اتوار, مارچ 23, 2025

"ایک زرداری سب پہ بھاری"

گو ہاتھ کو جُنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے

رہنے دو ابھی ساغرومینا مِرے آگے

آنکھوں دیکھی حقیقت کو جھٹلایا نہیں جاسکتا۔8ستمبر 2013 کو  جس سفر کا  تزک و احتشام  کے ساتھ اختتام ہوا تھا،عین  دس برس بعد اسی طور آغاز ہوا اور تاحال(23 مارچ2024) پورے زوروشور سے جاری ہے۔اب کوئی  سوشل میڈیا کا ڈھول پیٹے یا کسی بھی صاحب اقتدارکی بینڈ بجا دے،جو "بینڈ باجا بارات" کا سماں وقت کے بہترین اور اعلیٰ ترین نیلام گھر میں دیکھتی آنکھوں نے دیکھا اور سنتے کانوں نے  سماعت  کیا،بےشک وہ سورہ آلِ عمران (3)کی 26 ویں آیت کی مکمل تفسیر تھا۔

آیت 26 ،ترجمہ

تو کہہ اے اللہ، بادشاہی کے مالک! جسے تو چاہتا ہے سلطنت دیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے سلطنت چھین لیتا ہے، جسے تو چاہتا ہے عزت دیتا ہے جسے تو چاہے ذلیل کرتا ہے، سب خوبی تیرے ہاتھ میں ہے، بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے۔

پھر ہم کون ہوتے ہیں صحیح غلط کے فتوے دینے والے۔ ہم اپنی محدود عقلی صلاحیت سے رب کے کام اور اُس کی حکمت کبھی سمجھ ہی نہیں سکتے۔

لوگوں کے دلوں سے لے کر ان کی قسمتو ں کا فیصلہ کرتے اقتدار کی زندگی گزارنے کا ڈھنگ صرف اور  صرف دماغ کا کھیل ہے۔ ویسے تو  دنیا کی زندگی میں ہر ہر مقام  اور  ہر ہر  محاذ پر  کامیابی بہترین منصوبہ بندی کے بغير ممکن نہیں لیکن کچھ لوگ قسمت کے دھنی ہوتے ہیں کہ  مٹی میں ہاتھ ڈالیں سونا بن جائے   تو کچھ  جہاں سونے کا نوَالہ لے کر پیدا ہوتے ہیں وہیں اس کی لذت اُن کے جینز میں  ایسی منتقل  ہوتی ہے کہ  اس  خمار آلود کیفیت میں  نسلیں گزرتی چلی جاتی ہیں۔ کچھ  ایسے بھی، مقناطیسی شخصیت کے مالک کہ  کیا جنس کا لوہ چون ،ہوا میں موجود دوسرے مادوں سے بنے ذرات بھی ایک عالم بےخودی میں کھنچے چلے آئیں۔جگ میں نام مقام حاصل کرتے ہیں۔سورج کی روشنی کی طرح بلا تخصیص ،کیا اپنا کیا پرایا، کیا دوست کیا دشمن  سب کو اپنےحصار میں لے کر دم بخود کرنے کی صلاحیت کے حامل۔بجا کہ یہ  خوش قسمت ترین ہونے کے زمرے میں تو آتے ہیں لیکن ان کی اپنی ذاتی محنت اور خداداد صلاحیت سے بھی انکار نہیں۔ کیا کہا جائے کہ قسمت کے اُلٹ پھیر یا زندگی کے اُتار چڑھاؤ میں یہ چڑھتا سورج ہی ثابت ہوتے ہیں۔ جس طرح کائناتِ دنیا  میں یکتا  سورج کتنا ہی ضروری  کتنا ہی روشن کیوں نہ  ہو اس کی قسمت میں ڈھلنا اٹل ہے۔ اسی طور وقت کا بےرحم پہیا جب گردش میں آتا ہے تو جانے ان جانے کےبےضرر ذاتی طور طریقوں، احبابِ اور لباس کے چناؤ میں لمحوں کی معمولی غلطیاں بسا اوقات خلقت کے سامنے یوں برہنہ کر دیتی ہیں کہ اپنے گریبان میں جھانکنے کاحوصلہ بھی نہیں رہتا، خواہ ساری دنیا ساتھ ہو، ساتھ رہنے کے نعرے اور  وعدے ہی کیوں نہ کر رہی ہولیکن  تخت سے تختہ  تک کے سفر میں سورج سمان وہ تنہا شخص  آگے کنواں پیچھے کھائی کے مصداق وقت کے رحم و کرم کا منتظر ہی رہتا ہے۔

