جمعہ, جولائی 31, 2015

"ضربِ عضب"

داوڑ قبیلے ( شمالی وزیرستان) کی ایک دوست کو 2014 کا پیغام عید 

 اپنے " گھروں " میں اپنے" اہل خانہ" کے ساتھ سکون کی گھڑیاں گزارنے والے تمام  احباب کو "عید" مبارک ہو۔
اے خداوندِجہاں بزمِ ارم کے معبود 
ترے دربار میں سامانِ خوشی کم تو نہیں
پھر یہ غریبوں کے مکانوں پہ اداسی کیسی
عید کا دن ہے کوئی شامِ محرم تو نہیں
 ایک دوست کے مدھم اور میٹھے لہجے کی یاد دلاتے یہ اشعار برسوں سے میری ڈائری پر جگمگاتے ہیں۔
دورسنگلاخ پہاڑوں کے سخت جان باسی ۔۔
اور جادو جگاتی کنچا آنکھوں والے چہروں کے بیچ۔۔
میری وہ دوست!!!۔
جس کا خمیر اس مٹی سے اٹھا تھا۔۔۔
جہاں کے بسنے والے آج اپنی آبائی زمین سے محض چند میل کی دوری پر۔۔۔
بےنام مستقبل کے اندیشوں میں۔۔۔ حال سے بےحال ہوئے جا رہے ہیں۔۔۔
اس ماضی کا خراج ادا کرتے۔۔۔اس خون آشام فصل کا پھل کھاتے ۔۔۔
جس نے ان کی معصوم کلیوں کے بدن سے رس نچوڑ لیا ۔۔
 جس کے کانٹے ان کی باپردہ خواتین کے سر کی ردا اور بدن کی قبا تار تار کیے دے رہے ہیں۔۔۔
 جس کی لاحاصل بیگار ان کے جوان جسموں کی آنکھوں سے امید کی کرن نوچ کر مایوسی اور محرومی کے اندھیرے اتار رہی ہے۔
اور وہ جیئے جارہے ہیں ۔
چلے چلے رہے ہیں۔۔
ایک اجنبی سرزمین پر اپنے پن کی تلاش میں۔۔
ایک ایسی منزل کی جانب جونسلوں کی کمائی مانگتی ہے۔
اور!!!۔
پاک فوج کے پاک جوان گھر کے آرام وسکون اور اپنے بچوں کی خوشیوں سے بےنیاز  اپنا فرض نبھائے جا رہے ہیں۔
اللہ سب کو اُن کی نیتوں کا پھل دے۔آمین۔۔(جولائی 31۔۔۔۔2014)۔

پسِ تحریر۔۔۔۔
یہ محض "قصہ" ہی نہیں ایک نوحہ ہے ہمارے قریب رہنے والوں پر زندگی تنگ ہونے کا۔۔۔
ایک طمانچہ ہے ہماری بےخبری کے منہ پر۔۔۔۔
اور ایک المیے کا بیان ہے جو وقتی نہیں بلکہ آئندہ نہ جانے کتنی نسلوں کو اس کا خراج ادا کرنا پڑے گا۔ہم شہروں میں رہنے والے صرف یہ کہہ کر اپنے آپ کو بری الذمہ نہیں ٹھہرا  سکتے کہ ان لوگوں کو دہشتگردوں کو پناہ دینے کے جرم کی سزا مل رہی ہے۔یہ وہ آگ ہے جس کی زد سے ہم جسمانی طور پر بچ بھی جائیں پر اخلاقی طور پر بحیثیت ایک انسان ہونے کے اس کی تپش ہماری دنیا وآخرت کو برباد کرنے کو کافی ہے۔
انسان بھولتا اسے ہے جسے یاد نہ رکھنا چاہے۔ مجھے سب یاد ہے ۔۔۔ہمارا ماضی اور اس سے بڑھ کر بحیثیت قوم ہمارا حال۔میں اس علاقے میں کبھی نہیں گئی لیکن ایک دوست کےحوالے سے وہ جگہ میرے لیے اجنبی قطعاً نہیں اور"داوڑ" تو میری یاد میں آج بھی جگمگاتا ہے جب خط لکھتے وقت اس کے والد کے نام کے ساتھ لکھتی تھی۔آج کے اسلام آباد کے فسادی مسائل میں "میران شاہ" اور اس کے قریبی علاقوں کے مکینوں کے مسائل و پریشانیاں کہیں چھپ کر رہ گئے ہیں۔اللہ ہم سب کے حال پر رحم کرے۔ تقدیر کا چکر کبھی بھی کسی کو اوپر سے نیچے لا سکتا ہے۔ ( نورین تبسم)۔


بدھ, جولائی 29, 2015

"قسم اس وقت کی"

تحریکِ پاکستان سے قیام پاکستان اور آج کے لکھاری۔
تاریخ تحریکِ پاکستان سے قیام پاکستان تک کی کہانی ایک ایسی داستان ہے جس کے گواہ نہ صرف ہجرت کر کے آنے والے پاکستانی ہیں بلکہ پاکستان میں پہلے سے مقیم پاکستانی بھی بہت سے واقعات کےعینی شاہد ہیں۔ پاکستان کے قیام کو 69 برس مکمل ہوچکےاور ستر کا ہندسہ چند ماہ کی دوری پر ہے۔۔اس وقت نہ صرف وہ نسل اپنی صحت کے مسائل سے نپٹتے ہوئےتمام واقعات بیان کر سکتی ہے جو اُن کی جوانی کے دور میں پیش آئے بلکہ اس دور میں ذرا سا ہوش سنبھالنے والے بچے (جو آج اپنے گھروں کی عافیت میں ہمارے بزرگ ہیں)اس بارے میں بہت کچھ کہتے بھی رہتے ہیں۔ ہر باشعور پاکستانی کے گھر میں اس کےبچپن میں یا کبھی نہ کبھی اس نے کہیں نہ کہیں پاکستان کہانی ضرور سنی ہو گی۔ آج کے لکھاری کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ کانوں سے سنا وہ احوال سامنے لائیں جو کسی اپنے یا غیر کی آنکھوں نے دیکھا۔ان کی یاد میں سمٹےاحساس کواپنے لفظ کی زبان دیں۔کوئی واقعہ کوئی بات جو ہم نے اپنے بڑوں سے سنی اور یقیناً سنی ہو گی۔ اس میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ قیام پاکستان ایک معجزہ ہےاوراُس وقت ہوش وحواس کی دنیا میں سانس لینے والا ہر پاکستانی اس بارے میں کچھ نہ کچھ جانتا ضرور ہے۔
پڑھنے والے ایک بات دل سے محسوس کریں گے کہ تیس کے ہندسے کو تیزی سے پھلانگتی،چالیس اور بچاس کے عشروں کی بےیقینی میں سانس لیتی اور ساٹھ کے سکون کی خام خیالی میں قدم رکھتی ہماری یہ نسل بس آخری نسل ہے جو تجربات وحوادث کی بھٹی میں حدت محسوس کرتی کندن ہو گئی اور جس کی آنکھ وطن کے حوالے سے ناقابلَ یقین معاشرتی اور سیاسی اتارچڑھاؤ کی گواہ ہے۔ ہمارے بعد آنے والے شاید وہ درد اور دکھ نہیں جانتے جو ہم نے نہ صرف ذاتی طور پر بلکہ اجتماعی طور پر بھی برداشت کیے۔ایک کڑوا سچ یہ بھی ہے کہ نئے سفر کے نئے مسافروں کو اِن الف لیلوی قصوں سے کوئی سروکار ہے اور نہ ہی یہ سب جاننا اُن کی تیزرفتار زندگی میں اولین ترجیح رکھتا ہے۔آج کی نسل سے کوئی شکوہ ہرگز نہیں کہ آسودگی میں آنکھ کھولنا ان کی غلطی نہیں۔انسان جس دور میں پیدا ہوتا ہے اسی دور کے حالات اس کی ساری زندگی کے احساسات میں لاشعوری طور پر اثرانداز ہوتے ہیں۔۔۔ جیسے دُنیا خصوصاً برصغیر میں گذشتہ صدی کے پہلے پچاس سال والا دور افراتفری اور بےیقینی کا دور تھا۔ تقسیمِ بنگال کے بعد پہلی جنگِ عظیم سے شروع ہونے والے پےدرپے حالات واقعات بڑی تیزی سے سیاسی منظر نامہ بدل رہے تھے۔عام انسان کے لیے کسی بھی راستے کا انتخاب کرنا دشوار سے دشوار تر ہوتا چلا جا رہا تھا۔خصوصاً جب قوم کے رہنما بھی کسی ایک منزل کی نشاندہی کرنے سے قاصر دکھتے تھے۔اس دور میں( 1947 سے پہلے اور اس کے فوراً بعد) بیتے گئے وہ چھوٹے چھوٹے واقعات بھی بہت اہم ہیں جن کا تذکرہ ہم نے بڑوں سے سنا۔ایسی باتیں چاہے ہندوستان میں رہنے والوں کی اس وقت کی یاد میں ہیں یا ہجرت کرنے والوں کی اور یا ہمیشہ سے پاکستان میں رہنے والوں کے پاس۔ پڑھے پڑھائے اور رٹےرٹائے سے ہٹ کر جومحسوس کرنے والی آنکھ نے کسی دوسری آنکھ سے "سن" کر اپنی روح میں جذب کیا اُسے لفظ کے قالب میں ڈھالنے کی سعی ایک لکھاری پر فرض بھی ہے۔خیال رہےکہ برہنگی جسم کی ہو یا لفظ کی حدود وقیود کے اندر ہو تو دیکھنے والے پڑھنے پر بار نہیں بنتی۔ لیکن بہت کم کوئی اس میں فرق روا رکھتا ہے ہم جسم کی برہنگی تو سمجھتے ہیں لیکن سفاک حقائق کو بیان کرنا آزادی اظہار۔
بات سچ جاننا یا سچ ماننا نہیں بلکہ اس کو دنیا کے سامنے ثابت کرنا ہے اور یہ سب سے بڑا کڑوا سچ ہے۔ ہم عام لوگ ہیں جومحض اپنی زندگی کے وہ سچ سامنے لاتے ہیں جن کی گواہ ہماری آنکھیں اور ہمارے لمس ہیں۔ تاریخ کے حوالے اور تاریخ کی باتیں "اُن تاریخ دانوں" کا دردِ سر ہیں جو کبھی تو شاہوں کے دربار میں آنے والی نسلوں کے ذہن تک سے سچائی چھپانے کو قصیدہ گوئی کرتے اور لکھتے تھے۔کبھی نسلی یا مذہبی تعصب اورپیدائشی تنگ نظری ان کی نظر کا کینوس محدود کر دیتی ہے۔
۔"اعلیٰ ذہنوں" کے حامل پڑھے لکھے ڈگری یافتہ دانشور صرف ایک بات نہیں جانتے کہ تاریخ نہ صرف اپنے آپ کو دہراتی ہے بلکہ وقت کے ساتھ بہت سے بےرحم سچ خودبخود عیاں بھی کر دیتی ہے لیکن صرف اُن کے سامنے جن کی آنکھیں کھلی ہوں۔اہم بات یہ بھی کہ تاریخ کے سچ کی "برہنگی"دکھانے کا کوئی حاصل بھی تو نہیں۔ یہ صرف گڑے مردے اکھاڑنے والی بات ہے۔بس جو جان لو اس کو اپنے اندر اتار لو اور محض وقتی بحث یا زبان کے چٹخارے کے لیے اس کوبیان نہیں کرنا بلکہ کہیں کوئی دلیل اس کے حق میں ملے تو ضرور سامنے لائیں ۔
تاریخ کے اوراق میں محفوظ لفظ ہوں یا یادوں میں سانس لیتی کہانیاں،آنے والی نسلوں کی امانت ہوتے ہیں۔پڑھنے والے کا فرض ہے کہ وہ جہاں تک ہو سکےان کو جذب کرے اورجتنی صلاحیت ہے اُس کو آگے پھیلائے۔ انسانی عمر گنتی کے ماہ وسال پرمحیط ہے۔اس محدود وقت میں لامحدود علم حاصل کرنا ممکن ہی نہیں سوائے اس کےکہ گزرے لوگوں کے علم اور تجرباتِ زندگی کی روشنی میں سفر آگے بڑھایا جائے۔
تاریخ بنانے یا بگاڑنے والے کبھی تاریخ نہیں پڑھتے۔تاریخ تو انمٹ سیاہی سے لکھی جانے والی وہ تحریر ہے جو بعد میں آنے والوں کو اگر ٹیپو سلطان کی شجاعت و بہادری کی داستانیں سناتی ہے تو میر جعفر کی غداری کے نوحے بھی دہراتی ہے۔ اب آنے والی نسلوں اور رہنماؤں پر منحصر ہے کہ وہ تاریخ میں اپنا نام کہاں لکھواتے ہیں۔ ٹیپو سلطان انسان کے عزم اور حوصلے کی سدا روشن رہنے والی ایک مثال ہے تو اس کو ملنے والا "دھوکا" ہمیشہ کے لیے انسان کو کسی "اپنے" پر اندھا اعتماد کرنے سے روکتا ہے. اور اکثر یہ دھوکا کھانے کے بعد "ٹیپو سلطان" کی زندگی اور موت انسان کی کم مائیگی اور بےثباتی پر مہرثبت کرتی  ہے۔

