جمعرات, نومبر 16, 2017

گوگل اورگاڈ - مجیب الحق حقی

بشکریہ۔۔دلیل ویب سائیٹ۔۔اشاعت۔۔11نومبر 2017۔
خدا کی قدرت اتنی ہمہ گیر کس طرح کی ہوسکتی ہے کہ کائنات کے ہر ہر ذرّے کا اور ہر انسان کے خیالات اور جذبات و اعمال کا علم بھی اسے ہو، اس قدرت کے عملی پیرائے کیا ہوسکتے ہیں؟ یہ ہر عاقل انسان کے ذہن کو شل کرنے والا سوال ہے لیکن ہماری تسلّی اس طرح کرائی جاتی رہی ہے کہ خدا اور اس کی صفات و قدرت کو ہم نہیں سمجھ سکتے۔ یہ ایک درست بات ہے مگرایک سوچتا ذہن جو سائنسی بنیاد پر ہر چیزکا جواز تلاش کرتا ہے، وہ خدا کے حوالے سے بھی تجسّس کا اظہار کرنے میں حق بجانب ہوتا ہے کہ اسے ہر سوال کا مناسب عقلی استدلال ملے۔ اس دور کے نوجوان سوچتا ذہن رکھتے ہیں اسی لیے ہر عقیدے کا عقلی جواب طلب بھی کرتے ہیں اور تلاش بھی کہ تجسّس بھی اللہ کی تخلیق ہے۔ ہم اپنی عقل کے بموجب یہ جاننے کی سعی تو کر ہی سکتے ہیں کہ خدا کی قدرت کی نوعیت اور پیرائے کیا ہوسکتے ہیں۔ یاد رکھیں کہ ایسی کھوج سے ہماری ایمانیات پر زد نہیں پڑتی کیونکہ ہمارا ایمان بالغیب ہمیں اللہ کی قدرت پریقین عطا کرتا ہے، مگر عقل کو چین سے بٹھانے کے لیے عقلی دلیل بھی ضروری ہے تاکہ وسوسوں کا راستہ بند ہو۔ اس لیے یہاں ہم اللہ کی عظیم الشّان قدرت کے پیرایوں کے فہم اور عقلی تشریح کے لیئے دلائل کی تلاش میں جدید سائنسی دریافتوں کی مدد لیتے ہیں۔
ہماری روزمرّہ کی زندگی میں تیزی سے داخل ہونے والے کمپیوٹر اور اسمارٹ فون نے سوچنے کے اتنے دریچے کھول دیے ہیں کہ بس دیکھنے والی آنکھ اور سوچنے والے ذہن کی توجّہ کی ضرورت ہے۔ آئیے ہم اس ضمن میں خدا کی قدرت سے قبل انسان کی قدرت پر غور کرتے ہیں کہ وہ کیا کچھ حاصل کرچکا ہے۔
انٹرنیٹ یعنی انٹرنیشنل  نیٹ ورک کئی ارب کمپیوٹرز کے مابین رابطے کا عالمی نظام ہے جو انٹرنیٹ پروٹوکول  (آئی پی) کی بنیاد پر چلتا ہے یعنی ہر کمپیوٹر ایک مخصوص نمبر کا حامل ہوتا ہے۔ سادہ لفظوں میں یہ ایک الیکٹرانک بازار ہے جس میں ہر طرح کی اشیاء، خدمات اور تفریحات موجود ہیں۔ ایک طرف تاجر نام کے ساتھ (ویب سائٹ) تودوسری طرف خریدار یا تفریح کنندہ آئی پی نمبر کے ساتھ۔ ایک ارب سے زائد ویب سائٹ کے اتنے وسیع عالمی سسٹم میں تلاش، آپس میں رابطے اور معلومات کے حصول کے لیے سرچ سوفٹ وئیر بنائے گئے جو اربوں کھربوں ایڈریس یا معلومات میں سے ہماری مطلوبہ معلومات تک رسائی ممکن بناتے ہیں۔ انہیں سرچ انجن کہا جاتا ہے۔ ان میں سب سے مشہور اور برق رفتار گوگل  ہے۔ ویب سائٹ "نیٹ مارکیٹ شیئر" کی مارچ 2017ء کی رپورٹ کے مطابق روزانہ ساڑھے چھ ارب ویب سرچ میں گوگل کا حصہ ساڑھے چار ارب سے زیادہ ہے۔ اسی لیے یہاں پر انٹر نیٹ سرچ انجن گوگل کی قدرت اور کارکردگی کا، جس کا آپ خود بھی روز مشاہدہ کرتے ہیں، ایک مختصر جائزہ مناسب ہوگا۔ آئیے اس کی دسترس کا اندازہ لگائیں۔
گوگل کروم کی انسٹالیشن کے بعد ہمارے کمپیوٹر اور گوگل سرورز کا ان دیکھا رابطہ قائم ہوجاتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق گوگل پر ہر سکینڈ میں اوسطاً 55 ہزار تلاش کے مطالبے آتے ہیں جن کا انتہائی برق رفتاری سے جواب دیا جاتا ہے۔ جس میں ہر سوال کے جواب کی تلاش میں اوسطاً اعشاریہ دو سیکنڈ میں 1000 کمپیوٹرز کا استعمال ہوتا ہے۔ اس سوفٹ وئیر کی رسائیت کا یہ عالم ہے کہ کسی بھی تلاش پر کی بورڈ پر ادھورے لکھے سوال کے آگے کے ممکنہ جملے یا ایڈریس بھی یہ ہمارے سامنے لاتا رہتا ہے، تاکہ ہمیں آسانی ہو، بلکہ آپ کی آواز سے بھی کہ، کسی ویب سائٹ کا نام پکاریں تو گوگل اس لنک کو لے آتا ہے۔ ہمارے اسمارٹ فون پرگوگل کی گرفت ایسی ہے کہ اگر کھو جائے تو یہ آپ کو نہ صرف اس کی لوکیشن بتا سکتا ہے بلکہ اس کو لاک کر سکتا اور اس کا ڈیٹا بھی ڈیلیٹ کر سکتا ہے۔ آزمانے کے لیے آپ ابھی کمپیوٹر پر اپنے گوگل اکاؤنٹ  پر جا کر اپنے گوگل رجسٹرڈ اینڈرائیڈ
android
 موبائل کی تلاش کا آپشن 
find-my-phone
 لکھیں تویہ گوگل نقشے پر اس کا مقام ظاہر کر دے گا اور آپ سے آپشن پوچھے گا کہ گھنٹی بجائے، لاک کرے یا ڈیٹا تلف کر دے! مگر آپ صرف گھنٹی بجانے پر اکتفا کریں۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ ہر وقت کسی کی نگاہ میں ہیں۔
کارکردگی اور قوّت کی ایک جھلک:۔2013ء کی رپورٹ کے مطابق گوگل کو ایک ارب سترہ کروڑ افراد استعمال کرتے تھے۔
پندرہ فیصد نئے سوالات کے جواب ڈھونڈنے کے لیے گوگل روزانہ بیس ارب ویب سائٹ پیجز میں رینگتا ہے۔
نالج گراف ڈیٹا بیس میں پچاس کروڑ ستّر لاکھ اداروں کے 18 ارب حقائق ان کے آپس کے تعلّق کے ساتھ محفوظ ہیں۔
مئی 2017ء میں گوگل نے انکشاف کیا کہ اس کے ماہانہ انڈرائیڈ استعمال کرنے والی ڈیوائسز دو بلین تک پہنچ گئی ہیں۔
گوگل ایک سال میں 2 ٹریلین یعنی بیس کھرب سرچ کرتا ہے۔ ایک دوسری رپورٹ کے مطابق بارہ کھرب۔ اس پر 130 کھرب ویب پیج انڈکس ہیں۔
