جمعرات, جولائی 02, 2015

"کرنیں (6)"

کرنیں (6)۔
 ٭ تخلیقِ آدم سے پہلے ہماری ارواح کا پہلا عمل۔۔۔ لفظ پر ایمان ہی ہمارا اصل ایمان ہے۔ 
 ٭زندگی ہر پل کچھ سیکھنے کے عمل کا نام ہی تو ہے اور ہم سب ہی ایک دوسرے سے بہت کچھ پاتے ہیں۔ شرط صرف ایک کہ بےغرض دیں تو بےکراں ملے گا۔
٭ہماری کیمسٹری۔۔۔زندگی اور موت محض ایک عمل ہے پانی کی طرح۔۔۔جو کبھی مائع ہوتا ہے توکبھی ٹھوس اور کبھی گیس بن کر اُڑ جاتا ہےلیکن اپنی شکل تبد یل کرنے سے اُس کی کیمسٹری نہیں   بدلتی۔یہ عمل مسلسل جاری ہے  ایک فیز سے دوسرے فیز میں۔اور یہی ہمارا لائف سائیکل ہے۔
 ٭"روحانیت" ۔۔۔پتہ نہیں کیا چیز ہے۔۔۔۔بس یہ جانو کہ لوگ چلے جاتے ہیں لیکن سفر نہیں رکتا۔۔۔ ایک کے بعد ایک ان کی جگہ لے لیتا ہے۔۔۔ جیسے ایک لہر کے بعد دوسری ۔
 میں خود بھی نہیں جانتی یہ سب کیا ہے ؟ بس جب خود بخود ہی ہوا چلنے لگے بنا کوئی تردد کیے..کوئی چاہ کیے تو اس کو سمجھنے ۔۔۔ ادب کرنے اور جذب کرنے کی صلاحیت کا نام ہے۔
 ٭" بیسٹ سیلر" .... کبھی خود اپنی قیمت نہیں لگاتا اور نہ ہی اس کا تعین کرتا ہے یہ دیکھنے والی آنکھ اور جذب کرنے والی نگاہ کا کمال ہے کہ وہ قطرے میں سمندر دیکھ لیتی ہے تو کبھی سمندر میں گہر پا لیتی ہے۔
٭"راہ بر"۔۔۔۔کچھ لوگ راہ دیکھتے چلتے ہیں۔۔۔کچھ راہ دکھاتے۔۔۔کچھ ہمیں اپنے جیسا بنا لیتے ہیں تو کچھ ہمیں خود سے بھی بیگانہ کر دیتے ہیں۔کچھ ہماری ضرورت بن جاتے ہیں اور کچھ ضرورت کی تکمیل۔ 
٭"بہت ہو گئی زندگی" اب کیا کیسٹ کو بار بار ریواینڈ کر کے دیکھنا۔۔۔عجیب لاجک ہے محبت اور ہوس کی۔۔۔پہلا لمس ہی آخری رہے تو یاد میں ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔ ورنہ بار بار کی یاددہانی سے بھی سیری کی کیفیت نہیں ملتی۔ 
 ٭"یاد"۔۔۔محبتوں کے رشتے ہمیشہ پاس ہی رہتے ہیں۔ لفظ کی صورت ان کا احساس محفوظ کر سکیں تو ہمیشہ کے لیے بچھڑ جانے کے بعد بھی ان کی قربت کی خوشبو آس پاس ہی مہکتی ملتی ہے۔
 ٭خودی"۔۔۔خود ترسی کے اندھیروں اور خود پرستی کی چکاچوند میں بھٹکنے والا خدا شناسی کی رفعتوں سے ہم کلامی کا شرف کھو دیتا ہے۔خود کو سمجھنے کے لیے ذرا دور جانا پڑتا ہے... اپنے اندر سے باہر نکل کر اپنی تلاش کی جاتی ہے۔کاش دُنیا کے رازوں اور اس کی بلندوبالا چوٹیوں کو سر کرنے کے جنون اور دوڑ میں شامل ہونے والے جان سکیں کہ اُن کے اندر ابھی بہت سی ان چھوئی دنیائیں تسخیر کے لمس کی منتظر ہیں۔
