جمعرات, دسمبر 31, 2015

"ظاہر باطن "

زندگی کے اسباق پڑھنے،برتنےاور انسانوں کے ساتھ رہتےہوئے انہیں سمجھنے کی کوشش کرتے ہوئے ہمارے سامنےایسے سوال آن کھڑے ہوتے ہیں جن کے جواب کسی کتاب میں ملتے ہیں اور نہ ہی کسی رہنما کے پاس۔ ایسے بہت سے سوالوں کے جواب صرف وقت جانتا ہے,پراس وقت جواب تو ملتے ہیں لیکن سوال غیراہم ہوجاتے ہیں۔انہی سوالوں میں سے کچھ ہمارے رویوں اور جذبات کے تضادات سے جنم لیتے ہیں اور رفتہ رفتہ پورے وجود پر حاوی ہو جاتے ہیں. یہ سوال کبھی ایسا ریشم بن جاتے ہیں جس میں رقص وقتی طور پر تو بڑا دلفریب لگتا ہے لیکن ایک وقت کے بعد وہ ہمیں اپنی گرفت میں لے کر بےجان کر دیتے ہیں۔ جیسے ہم کسی کے قریب کیوں آتے ہیں؟اورکسی سے دُور کیوں بھاگتے ہیں؟
یہ بہت عام اور بےمعنی سوال ہیں جن کے جواب ایک ناسمجھ بچہ بھی دے سکتا ہے کہ ہمیں کوئی چیز اچھی لگتی ہے تو اُس کے قریب ہونا چاہتے ہیں اور بُری لگتی ہے تو دور بھاگتے ہیں۔ ہم بھی یہی سمجھتے ہیں کہ کسی شے کی کشش کششِ ثقل کی طرح ہمیں اپنی جانب کھینچتی ہے اور کوئی ناپسندیدہ عمل ہمیں اُس سے پرے کرتا ہے.بےشک بظاہر ایسا ہی دکھتا ہے لیکن غور کیا جائے تو اصل میں کسی کا تضاد ہمیں اُس سے قربت کی خواہش عطا کرتا ہے اور اُس سے دور بھی کرتا ہے۔ قربت کی چاہ کسی بھی کشش کا بنیادی جزو ہے۔ رفتہ رفتہ قربت کے راز کھلتے ہیں توظاہری طور پر اپنائیت اور یگانگت کے ایک جیسے بہتے دھارے خوشگوار حیرت میں مبتلا کر دیتے ہیں۔۔۔ ظاہری خوبصورتی اپنی طرف مائل کرے تو انسان باطنی حسن کی جستجو کرتا ہے۔خوش نما رنگ ایک لمحے کو قدم روکتے تو ہیں لیکن اگر خوشبو نہ ہو تو آگے بڑھنے میں ذرا دیر نہیں لگتی۔اِسی طرح کوئی خوشبواتنی مہک آور ہوتی ہےکہ انسان اُس کی اصل کی تلاش میں ایک عالمِ بےخودی میں چل پڑتا ہے۔انسانوں کے ساتھ تعلقات میں خاص طور پر یہ آنکھ مچولی چلتی رہتی ہے۔جسمانی وجود کے ساتھ ذہن کی انفرادیت اور سوچ کی بلندی مکمل اعتماد کی بنیاد ہےنہ صرف دوسرے پر بلکہ اپنے آپ پر بھی۔۔۔ ورنہ اکثر خوبصورت چہرے قربت کے لمس کی حدت میں موم کی مانند پگھل کر اتنے بےچہرہ ہو جاتے ہیں کہ اُن کو سمیٹتے سمیٹتے پوریں سُلگنے لگتی ہیں یا پھر جب کسی کا باطن اُس کی ظاہری خوبصورتی کی تائید نہ کرے تو پھر انسان کا انسان پر سے اعتبار اُٹھ جاتا ہے۔یوں سچائی کے متلاشی انسانوں کے ہجوم میں تنہا رہ جاتے ہیں۔اہم یہ ہے کہ جسم کا تضاد کسی قدر قابلِ برداشت ہے کہ اُس موم کو اپنی مرضی کے نقش میں تو ڈھالا جا سکتا ہے لیکن روح کا تضاد انسان کو اندر باہر سے ہلا کر رکھ دیتا ہے۔
کسی کو جاننے کی کوشش اور اس کے اندر جھانکنے کی جستجو میں ہم اپنےہی وجود کی بہت سی ایسی پرتوں سے واقف ہوتے ہیں 

جن کا ہم نے خواب تو کیا خیال میں بھی تصور نہیں کیا ہوتا۔ظاہر ہمارا اصل روپ ہرگز نہیں،ہمارا ظاہر موم کی طرح حالات کے سانچے میں اپنا آپ ظاہر کرتا ہے تو پانی کی طرح کسی بھی پیاسے کے ظرف کی 'اوک' میں ڈھل کراس کی تسکین کرتا  
ہے۔
ہماری قربت کو لمس کے پوروں سے محسوس کرنے والے اگرچہ ہماری رگ رگ سےواقف ہوتے ہیں۔۔۔ہمیں مانتے ہیں۔۔ہمارا وجود دن کی روشنی میں اُن کی نگاہوں کے سامنے ہوتا ہے تو رات کے پہر ہماری آنکھوں میں چھپے خواب تک اُن کے سامنے عیاں ہو جاتے ہیں۔ صبح وشام ہمارے وجود کی گواہی سے ہمیں پرکھتے ہیں پھر مانتے ہیں۔لیکن!!! وہ ہمیں کبھی جان نہیں پاتے۔ہمارا اپنا آپ ہمارا ظاہر ہی نہیں ہمارا باطن بھی ہے۔۔۔ہمارا جسم ہی نہیں ہماری روح بھی ہے۔
ہمارا ظاہر اتنا بھرپور اتنا مکمل ہوتا ہے کہ   ہمارے اندر کا اندر کبھی جھلکنے بھی لگے تو اکثر ہم خود بھی اُس کی پکار سے خوف زدہ ہوجاتے ہیں۔ہمارے ظاہر کی خواہشات اور ضروریات کی تکمیل کرنے والے اُس کو ماننے میں اتنے مگن ہوتے ہیں کہ جاننے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی۔ ایک وقت ایسا ضرور آتا ہے جب وہ جان بھی جاتے ہیں۔یہ وقت ہمارے سامنے کبھی نہیں آتا۔انسان کے نظروں سے ہٹ جانے کے بعد وہ "نظر" آتا ہے۔
اپنے رشتوں کو اُن کی زندگی میں ماننے کے ساتھ جاننے کی بھی کوشش کرتے رہنا چاہیے۔ جاننے کا عمل اس لیے بھی ضروری ہے کہ اس طرح مثبت اور منفی پہلو کو بخوبی سمجھا جا سکتا ہے۔کیونکہ بعد میں اس کے برعکس بھی ہو سکتا ہے کہ ساری عمر سونا جان کر چڑھاوے چڑھاتے رہے بعد میں پتہ چلا کہ کھوٹ ہی کھوٹ۔ اسی طرح کبھی ظاہر کے زخم دل پر خراشں ڈالتے رہے بعد میں جانا کہ وہ تو محض بہانہ تھا کہ بقول شاعر۔۔۔ ترے دل میں تو بڑا کام رفو کا نکلا۔
جاننے اورماننے کے پیج رسہ کشی چلتی رہے تو یہی زندگی کا قرینہ ہے کہ کسی ایک طرف بھی پلڑا بھاری نہ ہونے دیا جائے۔
دوسرے ہمیں ظاہر کی آنکھ سے دیکھتے ہیں اور باطن کی آنکھ سے فیصلہ سنا دیتے ہیں۔ جبکہ اپنے آپ کو باطن کی آنکھ سے دیکھنے اور ظاہر کی آنکھ کے فیصلے کو تسلیم کر لینے میں ہی  نجات ہے۔

آخری بات
ہم دوسروں کے ساتھ نہیں ہوتے لیکن اُن کو نظر آ جاتے ہیں۔ہم اپنوں کے ساتھ ہوتے ہیں اور  اُن کو نظر نہیں
 آتے،زندگی کے اسٹیج پر  عافیت چاہتے ہو تو غیرمرئی رہتے ہوئے اپنا کردار نبھاتے  جاؤ۔

جمعرات, دسمبر 24, 2015

"یقینِ زندگی(2)"

گذشتہ سے پیوستہ۔۔
٭یقینِ زندگی(1)۔
http://noureennoor.blogspot.com/…/12/Father-Life-Kahani.html 
٭یقینِ زندگی (2)۔دوسرا اور آخری حصہ۔۔۔ 
دل کی باتیں۔۔۔
زندگی کے اس نئے موڑ پر کڑی محنت ومشقت سے حاصل ہونے والی مالی آسودگی دل کے اُن نرم ونازک دروازوں پر دستک دینے لگی برسوں جنہیں بےخبری کی میخوں سے بند کر رکھا تھا۔دن بھر کام کے بعد رات گئے اپنے ہم مشرب دوستوں کے ساتھ واپسی کا سفر ساری تھکان اُتار دیتا،کبھی پیدل،کبھی کرائے کی سائیکل پر جاتے ہوئے چلتے چلتے راستے میں شعروشاعری کی محفلیں ہوتیں،اس زمانے کے بہت سے احباب آگے چل کر علم وفن کی دنیا میں نامور ہوئےجن میں فلمسٹار آغاطالش اورحبیب نے فلم کی دنیا میں نام کمایا اور کچھ ریڈیو پاکستان سے منسلک ہوگئے۔بعد کی زندگی میں آرام نصیب ہوا تو یہ یادیں ایک کسک بن کر ٹیس دیتیں۔اس برسوں پرانی بوسیدہ صفحوں اور مٹتے حروف والی چھوٹی سی ڈائری میں حمدیہ نعتیہ اشعار کے ساتھ ساتھ ، قائدِ اعظم ،خان لیاقت علی خان،پاکستان کے بارے میں خوبصورت شاعرانہ اظہاراور محبت وعشق کے جذبات کی جھلکیاں ملتی ہیں تو ساتھ زمانے کی تلخیاں بھی حالِ دل کہتی نظر آتی ہیں۔ 
ڈائری سے انتخاب ۔۔۔
٭ایک غزل ۔۔۔۔1956 بزم ادب راولپنڈی میں پڑھی۔ 
اب تو کچھ ایسی طبیعت ہو گئی شادمانی سے بھی نفرت ہو گئی
اب اُنہیں دل سے بھلاؤں کس طرح اُن کی یاد اب تو عبادت ہو گئی
مری خاموشی کا باعث کچھ نہیں یعنی چُپ رہنے کی عادت ہو گئی
کھیل سمجھا تھا میں حسن وعشق کو کھیل سے یوں ہی حقیقت ہو گئی
اِک قیامت تھی محبت کی خلش رفتہ رفتہ یہ بھی راحت ہو گئی
یاد اُن کی بن گئی دردِ جگر
زندگی غاز کی قیامت ہو گئی
۔۔۔
٭غزل ۔۔۔جو ایک مشاعرے میں پڑھی۔ 
"بھیک"
کہتا ہے کون تجھ سے مسرت کی بھیک دے تو میرے دل کو دردِ محبت کی بھیک دے
حیرت کی بھیک ملتی رہی اُس کو آج تک میری نظر کو آج زیارت کی بھیک دے
میں بھی غمِ حبیب سے کر لوں ذرا سا پیار مجھ کو زمانہ تھوڑی سی فرصت کی بھیک دے
غازی میں اس سے قصۂ غم کہہ کے دیکھ لوں
اِک بار وہ اگر مجھے خلوت کی بھیک دے 
مقصدِ زندگی۔ 
اگلے دس برسوں میں شادی ہو گئی،بچے ہوئے،باعزت روزگار اور معاشرے میں نمایاں مقام بھی حاصل ہوا۔زندگی شاید اسی رفتار سے چلتی رہتی لیکن اُن کی اُفتادِ طبع کو جیسے دنیا کے ہر آسمان کو چھونے کی تمنا تھی۔ سب سے پہلے تو یورپی ممالک میں قسممت آزمائی کی ٹھانی۔یہ زندگی پر اُن کا حق بھی تھا کہ ممکن حد تک اپنے وسائل میں رہتے ہوئے آگے سے آگے بڑھا جائے۔وہ بخوبی جانتے تھے کہ انسان پانی کا بلبلہ ہے لیکن پانی کی زندگی چلتے رہنے میں ہی ہے۔ایک جگہ ٹھہر جائے تو وہی پانی غلاظت اور بدبو میں تبدیل ہو جاتا ہے جسے ری سائیکل کر کے کام تو چلایا جا سکتا ہے لیکن اپنی پیاس نہیں بجھائی جا سکتی۔اس وقت جیب ہوائی سفر کی متحمل نہ تھی تومغربی سرحد سے گزر کر ایران کے راستے جرمنی تک کا سفر کیا اور راستے میں آنے والے ہرملک ہر شہر سے کچھ نہ کچھ سیکھتے چلے گئے۔زندگی کا یہ پہلا ایڈونچر حقائق جانتے ہوئے چند ماہ بعد وطن واپسی پر ختم ہوا۔لیکن ہارنا فطرت نہ تھی۔
اس سفر کی یاد دلاتا ایک خط۔۔۔ جو سُسر حاجی عبدالمعبود صاحب کو لکھا ۔۔۔


