے واپس آنے تک جان سولی پر ٹنگی رہتی ہے کہ موت کو پڑھ کر اس سے لطف اٹھانا ایک عجیب سے رومانوی سنسنی بھری شدید کشش رکھتا ہے لیکن کسی اپنے کا اسی جگہ پر جانا سب کچھ بھلا دیتا ہے۔ صرف دعا رہ جاتی ہے۔ 
 جناب مستنصرحسین تارڑ کے حوالے سے اس ادبی میلے کی ایک اور یاد۔۔۔
بلاگ "اسلام آباد ادبی میلہ 2014 " سے چند سطریں۔۔
 ۔"مرزا غالب" کے سیشن سے پہلے"ارض شمال" کے نام سے گلگت بلتستان کے شاعروں کا سیشن تھا۔ 'رواداری' میں بیٹھ گئی تو اچانک پچھلی نشستوں پر بیٹھے" مستنصر حسین تارڑ" صاحب پر نظر پڑی۔بہت اچھا لگا۔ آپ نےبلتی شاعروں کو دل کھول کر دل سے داد دی اور مجھے دل ہی دل میں شرمندگی ہوئی کہ ہمارے دیس کے دوردراز خطوں کے یہ باسی اپنے اظہار میں کتنے سادہ اور تنہا ہیں اورہم شہر میں رہنے والوں کی ناقدری کے باعث کتنے اداس ہیں ۔ خیر سوال جواب کے سیشن میں جناب مستنصر حسین  تارڑ   کو سننے کا موقع ملا تو چند لفظ ذہن میں رہ گئے( مفہوم بیان کرنے کی کوشش کرتی ہوں)۔ آپ نے کہا (مفہوم) " کہ لوگ مجھے کہتے ہیں کہ کیوں بار بار اور اس عمر میں ان علاقوں کو جاتے ہیں۔ تو میں کہتا ہوں کہ "شمال سے ہوائیں اور دعائیں مجھے بلاتی ہیں"۔
آخری بات
فطرت کاعام اصول بھی تو یہی ہے کہ جب ہم جسمانی طور پرکسی کو دل سے محسوس کرتے ہیں تو ذہنی طور پر بھی اس سے قربت کے خواہاں ہوتے ہیں۔ اسی طرح اس کے برعکس جب کسی ذہن ، سوچ اور کسی کے لفظ سے قربت محبت میں بدل جائے تو پھر اس کے جسمانی وجود اور احساسات سے اُنسیت بھی بڑھ جاتی ہے۔ خاص طور پر جب وہ اپنے بارے میں سب کہہ دیتا ہو۔۔۔ اپنی خامیوں پر خود ہنستا ہو اور خوبیوں کو بھی تنقیدی نگاہ سے دیکھتا ہو۔ یوں جناب تارڑکے زمینی سفر سے زیادہ ذہنی سفر میں ایک عجیب سی کشش ہے۔ شاید اس لیے کہ ہم عمر کے ہر دور میں جو کچھ محسوس کرتے ہیں۔ جناب تارڑ کے لفظ اس کی بخوبی ترجمانی کرتے ہیں۔
اپنی ذات کے اندر سفر کرنے کے لیے جناب تارڑ کے لفظ ہمارے لیے اُس جگنو کی مانند ہیں جو اندھیری رات میں پل کو چمکتا ہے اور محض ایک ثانیے کو سہی راستہ روشن ضرور کردیتا ہے۔ منزل کی نشاندہی اس کی ذمہ داری نہیں بس وہ کلفتِ سفر کی تھکان ضروراتار دیتا ہے۔جناب تارڑ کے لفظ کے ساتھ جڑا مسکراہٹ سے زیادہ خالص رشتہ آنسو کا ہے جو لفظ پڑھنے سے زیادہ محسوس ہونے سے آنکھ نم کر دیتے ہیں۔۔۔ ہنستے ہنستے ایک دم رُلا بھی دیتے ہیں اور روتے روتے تسلی بھی دے دیتے ہیں ۔ اسی کا نام زندگی ہے اور اسی کا نام ادب ہے جو دلوں میں گھر کر جاتا ہے۔
مستنصر حسین تارڑ کے سفر نامے ۔۔۔۔
