بدھ, جنوری 25, 2023

"خواب سے حسرت تک"

اس دنیا میں اربوں انسان ہیں ہر ایک دوسرے سے مختلف ۔اِسی طرح اُن کے خواب،خواہشیں اور حسرتیں بھی جُدا ٹھہریں ۔ ہم عام انسان ہیں اور ہماری عام سی خواہشات۔۔۔ زندگی کے میلے میں دوسروں کے لیے آسانیاں بہم پہنچانے کی سعی کرتے چُپکے سے اپنی پٹاری میں بھی اپنے خواب جمع کرتے جاتے ہیں اچھے وقتوں کے۔۔کبھی مہربان موسموں کے ۔۔

ایک وقت آتا ہے اور ان شاللہ ضرور آتا ہے جب ہمارے خواب حقیقت بن جاتے ہیں ،خواہش پوری ہو جاتی ہے،حسرت سیراب ہو جاتی ہے۔ کبھی تو یوں لگتا ہے کہ جیسے کوئی پلیٹ میں رکھ کر پیش کر رہا ہے لیکن اُس وقت ہم پر اپنے خواب ،اپنی خواہش اور اپنی طلب کی قدروقیمت بھی واضح ہو جاتی ہے۔وہ خواب جنہیں ہم تاعمر اپنی زندگی کی خوشی کی قیمت پر پالتے رہےاب قطعاً بےمعنی بلکہ لایعنی دِکھتے ہیں ۔زندگی کی شطرنج کا اصل مہرہ وقت ہے۔وہ جب اپنی چال چلتا ہے تو ہر شے کی اصلیت بیان کرتا ہے۔ہم اچھے وقت کے انتظار میں عمر گزار دیتے ہیں۔ہر کسی کے مقدر میں اچھا وقت نہیں آتا ۔لیکن یوں بھی ہوتا ہے کہ جن کے نصیب میں اچھاوقت آ جائے تو پھر پتہ چلتا ہے کہ اُن کا اپنا وقت تو ختم ہو گیا۔

زندگی کے رشتوں کی ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہونے کے بعد ہمارے خیال میں جب ہماری اپنی ذات کے لیے ہماری اپنی زندگی شروع ہوتی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ زندگی تو راستے میں ہی کہیں تمام ہوگئی تھی۔ہم اپنے سارے رنگوں کو اپنی پلکوں میں چھپائے خود سے وابستہ رشتوں کی تصویر میں رنگ بھرنے کی کوشش کرتے ہیں ،اُن کی مکمل تصویرکشی کے بعد جب خود پر نظر پڑتی ہے تو معلوم ہوتا ہےاپنے سارے رنگ تو عمر کے بڑھتے سالوں کی بارشوں میں مُٹھی میں دبی تتلی کی طرح بکھر گئے ،اب تو صرف دو رنگ بچے ہیں ، آگہی کا روشن سفید اور واپسی کا "بلیک ہول"۔ زندگی کی باگ دوڑ (جو پہلے بھی اپنے ہاتھ میں کہاں تھی بس یقین کا دھوکا تھا) اپنے ہاتھ سے نکل چُکی۔اب تو بس انتظار ہے نقارےکا ۔ویسے تو یہاں کسی کا نہیں پتہ ۔کہتے ہیں نا کہ آنے کی ترتیب ہے جانے کی نہیں ۔لیکن ایک جا نشینی اپنے بڑوں کی بھی ہےکہ اُن کے جانے کے بعد اب ہم اُن کی جگہ پر ہیں ۔۔ انسان بھی عجیب ہے کہ دنیا کے تخت کی جانشینی کے لیے بےتاب رہتا ہے اور واپسی کے تختے کی جانشینی کی سوچ کو بھی قریب نہیں آنے دیتا۔

عمر کے بڑھتے ادوار میں انسانی اہلیت اور حسرتِ زندگی کی کسی نامعلوم لکھاری نے کیا خوب منظرکشی کی ہے۔۔۔۔