ستر کی دہائی اور مالی دھچکے۔۔۔۔ 
ستر کی دہائی کے آغاز میں اپنے کلینک کے قریب کچھ جگہ حاصل کی اور شیشے کے برتن بنانے والے ایک چھوٹے سے کارخانے کی بنیاد رکھی۔ 1971 میں سانحہ تقسیمِ پاکستان کے بعد یہ دور پاکستان کی سیاسی اور معاشرتی زندگی کا بدترین دور تھا۔ایک طرف روٹی،کپڑا،مکان کا نعرہ لگا کر معاشرے میں غریبوں کی عزتِ نفس بحال کرنے کا عزم لے کر کامیابی کے جھنڈے گاڑنے والے کامیاب سیاست دان نے گدھےگھوڑے کو ایک تانگے میں جوت دیا۔۔اُس دور میں حکومتِ وقت نے غریب مزدور کے سر پر ہاتھ رکھا۔۔۔اس غریب مزدور کی حالت تو چار دہائیاں گزر جانے کے بعد بھی ویسی ہی ہے بلکہ اس سے بھی بدتر ہو چکی لیکن اُس کی حالت کو کیش ان مزدوروں کے نمائندوں نے خوب کرایا۔
صنعتوں کو قومیانے یعنی سرکاری تحویل میں لینے کا اعلان کیا ہوا کہ مزدور رہنما شیر ہو گئے اور مالک چوہے بن گئے۔ مزدور تنظیمیں اسی دور کی پیداوار ہیں جن کے غلیظ ثمرات ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔آج کے دور میں نہ صرف صنعتوں بلکہ ہر سرکاری ادارے میں یونین کے اراکین کی شان کا تصور صرف واقفِ حال ہی بیان کر سکتے ہیں،بیرونِ ملک ہوائی سفر کے لیےٹکٹوں کی بندربانٹ سے لے کر محکمے میں نوکری کرنے تک اور تنخواہوں میں اضافے کے مطالبوں سے کام کے اوقاتِ کار تک سب اُن کی ایک ہڑتال کی مار ہے۔
اُس دور میں اُس چھوٹے سے کارخانے کے مزدور رہنماؤں نے اپنے جائزوناجائز مطالبے ایک ہی پلیٹ میں رکھ کر کام کرنے سے انکار کر دیا۔گلاس فیکٹری بند اور مقدمات شروع ہوگئے۔ پھر چشمِ فلک کے ساتھ اس ڈاکٹر نے وہ وقت بھی دیکھا جب اس کے اپنے ملازمین اس کے خلاف جلوس نکالتے اوراُس کے فرضی جنازے کے ساتھ ہائے ہائے کرتے گزرتے جا رہے تھے۔
روایتی تعصب۔۔۔۔ 
پہلی غلطی اس ڈاکٹر کی اپنی تھی کہ اس نے فیکٹری میں ملازمین رکھتے وقت مقامی لوگوں کو ترجیح دی۔ان مقامی افراد نے اس کی ترقی کبھی بھی دل سے قبول نہ کی۔ وہ اس سے علاج کراتے وقت ایک مرید کی طرح نگاہیں جھکا رکھتے کہ اس کے ہاتھ میں بڑی شفا تھی۔۔۔وہ مریض کی چال ڈھال سے مرض جانچ لیتا اور اس کے مزاج اور حیثیت کے مطابق دوا دیتا۔کبھی تو صرف اس سے بات کر کے ہی مریض کی آدھی بیماری دور ہو جاتی۔ پیسہ عام انسان ہونے کے ناطے اُس کی ضرورت تو تھا لیکن طلب نہیں۔غریب کی عزتِ نفس اہم تھی کہ زندگی کی اس تلخ شراب کا ذائقہ اُس نے چکھا ہی نہیں بلکہ اپنی رگ رگ میں اس زہر کو اُتارا بھی تھا۔اسی لیے معاشرے کے شرفاء بلکہ غرباء بھی اس کے دروازے پر شانہ بہ شانہ ٹھٹھ کے ٹھٹھ لگاتے پہنچتے۔وہ رات گئے سرجھکائےاپنے کام میں مصروف رہتا۔بڑے بوڑھے اس ڈاکٹر کے دیوانے تھے جو اپنی خوش مزاجی سے دل جیت لیتا تھا۔مائیں جھولی بھر بھر دعائیں دیتیں اور درد سے بلکتے بچے اس کے لہجے اور انداز سے تسکین پا جاتے۔ ڈاکٹر جی اے خان کے نام سے معروف ہونے والا  یہ مسیحا بعدازاں سب کے لیے "جیا" کے نام سے محترم ہوتا چلا گیا۔
پناہ گیر۔۔۔۔ 
فیکٹری  چلنے میں اصل رُکاوٹ یہاں کے جدی پشتی مقامی افراد تھے۔کسی خاص علاقے کے تعصب سے قطع نظر وہ ازلی تکبر جو ہر علاقے کے بڑے یا طاقتور کے ذہن میں فتور کے سانپ کی طرح سدا کلبلاتا ہے۔تخیل اور حقائق کے امتزاج سے بننے والا دنیا کا واحد نظریاتی خطہ بھی اسی نفسانفسی کی لپیٹ میں تھا۔یہاں کے رہنے والے ہجرت کر کے آنے والوں کو کسی حد تک جگہ دینے پر آمادہ ضرور تھے لیکن یہ ہجرتِ مدینہ کے بعد مہاجرین اور انصار کا دور نہ تھا۔ معاشرے میں ذات برادری اور زن،زر،زمین کی جڑیں دور تک پھیلی ہوئی تھیں۔ قصہ مختصر وہ اپنی زبان میں اس مسیحا کو"پناہ گیر"کہتے اور چالیس برس سے زائد کی اس مزدوری میں ایذا پہنچانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔اس وقت فیکٹری سے ہاتھ دھونا پڑے،اُس کے مقدمات بھی ہار گئے اور اگلے کئی برسوں تک دن بھر کی محنت کی کمائی بقایا جات کی ادائیگی کی نذر ہوتی رہی۔ 
مقدمات اور پیشیاں۔۔۔۔