یاد رہے ہماری اس نسل کے پاس سب سے قیمتی تُحفہ یادوں اور احساس کی دولت ہےتو معاشرتی اقدار کی حیران کن رنگ  بدلتی تصویریں جن کی گواہی لفظ کی صورت کتابوں میں تو ملتی ہے لیکن بدقسمتی سے آنے والے نہ صرف کتابوں بلکہ اپنی زبان کے رنگ سے بھی کوسوں دورہیں۔اس درد کا اظہار جناب مستنصرحسین تارڑ کچھ یوں کرتے ہیں"اپنی زبان سے غفلت اور اجتناب ہمیں کیسا بد نصیب کر دیتا ہے کہ ہم اپنی آبائی دانش سے محروم ہوجاتے ہیں"از"برفیلی بلندیاں"۔
بقول شاعر۔۔۔ "ہم ہیں چراغِ آخرِ شب" ۔ اور ہمارے بعد اجالے تو یقیناً ہوں گے اور خوب ہوں گے لیکن مٹی کےچراغ کی روشنی نہیں۔جو ہماری نسل کی کمائی ہے۔کسی غرض سے بےنیاز ہو کر اپنے حصے کا چراغ روشن کرنا ہمارا فرض ہے۔
 پاکستان پائندہ باد

منگل, جولائی 28, 2015

"عید ڈائری "

۔شوال 1436 ہجری۔
ذہن پر تنگ ہوا جب بھی اندھیرے کا حصار
چند یادوں کے دریچے ہیں جو کام آئے ہیں
اے سحر! آج ہمیں راکھ سمجھ کر نہ اُڑا
ہم نے جل جل کے تِرے راستے چمکائے ہیں
عید !!! یہ تین حرفی لفظ خوشی کی علامت تو ہےلیکن اس خوشی کا مفہوم ہر انسان کی عمر کے ساتھ بدلتا رہتا ہے۔بچپن کی عید نئے کپڑوں اورعیدی کی سرخوشی ہے۔لڑکیوں کی عید مہندی کی خوشبو اور چوڑی کی کھنک سےمکمل ہوتی ہے تو مردوں اور لڑکوں کی عید صبح سویرے نمازعید کے لیے وقت پر پہنچنے کی بھاگ دوڑ سے شروع ہوتی ہے۔خاتونِ خانہ کے لیےعید اُن کی نماز سے واپسی سے پہلے پہلے کھانے پینے کے مکمل انتظام واہتمام کی فکر کرنے کا نام ہے۔ ہم جیسے جیسے بڑے ہوتے ہیں بیتی گئی عیدوں کے یہ لمحات ہماری یاداشت کے پوشیدہ خانوں میں محفوظ ہوتے جاتے ہیں۔ جب ہم کبھی کہیں بچے کی آنکھ میں چمک دیکھتے ہیں ۔۔عید کے روز رنگ برنگ غباروں کی بہار دیکھتے ہیں یا کسی کی عید کا احوال پڑھتے ہیں تو وہ سارے پل قطاردرقطار سامنے آ کھڑے ہوتے ہیں۔
ایسے ہی کچھ لمحوں کی دُھند میں لپٹی یاد کی خوشبو ۔۔۔۔
پہلی یاد۔۔۔ بچپن کی عید ہمیشہ تین روز کی ہوا کرتی تھی۔ اور تین روز کے الگ الگ جوڑے بنتے۔عید پر ہم دو بہنوں کے ایک جیسے کپڑے امی خود سیا کرتیں ۔اورعید سے پہلے اپنے چھوٹے سے باورچی خانے میں پینٹ ضرور کرتیں۔ جو درمیانی کمرے میں آج کل کے امریکن کچن کی ایک دیسی شکل بھی تھا۔ چاند رات کو ہم اپنے اپنے کپڑے جوتوں اور دوسری چیزوں کے ساتھ الگ الگ صوفوں پر سیٹ کرتے۔ صبح کو آنکھ ابو کی با آوازِ بلند تسبیح سے کھلتی۔ہم سب جلدی جلدی تیار ہو کر تانگے میں بیٹھ کر لیاقت باغ کی عید گاہ میں نماز عید کو روانہ ہوتے۔ واپسی پر اپنے گھر کی بجائے دادی کے گھر جاتے۔ عیدی ملتی۔ جس سے میں کہانیوں کی کتابیں خریدتی۔ابو یا چچا کے ساتھ جھولے جھولنے جاتے اور پھر دوپہر کے کھانے کے لیے اپنی بڑی خالہ کے گھر جانا برس ہا برس کا معمول رہا۔
دوسری یاد۔۔ ذرا بڑی ہوئی توعید کا رنگ ہی اور تھا۔ مہندی کی خوشبو تو ہمیشہ سے مسحور کرتی رہی اور کانچ کی چوڑی تو خود میری زندگی کا استعارہ ٹھہری۔لیکن میرے لیےعید منانے کا بہترین انداز عید کے روز ایک نئی کتاب کا ہمراہ ہونا ہوتا چاہے وہ کوئی ڈائجسٹ ہی کیوں نہ ہو۔اور اس کے ساتھ عید کے لیے خاص طور پر بنے کھانوں کا انتظار چھوڑ کر شامی کباب اور ڈبل روٹی کے سینڈوچ کی خوشبو آج بھی اُسی طرح تازہ ہے۔جوعید کے دن کا ناشتہ ہوا کرتا۔ اسلام آباد کی عید سے جُڑی بہت خاص بات عید کارڈ اور عید کے تحفے بھی ہیں جو میں پنڈی میں اپنےپچھلے اسکول کی دوستوں کے لیے بڑے شوق سے لیتی۔ اسلام آباد کی جناح سُپر مارکیٹ میں اپنی پسندیدہ دکان "بُک فئیر" پر کارڈز کی سلیکشن کے لیے بہت سا وقت گزارانا عمومی طور پر کوئی کتاب یا نئے سال کی ڈائری اور پین ہوتے۔آج کل کے دور میں سوچا جائے تو ڈائری کی کوئی حیثیت نہیں دکھتی اور تقریباً ہر کمپنی کی طرف سے بےدریغ ملتی رہتی ہیں۔ لیکن اس زمانے میں یہ تحفے بہت قیمتی سمجھے جاتے تھے اور لینے والا انہیں ہمیشہ عزیزازجان رکھتا۔
تیسری یاد۔۔۔ شادی کے بعد عید بالکل ہی مختلف گزرتی کہ صاحب کی عید کے پہلے روز ڈیوٹی لگتی ۔۔دوسرے لوگ تو ہچکچاتے لیکن صاحب کے ایک ٹکٹ میں دو مزے والی بات کہ دفتر جاتے ہوئے مجھے میرے گھر چھوڑ دیتے اور اگلے روز کی عید اپنے گھر والوں کے ساتھ گزارتے۔یوں وہ عید جو میرے لیے اپنے کمرے میں اپنے ساتھ گزارنے کا نام تھی بھاگ دوڑ اور سفر کی نذر ہو جاتی۔ پھر بچوں کی مصروفیت۔ زندگی آہستہ آہستہ دریا کے دوسرے کنارے کی طرف سفر کرتی چلی گئی۔ اور وہی پرانی ساری کہانی دہرائی جانے لگی۔
برسوں اسی ڈگر پر چلتے چلتے پھر یوں ہوا کہ پہلے امی انتقال کر گئیں اور اس سال ابو بھی چلے گئےاور پھر جیسےعید بھی ساتھ ہی چلی گئی۔ اُن کے جانے کے بعد پتہ چلا کہ عید صرف ماں باپ کے دم سے ہوتی ہے چاہے بچپن کی عید ہو یا جوانی کی۔ ہم بچے ہوتے ہیں تو ماں باپ ہماری ضرورتوں کا خیال رکھتے ہیں ہماری چھوٹی چھوٹی خوشیاں ان کی آنکھ میں جگنو کی سی چمک لاتی ہیں۔ اور جب ہم اتنے بڑے ہو جاتے ہیں کہ خود ماں باپ بن جاتے ہیں پھر بھی ان کی نگاہِ خیال کے دائرے سے دور نہیں ہوتے۔ اُن کی مہربان تشویش پل میں ساری تھکن اُتار دیتی ہے۔ یہ تو اُن کے جانے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ اب اس طرح خیال رکھنے والا کوئی نہیں۔ بس اب خود سے وابستہ رشتوں کے لیے اپنی پیاس نظرانداز کرکے دیہاڑی دار مزدور کی طرح روز اپنا کنواں آپ کھودنا ہے اور چلتے جانا ہے۔زندگی کے بنے بنائے دائروں میں سفر کرتے ہوئے احساس ہوا کہ عید کے لیے تو حکومتِ وقت بھی چھٹیاں دے دیتی ہیں اور حکمرانِ گھریلو امور کو ڈبل شفٹوں میں بنا تنخواہ کا اوور ٹائم کرنا پڑتا ہے۔ کاروبارِ خانہ داری عید کے دن پوری رفتارسے جو رواں رہتا ہے۔
انسان ہونے کے ناطے خوابوں کی کرچیاں زخمی تو کرتی ہیں لیکن حقیقت کی آنکھ سے دیکھا جائے تو زندگی کے یہ میلے انسانوں اور رشتوں کے دم سے ہی ہیں۔ کبھی کہیں میزیں سجی رہ جاتی ہیں اور نہ کھانے والے ہوتے ہیں اور نہ ہی آنے والے بس ایک انتظار باقی رہ جاتا ہے۔روزِعید ہر ایک کے لیے خوشی کا دن نہیں ہوا کرتا۔۔۔ زندگی کے معاشی مسائل میں جکڑے لوگوں کے لیے عید کا دن دوہرے عذاب کا باعث بنتا ہے۔ معاشرے کی ناہمواریوں اور محرومیوں کے باعث کسی کے لیے ہر روز روزِ عید تو ہر رات شبِ برات کے مصداق گزرتی ہے تو کسی کو عید کے روز بھی عید ڈھونڈے سے نہیں ملتی۔ کبھی پردیس میں رہتے ہوئے وطن اور اپنوں سے دوری کے باعث کوئی اپنی تنہائی میں عید کی مانوس مہک سے دور رہتا ہے۔لیکن یہ بھی سچ ہے کہ سارا سال عید منانے والےعید کی اصل خوشی کی گرد بھی نہیں پا سکتے۔
حرفِ آخر
عید صرف یاد اوراحساس کا نام ہے کسی کے لیے خوشی کا تو کسی کے لیے غم کا۔