چالیس  سال کی عمر میں زیادہ پڑھے لکھے اور کم پڑھے لکھے کا فرق ختم ہو جاتا ہے۔ بعض دفعہ تو کم تعلیم یافتہ افراد کہیں زیادہ پیسے کماتے ہیں۔

 پچاس سال کی عمر میں بدصورتی اور خوبصورتی کا فرق ختم ہو جاتا ہے۔ اپنے زمانے کے حسین ترین انسان کے چہرے پر بھی جھریاں نظر آنے لگتی ہے۔

ساٹھ سال کی عمر میں بڑے عہدے اور چھوٹے عہدے کی حیثیت ختم ہو جاتی ہے۔ سر پھرے بیوروکریٹ کو ریٹائرمنٹ کے بعد دفتر کا چپڑاسی چوکیدار بھی سلام نہیں کرتا۔

ستر سال کی عمر میں چھوٹے گھر اور بڑے گھر کا فرق ختم ہوجاتا ہے۔ گھٹنوں کی درد اور کمر کی تکلیف کی وجہ سے صرف بیٹھنے کی جگہ ہی تو چاہئیے۔

اسی سال کی عمر میں پیسے کی قدر و قیمت ختم ہوجاتی ہے۔ اگر اکاونٹ میں کروڑوں اور جیب میں لاکھوں روپے بھی ہوں تو کونسا سکھ خریدلو گے؟

نوے  سال کی عمر میں سونا اور جاگنا ایک برابر ہو جاتا ہے۔ جاگ کر بھی کیا تیر مار لو گے؟؟

 حرفِ آخر

 زندگی ہماری کبھی بھی نہیں ہوتی ۔ہم  فقط  اس کے ساتھ کے احساس میں  اسے گزار دیتے ہیں۔

"کرنیں(10)"

"جانا توبس یہ جانا کہ کچھ نہیں جانا"

کیا ہے دُنیا اور کتنی عجیب ہے اس کی زندگی۔دُنیا میں آنکھ کھلنے سے آنکھ بند ہونے کے بیچ کی اس کہانی میں ۔۔۔

٭ وقت مل جاتا ہے مہلت نہیں ملتی۔

٭ناموجود کے دُکھ میں موجود کو برباد نہ کرو۔

٭جو گرفت میں نہیں اُس کی یاد میں آج کے سکون کے لمحے قربان نہ کرو

٭ سکون کی چاہ ہے تو جو نہیں ملا اُسے بھول جاؤ اور جو ملا ہے اسے یاد رکھو۔

٭بچھڑنا حق ہے لیکن ڈوبتے سورج کا ایک پیغام یہ بھی ہے کہ میں کہیں اور سے طلوع ہو رہا ہوں۔

٭زندگی خواہ کتنا ہی محتاط ہو کر گزاری جائے موت ہمیشہ غیر محتاط رستے سے ہی آتی ہے۔

٭ اگر مستقبل میں کسی شے ،کسی تعلق، کسی خواہش، سے توقع نہ رکھو تو حال میں ملنے والا کچھ بھی ان چاہا دُکھ نہیں دیتا۔

٭ اُس خوشی سے بچو جس کے لیے تمہیں دوسروں کے سہارے کی ضرورت پڑے۔

٭انسانوں کی پہچان ہو یا زندگی کا کوئی اور معاملہ،ٹھوکر لگنے کے بعد پہلی غلطی صرف اور صرف ہماری ہوتی ہے ،اب خواہ وہ ان جانے میں ہو یا بہت سوچ سمجھ کر اُٹھایا گیا کوئی قدم۔سب سے اہم یہ ہے کہ جتنا جلد اس بات کا احساس ہوجائے اُتنی جلدی انسان کے سامنے آگے کا منظر واضح ہوتا ہے۔

٭ ہمارے قریب ہمارے ساتھ رہنے والے ہمارے اپنے اکثر ہم سے بہت دور ہوتے ہیں اور کبھی کوئی اپنا بہت دور ہو کر بھی بہت قریب محسوس ہوتا ہے۔سو قریب ہوتے ہوئے دور رہنے سے بہتر ہے کہ دور رہ کر پاس رہیں۔