عام طور پر جناب تارڑ کی کتابوں  جن میں خاص طور پران کے سفر ناموں سے۔۔ اور ان کے لفظوں کی سحرطرازی سے لوگ متاثر ہوتے ہیں۔لیکن میرے نزدیک جناب تارڑ کی زندگی کی کھلی کتاب اہم ہے۔۔عمر کے بدلتے موسم کے ساتھ ان کا ذہنی سفر اہم ہے۔۔ اور سب سے بڑھ کر ان کے وہ لفظ اہم ہیں جو پڑھنے والے کے دل کی آواز بن کر اسے قربت کا احساس دلاتے ہیں۔اور"متاثر ہونا"  بھی درست لفظ نہیں کہ اس سے عقیدت جھلکتی ہےجو جہالت کی بند گلی کی طرف لے جاتی ہے کہ اس کے بعد انسان کوئی سوال پوچھنے کے قابل نہیں رہتا
 اس میں شک نہیں کہ لفظ سے محبت کے سفر میں جناب تارڑ کے سفرنامے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اُن کے"سفر ناموں کی خاص بات یہ کہ اُنہوں نے اپنے ہر احساس کے ساتھ انگریزی والا "سفر"کیا۔اس "سفر" کی روداد کے بیان کے لیےانہوں نے ناول ،کالمز،سفر نامہ نگاری،ڈرامہ نگاری سے لے کر اداکاری تک کے رنگ استعمال کیے۔یوں آپ کے احساس کی مکمل تصویر سامنے آئی  اور ہماری روح کو چھو گئی۔۔

" نیپال نگری"

 نیپال نگری"
نیپال نگری۔۔۔مستنصر حسین تارڑ
گندھارا کے مہاتمابدھ کے نام۔۔۔۔
سفر مارچ1998
اشاعت 1999۔
...36 
"یہ آپ کو پیر نہیں مانتا۔۔۔۔ "ممتاز مفتی نے فاتحانہ انداز میں پروفیسر صاحب کو کہا۔" اسے آپ سے عقیدت نہیں ہے"
پروفیسر صاحب نے گولڈلیف کاسُوٹا لگایا اور کہا"یہ تو بہت احسن بات ہےکہ تارڑ صاحب مجھ سے عقیدت نہیں رکھتے کیونکہ۔۔جہاں سے عقیدت کا آغاز ہوتا ہے،وہیں سے جہالت شروع ہوجاتی ہے"۔
عقیدت اور ایکٹنگ میں بہت زیادہ فرق نہیں ہوتا۔دونوں کو طاری کرنا پڑتا ہے اور جہاں سے عقیدت کا آغاز ہوتا ہے وہیں
سے جہالت اس لیے شروع ہوتی ہے کہ اس کے بعد آپ سوال نہیں پوچھ سکتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
گوجرخان کے پروفیسر رفیق اختر کو میں تب سے جانتا تھاجب وہ اپنے آپ کو جوگی کہلاتے تھے اورمیرے بال بچوں کے لیے وہ اب بھی جوگی انکل تھے ۔ ۔ ۔پروفیسر صاحب کلین شیو،گولڈلیف سگریٹ کےکش لگاتے ہوئےایک ایسے عبادت گذار شخص تھے جنہوں نے مجھے قرآن اور خدا کے بارے میں وہاں تک قائل کیا جہاں تک میں ہو سکتا تھا۔ ۔ ۔کسی بھی بڑےسے بڑے جید عالم دین نے میرے شکوک کو اُس طرح زائل نہیں کیا تھا جس طرح جوگی صاحب نے منطق اور استدلال سے۔ ۔ ۔ اور اُس رنگ زبان سے۔ ۔ ۔چاہے وہ انگریزی ہو یا پنجابی اور میری خواہش ہے کہ مجھے اُن جیسا ایکپریشن نصیب ہو کہ ان کا پیرایہء اظہاربڑے سے بڑے ادیب کو حیرت میں ڈال دیتا ہے۔ ۔ ۔ مجھے متاثر کیا ۔ ۔ ۔اور میں آسانی سے متاثر ہونے والوں میں سے نہیں ہوں ۔ ۔ ۔ 
۔۔۔
میں ان پرندوں کی ڈار میں سے نہ تھا جو سولتی ہالیڈے اِن ہوٹل میں گھونسلا بنا کر.. بلکہ ایک ریڈی میڈ گھونسلے میں اتر کر چہچہانے لگتے ہیں.. بلکہ مجھے تو آوارگی سفر کے تنکے چن چن کر کسی منظر کے سامنے اپنا گھونسلا بنانا تھا... شاید ماؤنٹ ایورسٹ کے سامنے.. شاید انا پورنا کے دامن میں۔
159۔۔۔۔
آج تک یہ فیصلہ نہیں ہو سکا کہ جوئے کی جیت میں نشہ زیادہ ہوتا ہے یا سیاست کی جیت میں..
