بدھ, جولائی 29, 2015

"قسم اس وقت کی"

تحریکِ پاکستان سے قیام پاکستان اور آج کے لکھاری۔
تاریخ تحریکِ پاکستان سے قیام پاکستان تک کی کہانی ایک ایسی داستان ہے جس کے گواہ نہ صرف ہجرت کر کے آنے والے پاکستانی ہیں بلکہ پاکستان میں پہلے سے مقیم پاکستانی بھی بہت سے واقعات کےعینی شاہد ہیں۔ پاکستان کے قیام کو 69 برس مکمل ہوچکےاور ستر کا ہندسہ چند ماہ کی دوری پر ہے۔۔اس وقت نہ صرف وہ نسل اپنی صحت کے مسائل سے نپٹتے ہوئےتمام واقعات بیان کر سکتی ہے جو اُن کی جوانی کے دور میں پیش آئے بلکہ اس دور میں ذرا سا ہوش سنبھالنے والے بچے (جو آج اپنے گھروں کی عافیت میں ہمارے بزرگ ہیں)اس بارے میں بہت کچھ کہتے بھی رہتے ہیں۔ ہر باشعور پاکستانی کے گھر میں اس کےبچپن میں یا کبھی نہ کبھی اس نے کہیں نہ کہیں پاکستان کہانی ضرور سنی ہو گی۔ آج کے لکھاری کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ کانوں سے سنا وہ احوال سامنے لائیں جو کسی اپنے یا غیر کی آنکھوں نے دیکھا۔ان کی یاد میں سمٹےاحساس کواپنے لفظ کی زبان دیں۔کوئی واقعہ کوئی بات جو ہم نے اپنے بڑوں سے سنی اور یقیناً سنی ہو گی۔ اس میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ قیام پاکستان ایک معجزہ ہےاوراُس وقت ہوش وحواس کی دنیا میں سانس لینے والا ہر پاکستانی اس بارے میں کچھ نہ کچھ جانتا ضرور ہے۔
پڑھنے والے ایک بات دل سے محسوس کریں گے کہ تیس کے ہندسے کو تیزی سے پھلانگتی،چالیس اور بچاس کے عشروں کی بےیقینی میں سانس لیتی اور ساٹھ کے سکون کی خام خیالی میں قدم رکھتی ہماری یہ نسل بس آخری نسل ہے جو تجربات وحوادث کی بھٹی میں حدت محسوس کرتی کندن ہو گئی اور جس کی آنکھ وطن کے حوالے سے ناقابلَ یقین معاشرتی اور سیاسی اتارچڑھاؤ کی گواہ ہے۔ ہمارے بعد آنے والے شاید وہ درد اور دکھ نہیں جانتے جو ہم نے نہ صرف ذاتی طور پر بلکہ اجتماعی طور پر بھی برداشت کیے۔ایک کڑوا سچ یہ بھی ہے کہ نئے سفر کے نئے مسافروں کو اِن الف لیلوی قصوں سے کوئی سروکار ہے اور نہ ہی یہ سب جاننا اُن کی تیزرفتار زندگی میں اولین ترجیح رکھتا ہے۔آج کی نسل سے کوئی شکوہ ہرگز نہیں کہ آسودگی میں آنکھ کھولنا ان کی غلطی نہیں۔انسان جس دور میں پیدا ہوتا ہے اسی دور کے حالات اس کی ساری زندگی کے احساسات میں لاشعوری طور پر اثرانداز ہوتے ہیں۔۔۔ جیسے دُنیا خصوصاً برصغیر میں گذشتہ صدی کے پہلے پچاس سال والا دور افراتفری اور بےیقینی کا دور تھا۔ تقسیمِ بنگال کے بعد پہلی جنگِ عظیم سے شروع ہونے والے پےدرپے حالات واقعات بڑی تیزی سے سیاسی منظر نامہ بدل رہے تھے۔عام انسان کے لیے کسی بھی راستے کا انتخاب کرنا دشوار سے دشوار تر ہوتا چلا جا رہا تھا۔خصوصاً جب قوم کے رہنما بھی کسی ایک منزل کی نشاندہی کرنے سے قاصر دکھتے تھے۔اس دور میں( 1947 سے پہلے اور اس کے فوراً بعد) بیتے گئے وہ چھوٹے چھوٹے واقعات بھی بہت اہم ہیں جن کا تذکرہ ہم نے بڑوں سے سنا۔