جمعہ, جولائی 17, 2015

"رمضان 1436 ہجری"

 "رمضان 1436 ہجری بمطابق جولائی 2015"
۔29 رمضان المبارک 
"پہلا روزہ ۔۔۔کچھ یادیں کچھ باتیں " 
انسان کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو جائے۔۔۔کاروبارِحیات  کے گھمبیر مسائل اسے کتنا ہی بردبار اور سمجھ دار کیوں نہ بنا دیں جب تک اپنے آپ سے دوستی نہیں کرتا۔۔۔اپنے اندر جھانک کران بیتے موسموں کے بارے میں نہیں سوچتا جو اس کی زندگی میں دھوپ چھاؤں کی مانند گزرتے رہے۔۔۔اپنی موجودہ زندگی میں مسائل سے نمٹنے کے لیے توانائی اور تازگی سےدور ہی رہتا ہے۔ 
 جب تک اُس کے اندر کا ناسمجھ بچہ شور کرتا رہتا ہے سوال پوچھتا رہتا ہے ۔۔۔ نہ صرف اپنے اوپر اعتماد بحال رہتا ہے بلکہ زندگی میں آگے بڑھنے کی لگن بھی قائم رہتی ہے۔
 یادیں کتنی ہی بوسیدہ اور تکلیف دہ کیوں نہ ہوں جب تک انہیں غربت کے لباس کی طرح ہمیشہ یاد نہیں رکھا جاتا انسان فخروغرور کی دلدل میں دھنسا رہتا ہے.بچپن کی خوبصورت یادیں اگر قیمتی سرمائے کی صورت روح سرشار کر دیتی ہیں تو ماضی کے تلخ وسفاک تجربات کی یادیں نکاس نہ ملنے پر ناسور بھی بن جایا کرتی ہیں۔
 رمضان المبارک کا مہینا ہم سب کے لیے سال کے باقی مہینوں سے جداگانہ حیثیت رکھتا ہے۔ماہِ مقدس نہ صرف ذاتی سطح پر سوچ کے در کھولتا ہے بلکہ اس سے جُڑیں زندگی کی یادیں بھی انمول ہوتی ہیں۔جو کبھی مسکراہٹ لے آتی ہیں تو کبھی آنکھ میں نمی۔
سوچ سفر کے ایسے ہی کسی موسم میں جناب شعیب صفدر گھمن نے اپنے پہلے روزے کی یاد اپنے بلاگ میں محفوظ کی۔ یہ تحریر دوسرے لکھنے والوں کے لیے بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہوئی پھر سب کی یادوں کی ایسی جھڑی لگی کہ جولائی کے اس فطرتی حبس آلود،ازلی سیاسی گھٹن اور معاشرتی رویوں کی منافقت کے سدابہار موسم میں ہرایک لگی لپٹی رکھے بغیر دل کی بات کہنے پر مجبور ہو گیا۔عام انسانی رویوں پر کڑھنے اور لاحاصل سیاسی اور مسلکی مسائل میں الجھتے رہنے کے دور میں یہ یاد اور ماہ مقدس کے حوالے سے اپنا احساس مہربان ہوا کے جھونکے کی مانند تھا جسے ہر لکھنے والے نے بجا طور پر محسوس کیا ہو گا۔ 
 تحاریر پڑھنے کے بعد احساس ہو رہا ہےکہ وقت کے صحرا میں اپنا قد بڑا کرتے کرتے سب کی یادیں ایسے ہی کسی مہربان لمس اور کاندھے کی منتظر تھیں جہاں وہ اپنے دل کا حال بےدھڑک کہہ سکیں۔رمضان المبارک کے حوالے سے اُردو بلاگرز نے اپنی اپنی یادوں کی پوٹلیاں پڑھنے والوں کے سامنے کھول کر رکھ دیں۔کوئی اپنی روزہ کشائی کی سنہری یاد لے آیا تو کوئی اپنے پیارے بچھڑنے والے رشتوں کی یاد سے سجےلفظوں کے موتی۔اہم یہ ہے کہ ماہ مقدس میں اپنے اندر اتر کر اپنے ماضی میں جھانکنا کوئی کھیل تماشا ہرگز نہ تھا بلکہ اپنی محبتوں کو بانٹنا تھا اور سب لکھنے والوں کے لفظ جانے والے اپنے پیاروں کی یاد کے آنسو ہیں تو یقیناً صدقہ جاریہ بھی ہیں۔ سب نے بہترین لکھا۔ کئی ایک بہت اچھے لکھنے والوں کے لفظ سے پہلی بار شناسائی ہوئی اور اس خود کلامی سے صرف اُن کے قلم کی اہلیت ہی کھل کر سامنے نہیں آئی بلکہ یہ تحاریر اُن کی اصل شخصیت کی آئینہ دار بھی ٹھہریں۔تقریباً ہر بلاگر کی تحریر"ماں"کی یاد کی قدرِمشترک سے مہکتی نظر آئی اور اس احساس نے ہر بلاگ کو خاص بنا دیا نہ صرف قاری کے لیے بلکہ خود لکھنے والے کے لیے بھی۔اردو بلاگرز نے سادگی،بےساختگی اور معصومیت سے اپنی یادیں اور آنسو شئیر کیے۔وہ آنسو جو کبھی ہنستے ہنستے چپکے سے نکل آئے تو کبھی کوئی روتے روتے ہنس دیا۔یہ تحاریر صرف ذاتی احساسات اور جذبات ہی نہیں بلکہ ایک مکمل طرزِمعاشرت، روایتی گھریلو ماحول اور علاقائی ثقافت کی عکاس بھی ہیں جو آج کی نئی نسل کے سامنے تاریخ کے حوالے کے طور پر فخر سے پیش کیا جاسکتا ہے۔
اللہ پاک ہم سب کو اسی طرح علمِ نافع کی بےغرض  محبتیں بانٹنے اور انہیں سمیٹنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔ 
فیس بک پر اردو بلاگر گروپ کے ایونٹ میں ان سب بلاگز کو یکجا کرنا اپنی طرز کا ایک بہت منفرد تجربہ تھا۔
رمضان المبارک کے اختتام کے بعد ایونٹ کے تمام بلاگز کو اسی گروپ کی فائلز میں ڈاکیومنٹس کی صورت محفوظ بھی کر دیا ہے۔ منظر نامہ کا بےحد شکریہ کہ انہوں نے تمام بلاگز کو اپنے پاس یکجا کیا۔
اس  سلسلے کی تمام تحاریر کے لنک۔۔۔۔

اتوار 28 جون  2015     
۔۔۔۔۔
منگل 30 جون 2015
۔۔۔۔۔
منگل 30 جون 2015
۔۔۔۔۔
 منگل 30 جون 2015
۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔
بدھ یکم جولائی 2015
۔۔۔۔۔
جمعرات 2 جولائی 2015٭
۔۔۔۔۔
جمعہ 3 جولائی 2015
۔۔۔۔۔
جمعہ 3 جولائی 2015
۔۔۔۔۔
جمعہ 3 جولائی 2015
۔۔۔۔۔
جمعہ 3 جولائی 2015
۔۔۔۔۔
ہفتہ 4 جولائی 2015
۔۔۔۔۔
ہفتہ 4 جولائی 2015
۔۔۔۔۔
ہفتہ 4 جولائی 2015
۔۔۔۔۔۔۔
اتوار 5 جولائی 2015
۔۔۔۔۔
اتوار 5 جولائی 2015
۔۔۔۔۔
اتوار 5 جولائی 2015
۔۔۔۔۔
پیر ،6 جولائی 2015
۔۔۔۔
پیر 6 جولائی 2015
۔۔۔۔۔
پیر 6 جولائی 2015
۔۔۔۔۔
پیر 6 جولائی 2015
۔۔۔۔۔
منگل 7 جولائی 2915
۔۔۔۔۔
منگل 7 جولائی 2015
۔۔۔۔
بدھ 8 جولائی 2015
۔۔۔۔۔
جمعرات 9 جولائی 2015
۔۔۔۔۔
ہفتہ 11 جولائی 2015
۔۔۔۔۔
اتوار 12 جولائی 2015
۔۔۔۔۔
اتوار 12 جولائی 2015
۔۔۔۔۔۔
  پیر 13 جولائی 2015
۔۔۔۔۔
پیر 13 جولائی 2015
۔۔۔۔۔۔۔
منگل 14 جولائی 2015
۔۔۔۔۔
منگل 14 جولائی 2015
۔۔۔۔۔۔
منگل 14 جولائی 2015
۔۔۔۔۔۔
 منگل 14 جولائی 2015
۔۔۔۔ 
بدھ 15 جولائی 2015
۔۔۔۔۔
بدھ 15 جولائی 2015
۔۔۔۔
جمعرات 16 جولائی 2015
۔۔۔۔