جوئے کا مثبت پہلو یہ ہے کہ یہ ایک انسان کے فخر میں قید ہوتی ہے... سیاست کی جیت میں ایک انسان پوری قوم کو قید کر لیتا ہے۔
۔۔۔۔
میں زندگی کے قمار خانے میں بہ رضاو رغبت آ تو گیا تھا.. اس کے باوجود کہ میں جیت نہیں سکتا.. کسی جھیل کرومبر.. کسی شاہ گوری کو اپنی ملکیت نہیں بنا سکتا تھا.. وادئ سوئنج کی بلندی پر کسی آبشار میں بھیگتے زرد پھولوں کو اپنے گھر میں نہیں لا سکتا تھا.. وادئ سوختر آباد کے کسی زرد سنو ٹائیگر کو اپنا نہیں بنا سکتا تھا.. دیو سائی کے میدانوں میں جو عجب رنگت اور شکل کے پھول کھلتے ہیں انہیں اپنے میدانوں میں نہیں لا سکتا تھا- سنو لیک پر تیرتی کشتیوں کے بادبانوں کا رخ موڑ کر انہیں اپنے ڈرائنگ روم کی زینت نہیں بنا سکتا تھا اس لئے میں ایک ہارا ہوا جواری تھا۔
چنانچہ میں اس قمار خانہ حیات سے اٹھ گیا۔
۔۔۔۔
میں نے ان حیرتوں کے بارے میں سوچا جن کے لئے میں نے زندگی گنوا دی... ان حیرتوں نے بہت سارے خطوں پر پرواز کی... کوہِ آرارات- جھیل جنیوا- قرطبہ کی شاموں اور سویڈن کے جنگلوں... روم- ارضِ روم- فرانس- ہرات- شاہ گوری- نانگا پربت اور جھیل کرومبر پر پرواز کی... لیکن خواہشوں اور حیرتوں کے قمار خانے میں مَیں ہمیشہ ایک ہارا ہوا جواری تھا۔ جو میں جیتنا چاہتا تھا وہ جیت نہ سکا...اور جو ہارنا چاہتا تھا وہ ہار نہ سکا۔
....296
ایک آوارہ گرد۔۔ایک کوہ نورد دنیا داروں سے اس لیے بہت سُپریئر ہوتا ہے کہ وہ اُن خطروں کو مول لیتا ہے جو نہ اُسے دولت سے مالامال کرتے ہیں اور نہ ثواب کا باعث بنتے ہیں۔وہ کسی بھی غرض کے تحت اپنی جان داؤ پر نہیں لگاتا بلکہ یہ اس کے من کی موج ہوتی ہے جو دنیا داروں کے حساب کتاب میں سراسر گھاٹے کا سودا ہوتا ہے ۔لیکن وہ بیوپاری نہیں ہوتا۔۔۔چونکہ وہ بےغرض ہوتا ہے اس لیے وہ جس وادی میں پہنچتا ہے،جس جھیل تک رسائی حاصل کرتا ہے وہ اُسی کی ہوجاتی ہے۔۔ان وادیوں اور جھیلوں کا کوئی سٹاک ایکسچینج نہیں ہوتا۔۔۔۔ان کے حصے کبھی نہیں گرتےکہ یہ ان کی پہنچ میں
ہی نہیں ہوتے جو کاروبار کرتے ہیں ۔۔
۔۔۔۔
اردو ادب کے ایک معتبر نقاد مظفرعلی سید نے کھٹمنڈو یاترا سے پیشتر.. اپنے کینسر زدہ بدن سے مختصر سانس کھینچتے ہوئے کہا تھا.. تم حضرت محل کی قبر پر ضرور جانا۔...