 ٭ "ڈر"۔۔۔۔ڈر اور محبت لازم وملزوم ہیں۔ کبھی محبت ڈر کی شدت کے سامنے اپنا آپ دان کر دیتی ہے تو کبھی ڈر محبت کی کوکھ سے جنم لیتا ہے۔ ڈر بنیادی طور پر محبت کی تخلیق ہے۔۔۔وہ تخلیق جو منہ زور خواہشوں اور ناآسودہ جذبوں کے ملاپ سے تقدیر کے مہیب اندھیروں میں رہتے ہوئے یوں چپکے سے محبت کی کوکھ میں اُترتی ہے کہ جسم تو کیا روح بھی اِس انجان مہربان کی قربت سے گریزاں نظر آتے ہیں۔ ڈر کا کرب دھیرے دھیرے محبت کے لمس سے رام ہوتا ہے۔۔۔لیکن یہ آسیب کی طرح ہمیشہ ساتھ رہتا ہے۔ایک سائے کی مانند جو دکھتا تو ہے پر صرف دیکھنے والی آنکھ کو اور ۔۔۔دل کی آنکھ کبھی اُسے خاطر میں نہیں لاتی ۔
 ٭ "انمول"۔۔۔ اس دنیا میں مفت میں کچھ بھی نہیں ملتا ۔ہر چیز کی قیمت ہے۔ہر احساس برائے فروخت ہے۔ جو جتنا قیمتی ہے اُتنا ہی نازک بھی ۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ دنیا کا بنیادی زندگی بخش تُحفہ (آکسیجن) "مفت" ہی تو ملتا ہے۔ باقی سب تو خوبصورت ریپر میں لپٹے روگ ہیں جن کی بہت بھاری قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔۔۔ہر احساس کی قیمت ہے اور بےغرض احساس کی قیمت دل کے سکون کے سوا کچھ بھی نہیں۔
٭نادر ونایاب کوئی بھی رشتہ،تعلق چیز یا کائنات کے مظاہر ہی کیوں نہ ہوں ۔ہمارے ماننےیا سراہنے سے اُسے کچھ بھی فرق نہیں پڑتا۔ فرق صرف ہمیں پڑتا ہے کہ ہم نے اپنی حیات میں اُس کو نہیں پہچانا اور یہ سفر رائیگاں ہی گیا۔ زندگی میں ہر قیمتی احساس ہرنادر لمحہ ہمیں بنا کسی ارادے۔۔۔ بنا کسی خواہش۔۔۔بنا کسی کوشش اور بنا کسی استحقاق کے اچانک ملتا ہے۔ پل میں مالا مال کر کے نگاہوں سے اوجھل ہو جاتا ہے۔یا دل میں جذب ہو جاتا ہے۔اور ہمارے ہاتھ میں صرف بےنام اداسی کی نمی رہ جاتی ہے۔
 ٭ہر پھول بچایا نہیں جا سکتا۔۔۔ کچھ پھول کسی مضبوط چار دیواری کے حصار میں رس خشک ہونے سے ختم ہو جاتے ہیں بنا کسی کو فیض پہنچائے۔ 
 ٭کبھی کوئی کیفیت ِاظہار ۔۔ لفظ کے نشتر سے روح کو زخمی کرتی اور قاری کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتی ہے تو دوسری طرف بےرحم مرہم کا کام بھی کرتی ہے ۔

