جمعرات, اگست 25, 2016

"آٹوگراف...مٹتی یادیں"


 
یہ لفظ کے رشتے بھی عجیب ہوتے ہیں۔۔۔۔عمر،مرتبہ،مقام،زبان، اور جنس کے فرق سے ماورا۔ہمارے جسمانی رشتے اور جذباتی تعلق اگر  ہمارے وجود کو تحفظ دیتے ہیں،ہمارا اپنے آپ پر اور محبتوں پراعتماد بحال کرتے ہیں تو لفظ سے جڑے رشتے ہمیں زندگی کا ایسا رُخ دکھاتے ہیں جس میں نہ صرف زندگی کی رنگینیاں اور خوشبوئیں دم بخود کرتی ہیں بلکہ زندگی کی تلخیوں کو برداشت کرنے کا حوصلہ بھی ملتا ہے۔لفظ کے یہ تعلق اگر ہنساتے ہیں تو ہمارے آنسو بھی جذب کرتے ہیں۔دنیا کی زندگی جینا سکھاتے ہیں تو زندگی کے رازبھی  آشکار کرتے  ہیں۔
ڈھلتی عمر کی بےآواز بارشیں اپنے ساتھ بیت چکے موسموں کے کچے جذبوں اور جگنو خوابوں کوبڑی آہستگی سے بہا لے جاتی ہیں ۔ایسے ہی خوابوں کی امین میری بھوری ڈائری پچھلے پینتیس برس سے میرے ہر ہر دور کے احساس کی گواہ ہے اور دنیا کی فانی کمائی کا بہت قیمتی تحفہ۔یہ قیمتی ڈائری میرے حوالے سے ہی نہیں بلکہ ان لوگوں کے حوالے سے ہے جن سے میں زندگی میں پہلی اور شاید آخری بار ملی لیکن لفظ کی صورت اُن کا لمس اُن کے وجود کی گواہی بن کر ٹھہر گیا۔لفظ ِ،خیال اور سوچ سے محبت کے سفر میں برسوں سے لفظ کی خوشبو کاغذ میں بکھیرنے والوں کے لمس کو ان کے دستخظ کی صورت محفوظ کرتی چلی جا رہی ہوں اس طویل سفر میں جب جب علم وادب،اورفن کی دنیا کے بڑے ناموں اور اسلوبِ زبان وبیاں کی قدآور شخصیات کی ایک جھلک دیکھنے کا موقع ملا میں نے خاموشی سے اپنی ڈائری  بڑھا دی۔ یہ آٹوگراف  محض کسی فرد کے دستخط ہی نہیں بلکہ اس  شخصیت کے طرزِفکرکے عکاس  بھی ہیں،دستخط کے ساتھ لکھے اشعار اور اقوال ہمیں  صاحبِ تحریر کی لکھائی اور  اسلوب کی  جھلک دکھلاتے ہیں۔ 
یوں تو ہر آٹوگراف کی اپنی کہانی ہےاور ہر کہانی خاص ہے۔لیکن کچھ تو بہت ہی خاص  ہیں جیسے۔۔۔
 ٭جناب مستنصرحسین تارڑ سے لیا گیا آٹوگراف جس کی روداد لکھتے ہوئے سوچ اُونی سویٹر کی طرح ادھڑتی چلی گئی اور لفظوں کے پیکر میں محفوظ ہو گئی۔ جناب مستنصرحسین تارڑ  سے آٹوگراف لینا گویا میری قلم کہانی کا اسم اعظم ثابت ہوا ۔ 
٭ جناب رضاعلی عابدی کا آٹوگراف یوں بہت خاص ہے کہ وہ  صرف اور صرف اردو میں ہی  آٹوگراف دیتے ہیں اور  میری"فرمائش" پر ازراہِ مہربانی  انگریزی میں بھی آٹوگراف دیا،اور کہنے لگے کہ انگریزی کے دستخط بنک  اور دفتری   امورتک ہی محدود ہیں۔
 بدیس میں اردوکا پرچم بلند کرنے والے۔۔۔اردولکھنے،اردو بولنے سےعشق کرنے والے اوراردونظم ونثر کا تاریخی ورثہ منظم انداز میں عام لوگوں کے حوالے کرنے والے اس سادہ انسان کی عاجزی کمال تھی۔ اُن سے پہلی بار مل کر ایسا لگا جیسے پہلی بار سے پہلے بھی مل چکی ہوں۔ جناب رضا علی عابدی کی منکسرالمزاجی اوراپنائیت ذہن میں آنے والا ہر سوال پوچھنے پراُُکساتی۔۔۔ میں بھی کتاب اوراُس کےلکھاری کی سنگت کے خمار میں بےدھڑک سب کہہ دیتی ۔
٭ایک ہی صفحے پر28 برس کے  فرق کے  "معمولی" سے عرصے کے بعد جناب عطاالحق قاسمی کے بہت خاص دو آٹوگراف ہیں۔ جن میں سے ایک اُن کے ہاتھ سے لکھے شعر کے ساتھ مارچ 1986 کا ہے تو دوسرا 28 برس بعد اپریل 2014 کو لیا گیا۔
٭سب سے خوبصورت وہ صفحہ ہے جس میں "جیوے جیوے پاکستان”کے لازوال جملے کے ساتھ جناب جمیل الدین عالی کے دستخط ہیں۔۔۔اسی ورق پر تقریباً 29 برس بعد ان کے بیٹے جناب راجو جمیل کے دستخط بھی لیے جو سال 2015 کے اسلام آباد ادبی میلے میں ملے اوراسی لمحے جناب راجو جمیل نے اپنے ابا کو دکھانے کے لیےاپنے فون میں وہ صفحہ کلک کر لیا۔نہیں جانتی کہ وہ اپنے ابا کو دکھانے میں کامیاب بھی ہوئے یا نہیں کہ اسی سال 23 نومبر 2015 کو محترم جمیل الدین عالی نوے برس کا سفرِ زندگی طے کرنے کے بعد مالکِ حقیقی سے جا ملے۔اللہ محترم کی مغفرت فرمائے آمین۔
ایک خلش!۔
اس فہرست میں جناب ممتازمفتی ،اشفاق احمد،احمد فراز کےنام نہیں جن کے لفظ کی خوشبو تو اپنے بہت قریب محسوس کی لیکن نظر اُن کی قربت سے آشنا نہ ہو سکی۔