تو میں نے عرض کیا تھا.. شاہ جی اگر میں وہاں تک پہنچتا ہوں تو وہی دیکھوں گا جو دوسرے دیکھتے ہیں،ایک قبر کے سوا کیا دیکھوں گا-تو ان کی شرارت بھری آنکھوں میں ایک چمک پیدا ہوئی تھی.. مجھے یقین ہے کہ تم کچھ اور دیکھو گے۔اور وہ اور کچھ اور کیا تھا۔۔۔۔حضرت محل کی قبر کے درمیانی مستطیل کچے حصے میں سے ابھرتا ہوا ایک ناقابل یقین حد تک نیپال نگری کی رات میں بلند ہوتا ہوا سرو کا درخت۔...ٹیڑھا اور قدرے خشک ٹہنیوں والا سرو کا درخت۔
کسی بھی قبر کی مٹی میں سدا بہار کے بے معنی پھول لگائے جا سکتے ہیں.. اس کی کچی مٹی جب بارشوں سے بیٹھتی ہے تو کسی بھی قبر پر خودرو بدنما گھاس سر اٹھا سکتی ہے.. نا معلوم جھاڑیوں کے بیج پھوٹ سکتے ہیں.. ببول کے پودے اگ سکتے ہیں لیکن... ایک سرو کا درخت وہاں کیسے اگ آیا.. حضرت محل کے سینے میں جڑیں پھیلائے اور یہ جڑیں فرغانہ تک جاتی تھیں ایک سرو کا ٹیڑھا ترچھا درخت تھا جو کھٹمنڈو کی ملحد شب میں.. جس میں ایک پجاری مہاتما بدھ کے مجسمے چمکاتا تھا اور انا پورنا دیوی کے مندر کی گھنٹیاں بجتی تھیں اور حضرت محل کی قبر کے پار سڑک کے دوسرے کنارے سے وہ تالاب شروع ہوتا تھا جس میں نا معلوم دیوی کے چرنوں میں چراغ جلتے تھے اور ادھر نَے چراغے... وہ سرو یوں بلند ہوتا تھا جیسے عرش پر دستک دینے کو جاتا ہے.. فریاد کرتا ہے کہ میں تجھ تک پہنچ نہیں سکتا کہ میرے راستے کو ایک ہیئر ڈریسر،ایک بیوٹی سیلون اور ایک ٹریول ایجنسی کے بورڈ روکتے ہیں- میں جس کے نسوانی ڈھانچے میں جڑیں پھیلائے بلند ہوتا ہوں اُس نے جنگِ آزادی میں انگریزوں کا سامنا بے جگری سے کیا تھا... ان کے آگے ہتھیار نہیں ڈالے تھے اور لڑتی ہوئی لکھنئو سے نیپال کے ترائی کے جنگلوں میں اتر گئی تھی... اور میرے خدا نے میری لاج رکھ لی تھی اور وطن سے دور مارا تھا۔ سڑک کے پاس تالاب کی دیوی کے چرنوں میں چراغ جلتے تھے... اور ادھر لکھنئو کی شہزادی کی قبر پر... نَے چراغے.... نَے گلے... بس ایک سرو کا درخت۔....خاک میں جو صورتیں تھیں وہ لالہ و گل میں نہیں ایک سرو کے قد میں نمایاں ہو رہی تھیں۔۔۔۔.... 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نیپال نگری پر محمد احسن کا احساس۔۔۔
مجھے تارڑ صاحب کے دو سفرناموں پر ہمیشہ حیرت اور خوشی رہی ہے..... رتی گلی اور نیپال نگری. رتی گلی سفرنامہ میں تارڑ صاحب رتی گلی جھیل تک نہیں پہنچے اور نیپال نگری میں وہ ماؤنٹ ایورسٹ کے قریب جانا تو درکنار، اُس کا مشاہدہ بھی نہ کر سکے. گویا سعودی عرب جانا اور بغیر عمرہ وطن لوٹنا. مگر یہی دو سفرنامے مجھے پُرامید بھی کرتے ہیں کہ راہ بھی منزل ہوتی ہے... منزل ہاتھ سے نکل جائے تب بھی راہ کی اہمیت کم نہیں ہوتی.. راہ کا سفرنامہ بھی جائز ٹھہرتا ہے