تمام بلاگز میں سے چند اہم نکات۔۔
٭چھتیس بلاگرز نے ماہ مقدس کے حوالے سے تازہ تحاریر شئیر کیں ۔
٭جن میں سات خواتین بلاگر ہیں۔
٭ بلاگ پوسٹ کرنے والے بلاگرز میں سے بارہ کا تعلق کراچی سے ہے۔
٭دس بلاگرز ایسے ہیں جنہوں نے وطن کی مٹی سے دور رہتے ہوئے وطن میں ماہ رمضان کے حوالے سے اپنے احساس اور یادوں کو بہت خوبی سے بیان کیا۔
٭ ہندوستان سے تعلق رکھنے والے دو بلاگرز" کوثر بیگ  اور محمد علم اللہ "نے بڑی اپنائیت سے اپنی یادیں بیان کیں جس کے لیے ان کی خاص طور پر ممنون ہوں۔ 
چند بلاگز سے منتخب کردہ جملے۔۔۔۔
اسلم فہیم ۔۔۔۔جی ہاں 32 سال پہلے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب نہ امن وامان کی صورتِ حال خراب تھی نہ نفرتوں کے بیج پھوٹے تھے،جب ایک ہی پیڈسٹل فین گھر کے سبھی افراد کو ہوا دینے کو کافی تھا۔ 
 مصطفٰی ملک ۔۔۔۔بچپن کے بارے میں سوچتے ہی اولین یاد ماں ہوتی ہےاور ماں کی یاد آجائے تو باقی ساری یادیں بھول جاتی ہیںِ،سلسلہ کہیں سے شروع ہوتا ہے اور چلا کہیں اور جاتا ہے۔
مرزا زبیر ۔۔۔۔بچپن ماؤں کے ساتھ ہوتاہے لیکن جن کی مائیں  دنیا سے رُخصت ہوجاتی ہیں وہ اُسی روز بوڑھے ہوجاتے ہیں چاہیے وہ عمرکے کسی بھی حصے میں ہوں کیونکہ پھرکوئی اُن کے بچپن کے واقعات نہیں دہراتا۔
محمد اسد اسلم ۔۔۔دل کرتا ہے کہ اس وقت کو بار بار ریوائنڈ کر کے دیکھا جائے جب ہمارے دل و دماغ پاک و صاف اور ظاہر و باطن کسی قسم کی بناوٹ سے پاک تھے۔مسکراتے تو ایسے کھل کھلا کر سامنے والا بھی ہنس دے اور روتے تو ایسا منہ بنا کر کہ دیکھنے والا بھی روہانسا ہوجائے۔
محمد اسد اسلم ۔۔۔یادیں پتنگ کی ڈور کی طرح ہوتی ہیں۔ جتنی ڈھیل دیتے جائیں وہ اتنی ہی دور، اتنی ہی اوپر جاتی رہتی ہیں۔ جہاں آپ نے تھوڑا کھینچا تانی کی، وہیں سلسلہ تھم گیا اور ڈور ٹوٹ گئی۔
کاشف نصیر۔۔۔مسئلہ ظاہر کا نہیں باطن کا ہے،مادیت کا نہیں روحانیت کا ہے،دکھاوے کا نہیں سادگی کا ہے۔۔۔۔ ایسی عبادت کا کیا حاصل جو اچھا انسان نہ بناسکے !! ایسا حجاب کس کام کاجوحیاء اور پاکیزگی سے محروم ہو!! ایسے صدقات اور قربانی کیا دے سکتے ہیں، جن کے پیچھے ریا اور دکھاوا کارفرما ہو!! ایسے روزےکا کیا نفع جو لالچ اور حرص کا علاج نہ کرسکے!!ایسی تراویح کس کے لئے جو تواضع و انکساری نہ سکھاسکے اور ایسے اعتکاف میں کونسا تزکیہ نفس جو مسلک کا ٹریننگ کیمپ بن چکا ہو!! صاحبوکہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی گڑبڑ ضرور ہے۔
اسرٰی غوری ۔۔۔عنوان ہی ایسا ہے جیسے کہیں دور بالکنی سے جھانکتی ہوئی یادوں کو کسی نے چھیڑ دیاسو ہم بھی اس بالکنی میں جابیٹھے اور لگے اپنے بچپن کی یادوں کی پرتیں کھولنے یہ پرتیں بھی ویسی ہیں جیسے امی جب کبھی اپنا پرانا بڑا صندوق کھولا کرتیں تو ان میں پرانی رکھی چیزوں سے ایک مہک سی آتی اور ہم بڑے شوق سے وہ اٹھا اٹھا کر سونگھا کرتے تھے۔
جواد احمد خان۔۔۔
 بہت سے لوگ یادوں کو محل کی صورت تعمیر کرتے ہیں.کچھ لوگوں کے لیے یہ ایک لائبریری ہوتی ہے۔ مجھے اپنی یادیں کسی کباڑی کی دکان میں پڑا پرانا اور بےترتیب سامان محسوس ہوتی ہیں۔یادوں کی بھی کوئی قیمت ہوتی ہے اس کا اندازہ ہی نہیں ہوسکا جو بیتا اسے دماغ میں موجود ردی کی ٹوکری میں پھینکتا چلا گیا حال میں گزرتے لمحات کو کبھی محسوس کر
 کے محفوظ کرنے کی کوشش ہی نہ کی. لیکن ان سب باتوں کے باوجود مجھے اپنا پہلا غم اور پہلا روزہ نہیں بھولتا۔
وجدان عالم۔۔ بڑے ہونے سے فرق پڑا یا ہماری ترجیحات بدل  گئیں کہ اب عید کے لئے وہ ساری ساری رات خوشی میں جاگنا نصیب نہیں ہوتا۔
 عمار ابنَ ضیاء۔۔ میرے ساتھ میرا چھوٹا بھائی بھی مدرسے جایا کرتا تھا۔ تو رمضان کے مہینے میں، دوپہر میں جب کھانے کا وقفہ ہوا کرتا تھا تو وہ مجھ سے ضد کرتا تھا کہ اُس کے ساتھ کھانا کھانے بیٹھوں۔ میں اُسے سمجھاتا تھا کہ میرا روزہ ہے، میں نہیں کھا سکتا تو وہ ضد لگالیتا تھا کہ وہ بھی نہیں کھائے گا۔
 فرحت طاہر۔۔۔یادیں کسی شو روم کی طرح سجی ہوں یا ورکشاپ کی مانند بکھری ہوں بہر حال انہیں سمیٹنے میں محنت لگتی ہے! مگر نہیں سوچنے میں اتنی دیر نہیں لگتی جتنی لکھنے میں۔
۔۔۔۔۔۔
 دعا۔۔۔ سب کے لیے اپنے لیے۔۔۔۔

آمین یارب العالمین۔

ہفتہ, جولائی 11, 2015

"حضرت با یزید بسطامی اور پانچ سو راہب"

     حضرت با یزید بسطامی اور پانچ سو راہب۔۔۔۔۔ازقلم: ڈاکٹر عبد القدیر خان۔
۔(کالم) شائع ہوا روزنامہ جنگ اشاعت ۔۔۔بدھ یکم ذیقعد 1430 ہجری۔۔۔ بمطابق 21اکتوبر 2009ء
 اللہ تعالیٰ نے ہمیں نہ صرف مختلف شکل و صورت میں پیدا کیا ہے بلکہ ہمارا کردار بھی ایک دوسرے سے مختلف بنایا ہے۔ اسی طرح ہمارا ذوق ادب بھی ایک دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔ میں اپنے بارے میں یہ عرض کروں گا کہ مجھے طالب علمی کے زمانہ سے بھی اسلامی تاریخ، اردو ادب اور مشہور لوگوں کی سوانح حیات پڑھنے کا شوق تھا۔ بہت سی کتابیں میری پسندیدہ ہیں اور آج بھی ان کی ورق گردانی کر کے لطف اندوز ہوتا ہوں۔ تمام پرانے شعرا کے کلام کا مطالعہ محبوب مشغلہ ہے۔ قرآن کریم، سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علاوہ ابنِ بطوطہ کے سفرنامہ اور تذکرہ الاولیا مجھے بہت پسند ہیں۔ ایک مسلمان کی حیثیت سے ہمارے لئے تذکرہ الاولیا بہت مفید اور معلوماتی کتاب ہے۔ اس میں چھیانوے اولیا کرام کے زندگی کے حالات اور ان کے مکاشفات کے بارے میں نہایت دلچسپ واقعات بیان کیے گئے ہیں۔
تذکرہ الاولیا حضرت فرید الدین عطار رحمہ اللہ تعالٰی کی تصنیف کردہ ہے جو خود بھی ولی اللہ کا مرتبہ رکھتے تھے۔ اس کو شائع ہوئے تقریباً سو سال ہو گئے ہیں۔ حضرت عطار ٥١٣ھ کو نیشاپور کے مضافات میں پیدا ہوئے اور وہیں ٦٢٧ ھ کو ایک تاتاری سپاہی کے ہاتھوں جامِ شہادت نوش فرمایا۔
اس کتاب میں حضرت بایزید بسطامی علیہ الرحمہ کا تذکرہ بھی ہے۔ یہ ایک وقت کے بہت بڑے ولی اللہ مانے جاتے تھے۔ آپ کے بارے میں حضرت جنید بغدادی علیہ الرحمہ نے فرمایا تھا کہ حضرت بایزید کو اولیا میں وہی مرتبہ حاصل ہے جو حضرت جبرائیل علیہ السلام کو ملائکہ میں۔ تذکرہ الاولیا میں حضرت بایزید بسطامی کے بارے میں بہت سی معلومات ہیں مگر ایک بہت اہم واقعہ بیان کیا گیا ہے۔ میں نے مناسب سمجھا کہ وہ آپ کی خدمت میں پیش کروں۔