منسلک بلاگ۔۔

"٭1)"بےنظیر، واہ زرداری، آہ زرداری

اشاعت ۔پیر, 8ستمبر , 2013

٭2) "نظر لگ گئی"۔

اشاعت۔۔بدھ 8 مئی۔2013

حرف آخر

   حاکمیت کا یہ  میوزیکل کھیل  برسوں سے جاری ہے. ہم بےنام عام عوام اس تماشائے اقتدار کا ایندھن  ہی کیوں نہ ہوں لیکن تماشائی  ہونے کا شرف  ہم سے  کوئی بھی نہیں چھین  سکتا۔کس کی ہار اور  کس کی جیت  سب تاریخ کے اوراق  میں ثبت ہے۔ہم بحیثیت قوم اگر ہارتے بھی جا رہے ہیں تو جیتے وہ بھی نہیں۔

سقوط پاکستان (1971)کے پس منظر میں جناب احمدفراز کی لکھی نظم آج تقریباً 55 برس بعد بھی ہمارے حسبِ حال ہے۔

"اب کس کا جشن مناتے ہو از احمد فراز" اب کس کا جشن مناتے ہو، اس دیس کا جو تقسیم ہوا اب کس کے گیت سناتے ہو، اس تن من کا جو دونیم ہوا اس خواب کا جو ریزہ ریزہ ان آنکھوں کی تقدیر ہوا اس نام کا جو ٹکڑا ٹکڑا گلیوں میں بے توقیر ہوا اس پرچم کا جس کی حرمت بازاروں میں نیلام ہوئی اس مٹی کا جس کی حرمت منسوب عدو کے نام ہوئی اس جنگ کو جو تم ہار چکے، اس رسم کا جو جاری بھی نہیں اس زخم کا جو سینے پہ نہ تھا، اس جان کا جو واری بھی نہیں اس خون کا جو بدقسمت تھا راہوں میں بہا یا تن میں رہا اس پھول کا جو بے قیمت تھا، آنگن میں کھلا یا بن میں رہا اس مشرق کا جس کو تم نے نیزے کی انی، مرہم سمجھا اس مغرب کا جس کو تم نے جتنا بھی لوٹا، کم سمجھا ان معصوموں کا جن کے لہو سے تم نے فروزاں راتیں کیں یا ان مظلوموں کا جس سے خنجر کی زباں میں باتیں کیں اس مریم کا جس کی عفت لٹتی ہے بھرے بازاروں میں اس عیسیٰ کا جو قاتل ہے اور شامل ہے غم خواروں میں ان نوحہ گروں کا جس نے ہمیں خود قتل کیا خود روتے ہیں ایسے بھی کہیں دم ساز ہوئے، ایسے جلاد بھی ہوتے ہیں ان بھوکے ننگے ڈھانچوں کا جو رقص سر بازار کریں یا ان ظالم قزاقوں کا جو بھیس بدل کر وار کریں یا ان جھوٹے اقراروں کا جو آج تلک ایفا نہ ہوئے یا ان بے بس لاچاروں کا جو اور بھی دکھ کا نشانہ ہوئے اس شاہی کا جو دست بدست آئی ہے تمہارے حصے میں کیوں ننگ وطن کی بات کرو، کیا رکھا ہے اس قصے میں آنکھوں میں چھپائے اشکوں کو، ہونٹوں میں وفا کے بول لیے اس جشن میں میں بھی شامل ہوں نوحوں سے بھرا کشکول لیے

اتوار, اکتوبر 06, 2024

"کتبہ"