یو ٹیوب پر روزانہ ایک  ارب گھنٹے کی ویڈیو دیکھی جاتی ہیں۔ 2014ء میں اس کے ڈیٹا سنٹر میں استعمال ہونے والی توانائی امریکہ کے تقریباً تین لاکھ سڑسٹھ ہزار گھروں کے استعمال کے برابر تھی۔ گوگل کے تقریباً 78ہزار ملازمین ہیں۔ جی۔میل کو ایک ارب بیس کروڑ افراد استعمال کرتے ہیں۔
کم لوگوں کو علم ہوگا کہ گوگل کا ڈیش بورڈ وہ ڈیٹا بیس ہے جس میں ہر کسٹمر یا یوزر کا ہر طرح کا مکمّل ریکارڈ محفوظ ہوتا رہتا
ہے۔ اس میں ابتدا سے آج تک کی ہر گوگل ایپ
 application
 پر ہماری آپ کی ہر ہر نقل و حرکت تاریخ اور وقت کے ساتھ محفوظ ہوتی ہے۔ یوٹیوب پر اعلانیہ اور خفیہ نظارے اپنی ہسٹری کے ساتھ محفوظ ہیں۔ اس پر ہماری روز کی ہسٹری ڈیلیٹ کا اثر نہیں ہوتا بلکہ ڈیش بورڈ سے مواد الگ سے تلف کرناپڑتا ہے۔Google.com/history یا myactivity.google.com/myactivity
 آپ کو اپنی سرچ ہسٹری تک رسائی دے گا، لیکن مطمئن رہیں کہ گوگل آپ کے علاوہ یہ کسی اور کو نہیں دکھاتا۔ سرچ کے علاوہ کئی خدمتی پروگرام بھی ہمہ وقت مصروف رہتے ہیں۔
سیکنڈ کے بھی ثانیوں میں آپ کے سوال اور تلاش کا جواب نگاہوں کے سامنے آنا اب معمول ہے، لہٰذا اس پر ہم غور کم کرتے ہیں کہ اس کے پیچھے سسٹم کیا ہے۔
مارچ 2016ء کی ایک محتاط رپورٹ کے مطابق دنیا کے مختلف خطّوں میں پچیس لاکھ سرورز کے پھیلے وسیع جال نے گوگل کا یہ محیّرالعقول نظام تخلیق کیا ہے۔ یہ تعداد روز بروز بڑھتی ہے۔ اس کا اندازہ اس سے لگائیں کہ 2011ء میں سرورز کی تعداد نو لاکھ تھی۔
اوپر دی گئیں شماریات زیادہ تر مشاہدے اور قیاس و حساب پر ہیں کیونکہ گوگل اپنی کارکردگی عموماً شیئر نہیں کرتا۔ ان کے حوالہ جات آخر میں درج ہیں۔
گوگل کی کارکردگی ایک عام انسان کے لیے ناقابل یقین ہو سکتی ہے، لیکن کیونکہ ہمیں اس کے پیچھے سسٹم کا علم ہے، اس لیے یہ ہمارے لیے عجوبہ نہیں رہا۔ گوگل کی مثال سے ثابت ہوا کہ سامنے چلتے کسی بھی بڑے سسٹم کے پیچھے بھی بہت بڑی پلاننگ اور ایک ہمہ گیر کنٹرول سسٹم ہوتا ہے۔ اب ایک قدم آگے جاکر پورے انٹرنیٹ کے نظام کو دیکھیں کہ کس طرح فیس بک، ٹوئٹر، واٹس ایپ، مائیکروسوفٹ، اسکائپ، انسٹا گرام وغیرہ اپنے ایسے ہی مربوط نظام کے ساتھ روبہ عمل ہیں۔ سب سے دلچسپ اور اہم وائی فائی
 wi-fi (wireless-fidelity) 
کا ایک ان دیکھا نظام ہے جو کروڑوں اربوں معلومات لیے ہمارے اطراف "غیب" میں موجود ہوتا ہے۔ ہم میں سے اکثر اس نظام