 

اتوار, جولائی 31, 2022

"آدم ،اولادِ آدم اورجنت کہانی"

یکم محرم الحرام بمطابق 1444 ہجری
31 جولائی 2022 بروز اتوار
" جنت سے نکلنے میں یا تو غلطی ہوتی ہے یا پھر جنت نہیں" ۔
جنت کیا ہے ؟ ایک ایسی جگہ جہاں انسان کی تمام جسمانی ضروریات کی تکمیل بحسن وخوبی میسر ہو۔ ایک ایسا گوشہ جو مکمل ذہنی اور جسمانی سکون کا باعث ہو۔ بات گر حضرت آدم علیہ السلام کی سماوی جنت اور اُن کے نکالے جانےسے شروع ہوتی ہے تو آج کے دور میں انسان کی ارضی جنت کی تلاش تک جا پہنچتی ہے۔ یہ کہا جائے تو بےجا نہ ہو گا کہ جنت کی خواہش انسان کی جبلت اور فطرت میں ہمیشہ سے ہی ہے۔ مکمل تسکین کی یہ آرزو انسان کو بےقرار رکھتی ہے تو ہر لمحہ آگے سے آگے بڑھنےپر بھی اُکساتی ہے یہاں تک کہ وہ اپنی منزل مراد کے سنگِ میل چھو لیتا ہے لیکن انجام وہی جنت سے نکالے جانا۔ اپنی محنت سے حاصل کردہ جنت سے نکلنے یا نکالے جانے میں مرضی، اختیار یا ارادے کا کوئی لینا دینا نہیں ہوتا ۔ یہ زندگی کے تپتے صحرا میں سرابِِ نظر ثابت ہوتی ہے تو کبھی پل بھر کی لغزش سب خاک کر دیتی ہے۔
حرفِ آخر
اگر ہمیں اس دُنیا میں جنت نہیں ملی تو آخرت میں بھی نہیں ملے گی۔سب سے بڑی جنت "سکون" ہے ۔۔۔دل کا سکون اور دل کا سکون اللہ کے قرب کے احساس میں ہے۔



پیر, جنوری 24, 2022

"بچپن سےپچپن تک"

"بچپن سے پچپن تک"

پچیس جنوری ۔۔۔1967۔
پچیس جنوری۔۔۔2022۔

"جانا توبس یہ جانا کہ کچھ نہیں جانا"

بچپن اور پچپن کے بیچ لفظی طور پر دو "نقطوں" کا یہ فرق بچپن کی نادانی اور پچپن کی دانائی کا اُلٹ پھیر ہے یا پھر ہماری زندگی کے ادوار کو تین لفظوں میں سموتی ۔۔۔ بچہ،بڑا اور بوڑھا کی مثلث۔

بچپن کی نادانی سُنی سنائی بات ہی کہی جا سکتی ہے لیکن پچپن تک آتے آتے اور زندگی کے بےشمار اسباق ملتے ملتے یہ بات پتھر پر لکیر کی طرح ذہن پر ثبت ہو جاتی ہے کہ بچپن کی نادانی بڑوں کی محبتوں اور شفقتوں کے سائے تلے بادِصبا کے جھونکے کی طرح چھو کر گزر گئی لیکن پچپن کی دانائی صرف اور صرف اپنی ذات کے حوالے سے ہی سمجھی جائے تو بہتر ہے کہ اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہونے کے بعد دنیاوی رشتوں کی نظر میں عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ بڑوں میں عقل کی کمی ہونے لگتی ہے۔