حضرت شیخ بایزید نے فرمایا کہ میں ایک سفر میں خلوت سے لذت حاصل کر رہا تھا اور فکر میں مستغرق تھا اور ذکر سے انس حاصل کر رہا تھا کہ میرے دل میں ندا سنائی دی، اے بایزید دیر سمعان کی طرف چل اور عیسائیوں کے ساتھ ان کی عید اور قربانی میں حاضر ہو۔ اس میں ایک شاندار واقعہ ہوگا۔ میں نے اعوذ باللہ پڑھا اور کہا کہ پھر اس وسوسہ دوبارہ نہیں آنے دوں گا۔ جب رات ہوئی تو خواب میں ہاتف کی وہی آواز سنی۔ جب بیدار ہوا تو بدن میں لرزہ تھا۔ پھر سوچنے لگا کہ اس بارے میں فرمانبرداری کروں یا نہ تو پھر میرے باطن سے ندا آئی کہ ڈرو مت، تم ہمارے نزدیک اولیا اخیار میں سے ہو اور ابرار کے دفتر میں لکھے ہوئے ہو۔ راہبوں کا لباس پہن لو اور ہماری رضا کیلئے زنار باندھ لو۔ آپ پر کوئی گناہ یا انکار نہ ہوگا۔
حضرت فرماتے ہیں کہ صبح سویرے میں نے عیسائیوں کا لباس پہنا، زنار کو باندھا اور دیر سمعان پہنچ گیا۔ وہ ان کی عید کا دن تھا۔ مختلف علاقوں کے راہب دیر سمعان کے بڑے راہب سے فیض حاصل کرنے اور ارشادات سننے کیلئے حاضر ہو رہے تھے۔ میں بھی راہب کے لباس میں ان کی مجلس میں جا بیٹھا۔ جب بڑا راہب آ کر منبر پر بیٹھا تو سب خاموش ہو گئے۔ بڑے راہب نے جب بولنے کا ارادہ کیا تو اس کا منبر لرزنے لگا اور کچھ بول نہ سکا گویا اس کا منہ کسی نے لگام سے بند کر رکھا ہے تو سب راہب اور علما کہنے لگے اے مرشدِ ربانی! کون سی چیز آپ کو گفتگو سے مانع ہے؟ ہم آپ کے ارشادات سے ہدایت پاتے ہیں اور آپ کے علم کی قدر کرتے ہیں۔ بڑے راہب نے کہا کہ میرے بولنے میں یہ امر مانع ہے کہ تم میں ایک محمدی شخص آ بیٹھا ہے۔ وہ تمہارے دین میں آزمائش کیلئے آیا ہے لیکن یہ اس کی زیادتی ہے۔ سب نے کہا ہمیں وہ شخص دکھا دو ہم فوراً اس کو قتل کر ڈالیں گے۔ اس نے کہا بغیر دلیل اور حجت کے اس کو قتل نہ کرو، میں امتحاناً اس سے علم الادیان کے چند مسائل پوچھتا ہوں۔ اگر اس نے سب کے صحیح جواب دئیے تو ہم اس کو چھوڑ دیں گے ورنہ قتل کر دیں گے کیونکہ امتحان میں مرد کی عزت ہوتی ہے یا رسوائی و ذلت۔ سب نے کہا آپ جس طرح چاہیں کریں۔ وہ بڑا راہب منبر پر کھڑا ہو کر پکارنے لگا اے محمدی! تجھے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قسم کھڑا ہو جا تاکہ سب لوگ تجھے دیکھ سکیں تو بایزید علیہ الرحمہ کھڑے ہو گئے۔ اس وقت آپ کی زبان پر رب تعالیٰ کی تقدیس اور تمجید کے کلمات جاری تھے۔ اس بڑے پادری نے کہا اے محمدی میں تجھ سے چند مسائل پوچھتا ہوں۔ اگر تو نے پوری وضاحت سے ان سب سوالوں کا جواب دیا تو ہم تیری اتباع کریں گے ورنہ تجھے قتل کر دیں گے۔ حضرت بایزید نے فرمایا کہ تو معقول یا منقول جو چیز پوچھنا چاہتا ہے پوچھ، اللہ تمہارے اور ہمارے درمیان گواہ ہے۔
وہ قوم بتاؤ جو جھوٹی ہو اور بہشت میں جائے گی، وہ قوم بتاؤ جو سچی ہو اور دوزخ میں جائے گی، بتاؤ کہ تمہارے جسم سے کون سی جگہ تمہارے نام کی قرار گا ہے، الذاریات ذروا کیا ہے؟ الحاملات وقرا کیا ہے؟ الجاریات یسرا کیا ہے؟ المقسمات امرا کیا ہے؟ وہ کیا ہے جو بے جان ہو اور سانس لے، ہم تجھ سے وہ چودہ پوچھتے ہیں جنہوں نے رب العالمین کے ساتھ گفتگو کی، وہ قبر پوچھتے ہیں جو مقبور کو لے کر چلی، وہ پانی جو نہ آسمان سے نازل ہوا اور نہ زمین سے نکلا ہو، وہ چار جو نہ باپ کی پشت اور نہ شکم مادر سے پیدا ہوئے۔ پہلا خون جو زمین پر بہایا گیا، وہ چیز جس کو اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمایا ہو اور پھر اس کو خرید لیا ہو، وہ چیز جس کو اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمایا پھر ناپسند فرمایا ہو، وہ چیز جس کے اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمایا ہو پھر اس کی عظمت بیان کی ہو، وہ چیز جس کو اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمایا ہو پھر خود پوچھا ہو کہ یہ کیا ہے، وہ کون سی عورتیں ہیں جو دنیا بھر کی عورتوں سے افضل ہیں۔
کون سے دریا دنیا بھر کے دریاؤں سے افضل ہیں، کون سے پہاڑ دنیا بھر کے پہاڑوں سے افضل ہیں، کون سے جانور سب جانوروں سے افضل ہیں، کون سے مہینے افضل ہیں، کون سے راتیں افضل ہیں، طآئمہ کیا ہے، وہ درخت بتاؤ جس کی بارہ ٹہنیاں ہیں اور ہر ٹہنی پر تیس پتے ہیں اور ہر پتے پر پانچ پھول ہیں، دو پھول دھوپ میں تین سایہ میں، وہ چیز بتاؤ جس نے بیت اللہ کا حج اور طواف کیا ہو نہ اس میں جان ہو اور نہ اس پر حج فرض ہو، کتنے نبی اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمائے اور ان میں سے رسول کتنے ہیں اور غیر رسول کتنے، وہ چار چیزیں بتاؤ جن کا مزہ اور رنگ اپنا اپنا ہو اور سب کی جڑ ایک ہو، تقیر کیا ہے، قطمیر کیا ہے، فتیل کیا ہے، سبد و لبد کیا ہے، طعم ورم کیا ہے، ہمیں یہ بتاؤ کہ کتا بھونکتے وقت کیا کہتا ہے، گدھا  ہینگتے وقت کیا کہتا ہے، بیل کیا کہتا ہے، گھوڑا کیا کہتا ہے، اونٹ کیا کہتا ہے، مور کیا کہتا ہے، بیل کیا کہتا ہے، مینڈک کیا کہتا ہے، جب ناقوس بجتا ہے تو کیا کہتا ہے، وہ قوم بتاؤ جن پر اللہ تعالیٰ نے وحی بھیجی ہو وہ نا انسان ہو نہ جن اور فرشتے، یہ بتاؤ کہ جب دن ہوتا ہے تو رات کہاں چلی جاتی ہے، جب رات ہوتی ہے تو دن کہاں چلا جاتا ہے۔