"کتبہ"
جس طورانسانوں کی دنیا اور انسانوں کے ہجوم میں ہر آن اضافہ ہو رہا ہے تو اس طرح قبرستان بھی تیزی سے آبادہو رہے ہیں۔ گھر پر لگی تختی اگر مالکِ مکان کی شناخت ہے تو کتبہ یا لوح صاحبِ ِ قبر کی نشاندہی کرتے ہیں۔یہ سادہ سی بات اتنی سادہ ہرگز نہیں۔ گھرپر لگی تحتی مالکِ مکان کی حیثیت ( اسٹیٹس) کی ترجمان ہوتی ہے اور بعض اوقات تو کیا اکثراوقات اسے غیرمحسوس طور پر انسان کی زندگی کمائی کا حاصل اور فخر بھی کہا جا سکتا ہے ۔
لیکن دنیا کے منظر سے ہمیشہ کے لیے غائب ہونے کے بعد ملکیت کی علم بردار اس تختی اور قبر کے سرہانے لگے کتبے میں کوئی فرق باقی نہیں رہ جاتا۔غور کیا جائے تو روشنیوں سے آباد پکے گھر کی بیرونی دیوار پر لگی اس تختی کے بین روح جھنجھوڑ دیتے ہیں کہ "ہاں یہ وہی"معدوم" ہے جو کسی قبرستان کے دوردراز ویرانے میں مٹی کے مدفن میں "موجود" ہے۔ہم سانس لیتے انسان اپنی موت تو یاد رکھتے ہیں،قبر کے بارے میں بھی سوچتے ہیں لیکن کبھی اپنے اس کتبے کے بارے میں خواب تو خیال میں بھی نہیں سوچتے ۔ وہ کتبہ جس پر فقط ہمارا نام یا ہمارے لواحقین کی محبت وعقیدت اور اُن کا فہم ہی کنندہ ہو گا۔
کتبہ خواہ کسی ویران کھنڈر ہوتی قبر پر لگا ہو یا سجی سجائی قبر کا تاج، نامور شخصیات کی "آخری آرام گاہ" کا ثبوت دے یا گمنام انسان کو "نام" کی تکریم دے۔ہمیشہ باعثِ عبرت ،حسرت اور روح میں اُترنے والے سناٹے کو جنم دیتا ہے۔قصہ مختصر کتبہ انسان کی دنیا کہانی کی کتاب کا وہ آخری صفحہ ہے جس کے متن سے وہ خود لاعلم رہتا ہے۔

بلاگ مراقبۂ موت " سے اقتباس۔۔"

٭دور دور تک پھیلی قطاردرقطار قبروں میں رہنے والے زبانِ حال سے داستانِ زندگی کہتے تھے تو اُن کے سرہانے لگی تختیاں اپنوں کی محبت یا ان کی بےحسی کا نوحہ سناتی تھیں۔

٭ قبرستان میں قدم رکھتے ہی جہاں  وسعتِ نگاہ تک  قبور  کی دُنیا دِکھائی دیتی ہے  وہیں ان کے سرہانے لگے کتبے  اہلِ قبر کی زندگی کہانی سناتے  اور سوچ کے در کھولتے ہیں۔ کتبے کوکسی قبر کا  ایک روایتی تعارف  کہا جا سکتا ہے۔لیکن   نام ہی کی طرح  یہ وہ شناخت ہے جوہمارے   قرابت دار اپنے فہم اور  احساس کے  تحت ہی  طے کرتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں   ہمارا نام اگر  دنیا میں آمد کی  نوید  ہے تو ہمارا کتبہ ہمارے جانے  پر مہر ثبت کرتا ہے اور ہر دو کے رکھنے اور متن سے ہمارا دور کا بھی واسطہ نہیں۔ جب ہم زندگی کتاب کے استعارے سے بات کریں  تو کتبے کو اس کے آخری باب "موت" کا انتساب کہا جا سکتا ہے ایسا انتساب جس  کے   رکھنے  کا صاحبِ کتاب سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا ۔ 
٭ میں اہم تھا یہی وہم تھا۔
٭ آج زمین کے اوپر کل زمین کے نیچے۔
٭ کہانی ختم زندگی شروع۔
٭ عمر  کٹ ہی گئی۔
٭ زندگی خاک ہی تو تھی  سو خاک اُڑاتے گذری۔
 ٭بس یہی تو منزل تھی۔
٭ آج ہماری کل تمہاری
٭آج یہاں کل وہاں
 ٭اگر اور یقیناً کے بیچ کی کہانی
حرف آخر
صفحہ 275۔۔۔مرنے والوں کو کچھ فرق نہیں پڑتا کہ اُن کی قبر پر ایک تاج محل تعمیر ہوتا ہے۔۔۔یا وہ بارشوں میں دھنس کر ایک گڑھا بن جاتی ہےاور اُس میں کیڑے مکوڑے رینگتے ہیں اور یا اُس سے ٹیک لگا کر سائیں لوگ چرس کے سُوٹے لگاتے ہیں۔ بس یہ ہے کہ ییچھے رہ جانے والوں کو فرق پڑتا ہے۔ 