 (wi-fi) 
سے لاتعلّق ہی رہتے ہیں، مگر جب ہمیں کسی معلومات یا کسی تسکین کی طلب ہوتی ہے تو اس کی بدولت دنیا کی ہر معلومات صحیح یا غلط، چندثانیوں میں کمپیوٹر یا اسمارٹ فون کی اسکرین پر آموجود ہوتی ہے۔
ہمارے مقام قیام سے دیکھا جائے تو اس انٹرنیٹ سسٹم کے دو حصّے ہوئے، ایک وہ جو طبعی یا فزیکل ہے، جس میں کمپیوٹر سرورز، مشینی انفرا اسٹرکچر، خلائی مصنوعی سیّارے اور کیبل کا نظام ہے جو ہماری آنکھوں سے فی الوقت اوجھل ہے، اور دوسرا وہ جو ہمارے اطراف وائی فائی کی شکل میں لیکن غیر مرئی طور پر موجود ہے۔ اس سسٹم سے بہرہ مند ہونے کے لیے ہمیں ایک ڈیوائس یعنی کمپیوٹر یا موبائل کی ضرورت ہوتی ہے، جو اس سے ایک تعلّق قائم کر دیتا ہے۔ یہ ڈیوائس ہی، جو وائی فائی کے سگنل کو واپس معلومات میں تبدیل کرنے کی صلاحیت کی حامل ہوتی ہے، اس خاص ماحول کے راز کو فاش کرتی ہے کہ کوئی عام سی فضا حقیقتاً خالی نہیں ہوتی بلکہ ایک بہت فعّال دنیا اس خاموشی میں موجود ہوسکتی ہے جس میں بے پناہ معلومات موجزن ہوں۔
اب گوگل کی تشریح کی جائے تو ایک ایسا نظام ہے جو ہر لمحے لاکھوں انسانوں کی بات سن بھی رہا ہے اور جواب بھی دے رہا ہے۔ انھی لمحات میں وہ ہر ہر شخص کے کمپیوٹر کی کلک بھی محفوظ کر رہا ہے گویا فرداً فرداً سب کے اعمال کا ریکارڈ بھی جمع کر رہا ہے۔ وہ سیٹلائٹ سے میپ پر کروڑوں لوگوں کو نہ صرف دنیا کا چپّہ چپّہ دکھاتا رہتا ہے بلکہ اسمارٹ فونزکی نقل و حرکت بھی محفوظ کر رہا ہے، مزید سب کو ٹریفک کی گنجانی بھی بتا رہا ہے۔ اگر اس کا کوئی تعلّق لائیو سیٹلائٹ ریکارڈنگ سے ہو تو سب کی گھر سے باہر کی تمام نقل و حرکت بھی ریکارڈ کر سکتا ہے، کریم اور اُوبر سروسز اس کی مثال ہیں۔ یہ سب کچھ شفّاف حقائق ہیں کہ ایک فعّال نظام بیک وقت کروڑوہا انسانوں سے مختلف پیرایوں میں رابطہ رکھنے کی صلاحیت کا خوگر ہے۔ گوگل انسان کی صلاحیت کو آشکارہ کرتا ہے کہ اس نے کس طرح ایک برق رفتار سسٹم کی تخلیق کی۔ اس سسٹم کی رکھوالی کرنے اور چلانے والے بھی تقریباً 78 ہزار انسان ہیں جو پس پردہ اس کا حصہ ہیں۔ گویایہ ہمہ گیر سسٹم ظاہر اور باطن میں مربوط پیرائے میں جاری ہے جس پر ایک کنٹرولنگ اتھارٹی ہے۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ گوگل انسان کا بنایا ہوا ایک سسٹم ہے تو بھلا جس ہستی نے انسان کو بنایا، وہ کیسے کیسے سسٹم کی تخلیق پر قادر نہ ہوگی۔ اس انٹرنیٹ اور سرچ سسٹم کو سمجھ کر ایک قدم آگے بڑھ کر کائنات کے نظم کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