مقدمات کی بات کروں تو یہ الگ ایک ناقابلِ یقین داستان ہے اور قانون اندھا ہوتا ہے کے محاورے پر مہر ثبت کرتی ہے۔ کلینک کی چھوٹی سی دُکان ایک بڑی سڑک پر تھی اور اس کے پیچھے کسی مقامی کا گھر تھا۔اس نے شاید منت کی ہو کہ مجھے اپنے گھر میں داخل ہونے کے لیے گھوم کر جانا پڑتا ہےمجھے سامنے سے کچھ راستہ دے دیں۔گزرنے کا راستہ دیا تو اس نے وہاں دروازہ لگا لیا۔ برسوں بعد جب اس دکان کو گرا کر نئی تعمیر کرنا چاہی تو اس شخص نے اپنے راستے پر حقِ ملکیت کا دعوٰی کر دیا۔ قانون ہمیشہ کی طرح اندھا تھا کئی سال پیشی درپیشی کے بعد وہ غاصب مقدمہ جیت گیا۔ لیکن ایک مقدمہ رب کے حضور بھی تھا جس کا فیصلہ یوں آیا کہ جلد ہی مقدمہ جیتنے والے کا انتقال ہو گیا اور دنیا نے دیکھا کہ جس راستے کے لیے وہ برسوں لڑتا رہا اس ڈاکٹر کو سرِعام بےعزت کرتا رہا وہ راستہ اتنا چھوٹا تھا کہ اس کے جنازے کی چارپائی اس میں سے نہ نکل سکتی تھی۔یہ مکافاتِ عمل تھا۔
چالباز اور قبضہ گروپ اگر ایک بات جان گئے تھے کہ یہ ڈاکٹر نہ کسی سے ڈرتا ہے اور نہ ہی اسے جھکایا جا سکتا ہے اور نہ خریدا جا سکتا ہے لیکن وہ اس کی ایک کمزوری سے بھی واقف تھے کہ یہ صرف اور صرف اپنے بل بوتے پر کھڑا ہے اور اس کے آگے پیچھے کسی خاندان کا سہارا بھی نہیں۔ برسوں ان سازشوں کا مقابلہ کرتے گذر گئے۔یہاں تک کے جب اسی چھوٹی دکان کو گرا کر پلازہ کی شکل دی تو اس خاکی کی یہ بلندی ناقابلِ برداشت ہو گئی۔تعمیر کے دوران بنی ہوئی دیوار گرا دی جاتی تو کبھی سامان چوری ہو جاتا۔ بددیانت ملازمین تو شروع سے ملتے رہے جو کام سیکھنے کے بعد اپنی دکان کھول کر بیٹھ جاتے اور ڈاکٹر کے نام کی تختی ڈھٹائی اور دھڑلے سے لگائی جاتی۔یہ تو بہت معمولی سے دھوکے تھے ابھی تو کشکول وقت میں ان کے لیے نہ جانے کیسے کیسے لرزا دینے والے ناجائز مقدمات کے دفتر کھلنا باقی تھے۔
ان میں سے ایک کی کچھ جھلکیاں کہ اس مقدمے نے سب خواب الٹ پلٹ کر کے رکھ دئیے۔ چار منزلہ پلازہ کی تعمیر مکمل ہوئی تو باقاعدہ منصوبہ بندی سے دھوکے باز ملازمین کو ساتھ ملا کر ممنوعہ ادویات رکھوا دی گئیں۔اگرچہ محض ایک رات میں ہی اس سازش کا پردہ چاک ہو گیا اور اخبار میں بھی ان جھوٹے ڈرگ انسپکٹرز کی خبر لگ گئی۔ مقدمہ چلتا رہا، اس سے باعزت سرخرو ہوئے، دشمنوں کو منہ کی کھانا پڑی لیکن ڈاکٹری کی پریکٹس سے کنارہ کش ہو گئے۔
اس کے بعد کافی عرصہ پہلے خریدی گئی کئی کنال زمین کا ایک عجیب وغریب پیچیدہ مقدمہ پیش آیا جب اُن کے مرنے کے سرٹیفیکیٹ کے ساتھ فرضی بیوہ اور بیٹا زمین بیچ کرغائب ہو گئےاور خریدنے والوں نے فوراً زمین آگے بیچ دی۔ یہ مقدمہ جان کا روگ بن گیا،عدالت میں جج کے سامنے جا کر بیان بھی دیا کہ میں آپ کے سامنے زندہ کھڑا ہوں میرا یقین کریں لیکن اب پتہ چلا قانون کے ساتھ منصف بھی اندھے ہوتے ہیں۔ان کو صاحب مقدمہ کی زندگی کے ثبوت کے لیے مقدمے میں شامل فرضی رشتہ دار گواہ بھی درکار تھے۔یہ مقدمہ زندگی کےکئی سال مالِ غنیمت کی طرح چاٹ گیا اور آخری سانس تک لاحل رہا کہ قبضہ گروپ بااثر اور قانون بےاختیار تھا۔
ہر بار کیچڑ میں گر کر کنول کے پھول کی مانند اس انسان نے اپنی شناخت پر حرف نہ آنے دیا اور نہ ہی ایمان میں تھڑدلی دکھائی۔زندگی کی ہر بھیانک ذلت کوخندہ پیشانی اور خاموشی سے قبول کر کے فراغت کو اپنی زندگی میں اپنی مرضی سے صبح شام کرنے کی ایک نعمت جانا۔۔۔واقعی یہ ظاہری ذلت ایک ابدی نعمت کا اشارہ بھی تھی کہ کوئی بھی ڈاکٹر اور وہ بھی اپنی ذاتی پریکٹیس کرنے والا آخری سانس تک ریٹائر ہونے کا تصور نہیں کر سکتا۔ معمول کی سالانہ تعطیلات تو دور کی بات ہفتہ وار چھٹی بھی کام کا بوجھ بڑھا دیتی ہے۔ یہی اُن کے ساتھ ہوا۔ 1968 میں افغانستان کے راستے یورپ کے سفر کے علاوہ ساری زندگی انہوں نے اپنے محور سے باہر قدم نہ رکھا۔عید بقرعید کی چھٹی یا کسی بہت ہی قریبی عزیز کے غم یا خوشی کے علاوہ اُن کا کوئی حلقۂ احباب نہ تھا۔وہ دوست بھی خواب ہوئے جن کے ساتھ خوابوں کی باتیں ہوتی تھیں۔لیکن اول روز سے وہ اپنے خاندان کی اہمیت سے واقف تھے۔ ہفتے کے چھ دنوں میں بچوں کی پڑھائی اور ہر قسم کی ضروریات کی ذمہ داری اُن کی اہلیہ عمدہ طریقے سے نبھاتیں تو چھٹی کا روز وہ اپنی بچیوں کے نام کرتے۔ اللہ نے ان کو چار بیٹیوں سے نوازا اور وہ ہمیشہ بیٹی کی آمد کا استقبال خاندان میں مٹھائی بانٹنے سے کرتے۔ اللہ نےدو تندرست بیٹے بھی دیےلیکن وہ چند ماہ کی زندگی گزار کر نمونیے کی وجہ سے انتقال کر گئے۔جیتا رہا تو ایک بیٹا جو پیدائشی ذہنی معذور تھا(یہ بیٹا ماں کے جانے کے تین سال بعد تک جیتا رہا لیکن باپ کےجانے کے دو ماہ بعد ہی چل بسا)۔ 
یادگار یادیں۔۔۔ 
بات چھٹی کے روز کی ہو رہی تھی جسے اس زمانے میں بچیاں "سنڈے منانا "کہتیں۔ یہ دن روز عید کی طرح بھرپور اور ہر بار منفرد گزرتا۔ دوپہر کا کھانا اگر ایک شاہی ضیافت کی طرح ہوتا تو شام اور رات کو باہر گھومنا پھرنا لازمی تھا۔ یہ  سن ستر اور اسی کے درمیانی عرصے  کی کہانی ہے جب سینما دیکھنا ایک صاف ستھری تفریح ہوا کرتا تھا۔   نئی  آنے والی فلم کی بکنگ کرا دی جاتی۔وقت پر پہنچتے اور لمبی قطاروں سے بچ کر نکلتے ہوئے تاریک سینما میں ٹارچ کی روشنی میں رہنمائی کرنے والے کے ساتھ بچے بڑے شان سے اپنی اپنی سیٹوں پر بیٹھ جاتے۔ چھوٹے بچوں کو گھر میں کسی بڑے کے پاس چھوڑ دیا جاتا۔ درمیانی وقفے میں ہال روشن ہو جاتا تو ڈیڑھ گھنٹے کی تاریکی اور خاموشی کے بعد اپنے آس پاس اجنبی چہروں کا اژدہام اور شور دیکھنا ایک عجیب ہی احساس تھا۔ چائے اور ٹھنڈی بوتلوں کے کھٹا کھٹ کھلنے کی آوازیں بچوں کو چاق وچوبند کر دیتیں۔انٹرویل میں روشنی ہوتے ہی بہت سے شناسا چہرے بھی نظر آتے۔ پنڈی میں کمیٹی چوک کےقریب "موتی محل" سینما میں فلم دیکھنے کا اور ہی لطف تھا جب کسی گانے کے دوران اسٹیج پر پوشیدہ موتی والا پردہ دھیرے ٓدھیرے گرنے لگتا اور گانے کے بول کے ساتھ موتیوں کی ریفلیکشن عجیب سماں باندھ دیتی۔فلم ختم ہونے کے بعد کبھی اسکوٹر پر تو کبھی ٹیکسی میں گھر لوٹتے۔اکثر یوں بھی ہوتا کہ واپسی پر صدر میں بابو بازار سے تکے اور سیخ کباب کھائے جاتے یا پھر بنک روڈ پر اوپری منزل پر واقع آئس کریم پارلر میں اپنی پسندیدہ آئس کریم "ٹوٹی فروٹی"۔۔۔کیا شاہانہ احساس ہوتا جب ہر ایک کو اس کے اپنے پیالے میں میوے ڈال کر آئس کریم سرو کی جاتی۔پارلر کا مالک جہاں اپنے روایتی گاہکوں کی خاطر کرتا وہیں بچیوں سے خوش گپیاں بھی چلتی رہتیں۔انہی یادوں میں ایک یاد اسلام آباد میں آبپارہ مارکیٹ کے"کامران کیفے"کی بھی ہے۔ اسلام آباد ہمیشہ سے ڈاکٹر صاحب کے خوابوں کا شہر رہا۔راولپنڈی میں شروع سے رہائش اور روزگار ہوتے ہوئے انہوں نے وہاں کبھی بھی اپنا ذاتی گھر بنانے کا تصور نہ کیا۔اس دور میں گھر بنانے کے وسائل تو نہ تھے لیکن پنڈی سے صرف "کامران کیفے"کے خوابناک فیملی روم میں کھانا کھانے آتےاورڈھلتی رات میں گھر لوٹتے۔ 
اُسی دور کی اسلام آباد کی سیر کی یادوں میں"بری امام"کے مزار پر جانا ہے تو شکرپڑیاں،روز گارڈن اور راول ڈیم بھی ایک خوبصورت شام کہانی ہوا کرتے۔
اپنا گھر۔۔۔اپنی چھت۔۔۔۔ 
سن 78 میں اسلام آباد کے نیم آباد سیکٹر میں زمین لی تو اپنی والدہ کو دکھانے لے گئے۔ گھنا جنگل اور بےآباد سی جگہ دیکھ کر والدہ نے گہرے تاسف کا اظہار کیا کہ میرا بچہ اس جنگل میں کیسے رہے گا۔والدہ اگلے برس برین ہیمریج سے انتقال کر گئیں۔اس سے پہلے 1973 میں والد صاحب بیٹے کے سر پر چھت دیکھے بنا ایک کرائے کے گھر میں وفات پا چکے تھے۔دو برس کی دن رات محنت کے بعد1980 میں گھر کی تعمیر مکمل ہوئی اوراسی سال مارچ میں شفٹ ہو گئے۔
اُنہوں نےخواہشوں،چاہتوں،ضرورتوں کی اینٹوں اور حقوق وفرائض کے مضبوط سیمنٹ سے جوڑ کراور اپنے خون پسینے کی نمی سے اس تاج محل کو سربلند کیا۔ اس خواب گھر کی ایک ایک اینٹ، ایک ایک تار اور ایک  ایک روشنی ان کے ناآسودہ خوابوں کا عکس بھی تھی۔ دنیا کے سفر اور اپنے وطن میں جہاں بھی گئے،روشن مکانوں اور خوبصورت چیزوں کےعکس حسرت یا مضبوط ارادے سے ہی سہی دل میں محفوظ کرتے رہے اور جب اللہ نے موقع دیا تو اپنے گھر میں چھوٹی چھوٹی خواہشیں پوری کیں۔گھر کے نقشے میں ذرا ذرا سی باریکیوں کو ذہن میں رکھا تو گھر کو ضرورت اور آرائش کی بہت سی انوکھی اشیاء سے سجایا۔ برسوں سے دیکھا جانے والا خواب اب حقیقت کا روپ دھار چکا تھا۔ لیکن بےزمینی کے دکھ جو روح میں اتر گئے تھے ہمیشہ درد دیتے رہے اور زندگی کی نعمتوں کے شکر کے ساتھ ساتھ سب سے زیادہ شکر اس بات کا ادا کرتے کہ اللہ نے سر پر اپنی چھت عطا کی۔لیکن اپنی محنت اور اللہ کے فضل وکرم سے تعمیر کردہ یہ حفاظتی قلعہ بھی اُن کے وجود کو انسان کا انسان پر اعتماد دینے سے قاصر تھا۔انہوں نے ساری زندگی لوگوں کی پروا نہ کی،جو چاہا وہ سوچا اور جو سوچا وہ پا لیا۔لیکن یہ چاہنے سے پانے تک کا سفر ایک جبرِ مسلسل تھا ایک سفرِپل صراط۔۔۔جس میں کہیں اُن کے خوابوں کی شفاف اور روشن آنکھوں کو بےمہر انسان حرص وہوس کی جلتی سلائیاں پھیر کر نابینا کرنے کے درپے رہے تو کبھی تقدیر کا سفاک قلم ہر منزل کے اختتام پر بند گلی کا لیبل چسپاں کرتا رہا۔ 
تلخیاں اور سختیاں۔۔۔ 