ایسی باتیں چاہے ہندوستان میں رہنے والوں کی اس وقت کی یاد میں ہیں یا ہجرت کرنے والوں کی اور یا ہمیشہ سے پاکستان میں رہنے والوں کے پاس۔ پڑھے پڑھائے اور رٹےرٹائے سے ہٹ کر جومحسوس کرنے والی آنکھ نے کسی دوسری آنکھ سے "سن" کر اپنی روح میں جذب کیا اُسے لفظ کے قالب میں ڈھالنے کی سعی ایک لکھاری پر فرض بھی ہے۔خیال رہےکہ برہنگی جسم کی ہو یا لفظ کی حدود وقیود کے اندر ہو تو دیکھنے والے پڑھنے پر بار نہیں بنتی۔ لیکن بہت کم کوئی اس میں فرق روا رکھتا ہے ہم جسم کی برہنگی تو سمجھتے ہیں لیکن سفاک حقائق کو بیان کرنا آزادی اظہار۔
بات سچ جاننا یا سچ ماننا نہیں بلکہ اس کو دنیا کے سامنے ثابت کرنا ہے اور یہ سب سے بڑا کڑوا سچ ہے۔ ہم عام لوگ ہیں جومحض اپنی زندگی کے وہ سچ سامنے لاتے ہیں جن کی گواہ ہماری آنکھیں اور ہمارے لمس ہیں۔ تاریخ کے حوالے اور تاریخ کی باتیں "اُن تاریخ دانوں" کا دردِ سر ہیں جو کبھی تو شاہوں کے دربار میں آنے والی نسلوں کے ذہن تک سے سچائی چھپانے کو قصیدہ گوئی کرتے اور لکھتے تھے۔کبھی نسلی یا مذہبی تعصب اورپیدائشی تنگ نظری ان کی نظر کا کینوس محدود کر دیتی ہے۔
۔"اعلیٰ ذہنوں" کے حامل پڑھے لکھے ڈگری یافتہ دانشور صرف ایک بات نہیں جانتے کہ تاریخ نہ صرف اپنے آپ کو دہراتی ہے بلکہ وقت کے ساتھ بہت سے بےرحم سچ خودبخود عیاں بھی کر دیتی ہے لیکن صرف اُن کے سامنے جن کی آنکھیں کھلی ہوں۔اہم بات یہ بھی کہ تاریخ کے سچ کی "برہنگی"دکھانے کا کوئی حاصل بھی تو نہیں۔ یہ صرف گڑے مردے اکھاڑنے والی بات ہے۔بس جو جان لو اس کو اپنے اندر اتار لو اور محض وقتی بحث یا زبان کے چٹخارے کے لیے اس کوبیان نہیں کرنا بلکہ کہیں کوئی دلیل اس کے حق میں ملے تو ضرور سامنے لائیں ۔
تاریخ کے اوراق میں محفوظ لفظ ہوں یا یادوں میں سانس لیتی کہانیاں،آنے والی نسلوں کی امانت ہوتے ہیں۔پڑھنے والے کا فرض ہے کہ وہ جہاں تک ہو سکےان کو جذب کرے اورجتنی صلاحیت ہے اُس کو آگے پھیلائے۔ انسانی عمر گنتی کے ماہ وسال پرمحیط ہے۔اس محدود وقت میں لامحدود علم حاصل کرنا ممکن ہی نہیں سوائے اس کےکہ گزرے لوگوں کے علم اور تجرباتِ زندگی کی روشنی میں سفر آگے بڑھایا جائے۔
تاریخ بنانے یا بگاڑنے والے کبھی تاریخ نہیں پڑھتے۔تاریخ تو انمٹ سیاہی سے لکھی جانے والی وہ تحریر ہے جو بعد میں آنے والوں کو اگر ٹیپو سلطان کی شجاعت و بہادری کی داستانیں سناتی ہے تو میر جعفر کی غداری کے نوحے بھی دہراتی ہے۔ اب آنے والی نسلوں اور رہنماؤں پر منحصر ہے کہ وہ تاریخ میں اپنا نام کہاں لکھواتے ہیں۔ ٹیپو سلطان انسان کے عزم اور حوصلے کی سدا روشن رہنے والی ایک مثال ہے تو اس کو ملنے والا "دھوکا" ہمیشہ کے لیے انسان کو کسی "اپنے" پر اندھا اعتماد کرنے سے روکتا ہے. اور اکثر یہ دھوکا کھانے کے بعد "ٹیپو سلطان" کی زندگی اور موت انسان کی کم مائیگی اور بےثباتی پر مہرثبت کرتی  ہے۔