گوگل کے نظام کی روشنی میں اگر ہم اس کائنات کے نظام کی تشریح کرنا چاہیں تو بآسانی بہت سے پہلوؤں کی وضاحت ہو سکتی ہے۔ اللہ کے نظام جس سسٹم کے تحت چل رہے ہیں، ہمیں ان کا فی الحال علم نہیں لیکن جدید ٹیلی کمیونیکیشن سسٹم اور انٹرنیٹ ہم پر واضح کرتے ہیں کہ اس سے برتر نظام عین ممکن ہیں۔ یہ بات تو یقینی ہے کہ کوئی سسٹم بغیر پلاننگ کے نہیں بنتا اور نہ جاری رہ سکتا ہے اور کائنات بھی ایک سسٹم ہے۔ انسان کا اپنے رب سے تعلّق ہونا انتظامی ہی نہیں بلکہ فطری ضرورت بھی ہے۔ دنیا کا ہر ذی حیات اور ہر فرد ایک اسمارٹ فون کی طرح کسی روحانی یا انجانی پروٹوکول سے منسلک ہے۔
کائنات وہ سسٹم ہے جس کے دو رخ ہیں، ایک طبعی اور دوسرا غیر مرئی، لیکن انٹرنیٹ سسٹم کے مقابلے میں اس کائناتی نظم میں منفرد بات یہ ہے کہ اس کا یہاں پر معکوس یا اُلٹ اطلاق ہے۔ انٹرنیٹ میں ہم غیر مرئی ماحول (وائی فائی) سے منسلک ہوتے ہیں اور طبعی فنکشنل رخ ہم سے اوجھل اور کہیں دور ہوتا ہے، جبکہ کائناتی ماحول میں ہم طبعی ماحول میں ہوتے ہیں جبکہ اس کا فنکشنل نظم غیر مرئی اور ہمارے حواس سے اوجھل ہے کہ جس میں فطری قوانین، توانائیاں اور قوّتیں شامل ہیں۔ ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ہر نظام مربوط منصوبہ بندی سے لاگو تو ہوتا ہے مگر اس کی روانی میں مختلف کارندوں کا ہونا ضروری ہوتا ہے۔ کائنات کے نظام کے فنکشنل ہونے میں اللہ کے کارندوں کا جو اہم مقام ہے، اس کا اندازہ اس سے لگائیں کہ اللہ نے اپنے بعد فرشتوں پر ایمان لازم قرار دیا۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ خالق فرشتوں کا محتاج نہ ہونے کے باوجود انسان کو عقلاً بھی مطمئن کر رہا ہے کہ کائناتی سسٹم کس طرح بنایا اور چلایا جا رہاہے۔ یہاں ایک بات اور عیاں ہوتی ہے کہ اللہ نے انسان کو اپنا خالق بنانے سے پہلے اپنی کچھ صفات کا عکس اس میں منتقل کیا تو اسُی کے باوصف انسان انھی پیرایوں میں اپنے نظام چلا رہا ہے، یعنی پلاننگ، انتظام، اور ناظم سے رابطہ۔ جس طرح گوگل کے نظام کا خالق باہر رہ کر ایک عظیم سسٹم کو رواں رکھتا ہے، غالباً ایسا ہی کوئی نظم ہے کہ اللہ اس سسٹم سے باہر رہ کر کائنات اور زندگی رواں دواں رکھے ہوئے ہے۔