سر چھپانے کو ٹھکانہ میسر آیا تھا لیکن زندگی کی سختیاں اور اذیتیں کسی طرح ساتھ چھوڑنے پر آمادہ نہ تھیں آرام ملا تو بس اتنا کہ پورے دن کی بجائے دوپہر کے بعد کلینک جانے لگےاور رات گئے تک اپنا کام کرتے۔۔سواری کے نام پر وہی ویسپا اسکوٹر گرمی سردی میں ساتھ دیتا،ہر روز کئی میل کا فاصلہ طے کرتے۔ بارشوں کی جھڑی میں زیرو پوائنٹ کا پل سہارا دیتا تو شدت کی سردی میں دو دو دستانےاور ڈفل کوٹ پہنتے(جو جرمنی کے سفر کی یادگار تھا)۔واپسی پر صدر کی مخصوص بیکری سے کھانے کی چیزوں سے لدے پھندے آتے۔اپنے وسائل میں رہتے ہوئے انہوں نے دنیا کی ہر نعمت ہر لذت اپنی بچیوں کو کھلانے کی کوشش کی۔رات کا یہ ایڈونچر اکثر بھیانک حد تک مہنگا بھی پڑتا رہا۔دو یا تین بار اسکوٹر پارک کر کے بیکری میں داخل ہوئے تو  وہ پیچھے سے چوری ہو گیا۔ اب سوچا جائے تو دل لرزتا ہے کہ رات کے اس پہر کیا حالت ہوتی ہو گی اور کس طرح گھر پہنچتے ہوں گے۔کئی بار دن بھر کی کمائی کا بٹوہ بھی چوری ہوا۔ایک بار اسکوٹرچوری ہوا تو چند دن بعد کہیں کھڑا مل گیا،ایک مریض نے پہچان کر اطلاع دی۔اسی طرح بٹوہ بیکری میں گرا تو یہ آخری گاہک تھے۔اگلی صبح بیکری کھلنے سے پہلے پہنچ گئے تو بٹوہ سامنے پڑا تھا۔ 
بٹوہ چوری ہونے کا واقعہ اکلوتی بہن کی بارات والے روز بھی پیش آیا۔ یہ سن  1971کی بات ہے، جب  دوسرے شہر سے آنے والی بارات خوب دھوم دھڑکے سے گھر پہنچی تو اسی وقت قریبی سینما میں بھی شو ختم ہوا (جسے شو ٹوٹنا بھی کہا جاتا تھا ) اور بہت سے اجنبی باراتیوں کا روپ دھارے شامل ہوگئے۔ سب سمجھے کہ بارات بہت بڑی ہے۔ وہ  حساب کتاب کا زمانہ نہیں تھا  کہ  گنتی کر کر کے مہمان  بلائے جاتے تھے اور نہ ہی  "پر پرسن" کے تحت " کیٹرنگ" ہوتی تھی ۔بلکہ بڑی بارات قابلِ فخر سمجھی جاتی تھی۔سو اس "بڑی بارات" میں جیب کتروں  کو حرام کی کمائی کا خوب موقع ملا  اور تاک کرکالی شیروانی پہنے  دلہن کے بڑے بھائی کو نشانہ بنایا۔
مارشل لاء اور اسلام آباد کے رنگ۔۔۔ 
ناکامی اگر قدم روکتی تھی تو اگلے پل کامیابی زندگی پر مان قائم رکھتی۔ انسان ہونے کے ناطے مایوسی اور پریشانی لازمی امر تھا لیکن ان کی طبعی خوش مزاجی جلد غالب آ جاتی۔ اسلام آباد میں رہتے ہوئے چھٹی کے دن کی بہاریں بھی انوکھی تھیں۔وہ سینما بینی تو ختم ہوئی کہ نئی دہائی میں مارشل لاء کے بعد سیاسی ماحول کے ساتھ ساتھ کلچربھی بدل گیا۔تفریح کے انداز بدلے تو گھر گھر وی سی آر کی بدولت نہ صرف فلم بینی کا ذوق ختم ہوا بلکہ خاص وعام کے لیے ہر قسم کی فلم کی راہ ہموار ہو گئی اور اخلاق واقدار کی راہ کھوٹی ہوتی چلی گئی۔
اُس دور میں ٹویوٹا کرولا کی 73 ماڈل ری کنڈیشن گاڑی خریدی اور اپنی ذاتی گاڑی سے ہی گاڑی چلانا سیکھی۔ سو اب چھٹی کا دن جی بھر کر سیر وسیاحت میں گزرتا۔ اسلام آباد سے باہر قریب قریب کے سارے شہر اور"ہل اسٹیشن" کھنگال ڈالے۔ اس زمانے میں اسلام آباد نمائشوں کا شہر بھی تھا۔ کبھی صنعتی نمائش لگتی تو مہینوں جاری رہتی۔ کبھی لوک ورثہ تو کبھی پھولوں کی نمائش،غرض کہ زندگی کے ہر رنگ سے خوشی تلاشتے۔بڑی بیٹی کا شوق دیکھتےہوئے اور اپنے پرانے شوق کا درد چھپاتے اسے مشاعروں پر لے جاتے۔بچوں کےتعلیمی مدارج کے دوران پڑھائی کےحوالے سے اگرچہ ان کی نگرانی نہ ہونے کے برابر تھی کہ یہ محاذ ان کی اہلیہ نے بخوبی سنبھالا ہوا تھا لیکن تعلیم کوان کی زندگی میں ہمیشہ سے اولیت حاصل رہی۔بچیوں کوتعلیم کی سہولیات فراہم کرنے میں انہوں نے کوئی کمی نہ کی۔اُن کی آئندہ زندگی کے فیصلوں میں بھی ممکن انسانی حد تک بہتر سے بہترین کا خیال رکھا۔2003 میں اپنی اہلیہ کے ساتھ پہلی اورآخری بار "سفرِ حج" اختیار کیا اور مکمل سکون اور اطمینان کے ساتھ واپس آئے۔قسمت کا چکر کہ یہ اطمینان بھی وقتی ثابت ہوا اور سال 2005کے دسمبر میں اہلیہ کو جسم کے دائیں حصے پر فالج کا حملہ ہوا اور یوں زندگی کے اگلے برس گاڑی کے دوسرے پہئیے کے آدھے حصے کے ساتھ گزر گئے یہ اور بات کہ اس باہمت خاتون نےخدمت اور محنت میں رتی برابر بھی کمی نہ آنے دی اور نہ ہی اپنے لیے گھر میں کسی قسم کی سہولت کا بوجھ ڈالا۔ 
لو آپ اپنے دام میں صیاد آگیا"۔"
زندگی کا ہر رنگ نہ صرف قریب سے دیکھا بلکہ موت اور حیات کی کشمکش ذاتی طور پر بھی کئی بار محسوس کی۔۔۔ایک بار تو موت کا فرشتہ یوں چھو کر گزر گیا کہ یقین ہی نہیں آتا تھا۔ تقریباً چالیس سال پرانی بات ہے کہ ایک شادی کی دعوت پر شہر سے باہر جانا ہوا۔کھانے کے بعد ویگن میں سوار ہوئے تو اچانک ایک جاننے والے نے چلتی گاڑی روکنے کےلیے عجلت میں ہاتھ دیا بلکہ ابھی تو جسمانی بوجھ ہلکا کرنے کے بعد اس کا ایک ہاتھ کمربند کے ساتھ مصروف تھا شاید اسے منزل پر پہنچنے کی بہت جلدی تھی۔ڈاکٹر صاحب نے کھسک کر اس کے لیے بمشکل جگہ بنائی۔ویگن کچھ فاصلہ طے کرنے کے بعد ایک خوفناک حادثے کا شکار ہو گئی، مسافر شدید زخمی ہوئے اور صرف ایک جاں بحق ہوا۔۔۔وہی شخص جو آخری لمحوں میں سوار ہوا تھا۔جی ٹی روڈ پر اپنے پورے خاندان کے ساتھ شدید ترین حادثے کا ایک اور واقع بھی پیش آیا ۔ 1983 میں نئی گاڑی لینے کے محض چند ماہ بعد  عیدِقرباں کے اگلے روز دوسرے شہر میں بہن کے گھر جا رہے تھے کہ اچانک گاڑی بےقابو ہو کر کئی قلابازیاں کھاتے ہوئے  پلٹ  گئی۔ لوگ جمع ہو گئے ،گاڑی سیدھی کی۔ سب کو نکالا۔اللہ کا شکر ہے کہ معمولی خراشوں کے سوا  سب سلامت رہے۔
چالیس سے پچاس سال کے سفرِمسیحائی میں انہوں نے ہزاروں کی تعداد میں بڑوں اور بچوں کی نبض پر ہاتھ رکھا۔زندگی کی پہلی سانسوں سے آخری دموں تک وہ اُن کے رازداں رہےاور خود اپنے لیے ساری عمر جسمانی بیماری کے حوالے سے سوائے دو بار کبھی کسی ڈاکٹر کے پاس نہ گئے۔دوسری اورآخری بار مرض الموت میں جبکہ پہلی بار بائیس برس پرانی بات ہے جب روزمرہ کے کاموں میں دقت اور چلنے پھرنے میں آنکھ کے پریشر کا مسئلہ بڑھ گیا تو الشفا آئی ٹرسٹ میں دکھانے کے بعد "کالاموتیا" تشخیص ہوا۔ چند دن ہسپتال میں داخل رہنا پڑا۔آپریشن کامیاب تو ہو گیا لیکن ایک آنکھ کی بینائی مکمل طور پر ختم ہو چکی تھی اور دوسری میں تقریباً پچیس فیصد باقی رہی۔ ڈاکٹروں نے واضح الفاظ میں بتا دیا کہ اب آپ کو ساری زندگی اسی پچیس فیصد "نور" کے ساتھ جینا ہے اورآنکھ کے ساتھ آئندہ کسی قسم کی سرجری آپ کو ہمیشہ کے لیے اس بچی کچی بینائی سےمحروم بھی کر سکتی ہے۔پھر وہ اسی"نور"کے ساتھ بائیس سال یوں جئیے کہ زندگی کے آخری چند روز تک گاڑی چلاتے رہے اور کبھی اندازے کی معمولی غلطی کے سوا کوئی بڑا حادثہ پیش نہ آیا۔ بات بصارت کی ضرور تھی لیکن اہم بات بصیرت کی تھی۔چار بیٹیوں اور ایک معذور بیٹے کا باپ ہونے کے ناطے گھر اور باہر کے سارے کام ان کی اور صرف ان کی ذمہ داری تھے۔
آج کے آزاد خیال معاشرے میں بڑی آوازیں اٹھتی ہیں کہ بیٹا اور بیٹی برابر ہوتے ہیں ان میں کوئی فرق نہیں بےشک دونوں نعمتیں اللہ کی مرضی سے والدین کا نصیب بنتی ہیں لیکن تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ بیٹی کے ماں باپ کے کاندھے ہمیشہ ذمہ داریوں کے بوجھ سے جھکے رہتے ہیں۔اس بات کے حق یا مخالفت میں ہزار دلائل کو تو چھوڑیں لیکن صرف ایک معمولی بات بھی بہت معنی رکھتی ہے۔ایک بیٹی کتنی ہی فرماں بردار اور لائق فائق کیوں نہ ہو لیکن رات کے وقت وہ باہر تنہا کبھی نہیں نکل سکتی اسے ایک مرد کا سہارا درکار ہے چاہے وہ اس کا ذہنی معذور بھائی ہی کیوں نہ ہو۔لڑکیوں والے گھروں میں عام طور پرکوئی مرد ملازم بھی نہیں رکھاجاتا۔
یوں بچپن کے معصوم سالوں میں سودے لانے کا جو سلسلہ شروع ہوا تو زندگی کے آخری دن کے کچھ گھنٹوں پہلے تک بھی اسی طرح جاری رہا بےشک اس نظر کے ساتھ گاڑی چلانا بےوقوفی کی حد تک اندھی خوداعتمادی کے سوا کچھ نہ تھا لیکن اپنی ضروریاتِ زندگی کی فراہمی،گھریلوضرورتوں اور ذاتی خواہشات کے لیے آخری سانس تک کسی کا محتاج نہ ہونا اور اللہ کا انہیں اس کڑے امتحان میں سرخرو کرنا دیکھنے والوں کے استہزاء کے منہ پر طمانچہ تھا۔
"مرض الموت۔۔۔۔4 جنوری 2015 بمطابق 12 ربیع الاول"
جس طرح شان سے جئیے کہ گر گر کر سنبھلتے رہے اور اللہ نے ہمیشہ دینے والا ہاتھ بلند رکھا،اسی طرح وقتِ آخر بھی بےمثال تھا کہ گھر سے باہر نہ کسی عزیز واقارب نے ان کے دکھ یا بیماری کی خبر سنی اور حد تو یہ کہ دیوار کے ساتھ جڑے پڑوسی جو صبح شام سے باخبر ہوتے ہیں انہیں بھی ہمیشہ ہنستا مسکراتا چہرہ ہی ملا۔۔لفظ "بیمار" یا سبب بیماری نہ صرف ان کی زندگی میں کبھی ان کے نام کے ساتھ جڑا اور نہ ہی ہمیشہ کے لیے چلے جانے کے بعد اُن کے ذکر کے ساتھ کسی کے سامنے کہنے کا جواز مل سکا۔ وہ ساری عمر لوگوں کے رویوں سےاور ان کی خصلت سے شاکی رہے لیکن اپنے رب سے اُن کا ربط عجیب تھا۔۔۔بظاہر رب سے شکوہ کرنا اگرناشکرگزاری دکھتا تو رب کی عطاؤں پر اُن کا کامل یقین دیکھنے والوں کو شش وپنج میں مبتلا کر دیتا۔ ان کی زندگی کے آخری لمحات کا نچوڑ یہی تھا کہ اللہ سے جو گمان کرو گے وہی ملے گا۔ ان کے مالک نے اپنے خاص کرم کے صدقے زندگی میں تو پےدرپے مسائل اور مشکلات برداشت کرنے کا حوصلہ دیا ہی لیکن جاتے ہوئے اپنی نظر میں اور جانے کے بعد دوسروں کی نظر میں ان کا مقام ہر قسم کے شک وشبے سے بالاتر رکھا۔واپسی کے سفر میں بچیوں کی پریشانی دیکھ کر تسلی دیتے ہوئے صرف دو باتوں کی کامل یقین کی حد تک یقین دہانی کرائی کہ میں ہرگز کٹی پھٹی حالت میں مجبور وبےکس ہو کر واپس نہیں جاؤں گا اور جس روز جاؤں گا وہ عام نہیں بلکہ خاص دن ہو گا اور اس کے ساتھ پورے یقین سے  زور دے کر کہا کہ اس روز زمین سے لے کرآسمان تک روشنی ہی روشنی ہو گی۔ہم آنکھوں دیکھی حقیقت بھی  سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔لیکن  ابو کی کہی ہوئی بات 12 ربیع الاول کے حوالےسے سچ ثابت ہوئی۔اللہ نے دنیا میں دنیا والوں کے سامنے ان کے گمان پورے کیے۔اللہ اپنی بارگاہ میں بھی ان سےرحم وکرم کا معاملہ کرے۔غلطیوں اور گناہوں سے درگزر کرتے ہوئے اپنے مقربین میں خاص جگہ عنایت فرمائے آمین۔
آخری دنوں اور آخری لمحات کا احوال ایک برس پہلے کے تحریر کردہ درج ذیل بلاگز میں ہے،ان کے لنک لیبل "میرے ابو" کے تحت پڑھے جا سکتے ہیں۔ 
٭امیدِ زندگی
٭ایمانِ زندگی
٭سویا ہوا محل
٭ غازی کی باتیں
٭مرکزِثقل ۔
نورین تبسم
گیارہ بجے رات 
دسمبر 24۔۔۔2015
بمطابق 12 ربیع الاول 1437 ہجری
اسلام آباد
  