حضرت بایزید بسطامی علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ کوئی اور سوال ہو تو بتاؤ۔ وہ پادری بولا کہ اور کوئی سوال نہیں۔ آپ نے فرمایا اگر میں ان سوالوں کا شافی جواب دے دوں تو تم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ایمان لاؤ گے؟ سب نے کہا ہاں، پھر آپ نے کہا اے اللہ تو ان کی اس بات پر گواہ ہے۔
یک زمانہ صحبت با اولیا
بہتر از صد سالہ طاعتِ بے ریا
پھر فرمایا کہ، تمہارا سوال کہ ایک بتاؤ جس کا دوسرا نہ ہو وہ اللہ تعالیٰ واحد قہار ہے، وہ دو جن کا تیسرا نہ ہو وہ رات اور دن ہیں، لقولہ تعالی (سورۂ بنی اسرائیل، آیت:٢١) وہ تین جن کا چوتھا نہ ہو وہ عرش، کرسی اور قلم ہیں، وہ چار جن کا پانچواں نہ ہو وہ چار بڑی آسمانی کتابیں تورات، انجیل، زبور اور قرآن مقدس ہیں۔ وہ پانچ جن کا چھٹا نہ ہو وہ پانچ فرض نمازیں ہیں، وہ چھ جن کا ساتواں نہ ہو وہ چھ دن ہیں جن میں اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا فرمایا لقولہ تعالیٰ (سورہ قاف، آیت:٨٣)، وہ سات جن کا آٹھواں نہ ہو وہ سات آسمان ہیں لقولہ تعالیٰ (سورہ ملک: آیت:٣)، وہ آٹھ جن کا نواں نہ ہو وہ عرش بریں کو اٹھانے والے آٹھ فرشتے ہیں لقولہ تعالیٰ (سورہ حآقہ، آیت:٧١) وہ نو جن کا دسواں نہ ہو وہ بنی اسرائیل کے نو فسادی شخص تھے لقولہ تعالیٰ (سورہ نمل، آیت:٧٤)، وہ دس جن کا گیارہواں نہ ہو وہ متمتع پر دس روزے فرض ہیں جب اس کو قربانی کی طاقت نہ ہو لقولہ تعالیٰ (سورہ بقرہ، آیت:٦٩١)، وہ گیارہ جن کا بارہواں نہ ہو وہ یوسف علیہ السلام کے بھائی ہیں۔ گیارہ ہیں ان کا بارہواں بھائی نہیں لقولی تعالیٰ (سورہ توبہ، آیت:٦٣)، وہ تیرہ جن کا چودھواں نہ ہو وہ یوسف علیہ السلام کا خواب ہے لقولہ تعالیٰ (سورہ یوسف، آیت:٤)۔
وہ جھوٹی قوم جو بہشت میں جائے گی وہ یوسف علیہ السلام کے بھائی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی خطا معاف فرما دی۔ لقولہ تعالٰی (سورہ یوسف، آیت:٧١) وہ سچی قوم جو دوزخ میں جائے گی وہ یہود و نصارٰی کی قوم ہے لقولہ تعالیٰ (سورہ بقرہ، آیت ٣١١)، تو ان میں سے ہر ایک، دوسرے کے دین کو لاشی بتانے میں سچا ہے لیکن دونوں دوزخ میں جائیں گے، تم نے جو سوال کیا ہے تیرا نام تیرے جسم میں کہاں رہتا ہے تو جواب یہ ہے کہ میرے کان میرے نام کی رہنے کی جگہ ہیں، (الذاریات ذروا) چار ہوائیں ہیں مشرقی، غربی، جنوبی اور شمالی (الحاملات وقرا) بادل ہیں لقولہ تعالٰی (سورہ بقرہ، آیت:٤٦١)، (الجاریات یسرا) سمندر میں چلنے والی کشتیاں ہیں، (المقسمات امرا) وہ فرشتے ہیں جو پندرہ شعبان سے دوسرے پندرہ شعبان تک لوگوں کا رزق تقسیم کرتے ہیں، وہ چودہ جنہوں نے رب تعالٰی کے ساتھ گفتگو کی وہ سات آسمان اور سات زمینیں ہیں لقولہ تعالیٰ (سورہ حم السجدہ، آیت:١١)، وہ قبر جو مقبور کو لے کر چلی ہو وہ یونس علیہ السلام کو نگلنے والی مچھلی ہے، بغیر روح کے سانس لینے والی چیز صبح ہے، وہ پانی جو نہ آسمان سے اترا ہو اور نہ زمین سے نکلا ہو وہ پانی ہے جو گھوڑوں کا پسینہ بلقیس نے آزمائش کیلئے حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس بھیجا تھا، وہ چار جو کسی باپ کی پشت سے ہیں اور نہ شکم مادر سے وہ اسماعیل علیہ السلام کی بجائے ذبح ہونے والا دنبہ، صالح علیہ السلام کی اونٹنی، آدم علیہ السلام اور حضرت حوا ہیں، پہلا خون ناحق جو زمین پر بہایا گیا وہ آدم علیہ السلام کے بیٹے ہابیل کا خون تھا جسے بھائی قابیل نے قتل کیا تھا، وہ چیز جو اللہ تعالٰی نے پیدا فرمائی پھر اسے خرید لیا وہ مومن کی جان ہے لقولی تعالٰی (سورہ توبہ، آیت:١١١) وہ چیز جو اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمائی پھر اسے نا پسند فرمایا وہ گدھے کی آواز ہے لقولہ تعالٰی (سورہ لقمان، آیت:٩١)، وہ چیز جو اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمائی ہو پھر اسے برا کہا ہو وہ عورتوں کا مکر ہے لقولہ تعالٰی (سورہ یوسف، آیت:۲۸)، وہ چیز جو اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمائی ہو پھر پوچھا ہو کہ یہ کیا ہے وہ موسٰی علیہ السلام کا عصا ہے لقولہ تعالٰی (سورہ طہٰ، آیت:٧١) یہ سوال کہ کون سی عورتیں دنیا بھر کو عورتوں سے افضل ہیں وہ ام البشر حضرت حوا، حضرت خدیجہ، حضرت عائشہ، حضرت آسیہ، حضرت مریم ہیں (رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین)۔
باقی رہا افضل دریا وہ سحیون، جیجون، دجلہ، فرات اور نیل مصر ہیں، سب پہاڑوں سے افضل کوہِ طور ہے، سب جانوروں سے افضل گھوڑا ہے، سب مہینوں سے افضل میینہ رمضان ہے لقولہ تعالٰی (سورہ بقرہ، آیت:٥٧١)، سب راتوں سے افضل رات لیلہ القدر ہے لقولہ تعالٰی (سورہ قدر، آیت:٣) تم نے پوچھا کہ طآئمہ کیا ہے وہ قیامت کا دن ہے، ایسا درخت جس کی بارہ ٹہنیاں ہیں اور ہر ٹہنی کے تیس پتے ہیں اور ہر پتہ پر پانچ پھول ہیں جن میں سے دو پھول دھوپ میں ہیں اور تین سایہ میں تو وہ درخت سال ہے۔ بارہ ٹہنیاں اس کے بارہ ماہ ہیں اور تیس پتے اس ہر ماہ کے دن ہیں اور ہر پتے پر پانچ پھول ہر روز کی پانچ نمازیں ہیں۔ دو نمازیں ظہر اور عصر کی آفتاب میں روشنی میں پڑھی جاتی ہیں اور باقی تین نمازیں اندھیرے میں، وہ چیز جو بے جان ہوں اور حج اس پر فرض نہ ہو لیکن اس نے حج اور بیت اللہ طواف کیا ہو وہ نوح علیہ السلام کی کشتی ہے، تم نے نبیوں کی تعداد پوچھی ہے پھر رسولوں اور غیر رسولوں کی تو کل نبی ایک لاکھ چوبیس ہزار ہیں ان میں سے تین سو تیرہ رسول ہیں اور باقی غیر رسول، تم نے وہ چار چیزیں پوچھی ہیں جن کا رنگ اور ذائقہ مختلف حالانکہ جڑ ایک ہے وہ آنکھیں ناک، منہ اور کان ہیں کہ مغز سر اُن سب کی جڑ ہے، آنکھوں کا پانی نمکین ہے اور منہ کا پانی میٹھا ہے اور ناک کا پانی ترش ہے اور کانوں کا پانی کڑوا ہے۔
تم نے نقیر، قطمیر، فتیل، سبد و لبد اور طعم ورم کے معانی دریافت کیے ہیں کجھور کی گھٹلی کی پشت پر جو نقطہ ہوتا ہے اس کو نقیر کہتے ہیں گھٹلی پر جو باریک چھلکا ہوتا ہے اس کو قطمیر کہتے ہیں گھٹلی کے اندر جو سفیدی ہوتی ہے اسے فتیل کہتے ہیں سبد و لبد بھیڑ بکری کے بالوں کے کہا جاتا ہے، حضرت آدم علیہ السلام کی آفرینش سے پہلے کی مخلوقات کو طعم ورم کہا جاتا ہے، گدھا ہینگتے وقت شیطان کو دیکھ رہا ہوتا ہے اور کہتا ہے (لعن اللہ العشار)، کتا بھونکتے وقت کہتا ہے (ویل لاھل النار من غضب الجبار)، بیل کہتا ہے (سبحان اللہ وبحمدہ)، گھوڑا کہتا ہے (سبحان حافظی اذاالتقت الابطال واشتعلت الرجال بالرجال)، اونٹ کہتا ہے (حسبی اللہ وکفی باللہ وکیلا)، مور کہتا ہے (الرحمن علی العرش استوی)، بلبل کہتا ہے (سبحان اللہ حین تمسون وحین تسبون)، مینڈک اپنی تسبیح میں کہتا ہے (سبحان المعبود فی البراری والقفار وسبحان الملک الجبار)، ناقوس جب بجتا ہے تو کہتا ہے (سبحان اللہ حقا حقا انظرنا یا ابن آدم فی ھذہ الدنیا غربا و شرقا) ما تری فیھا احدیقی) تم نے وہ قوم پوچھی ہے جن پر وحی آئی حالانکہ وہ نہ انسان تھے نہ جن اور نہ فرشتے وہ شہد کی مکھیاں ہیں لقولہ تعالٰی (سورہ نحل، آیت ٨٦)، تم نے پوچھا کہ جب رات ہوتی ہے تو دن کہاں جاتا ہے اور جب دن ہوتا ہے تو رات کہاں جاتی ہے اس کا جواب یہ ہے کہ جب دن ہوتا ہے تو رات اللہ تعالٰی کے غامض علم میں چلی جاتی ہے اور جب رات ہوتی ہے تو دن اللہ تعالیٰ کے غامض علم میں چلا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا وہ غامض علم کہ جہاں کسی مقرب نبی فرشتہ کی رسائی نہیں۔
پھر آپ (حضرت بایزید بسطامہ علیہ الرحمہ) نے فرمایا کہ تمہارا کوئی ایسا سوال رہ گیا ہے جس کا جواب نہ دیا گیا ہو؟ انہوں نے کہا نہیں، سب سوالوں کے صحیح جواب دیے ہیں۔ آپ نے بڑے پادری سے فرمایا کہ تم سے صرف ایک بات پوچھتا ہوں اس کا جواب دو۔ وہ یہ کہ آسمانوں کی کنجی اور بہشت کی کنجی کون سی چیز ہے؟ وہ پادری سربہ گرِیباں ہو کر خاموش ہو گیا۔ سب پادری اس سے کہنے لگے اس شیخ نے تمہارے اس قدر سوالوں کے جواب دیے لیکن آپ اس کے ایک سوال کا جواب بھی نہیں دے سکتے۔ وہ بولا جواب مجھے آتا ہے اگر میں وہ جواب بتاؤں تو تم لوگ میرے موافقت نہ کرو گے۔ سب نے بیک زبان ہو کر کہا کہ آپ ہمارے پیشوا ہیں۔ ہم ہر حالت میں آپ کی موافقت کریں گے۔ تو بڑے پادری نے کہا آسمانوں کی کنجی اور بہشت کی کنجی (لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ) ہے۔ تو سب کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گئے اور اپنے اپنے زنار وہیں توڑ ڈالے۔ غیب سے ندا آئی، اے بایزید! ہم نے تجھے ایک زنار پہننے کا حکم اس لیے دیا تھا کہ ان کے پانچ سو زنار توڑ ڈالو۔ واللہ الحمد
ہر کہ خواہد ہمنشینی باخُدا
اُو نشیند در حضور اولیا

جمعہ, جولائی 03, 2015

" محبت اب نہیں ہوگی"

جولائی 2015 بمطابق 15 رمضان المبارک 1436 ہجری
محبت اب نہیں ہو گی
یہ کچھ دن بعد میں ہوگی 
گزر جائیں گے جب یہ دن
یہ اُن کی یاد میں ہو گی
(منیر نیازی)
عمر کے ڈھلتے سایوں میں اُن اولین چاہتوں کے بارے میں سوچنا جو زندگی کی تپتی دوپہروں میں مہربان بادل کی طرح سایۂ فگن رہیں ہمیشہ ایک خوشگوار احساس رکھتا ہے۔ لیکن جدا ہونے کے بعد کسی خاص موقع کسی خاص ساعت میں یہ محبتیں درد بھی بہت دیتی ہیں۔۔۔ایک عجیب سی اداسی پورے وجود کا احاطہ کر لیتی ہے۔ ایک بےنام خاموشی کہیں بہت اندر بہت شور کرتی ہے۔ یادوں کی جھڑی جب لگتی ہے تو تن من شرابور کر ڈالتی ہے۔
سوچوں کی انہی بھول بھلیوں میں ایک عالمِ بےخودی میں جون کی19 تاریخ کو سال 2015 کے ماہِ رمضان کا آغازہوا۔ ماں باپ کے بعد آنے والا یہ پہلا رمضان گہری اُداسی لیے ہوئے تھا۔ اپنے خاندان کے ساتھ ایک بھرے پُرے گھر میں رہتے ہوئے بھی کچھ کھو جانے۔۔۔ ایک خالی پن کا احساس تھا۔ ماں باپ کسی بھی گھر کا مرکزثقل ہوتے ہیں۔ اپنے بچوں کے لیے اُن کی مرکزی حیثیت کبھی ختم نہیں ہوتی اور نہ ہی کی جاسکتی ہےخواہ بچے کتنے ہی بڑے اور خودمختار کیوں نہ ہو جائیں۔
ہمارے گھر میں رمضان المبارک کا انتظار اور اہتمام کوئی آج کل کی بات نہیں تھی بلکہ یہ برسوں کا قصہ تھا۔ سب سے پہلا بچہ ہونے کی وجہ سے تقریباً دس برس کی عمر میں میری روزہ کشائی سب کے لیے ایک یادگار تقریب تھی ۔ میری یاد میں اس روز کی سحری اور افطاری کے دسترخوان کی کچھ جھلکیاں آج بھی تازہ ہیں۔ میرے پہلے روزے کی سحری پر امی اور ابو کی طرف سے قریبی احباب مدعو تھے۔ وسیع دسترخوان پر سحری کی خاص سوغات دودھ جلیبی اور پراٹھے یاد ہیں۔ سارا دن اپنوں کی رونق میں گذر گیا اور ایک یاد گلابی سلک کے گوٹے والے غرارے کی بھی ہے جو بڑی پھپھو خاص طور پر اپنے ہاتھوں سے سی کرمیرے لیے لائی تھیں ۔افطار کے وقت بہت زیادہ مہمان تھے اور پورے صحن میں دسترخوان بچھے تھے۔ اس کے بعد درمیان والی دو بہنوں کی روزہ کشائی اتنی دھوم دھام سے تو نہ ہوئی لیکن سب سے چھوٹی بہن کی روزہ کشائی بھی اتنے ہی اہتمام سے ہوئی۔
حرفِ آخر