رب سے ایمانی تعلّق کیا ہے؟
گوگل کے اپنے فون انڈرائیڈ کے بلِٹ ان
 built-in 
سسٹم سے لیس ہوتے ہیں جس میں اپنا جی میل
 gmail.account 
ڈال کر آپ گوگل کے سرور سے منسلک ہوجاتے ہیں، بالکل اسی طرح ہر انسان خدا کے بارے میں ایک
 built-in 
فطری تجسّس لیکر پیدا ہوتا ہے جو روح میں پیوست ہے، اور محض اس کا اقرار اس کا رابطہ رب سے قائم کرنے کے پیرائے زندہ 
activate
 کر دیتا ہے۔
یہاں غور طلب یہ نکتہ ہے کہ ہم انٹرنیٹ کے ماحول یا نظم سے تعلّق اسی وقت قائم کر پاتے ہیں جب ہم اس کے فنکشنل طبعی رخ سے ہم آہنگ کوئی طبعی ڈیوائس استعمال کرتے ہیں، جیسا کہ کمپیوٹر اور اسمارٹ فون اپنی ہم آہنگ ساخت میں وائی فائی سسٹم یا کیبل کے توسّط سے ہمارا رابطہ انٹرنیٹ کے پس پردہ نظام سے جوڑ دیتے ہیں۔ تو سوال یہ اُٹھتا ہے کہ:
کیا کائنات کے غیر مرئی فنکشنل پیرامیٹرز سے تعلّق جوڑنے کے لیے ہمیں بھی غیر مرئی واسطے درکار نہ ہوں گے؟
جیسا کہ ابھی ہم نے گوگل سے رابطے کے لیے وائی فائی ڈیوائس کا تذکرہ کیا، اسی اُصول پریہ بات بھی عین منطقی ہے کہ کائنات کوچلانے والے غیر مرئی نظام کو جاننے اور اس کے خالق سے رابطے کا کوئی طریقہ یا "ڈیوائس" یعنی رابطوں کے غیر طبعی پیرائے موجود ہوں۔
مگر وہ کیا ہوسکتے ہیں؟
کیا شعور و عقل؟ یا
رسالت، عبادات و نماز تو نہیں؟
غور کریں!
مگر ایک اہم سوال اور:
کیا ڈیش بورڈ کی طرح کوئی اعلیٰ تر خفیہ نظام ہمارے تمام اعمال و حرکات کو محفوظ نہیں کرسکتا؟ اور
کیا کسی نے گوگل کو کبھی دیکھا؟
خدا کا انکار کرنے والے کیا ہمیں گوگل، فیس بک اور مائیکروسوفٹ دکھا سکتے ہیں! ذرا سوچیں!
یہاں مقصد ان کا خدا سے تقابل نہیں بلکہ یہ واضح کرنا ہے کہ دنیا کے طبعی ماحول میں بھی ایسے غیر مرئی عوامل موجود ہوتے ہیں جو ہمارے اعمال میں سرایت رکھتے ہیں۔
کیونکہ جدیدیت کا فلسفہ انسان ہی کو عقل کُل قرار دیتا ہے، اسی لیے اس فلسفے پر ایمان لانے والا جدید انسان خدا کو ایک بےجان اور بےعمل ہستی یا ایک تصوّر سمجھتا ہے، جبکہ دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ جدید انسان اپنی ننّھی منّی عقل سے اپنی اور کائنات کی ابتدا ہی نہیں سمجھ پا رہا تو بھلا اللہ کو کیسے جان پائے گا۔ اس غیریقینی سوچ اور خبط ِ عظمت کے فطری نتیجے میں جدیدیت کا پیروکار انسان "عقل کے قبض" میں مبتلا ہو جاتا ہے، جس سے اس کی فکر میں ایسے منفی ذہنی قفل لگ جاتے ہیں، کہ ہٹ دھرمی کے باعث اپنے سے بہت برتر کسی قوّت یعنی خداکو قبول نہیں کر پاتا ۔