جمعرات, اپریل 16, 2015

"کرنیں (5) "

کرنیں (5)۔
رزقِ خیال ۔۔۔۔
خدا اور خودی باعثِ نجات ہیں۔۔۔دنیا کی پستیوں اور آخرت کی ذلتوں سے رہائی کے لیے۔
۔۔۔۔۔
سر جھکانے میں  نہ ختم ہونے والی لذت ِحیات ہے اور نادان فقط ماہ وسال کی زندگی کے طلب گار رہتے ہیں۔
۔۔۔
چراغ جتنے مرضی جلا لیں   لیکن خود اپنے لیے کبھی چراغ تلے اندھیرا    نہیں  ہونا چاہیے۔ وہ روشنی جو جگ کو تومنور کرے لیکن ہمارے اندر کی تاریکی دور نہ کر سکے، ہمارے اپنے راستے کو روشن نہ کر سکے اس سے پناہ مانگنی چاہیے۔
۔۔۔۔
 مکافاتِ عمل۔۔۔بےحسی بانجھ نہیں ہوتی اس کی کوکھ سے کبھی نہ کبھی آزمائش جنم لے ہی لیتی ہے۔
۔۔۔۔۔

 جو انسان کا شکرگزارنہیں وہ رب  کا شکرگزار بھی نہیں۔
۔۔۔۔
زمانے سے کوئی گلہ کبھی نہ  کرو۔۔۔زمانہ اپنی سمجھ کے مطابق عمل کرتا ہے۔ اور شکوہ بھی نہیں ورنہ رب کی ناشکری ہو جائے گی۔
۔۔۔۔۔
تخیل کی پرواز سولو فلائیٹ کی سی ہے جس کا نشہ ایک ہواباز ہی جان سکتا ہے۔
۔۔۔۔
ہرجنس کا رزق اُس کی تلاش میں پنہاں ہےاور یہ رزق ہی اس کے شرف کا تعین کرتا ہے۔
۔۔۔
حسد اگر نیکیوں کو کھا جاتا ہے تو شک زندگی کی خوشیاں نگل لیتا ہے۔
...
زندگی صرف شیطان کو کنکریاں مارنے کا نام ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔
خوش ہونے اور خوش فہم ہونے میں صرف فہم کا ہی فرق ہے۔
.......
دل کی آنکھ ہر ایک کے پاس ہوتی ہے بس کھلتی کسی کسی کی ہے۔
۔۔۔۔۔
ہم ناقدر شناس قوم ہیں، زندہ کو نظرانداز کر جاتے ہیں اور مرنے والے کے قدموں میں بیٹھتے ہیں۔
۔۔۔۔۔
جن پانیوں سےمسکراہٹوں کے بےدریغ چشمے پھوٹتے ہیں وہ کتنے گہرے اور تنہا ہوتے  ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
جسم کی مشقت اتنا نہیں تھکاتی جتنا رویے انسان کو نچوڑ دیتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔
انصاف فطرت ہے۔۔۔حق ہے اور حق لُوٹا نہیں جاسکتا اور نہ کبھی لوٹنے سے ملتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔
نصیب کی کنجیاں عمل اور نیت سے ہی کھلتی ہیں ورنہ ہمارے لئے سب سے آسان کام الزام دینا ہی رہا ہے۔
 ۔۔۔۔
کسی اپنے" کی تلاش ہمیں در در بھٹکاتی ہے اور جو اپنا ہو وہ خود ہی مل جاتا ہے جب ہم تھک ہار کر بیٹھ جائیں۔
۔۔۔۔۔۔
محبت اور موت کے درمیان توازن ہی تو زندگی کہانی کی کامیابی کا راز ہے۔جس کا تعین وقت کرتا ہے۔
۔۔۔۔۔
ہر انسان دینے کی صلاحیت رکھتا ہے بس لینے والا اسے پہچاننے کی اہلیت رکھتا ہو۔.
