سورۂ فرقان(25) آیت 2۔۔ وَخَلَقَ كُلَّ شَىْءٍ فَقَدَّرَهٝ تَقْدِيْـرًا
ترجمہ۔ اور جس نے ہر شے کو پیدا کیا اور پھر اس کے لیے ایک اندازہ مقرر فرما دیا۔
کیا مردکیا عورت ، ہماری دُنیا وی زندگی کی جدوجہد صرف اور صرف ایک لفظ "سیٹل " ہونے کے گِرد گھومتی ہے۔عمر کے ابتدائی ادوار میں تعلیم حاصل کرنے کے مشترکہ مقصد کے بعد لڑکا اور لڑکی کی معاشرتی ترجیحات یکدم دو الگ الگ زاویوں کی سمت پلٹ جاتی ہیں۔اولاد کے مستقبل کی منصوبہ بندی میں بعض اوقات یا اکثر اوقات ہی والدین کی خواہش یا معاشی دباؤ اہم کردار کے طور پر سامنے آتا ہے۔تعلیم کے حصول کے بعد لڑکے کی پہلی ترجیح اگر مستحکم روزگار ہے تو لڑکی یا پھر بطورِخاص اُس کے والدین کے لیے ایک مناسب رشتے کا حصول اہم ہے۔بچوں کی عمر کے کتنے برس ان دیکھے مستقبل کے ان کہےخدشات کی نذر ہو جاتے ہیں۔وقت اپنی چال چلتا ہے کبھی کوئی بہت بڑی رُکاوٹ یوں دور ہوتی ہے کہ گزری عمر کی مشقت اور ناآسودگی ریت پر لکھی تحریر کی طرح مٹ جاتی ہے۔ باقی رہ جاتی ہے تو صرف انسان کی جلد بازی اور کج فہمی کہ و ہ لاشعوری طور پر ہی سہی اللہ کے اختیار کو خود اپنی ذمہ داری سمجھنے لگ جاتا ہے۔
کہانی میں ایک نیا موڑ اس وقت آتا ہے جب بچے روز گار اور رشتوں کے حوالے سے "سیٹل" ہو جائیں تو پھر والدین کے "سیٹل" ہونے کا وقت آ جاتا ہے۔ قطع نظر اس بات کے کہ والدین خواہ کتنے ہی خودمختار کیوں نہ ہوں ،یہ آس پاس بکھری کہانیوں کا سبق ہے تو ہمارا معاشرتی المیہ بھی یہی ہے کہ ساری عمر بچوں کو "سیٹل" کرنے کی مالی اور ذہنی مشقت میں زندگی گزار کر پتہ چلتا ہے بچوں کی "سیٹل" زندگی میں اُن کی گنجائش قطعاً نہیں ہوتی۔ مایوسی یا ناقدری کی بات ہرگز نہیں یہ قدرت کا نظام ہے اس سے فرار ممکن نہیں۔۔زندگی کا ایک سفاک بلکہ اذیت ناک سچ یہ ہے کہ بیٹا ہو یا بیٹی صرف اس وقت ہی ماں باپ کا سہارا بنتے ہیں جب انہیں خود سہارے کی ضرورت ہو۔
سوفیصد سچی بات لکھی ہے ۔اللہ آپ کو صحت کے ساتھ سلامت رکھے۔
جواب دیںحذف کریںآمین۔ جزاک اللہ ۔ لفظ کہنے کا حوصلہ سننے والے کان سے ملتا ہے۔ جیتے رہیں ۔ نورین تبسم
حذف کریں