ہفتہ, دسمبر 19, 2015

"یقینِ زندگی (1) "

" بڑے لوگ۔۔۔بڑی کہانیاں" 
بڑے لوگ صرف وہی نہیں جو بڑے بڑے کام کر کے دُنیا سے رُخصت ہو جائیں۔۔۔۔بڑے لوگ وہ بھی نہیں جو آسمانِ دُنیا پر چاند ستاروں کی طرح جھلملاتے ہیں۔۔۔اپنی روشنی سے جگ کو منور کرتے ہیں اور جاتے ہوئے کُل عالم کو اُداس اور تنہا کر جاتے ہیں۔۔۔بڑے لوگ صرف وہی نہیں جن کی زندگی کا لمحہ لمحہ انسان کے عزم اور ارادے کی جیتی جاگتی مثال ہوا کرتا ہے اور مر کر بھی اُن کا فیضان جاری رہتا ہے۔اِن کی تعلیمات آنے والے زمانوں کے لیے مشعلِ راہ ثابت ہوتی ہیں۔بڑے لوگ وہی نہیں جو بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں۔۔۔دُنیا فتح کرتے ہیں اور یا پھر اپنی صلاحیتوں کے منفی استعمال سےدُنیا اُجاڑ دیتے ہیں۔
ہر "بڑا یا چھوٹا" ایک سے انداز میں سانس لیتا ہوا دُنیا میں آتا ہے اور "بڑے چھوٹے" کی تمیز سے ماورا سب کی آخری سانس بھی ایک سے انداز میں نکلتی ہے۔ سانس آنے اور سانس جانے کے درمیان کا عرصہ انسان کا دُنیا میں کردار اس کا مقام اور سب سے بڑھ کر اس کا نام طے کرتا ہے۔ بہت سے لوگ اپنی زندگی میں ہی گمنام ہوجاتے ہیں اور جانے کے بعد تو حرفِ غلط کی طرح مٹ جاتے ہیں۔ بڑے لوگوں کی زندگی کی اگر چھوٹی چھوٹی کہانیاں بھی بہت اہمیت رکھتی ہیں تو چھوٹے لوگوں کی زندگی میں بھی کئی بڑی کہانیاں چھپی ہوتی ہیں۔ کبھی یہ کہانیاں ادب کا حصہ بن کر امر ہو جاتی ہیں تو کبھی سدا ان کہی ان سنی رہ جاتی ہیں۔
پیدائش اور موت کی سمجھ میں آکر بھی نہ سمجھ میں آنے والی پیچیدہ کہانی سے قطع نظر دُنیا میں آنے کے بعد انسان حالات وواقعات کے عجب جہانِ حیرت سے گزرتا ہے۔کبھی بےخبری میں زندگی گزر جاتی ہےتو کبھی زندگی اُسے یوں گزارتی ہے کہ اندر سے کوئی چیخ اُٹھتا ہے۔۔۔
زندگی جبرِمسلسل کی طرح کاٹی ہے
جانے کس جُرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں
پسِ تحریر۔۔۔
دُنیا کو سرائےفانی کہا گیا اور انسان کو مسافرِشب۔۔۔وہ بھی جو صرف پل دوپل کو سانس لینے رُکے۔عمر کے محدود برسوں کا یہ سفر ہر سانس میں ایک نئی کہانی کہتا ہے۔انسان کے وجود پر یہ سفردو طرح سے رقم ہوتا ہے۔شیرخوارگی سے بُڑھاپے تک کا جسمانی سفرجس سے ہرانسان یکساں طور پر گزرتا ہے۔زندگی کے مہربان نامہربان موسموں کا ذائقہ چکھتا ہے۔۔۔تقدیر کے لکھے کو نہ چاہتے ہوئے نہ مانتے ہوئے بھی سمجھوتے کرتا ہے اور وقتِ مقرر تک اپنا کردار ادا کر کے رُخصت ہو جاتا ہے۔
آغاز واختتام۔۔۔ 
یہ کہانی ہے اس شخص کی جس کی دنیاوی زندگی کی کتاب چارجنوری سال 2015 بمطابق اسلامی سال 1436 ہجری بتاریخ بارہ ربیع الاول کو پروردگارِعالم کی طرف سے بند کر دی گئی۔اِس کتابِ دنیا کے آخری اوراق جو ظاہری آنکھ کی نگاہ سے گزرے اورحسبِ استطاعت اس احساس کو لفظ کی زبان دے کر بلاگ میں کسی حد تک محفوظ کرنے کی سعی بھی کی گئی۔
عجیب کہانی ہے یہ بھی کہ پڑھنے والے آخری صفحات (ایمان زندگی ) پڑھ چکے،انجام سے واقف ہیں کوئی تجسس بھی نہیں۔حد تو یہ ہے کہ گرچہ کتاب زندگی بند ہو چکی پر اوراقِ زندگی پلٹے جا رہے ہیں شاید اس لیے کہ کچھ قرض باقی ہیں۔۔۔۔۔۔ 
سال 2015 یکم جنوری کی پہلی صبح اس سلسلے کی پہلی تحریر " امیدِ زندگی" پوسٹ کی اور اب سال 2015 کی آخری شامیں "یقین زندگی" کے نام۔۔۔۔
وہ یقین جو خاکی کو گرنےکے بعد سنبھلنے کا حوصلہ دیتا ہے۔۔۔ وہ یقین جو آس کی ٹوٹتی ڈور پر امید قائم رکھتا ہے۔۔۔وہ یقین جو کمزور پڑتے انسان کے ایمان کو تقویت دیتا ہےاور وہ یقین جو ڈولتے قدموں کو زمین پر ثابت قدم رکھتا ہے۔ وہ یقین جو خزاں میں بہار کی خبر دیتا ہے تو زندگی کی ڈھلتی شاموں میں صبحِ نو کی تازگی کا شعور بھی بیدار کرتا ہے۔ 
پیدائش ۔۔۔۔ 
یہ کہانی گذشتہ صدی میں تیس کی دہائی میں پیدا ہونے والے اُس شخص کی ہےجس کے والدین اپنے چھ بچوں کی پےدرپے موت کے صدمے سے بےحال تھے۔ اللہ دیا خان سہارن پور کے افغانی حسب نسب رکھنے والے دبنگ خان تھے۔ بہن بھائیوں میں سب سے بڑے لیکن اولاد کی نعمت سے محروم۔ بچے پیدا ہوتے لیکن زیادہ عرصہ جی نہ پاتے۔پریشان حال باپ ایک ولی اللہ کے مزار پر گئےوہاں ایک بزرگ ملے،انہوں نے اداسی کی وجہ دریافت کی،پھر تسلی دیتے ہوئے دعا دی کہ اب تمہارے ہاں جو بچہ پیدا ہو گا وہ لمبی عمر پائے گا پھر مجھ سے یہیں آکر ملنا( بعد میں بہت تلاش کیا لیکن وہ بزرگ نہ ملے)۔
شاید اس لمحے نااُمید باپ نےاس بات کو مجذوب کی بڑ جانا ہو۔وہ لوٹ آئے۔دن گزرتے رہے اوراگلے برس اُن کے ہاں ایک گول مٹول خوبصورت بیٹا پیدا ہوا۔ پہلے بچے اللہ نے دئیے تھے اُس نے ہی واپس لے لیے۔۔۔اللہ کی مرضی،شاید اسی لیے اس بچے کا نام امان اللہ رکھا گیا۔پیدا ہوتے ہی جینے کے ٹوٹکے کے طور پراس کے کان میں بالی ڈال دی گئی اور بجائے نئے کپڑوں کے پرانے کپڑے پہنائے گئے۔یہ بچہ یوں بھی مبارک ثابت ہوا کہ اس کے بعد دو بیٹے اور ایک بیٹی پیدا ہوئے(اللہ انہیں ذہنی وجسمائی صحت کے ساتھ سکون والی عمر عطا فرمائے آمین)دھدیال اور ننھیال دونوں جگہ اس بچےکے خوب خوب لاڈ اٹھائے گئے جوگھر والوں بلکہ محلے والوں کی بھی آنکھ کا تارا تھا۔
بچپن۔۔۔۔
جیسے جیسے بڑا ہوتا گیا یہ معصوم اور بھولا بھالا بچہ گھر والوں کو عجیب طرح سے پریشان کرنے لگا۔محلے والوں سے محبتیں سمیٹتے بڑا ہوا تو اُن کے دکھ درد میں کام آنے لگا۔اُس زمانے میں روزمرہ کے گھریلو سامان کے لیے عورتیں گھر سے باہر نہیں نکلتی تھیں اور محلے کے بچوں سے کام کہہ دینا معمول کی بات سمجھی جاتی۔اپنےگھر میں تو کام کاج اور سودا سلف لانے کے لیے خدمت گار موجود تھے۔خان صاحب کا یہ بچہ محلے والوں کے سامان بڑی خوشی سے لانے لگا۔دروازے کی اوٹ سے"منے"کو پکارا جاتا۔وہ ایک کاغذ پر سودا لکھتا،پیسے لیتا اور آگے بڑھ جاتا۔یوں کئی گھروں کا حساب جمع ہو جاتا۔ واپسی پر بعض اوقات سامان کا وزن بوری برابر ہو جاتا جسے وہ بلا کسی ہچکچاہٹ کے کاندھے پر اُٹھائے نظر آتا۔ اکثر والد صاحب سے ملنے والے شکایت کرتے یا حیرانی کا اظہار کرتے کہ آپ کا بڑا بیٹا "مزدوری" کرتا ہے؟اب تصور ہی کیا جا سکتا ہے کہ یہ سن کر ان کا کیا حال ہوتا ہو گا۔ وہ گھر آ کر اپنی بیوی سے بازپرس کرتے۔
گھریلو ماحول۔۔۔ 
ماں کو بچے کے ہر قول وفعل کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے اور کوئی نہیں سوچتا کہ بچے کی اپنی سمجھ اپنی سوچ بھی کوئی معنی رکھتی ہے۔ درست ہے کہ ماں کی گود بچےکی پہلی درس گاہ ہے لیکن ماں ایک بیوی پہلے ہے جس کی اپنی کوئی سوچ نہیں ہوتی۔ایک مرد کے ساتھ نکاح کے بول میں بندھتے ہی اس کی سوچ بھی گروی رکھ دی جاتی ہے۔نکاح ایک چابی کی مانند ہے جوں ہی چابی دی جاتی ہےعورت بےجان کھلونے کی طرح اسی طور حرکت شروع کر دیتی ہے۔ خان صاحب کا نہ صرف باہر بلکہ گھر میں بھی بڑا رعب تھا۔ان کے غصے اور سختی کا یہ عالم تھا کہ ایک بار ان کی اہلیہ چھوٹے بچوں کے ساتھ میکے گئیں واپسی پر کچھ دیر ہو گئی تو گھر کا دروازہ کھولنے سے انکار کر دیا اور پھر وہ رات انہوں نے پڑوس میں گزاری(یہ گذشتہ صدی کے قصے ہیں اب عورت اور مرد برابری کی سطح پر اپنے معاملات طے کرتے ہیں)اس ماحول میں وہ بچہ پروان چڑھا۔ سنتا سب کی تھا لیکن کرتا اپنی مرضی ہی تھا۔اس کے ساتھ ساتھ وہ نہایت باادب اور خوش مزاج بھی تھا۔ اس کی ایک عجیب عادت "نہانے"کی بھی تھی۔اسکول سے گھر تک کے راستے میں آنے والی مسجد میں نہانا لازمی تھا اور پھر نماز پڑھ کر گھر لوٹتا۔کبھی دیر ہوجاتی تو اماں سے"بکنے"پڑتے۔ بچے اپنے ماحول سے اثر لیتے ہیں اور عمر کے ابتدائی سالوں میں جو باتیں ان کے ذہن کے کمپیوٹر میں فیڈ ہو جائیں وہ آخری سانس تک ازبر رہتی ہیں ۔اس بچے کے ذہن میں یہ بات ڈال دی گئی تھی کہ جس جگہ سجدہ کیا جائے وہ جگہ قیامت کے روز اس بندے کے حق میں گواہی دیتی ہے۔اسی لیے وہ مسجدیں بدل بدل کر نماز پڑھتا اور آگے چل کر یہ ذوق و شوق اسی طرح سلامت رہا۔ساری زندگی مسجدوں،سجدوں اور نہانے سے اُنہیں عجیب نسبت رہی۔کسی بھی نئی جگہ،نئے شہر جاتے یا سفر کرتے ہوئے مسجد سب سے اہم اور پرکشش جگہ ہوتی۔ رہی بات نہانے کی تو اب اپنے گھر کا غسل خانہ ہی کافی تھا اور گھر سے دور جب بھی کہیں جاتے تو کسی اور کے غسل خانے میں نہانے سے گریز ہی کرتے۔