ورنہ، کشادہ عقل تو کہہ اٹھتی ہے کہ:
ہر جا تیری قدرت کے ہیں لاکھوں جلوے
حیراں ہوں کہ دو آنکھوں سے کیا کیا دیکھوں

منگل, نومبر 14, 2017

"لفظ سے لباس تک"

لفظ روح کا لباس ہیں اورلباس انسان کے جسم کی تفسیر۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ انسان کی اصلیت لباس میں نہیں جسم میں پنہاں ہے۔اورروح کی گہرائی لفظ سے نہیں عمل سے ماپی جاتی ہے۔
بیش قیمت زرق برق لباس وقتی طور دیکھنے والے کو مرعوب کر سکتا ہے۔۔۔نگاہوں کو خیرہ کر سکتا ہے۔۔۔ پرجسم کا راز جسم کو جاننے سے ہی کُھلتا ہے۔ اس کے لیے اپنے جسم کے اسرار ورموزسے آگاہی پہلی شرط ہے۔
اسی طرح الفاظ میں گھن گرج ہو یا بہتے چشموں کی سی نغمگی ۔۔۔ اگر اُن کی روح تک رسائی نہ ہو وہ محض کچھ پل کو متاثر کرتے ہیں۔ لمحاتی طور پر قدم ضرور روک لیتے ہیں۔ لیکن ہمیشہ کے لیے اپنا اسیر نہیں بنا پاتے۔
لباس ہو یا لفظ موسم اور وقت کے تابع ہوتا ہے اور ببانگ دہل اس کا اظہار کرتا ہے۔ لباس سے موسم کی شدت کا اندازہ ہوتا ہے تو لفظ سے روح کی کیفیت کا راز کھلتا ہے۔
لباس کی شکنیں رات کی کروٹوں کی غمازی کرتی ہیں تو بےداغ ،بے شکن لباس روزِروشن کی طرح اندر کی کہانی سناتا ہے۔ ذات کے بھید کھولتا ہے۔ 
لفظ انسان کے کردار کی منظر کشی کرتے ہیں۔ سفاک،برہنہ لفظ جگر چھلنی کردیتے ہیں تو کہیں اصل شخصیت کو تہہ درتہہ چھپائے یہ تازہ قلعی شدہ دکھتے ہیں۔ آنچ کی ہلکی سی تپش پا کرجن کی اصلیت جلد ہی سامنے آ جاتی ہے۔ 
!حرفِ آخر
لفظ کی تابندگی خیال کی سچائی کا پتہ دیتی ہے۔بےشک حرف اہم ہیں پریہ ہماری شناخت ہرگز نہیں کہ شناخت صرف عمل سے ہےجو ہر کامیابی یا ناکامی کا فیصلہ کرتا ہے۔جس قول میں عمل کی روح نہ ہو وہ اپنی موجودگی کا بھرپور احساس تو رکھتا ہے لیکن نظروں کو سالہا سال طواف پر مجبور نہیں کر سکتا۔اقوال کیسے ہی کیوں نہ ہوں عمل کی بنیاد ضرور ہوتے ہیں، جو کہنے کی جرات نہیں رکھتا وہ عمل کی کشتی کا ناخدا بھی نہیں ہوا کرتا۔ایسے لوگ بس سب تقدیر کا لکھا کہہ کر جان چھڑا جاتے ہیں۔اس کے باوجود انسان کا کہا گیا حرف آخر نہیں اور وہ خسارے کا سوداگر بھی ہے۔

"سیٹل اور سیٹل منٹ"

سورۂ فرقان(25) آیت 2۔۔   وَخَلَقَ كُلَّ شَىْءٍ فَقَدَّرَهٝ تَقْدِيْـرًا ترجمہ۔ اور جس نے ہر شے کو پیدا کیا اور پھر اس کے لیے ایک اند...