میں لمحۂ موجود تک اپنے سب پسندیدہ شعراء سے ملی،اُن کو قریب سے دیکھا ،اُن کے لفظ کو ان کے لہجے میں محسوس کیا ،اُن سے آٹوگراف لیے لیکن  احمد فراز سے نہ مل سکی۔ 80 کی دہائی میں وہ خود ساختہ جلاوطن تھے اورمیں   صدی کی  آخری  دہائی میں لفظ کی دنیا سے قطعی آؤٹ۔ جہاں ایک شدید تشنگی کا احساس ہے وہیں سکون بھی کہ شاید اچھا ہی ہوا جو ہوا اور ان کا جادواثر بُت ان چھوا رہا۔ اگرچہ لفظ اور خیال کے خوبصورت پیکر میں ڈھلا وہ بُت اتنا مکمل دکھتا تھا کہ شاید ان کی شخصیت اس میں دراڑ نہ ڈال سکتی۔لیکن یہ بھی حق ہے کہ بُت ٹوٹنے کے لیے ہی ہوتے ہیں۔ اگر اس میں ذرا سی بھی خراش آ جاتی تو بہت کچھ بکھر سکتا تھا۔ بس میری ڈائری میں اُن کے ہاتھ کا لمس نہ ہونےکی اداسی یا ایک خلش سی ہے۔ ڈائری مکمل کرنے کی چاہ میں بہت بار اُن سے ملنے کا سوچا لیکن صرف سوچ سے کیا ہوتا ہے۔اُن کے جانے کے بعد جب ساری امید ختم ہو گئی تو ڈائری بہلانے کو اُن کے دستخط کا عکس کورے صٖفحے میں یاد کی گوند سے چپکا دیا۔ جانتی ہوں ڈائری میں محفوظ یادیں خوشبو دار پھول کی طرح ہی ہوتی ہیں جنہیں رکھتےتو بہت شوق سے ہیں لیکن بعد میں صرف یاد کے بھولے بسرے داغ ہی ملتے ہیں۔ لیکن پھر بھی خوش ہوں کہ لفظ کی خوشبو سے مہکتی ڈائری میں احمد فراز کا نام پہلے صفحے پر جگمگایا تو ان کا لمس کہیں سے کسی طور تو ملا۔
حرفِ آخر
لفظ کے تعلق ہماری روح کی تسکین کرتے ہیں بجا کہ ہماری جسمانی کمیوں اور تشنگی کو سہارنے میں مہربان ساتھ ثابت ہوتے ہیں لیکن ظاہری طور پر ہمارے وجود میں پیوست ایک معمولی سی پھانس بھی نکالنے پر قادر نہیں ہوتے۔ہم انجانے میں اپنے جیسے انسانوں کو مشکل کشا سمجھ بیٹھتے ہیں یا پھر افعال وکردار کے لحاظ سے فرشتہ تصور کر لیتے ہیں۔یوں اکثر جب بُت ٹوٹے ہیں تو اس میں سراسر قصور ہمارا ہی ہوتا ہےجو ہم کبھی نہیں مانتے۔ اہم یہ ہے کہ لفظ کے رشتے لفظ تک ہی محدود رہنے چاہیں اور یاد رہے کہ ہر ایک اپنی سوچ اور ظرف کے مطابق نہ صرف اپنے اثاثوں کی پہچان رکھتا ہے بلکہ اُن کے اسی طورسنبھالنے کا ہنر جانتا ہے۔ 
پروین شاکر ۔۔۔۔
ہارنےمیں اِک انا کی بات تھی
جیت جانے میں خسارہ اور ہے
امجد اسلام امجد ۔۔۔
یہی بہت ہے کہ دل اس کو ڈھونڈ لایا ہے
کسی کے ساتھ سہی وہ نظر تو آیا ہے
منیرنیازی
خیال جس کا تھا مجھے خیال میں ملا مجھے
سوال کا جواب بھی سوال میں ملا مجھے
انتظارحسین ۔۔
عقیل عباس جعفری۔۔ 
زندہ رہنا عجب ہنر ہے عقیل
اور یہ ہنر عمر بھر نہیں آتا
عطاءالحق قاسمی۔۔۔
شام ہوتے ہی عطا کیوں ڈوبنے لگتا ہے دل
کچھ نہ کچھ ہونے کو ہے اور ناگہاں ہونے کو ہے۔
مارچ 1986 اور اپریل 2014 



















رضاعلی عابدی


بلاگ لنک : رضا علی عابدی کی کتابیں 

حمید کاشمیری

انورمسعود،طفیل ہوشیار پوری،دلاور فگارعنایت علی خان،نورمحمدہمدم
پروین فناسید،خاطرغزنوی،محمد شیرافضل، محشربدایونی،کلیم عثمانیِ
پروفیسرکرم حیدری،شہزاداحمد،،رضاہمدانی،زہرہ نگاہ،اصغرندیم سید،فاطمہ حسن،،سید ضمیر جعفری،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔


جمعہ, اگست 19, 2016

"حال اور صاحبِ حال"

انسان کائنات کی وجۂ تخلیق ہے۔کائنات کے اسرار پر غور کرنا ہماری اپنی زندگی کے لیے بھی اہم ہے۔اس کاذرہ ذرہ ہمیں کوئی نہ کوئی پیغام دیتا ہے۔آسمان کی پنہائی میں جھانکنےاور زمین کی پرتوں کی سرسراہٹ ماپنے۔۔۔بلندوبالا پہاڑوں کی چوٹیوں کو قدموں تلے روندنے اور سمندروں کی گہرائی میں سانس لیتی مخلوق کی آواز سننے سے لے کر انسان نے کائنات کو کسی حد تک مسخر کرلیا ہےاور مزید کی جُستجو میں آگے بڑھ رہا ہے۔لیکن اتنا کچھ جاننے کے بعد اور اس علم کو بےدریغ پھیلانے سے لے کر ہم اگر اپنے مستقبل سے قطعی لاعلم ہیں تو ماضی میں اپنی زندگی کے پہلے لمحے سے بھی ناواقف ہی رہتے ہیں۔
ہماری زندگی ماضی اور حال کے درمیان سفر کرتے گزر جاتی ہے جس میں مستقبل ایک دھندلکے کی مانند نگاہ رکھے ملتا ہے۔ ہم اپنے ماضی سے تو بخوبی واقف ہوتے ہیں لیکن "صاحبِ حال" ہوتے ہوئے بھی اپنے حال کی بُنت پر ہمارا کوئی اختیار نہیں ہوتا۔۔ سوال یہ ہے کہ صاحب حال ؟ کیا معنی رکھتا ہے اور یہ حال کیا ہے؟
ہم ہمیشہ سے جانتے ہیں کہ جس پر اس دُنیا میں رہتے ہوئے کسی اور دُنیا کے جلوے آشکار ہو جائیں۔۔۔جو باطن کے سفر پر چل نکلے۔۔۔۔جس کی نگاہ قطرے میں سمندر اور سمندر میں قطرہ دیکھ لے،وہی صاحب حال ہے۔جس کے سامنے دُنیا کی حیثیت مشتِ خاک کے ذرے سے بھی کم ہو وہ صاحبِ حال ہے۔ اور "حال"کے لفظ سے ایک اور طرح سے بھی واقفیت یوں ہوتی ہے کہ جب رات رات بھر جاری رہنے والی سماع کی محفلوں میں ہونے والی "نوٹوں کی بارش " کے سائے میں کوئی بےخود ہو کر ناچنا شروع کر دے یوں کہ تن بدن کا ہوش نہ رہے تو کہتے ہیں کہ اُسے "حال" آ گیا۔اسی طرح عام انسانوں کے عقائد کے مطابق کوئی کسی پاک روح یا بدروح کے زیرِاثرجلال میں آ جائے تو اسے بھی "حال" کہا جاتا ہے۔
ایک عام انسان تو"صاحبِ حال" ہونے جیسی معراج کو چھو سکتا ہے اور نہ ہی "حال"میں آنے جیسے مافوق الفطرت تجربات کا داعی بننے کا سوچ سکتا ہے۔درحقیقت عام زندگی بسر کرنے والا ہر شخص "صاحب ِحال" ہے۔اب یہ اُس"حال" کے احساس کی بات ہے کہ کوئی اُس کا کتنا اثر لیتا ہے اور کس طرح اظہار کرتا ہے۔۔اور صاحبِ حال وہی ہے جس پر وہ کیفیت پہلے سے گزر چکی ہو جو آج کسی اور کے ساتھ پیش آ رہی ہے۔دوسرے لفظوں میں وہ اُس کرب یا اس لذت کو بالکل اِسی طرح محسوس کرے جیسے یہ اُسی کی کہانی ہو۔
مختصر الفاظ میں ہر وہ شخص جواپنے گزر چکے ماضی کے آسیب اور مستقبل کے نامعلوم اندیشوں سے بچتے ہوئے اپنے حال میں 