بچپن میں بڑے ہاتھ تھام کر چلنا سکھاتے ہیں ۔زندگی کے ابتدائی اسباق ذہن کی کوری سلیٹ پرنقش کرتے ہیں تو پچپن میں چھوٹے ہاتھ جھٹک کر ہمارا اپنے آپ پر یقین بھی ختم کرنے کے درپے ہوتے ہیں۔اس سمے طویل سفرِزندگی کے ان منٹ اسباق ریت پر لکھی تحریر دِکھتے ہیں۔ عمرِرائیگاں کے احساس کی اذیت کو کم کرنے میں اصل کردار ذہنی برداشت کا ہے جو زندگی کے سکون اور بےسکونی کا تعین کرتی ہے۔ ذہنی برداشت ،اپنے آپ پر یقین ہی وہ اصل دانائی ہے جو انسان کو مایوسی سے بچاتی ہے۔

انسان سدا سے انسانوں کا اور انسانوں کے وسیلے سےبنے رشتوں کا محتاج رہا ہے۔ دنیا میں آنکھ کھولنے کے بعد "زندہ رہنے "کے لیے اُسے کسی تعلق کسی رشتے سے بےنیاز سہاروں کی ضرورت پڑتی ہے۔وقت گزرتا ہے یہاں تک کہ وہ خود کسی کو سہارا دینے،کسی کاسہارا بننےکے قابل ہو جاتا ہے۔ ۔پھر ایک وقت ایساآتا ہے کہ کسی رشتے کسی تعلق سے ہٹ کر اُسے زندگی گزارنے کے لیے سہاروں کی ضرورت پڑتی ہے۔ اب یہ سہارے اُسے خود تلاش کرنا پڑتے ہیں۔اس کے اپنے خونی رشتے کہیں پیچھے رہ جاتے ہیں اور اپنی دنیا میں مگن ہوجاتے ہیں۔جذباتی اور معاشرتی سہاروں کے بنیادی عوامل سے بڑھ کر مالی وسائل بہت اہمیت اختیار کر جاتے ہیں۔اپنی جسمانی و ذہنی صحت کا خیال رکھنے اور اس کے مسائل سے باخبر رہنے کے باوجود زندگی کے سفر میں عمر کے ہندسے بڑھنے کے ساتھ ہی جسمانی مشینری میں کمزوریاں نمایاں ہونے لگتی ہیں۔ انسان خواہ کتنا ہی صحت مند ،مال دار او ر سمجھ دار کیوں نہ ہو ، اُسے عمر میں پچاس سال کا سنگِ میل چھونے کے بعد جسم میں کہیں نہ کہیں دردوں،ساٹھ برس کے بعدبیماری کی علامات ، ستر برس کے بعد بیماری اور اُس کے اثرات اور اسی برس کے بعد کبھی بھی کسی بھی حادثے کے لیے ذہنی طور پر تیار رہنا چاہیے ۔

بات بچپن سے شروع ہو یا پچپن تک آ کر ختم کی جائے،یہ اہم نہیں ۔اہم یہ ہے کہ بچپن ہو یا پچپن ہم نے ذاتی طور پر زندگی سے کیا سیکھا۔ یہاں یہ بھی اہم نہیں کہ زندگی نے کیا سبق دیئےکہ زندگی تو ہر گھڑی ہر آن ہماری آخری سانس تک ایک نیا سبق سامنے رکھتی چلی جاتی ہے۔ اب یہ ہم پر ہے کہ ہم اس میں سے کتنا ذہن نشیں کرتے ہیں ؟ کتنا ازبر ہوتا ہے ؟ اور اس پر کس حد تک عمل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟۔



اتوار, جنوری 23, 2022

" لاہور آوارگی"

"لاہور آوارگی"
اشاعت جنوری 2017

کسان اینڈ کمپنی پر بیٹھ کر میں نے کاروبار تو کیا کرنا تھا آوارگی کتابیں فلمیں خواب اور سراب میرا عشق تھے۔۔۔۔میں لکھنے میں مگن ہو گیا میں نے اپنے مقبول ترین کتابیں اسی دکان کے کاؤنٹر پر بیٹھ کر لکھیں۔۔۔گوالمنڈی کے شور خوانچہ فروشوں کی پکاروں اور شدید گرمیوں برستی برسات اور موسم سرما کی ٹھٹھرتی شاموں میں ۔۔۔"نکلے تیری تلاش میں" " اندلس میں اجنبی " "خانہ بدوش" "فاختہ" "پکھیرو " "پیار کا پہلا شہر " کے ابتدائی باب۔؎