٭زندگی،بارش اور سفر۔۔۔
زندگی اگر ہائی وے پر محبت کی منزل کی جانب دھیرے دھیرے سفر کرتے۔۔۔آرام دہ گاڑی کی پچھلی نشست پر پسندیدہ میوزک سنتے۔۔بارش کی رم جھم دیکھتے یا پھربارش کے بعد پہلی رات کی دلہن کی طرح شفاف مناظر کو محسوس کرتے گزرتی تو کتنی خوابناک اور حسین ہوتی۔ لیکن !!! زندگی تو نامعلوم بےرحم اور بےمہر منزل کی طرف سرپٹ دوڑتے۔۔۔ اونچے نیچے راستوں اور ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پر۔۔۔غیرمحتاط ڈرائیور کے ساتھ۔۔۔فرنٹ سیٹ پر بیٹھ کر غیرارادی طور پر لایعنی"بریکیں"لگانے کا نام ہے۔۔۔۔طوفانی بارش میں لاٹھی ٹیکےلاچار بوڑھے کی بارش سے بچنے کی ناکام کوشش ہے تو کہیں اس "حسین" موسم کے صدقے دیہاڑی ماری جانے کی دہائی ہے۔.
٭ بارش جو گر رومانس  ہےامیروں کا  تو  عذاب ہے غریبوں کا۔
٭ کچےگھروں کے مکین دل پر اختیار رکھتے ہیں اور نہ ہی چھت پر اور یوں بھی   اندر کی بارش اور باہر کی بارش مل جائے تو کسی شے پر اختیار نہیں رہتا۔۔۔دل پر اور نہ ہی گھر پر۔