منسلک بلاگ۔انتساب سے کتبے تک

منسلک بلاگ ۔ منہ دِکھائی سے منہ دیکھنے تک


 

منگل, اکتوبر 01, 2024

" پیش لفظ ۔۔ جنگل کچھ کہتے ہیں "

"   پیش لفظ" ۔۔۔"جنگل کچھ کہتے  ہیں "

    منیرہ قریشی اور واہ کینٹ لازم وملزوم ہیں۔پینتیس برس پہلے ایک تعلیمی ادارے کی بنیاد رکھی جو اب ایک شجرِسایہ دار کی صورت نونہالِ وطن کی آبیاری میں سرگرم ِعمل ہے۔تعلیم کے فروغ کی کامیاب عملی کوشش کے بعد محترمہ منیرہ قریشی اب ایک لکھاری کے طور پر سامنے آئی ہیں۔اپنے تجربات،مشاہدات اور احساسات کو لفظوں  میں پرو کر کتابوں کی رنگارنگ مالا  ترتیب دی ہے۔

خودنوشت "یادوں کی تتلیاں" اگر جسم وجاں پر بیتے  حالات و واقعات کے موسموں کی کتھا ہے  تو "سلسلہ ہائے سفر" دیارِغیرکی فضاؤں میں حیرت وانبساط کے در کھولتے  تاثرات   کی   سرگوشیاں ہیں ۔

انشائیے "اِک پرِخیال"  اگر کھلی آنکھ سے دیکھے گئے معاشرتی مسائل پر خودکلامی ہے تو  "لمحے نے کہا" شاعری کی زبان میں اپنے جذبات کا اظہار ہے۔

نئی آنے والی کتاب" جنگل کچھ کہتے ہیں"لفظوں کے اس رنگارنگ گلدستے میں  ایک خوب صورت اضافہ ہے۔یہ اپنی نوعیت کا  ایک طویل مکالمہ ہے، شناسائی کا سلسلہ ہے جو نصف صدی    سے زائد کئی عشروں پر محيط ہے۔جیسا کہ       نام سے ظاہر ہے  یہ دوبدو بات چیت کی ایسی انوکھی داستان ہے کہ  قاری  خودبخود  اس   گفتگو میں شامل ہو جاتا ہے۔

اہم بات یہ  "جنگل کچھ کہتے ہیں "تخیل  کی انتہا پر جا کر دیوانہ وار رقص کرنے کا نام نہیں بلکہ اس میں  درختوں ، جنگلوں کےحوالے سے  نہ صرف ہمارے وطن بلکہ  باہر کے ممالک  کے  بہت سے ایسے دل سوز تاریخی واقعات  و سانحات  کا ذکر ہے جن کو  پڑھ کر قاری لمحے بھر کو دکھ اور تاسف کےجنگل میں بھٹک جاتا ہے تو  اگلے پل امید کی کرن اسے نئے  راستوں کی چھب دکھلا دیتی  ہے۔

جنگل کچھ کہتے ہیں بطور خاص رپورتاژ نہیں بلکہ فاضل  مصنفہ کےذہنی اور جسمانی سفر کا اپنی طرز کا ایک  منفرد سفرنامہ   ہے.  جس میں بچپن کی معصومیت دِکھتی ہے تو کبھی  لڑکپن کی حیرانی دم بخود کر دیتی ہے۔نوجوانی کی جذباتیت قدم روکتی ہے تو  ادھیڑ عمر کی تنقیدی نگاہ کہانیاں کہتی ہے۔کہیں کہیں گزرتی عمر کی چاپ سنتے ماضی اور حال کے تضادات اُداس بھی  کرتے ہیں۔تخيل  اور حقائق کے خوب صورت امتزاج سے گندھے لفظوں کی یہ مہک قاری کو   آخر تک اپنی گرفت میں لیے رکھتی ہے۔