۔۔۔۔

صفحہ 188۔189

لاہور میں ہمارا پہلا گھر ریلوے سٹیشن اور گڑھی شاہو کی قربت میں ،،بوڑھ والا چوک ،،یعنی برگد والے چوک کے پہلو میں تھا۔وہ ایک محلہ تھا جس میں داخل ہونے کا ایک بوسیدہ دروازہ تھا جو سر شام بند ہو جاتا تھا،دو کولونیل طرز کے پرانے کمرے اور ایک صحن۔۔۔۔۔اس گھر کی یادیں کہاں ہو گی کہ میں ایک رینگتا ہوا گول مٹول سیاہ رنگت کا موٹی موٹی آنکھوں والا ایک فضول اور بدھو سا بچہ تھا۔

جو کچھ میری یاداشت میں ہے ،وہ ابا جی اور امی جان کی کہاوتیں ہیں۔
میری امی جان جو ان دنوں ایک ٹین ایجر بالڑی سی لڑکی تھیں۔ صحن میں آٹا گوندھ رہی ہیں اور میں ان کے آس پاس،،غاں غاں،،کرتا گھٹنوں کے بل رینگتا صحن کی سیاحت کرتا ہوں اور پھر ان کی بے خبری میں ایک کمرے میں چلا جاتا ہوں ۔
سرخ اینٹوں کے فرش پر کچھ سرخ رنگ کی گولیاں پڑی ہیں جنہیں اٹھا کر میں نہایت رغبت سے نگل لیتا ہوں۔
یہ چوہے مار گولیاں ہیں جو ان دنوں چوہوں کو تلف کرنے کے لیے استعمال ہوا کرتی تھیں۔ گولیاں نگل کر میں فورا اوندھا ہو جاتا ہوں۔
میری امی جب آٹا گوندھتی اس پاس نظر کرتی ہیں تو میں صحن میں نہیں ہوں ۔ ،وہ باؤلی ہو کر مجھے تلاش کرتی ہیں اور میں فرش پر ایک مردہ لال بیگ کی مانند اوندھا پڑا ہوں اور میری باچھوں میں سے جھاگ کے بلبلے پھوٹ رہے ہیں۔ گڑھی شاہو کے ڈاکٹر معائنہ کر کے کہتے ہیں کہ یہ بچہ تو گیا۔ چوہوں کا زہر اثر کر گیا ۔۔۔۔۔تب مجھے ایک قے ہوتی ہے اور میں یکدم ہوش میں آکر ،،باں باں، کرتا رینگنے لگتا ہوں اور یہ معجزہ اس لیے رونما ہوا کہ امی نے آٹا گوندھنے سے بیشتر مجھے گرائپ واٹر کے دو چمچے پلائے تھے۔ جن کی وجہ سے مجھے قے ہوئی اور میں ،،باں باں،، کرنے لگا۔۔مجھے بہرطور اتنا یاد ہے کہ گرائپ واٹر کی بوتل پر چسپاں لیبل پر ایک موٹو سا بچہ ایک سانپ کو گرفت میں لیے بیٹھا ہے اور اس میں سونف کی مہک تھی۔
۔۔۔۔۔
صفحہ 190۔۔۔
چیمبر لین روڈ کے اس گھر میں میری منجھلی ہمشیرہ شاہدہ،ایک چار برس کی موٹی بچی ،گھنٹی بجنے پر ڈوڑتی ہوئی لکڑی کی گیلری کی جانب لپکی کہ نیچے کون ہے تو گیلری پر امڈتی ہوئی نیچے بازار میں واقع سبزی کی دوکان میں گاجروں اور گوبھی کے پھولوں پر جا گری۔