۔۔۔
سوال میں سے ہی بہت سے سوالوں کے جواب ملتے ہیں۔
۔۔۔۔
 زمانے کی ٹھنڈ ہمارے اندر اُتر کر ہمیں گلیشئیر بنا دیتی ہے۔ بظاہر منجمد ہو کر ایک آتش فشاں سدا کہیں اندر دہکتا رہتا ہے۔ وقت کی چادر سرک کر ذرا سی چنگاری دکھا بھی دے لیکن شعلہ جوالہ کبھی پیدا نہیں کر سکتی۔
۔۔۔۔
ذہن کی گرد صاف کرنے کے لیے جسم کو ہر وقت پاک رکھیں۔
۔۔۔۔۔
 کچھ انسان بادلوں کی طرح ہوتے ہیں۔ کبھی بن برسے گزر جاتے ہیں اور کبھی اندر باہر سے شرابور کر دیتے ہیں۔
۔۔۔۔۔
کبھی تصویر کے ایک ہی چوکھٹے میں لگا دوسرا عکس دکھائی نہیں دیتا۔اور کبھی ہم کسی کے بہت قریب ہو کر بھی بہت دور ہوتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔
زندگی بند آنکھوں سے سب کچھ مان لینے اور اندر کی آنکھ کھول کر جان لینے کا نام ہے۔چاہےخوش فہمیوں کے سہارے سے گزاری جائے یا اپنی عقل کی لاٹھی سے راستہ تلاش کرنے کی لاحاصل سعی کی جائے۔ زندگی کسی کی پروا نہیں کرتی۔

بدھ, اپریل 15, 2015

"سویا ہوا محل"

پانچ اور چھ جنوری 2015 کی درمیانی رات کی خود کلامی ۔۔۔۔۔
جن کے دھندلے دن ہوتے ہیں اُن ہی کی راتیں کالی ہوتی ہیں۔۔۔رات سونے اور رونے کے لیے نہیں ہوتی ۔۔۔رات غور کرنے اور یاد رکھنے کے لیے بھی ہوتی ہے۔
اِس کھل جاسِم سِم میں ہر چیز اپنی جگہ پر حنوط تھی۔۔۔ "سوئے ہوئے محل" کی طرح۔۔۔ وقت دیوار پر 2014 کے کلینڈر کے آخری صفحے پر ٹھہرا ہوا تھا۔۔۔بستر پر تکیے کےنیچے سلیقے سے تہہ درتہہ ٹشو پیپر اور نیویا کریم کی چھوٹی سی نیلے رنگ کی ڈبی لمس کی منتظر تھی۔۔۔ اور تکیے کے ساتھ ایک بےجان ریموٹ کنٹرول بھی تو تھا۔۔۔ سامنے کی دیوار پر لگی کالی اسکرین کے نیچے لال نقطہ ظاہر کرتا تھا کہ بس انگلی کی معمولی سی جُنبش کی دیر ہے پھر "زندگی لوٹ آئے گی"۔
آنکھوں کے سامنے اسٹینڈ پر فوری پہننے والے کپڑے تھے تو ساتھ ہی اخبار پر استری کیے کپڑے اور ایک گلابی رنگ کا دھلا ہوا تولیہ نفاست سے تہہ کیے رکھا تھا۔ کھونٹی پر ٹارچ والی واکنگ اسٹک بھی ویسے ہی ٹنگی تھی۔ سارے منظر کی تصویر کشی کرتا بڑا سا گول آئینہ بھی مجھ سے باتیں کرتا تھا۔ اس کے اوپر کلمۂ طیبہ کا جگمگاتا اسٹکراور اس کے نیچے لکھا۔۔۔
یہ سب تمہارا کرم ہے آقا ﷺ
کہ بات اب تک بنی ہوئی ہے ۔ میری نگاہوں کے بوسے لیتا تھا۔ہاں!!! اس کے عین نیچے کسی اسٹیکر کی باقیات کی جھلک بھی تھی وہ جس کی تحریر صرف مجھے معلوم تھی اور میرے دل پر نقش تھی۔ شاید میں نے ہی بہت پہلے اس کو بہت پرانا اوربوسیدہ ہونے پر ہٹانے کی کوشش کی تھی۔ یاد کے اندھیرے میں روشن وہ ایک شعر تھا۔۔۔
پھول کی پتی سے نازک تھا میرا جگر
حالات نے اسے پتھر بنا دیا
آج اس کمرے میں رات کی مکمل تنہائی اور خاموشی میرے ساتھ نیند کرتے تھے۔ اس محل کا مکین آنکھیں کھول کر سوتا تھا تو میں کیسے یہاں اپنی زندگی کی پہلی رات آنکھیں بند کر کے سو سکتی تھی۔35 برس سے گھر کا ہر گوشہ میری نیندوں اور میرے خوابوں کا رازدار تھا۔حیرت کی بات ہے کہ اس کمرے کے مالک کی بھرپور موجودگی نے کبھی یہاں سونے کا خیال نہیں آنے دیا اور آج اُن کے چلے جانے کے بعد ایک دم خیال یوں آیا کہ جیسے گھر میں اس کمرے کے علاوہ سونے کے لیےاور کوئی جگہ ہی نہ بچی ہو۔۔