زندگی تلاش کرنے کی جستجو کرے وہی صاحبِ حال کہلانے کا حق دار ہے۔حال پر صاحب حال سے بات اس وقت کرنا چاییے جب وہ ماضی بن جائےلیکن! اپنے آپ کو ہمیشہ حال کے آئینے میں سمجھنا اور جانچنا ہی اصل حقیقت ہے۔

ہفتہ, اگست 13, 2016

"آپ نے قائد کو کیسا پایا"

آپ نے قائد کو کیسا پایا ۔۔۔اردو ڈائجسٹ ۔۔اگست 2014   

 ہمارے قائداعظم کی شخصیت اتنی بلند ہے کہ اُس کے ایک پہلو پر لکھنا خاصا مشکل ہے۔ اُن کی دیانت‘ امانت‘ صداقت‘ غرض ہر بات اپنی جگہ مسلم ہے۔ مثلاً مسلم لیگ کے ریکارڈ میں سے ایسی چٹیں بھی ملی ہیں جن میں چھوٹے چھوٹے حسابات درج ہیں۔ اگر کسی جلسے میں چائے پلائی گئی تو اُس کا حساب بھی لکھا ہے۔ اس بات سے اندازہ لگا لیجئیے کہ قائداعظم کی راہنمائی میں مسلم لیگ کے کارکنان اور راہنماؤں میں دیانت اور امانت کا کیسا جذبہ پیدا ہو گیا تھا۔
 لیکن سچی بات یہ ہے کہ قائداعظم کی سب سے بڑی صفت اُن کی حقیقت پسندی ہے۔ وہ قوم کی صحیح قوت کو سمجھتے تھے۔ وہ ایسے جرنیل نہیں تھے جو فوج کی صحیح حالت اور قوت سمجھے بغیر اُسے لڑوا اورمروا دیں۔ لیڈر کاسب سے بڑا کمال یہ ہے کہ کم قوت سے بڑا مقصد حاصل کرلے۔ قائداعظم کا کمال یہی تھا کہ ہر موقع پر اتنی ہی قوت استعمال کرتے جتنی ضرورت ہوتی۔ انھیں جذبات پر بڑا قابو تھا۔ اُن کی بےلاگ منطق ہی سے گاندھی جی کے بھرم میں فرق آیا۔ ذیل میں قائداعظم کی شخصیت کے مختلف پہلو وا کرنے والی تحریریں پیش خدمت ہیں۔
صحافت کی آزادی۔۔۔
یہ واقعہ یاد کر کے میرا سر اظہار تشکر میں جھکتا اور احساس فخر سے بلند ہو جاتا ہے۔
 قیام پاکستان کے بعد کراچی میں ایک طویل گفتگو کے موقع پر انھوں نے میرے اخبار کے افتتاحیہ مقالوں میں آزادی رائے کی ضرورت پر زور دیا۔ میں نے ایک مضمون لکھا جسے چھپے لفظوں میں قائداعظم پر اعتراض سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ وہ اس کا مطالعہ فرما چکے تھے۔ اُسی روز شام کو اُن سے ملنے کا اتفاق ہوا۔ انھوں نے صرف اتنا کہا: ’’میں تمہارا مضمون پڑھ چکا"۔
 کچھ دیر بعد اُن کی زبان مبارک سے وہ الفاظ نکلے جنھیں میں تمام صحافیوں کے لیے آزادی کا منشور سمجھتا ہوں۔ انھوں نے فرمایا "کسی موضوع پر غور کرکے اپنے دل میں فیصلہ کرو۔ اگر تم اس نتیجہ پر پہنچ چکے کہ ایک خاص نظریہ یا اعتراض پیش کرنا ضروری ہے تو بالکل وہی لکھ ڈالو جو حقیقتاً تم نے محسوس کیا۔ کبھی پس وپیش نہ کرو‘ اس خیال سے کہ کوئی ناراض ہو جائے گا۔ یہاں تک کہ اپنے قائداعظم کی ناراضی کی بھی پروا نہ کرو"۔
 اس سے زیادہ قدر ومنزلت ہمارے پیشے کی اور کیا ہو سکتی ہے؟ حقیقتاً ایک عظیم المرتبت ہستی ہی یہ الفاظ ادا کر سکتی ہے۔ (الطاف حسین‘ مدیر ڈان)۔
۔۔۔۔۔ 
پہلے کام پھر طعام۔۔۔
 محمد علی جناح دوسروں سے کام لینے میں سخت گیر واقع ہوئے تھے۔ لیکن وہ اپنے آپ کو بھی اُتنا ہی رگیدتے جتنا کہ دوسروں کو! اگر کچھ کرنا ہے تو اُسے جلد کرنا چاہیے، اُن کے پاس ضائع کرنے کے لیے وقت نہ تھا۔ کھانا‘ آرام اور نیند‘ ان سب کو
اپنی باری کا انتظار کرنا پڑتا۔ کام کو آگے بڑھانے کا جذبہ اور جوش ہی انھیں ٹھیک وقت پر کھانا کھانے یا آرام کرنے سے روکتا تھا۔ اِسی امر نے بعد کے برسوں میں اُن کی جسمانی قوت کو اتنی جلد مضمحل کر دیا کہ وہ اُسے بحال نہ کر سکے۔اپنے کمزور جسم پر ناقابل برداشت بوجھ ڈالنے سے بالخصوص اپنی زندگی کے چندآخری برسوں میں وہ دق کا شکار ہو گئے جس نے انھیں قبر تک پہنچا دیا۔ مجھے یاد ہے‘ اُن کے ملازم آ کر انھیں دوپہریا رات کے کھانے کاکہتے۔ تب وہ کسی مسئلے پر بحث کر یا کوئی مسودہ یا خط لکھوا رہے ہوتے۔ وہ اُن کی طرف متوجہ ہی نہیں ہوتے۔
 بعض اوقات ان کی بہن فاطمہ جناح اپنے بھائی کا انتظار کرتے کرتے تھک جاتیں اور آ کر کہتیں کہ کھانا ٹھنڈا ہو رہا ہے۔ لیکن وہ بہت اخلاق سے جواب دیتے ’’بس چند منٹ اور‘‘ یا ’’جاؤ شروع کرو‘ ــــمیں ذرا دیر میں تمہارے ساتھ شریک ہو جاؤں گا۔‘‘ انھیں پہلے اپنا کام کرنا ہوتا تھا اور بعد میں کھانے یا کسی اور چیز کا خیال کرتے۔(ایچ اے اصفہانی)۔
۔۔۔۔
بمبئی کلاتھ ہاؤس میں دعوت۔۔۔