اس کی ناک بہت ستواں تھی،اس کریش لیڈنگ کی وجہ سے وہ ہمیشہ کے لیے ،،پھینی ،،ہو گئ سب مذاق کرتے کہ گاجریں کھانے کے لیے اس نے گیلری سے بازار میں چھلانگ لگا دی تھی۔بہرطور وہ مرتے مرتے بچی۔
ہم چھ بہن بھائی تھے تین بھائی تین بہنیں اور ہم سب کو مرنے کا بہت شوق تھا۔
میں اپنا قصہ بیان کر چکا ہوں کہ میں نے چوہوں کا زہر کھا لیا اور اوندھا ہو گیا ،مجھ سے چھوٹا بھائی زبیر کھڑکی میں سے لٹک کر گڈی اڑا رہا تھا کہ نیچے گلی میں جا گرا ،لوگوں نے سمجھا کہ مر گیا۔ہسپتال لے گئے تو وہ ہوش میں آگیا ،البتہ ایک ٹانگ ٹوٹ گئ ۔سب سے چھوٹا بھائی مبشر صرف چھ ماہ کا تھا اور پروین کی گود میں تھا کہ ایک اور بچی نے طیش میں آکر اسے پروین سے چھینا اور زمین پر پٹخ دیا، موصوف بھی لگتا تھا رحلت فرما گئے ہیں لیکن بچ گئے البتہ ہسپتال میں ٹانگے رہے کہ ان کی بھی ایک ٹانگ ٹوٹ گئ ۔۔۔۔۔
پروین اپنی سہیلیوں کے ساتھ چھت پر آنکھوں پر پٹی باندھ کر چھپن چھپائی کھیل رہی تھی۔ چھت کی منڈیر مختصر تھی۔ چلتی ہوئی آئی اور دھڑام سے نیچے صحن میں آ گری ۔۔۔۔۔ کپڑے جھاڑ کر اٹھ بیٹھی اور خوفزدہ سہیلیوں سے کہنے لگی ،،میری امی کو نہ بتانا کہ میں گر گئی تھی،،
اب رہ گئی سب سے چھوٹی ہمشیرہ شائستہ۔۔۔۔وہ شاید دو برس کی تھی جب اسے تیز بخار ہوا ۔۔۔۔مجھے یاد ہے اسے ایک پیڑھی پر لٹایا ہوا تھا وہ اتنی چھوٹی سی تھی ،ابھی وہ بھلی چنگی کلکاریاں مار رہی تھی کہ یکدم ساکت ہو گئی اور آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔۔۔۔۔امی جان نے بین کرنے شروع کر دئیے کہ ہائے میری پیاری دھی رانی اور میں بھی اپنی ہمشیرہ کی موت کے غم میں رونے لگا ۔ خالو عزیز احمد میری امی کی ڈھارس بندھانے لگے کہ چپ کر نواب بیگم ،اللہ کی مرضی ۔۔۔۔۔صبر کر۔۔۔ اور اس دوران وہ شائستہ کی کھلی آنکھیں بند کرنے لگے ۔۔۔پر وہ بند نہ ہوتی تھیں،کھلی رہتی تھیں۔
ڈاکٹر خان فورا ًآئے اور اسے دو چار جھانپڑ رسید کیے ایک ٹیکہ لگایا تو وہ زندہ ہوگئی
میں بھی اسی خاندانی خصلت کے تابع پچھلے دنوں دو تین بار پار چلا گیا اور پھر لوٹ آیا۔۔۔
چنانچہ ہم سب بہن بھائیوں کو مرنے کا بہت شوق تھا ،
اور یہ زبیر تھا جو سچ مچ جگر کے سرطان کا شکار ہو کر چلا گیا ۔۔۔۔۔۔ لوٹ کر نہ آیا ،چلا ہی گیا
۔۔۔۔۔۔۔




"مستنصرحسین تارڑ۔۔۔۔ میرے بلاگز کے آئینے میں"