 منیرہ قریشی  کی تمام تحاریر اُن کے بلاگ " خانہ بدوش" پر پڑھی جا سکتی ہیں۔

munirazafer.blogspot.com

  محترمہ پروین شاکر کا شعر آپ کے ادبی سفر  کے نام

خوشبو بتا رہی ہے کہ وہ راستے میں ہے 

موج ہوا کے ہاتھ میں اس کا سراغ  ہے

      نورین تبسم

اُردو بلاگر "کائناتِ تخیل"

noureennoor.blogspot.com 

یکم اکتوبر  2024

اسلام آباد

جمعہ, اگست 09, 2024

" بیالیس برس بعد "

"  پہلے رابطے سے پہلی ملاقات تک"

 کل ہم نے ملنا ہے اور ان شااللہ ضرور ملنا ہے۔ کل بارش بھی ہے شاید۔ تین  دن  پہلے  بات ہوئی لیکن گذشتہ تین روز سے یادوں اور باتوں کی ایسی  جھڑی  لگی ہے کہ رُکنے میں نہیں آ رہی۔سمجھ نہیں آتا کہ چند  ساعتوں کی محدود رفاقت میں    کہاں تک   برسوں کا احاطہ ممکن ہو سکے گا۔ خیر جوبھی ہے اس طرح ملنا  تہارے  کہنے  پر ہی ہے  ورنہ میرے دل کے  کسی گوشے میں  مدہم پڑتی خواہش  صرف ایک بار  تمہاری آواز سننے  تک محدود تھی۔سب سے پہلے تو  اپنی بھرپور زندگی  سے چند لمحے دینے کا شکریہ  ،لیکن ایک شکریہ میرے لیے بھی کہ یہ وقت تم مجھے ہی نہیں بلکہ اپنے آپ کو بھی دو گی۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم اپنی زندگی  خود نہیں جیتے۔ہمارے  پاس اپنے آپ کے لیے وقت نہیں ہوتا،ہمارے رشتے ہماری  زندگی کا رس نچوڑ لیتے ہیں ،ہمارا سارا وقت انہیں نبھاتے گذر جاتا ہے۔یہ گلے شکوے کی بات ہرگز  نہیں ۔ہمارے  اپنے،ہماری صحت،ہماری ہمت رب کا بہت بڑا انعام ہے۔اور ہاں  یاد رکھنے کا شکریہ نہیں کہوں گی کہ  تمہارے بےاختیار ملنے کی خواہش   ہی تو میرا اپنی ذا ت پر وہ اعتماد تھا  جو رشتوں کے ہجوم میں کہیں بہت پیچھے رہ گیا تھا۔

وہ  خوشی  جس کی  تلاش میں ہم در در بھٹکتے  چلے جاتے ہیں  کبھی  اچانک سے  اس طور ملتی ہے کہ یقین ہی نہیں آتا۔ ہمارے برسوں پہلے کے دوست جن سے بات کر کے یا زندگی میں کم از کم ایک بار اُن سے مل کر زندگی کی گردش جیسے اپنا رُخ  ہی بدل گئی ہو۔   اسکول کے وہ دوست جن  کے ساتھ   کئی سال تک روزانہ   ایک جگہ اٹھنا بیٹھنا رہا ہو،وہ دوست جو یاد جزیرے میں     ہر پل ساتھ  تو رہتے تھے  لیکن ہم انہیں برسوں  سے  دنیا کی " بتی" والی گلیوں میں  خاموشی سے تلاش کرتے رہےاور جب ملے  تو یوں کہ برسوں کی دوری پل میں سمٹ آئی ۔زندگی کی بھیڑ میں   کھو کر  دل کے آئینے میں ایک دھندلے عکس  کی صورت انہوں نے آپ  کو یاد رکھا     ۔ برسوں کی دوری میں اجنبیت کا شائبہ تک نہ تھا ۔   اپنی تلاش  پر  ایک خوشگوار حیرت  یوں بھی کہ زندگی کے محاذ پر الگ الگ   سرگرم رہنے کے باوجود سوچ سفر میں اپنے دوست سے بہت کچھ قدرِمشترک   ملا حالانکہ  ایک  ساتھ  میٹرک  کرنے کے بعد ہم دونوں کی زندگیوں  کا  سفر   تین سو ساٹھ درجے  کے زاویے      پر   تھا ۔گرچہ عمر کی طویل مسافت طے کرنے کے بعد آج اس لمحے اپنے اپنے  کام  اورر ترجیحات کے اعتبار سے  الگ الگ مقام پر تھے۔ میں اگر سفر تمام ہونے کی چاپ سنتے بس ذرا دیر کو سستانے کی چاہ میں تھی تو تم نے تو ابھی پوری توانائی کے ساتھ نئی  مسافتیں طے کرنا تھیں۔  تمہیں بہت کچھ یاد نہ تھا لیکن مجھے سب یاد تھا۔ جب اسکول میں الوداعی پارٹی پر طالبات کو اشعار کی  صورت  میں  ٹائٹل دیا جاتا تھا  ۔ تمہیں   اکبر الہ آبادی کا یہ شعر ایک  پرچی پر ملا تھا