 قصہ یوں ہے کہ دہلی میں دوران ملاقات سیٹھ حاجی محمد صدیق‘ مالک بمبئے کلاتھ ہاؤس نے قائداعظم سے عرض کی کہ اب کے آپ لاہور تشریف لائیں تو ہماری دکان کو بھی زینت بخشیں۔ قائداعظم جو مسلمانوں کی بہتری وبہبودی کے لیے ہر وقت کوشاں رہتے تھے‘ یہ سن کر بہت خوش ہوئے کہ لاہور میں مسلمانوں اور وہ بھی میمن برادری کی ایک شایان شان دکان ہے۔ فرمانے لگے ،اب کے لاہور آیا تو تمھاری دکان بھی ضرور دیکھوں گا۔
چنانچہ اپریل ۱۹۴۴ء میں جب وہ لاہور تشریف لائے تو ایک دن بارہ بج کر دس منٹ پر آنے کا وعدہ کیا۔ دکان کے منیجر مسٹر محمد عمر نے دس کروڑ مسلمانوں کے اس عظیم الشان قائد کے استقبال کے لیے جو کچھ بھی ہو سکتا تھا ،کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ دکان زربفت کپڑوں سے دلہن کی طرح سجائی گئی۔ شاندار چائے پارٹی کا انتظام کر کے دیگر مسلمان تاجروں کو بھی بلا لیا گیا۔ معائنے کے دوران انھوں نے چائنہ کارڈ اورپیور ریشم کے کپڑے بھی پسند فرمائے جو ہم نے انھیں تحفتاً پیش کیے۔لیکن انھوں نے لینے سے انکار کر دیا اور خواہش ظاہر کی کہ اگر ان کپڑوں کابل پیش کر دیا جائے تو وہ لے لیں گے کیونکہ کپڑے انھیں پسند ہیں۔ ہم نے بہت کوشش کی کہ وہ انھیں بطور تحفہ قبول کر لیں‘ مگر وہ کسی طرح نہ مانے۔ آخر بل پیش کر دینے کے پختہ وعدے پر انھوں نے کپڑے رکھ لیے۔ ہم نے خواہش ظاہر کی کہ ایک اچکن ہم سے سلوائی جائے۔ وہ اس شرط پر رضامند ہوئے کہ درزی اچھا ہو اور ناپ ڈیوس روڈ پر ممدوٹ ولا میں لیا جائے جہاں وہ ٹھہرے ہوئے تھے۔ وہ دکان پر ناپ نہیں دینا چاہتے تھے۔
 دوسرے دن ماسٹر فیروز کو لے کر میں قائداعظم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ ناپ سے فارغ ہو کر ہم واپس آنے لگے توفرمایا کہ اچکن کے لیے حیدر آبادی بٹنوں کے سیٹ لے آنا۔ فرمائش کے مطابق دوسرے دن صبح دس بجے ہم ممدوٹ ولا پہنچے۔ بٹنوں کے سیٹ جو ہم ساتھ لائے تھے‘ اُن کو ایک نظر دیکھا اور چار سیٹ پسند کرکے الگ رکھ لیے۔ باقی واپس کر دیے۔ کہنے لگے، بل لاؤ۔ بل کے لیے وہ اس سے پہلے بھی کئی مرتبہ اصرار کر چکے تھے۔
 چونکہ ہم بل نہیں دینا چاہتے تھے‘ اس لیے ٹال مٹول سے کام لیتے رہے‘ مگر شاید وہ ہمارا ارادہ سمجھ گئے۔ آج بل کے لیے قدرے سخت اور درشت لہجے میں مطالبہ کیا‘ کہنے لگے "میں اُدھار لینے کا عادی نہیں۔ بل لاؤ۔ ورنہ کپڑے واپس کر دیے جائیں گے"۔
 میں نے منیجر سے کہا کہ یہاں ٹال مٹول سے کام نہیں چلے گا۔ بل دینا ہی پڑے گا۔ ورنہ وہ سارے کپڑے لوٹا دیں گے۔ منیجر نے خاصا رعایتی بل بنا کر دیا جو آدھے سے بھی کم قیمت پر مشتمل تھا۔ میں نے جا کر خدمت میں پیش کر دیا جسے دیکھ کر مسکرائے‘ کہنے لگے: ’’یہ بل مناسب نہیں ‘ تم نے قیمتیں جان بوجھ کر کم لگائی ہیں۔‘‘ میں نے کہا‘ منیجر نے آپ کو خاص رعایت دی ہو گی۔ کہنے لگے : ’’رعایت کی اور بات ہے۔ یہ رعایت سے مختلف صورت ہے۔ تم بل درست کر کے لاؤ‘‘ یہ کہہ کر بل واپس کر دیا۔ اس کے بعد میں نے بٹن والے کا بل پیش کیا‘ جو دس روپے کی مالیت پر مشتمل تھا۔
 بل دیکھ کر فرمایا: ’’بھئی واہ۔ ایک سیٹ میں تو تین تین بٹن کم ہیں‘ لیکن بل تم نے پورے کا بنا دیا۔‘‘ یہ کہنا درست تھا۔ ایک سیٹ میں بٹن کم تھے۔ لیکن بل میں نے اس خیال سے دیکھا نہ تھا۔ دکاندار نے بھی اس کی پروا نہ کی تھی۔ بہرحال بل کو درستی کے لیے واپس لانا پڑا۔
 لیکن میری حیرت کی انتہا نہ رہی۔ میں کئی دنوں تک سوچتا رہا کہ آخر کیا بات ہے کہ ایک طرف تو سینکڑوں روپے کی رعایتکوبھی یہ شخص قبول نہیں کرتا۔دوسری جانب تین بٹنوں کے آٹھ آنے بھی چھوڑنے کے لیے تیار نہیں؟(ولی بھائی)۔
۔۔۔۔۔
سیاست میں اخلاق۔۔۔
ء1946کا اوائل تھا۔ بنگال قانون ساز اسمبلی کے انتخابات ہونے والے تھے۔ میں مسلم چیمبر آف کامرس کلکتہ کی طرف سے امیدوار تھا۔ نامزدگی کی تاریخ سے صرف دو روز پہلے چیمبر کے ایک رکن نے اپنی نامزدگی کے کاغذات داخل کرا دیے۔ چیمبر کے پرانے ارکان اور راہنما سب سٹپٹا گئے۔ انھوں نے اُسے سمجھایا بجھایا اور دباؤ بھی ڈالا۔ مگر اُس نے کاغذات واپس لینے سے انکار کر دیا۔