بچپن کی یادیں۔۔۔۔ 
بچپن کے اُس دور میں جب ہندو سکھ اور مسلمان مل جل کر رہتے تھےوہ مسجد اپنے سکھ اور ہندو دوستوں کے ساتھ جاتے اور ان کے دوست دیوار کی اوٹ سے پانی بھر بھر کر دیتے۔ پھر ان کے غیرمسلم دوست کہتے کہ ہم بھی نماز پڑھیں گے تو کہتے کہ جیسا میں کر رہا ہوں میرے پیچھے کرتے جاؤ۔ ہم آج کے دور میں سوچ بھی نہیں سکتے کہ ایسا بھی کوئی زمانہ تھا۔۔۔۔نہ کوئی اعتراض کرنے والا کہ مسجد میں غیر مذہب والا کیوں داخل ہوا اور نہ بچوں کو ڈانٹنے والے کہ دین کو تماشا بنا رکھا ہے۔
ابتدائی عمر میں انسان کی صحبت اوراس کا ماحول اس کے مزاج اور آئندہ زندگی میں رویوں کی تشکیل میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔بچپن میں بلاکسی امتیاز کے بڑے چھوٹے سے یکساں گھلنے ملنے اُن کے کام آنے کا ہی نتیجہ تھا کہ بعد کی زندگی میں وہ کسی بڑے سے بڑے رُتبے والے شخص سے مرعوب نہ ہوئے اور چھوٹے سے چھوٹا کام کرنے والے حتٰی کے خاکروب سے بھی اسی عزت سے پیش آتے۔
ذاتی احساسات۔۔۔۔ 
وہ پہلی اولاد تھےجو صحت و سلامتی کے ساتھ اپنے ماں باپ کی شفقت کے سائے میں پروان چڑھ رہی تھی۔پہلا بچہ اپنے رویوں اور احساسات میں بھی اول ہی ہوتا ہے۔گھر میں اس کا وجود محبتوں کی کُل کائنات سمیٹتا ہے جب تک کے اُس کا دوسرا بہن بھائی نہ آ جائے۔پھر اُس کی زندگی یکدم تین سوساٹھ درجے کے زاویے پر مڑ جاتی ہے۔یا تو وہ سمجھوتے کر کے اپنے سب اختیار سب خواہشیں خاموشی سے بانٹ دیتا ہے اور یا پھر ہمیشہ اپنی بڑائی کے حصار سے باہر نہیں آ پاتا۔ اس میں شک نہیں کہ اپنوں کے دل میں اُس کا خاص احساس ہمیشہ ویسا ہی رہتا ہے جو وقت کے ساتھ چاہے گھٹتا بڑھتا رہے لیکن اس سے ملنے والی خوشی اگر منفرد ہوتی ہے تو اس سے ملنے والے غم بھی دل زخمی کر دیتے ہیں۔ پہلے بچے کی سب سے خاص بات جو بسااوقات اس کی کمزوری یا کسک بھی بن جاتی ہے کہ اُسے مانگنا نہیں آتا۔عمر کے پہلے سال کا یہ احساس ایک جینیٹک کوڈ کی مانند اس کے ذہن میں ٹھہر جاتا ہے چاہے اگلے برس ہی اس کا شراکت دار آ جائے۔
امان اللہ بھی ایسا ہی ایک بچہ تھے جو بڑے ہو کر رشتوں ناطوں اور جذبات واحساسات میں ہر اعتبار سے منفرد اور نمایاں رہے۔
معاشرتی حالات۔۔۔ 
تحریکِ پاکستان اور تکمیلِ پاکستان کے حوالے سے وہ بڑا افراتفری کا دور تھا۔اس کے ساتھ ساتھ دوسری جنگِ عظیم کی اُفتاد سے مسلک ومذہب سے ہٹ کو ہر عام ہندوستانی چاہے جوان ہو یا بوڑھا یکساں متاثر ہوا۔جبری بھرتیاں جاری تھیں۔ سڑکوں پررات گئے فوجی دستے مارچ کرتے گزرتے۔اُن کے بوٹوں کی دھمک بڑوں کو ہولا کر رکھ دیتی اسی طرح دن کو "جے ہند" اور"بٹ کے رہے گا ہندوستان اور بن کے رہے گا پاکستان"کے نعروں کی گونج لہو برماتی۔امیرغریب،جاہل ان پڑھ کی تخصیص سے بالاتر سیاسی اور مذہبی بصیرت سر چڑھ کر بولتی تھی۔جوان خون کے دل میں اگر کچھ کرگزرنے کی لگن تھی تو اُن کے بڑوں کے نزدیک یہ آخری موقع تھا جو انہیں پہلی بار عطا ہوا۔چودہ اور پندرہ اگست 1947 کی درمیانی شب ریڈیو سنتے ہوئے گھڑی کی ٹک ٹک سانس روک لیتی تھی۔عین بارہ بجے اعلان ہوا"یہ ریڈیوپاکستان ہے"اس کے بعد نعروں اور جوش وخروش کے ساتھ قتل وغارت کی لامتناہی داستان شروع ہوگئی۔
پاکستان ہجرت۔۔۔ 
امان اللہ نے سن1951 میں اپنے خاندان کے ساتھ پاکستان ہجرت کی تو زندگی یکدم پلٹ گئی۔قافلوں کے ساتھ کڑی صعوبتیں برداشت کرتےکھوکھرا پار کے راستے سرزمینِ پاک پر قدم رکھا۔وہ جگہ ایک بےآب وگیاہ صحرا کی مانند تھی۔ٹرک کافی پیچھے رُک گیا اور اشارے سے کہا گیا کہ وہ رہا پاکستان۔ ٹرک میں سوار لٹے پٹے مجبور لوگ اپنے سامان کی پروا کیے بنا اس ہیولے کے پیچھے ریت میں دھنستے پاؤں کے ساتھ بھاگتے چلے گئے۔فاصلہ اچھا خاصا تھا۔قریب پہنچے تو پاک فوج کےجوان خندہ پیشانی سے پیش آئے۔اب سامان کا خیال آیا تو فوجی بھائیوں نے تسلی دی اور خود سامان لانے کا انتظام کیا۔ یہاں سے اگلا پڑاؤ "مونا بھاؤ" ریلوے اسٹیشن تھا۔ پہنچے تو پتہ چلا کہ گاڑی نکل گئی اور اگلی گاڑی ہفتے بعد آئے گی۔وہ ایک ہفتہ پورے خاندان اور اہلِ قافلہ کے ساتھ اسی پلیٹ فارم پر گزرا۔وہاں سے اپنے ایک عزیز کے پتہ پر سیالکوٹ شہر پہنچے۔جہاں دھوکےاور دکھ کی ایک نئی داستان منتظر تھی۔بہت سا سامان چوری ہوا۔اس میں پڑھائی کی ڈگریاں اور زمینوں کے کاغذات بھی تھے۔ سیالکوٹ سے دل برداشتہ ہو کر راولپنڈی کا رُخ کیا پھر آخری سانس تک پورا کنبہ اس شہر کی فضاؤں کا اسیر رہا اور وقت کے ساتھ ساتھ بڑے اپنے وقت پر اس کی مٹی میں مٹی ہوتے چلے گئے۔
سیاسی بصیرت۔۔۔ 
اس زمانے میں کراچی پاکستان کا دارالخلافہ تھا لیکن فوج کے حوالے سے پنڈی کی اہمیت بھی کم نہ تھی۔پاکستان کے پہلے اور اس وقت کے وزیرِاعظم" خان لیاقت علی خان" کی قضا کھینچ کر پنڈی کے ایک پارک میں لے آئی جہاں ایک جلسے کے دوران جیسے ہی وہ اسٹیج پرآئے کسی سفاک قاتل نے گولی مارکر شہید کر دیا۔یہ پارک بعد میں لیاقت باغ کے نام سے مشہورومعروف ہوا۔ وہ بچہ جو تحریکِ پاکستان کے جلسوں میں جوش وخروش سے شرکت کیا کرتا تھا یہاں بھی اولین صفوں میں موجود تھا اورسارے سانحے اور بھگدڑ کا عینی شاہد تھا۔
جذباتی دھچکے۔۔۔ 
اس شہادت کے بعد نہ صرف پاکستان کی سیاست میں بندربانٹ شروع ہوئی بلکہ بڑے ہوتے اس بچے کی زندگی میں بھی بدترین نشیب وفراز آتے چلے گئے۔ اس دور میں رشتے کے ماموں کا کہا ساری زندگی نہیں بھولا، جب داخلے کے لیے کچھ پیسوں کی ضرورت پڑی تو انہوں نے ٹکا سا جواب دیتے ہوئے کہا کہ پڑھائی کر کے کیا کرنا ہے کوئی ریڑھی لگا لو۔ مزدوری کرنا برائی ہرگز نہیں لیکن تضحیک کا یہ انداز ہمیشہ کے لیے دل میں ترازو ہو گیا۔ بس اسکے بعد پیچھے مڑ کر نہ دیکھا بچپن کا عیش وآرام خواب ہوا۔کھلے دالانوں والے گھروں میں رہنےانگریزی مکھن،مارجرین اور پنیر کھانےوالے تنگ وتاریک کمروں میں بھوک برداشت کرتے اورچھوٹی چھوٹی مزدوریاں کرتے رہے۔سنار کا کام سیکھا۔اپنی انا،خودداری اور اپنا مقصد سامنے رکھا۔
مشقتِ حیات۔۔۔ 
پڑھائی کا طعنہ ملا تو اسےجی جان سے قبول کر کے پڑھتے چلے گئے۔بھوک پیاس کی پروا کیے بغیر بجلی کے کھمبوں کی روشنی میں صرف اور صرف پڑھائی پر توجہ دی۔بڑے بھائی کے پڑھنے کا جنون دیکھ کرچھوٹے بھائی نےاپنی پڑھائی ادھوری چھوڑ کر گھر کی ذمہ داری اٹھا لی۔والد صاحب اندر سے بہت ٹوٹ گئے۔روایتی پگڑی اور مخصوص طرز والی کئی گز کی شلوار پہننے والے اپنی غربت کے لباس سے جانے کس طرح تن ڈھانپتے ہوں گے۔مضبوط قوتِ ارادی اور اللہ پر کامل یقین نے رنگ دکھایا اور چھ سال کے قلیل عرصے میں زیرو سے آغاز کرنے والا بچہ ڈاکٹر کی ڈگری لے کر پورے خاندان کے لیے قابلِ فخر ٹھہرااور اگلے چالیس برس سے زائد عرصے تک تن تنہا ایک ہی جگہ بیٹھ کر مسیحائی کا ہنر آزماتا چلا گیا۔غربت میں ساتھ چھوڑنے والےرشتے دار لوٹ آئے،والدین نے بڑے پن کا ثبوت دیتے ہوئےسب بھلانے کی کوشش کی۔پیر صاحب گولڑہ شریف کی رہنمائی اور اشارے کے بعد راولپنڈی شہر کے نواح میں ایک چھوٹی سی دُکان میں اپنا ذاتی کلینک قائم کیا۔۔۔۔لیکن ابھی زندگی کی تلخیاں اور مشقتیں باقی تھیں۔۔۔بقول منیرنیازی کے
ایک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے جانا
( جاری ہے۔۔۔باقی یقینِ زندگی(2) میں)