تحفۂ   شب برات   تمہیں کیا  دوں

 جانِ من  تم تو خود  پٹاخا   ہو

 اور مجھے ملنے والاشعر کچھ یوں تھا ( اس کےشاعر کا نام نہیں ملا)

 لبِ دریا شبِ مہتاب میں جب پھول کھلتے ہیں

ہمیں بےساختہ تیرا تبسم یاد آتا ہے

ایک اہم بات،ایک وضاحت

  خوشی کا تعلق چیز سےہے اور سکون کا احساس سے۔  سو خوشی  کو کسی انسان سے مشروط کبھی نہ کرو  کہ پھر یہ توقع کا رشتہ بن جاتا ہے ۔ ہمیں کسی سے مل کر اگر خوشی ومسرت کا احساس ہو تو اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ ہم سے مل کر اُسے بھی کچھ ایسا ہی محسوس ہوا ہو۔ ہاں! پرانے دوست سے ملنا  پل کی خوشی ضرور دیتا ہے  لیکن صرف اُس لمحے جب بخت آپ پر اور اُس پر یکساں مہربان دِکھائی دے ورنہ ناآسودگی اور  دُکھوں  کی پوٹلیاں پرولتے سمے  ایک نامعلوم سا بوجھ بھی روح میں اُتر جاتا ہے۔

 حرفِ آخر

اس روز  ملنے کے کچھ وقت بعد  جب سوچا کہ کیا کھویا کیا پایا تو مدتوں بعد ملنے کی سرشاری اپنی جگہ لیکن  اپنے آپ  میں خِٖفّت بھی ہوئی     کہ زندگی سے چرائے گئے ان قیمتی  لمحات میں  ہم یا شاید میں   اپنی ذات  سے ہٹ کر   دوسروں کی بات کیوں کرتے رہے۔ وہ جو ہمارے قریب تو رہتے ہیں لیکن ہم انہیں     دِکھتے نہیں ۔  وہ ہمیں دیکھتے تو ہیں لیکن ہمیں جانتے نہیں۔ شاید اس لیے کہ عمرمسافت  میں ملنے والے یہ تمغے ہماری پہچان    ہی نہیں بلکہ معاشرے میں ہمارے مقام کا بھی تعین کرتے ہیں۔یوں کہا جائے تو بےجا نہ ہو گا کہ زندگی کے ڈرامے میں کردار نگاری  کرتے  ہم وہ بونے ہیں جو تماشائیوں کی  واہ واہ کے لیے دوسروں کے بل پر اپنا قد بلند کرنے کی سعی کرتے ہیں ۔  

" توقع"

۔"  توقع کے بطن سے ہمیشہ  دُکھ جنم لیتے ہیں۔ بےغرضی ہر تعلق کی  مضبوطی کا تعین کرتی ہے   چاہے وہ انسان سے ہو یا رب سے"۔

تعلق ہو یا رشتہ  اپنے رب سے ہو یا انسان سے،پائیداری کی بنیادی اکائی احساس ہے۔وہ احسا س جو دل کی تنہائی میں جنم لیتا ہے اور دل کو چھو لیتا ہے۔سچے دل سے اپنے  خالق کا احساس ہر رشتے کی اصلیت عیاں  کرتا چلا جاتا ہے۔