٭بارش اور رات انسانوں کو سمجھنے کی کوشش میں کبھی بہت خطرناک بھی ثابت  ہوتے ہیں۔ بارش میں کچے رنگ اور رات میں انسان کا اصل چہرہ دکھائی دیتا ہے۔بہت کم کوئی بارش اور رات کے امتحان میں پورا اتر سکا ۔۔۔صرف وہی جنہیں اپنے رنگوں پر یقین ہوتا ہے اور چہرے پر اعتماد۔
 ۔۔۔۔۔
 ٭ راستوں کی بندشیں قدم روکتی ضرور ہیں ۔۔۔اس سفر میں کرب و اذیت حق ہے اس سے فرار نہیں ۔ لیکن اس کو برداشت کرنے اور اپنانے کا حوصلہ ہر ایک میں یکساں نہیں ہوتا ۔"کرب واذیت" کے یہ کھونٹے دراصل عرفان وآگہی کی طنابیں ہوتی ہیں۔۔۔جو سوچ سفر کی راہ پر سرپٹ دوڑنے والے "مشکی" گھوڑوں کی رفتار بےہنگم اور بےسمت نہیں ہونے دیتیں۔
 ٭ زندگی کو لگے بندھے اصول وضوابط پر برتنے والے اور رٹا لگا کر منزلوں پہ منزلیں مارنے والے کتنے ہی کامیاب اور نام ور کیوں نہ ہو جائیں،کبھی بھی سفر کی اصل لذت کے امین نہیں ہو سکتے۔
 ٭زندگی کی ڈھلوان شاہراہ پر لینڈ سلائیڈنگ اُن کے راستے میں آتی ہیں جو فطرت کی قربت کے تمنائی ہوتے ہیں۔۔ جن کی روح بلند وبالا پہاڑوںسرسبز نظاروں اوربہتے چشموں سے آسودگی حاصل کرتی ہے۔ یہ لینڈ سلائیڈنگ کسی بڑی چاہ کے حصول میں رکاوٹ ہرگز نہیں بنتی۔۔۔ اس ڈھلوان رستے پرانتظار اور برداشت کے انمول زاد راہ نئی توانائی دیتے ہیں ۔۔یوں راستے خودبخود کھلتے چلے جاتے ہیں۔۔ کہ سفر ہے شرط۔ 
٭ہمسفر۔۔۔زندگی پہلی سانس سے آخری سانس تک کی کہانی ہے۔اور اس دوران کہیں بھی کوئی بھی حرف آخر نہیں۔زندگی کے سفر میں ہمسفر قدم قدم پر ملتے اور بچھڑتے جاتے ہیں۔ ہمیں نہ ملنے کا احساس ہوتا ہے اور نا ہی بچھڑنے کا۔ بس کبھی ایسے۔۔۔۔ جیسے سانس آئے تو بےنام تازگی اور نہ آئے تو اندر ہی اندر گھٹن بڑھتی جائے۔"ہمسفر" محض کاغذ کے رشتے سے بننے والےبندھن کا نام نہیں بلکہ یہ ہر اس شے کے احساس کا نام ہے جو ہماری زندگی کی گاڑی کو رواں رکھنے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ایک لفظ سلیپنگ پارٹنر سنا ہو گا جو بزنس کے حوالے سے ہوتا ہے لیکن ایک عام یا خاص تعلق میں بھی استعمال کر لیں تو یہی معنی دیتا ہے۔ نام۔مقام۔جنس اور وقت کے طےشدہ فاصلوں سے قطع نظر ایک سلیپنگ دوست بھی ہو سکتا ہے۔۔۔جس سے ہم زندگی میں پہلی بار ملیں تو یوں لگے جیسے پہلی بار سے پہلے بھی بہت دفعہ مل چکے ہیں اور پھر چند لمحوں میں قربتوں کے وہ مرحلے طے ہو جائیں جہاں برسوں ساتھ رہنے والے بھی نہیں پہنچ پاتے۔اور اہم بات یہ ہے کہ ایسے دوست اگر پہلی بار کے بعد کبھی نہ مل پائیں پھر بھی ان کا احساس ہمیشہ ساتھ رہتا ہے۔ اور انہیں قریب پاتا ہے۔
 ٭"رشتے"۔۔۔ رشتوں کی مجبوری ہوتی ہے کہ انہیں ہر حال میں استوار رکھنا پڑتا ہے۔تعلق صرف خاموشی سے بنا کسی طلب کے بس نبھائے جاتے ہیں۔رشتوں اور تعلقات کو بغیر چھان پھٹک کیے۔۔بنا کسی پیمانے کے بس چلنے دیناچاہئیے.. وقت خود اپنے حساب سے سب کی پرکھ کر دیتا ہے.. بس یہی ہمارا اختیار ہے اگر سمجھیں۔
 ٭ "المیہ"۔۔۔بحثیت قوم ہمارا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم بغیر کسی ٹھوس ثبوت کے ایک پل میں کسی کو ہیرو تو کبھی زیرو بنا دیتے ہیں۔ شہید یا مردہ اور مومن و کافر کے مخمصے میں اپنی ساری توانائیاں صرف کرتے ہوئے۔۔۔ یہ بھی نہیں سوچتے کہ ہم کس صف میں کھڑے ہوں گے جب وقت کی بال ہمارے کورٹ میں آئے گی۔ہم تو ایسی زندہ لاشیں بن چکے ہیں جن کی بس سانس کا زیروبم ہی زندگی کی علامت ہے۔اجتماعی سے انفرادی سطح تک ہر جگہ اور معاشرتی سے جذباتی استحصال تک بقول شاعر۔۔۔۔"ہر گھڑی درد کے پیوند لگے جاتے ہیں۔ 