 اُن دنوں قائداعظم کلکتہ میں میرے ہاں ٹھہرے ہوئے تھے۔ ایک شام ہم گاڑی میں سیر کر کے واپس آئے تو عبدالرحمن صدیقی جو ایک آزمودہ سیاست دان اورمیرے دیرینہ دوست تھے‘ دوڑے دوڑے آئے اور بتایا کہ وہ مخالف سے ملے تھے۔ لمبی چوڑی گفتگو کے بعد وہ شخص کاغذاتِ نامزدگی واپس لینے پر آمادہ ہو گیا ہے۔ شرط یہ رکھی کہ جو دو صد پچاس روپے فیس کے جمع کرائے ہیں‘ اُسے دے دیے جائیں۔
 قائداعظم اپنے کسی خیال میں مستغرق تھے۔ انھوں نے بات نہ سنی۔ صدیقی سے فرمایا کہ وہ اپنے الفاظ دہرائیں۔ صدیقی صاحب نے حکم کی تعمیل کی۔ پھر کمان سے نکلے ہوئے تیر کی طرح قائداعظم کے ملامت بھرے الفاظ ہمارے دل و دماغ میں پیوست ہو گئے "روپیہ ادا کر دو گے؟ ایک امیدوار کو بٹھانے کے لیے‘بالواسطہ رشوت؟ نہیں‘ کبھی نہیں۔اُسے جا کر یہ کہہ دو کہ تمہاری پیش کش مسترد کر دی گئی ہے۔ حسن تمہارا مقابلہ کرے گا"۔
 عبدالرحمن صدیقی لمحہ بھر کے لیے بھونچکا رہ گئے۔ پھر سنبھلے اور عرض کیا: ’’میں آپ کا پیغام پہنچا دوں گا۔‘‘ اور چلے گئے۔ ہم عقبی برآمدے میں چلے آئے اور آرام کرسیوں پر بیٹھ گئے۔
 قائداعظم مجھ سے مخاطب ہوئے: ’’میرے بچے! اُسے یہی جواب ملنا چاہیے تھا۔ سیاست میں اخلاق کی پابندی نجی زندگی میں اخلاقی اصولوں پر کاربند رہنے سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ اس لیے کہ اگر تم نے عوامی زندگی میں کسی غلط کام کا ارتکاب کیا‘ تو اُن لوگوں کو نقصان پہنچاؤ گے جو تم پر اعتماد کرتے ہیں۔‘‘(ایچ اے اصفہانی)۔
۔۔۔۔۔۔ 
سفارشی رقعہ۔۔۔
 قائداعظم سے ملنے کے لیے رائے پور کا ایک اسٹیشن ماسٹر دہلی آیا۔ وہ اُن کے سیکرٹری سے ملا اور بتایا ’’میں اپنی ملازمت کے سلسلے میں کچھ بات کرنا چاہتا ہوں۔‘‘
 سیکرٹری نے اُسے سمجھاتے ہوئے کہا: "قائداعظم ان دنوں بہت مصروف ہیں۔ اگر وہ چھوٹے چھوٹے کاموں کے لیے وقت دیتے رہے تو پھر تحریک پاکستان جیسا عظیم کام کس طرح انجام دے سکیں گے"۔
 سیکرٹری نے اُسے واپس لوٹ جانے کا مشورہ دیا، لیکن اسٹیشن ماسٹرمجھ سے ملا اور بتایا ’’میں بڑی دور سے آیا ہوں۔قائداعظم تک پہنچنے کے سلسلے میں تم ہی کچھ میری مدد کرو"۔
 میں نے اُسی دن قائداعظم سے تذکرہ کیا اور انھیں بتایا "اسٹیشن ماسٹر کو محض اس لیے ترقی نہیں دی جا رہی کہ وہ مسلمان ہے۔ حالانکہ وہ امتحان بھی پاس کر چکا اور اصولی طور پر اُسے بی گریڈ ملنا چاہیے"۔
 قائداعظم اُسی وقت اُس شخص سے ملے۔ ریلوے کے ایک اعلیٰ انگریزی عہدیدار کو رقعہ لکھ کر اس دھاندلی کی طرف توجہ دلائی۔ فوری کارروائی ہوئی اور پندرہ منٹ کے اندر اندر اُسے بی گریڈ دیے جانے کے احکامات جاری ہو گئے۔
 اسٹیشن ماسٹر خوشی خوشی کاندھے پر پھلوں کا ٹوکرا لادے قائداعظم کا شکریہ ادا کرنے واپس آیا۔ میں نے جب قائداعظم کواطلاع دی تو انھوں نے محض اس لیے ملنے سے انکار کر دیا "میں یہ نہیں چاہتا کہ کوئی شخص مجھ سے کہے‘ میں آپ کا ممنون ہوں یا آپ کا یہ احسان زندگی بھر نہیں بھولوں گا۔البتہ قائداعظم نے اُسے یہ پیغام ضرور بھجوایا:"خوب محنت سے کام کرو"۔(محمد حنیف آزاد)۔
۔۔۔۔۔ 
گورنر جنرل کے منصب کا خیال۔۔۔
 یہ اُس زمانے کا ذکر ہے جب قائداعظم علیل تھے اور کوئٹہ میں زیرعلاج۔ جب ہم نے محسوس کیا کہ کوئٹہ میں اُن کا قیام خطرے سے خالی نہیں‘ تو میں نے اصرار کیاکہ وہ کراچی تشریف لے چلیں۔ لیکن ہر بار انھوں نے تجویز رد کر دی۔ رات کو میں نے محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ اس مسئلے پر تفصیلی گفتگو کی۔ میرے اصرار پر انھوں نے بتایا کہ قائداعظم بیماری کی حالت میں گورنر جنرل ہاؤس واپس نہیں جانا چاہتے۔ پھر انھوں نے ملیر کے بارے میں میری رائے پوچھی۔ میں نے عرض کیا‘ وہ بھی اچھی جگہ ہے۔ لیکن وہاں قیام کا مسئلہ ہو گا۔
 ملیر میں نواب بہاولپور کی کوٹھی تھی جس میں قائداعظم کے قیام کا اہتمام ہو سکتا تھا۔ وہاں اُن دنوں ولی عہد صاحب فروکش تھے۔ تاہم اُن سے کوٹھی خالی کرانا چنداں مشکل نہ تھا۔ طے یہ پایا کہ پہلے قائداعظم کو رضامند کر لیا جائے۔ کیونکہ وہ ۳۰ ستمبر کو لندن سے کراچی آ رہے ہیں۔
 اٹھائیس اگست کی صبح میں نے قائداعظم کی خدمت میں تمام صورت حال رکھی اور امیربہاولپور کو تار ارسال کرنے کی اجازت چاہی۔ میری بات سن کر انھوں نے آنکھیں بند کر لیں اور قدرے توقف کے بعد فرمایا:"آپ نے سنا ہو گا‘ پہلے زمانے میں جب کوئی وکیل ہائی کورٹ کا جج بن جاتا تو کلبوں اور نجی محفلوں میں جانا ترک کر دیتا تھا مبادا اُس کی غیرجانب داری پر اثر پڑے۔ چناںچہ میں سمجھتا ہوں کہ مجھے گورنر جنرل کے اعلیٰ منصب کا خیال رکھنا چاہیے۔ یہ درست ہے کہ ہم ضرورت مند ہیں لیکن میں اپنی ذات کی خاطر اس عظیم منصب کی عظمت خاک میں نہیں ملا سکتا۔ اس لیے تار دینے کی اجازت دینے سے معذور ہوں"۔(کرنل الٰہی بخش)۔
۔۔۔۔۔۔ 
پاکستان میں کوئی بادشاہ نہیں۔۔۔
 دہلی میں آل انڈیا مسلم لیگ کاجلسہ ہو رہا تھا۔ ایک خوشامدی نے نعرہ لگایا:"شاہ پاکستان زندہ باد"۔
 قائداعظم بجائے خوش ہونے کے فوراً بولے:"دیکھیں‘ آپ لوگوں کو اس قسم کی باتیں نہیں کرنی چاہئیں۔پاکستان میں کوئی بادشاہ نہیں ہو گا، وہ مسلمانوں کی جمہوریہ ہو گی جہاں سب مسلمان برابر ہوں گے۔کسی ایک کو دوسرے پر فوقیت نہیں ہو گی"۔(نواب محمد یامین خان)۔
۔۔۔۔۔
اعتماد کاووٹ۔۔۔۔
 مجھے وہ وقت اچھی طرح یاد ہے جب مسلمانوں نے چاہا کہ مسلم لیگ کے صدر کا سالانہ انتخاب ختم کر کے قائداعظم ہی کو مستقل صدر بنانے کی قرارداد منظور کرائی جائے۔ مگر انھوں نے جواب دیا:"نہیں۔ سالانہ انتخابات نہایت ضروری ہیں۔ مجھے ہر سال آپ کے سامنے آ کر آپ کے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنا چاہیے"۔(بیگم لیاقت علی خان)۔
۔۔۔۔۔۔ 
میں نے بہت کچھ سیکھا۔۔۔
 قائداعظم کے ساتھ بارہ برس کی رفاقت میں‘ میں نے چند نہایت اہم باتیں سیکھی ہیں۔ اوّل یہ کہ اپنی زبان سے کوئی ایسی بات نہ کہو جس پر پوری طرح عمل کرنے سے قاصر رہو۔ دوسرے اپنے ذاتی تعلقات و رجحانات کوقومی مفاد میں خلل اندازنہ ہونے دو۔ اور اس معاملے میں دوسروں کے کہنے کی قطعاً پروا نہ کرو۔ تیسرے اگر تم سمجھتے ہو کہ کسی بات میں تم راستی پر ہو تو دشمن کے آگے خواہ وہ کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو‘ ہرگز نہ جھکو۔ ( لیاقت علی خان)۔
۔۔۔۔۔
ہتک۔۔۔
 ہم طلبہ سے دوران گفتگو انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ قوم کی زندگی اور ترقی کے لیے ضروری ہے‘ ہم میں سے ہر ایک بلالحاظ مرتبہ و حیثیت خود کو قوم کے مفاد کا نگہبان و محافظ سمجھے۔ اگر کسی کو ایسی حرکت کا مرتکب پائے جس سے قوم یا ملک کو نقصان پہنچ سکتا ہو تو اپنا آرام و سہولت نظرانداز کر کے مرتکب کی گردن پکڑ لے۔ اس ضمن میں انھوں نے اپنا ایک واقعہ بھی بیان کیا۔
 فرمایا:’’مدتوں پہلے کی بات ہے میں ایک دفعہ سفر کر رہا تھا۔ اُن دنوں بہت کم لوگ مجھے جانتے تھے۔ میں نے درجہ اوّل کا ٹکٹ خریدا۔مگر وہ سہواً ملازم کے پاس رہ گیا۔ جب میں منزل مقصود پر گاڑی سے اترا‘ تو مجھے ٹکٹ نوکرکے پاس چھوڑ آنے کا احساس ہوا۔ میں ٹکٹ کلکٹر کے پاس پہنچا اور کہا کہ میں ٹکٹ بھول آیا ہوں۔ تم مجھ سے کرایہ وصول کر لو۔ میں خریدے ہوئے ٹکٹ کے داموں کی واپسی کا مطالبہ کر لوں گا"۔
ٹکٹ کلکٹر نے کہا:"تم مجھے دو روپے دو اور چلے جاؤ"۔
 اُس کا یہ کہنا تھا کہ میں وہیں ڈٹ کر کھڑا ہوگیا اور کہا: ’’تم نے میری ہتک کی ہے۔ اپنانام اور پتا بتلاؤ۔‘‘ لوگ جمع ہو گئے اُن میں چہ میگوئیاں ہونے لگیں۔ کئی ایک نے مجھ پر فقرے بھی چست کیے مگر میں وہاں سے نہ ٹلا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مسافروں کو لوٹنے والا بابو برخاست ہو گیا۔‘‘(عزیز احمد)۔
۔۔۔۔ 
کم کھاؤ‘ آرام پاؤ۔۔۔
 مسٹر محمود حسن ایک دن محمد علی جناح کے ساتھ کھانا کھا رہے تھے۔ جناح نے حسب معمول بہت تھوڑا سا کھانا کھایا۔ اُس کے بعد چھڑی اُٹھا کر اسے اپنے ناخنوں سے بچانے لگے۔ (اس عادت سے اُن کے اکثر دوست واقف ہوں گے۔) مسٹر محمود جو اب تک کھانے میں مصروف تھے‘ کچھ خفت سی محسوس کرنے لگے اور بولے:"آپ نے تو کچھ کھایا ہی نہیں"۔
 جناح نے جواب دیا:"دنیا والے اسی لیے تکلیفوں میں مبتلا ہوتے ہیں کہ وہ کھاتے بہت ہیں"۔(مطلوب الحسن سید)۔ 
۔۔۔۔۔۔ 
گورنر جنرل بھی‘ انسان بھی۔۔۔