فجر کی اذان سےبھی بہت پہلے میرا ذہن بیدار تو ہو گیا لیکن میرے نافرمان جسم نے رات کی اوؔلین ساعتوں میں شکرگزاری کے 'نفلی' سجدے کا ساتھ نہ دیا پھر فرض کی ادائیگی کے وقت ذہن نے کان پکڑ کر اُٹھا دیا۔معمول کی تلاوتِ یٰسین اور پھر بعد میں سورہ فجر پڑھتے ہوئے اس کی آخری آیات پر پہنچی جو ہمیشہ سے میرے لیے دُنیا وآخرت کی بہترین دعا ہیں۔۔۔اور اس سوئے ہوئے محل کے جانے والے مکین کی زندگی کہانی کا آخری باب بھی۔۔۔"نفسِ مطمئنہ" جس کی دعا ہر صاحب ایمان کے دل سے نکلتی ہے، اُس کی عملی تصویر اس وقت میرے سامنے عیاں تھی۔
سامنے ایک کرسی پر چار اور پانچ جنوری کے ربڑبینڈ میں لپٹے ان چھوئے اخبار پڑے تھے(ابھی ابھی میں نے چھ جنوری کا بھی لا کر رکھا ہے) جسے اخبار والا ڈال کر ایک دم ہی چلا گیا اور میں اس سے بات کرنےکا انتظار کرتی رہ گئی۔ اخبارلانے والوں کی بھی عجیب زندگی ہے،پَو پھٹنے سے پہلے بیدار ہو کر اپنے حصے کا کام شروع کرتے ہیں اور اخبار ڈالتے وقت سیکنڈوں میں اخبار پھینک کر غائب ہو جاتے ہیں۔ خیرمیں نے اپنے آپ کو یہ سوچ کر تسلی دی کہ شاید ابھی اس ماہ اخبار کا بل ادا نہیں کیا گیا تو جب بل لینے آئے گا آئندہ اخبار لانے سے منع کردوں گی کہ اخبار پڑھنے والا اب ہر خبر سے بےنیاز ہو گیا ہے۔
جنوری کی 3 تاریخ تھی ۔ ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب ابو کو سانس کی گھٹن محسوس ہوئی۔اس کرب کی حالت کوبڑے ضبط سے برداشت کرتے ہوئےبچوں کی نیند خراب ہونے کے احساس سے فوری ہسپتال جانے سے منع کرتے رہے۔ فجر تک زبردستی ہسپتال گئے۔۔۔اپنےاسی کمرے سے خود چل کر۔۔۔
اپنی قوتِ ارادی کو آخری حد تک مجتمع کرتے ہوئے۔۔۔اور بیٹیوں کو بھی اپنے ہوش وحواس قابو میں رکھنے کی تلقین کرتے ہوئے۔ اتوار 4 جنوری 2015(12 ربیع الاول) کومغرب کی اذان سے ذرا پہلے اسلام آباد کے پمز ہسپتال میں ابو کا انتقال ہوا۔ کچھ دیر بعد اُن کو گھر لے آئے اور گھر کے ڈرائنگ روم میں ایک چارپائی پر لٹا دیا۔۔۔۔ یہ کیسا عجیب وقت تھا کہ گھر کا مالک اپنے پیروں سے چل کر گیا اور 24 گھنٹوں کے اندر تھوڑی دیر کے لیے واپس تو آیا لیکن نہ اپنے پیروں پر اور نہ ہی اپنے کمرے میں۔ اس رات وہ کمرہ بند تھا اور بند ہی رہا۔۔۔
ابو کا یہ کمرہ ہر لحاظ سے گھر کا ماسڑ کنڑول روم تھا۔۔۔جس کے دروازے پر اندر آنے کی اجازت کی سرخ بتی ہر وقت جلتی رہتی،ہم ہمیشہ جھجھکتے ہوئے داخل ہوتے بےشک یہ صرف ہمارا ہی فاصلہ تھا ورنہ اُن کے جاگنے کے علاوہ نیند کی حالت میں بھی اُن کو آواز دینے کی ضرورت پیش آتی تو اسی وقت جواب مل جاتا۔ وہ دنیا کے شاید واحد نانا تھے جن کے چھوٹے بچے گھر میں اودھم مچائے رکھتے اور انہوں نے کبھی شور یا نیند خراب ہونے کی شکایت نہ کی بلکہ ہم بڑوں کا بچوں کو ڈانٹنا یا چپ کرانا بھی پسند نہیں کرتے تھے۔بس اس وقت رات دیر تک جاگنے پر سرزنش کرتے جب صبح بچوں کو گھوڑے پیج پر سوتے دیکھتے۔ وہ کہتے تھے کہ پہلے نماز وقت پر پڑھو پھر جو چاہے کرو۔یہاں یہ سطریں لکھتے ہوئے پطرس بخاری کا جملہ یاد آیا " کام کے وقت ڈٹ کر کام کرو تا کہ کام کے بعد ڈٹ کر بےقاعدگی کر سکو"۔ ابو اس جملے کی چلتی پھرتی مثال تھے۔