 ٭چابی۔۔۔ چاہے دل کی ہو یا در کی ایک بارکسی کے حوالے کر دی پھر کسی صورت واپس نہیں لی جا سکتی کہ وہ محض ایک بار داخل ہو کر بھی اندر کا سب حال جان لیتا ہے۔ روٹھنا خفا ہونا یا پھر دھوکا کھاجانا صرف ہماری ہی خطا اور بےخبری کے سوا کچھ نہیں۔ 
 ٭بےخبری ۔۔۔بظاہر ہم لوگوں کے رویوں کے خوف یا اللہ کی پکڑ سے ڈرتے ہوئے زندگی کو جھوٹی اطاعت کا دھوکہ دیتے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ ہم اپنے دل کی بات بھی نہیں سنتے اور نہ ہی مانتے ہیں جس پر سچ الہام ہوتا ہے۔اللہ ہمیں ان کی 
صف میں شامل ہونے سے پناہ دے جن کے قلوب پر مہر لگ جاتی ہے۔ آمین
۔۔۔۔۔
٭کیا وا قعی خوا ہشوں کی تتلی ا س قابل تھی کہ اس کے پیچھےعمر سراب کی جا ئے ۔
 ۔۔۔۔۔۔
٭ مثبت سوچ  اور منفی سوچ صرف سوچنے کی بات ہے۔ سارا  مسئلہ پیٹ کا ہے جوسوچ کی کارفرمائی  پر  حکمرانی کرتا ہے  کہ خالی پیٹ کی آگ  ہر احساس ،ہر جذبے کو بھسم کر  کے  حلال حرام، عزت، غیرت  کا فرق مٹا دیتی ہے  تو بھرے پیٹ کی سوچ  محض اپنی جمع شدہ "غلاظت" نکالنے کے حساب کتاب سے آگے نہیں بڑھ پاتی۔ 
,,,,,,,,
٭اس فانی دنیا کی اندھی لذتوں کی راہ پرہمارا وجود حیوانی جبلتوں، مادی خواہشوں اور کھکھناتی حسرتوں کے خمیر  سے گُندھا ایسا اتھرا گھوڑا ہے جس پر اگر رشتوں کی مضبوط کاٹھی اور ذمہ داریوں کی سواری  محسوس نہ  کی جائےتو  غفلت کے چند لمحوں میں  یہ ذلتوں کی  کھائی میں  گر کر ہڈی پسلی تڑوا بیٹھتا ہے۔یوں زندگی طاقتِ پرواز  کھو دیتی ہے اور محض گوشت پوست کے بدبو دار ڈھیر کی صورت گھسٹتی چلی جاتی  ہے۔
۔۔۔۔
٭خاموشی اور تنہائی۔۔
خاموشی رب کائنات کی وہ صفتِ عظیم ہے جس کا ادراک صرف غور کرنے والے اذہان ہی کر سکتے ہیں۔ اس عظیم الشان کائنات کا ذرہ ذرہ خالق کائنات کی عظمت اور شان کی گواہی دیتا ہے اور وہ مالک صرف یہ کہتا ہے کہ کوئی ہےجو سمجھے،کوئی ہے جو دیکھے۔
اگر سمجھا جائے توخاموشی بہت بڑا انعام بھی ہے کہ یہ تنہائی کے بطن سے جنم لیتی ہےاور تنہائی بہت کم کسی کا نصیب ہے۔ بقول شاعر
یوں تو ہر شخص اکیلا ہے بھری دنیا میں
پھر بھی ہر دل کے مقدر میں نہیں تنہائی
خاموشی نجات ہے تو انسان کے لیے ایک ایسا طوق بھی ہےجو سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں سلب کر کے اپنی ذات کے حصار میں قید کر دیتی ہے۔خاموشی کو مصلحت کی چادر میں لپیٹ کر اوڑھنے والوں کو درحقیقت قدم قدم پر سمجھوتے کرنا پڑتے ہیں وہ ایک ایسی بت پرستی کے گرداب میں آ جاتے ہیں جہاں ساری عمرپتھروں سے سر مارتے گزر جاتی ہے اور فلاح کی آواز سنائی نہیں دیتی۔
٭جیسے عام طور پر سوچا جاتا ہے کہ ہر چیز پہلے سے طے شدہ ہے۔ قسمت یا تقدیر میں سب لکھا ہے وغیرہ وغیرہ۔ لیکن یہ بھی بتایا گیا ہے کہ پہلا قدم اٹھانا انسان کے اختیار میں ہے دوسرا نہیں۔ اور دوسرا صرف اللہ کا فضل ہے۔ اور اسی دعا کی تلقین بھی کی گئی ہے۔
٭ہم بہت سی گرہوں میں الجھے ہیں اور سامنے  رہنما ہے اور نہ ہی کوئی ساتھ ،روز ایک گرہ کھولتےہیں اور اگلی اس سے زیادہ منتظر ملتی ہے۔
۔۔۔۔

1 تبصرہ:

  1. موتی تو تراش لئے آپ نے۔۔۔کسی لڑی میں پروئیں تو بات بنے؟؟؟؟پڑھ کر سوچنا پڑھ رہا ہے اور ابھی اتنی عیاشی کا متحمل نہیں۔۔۔ہمیشہ کی طرح اچھا لکھا ہے۔۔۔مجھ ایسے بہت سوں سے بہت اچھا ۔۔۔۔

    جواب دیںحذف کریں

"کتبہ"

"کتبہ" جس طورانسانوں کی دنیا اور انسانوں کے ہجوم میں ہر آن اضافہ ہو رہا ہے تو اس طرح قبرستان بھی تیزی سے آبادہو رہے ہیں۔ گھر...