روزہ روزہ ہوتا ہے"۔ "
سورۂ المائدہ (5) ۔۔ آیت ۔۔3
!ترجمہ
آج ہم نے تمہارےلیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کر دیں اور تمہارے لیے اسلام کو دین پسند کیا۔ہاں جو بھوک میں لاچار ہو جائے بشرطیکہ گناہ کی طرف مائل نہ ہو تو اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔
اس میں شک نہیں کہ روزہ روزہ ہوتا ہے چاہے "سو سو کر جاگا جائے" یا جاگ جاگ کر سویا جائے۔ کیا دور آگیا ہے کہ وہ محاورے ماضی میں جن کی وضاحت کرنا پڑتی تھی آج من وعن اُسی طرح برتے جا رہے ہیں ۔ رمضان کا مہینہ سال کے گیارہ ماہ گزرنے کے بعد آنے والا وہ بارہواں مہینہ ہے جو ہر نام نہاد پیدائشی مسلمان کو ایک بار تو نہ چاہتے ہوئے بھی اپنی دینی حمیّت جانچنے پر مجبور کر دیتا ہے ۔ کوئی کتنا ہی "موڈریٹ" مسلمان ہو یا نعوذ باللہ اسلام کی فرسودہ تعلیمات و پیغام کا زمانۂ حال کے مطابق پرچار کرنے والا لبرل عالم ِدین۔ اس ماہ کم ازکم ایک پل کو دل میں ہی سہی سوچتا ضرور ہے کہ وہ کہاں کھڑا ہے۔
بات ہو رہی تھی سو سو کر جاگنے کی تو وہ محاروتاً ایسے ہی مسلمانوں پر صادق آتا ہے لیکن اس کا عملی ثبوت ہمیں اپنی زندگیوں میں یوں اُمڈ اُمڈ کر ملتا ہے جب راتوں کو جاگنے والے صبح دم گھوڑے گدھے بیچ کر سوتے ہیں ۔ راتیں خواہ لوڈ شیڈنگ کے عذاب میں کٹیں یا محب الوطنی کے اکلوتے ٹریڈ مارک پاکستانی ٹیم کو کھیلتے دیکھ کر یا قبلہ وکعبہ جناب میڈیا دامت اللہ برکاتہم کے سامنے عقیدت کی چادر چڑھاتے ہوئے ۔ اور تو اور وہ پہلے دور کے قصے تھے جب محض اپنے گریبان میں جھانک کر شرم آتی تھی اب ساری دُنیا کے گریبان میں دیکھ لو ہر بات جائز اور منطقی ہے۔اور کیا فرق پڑتا ہے کہ روزہ روزہ ہوتا ہے چاہے قرآن کی تلاوت کرتے ہوئے گزرے یا دین کی باتیں اپنے من پسند ریپرز میں لولی پاپ کی طرح چوستے ۔ وہ دور گیا جب روزہ صرف بندے اور مالک کا معاملہ تھا اب تو یہ بندوں اور چینلز یا پھر انسان اور بٹنز کے درمیان ہو کر رہ گیا ہے ۔ حد ہو گئی ریموٹ کے بٹن ہوں یا ماؤس کا کلک اور یا پھر موبائل فون کے پیکجز ہر طرف عجب انہماک کا عالم ہے ۔ قرآن کا نسخہ جو رمضان میں اونچے طاقوں سے اُتر کر بڑے ذوق وشوق سے ہماری زندگی میں شامل ہوتا تھا اور دل میں تہیہ کرتے تھے کہ قرآن پڑھنا ہے خواہ ایک سے زیادہ بار مکمل پڑھیں یا ایک بار ہی سمجھ کر پڑھیں اب تو ٹرانسمیشن اشد ضروری ہے کہ "لائیو" ہے جو گزر گئی تو ریکارڈنگ بھی نہ ملے گی بس ابھی وقت ہے اس کی "نیکیاں" لوٹنے کا ۔ قرآن تو چودہ سو سال سے ہمارے پاس ہے اور محفوظ ہے اور ہم کونسا برا کام کر رہے ہیں یہ تو عین دین داری ہے دین کی باریکیوں کو جاننا ۔ دُکھ اس بات کا ہے کہ میڈیا کی چکا چوند ہمارے اندر کی روشنی سلب کر کے ہماری آنکھیں چندھیائے دے رہی ہے اور ہم سوچنے سمجھنے سے عاری روبوٹ بنتے جارہے ہیں ۔ کسی تعصب سے قطع نظریہ بھی سچ ہےکہ سال کے گیارہ مہینے اگر چینلز پر خرافات دکھائی دیتے ہیں تو وہ اس ماہ مشرف بہ اسلام تو ہو جاتے ہیں ۔اب یہ اور بات کہ چاند رات کو پھر اپنی اوقات پر آ جاتے ہیں۔ اہم یہ ہے کہ زہر زہر ہوتا ہے چاہے اسے شہد میں ملا کر دیا جائے اور یہی ہمارے ساتھ ہو رہا ہے ۔اس ایک ماہ میں میڈیا سے محبت کا ایسا بیج بو دیا جاتا ہے جو بانس کے درخت کی طرح خاموشی سے یوں پروان چڑھتا ہے کہ گھر کے بڑے جو دینی ذوق سے یہ نشریات دیکھتے ہیں بعد میں اپنے بچوں کو روکنے ٹوکنے کے قابل بھی نہیں رہتے ۔ جدید ہتھیاروں سے لیس ہو کر دین کو پھیلانا بلاشبہ جہاد کا مقام رکھتا ہے لیکن کیا صرف اس ایک ماہ ہمارے جیّد عالم ِدین اور درد مند دل رکھنے والے اسلامی اسکالر پورے سال کا قرض چکا دیتے ہیں کیا یہ محض مسلمان ہونے کی زکٰوۃ ہے جو سال گزرنے پر فرض ہو جاتی ہے ۔ ایسا بالکل بھی نہیں ہونا چاہیے ۔ ہمارا دینی شعور ہماری اسلام سے محبت ہماری قرآن سے دوستی سال کے گیارہ ماہ بھی برقرار رہنی چاہیے اس پورے بینڈ باجے کے ساتھ نہ سہی یا پھر گھڑی کا الارم بھی نہ ہو جو ہڑبڑا کر جگا دے بلکہ اس چاہت کو دل کی دھڑکن کے ساتھ جڑی اس مدہم سی خاموشی کی طرح ہونا چاہیے جو سوتے جاگتے زندگی کی نوید دیتی ہے۔ سب سے پہلے اپنا محاسبہ کریں پھر چینلز کو بھی چاہیے اگر اسلام سے اتنی عقیدت ہے تو سال کے باقی مہینوں میں کیوں نہیں۔ اپنے "پیک آورز" نہ سہی دن یا رات کا کچھ وقت ہر روز ایسے ہی "لائیو" پروگرام کیوں نہیں کرتے۔ حاصل ِ کلام یہ ہے کہ ہر شے کو اس کا جائز مقام دیا جائے اور نفسا نفسی کے اس دور میں اپنے آپ کو ایمان کے سب سے نچلے درجے پر کسی طرح برقرار رکھنے کی کوشش ضرور کریں کہ جو برائی ہے اس کو برائی جانا جائے اورعارضی چمک دمک کے پیچھے ابدی اندھیروں کا سودا نہ کیا جائے ۔
سورۂ المائدہ (5) ۔۔ آیت ۔۔3
!ترجمہ
آج ہم نے تمہارےلیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کر دیں اور تمہارے لیے اسلام کو دین پسند کیا۔ہاں جو بھوک میں لاچار ہو جائے بشرطیکہ گناہ کی طرف مائل نہ ہو تو اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔
اس میں شک نہیں کہ روزہ روزہ ہوتا ہے چاہے "سو سو کر جاگا جائے" یا جاگ جاگ کر سویا جائے۔ کیا دور آگیا ہے کہ وہ محاورے ماضی میں جن کی وضاحت کرنا پڑتی تھی آج من وعن اُسی طرح برتے جا رہے ہیں ۔ رمضان کا مہینہ سال کے گیارہ ماہ گزرنے کے بعد آنے والا وہ بارہواں مہینہ ہے جو ہر نام نہاد پیدائشی مسلمان کو ایک بار تو نہ چاہتے ہوئے بھی اپنی دینی حمیّت جانچنے پر مجبور کر دیتا ہے ۔ کوئی کتنا ہی "موڈریٹ" مسلمان ہو یا نعوذ باللہ اسلام کی فرسودہ تعلیمات و پیغام کا زمانۂ حال کے مطابق پرچار کرنے والا لبرل عالم ِدین۔ اس ماہ کم ازکم ایک پل کو دل میں ہی سہی سوچتا ضرور ہے کہ وہ کہاں کھڑا ہے۔
بات ہو رہی تھی سو سو کر جاگنے کی تو وہ محاروتاً ایسے ہی مسلمانوں پر صادق آتا ہے لیکن اس کا عملی ثبوت ہمیں اپنی زندگیوں میں یوں اُمڈ اُمڈ کر ملتا ہے جب راتوں کو جاگنے والے صبح دم گھوڑے گدھے بیچ کر سوتے ہیں ۔ راتیں خواہ لوڈ شیڈنگ کے عذاب میں کٹیں یا محب الوطنی کے اکلوتے ٹریڈ مارک پاکستانی ٹیم کو کھیلتے دیکھ کر یا قبلہ وکعبہ جناب میڈیا دامت اللہ برکاتہم کے سامنے عقیدت کی چادر چڑھاتے ہوئے ۔ اور تو اور وہ پہلے دور کے قصے تھے جب محض اپنے گریبان میں جھانک کر شرم آتی تھی اب ساری دُنیا کے گریبان میں دیکھ لو ہر بات جائز اور منطقی ہے۔اور کیا فرق پڑتا ہے کہ روزہ روزہ ہوتا ہے چاہے قرآن کی تلاوت کرتے ہوئے گزرے یا دین کی باتیں اپنے من پسند ریپرز میں لولی پاپ کی طرح چوستے ۔ وہ دور گیا جب روزہ صرف بندے اور مالک کا معاملہ تھا اب تو یہ بندوں اور چینلز یا پھر انسان اور بٹنز کے درمیان ہو کر رہ گیا ہے ۔ حد ہو گئی ریموٹ کے بٹن ہوں یا ماؤس کا کلک اور یا پھر موبائل فون کے پیکجز ہر طرف عجب انہماک کا عالم ہے ۔ قرآن کا نسخہ جو رمضان میں اونچے طاقوں سے اُتر کر بڑے ذوق وشوق سے ہماری زندگی میں شامل ہوتا تھا اور دل میں تہیہ کرتے تھے کہ قرآن پڑھنا ہے خواہ ایک سے زیادہ بار مکمل پڑھیں یا ایک بار ہی سمجھ کر پڑھیں اب تو ٹرانسمیشن اشد ضروری ہے کہ "لائیو" ہے جو گزر گئی تو ریکارڈنگ بھی نہ ملے گی بس ابھی وقت ہے اس کی "نیکیاں" لوٹنے کا ۔ قرآن تو چودہ سو سال سے ہمارے پاس ہے اور محفوظ ہے اور ہم کونسا برا کام کر رہے ہیں یہ تو عین دین داری ہے دین کی باریکیوں کو جاننا ۔ دُکھ اس بات کا ہے کہ میڈیا کی چکا چوند ہمارے اندر کی روشنی سلب کر کے ہماری آنکھیں چندھیائے دے رہی ہے اور ہم سوچنے سمجھنے سے عاری روبوٹ بنتے جارہے ہیں ۔ کسی تعصب سے قطع نظریہ بھی سچ ہےکہ سال کے گیارہ مہینے اگر چینلز پر خرافات دکھائی دیتے ہیں تو وہ اس ماہ مشرف بہ اسلام تو ہو جاتے ہیں ۔اب یہ اور بات کہ چاند رات کو پھر اپنی اوقات پر آ جاتے ہیں۔ اہم یہ ہے کہ زہر زہر ہوتا ہے چاہے اسے شہد میں ملا کر دیا جائے اور یہی ہمارے ساتھ ہو رہا ہے ۔اس ایک ماہ میں میڈیا سے محبت کا ایسا بیج بو دیا جاتا ہے جو بانس کے درخت کی طرح خاموشی سے یوں پروان چڑھتا ہے کہ گھر کے بڑے جو دینی ذوق سے یہ نشریات دیکھتے ہیں بعد میں اپنے بچوں کو روکنے ٹوکنے کے قابل بھی نہیں رہتے ۔ جدید ہتھیاروں سے لیس ہو کر دین کو پھیلانا بلاشبہ جہاد کا مقام رکھتا ہے لیکن کیا صرف اس ایک ماہ ہمارے جیّد عالم ِدین اور درد مند دل رکھنے والے اسلامی اسکالر پورے سال کا قرض چکا دیتے ہیں کیا یہ محض مسلمان ہونے کی زکٰوۃ ہے جو سال گزرنے پر فرض ہو جاتی ہے ۔ ایسا بالکل بھی نہیں ہونا چاہیے ۔ ہمارا دینی شعور ہماری اسلام سے محبت ہماری قرآن سے دوستی سال کے گیارہ ماہ بھی برقرار رہنی چاہیے اس پورے بینڈ باجے کے ساتھ نہ سہی یا پھر گھڑی کا الارم بھی نہ ہو جو ہڑبڑا کر جگا دے بلکہ اس چاہت کو دل کی دھڑکن کے ساتھ جڑی اس مدہم سی خاموشی کی طرح ہونا چاہیے جو سوتے جاگتے زندگی کی نوید دیتی ہے۔ سب سے پہلے اپنا محاسبہ کریں پھر چینلز کو بھی چاہیے اگر اسلام سے اتنی عقیدت ہے تو سال کے باقی مہینوں میں کیوں نہیں۔ اپنے "پیک آورز" نہ سہی دن یا رات کا کچھ وقت ہر روز ایسے ہی "لائیو" پروگرام کیوں نہیں کرتے۔ حاصل ِ کلام یہ ہے کہ ہر شے کو اس کا جائز مقام دیا جائے اور نفسا نفسی کے اس دور میں اپنے آپ کو ایمان کے سب سے نچلے درجے پر کسی طرح برقرار رکھنے کی کوشش ضرور کریں کہ جو برائی ہے اس کو برائی جانا جائے اورعارضی چمک دمک کے پیچھے ابدی اندھیروں کا سودا نہ کیا جائے ۔