انسان کے انسان سے رشتے  صرف اور صرف ذمہ داری ہوتے ہیں جو لین دین کے محتاج ہوتے ہیں اور نا ہی رابطوں اور اظہار کے۔ ہمارا سئلہ یہ ہے  کہ ہم مقدر کے بنے رشتوں کو بوجھ سمجھتے ہیں اور خود سے بنائے تعلقات کو اہم  جانتے ہیں ۔ تعلق فقط رب سے ہے اور ہونا بھی چاہیے۔انسانوں سے صرف مراسم ہوسکتے ہیں ،اچھے رکھو گے تو اچھا پاؤ گے۔

"جسم کا فساد"

 عافیت چاہتے ہو تو اپنےجسم سے نکل جاؤ"۔

  ساراکاسارا فساد ہی جسم کا ہے۔زندگی برتتے برتتے ادھ موئے سے ہو کر جب    ہم پلٹ کر دیکھتے ہیں تو جسم سے زیادہ روح زخمی دکھائی دیتی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ جیسے  رویوں  کی خاردار پگڈنڈیوں نے  احساس لیر لیر کر دیا ہو۔ لہجوں کی  سفاکیت جینے کی اُمنگ چھین لینا ہی چاہتی ہے  کہ اللہ کے کرم سے خیال کی طاقتِ پرواز  یکدم بلند ہو جاتی ہے،اتنی بلند اتنی روشن کہ سب سے پہلے تو اپنی سوچ کی حماقت  دکھائی دیتی ہے کہ جسم کا بوجھ روح کیوں اُٹھائے۔ غور کریں   بلکہ سچ کہیں تو جسم کو ذرہ   برابر بھی فرق نہیں پڑتا ، کون آیا کون گیا، اُسے اس سے کیا لینا دینا۔وہ  تو  بس سخت گیر حاکم کی طرح کبھی پیٹ گھڑی کا الارم بجاتا ہے تو کبھی  درد کی  شدت میں نیند کے  مرہم   سے کام چلاتا ہے ۔ قصہ مختصر  کہ کسی بھی مشکل صورتِ حال میں اپنے جسم سے نکل جاؤ۔ اس کے ساتھ جو ہوتا ہے ہونے دو ،اس  بےوفا کی ہمدردی   میں بچا کچا وقت برباد نہ کرو۔ اپنے سوا کسی کو بدلنے کا اختیا ر ہمارے پاس  نہیں ۔ ہر ایک کو اس کے حال پر چھوڑ دو۔ یہاں تک کہ  اپنے حال کو بھی اس کے حال پر چھوڑ دو کہ جب  ہمارے پاس  اپنے حال کو بدلنے کی   قدرت بھی تو نہیں  ۔۔

"کرنیں (11)"

٭ انسانوں سے معاملات کے  ضمن میں  عمل تربیت کی نشان دہی کرتا ہے اور ردِعمل ظرف کی۔

٭  وردی کوئی بھی ہو  عام  عوام کے عام لباس سے تو بہتر ہی ہوتی ہے۔بس یہ ہے کہ  وردی کی ڈیوٹی سخت اور غلطی کی سزا کبھی تو ناقابلِ معافی۔جبکہ  سادہ لباس میں خزانہ  ڈکار جاؤ  تو   جاتے جاتے بھی سیلوٹ۔

٭   ہماری قیمتی  چیزیں   ہماری زندگی تک ہی قیمتی ہوتی ہیں  اور  برسوں سینت سینت کر رکھی گئی خا ص    چیزیں  ایک وقت کے بعد   ہمارے  لیے  بھی    بےوقعت  ہو جاتی ہیں۔

٭ زبان کا کڑوا کبھی دل کا میٹھا نہیں ہو سکتا۔

٭ گرچہ زبان لٹمس ٹیسٹ ہے ذائقوں کے باب کا لیکن  زبان کی کڑواہٹ  ہر ذائقے پر  سدا  حاوی رہتی  ہے۔

٭ ہماری سلامتی منہ بند رکھنے میں ہے گرچہ اس کی قیمت چُکاتے چُکاتے زندگی کیوں نہ ختم ہو جائے ۔ پھر بھی یہ گھاٹے کاسودا نہیں۔