ایک ہی شخص کی دو شخصیتوں کا احساس جس قدر مجھے اُن سے ۱۹۴۸ء کی آخری ملاقات کے دوران ہوا‘ اُس سے پہلے کبھی نہ ہوا تھا۔ اس موقع پر انھوں نے مجھے ایک سرکاری کام کے لیے بلایا تھا۔ جب تک سرکاری کاغذات اُن کے سامنے رہے‘ انھوں نے مجھ سے محض اُسی معاملے پر گفتگو کی۔ میری تجویز پر کڑی نکتہ چینی کی۔
 ایک سوال کے بعد دوسرا‘ دوسرے کے بعد تیسرا‘ غرض سوالات کی بوچھاڑ کر دی۔ آخر جب پوری طور پر مطمئن ہو گئے اور کاغذات پر دستخط فرما دیے تو اُن کے چہرے پر فی الفور تبسم نمودار ہوا۔انھوں نے ملاقات میں پہلی بار میرا مزاج پوچھا۔ پھر ہنس ہنس کر باتیں کیں اور رخصت کیا۔مجھے محسوس ہوا کہ میں نے ایک ہی ملاقات میں قائداعظم محمدعلی جناح گورنر جنرل پاکستان کو بھی دیکھا اور اُن سے بہت ہی مختلف ایک اور انسان یعنی مسٹر محمد علی جناح کو بھی۔(ممتاز حسن)۔
۔۔۔۔۔
لوگوں کا بابا۔۔۔
مجھے یاد ہے‘ ۱۹۴۸ء میں جب مجھے اپنے گاؤں جانے کا اتفاق ہوا‘ تو مرد عورتیں اور بچے آ آ کر مجھ سے اُن کی صحت کے متعلق استفسار کرنے لگے۔ ’’بابے نو کی تکلیف اے۔‘‘ ’’بابے دا ہن کی حال اے۔‘‘ ’’بابے دا کی حکم اے۔‘‘ ان لوگوں کو قائداعظم کا پورا نام بھی معلوم نہ تھا‘ مگر وہ جانتے تھے کہ اُن کا ملجا دمادا ایک ایسا شخص دنیا میں موجود ہے جس کی زندگی اُن کے لیے وقف ہے۔وہ اپنے ’’بابے‘‘ کی صحت کے لیے دست بدعا تھے۔ وہ اُن کا تھا اور وہ اُس کے۔
 اکثر کہا جاتا ہے کہ قائداعظم دولت مندوں کے حلیف تھے۔ مگر جن لوگوں نے انھیں عام مسلمانوں کے مجمعوں میں دیکھا ہے‘ وہ جانتے ہیں کہ غریب مسلمانوں کے لیے اُن کے دل میں کیا جذبہ موجود تھا۔ یہ حقیقت ہے کہ ایسی بے پناہ عقیدت جو غریب مسلمانوں کو اُن کی ذات سے تھی‘ یک طرفہ ہو ہی نہیں سکتی۔(ممتاز حسن)۔
۔۔۔۔
سکنہ منٹگمری۔۔۔
 جب قائداعظم کا دہلی میں طویل قیام ہوتا اور وہ ہجوم کار سے گھبرا جاتے تو باغپت (ضلع میرٹھ) تشریف لے جاتے اور غالباً وہاں ڈاک بنگلے میں رہتے۔ یہ ڈاک بنگلہ دریا کنارے واقع ہے۔ منظر بہت اچھا اورجگہ بڑے سکون کی ہے۔ وہیں ایک روز نواب صاحب باغپت نے قائداعظم سے کہا: ’’آپ کا خاندان تو تجارت پیشہ ہے‘ آپ میں کڑک کہاں سے آئی؟‘‘
 قائداعظم نے مسکرا کر جواب دیا: ’’نواب صاحب میں تو پنجابی راجپوت ہوں۔ کئی پشتیں گزریں میرے ایک جد کاٹھیاواڑ چلے گئے تھے۔ وہاں انھوں نے ایک خوجہ کی لڑکی سے شادی کر لی اور انہی کے خاندان میں مل گئے۔ اُس وقت سے ہم خوجوں میں شمار ہونے لگے۔ میرے وہ جد جو کاٹھیاوار گئے‘ ضلع منٹگمری کے رہنے والے تھے۔‘‘(اسد ملتانی)۔
۔۔۔۔
جج بطور اسٹیشن ماسٹر۔۔۔
 قائداعظم کی شخصیت کی جس خصوصیت سے لوگ عموماً ناواقف ہیں‘ وہ اُن کی لطافت مزاج ہے۔ کبھی کبھی وہ کھانے کی میز پر ہمیں مزے مزے کے لطیفے اور قصے سناتے۔ قائداعظم کا سنایا ہوا ایک لطیفہ مجھے اب تک اچھی طرح یاد ہے۔ ’’انگلستان کے کسی چھوٹے سے ریلوے اسٹیشن پر گاڑی معمول سے ذرا زیادہ ٹھہر گئی۔ ایک ہندوستانی جج نیچے اتر کر پلیٹ فارم پر ٹہلنے لگا۔ اتنے میں ایک انگریز بھی گاڑی سے اترا۔ سیدھا جج صاحب کی طرف آ کر اُن سے پوچھنے لگا:’’گاڑی کب چھوٹے گی؟‘‘
جج نے جواب دیا: مجھے کیا معلوم؟
 انگریز نے کہا:’’لیکن تمھیں معلوم ہونا چاہیے۔ کیا تم اسٹیشن ماسٹر نہیں ہو؟‘‘ اس نے جھنجھلا کر جواب دیا: "نہیں میں اسٹیشن ماسٹر نہیں ہوں"۔
انگریز بولا: ’’اگر نہیں ہو تو ویسے معلوم کیوں ہوتے ہو۔‘‘(فرخ امین)۔
۔۔۔۔
پہلے صحیح فیصلہ‘ پھر عمل۔۔۔
 اپنی سیاسی زندگی میں قائداعظم نے سستی شہرت اور نام و نمود کی خواہش نہیں کی۔ قائداعظم وہی کچھ کرتے جسے وہ درست سمجھتے… قطع نظر اس امر کے کہ عوام کو وہ پسند ہے یاناپسند۔ ایک دفعہ انھوں نے پنڈت جواہر لال نہرو سے کہا: ’’تم پہلے یہ معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہو کہ عوام کو کیا پسند ہو گا اور پھر اُن کی پسند کے مطابق عمل کرتے ہو۔ لیکن میرا طریقہ عمل بالکل مختلف ہے۔ پہلے میں فیصلہ کرتا ہوں کہ صحیح کیا ہے؟ درست کیا ہو گا؟ اور پھر اُس پر عمل شروع کر دیتا ہوں۔ لوگ میرے گرد جمع ہونے لگتے ہیں اور مخالفت غائب ہو جاتی ہے۔‘‘(ھیکٹر بولائیتھو)۔
۔۔۔۔۔
قانون کا احترام ازھیکٹر بولائیتھو

 علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلبہ نے جب ایک شام قائداعظم سے اپنے چند استادوں کے خلاف شکایت کی تو قائداعظم نے دریافت کیا: ’’تم میں سے کس کس کی سائیکل پر لیمپ ہے؟‘‘۔
 قائداعظم نے پھر انھیں تنبیہہ کرتے ہوئے فرمایا: ’’تم دوسروں پر اُس وقت تک نکتہ چینی نہیں کر سکتے جب تک کہ خود قانون کا احترام نہ سیکھ لو"۔
۔۔۔۔
مشورے کا جوابازھیکٹر بولائیتھو
 جلوس کے اختتام پر اسمبلی ہال میں انتقالِ اقتدار کی تقریب منعقد ہوئی۔ اس میں لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے پاکستانیوں کو اپنے سفید فام جسم میں ہزار کدورتوں اور خیانتوں کی سیاہیاں چھپائے یہ مشورہ دیا کہ وہ نئی مملکت میں عدل و انصاف اور رواداری کی ایسی روایتیں قائم کریں جو مغل بادشاہ اکبر نے قائم کی تھیں۔
 قائداعظم نے اپنی جوابی تقریر میں ماؤنٹ بیٹن کے اس مشورے کو للکارے بغیر نہ جانے دیا۔ انھوں نے بڑے باوقار انداز میں فرمایا’’ عدل و انصاف اور رواداری کی روایتیں ہمیں اس سے بہت پہلے نبی کریم ﷺ سے مل چکی ہیں"۔
۔۔۔۔۔
دنیا کا مصروف ترین انسان ازمحمد یوسف آزاد
 میں نے قائداعظم کے موٹر ڈرائیور کی حیثیت سے زندگی کے پانچ اہم سال گزارے ہیں۔ ان پانچ برسوں میں‘ میں نے بہت کچھ سیکھا اور دیکھا۔ مجھ پر یہ راز بھی کھلا کہ صحیح معنوں میں قوم کی راہنمائی کرنا کتنا مشکل ہے۔ میں نے قائداعظم کو رات ڈھلے تک کام کرتے دیکھا۔ بارہا ایسا بھی ہوا کہ وہ سونے کے لیے لیٹ گئے۔ لیکن جیسے ہی انھیں کسی کام کا خیال آیا وہ فوراًبستر سے اُٹھ کر کام میں مصروف ہو گئے۔ میں نے قومی کاموں میں انھیں جس قدر منہمک پایا ہے۔ اُسے پیش نظر رکھتے ہوئے میں یہ کہتا ہوں:
’’وہ مغرور نہیں بلکہ مصروف انسان تھے‘ غالباً دنیا کے مصروف ترین انسان۔‘‘
۔۔۔۔۔
قول و فعل۔۔۔
 واجد علی نے مجھے بتایا کہاکہ ایک روز قائداعظم نے کہا: ’’کیا بتایا جائے‘ ڈاک میں اتنی تعداد میں خطوط آتے ہیں کہ اُن کے جوابات دینے میں خاصا وقت صرف ہو جاتا ہے۔‘‘
 واجد علی نے جواب میں عرض کیا’’آپ حکم دیں تومیں حاضر ہو جایا کروں اور خطوط کا جواب آپ کی ہدایت کے مطابق لکھ دیا کروں۔‘‘
 اس پر قائداعظم نے فرمایا: ’’تم ایک بات بھول رہے ہو کہ یہ خط جناح کے نام آتے ہیں اور کسی کے نام نہیں"۔
 یہ نکتہ بعد میں غور وفکر سے سمجھ میں آیا کہ ہر خط لکھنے والے کا یہ حق ہوتا ہے کہ وہ جس کو خط کے ذریعے مخاطب کرے‘ وہی اُس کا جواب دے۔(فقیر سید وحیدالدین)۔۔۔۔۔۔۔۔
معمولی آدمی۔۔۔
روزنامہ انقلاب بمبئی۔ ۲۵ دسمبر ۱۹۴۵ء
چوبیس دسمبر ۱۹۴۵ء کوای وارڈ ڈسٹرکٹ مسلم لیگ کے چند کارکن قائداعظم کے دولت خانے پر ایک جلسہ میں شرکت کی دعوت دینے گئے۔ اُن میں سے ایک شخص نے مصافحہ کرتے ہوئے جوش عقیدت سے مجبور ہو کر آپ کے ہاتھ کو چوم لیا۔ یہ حرکت دیکھ کر قائداعظم نے فرمایا ’’لوگوں کو چاہیے کہ وہ مجھے معمولی آدمی تصور کریں۔ پیر و مرشد نہ سمجھ لیں۔ اس طرح لوگوں میں غلط اور تباہ کن طریقہ پر سر جھکانے کی عادت پڑ جاتی ہے جسے عرف عام میں شخصیت پرستی کہتے ہیں۔ یہ مرض نقصان دہ اور مضرت رساں ہے‘ اور ناروا اور ناجائز ہے‘‘۔
۔۔۔۔۔
دس کروڑ مسلمانوں کا تنہا وکیل ازفقیر سید وحیدالدین
۔۴۵۔۱۹۴۴ء میں‘ میں کسی سرکاری کام سے بمبئی کے دورے پر گیا۔ وہاں اپنے عزیز سید واجد علی کے یہاں مقیم ہوا۔ واجد علی اکثر و بیشتر قائداعظم کا ذکر کیا کرتے تھے۔ اندازہ ہوا کہ وہ اُن کی ذات سے خاص دلچسپی بلکہ عقیدت رکھتے ہیں۔ قائداعظم بھی اُن پر مہربانی فرماتے۔ ملاقات کے لیے عزیز موصوف کو کوئی رسمی دشواری پیش نہیں آتی… انھوں نے قائداعظم کی قیام گاہ واقع مالا بارہل پر ٹیلی فون کیا اور ملاقات کا وقت لیتے ہوئے کہا کہ میرا ایک عزیز بھی میرے ہمراہ آنا چاہتا ہے۔ قائداعظم نے جواب میں غالباً اجازت دے دی۔ میری خوشی کا کیا پوچھنا۔ متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کے سب سے بڑے راہنما سے شرف ملاقات کا موقع مل رہاتھا۔…
 تھوڑی ہی دیر میں قائداعظم کی قیام گاہ پر تھے۔ زینہ طے کرتے ہوئے بالائی منزل پرپہنچے۔ وہاں قائداعظم اپنی ہمشیرہ کے ساتھ صوفے پر رونق افروز تھے۔ بڑے تپاک سے ملے‘ مصافحہ کیا اور بیٹھنے کو کہا۔ ملاقات میں کئی موضوعات پر باتیں ہوئیں۔ سب سے زیادہ اہم بلکہ گرم موضوع شملہ کانفرنس کاتھا۔ انھوں نے فرمایا: ’’میں آج ہی شملہ کانفرنس میں شریک ہونے جا رہا ہوں۔‘‘ پھر قدرے رک کر حسرت آمیز لہجے میں بولے:"دیکھو! میں یہاں تنہا بیٹھا مسلمانوں کا پورا مقدمہ تیار کر رہا ہوں۔ عین اس مکان کے سامنے انڈین کانگریس کے بہترین دماغ مل جل کر جوابِ دعویٰ تیار کر رہے ہیں"۔
 میں نے اس مختصر ملاقات میں محسوس کیا کہ دس کروڑ مسلمانوں کے مستقبل کی اتنی بھاری ذمہ داریاں اپنے منحنی کاندھوں پر سنبھالنے کے باوجود وہ پُرامید ہیں اور کسی قسم کی بے چینی اور اکتاہٹ محسوس نہیں کرتے۔ انھیں اس دن سفرکرنا تھا اور سفر بھی کس قدر ہنگامہ آفرین۔ اُن کی مصروفیات بھی غیرمعمولی تھیں۔ انھوں نے ملاقات کے دوران اپنے اضطراب ‘ عجلت اور بڑھی مصروفیات کا احساس نہیں ہونے دیا۔ کوئی دوسرا ہوتا تو اپنا اضطراب شاید نہ چھپا سکتا۔ ہم نے خود اُٹھ کر اجازت چاہی‘ تب انھوں نے رخصت دی۔

"سیٹل اور سیٹل منٹ"

سورۂ فرقان(25) آیت 2۔۔   وَخَلَقَ كُلَّ شَىْءٍ فَقَدَّرَهٝ تَقْدِيْـرًا ترجمہ۔ اور جس نے ہر شے کو پیدا کیا اور پھر اس کے لیے ایک اند...