بدھ, دسمبر 09, 2015

"ذرا انتظار کرو۔۔۔ تم بھی چپ ہو جاؤ گے"

"ایک کالم ایک کہانی"
۔۔۔کالم "ہزار داستان" از مستنصرحسین تارڑ۔۔۔
۔۔بعنوان۔۔"ذرا انتظار کرو۔۔۔ تم بھی چپ ہو جاؤ گے ازمستنصر حسین تارڑ
بتاریخ۔۔نو دسمبر دوہزار پندرہ۔(09..12..2015 )۔
کالم سے اقتباس۔۔۔
ایک نامعلوم نثری نظم نگار نے قربت مرگ کو کچھ یوں بیان کیا ہے۔
سفید اوور کوٹوں میں کفنائے ہوئے ہسپتال کے اہلکار۔۔۔ سٹریچرپر دھکیلتے ہوئے مجھے آپریشن تھیٹر کی جانب لئے جاتے ہیں۔۔۔ نور جہاں کا ایک گیت گنگناتے۔۔۔
کی بھروسا دم دا، دم آوے نہ آوے، گنگناتے
اسی سٹریچر پر وہ مجھے واپس لائیں گے
کسی بھی حالت میں۔۔۔ زندہ یا مُردہ
میرے سر پر چھت میں نصب تیز روشنیاں
میری آنکھوں پر سے گزرتی جاتی ہیں
میں جانتا ہوں۔۔۔ میں نہیں جانتا
میری واپسی ہو گی تو کس صورت ہوگی۔۔۔
چھت میں نصب یہی روشنیاں میری آنکھوں پر سے گزریں گی۔۔۔
یا سب روشنیاں فیوز ہو چکی ہوں گی۔۔۔
میں وہاں ہوں گا جہاں کوئی چہرہ نہیں ہوتا۔۔۔
میں جانتا ہوں، میں نہیں جانتا
تب ایک ویرانہ اُن آنکھوں میں ویران ہوتا ہے
کوئی ویرانہ سا ویرانہ ہے۔۔۔
کوئی خلاء ہے، کیا ہے۔۔۔
میری ماں اُس ویرانے کے خلاء میں کھڑی ہے
وہ نہ خوش ہے نہ ناخوش۔۔۔
بہت چپ، بہت خاموش کھڑی ہے
اُس کے دوپٹے میں سے وہی مہک چلی آرہی ہے۔۔۔
جب وہ مجھے گلے سے لگاتی تھی تو آتی تھی۔۔۔
میں اُس نیم مدہوشی میں پوچھتا ہوں۔۔۔
امی، آپ یہاں کیا کر رہی ہیں،
وہ اُسی خوشی اور ناخوشی میں لپٹی اپنے ترشے ہوئے لب کھولتی ہیں۔۔۔
’’میں تمہیں دیکھنے آئی ہوں، بس اتنا کہا۔۔۔
میں آپریشن تھیٹر سے زندہ لوٹ آؤں گا، مجھے یقین ہوگیا
امی نے یہ نہیں کہا تھا کہ میں تمہیں لینے آئی ہوں۔۔۔
اگر مائیں لینے آجائیں تو کون انکارکر سکتا ہے،
پر وہ مجھے دیکھنے آئی تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج شائع ہونے والے اس کالم نے مجھے گنگ کر دیا۔۔۔زندگی صرف حیرت درحیرت ہے اور کچھ بھی نہیں آخری سانس تک ہم اسے جان ہی نہیں سکتے۔نہیں جانتی کہ یہ نامعلوم نثرنگار کون ہے جس نے قربتِ مرگ کی ایسی تصویر کھینچی کہ میری آنکھ  نے اس کے لفظ لفظ کی بنت کی  گواہی دی ۔۔۔۔ 27 اور28 دسمبر 2014 کی رات۔۔۔۔اسلام آباد کے شفا انٹرنیشل کے آئی سی یو میں ہر منظر ویسا ہی تھا جیسا اس نظم میں دکھتا ہے حد تو یہ ہے کہ اوپر گردش کرتی روشنیاں بھی ایسی ہی تھیں۔۔ اس لمحے کو میں نے اگلے چند روز میں اس طرح لفظ میں بیان کیا۔۔۔۔
بلاگ۔۔"ایمانِ زندگی"۔سے اقتباس۔۔۔ 
انسانی آنکھ اور اس کےسوچنے سمجھنے کی محدود عقل کی صلاحیت کے تحت میرے خیال میں پردہ گرنے کو ہی تھا۔ ۔لیکن میں نہیں جانتی تھی کہ جو دکھائی دے رہا ہے وہ حقیقت ہوتے ہوئے بھی مکمل حقیقت نہیں۔ کچھ دیر بعد ابو کی آنکھ کھلی تو کسی اور دُنیا کا منظر ان کے سامنے تھا۔ وہ ہمیں دیکھتے ہوئے بھی نہ دیکھتے تھے اور ہمیں سنتے ہوئے بھی کسی اور کو بڑی محویت سے سن رہے تھے۔ چہرے کے تاثرات سے کبھی مسکراتے کبھی تاسف کا اظہار کرتے اور سیدھا ہاتھ بار بار وعلیکم السلام کہتے ہوئے ملانا چاہتے پھر مایوس ہو کر ہاتھ نیچے کر لیتے یا ہم ان کے بڑھے ہاتھ کو تھام لیتے۔ کچھ دیر بعد وہ ہماری دنیا میں لوٹ آئے۔ متلی کی کیفیت کے بعد جب طبیعت بحال ہوئی تو پہلے الفاظ یہ ادا کیے کہ وہ مجھے لینے آئے تھےمیں ہاتھ بڑھا رہا تھا لیکن انہوں نے ہاتھ نہیں ملایا کہ ابھی تمہارا وقت باقی ہے۔ اور میری اماں اور ابا بھی ساتھ ہی تھے۔جو مجھ سے ملنے کو بےچین تھےاماں باہیں کھول کر میرا بچہ کہہ کر بلاتی تھیں۔یہ کہتے ہوئے میرے ابو چھوٹے بچوں کی طرح اپنی ماں کو یاد کر کے ایک لمحے کو رونے لگے۔ پھر ہمیں تسلی دی کہ فکر کی کوئی بات نہیں ۔۔۔ابھی وقت نہیں آیا۔۔۔میں ابھی نہیں مروں گا۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔
جناب مستنصر حسین تارڑ کا آج مؤرخہ 9 دسمبر 2015 کو شائع ہونے والا یہ کالم اُن کے 6دسمبر 2015کو شائع ہونے والے کالم "میلان کندیرا کا ناول،امارٹیلیٹی، - مستنصر حسین تارڑ " کا دوسرا حصہ کہا جاسکتا ہے۔ 
جناب تارڑ سال 2015 میں اپنی 76 سالہ زندگی کے سب سے بڑے تجربے سے گزرے ۔اللہ کے کرم اور تقدیر کے لکھے کے مطابق وہ اس مرحلے سے بخیروخوبی سرخرو ہوئے۔ اللہ کی شکرگزاری کے احساس کے ساتھ مکمل جسمانی صحت اگر اپنوں کو تسکین دیتی ہے تو اُن کے قارئین کے لیے اُن کی ذہنی صحت خیال اور آگہی کی ایسی کہکشاؤں کی سیر کراتی ہے جس کا بیان لفظ کی گرفت میں نہیں آ سکتا۔ اس سال جناب تارڑ کی طرف سے ایک ساتھ چار کتابوں کے تحفے ملے۔۔۔۔ 1)"آسٹریلیا آوارگی"2) امریکہ کے سو رنگ3)راکاپوشی نگر اور 4) پندرہ کہانیاں
تو جہاں ان کتابوں کے متنوع موضوعات پڑھنے والوں کو اپنے دیس کی سیر کراتے ہیں، باہر کی دنیا اور اُن ممالک میں بسنے والوں کی کہانیاں کہتے ہیں وہیں جناب کی پندرہ کہانیاں ہمیں اپنے اندر کے سفر پر لے جاتی ہیں۔
جناب مستنصرحسین تارڑ کی طرف سے لفظ کی خوشبو کتاب کی صورت اور اخباری کالمزمیں  تو ہمیں برسوں سے مل ہی رہی ہے لیکن سال 2015 کی خاص بات جناب تارڑ کے شائع ہونے والے کالم ہیں۔وہ اخباری کالم جو جناب کی ہر روز کی سوچ کے آئینہ دار ہیں۔
ویسے تویہی نظر آتا ہے کہ اخبار میں چھپنے والی تحریر خواہ کتنی ہی قیمتی کیوں نہ دکھتی ہو اُس کی زندگی صرف ایک روز کی ہوتی ہے۔۔۔جتنی بےچینی سے اسے گلے لگایا جاتا ہے اتنی ہی جلدی اس کی ہوس ختم ہوکر ایک بوجھ بن جاتی ہے۔لیکن نیٹ کا ایک تحفہ کاغذ پر چھپنے والے اور شام کو ردی کی نذر ہونے والے اخبار کی عزت افزائی بھی ہے۔نیٹ کی بدولت کوئی بھی کاغذی تحریر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو جاتی ہے۔
جناب تارڑ کئی برس سےکالم لکھ رہے ہیں اور ان کے کالموں کے مجموعے کی صورت کئی کتابیں شائع بھی ہو چکی ہیں لیکن سال 2015 کا سب سے خاص تحفہ اُن کے اس سال شائع ہونے والے کالم ہیں۔ سال کے آغاز میں اگر انہوں نےاپنے سندھ سفر کی لفظ کشی کی اور کیا ہی خوب کی واقعی "من مور ہوا متوالا"۔ اور اس کے بعد جون میں اپنی جسمانی شکستگی کے تجربے سے گزرنے کے بعد آنے والے کالم بےمثال اور ناقابلِ فراموش ہیں۔یہ کالم کیا ہیں۔۔اپنائیت اور محبت کی ایسی سرگوشیاں ہیں کہ بقول امجداسلام امجد" تخلیے کی باتوں میں گفتگو اضافی ہے"۔۔۔جیسے کوئی ہم سخن اپنے دل ودر کے دروازے کھولے آنے والوں کو خوش آمدید کہے۔۔۔اُن کے ساتھ مٹی کے فرش پر بیٹھ کر کھلے آسمان تلے دل کی باتیں کرے یا کسی خوبصورت قالین پر گاؤ تکیہ لگائے نیم دراز ہو اور سننے والے اس کی مست مست باتوں اور دل نشین لہجے پر فدا ہوتے ہوئے اپنی زندگی وہیں بتِا دیں۔یہ کالم کوئی لیکچر یا کسی قسم کے فلسفے کا بیان نہیں بلکہ یہ بنا کسی تراش خراش یا جھجھک کے اپنے ذہن میں آنے والی خام سوچ کو دوسرے ذہنوں تک اُسی طور منتقل کرنے کی ایک کیفیت ہیں۔۔۔ایک لمس کا رشتہ ہے جو زمینی اور جسمانی فاصلوں کو رد کرتا قربت کی انتہا کو چھو کر روح سرشار کر دیتا ہے اور جسم اس لطیف احساس کی خوشبو سے اپنے سب بوجھ اتار پھینکتا ہے۔خیالِ یار میں محورقص دنیا میں قدم جمانے کو ذرا سی جگہ تلاش کر لیتا ہے۔اور یہی محبوب لکھاری کی کشش کا دائرہ ہے کہ جو ایک بار اس کے حصار میں آجائے وہ کہیں اور جانے کی خواہش کھو دیتا ہے۔
اللہ جناب مستنصرحسین تارڑ کو ذہنی اور جسمانی صحت کی تازگی کے ساتھ ہر سفر پر ثابت قدم رکھے۔آمین۔
نورین تبسم
اسلام آباد
دسمبر 9۔۔۔2015
جناب مستنصرحسین تارڑ کےتمام کالم پڑھنے کے لیے اس لنک پر کلک کریں۔
کالمز کا لنک
کچھ خاص کالم جو میں نے ایک بلاگ " ڈیتھ ڈراپ" میں شامل کیے۔
"ڈیتھ ڈراپ ۔۔۔خواب سے حقیقت تک"