کچھ برس پہلے ایک دوسرے کے ساتھ مل بیٹھنے کے لیے ان چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو بہت اہمیت دی جاتی تھی۔اگر آج کل کے بچے اس قسم کی تقاریب کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے تو ہم بڑے بھی رمضان کے مصروف شیڈول میں اپنے گھر پر ایسی کسی تقریب کا انتظام کرنا یا کسی کے ہاں افطاری پر جانا بہت مشکل سمجھتے ہیں حالانکہ اب ہر قسم کی سہولیات بھی موجود ہیں لیکن اب ہماری ترجیحات بدل گئی ہیں۔ اس میں مایوسی یا گلے شکوے کی بات ہرگز نہیں کہ ہر دور کے الگ تقاضے اور ہر نسل کی اپنی خوشیاں ہوا کرتی ہیں۔اور اُن کو سمجھنا اور ماننا ہمیں مایوسی سےبچاتا ہے ۔اہم بات یہ ہے کہ ہر ایک اپنے زمانے کو اچھا کہتا ہے۔۔۔اپنے بچپن کو یاد کرتا ہے۔۔۔ اس کی باتیں دہراتا ہے تو آج کل کی نسل کے پاس بھی اپنے بچپن کی کچھ یادیں ضرور ہوں گی جو ان کو اپنےدور میں یہ کہنے پر مجبور کر دیں گی کہ ہمارے زمانے کتنے اچھے تھے۔۔۔۔
دائم آباد رہے گی دنیا
ہم نہ ہوں گے کوئی ہم سا ہوگا
(ناصر کاظمی)
 

جمعرات, جولائی 02, 2015

"کرنیں (6)"

کرنیں (6)۔
 ٭ تخلیقِ آدم سے پہلے ہماری ارواح کا پہلا عمل۔۔۔ لفظ پر ایمان ہی ہمارا اصل ایمان ہے۔ 
 ٭زندگی ہر پل کچھ سیکھنے کے عمل کا نام ہی تو ہے اور ہم سب ہی ایک دوسرے سے بہت کچھ پاتے ہیں۔ شرط صرف ایک کہ بےغرض دیں تو بےکراں ملے گا۔
٭ہماری کیمسٹری۔۔۔زندگی اور موت محض ایک عمل ہے پانی کی طرح۔۔۔جو کبھی مائع ہوتا ہے توکبھی ٹھوس اور کبھی گیس بن کر اُڑ جاتا ہےلیکن اپنی شکل تبد یل کرنے سے اُس کی کیمسٹری نہیں   بدلتی۔یہ عمل مسلسل جاری ہے  ایک فیز سے دوسرے فیز میں۔اور یہی ہمارا لائف سائیکل ہے۔
 ٭"روحانیت" ۔۔۔پتہ نہیں کیا چیز ہے۔۔۔۔بس یہ جانو کہ لوگ چلے جاتے ہیں لیکن سفر نہیں رکتا۔۔۔ ایک کے بعد ایک ان کی جگہ لے لیتا ہے۔۔۔ جیسے ایک لہر کے بعد دوسری ۔
 میں خود بھی نہیں جانتی یہ سب کیا ہے ؟ بس جب خود بخود ہی ہوا چلنے لگے بنا کوئی تردد کیے..کوئی چاہ کیے تو اس کو سمجھنے ۔۔۔ ادب کرنے اور جذب کرنے کی صلاحیت کا نام ہے۔
 ٭" بیسٹ سیلر" .... کبھی خود اپنی قیمت نہیں لگاتا اور نہ ہی اس کا تعین کرتا ہے یہ دیکھنے والی آنکھ اور جذب کرنے والی نگاہ کا کمال ہے کہ وہ قطرے میں سمندر دیکھ لیتی ہے تو کبھی سمندر میں گہر پا لیتی ہے۔
٭"راہ بر"۔۔۔۔کچھ لوگ راہ دیکھتے چلتے ہیں۔۔۔کچھ راہ دکھاتے۔۔۔کچھ ہمیں اپنے جیسا بنا لیتے ہیں تو کچھ ہمیں خود سے بھی بیگانہ کر دیتے ہیں۔کچھ ہماری ضرورت بن جاتے ہیں اور کچھ ضرورت کی تکمیل۔ 
٭"بہت ہو گئی زندگی" اب کیا کیسٹ کو بار بار ریواینڈ کر کے دیکھنا۔۔۔عجیب لاجک ہے محبت اور ہوس کی۔۔۔پہلا لمس ہی آخری رہے تو یاد میں ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔ ورنہ بار بار کی یاددہانی سے بھی سیری کی کیفیت نہیں ملتی۔ 
 ٭"یاد"۔۔۔محبتوں کے رشتے ہمیشہ پاس ہی رہتے ہیں۔ لفظ کی صورت ان کا احساس محفوظ کر سکیں تو ہمیشہ کے لیے بچھڑ جانے کے بعد بھی ان کی قربت کی خوشبو آس پاس ہی مہکتی ملتی ہے۔
 ٭خودی"۔۔۔خود ترسی کے اندھیروں اور خود پرستی کی چکاچوند میں بھٹکنے والا خدا شناسی کی رفعتوں سے ہم کلامی کا شرف کھو دیتا ہے۔خود کو سمجھنے کے لیے ذرا دور جانا پڑتا ہے... اپنے اندر سے باہر نکل کر اپنی تلاش کی جاتی ہے۔کاش دُنیا کے رازوں اور اس کی بلندوبالا چوٹیوں کو سر کرنے کے جنون اور دوڑ میں شامل ہونے والے جان سکیں کہ اُن کے اندر ابھی بہت سی ان چھوئی دنیائیں تسخیر کے لمس کی منتظر ہیں۔
 ٭ "ڈر"۔۔۔۔ڈر اور محبت لازم وملزوم ہیں۔ کبھی محبت ڈر کی شدت کے سامنے اپنا آپ دان کر دیتی ہے تو کبھی ڈر محبت کی کوکھ سے جنم لیتا ہے۔ ڈر بنیادی طور پر محبت کی تخلیق ہے۔۔۔وہ تخلیق جو منہ زور خواہشوں اور ناآسودہ جذبوں کے ملاپ سے تقدیر کے مہیب اندھیروں میں رہتے ہوئے یوں چپکے سے محبت کی کوکھ میں اُترتی ہے کہ جسم تو کیا روح بھی اِس انجان مہربان کی قربت سے گریزاں نظر آتے ہیں۔ ڈر کا کرب دھیرے دھیرے محبت کے لمس سے رام ہوتا ہے۔۔۔لیکن یہ آسیب کی طرح ہمیشہ ساتھ رہتا ہے۔ایک سائے کی مانند جو دکھتا تو ہے پر صرف دیکھنے والی آنکھ کو اور ۔۔۔دل کی آنکھ کبھی اُسے خاطر میں نہیں لاتی ۔
 ٭ "انمول"۔۔۔ اس دنیا میں مفت میں کچھ بھی نہیں ملتا ۔ہر چیز کی قیمت ہے۔ہر احساس برائے فروخت ہے۔ جو جتنا قیمتی ہے اُتنا ہی نازک بھی ۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ دنیا کا بنیادی زندگی بخش تُحفہ (آکسیجن) "مفت" ہی تو ملتا ہے۔ باقی سب تو خوبصورت ریپر میں لپٹے روگ ہیں جن کی بہت بھاری قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔۔۔ہر احساس کی قیمت ہے اور بےغرض احساس کی قیمت دل کے سکون کے سوا کچھ بھی نہیں۔
٭نادر ونایاب کوئی بھی رشتہ،تعلق چیز یا کائنات کے مظاہر ہی کیوں نہ ہوں ۔ہمارے ماننےیا سراہنے سے اُسے کچھ بھی فرق نہیں پڑتا۔ فرق صرف ہمیں پڑتا ہے کہ ہم نے اپنی حیات میں اُس کو نہیں پہچانا اور یہ سفر رائیگاں ہی گیا۔ زندگی میں ہر قیمتی احساس ہرنادر لمحہ ہمیں بنا کسی ارادے۔۔۔ بنا کسی خواہش۔۔۔بنا کسی کوشش اور بنا کسی استحقاق کے اچانک ملتا ہے۔ پل میں مالا مال کر کے نگاہوں سے اوجھل ہو جاتا ہے۔یا دل میں جذب ہو جاتا ہے۔اور ہمارے ہاتھ میں صرف بےنام اداسی کی نمی رہ جاتی ہے۔
 ٭ہر پھول بچایا نہیں جا سکتا۔۔۔ کچھ پھول کسی مضبوط چار دیواری کے حصار میں رس خشک ہونے سے ختم ہو جاتے ہیں بنا کسی کو فیض پہنچائے۔ 
 ٭کبھی کوئی کیفیت ِاظہار ۔۔ لفظ کے نشتر سے روح کو زخمی کرتی اور قاری کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتی ہے تو دوسری طرف بےرحم مرہم کا کام بھی کرتی ہے ۔

٭زندگی،بارش اور سفر۔۔۔
زندگی اگر ہائی وے پر محبت کی منزل کی جانب دھیرے دھیرے سفر کرتے۔۔۔آرام دہ گاڑی کی پچھلی نشست پر پسندیدہ میوزک سنتے۔۔بارش کی رم جھم دیکھتے یا پھربارش کے بعد پہلی رات کی دلہن کی طرح شفاف مناظر کو محسوس کرتے گزرتی تو کتنی خوابناک اور حسین ہوتی۔ لیکن !!! زندگی تو نامعلوم بےرحم اور بےمہر منزل کی طرف سرپٹ دوڑتے۔۔۔ اونچے نیچے راستوں اور ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پر۔۔۔غیرمحتاط ڈرائیور کے ساتھ۔۔۔فرنٹ سیٹ پر بیٹھ کر غیرارادی طور پر لایعنی"بریکیں"لگانے کا نام ہے۔۔۔۔طوفانی بارش میں لاٹھی ٹیکےلاچار بوڑھے کی بارش سے بچنے کی ناکام کوشش ہے تو کہیں اس "حسین" موسم کے صدقے دیہاڑی ماری جانے کی دہائی ہے۔.
٭ بارش جو گر رومانس  ہےامیروں کا  تو  عذاب ہے غریبوں کا۔
٭ کچےگھروں کے مکین دل پر اختیار رکھتے ہیں اور نہ ہی چھت پر اور یوں بھی   اندر کی بارش اور باہر کی بارش مل جائے تو کسی شے پر اختیار نہیں رہتا۔۔۔دل پر اور نہ ہی گھر پر۔