یاد رہے ہماری اس نسل کے پاس سب سے قیمتی تُحفہ یادوں اور احساس کی دولت ہےتو معاشرتی اقدار کی حیران کن رنگ  بدلتی تصویریں جن کی گواہی لفظ کی صورت کتابوں میں تو ملتی ہے لیکن بدقسمتی سے آنے والے نہ صرف کتابوں بلکہ اپنی زبان کے رنگ سے بھی کوسوں دورہیں۔اس درد کا اظہار جناب مستنصرحسین تارڑ کچھ یوں کرتے ہیں"اپنی زبان سے غفلت اور اجتناب ہمیں کیسا بد نصیب کر دیتا ہے کہ ہم اپنی آبائی دانش سے محروم ہوجاتے ہیں"از"برفیلی بلندیاں"۔
بقول شاعر۔۔۔ "ہم ہیں چراغِ آخرِ شب" ۔ اور ہمارے بعد اجالے تو یقیناً ہوں گے اور خوب ہوں گے لیکن مٹی کےچراغ کی روشنی نہیں۔جو ہماری نسل کی کمائی ہے۔کسی غرض سے بےنیاز ہو کر اپنے حصے کا چراغ روشن کرنا ہمارا فرض ہے۔
 پاکستان پائندہ باد

2 تبصرے:

  1. بہت اچھا سلسلہ شروع کیا ہے آپ نے ۔۔۔۔ میرے پاس کوئی ایسی یاد نہیں کہ یہاں لکھوں مگر ہر 14 اگست کو ایک نظم مجھے یاد دلاتی ہے کہ ہمارے بزرگوں نے کیا سوچ کر اپنا گھر بار چھوڑ کر مشقتیں جھیل کر اس آزاد فضا ( جس میں ہم آج سانس لیتے ہیں) کے لئے کیا کیا نہ جھیلا ۔۔۔ وہی نظم آپ کے ساتھ شئیر کر رہی ہوں۔

    محبت اور کہانی میں کوئی رشتہ نہیں ہوتا
    مگر میری محبت تو
    کہانی ہی کہانی ہے
    کوئی راجہ نا رانی ہے
    محبت کی کہانی تو
    مسافت ہی مسافت ہے
    ضرورت کی مسافت میں
    مسافر واپسی کے سارے امکان پاس رکھتا ہے
    محبت کی مسافت میں
    مسافر کے پلٹتے کا کوئی رستہ نہیں ہوتا
    وہ ساری کشتیاں اپنی
    جلا دیتے ہیں ساحل پر
    کے نا - امید ہونے پر
    پلٹنا بھی اگر چاہیں
    تو واپس جا نہیں پائیں
    وہیں غرقاب ہو جائیں
    محبت کی کہانی میں مسافت کی بشارت تھی
    مسافت طے ہوئی تو پھر
    جلا ڈالی تھیں میں نے بھی
    وہیں سب کشتیاں اپنی
    جہاں پہلا پڑاؤ تھا
    شکستہ جسم تھا میرا
    میرے سینے میں گھاؤ تھا
    بھڑکتا اک الاؤ تھا
    کسی کی چاہ میں سب کچھ لٹا کے
    آ گیا تھا میں
    کہاں پر آ گیا تھا میں؟
    جہاں پہچان کا اپنی
    حوالہ ہی نا ملتا تھا
    حوداث کے تھپیڑوں سے
    سنبھالا ہی نا ملتا تھا
    اجالوں کی تمنا میں
    مگر مجھ کو کسی جانب
    اجالا ہی نا ملتا تھا
    شب تیرہ سے نکلا تھا
    اجالوں کی تمنا میں
    مگر مجھ کو کسی جانب
    اجالا ہی نہ ملتا تھا
    مگر ہمت نہیں ہاری
    یہاں تک ایسے ہوں میں
    جہاں ہر سو اجالا ہے
    میری پہچان ہے اپنی
    وطن میرا حوالہ ہے
    مجھے اس نے سنبھالا ہے
    اسی میں نے سنبھالا ہے
    یہی میرا حوالہ ہے
    یہی میرا حوالہ ہے

    جواب دیںحذف کریں

"کتبہ"

"کتبہ" جس طورانسانوں کی دنیا اور انسانوں کے ہجوم میں ہر آن اضافہ ہو رہا ہے تو اس طرح قبرستان بھی تیزی سے آبادہو رہے ہیں۔ گھر...