وہ بچوں کے بچوں سے بڑھ کر دوست تھے۔۔۔اُن کے لاڈ اٹھاتے،فرمائشیں پوری کرکےبگاڑنے والے مہربان نانا تھے۔بچوں کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں پر پیسےیوں خرچ کرتے جیسےکوئی لاٹری نکلی ہو۔ چودہ اگست کے لیے پہلے سے پٹاخوں کی ڈبیاں نہ صرف خود لا کر بچوں کے لیے اسٹاک کر کے چھپا کر رکھتے بلکہ بڑوں سے نظر بچاتے ہوئے مٹھی میں چھپا کر بچوں کو پیسے دیتے۔اپنے ساتھ آئس کریم کھلانے لے کر جانا روز کا کام تھا جو ان کے ساتھ ظہر کی نماز پڑھنے جاتے ان کے مزے ہو جاتے۔ وہ بڑی فراخ دلی سے کھلائے جاتے اور خود بھی کھاتے بلکہ کہتے کہ بچوں کے طفیل میرا بھی بھلا ہو جاتا ہے ورنہ اس عمرمیں اکیلے آئس کریم کھاتے ہوئےلوگوں کی حیرت سے شرم آتی ہے۔ ہم جانتے تھے یہ صرف بہانے بازی ہے۔۔۔انہوں نے ساری زندگی لوگوں کی پروا نہ کی بلکہ ایک طرح سے جوتے کی نوک پر رکھا، یہ تکبر نہیں صرف عاجزی کی انتہا تھی کہ رب کے سوا کسی کا خوف پاس نہ پھٹکنے دیا۔۔وہ اقبال کے اس مصرعے کی تفسیر اپنے آپ کو سمجھاتے زندگی گزار گئے۔۔۔۔
جھپٹنا پلٹنا ، پلٹ کر چھُٹنا
لہو گرم رکھنے کا ہے اِک بہانہ
گھر میں سیڑھیوں کے پاس کھڑکی پر لگی ابو کے ہاتھ سے لکھی تختی۔۔۔
اگلے روز 5 جنوری کو ظہر کے وقت اُن کا جسدِخاکی گھر سے روانہ ہوا۔ میرا یہ احساس 5 اور 6 جنوری کی درمیانی شب کی کہانی ہے جب سب کے چلے جانے کے بعد میں ان کے کمرے میں اُن کے بستر پر تھی اور میرے ساتھ صرف میرا احساس تھا جسے کسی حد تک سمیٹ کر لفظ میں لکھنے کی کوشش کی۔
جانتی ہوں کہ کبھی احساس کی شدت کے آگے لفظ بہت بےمعنی اور بےجان دکھتے ہیں۔لیکن احساس کے موتیوں کی وقت پر قدر نہ کی جائے تو وہ وقت کے گہرے سمندروں میں اتنی تیزی سے ڈوب جاتے ہیں کہ بعد میں بس یاد کی بہت ہلکی سی جھلک رہ جاتی ہے۔اور اسی طرح جب کوئی بےرحم احساس سارے بدن کو سنگسار کر کے اس میں زہر بھر دے تو اس لمحے اگر زہر کا توڑ نہ کیا جائے تو کرچی کرچی جسم کی نیلاہٹ  جینے دیتی ہے اور نہ ہی مرنے کی راہ دکھتی ہے۔
اللہ پاک ابو کی آگے کی منزلیں آسان کرے اور اُن کو اپنے رب سے بہترین گمان کا خزینہ عطا  کرے آمین۔
ابو کے ہاتھ سے لکھے ہوئے اور لگے ہوئے چند لفظ ۔۔۔ویسے تو گھر کے ہر ذرے میں ابو کے ہاتھ کا لمس ہمیشہ باقی رہے گا جب تک اس گھر کی بنیادیں موجود ہیں۔


     

"سیٹل اور سیٹل منٹ"

سورۂ فرقان(25) آیت 2۔۔   وَخَلَقَ كُلَّ شَىْءٍ فَقَدَّرَهٝ تَقْدِيْـرًا ترجمہ۔ اور جس نے ہر شے کو پیدا کیا اور پھر اس کے لیے ایک اند...