" پہلے رابطے سے پہلی ملاقات تک"
کل ہم نے ملنا ہے اور ان شااللہ ضرور ملنا ہے۔ کل بارش بھی ہے شاید۔ تین دن پہلے بات ہوئی لیکن گذشتہ تین روز سے یادوں اور باتوں کی ایسی جھڑی لگی ہے کہ رُکنے میں نہیں آ رہی۔سمجھ نہیں آتا کہ چند ساعتوں کی محدود رفاقت میں کہاں تک برسوں کا احاطہ ممکن ہو سکے گا۔ خیر جوبھی ہے اس طرح ملنا تہارے کہنے پر ہی ہے ورنہ میرے دل کے کسی گوشے میں مدہم پڑتی خواہش صرف ایک بار تمہاری آواز سننے تک محدود تھی۔سب سے پہلے تو اپنی بھرپور زندگی سے چند لمحے دینے کا شکریہ ،لیکن ایک شکریہ میرے لیے بھی کہ یہ وقت تم مجھے ہی نہیں بلکہ اپنے آپ کو بھی دو گی۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم اپنی زندگی خود نہیں جیتے۔ہمارے پاس اپنے آپ کے لیے وقت نہیں ہوتا،ہمارے رشتے ہماری زندگی کا رس نچوڑ لیتے ہیں ،ہمارا سارا وقت انہیں نبھاتے گذر جاتا ہے۔یہ گلے شکوے کی بات ہرگز نہیں ۔ہمارے اپنے،ہماری صحت،ہماری ہمت رب کا بہت بڑا انعام ہے۔اور ہاں یاد رکھنے کا شکریہ نہیں کہوں گی کہ تمہارے بےاختیار ملنے کی خواہش ہی تو میرا اپنی ذا ت پر وہ اعتماد تھا جو رشتوں کے ہجوم میں کہیں بہت پیچھے رہ گیا تھا۔
وہ خوشی جس کی تلاش میں ہم در در بھٹکتے چلے جاتے ہیں کبھی اچانک سے اس طور ملتی ہے کہ یقین ہی نہیں آتا۔ ہمارے برسوں پہلے کے دوست جن سے بات کر کے یا زندگی میں کم از کم ایک بار اُن سے مل کر زندگی کی گردش جیسے اپنا رُخ ہی بدل گئی ہو۔ اسکول کے وہ دوست جن کے ساتھ کئی سال تک روزانہ ایک جگہ اٹھنا بیٹھنا رہا ہو،وہ دوست جو یاد جزیرے میں ہر پل ساتھ تو رہتے تھے لیکن ہم انہیں برسوں سے دنیا کی " بتی" والی گلیوں میں خاموشی سے تلاش کرتے رہےاور جب ملے تو یوں کہ برسوں کی دوری پل میں سمٹ آئی ۔زندگی کی بھیڑ میں کھو کر دل کے آئینے میں ایک دھندلے عکس کی صورت انہوں نے آپ کو یاد رکھا ۔ برسوں کی دوری میں اجنبیت کا شائبہ تک نہ تھا ۔ اپنی تلاش پر ایک خوشگوار حیرت یوں بھی کہ زندگی کے محاذ پر الگ الگ سرگرم رہنے کے باوجود سوچ سفر میں اپنے دوست سے بہت کچھ قدرِمشترک ملا حالانکہ ایک ساتھ میٹرک کرنے کے بعد ہم دونوں کی زندگیوں کا سفر تین سو ساٹھ درجے کے زاویے پر تھا ۔گرچہ عمر کی طویل مسافت طے کرنے کے بعد آج اس لمحے اپنے اپنے کام اورر ترجیحات کے اعتبار سے الگ الگ مقام پر تھے۔ میں اگر سفر تمام ہونے کی چاپ سنتے بس ذرا دیر کو سستانے کی چاہ میں تھی تو تم نے تو ابھی پوری توانائی کے ساتھ نئی مسافتیں طے کرنا تھیں۔ تمہیں بہت کچھ یاد نہ تھا لیکن مجھے سب یاد تھا۔ جب اسکول میں الوداعی پارٹی پر طالبات کو اشعار کی صورت میں ٹائٹل دیا جاتا تھا ۔ تمہیں اکبر الہ آبادی کا یہ شعر ایک پرچی پر ملا تھا
تحفۂ شب برات تمہیں کیا دوں
جانِ من تم تو خود پٹاخا ہو
اور مجھے ملنے والاشعر کچھ یوں تھا ( اس کےشاعر کا نام نہیں ملا)
لبِ دریا شبِ مہتاب میں جب پھول کھلتے ہیں
ہمیں بےساختہ تیرا تبسم یاد آتا ہے
ایک اہم بات،ایک وضاحت
خوشی کا تعلق چیز سےہے اور سکون کا احساس سے۔ سو خوشی کو کسی انسان سے مشروط کبھی نہ کرو کہ پھر یہ توقع کا رشتہ بن جاتا ہے ۔ ہمیں کسی سے مل کر اگر خوشی ومسرت کا احساس ہو تو اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ ہم سے مل کر اُسے بھی کچھ ایسا ہی محسوس ہوا ہو۔ ہاں! پرانے دوست سے ملنا پل کی خوشی ضرور دیتا ہے لیکن صرف اُس لمحے جب بخت آپ پر اور اُس پر یکساں مہربان دِکھائی دے ورنہ ناآسودگی اور دُکھوں کی پوٹلیاں پرولتے سمے ایک نامعلوم سا بوجھ بھی روح میں اُتر جاتا ہے۔
حرفِ آخر
اس روز ملنے کے کچھ وقت بعد جب سوچا کہ کیا کھویا کیا پایا تو مدتوں بعد ملنے کی سرشاری اپنی جگہ لیکن اپنے آپ میں خِٖفّت بھی ہوئی کہ زندگی سے چرائے گئے ان قیمتی لمحات میں ہم یا شاید میں اپنی ذات سے ہٹ کر دوسروں کی بات کیوں کرتے رہے۔ وہ جو ہمارے قریب تو رہتے ہیں لیکن ہم انہیں دِکھتے نہیں ۔ وہ ہمیں دیکھتے تو ہیں لیکن ہمیں جانتے نہیں۔ شاید اس لیے کہ عمرمسافت میں ملنے والے یہ تمغے ہماری پہچان ہی نہیں بلکہ معاشرے میں ہمارے مقام کا بھی تعین کرتے ہیں۔یوں کہا جائے تو بےجا نہ ہو گا کہ زندگی کے ڈرامے میں کردار نگاری کرتے ہم وہ بونے ہیں جو تماشائیوں کی واہ واہ کے لیے دوسروں کے بل پر اپنا قد بلند کرنے کی سعی کرتے ہیں ۔