پیر, دسمبر 07, 2015

" سجدہ "

یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے"
"ہزار سجدے سے دیتا ہےآدمی کونجات 
خیال کی معراج پر جناب "علامہ اقبال "نے یقیناً یہ شعر عشقِ حقیقی کی لذت میں ڈوب کر کہا ہو گا۔اِن معنوں میں اس کی تفسیر میں کوئی شک بھی نہیں۔لفظ ہیرے کی طرح ہوتا ہےجس انگ سے دیکھیں اُس کے الگ ہی رنگ نظر آتے ہیں۔سجدے کا لفظ خدا سےمنسوب ہے اور خدا ایک شادی شدہ عورت کی زندگی میں مجازی خدا کے معنوں میں بھی آتا ہے۔ 
عورت مرد کا تعلق ایسی آفاقی سچائی ہے جس پر مہر لباس کی مثال سے ثبت کی گئی تو کبھی عورت کو کھیتی سے تشبیہدے کر سمجھانے کی کوشش کی گئی،کھیت کے اسرارورموز سے کون واقف نہیں۔کھیت میں بیج نہ پڑے تو زمین بنجر،بےفیض۔بیج کا بھی موسم ہے،بےموسم کا بیج چاہے جتنی محنت مشقت سے ڈالو کبھی بارآور نہیں ہو سکتا۔پانی زندگی ہے۔۔۔بیج کی بارآوری اور نمو کے لیے ۔بارشیں بھی بروقت اورحدود وقیود کے اندر ہوں پھر ہی ساری جدوجُہد کا پھل ملتا ہے۔پھل ملنا،پھل پانا بھی قسمت سے ہے۔کبھی تیار فصلیں تباہ ہوجاتی ہیں،تباہ کر دی جاتی ہیں توکبھی بیگار کی صورت کہ محنت کوئی اورکرتا ہے برتتا کوئی اور ہے۔لیکن!کیا کیا جائے آندھیوں طوفانوں کے ڈرسےاُمیدوں،خواہشوں کی فصلیں کاشت نہ کی جائیں؟یا کسی عاقبت نااندیش راہ زن کے خوف سے قیمتی خزانےہمیشہ کے لیے دفن ہی رہنے دئیے جائیں؟ ایسا بالکل بھی نہیں ہونا چاہیے۔
عورت اگر ایک کھیتی ہے تو اُس کا ساتھی اُس کھیتی کے گردا گرد لگی ایک باڑھ کی مانند ہے۔ایک چاردیواری ہے۔۔۔جو کتنی ہی کمزورکتنی ہی خاردار کیوں نہ ہو بھٹکنے والے راہ چلتوں کو اندر آنے سے روکتی ہے۔جس زمین کی چاردیواری نہ ہو۔۔۔جس مکان کی دیوارنہ ہو وہ ہمیشہ کم مایہ ہی رہتا ہے،خواہ اُس کی لہلہاتی فصلوں پر آزادی اور برابری کے عظیم الشان لٹھ بردار کھڑے ہوں یا اُس کے دروازوں پر خودساختہ عزت ِنفس اورتفاخر کے قفل مضبوطی سے اپنی جگہ پر قائم  رہیں۔
ایک متمدن معاشرے اوراسلامی طرزِحیات کے دائرے میں رہتے ہوئے عورت اپنے طور پردُنیا کا مشکل سے مشکل اور ناممکن ترین کام بھی کر لے۔عزت،نیک نامی کی معراج پر بھی جاپہنچے جب تک وہ کسی ایسے "جائز" تعلق میں نہیں بندھتی اُس کا کردار،اُس کے افعال شکوک وشُبہات کے پردوں میں مستور رہتے ہیں اور نہ صرف دوسروں کی نظر میں بلکہ اُسے اپنی ذات کے دائرے میں بھی مکمل آسودگی نہیں مل پاتی۔یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ سمجھوتوں کی رگڑ اور ذمہ داریوں کے بوجھ سے ہرپل کمزور ہوتا تعلق کا یہ لباس خواہ کتنا ہی درد کیوں نہ دے اور بظاہرکتنا ہی بےرنگ کیوں نہ دِکھے، دوسروں کی بدنظری سے ہمیشہ کے لیے تحفظ دیتا  ہے۔
ایک رشتے میں بندھنے والے عورت اورمرد الگ الگ ماحول میں پروان چڑھتے ہیں،مختلف سوچ کے حامل ہوتے ہیں۔جب ایک دوسرے کے قریب آتے ہیں تو اس رشتے کو رگڑ سے بچانے کے لیے گریس درکار ہوتی ہےجو اُن کو نہ صرف زخمی ہونے سے بچائے بلکہ باہم جوڑنے میں بھی مددگار ثابت ہو۔عام طور پر محبت کا عنصر بنیاد سمجھا جاتا ہےاس کے ساتھ ساتھ برداشت اور سمجھوتے کو بھی حرفِ آخر کہہ دیتے ہیں۔غور کیا جائے تو ایسا کچھ بھی نہیں یہ رشتہ ایک ذمہ داری ایک   معاہدہ ہےمحبت سے اس کاکوئی لینا دینا نہیں۔محبت اگر ذمہ داری بن جائے تو محبت نہیں بوجھ بن جاتی ہے۔محبت  تو صرف احساس کا نام ہے، لین دین کا رشتہ نہیں۔۔۔ دنیا میں کوئی بھی شے ایسی نہیں جو محبت کی ترجمانی کر سکے۔ محبت اپنی"میں' کی نفی کر کے محبوب کی رضا پر چلنے کا نام ہے۔جبکہ شادی شدہ زندگی میں اس فارمولے کو اپلائی کیا جائے تو بظاہر سب شاندار دکھتا ہے لیکن اندر ہی اندر سمجھوتے کی دیمک وجود چاٹ جاتی ہے۔
پھر جب محبت ہی نہیں تو اس رشتے کی اصل کیا ہے؟۔۔۔اس رشتے کی بنیاد اپنی "انا " کو دفن کرنا ہے۔ جس پررفتہ رفتہ، دھیرے دھیرے احساس کی منزل تعمیر ہوتی ہے۔۔۔ ذمہ داریوں کے بوجھ تلے چھپی ننھی سی محبت کی کرن شایدکہیں بعد میں نمودار ہوتی ہے۔شادی شدہ زندگی دونوں اطراف سے برداشت کے کنکریٹ کی بےحس موٹی تہہ ہے کہ جس کے نیچے اگر باہمی اعتماد کا بیج موجود ہو تو کبھی نہ کبھی محبت کی کونپل اس تہہ کو پھاڑ کر اپنی چھب دکھلا ہی دیتی ہے۔ 
۔" روزی روٹی " کا اس رشتے کو رواں دواں رکھنے میں اہم کردار ہے۔عورت چاہے کتنی ہی خوب سیرت اور خوب صورت کیوں نہ ہو۔۔۔ قابلیت میں بھی مرد سے بڑھ کر ہو لیکن گھریلو ذمہ داریاں اوراہل خانہ کو اولیت دینا اُس کا فرضِ ہے۔ گھرعورت سے بنتا ہے اور اس کے لیے اپنی ذات اور اپنی خواہشات کی نفی کرنا پہلی شرط ہے۔ اسی طرح شوہر بھی لاکھ اپنی بیوی بچوں کا خیال رکھنے والا اور محبت کرنے والا ہو جب تک وہ ایک باعزت روزگار سے وابستہ نہیں ہو گا یا پھر اپنے گھر کا خرچ نہیں اُٹھائے گا ۔اُس کی محبت اُس کے خلوص کی اہمیت صفر ہی رہے گی۔
زندگی کے اس سفرمیں سمجھوتے کرنا عورت کے لیے جتنا آسان ہے مرد کے لیے نہیں کہ ایسا کرنا عورت کی مجبوری بھی ہے۔د وسری طرف مرد صرف اور صرف اپنی فطرت کی حاکمیت اور جبلت کے ہاتھوں مجبور ہے ۔بہت کم مرد  عورت کے سامنے اس احساس کو جھٹکنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔مرد کے پاس ہر فیصلے کا اختیار ہمیشہ رہتا ہے اور اختیار رکھتے ہوئے بھی اس کو استعمال نہ کرنا  ہی تو برداشت کا اصل امتحان ہے۔
ازدواجی زندگی کے اس بندھن میں سمجھوتوں کے حوالے سے مرد اورعورت کی کوئی تخصیص نہیں۔یہ احساس کی بات ہے جو مرد یا عورت اپنے طورپریکساں محسوس کرسکتے ہیں۔ دکھ صرف یہ ہے کہ یہ وہ لٹمس ٹیسٹ ہے جو دُنیا کی زندگی  میں معاشرتی حوالے سے کامیابی کی معراج ہےلیکن ہم میں سے اکثراس امتحان میں پورے نہیں اترتے۔ ہم اس رشتے کی سچائی اور بڑائی پر یقین رکھ کر بھی اس کے آگے سجدہ ریز ہونے کو اپنی انا اپنے علم کی شکست گردانتے ہیں۔ ہم سے بڑا نادان کون ہو گا جو بھلا یہ نہ جانے کہ شکست تو روزِاول کا پہلا سبق تھا جس پر ہم نے ایک نگاہِ غلط بھی نہ ڈالی۔اوراگر پہلا سبق ہی ازبرنہ ہو تو باقی اسباق کبھی سمجھ نہیں آتے۔
عورت بوتل میں بند جن کی مانند ہے اس کا ساتھی چاہے تو ساری عمراس کانچ کی بےقیمت بوتل کی کرامت جان کر اس سے فیض اٹھاتا رہےاور عقل کا اندھا بن جائے تو نہ صرف اس کی اہمیت کا علم کھو دے بلکہ اس سے بڑھ کر اپنے تحفظ کالباس اتار دے اب کوئی جس طرح چاہے برتے۔ اپنے آپ کو انسان سمجھتے ہوئے عورت کو اپنی طاقت کا احساس ہو جائے تو وہ بڑے سے بڑے طوفانوں کے رخ موڑ سکتی ہے۔دکھ کی بات یہ ہے کہ عورت انا اور تسکین کے جن کے فریب میں آ جاتی ہے اور کانچ کے گھر میں رہنا اپنی توہین سمجھتی ہے،یہ جانےبغیر کہ گھر ٹوٹنے سے کانچ کی کرچیاں اس کےہی پیر زخمی کرتی ہیں اور پھر ساری زندگی درد کی ٹیسیں سہنا پڑتی ہیں۔
واہ رے قدرت!  مرد کے کتنے روپ ہیں اور عورت کے اس سے بھی بڑھ کر لیکن گھر کے اندرعورت کا ایک ہی روپ ہے۔اور کامیاب عورت وہی ہے جو اس روپ کو دل وجان سے اپنا لے۔۔۔ چاہے اس کی چبھن رات کی تنہائی میں گہری نیند سے جگا کر کروٹیں بدلنے پرمجبورکر دے یا پھر دنیا فتح کر کے بھی ایک مرد کے سامنے سجدہ ریز ہونےاور ناقدری کے دکھ کو سات پردوں میں چھپانے کا حوصلہ عطا کرے۔

"سیٹل اور سیٹل منٹ"

سورۂ فرقان(25) آیت 2۔۔   وَخَلَقَ كُلَّ شَىْءٍ فَقَدَّرَهٝ تَقْدِيْـرًا ترجمہ۔ اور جس نے ہر شے کو پیدا کیا اور پھر اس کے لیے ایک اند...