٭ جیسے ہر  شے کا   ایک   نقطۂ پگھلاؤ  ہے ،اسی طرح ہر احساس کا بھی ایک نقطۂ پگھلاؤ ہوتا ہے۔  انسان اپنی نوعیت کی  ایک منفرد تخلیق ہے تو عام یا خاص  حالات میں  انسانی جذبات کا اس سے بھی بڑھ کر پیچیدہ طرزِعمل  سامنے آتا ہے۔ انسان جب برداشت کے نقطۂ انجماد تک پہنچ جاتا ہے تو بسا اوقات وہی   اُس کا نقطۂ پگھلاؤ ثابت  ہوتا  ہے۔

٭زندگی میں ملنے والا ہر شخص محض ایک سبق ہے۔سمجھ جاؤ،یاد کر لو تو زندگی برتنا سہل ہو جاتا ہے ورنہ ناسمجھی کے رٹے لگاتے رہیں اور خسارۂ زندگی بھگتے جائیں ۔

٭ہمارے بہت سے مسائل ہماری زندگی کے ساتھ ہی ختم ہوتے ہیں۔اپنی زندگی میں اُن کے حل کی توقع بےسود ہے ۔

٭ عزت   نہ تو خدمت سے ملتی ہے اور نہ ہی  اپنی محنت کی کمائی بنا کسی غرض کے  کسی کے حوالے کر کے۔ عزت فقط احساس کا سودا ہے ۔جو ہر کسی کے نصیب میں نہیں۔ بندوں سے اس کی توقع    دُکھ  ہی دیتی ہے۔

٭ جو اچھا سوچتے ہیں وہی اچھا بولتے ہیں۔

٭ خوشیاں اور غم اپنے ہی ہوتے ہیں  ۔وہ کسی اپنے کے ساتھ کبھی بانٹے نہیں جاسکتے۔

٭ انسان اکیلا آیا ہے اور اُس نے اکیلے ہی جانا ہے لیکن یہ کم بخت دُنیا کہ اِس کے ہر ہر موڑ پر ایک ساتھ چاہیے۔

٭ خوشی یہ ہے کہ آپ سے  وابستہ کوئی شخص ناخوش نہ ہو۔

٭خوشی اور سکون دو  الگ الگ  احساسات ہیں تو ان کے معیار بھی جدا  ٹھہرے۔خوشی کسی  بھی چیز سے مل سکتی ہے تو سکون  صرف احساس سے۔

٭ ہم محبت اورعزت کے توازن کی آس میں جیتے ہیں۔یہ تو کہیں بعد میں پتہ چلتا ہے کہ ایک شے اِن سے بھی بڑھ کر ضروری ہے اور وہ ہے ہمدردی۔ہمدردی وہ کم یاب احساس جو کبھی تو ہمیں بھی اپنے آپ سے اپنے لیے   نہیں  ملتا۔ 

٭ہم  صرف وہی باتیں بھولتے ہیں جنہیں ہم یاد رکھنا نہیں چاہتے۔

٭کون کہتا ہے کہ وقت کے ساتھ اور عمر کے بڑھنے سے ہی انسان کی سوچ پختہ یعنی میچور ہوتی ہے؟؟؟ ایسا کبھی بھی نہیں۔ ایسا ہرگز نہیں  صرف اپنے فرسودہ اور ہٹ دھرم اعتقادات پر رہنے والے ہمیشہ سوچ کی اولین چمک کی روشنی سے محروم رہتے ہیں۔

٭ موت مہلت نہیں دیتی اور زندگی فرصت نہیں ۔

٭ ہائی پروفائل   ہوتے ہوئے  لوپروفائل رہنے میں ہی عافیت پوشیدہ ہے۔

٭ زندگی کا اصول کہہ لیں یا اُتارچڑھاؤ  کہ بیج کوئی بوتا ہے اور پھل کوئی اور کھاتا ہے۔ مکان کوئی بناتا ہے اور آباد کوئی اور کرتا ہے۔۔ ہمیں تو بس زندگی کی دیہاڑی میں اپنے حصے کی مزدوری کرنا ہے۔ دوسری بات یہ کہ خوش قسمت کون اور بدقسمت کون ہم یہ فیصلہ کبھی بھی نہیں   کر سکتے۔

"ایک زرداری سب پہ بھاری"

گو ہاتھ کو جُنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے رہنے دو ابھی ساغرومینا مِرے آگے آنکھوں دیکھی حقیقت کو جھٹلایا نہیں جاسکتا۔8ستمب...