مستنصر حسین تارڑ

تاریخ پیدائش. یکم مارچ 1939ء لاہور.
پہلی تحریر." لنڈن سے ماسکو تک " ہفت روزہ " قندیل " 1959ء
پہلی کتاب. " نکلے تیری تلاش میں " سفر نامہ
پہلا ٹیلیویژن ڈرامہ بطور اداکار. "پرانی باتیں " 1967ء
پہلا ٹیلیویژن ڈرامہ بطور مصنف. "آدھی رات کا سورج " 1974ء     
۔۔بحوالہ بیک ٹائٹل" کے ٹو کہانی " ایڈیشن 1994ء ۔ 

۔۔۔۔۔۔ 

جناب مستنصرحسین تارڑ کے حوالے سے میرے تمام تر بلاگز کے نام بمعہ اُن کے لنک درج ذیل ہیں ۔جن میں میری ذاتی تحاریر ،اُن پر لکھی گئی تحاریر،اُن کی تحاریر،اور اُن کی کُتب پڑھتے ہوئےمیرا احساس اور اُن میں سے اقتباسات شامل ہیں۔


جمعرات,  30اکتوبر, 2014
۔۔۔۔۔

 ہفتہ 22 نومبر 2014
۔۔۔۔۔
جمعرات 25 دسمبر 2014
۔۔۔
جمعہ 26 دسمبر 2014
۔۔۔۔۔
جمعہ 26 دسمبر 2014
۔۔۔۔۔
جمعہ 27 فروری 2015
۔۔۔۔
اتوار یکم  مارچ 2015
۔۔۔۔
پیر 30 مارچ 2015
۔۔۔۔
منگل 31 مارچ 2015
۔۔۔۔
منگل 21  اپریل  2015
۔۔۔۔

 منگل 21 اپریل 2015
۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بشکریہ ایکسپریس اردو
اتوار 2 اگست 2015
نامورادیبوں کی کتاب سے جڑی ان مٹ یادوں کا بیان ۔
۔۔۔۔
۔ جمعہ 28 اگست 2015
۔۔۔۔۔

جمعرات 17ستمبر 2015
۔۔۔۔۔
بدھ 4 نومبر 2015
۔۔۔۔
بدھ 9 دسمبر 2015
۔۔۔۔
 جمعہ یکم جنوری 2016
۔۔۔۔
پیر 24 اکتوبر 2016
۔۔۔۔۔
 منگل 25 اکتوبر 2016
۔۔۔۔
ہفتہ 24 دسمبر 2016
سفرِِحراموش  جولائی2016 از مستنصرحسین تارڑ

( روزنامہ نئی بات میں چھپنے والے کالم)
۔۔۔۔
 ہفتہ 7 جنوری 2017 
۔۔۔۔
منگل 7 فروری 2017
۔۔۔۔

بدھ 15 فروری 2017
۔۔۔۔۔
یکم مارچ 2018
۔۔۔۔
جمعرات 5 اپریل 2018
۔۔۔۔۔
پیر 31 اگست 2020
۔۔۔۔
پیر 13ستمبر 2021
۔۔۔۔۔
اتوار 23 جنوری 2022
اتوار 23 جنوری 2022
۔۔۔۔۔



 

جمعرات, جنوری 20, 2022

" بُنت "


"بچے کچے خوابوں سے نئے رنگوں کے تحفے بُننا مجھے اچھا لگتا ہے۔"

لفظ اور رنگ میرے ہاتھوں کے لمس سے
جب پگھلتے ہیں
میں ان کو تصویر کرتی ہوں
نئی اِک تحریر لکھتی ہوں
جو کائنات میں صرف میری ہوتی ہے

اپنے وجود پر میرا      یقین ہوتی ہے 

"خواب سے حسرت تک"

اس دنیا میں اربوں انسان ہیں ہر ایک دوسرے سے مختلف ۔اِسی طرح اُن کے خواب،خواہشیں اور حسرتیں بھی جُدا ٹھہریں ۔ ہم عام انسان ہیں اور ہماری...