٭بارش اور رات انسانوں کو سمجھنے کی کوشش میں کبھی بہت خطرناک بھی ثابت  ہوتے ہیں۔ بارش میں کچے رنگ اور رات میں انسان کا اصل چہرہ دکھائی دیتا ہے۔بہت کم کوئی بارش اور رات کے امتحان میں پورا اتر سکا ۔۔۔صرف وہی جنہیں اپنے رنگوں پر یقین ہوتا ہے اور چہرے پر اعتماد۔
 ۔۔۔۔۔
 ٭ راستوں کی بندشیں قدم روکتی ضرور ہیں ۔۔۔اس سفر میں کرب و اذیت حق ہے اس سے فرار نہیں ۔ لیکن اس کو برداشت کرنے اور اپنانے کا حوصلہ ہر ایک میں یکساں نہیں ہوتا ۔"کرب واذیت" کے یہ کھونٹے دراصل عرفان وآگہی کی طنابیں ہوتی ہیں۔۔۔جو سوچ سفر کی راہ پر سرپٹ دوڑنے والے "مشکی" گھوڑوں کی رفتار بےہنگم اور بےسمت نہیں ہونے دیتیں۔
 ٭ زندگی کو لگے بندھے اصول وضوابط پر برتنے والے اور رٹا لگا کر منزلوں پہ منزلیں مارنے والے کتنے ہی کامیاب اور نام ور کیوں نہ ہو جائیں،کبھی بھی سفر کی اصل لذت کے امین نہیں ہو سکتے۔
 ٭زندگی کی ڈھلوان شاہراہ پر لینڈ سلائیڈنگ اُن کے راستے میں آتی ہیں جو فطرت کی قربت کے تمنائی ہوتے ہیں۔۔ جن کی روح بلند وبالا پہاڑوںسرسبز نظاروں اوربہتے چشموں سے آسودگی حاصل کرتی ہے۔ یہ لینڈ سلائیڈنگ کسی بڑی چاہ کے حصول میں رکاوٹ ہرگز نہیں بنتی۔۔۔ اس ڈھلوان رستے پرانتظار اور برداشت کے انمول زاد راہ نئی توانائی دیتے ہیں ۔۔یوں راستے خودبخود کھلتے چلے جاتے ہیں۔۔ کہ سفر ہے شرط۔ 
٭ہمسفر۔۔۔زندگی پہلی سانس سے آخری سانس تک کی کہانی ہے۔اور اس دوران کہیں بھی کوئی بھی حرف آخر نہیں۔زندگی کے سفر میں ہمسفر قدم قدم پر ملتے اور بچھڑتے جاتے ہیں۔ ہمیں نہ ملنے کا احساس ہوتا ہے اور نا ہی بچھڑنے کا۔ بس کبھی ایسے۔۔۔۔ جیسے سانس آئے تو بےنام تازگی اور نہ آئے تو اندر ہی اندر گھٹن بڑھتی جائے۔"ہمسفر" محض کاغذ کے رشتے سے بننے والےبندھن کا نام نہیں بلکہ یہ ہر اس شے کے احساس کا نام ہے جو ہماری زندگی کی گاڑی کو رواں رکھنے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ایک لفظ سلیپنگ پارٹنر سنا ہو گا جو بزنس کے حوالے سے ہوتا ہے لیکن ایک عام یا خاص تعلق میں بھی استعمال کر لیں تو یہی معنی دیتا ہے۔ نام۔مقام۔جنس اور وقت کے طےشدہ فاصلوں سے قطع نظر ایک سلیپنگ دوست بھی ہو سکتا ہے۔۔۔جس سے ہم زندگی میں پہلی بار ملیں تو یوں لگے جیسے پہلی بار سے پہلے بھی بہت دفعہ مل چکے ہیں اور پھر چند لمحوں میں قربتوں کے وہ مرحلے طے ہو جائیں جہاں برسوں ساتھ رہنے والے بھی نہیں پہنچ پاتے۔اور اہم بات یہ ہے کہ ایسے دوست اگر پہلی بار کے بعد کبھی نہ مل پائیں پھر بھی ان کا احساس ہمیشہ ساتھ رہتا ہے۔ اور انہیں قریب پاتا ہے۔
 ٭"رشتے"۔۔۔ رشتوں کی مجبوری ہوتی ہے کہ انہیں ہر حال میں استوار رکھنا پڑتا ہے۔تعلق صرف خاموشی سے بنا کسی طلب کے بس نبھائے جاتے ہیں۔رشتوں اور تعلقات کو بغیر چھان پھٹک کیے۔۔بنا کسی پیمانے کے بس چلنے دیناچاہئیے.. وقت خود اپنے حساب سے سب کی پرکھ کر دیتا ہے.. بس یہی ہمارا اختیار ہے اگر سمجھیں۔
 ٭ "المیہ"۔۔۔بحثیت قوم ہمارا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم بغیر کسی ٹھوس ثبوت کے ایک پل میں کسی کو ہیرو تو کبھی زیرو بنا دیتے ہیں۔ شہید یا مردہ اور مومن و کافر کے مخمصے میں اپنی ساری توانائیاں صرف کرتے ہوئے۔۔۔ یہ بھی نہیں سوچتے کہ ہم کس صف میں کھڑے ہوں گے جب وقت کی بال ہمارے کورٹ میں آئے گی۔ہم تو ایسی زندہ لاشیں بن چکے ہیں جن کی بس سانس کا زیروبم ہی زندگی کی علامت ہے۔اجتماعی سے انفرادی سطح تک ہر جگہ اور معاشرتی سے جذباتی استحصال تک بقول شاعر۔۔۔۔"ہر گھڑی درد کے پیوند لگے جاتے ہیں۔ 
 ٭چابی۔۔۔ چاہے دل کی ہو یا در کی ایک بارکسی کے حوالے کر دی پھر کسی صورت واپس نہیں لی جا سکتی کہ وہ محض ایک بار داخل ہو کر بھی اندر کا سب حال جان لیتا ہے۔ روٹھنا خفا ہونا یا پھر دھوکا کھاجانا صرف ہماری ہی خطا اور بےخبری کے سوا کچھ نہیں۔ 
 ٭بےخبری ۔۔۔بظاہر ہم لوگوں کے رویوں کے خوف یا اللہ کی پکڑ سے ڈرتے ہوئے زندگی کو جھوٹی اطاعت کا دھوکہ دیتے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ ہم اپنے دل کی بات بھی نہیں سنتے اور نہ ہی مانتے ہیں جس پر سچ الہام ہوتا ہے۔اللہ ہمیں ان کی 
صف میں شامل ہونے سے پناہ دے جن کے قلوب پر مہر لگ جاتی ہے۔ آمین
۔۔۔۔۔
٭کیا وا قعی خوا ہشوں کی تتلی ا س قابل تھی کہ اس کے پیچھےعمر سراب کی جا ئے ۔
 ۔۔۔۔۔۔
٭ مثبت سوچ  اور منفی سوچ صرف سوچنے کی بات ہے۔ سارا  مسئلہ پیٹ کا ہے جوسوچ کی کارفرمائی  پر  حکمرانی کرتا ہے  کہ خالی پیٹ کی آگ  ہر احساس ،ہر جذبے کو بھسم کر  کے  حلال حرام، عزت، غیرت  کا فرق مٹا دیتی ہے  تو بھرے پیٹ کی سوچ  محض اپنی جمع شدہ "غلاظت" نکالنے کے حساب کتاب سے آگے نہیں بڑھ پاتی۔ 
,,,,,,,,
٭اس فانی دنیا کی اندھی لذتوں کی راہ پرہمارا وجود حیوانی جبلتوں، مادی خواہشوں اور کھکھناتی حسرتوں کے خمیر  سے گُندھا ایسا اتھرا گھوڑا ہے جس پر اگر رشتوں کی مضبوط کاٹھی اور ذمہ داریوں کی سواری  محسوس نہ  کی جائےتو  غفلت کے چند لمحوں میں  یہ ذلتوں کی  کھائی میں  گر کر ہڈی پسلی تڑوا بیٹھتا ہے۔یوں زندگی طاقتِ پرواز  کھو دیتی ہے اور محض گوشت پوست کے بدبو دار ڈھیر کی صورت گھسٹتی چلی جاتی  ہے۔
۔۔۔۔
٭خاموشی اور تنہائی۔۔
خاموشی رب کائنات کی وہ صفتِ عظیم ہے جس کا ادراک صرف غور کرنے والے اذہان ہی کر سکتے ہیں۔ اس عظیم الشان کائنات کا ذرہ ذرہ خالق کائنات کی عظمت اور شان کی گواہی دیتا ہے اور وہ مالک صرف یہ کہتا ہے کہ کوئی ہےجو سمجھے،کوئی ہے جو دیکھے۔
اگر سمجھا جائے توخاموشی بہت بڑا انعام بھی ہے کہ یہ تنہائی کے بطن سے جنم لیتی ہےاور تنہائی بہت کم کسی کا نصیب ہے۔ بقول شاعر
یوں تو ہر شخص اکیلا ہے بھری دنیا میں
پھر بھی ہر دل کے مقدر میں نہیں تنہائی
خاموشی نجات ہے تو انسان کے لیے ایک ایسا طوق بھی ہےجو سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں سلب کر کے اپنی ذات کے حصار میں قید کر دیتی ہے۔خاموشی کو مصلحت کی چادر میں لپیٹ کر اوڑھنے والوں کو درحقیقت قدم قدم پر سمجھوتے کرنا پڑتے ہیں وہ ایک ایسی بت پرستی کے گرداب میں آ جاتے ہیں جہاں ساری عمرپتھروں سے سر مارتے گزر جاتی ہے اور فلاح کی آواز سنائی نہیں دیتی۔
٭جیسے عام طور پر سوچا جاتا ہے کہ ہر چیز پہلے سے طے شدہ ہے۔ قسمت یا تقدیر میں سب لکھا ہے وغیرہ وغیرہ۔ لیکن یہ بھی بتایا گیا ہے کہ پہلا قدم اٹھانا انسان کے اختیار میں ہے دوسرا نہیں۔ اور دوسرا صرف اللہ کا فضل ہے۔ اور اسی دعا کی تلقین بھی کی گئی ہے۔
٭ہم بہت سی گرہوں میں الجھے ہیں اور سامنے  رہنما ہے اور نہ ہی کوئی ساتھ ،روز ایک گرہ کھولتےہیں اور اگلی اس سے زیادہ منتظر ملتی ہے۔
۔۔۔۔

"سیٹل اور سیٹل منٹ"

سورۂ فرقان(25) آیت 2۔۔   وَخَلَقَ كُلَّ شَىْءٍ فَقَدَّرَهٝ تَقْدِيْـرًا ترجمہ۔ اور جس نے ہر شے کو پیدا کیا اور پھر اس کے لیے ایک اند...