داوڑ قبیلے ( شمالی وزیرستان) کی ایک دوست کو 2014 کا پیغام عید
اپنے " گھروں " میں اپنے" اہل خانہ" کے ساتھ سکون کی گھڑیاں گزارنے والے تمام احباب کو "عید" مبارک ہو۔اے خداوندِجہاں بزمِ ارم کے معبود
ترے دربار میں سامانِ خوشی کم تو نہیں
پھر یہ غریبوں کے مکانوں پہ اداسی کیسی
عید کا دن ہے کوئی شامِ محرم تو نہیں
ایک دوست کے مدھم اور میٹھے لہجے کی یاد دلاتے یہ اشعار برسوں سے میری ڈائری پر جگمگاتے ہیں۔
دورسنگلاخ پہاڑوں کے سخت جان باسی ۔۔
اور جادو جگاتی کنچا آنکھوں والے چہروں کے بیچ۔۔
میری وہ دوست!!!۔
جس کا خمیر اس مٹی سے اٹھا تھا۔۔۔
جہاں کے بسنے والے آج اپنی آبائی زمین سے محض چند میل کی دوری پر۔۔۔
بےنام مستقبل کے اندیشوں میں۔۔۔ حال سے بےحال ہوئے جا رہے ہیں۔۔۔
اس ماضی کا خراج ادا کرتے۔۔۔اس خون آشام فصل کا پھل کھاتے ۔۔۔
جس نے ان کی معصوم کلیوں کے بدن سے رس نچوڑ لیا ۔۔
جس کے کانٹے ان کی باپردہ خواتین کے سر کی ردا اور بدن کی قبا تار تار کیے دے رہے ہیں۔۔۔
جس کی لاحاصل بیگار ان کے جوان جسموں کی آنکھوں سے امید کی کرن نوچ کر مایوسی اور محرومی کے اندھیرے اتار رہی ہے۔
اور وہ جیئے جارہے ہیں ۔
چلے چلے رہے ہیں۔۔
ایک اجنبی سرزمین پر اپنے پن کی تلاش میں۔۔
ایک ایسی منزل کی جانب جونسلوں کی کمائی مانگتی ہے۔
اور!!!۔
پاک فوج کے پاک جوان گھر کے آرام وسکون اور اپنے بچوں کی خوشیوں سے بےنیاز اپنا فرض نبھائے جا رہے ہیں۔
اللہ سب کو اُن کی نیتوں کا پھل دے۔آمین۔۔(جولائی 31۔۔۔۔2014)۔
پسِ تحریر۔۔۔۔
یہ محض "قصہ" ہی نہیں ایک نوحہ ہے ہمارے قریب رہنے والوں پر زندگی تنگ ہونے کا۔۔۔
ایک طمانچہ ہے ہماری بےخبری کے منہ پر۔۔۔۔
اور ایک المیے کا بیان ہے جو وقتی نہیں بلکہ آئندہ نہ جانے کتنی نسلوں کو اس کا خراج ادا کرنا پڑے گا۔ہم شہروں میں رہنے والے صرف یہ کہہ کر اپنے آپ کو بری الذمہ نہیں ٹھہرا سکتے کہ ان لوگوں کو دہشتگردوں کو پناہ دینے کے جرم کی سزا مل رہی ہے۔یہ وہ آگ ہے جس کی زد سے ہم جسمانی طور پر بچ بھی جائیں پر اخلاقی طور پر بحیثیت ایک انسان ہونے کے اس کی تپش ہماری دنیا وآخرت کو برباد کرنے کو کافی ہے۔
انسان بھولتا اسے ہے جسے یاد نہ رکھنا چاہے۔ مجھے سب یاد ہے ۔۔۔ہمارا ماضی اور اس سے بڑھ کر بحیثیت قوم ہمارا حال۔میں اس علاقے میں کبھی نہیں گئی لیکن ایک دوست کےحوالے سے وہ جگہ میرے لیے اجنبی قطعاً نہیں اور"داوڑ" تو میری یاد میں آج بھی جگمگاتا ہے جب خط لکھتے وقت اس کے والد کے نام کے ساتھ لکھتی تھی۔آج کے اسلام آباد کے فسادی مسائل میں "میران شاہ" اور اس کے قریبی علاقوں کے مکینوں کے مسائل و پریشانیاں کہیں چھپ کر رہ گئے ہیں۔اللہ ہم سب کے حال پر رحم کرے۔ تقدیر کا چکر کبھی بھی کسی کو اوپر سے نیچے لا سکتا ہے۔ ( نورین تبسم)۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں