جمعرات, مئی 30, 2013

"سوکن "


"سوکن "
سوکن!!! ایک لفظ۔۔۔ ایک کہانی۔۔۔ ایک ایسا داغ۔۔۔ جو کوئی بھی عورت اپنی پیشانی پر سجانا تو کیا اس بارے میں سوچنے کا بھی تصور نہیں کر سکتی ۔عورت کی ساری سوچ کا محور ہی اپنے آپ کو اس قابل بنانا ہے کہ یہ طعنہ اس کی زندگی میں کبھی نہ آئے۔ اس میں کوئی ابہام بھی نہیں کہ یہ عورت کی اپنے اندر کی کوئی کمی ہوتی ہے۔۔۔ جسے ایک مرد کی آنکھ جانے کیسے کھوج لیتی ہے۔۔۔ اور وہ اس کی ساری عنایتیں۔۔۔ ساری خوبیاں بھلا کریہ کمی گھر سے باہرپوری کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
مرد کی نگاہ ویسے تو بہت سرسری ہوتی ہے۔۔۔ پرکبھی اُسے جگمگ کرتا گھر نظر نہیں آتا۔۔۔ اوریہ کمی جو کسی کونے کھدرے میں لگے مکڑی کے جالے کی طرح ہوتی ہے۔۔۔اُس کے دھیان میں اپنا گھر بنا ہی لیتی ہے۔ کبھی تو وہ اپنا بڑا پن ظاہر کرکےاسے چھپانے کی کوشش کرتا ہے۔۔۔ کبھی نظرانداز بھی کردیتا ہے۔۔۔ کبھی ہاتھ پاؤں ہلائے بغیر اس کی خواہش ہوتی ہے کہ عورت آگے بڑھ کر اُس کے ذہن کا جالا دُورکردے۔
دوسری طرف عورت اپنا آپ ایک گھر کے لیے فنا کر کے اتنی ریزہ ریزہ ہو جاتی ہےکہ اُس کی کرچیاں سمیٹنے والا بھی کوئی نہیں ہوتا۔ اب وہ اپنا آپ سنبھالے یاایک نئی منزل کی تعمیر کرے-اسی دوراہے پر عمر تمام ہو جاتی ہےاورمرد کے ذہن کا وہ جالا وقت کے ہاتھوں کبھی بنتا۔۔۔ کبھی سنورتا۔۔۔ اور کبھی بکھرتا رہتا ہے۔۔۔ تاوقت یہ کہ بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ وہ جالا مرد کی عقل پر حاوی ہو جاتا ہے اور وہ انتہائی قدم اُٹھا لیتا ہے۔ دیکھنے میں یہ عورت کے ساتھ زیارتی ہے۔۔۔ کھلی ناانصافی ہے۔۔۔ اُس کی عمر بھر کی محنت پاؤں تلے روندنے والی بات ہے۔۔۔ لیکن سب سے پہلے ظلم مرد اپنی ذات پرکرتا ہے کہ اپنی عقل گروی رکھ دیتا ہے۔ اور جو عقل سے عاری ہو جائے اُس کا ڈوبنا یقینی ہے۔۔۔ بہ نسبت اُس کے جو جان بچانے کے لیے کوشش توکرے۔۔۔کسی کو مدد کے لیے پکارے توسہی۔
یہ اس رویے کا منفی اورعمومی پہلو تھا جو ہم اپنی روزمرہ زندگی میں دیکھتے اور سنتے آئے ہیں۔ غورکیا جائے تو سوکن ایک" رویہ" ہے ایک "شخصیت" تو بعد میں بنتی ہے اور اکثر نہیں بھی بنتی ۔ انسان ہونے کے ناطے ہر ایک کی اپنی ذاتی خواہشات اور ضروریات ہوتی ہیں جن کو وہ جہاں تک ہو سکے ماننے اور جاننے کی کوشش کرتا ہے پانے کا مرحلہ تو بعد کی بات ہے۔
ہمارے شوق یا مشغلے بھی اسی زمرے میں آتے ہیں۔ ہمارے بےضرر سے مشاغل دنیا کی تلخ حقیقتوں کو وقتی طور پر ہی سہی کچھ دیر کے لیے تو نگاہوں سے اوجھل کر دیتے ہیں۔ کبھی گردش ِدوراں انہیں ہمارے وجود میں گم کر دیتی ہے تو کبھی ہم ان میں گم ہو کر گردش ِدوراں بھلا بیٹھتے ہیں۔ جو بھی ہو یہ ہمارا قیمتی اثاثہ ہوتے ہیں اتنا قیمتی کہ ہمارے ساتھی انہیں سوکن سمجھنے لگتے ہیں کہ جو ان کو ملنے والا وقت چرا لیتی ہے۔ ایسے ہی کھٹی میٹھی زندگی گزرتی چلی جاتی ہے۔ پریہ سوکن اتنی اچھی ہوتی ہے جو ہمارے ساتھی کو ہم سےاتنا دوربھی نہیں جانے دیتی کہ اُس کی واپسی ناممکن ہو جائےاورصبح کے بھولے کو رات کو گھر بھی بھیج دیتی ہے۔
ساری بات اس کی موجودگی کے احساس کی ہے اگر ہم اسے کھلے دل ودماغ سے تسلیم کرلیں تو یہ ہم پر بھی اپنی باہیں وا کردیتی ہے۔ یہ وہ سوکن ہے جو محبت میں شراکت پر یقین رکھتی ہے۔۔۔ اب محبوب پر ہے کہ وہ اس کا کتنا حصہ ہمیں عنایت کرتا ہے۔ بہرحال جتنا بھی مل جائے خاموشی سے لے لینا چاہیے کہ پھر وہ حصہ خود ہی بڑھنے لگتا ہے۔اگر ہم اس سوکن سے دوستی کر لیں تو ہمارے ساتھی کو چوری چھپے اس سے ملنے کی ضرورت نہیں پڑتی اور اس کی خوشبو ہمارے آنگن میں بہار بن کر اترتی ہے۔
شادی شدہ زندگی کا یہ مطلب ہرگزنہیں کہ ایک انسان کو دوسرے انسان پرمکمل ذہنی اورجسمانی اختیار بھی حاصل ہو گیا ہے۔اورہمارے معاشرے کا المیہ یہی ہے جسمانی سے بڑھ کر ذہنی شکنجہ اتنا تنگ کردیا جاتا ہےکہ عورت دم گھٹنے سے اندرہی اندرمرجاتی ہے۔ اورحد تو یہ ہےکہ نہ صرف کسی اورکو بلکہ خود اُسے بھی اپنی اہلیت کا پتہ نہیں چلتا۔۔۔ پتہ چل بھی جائے تو سمجھوتوں کی دیمک اُسے کھوکھلا بنا دیتی ہے۔ جبکہ مغرب میں اس بندھن کےحوالے سے بالکل الٹ طرزِعمل ہے۔۔۔وہاں فرد کی جسمانی آزادی مقدم ہے اس کے بعد انسان کی ذہنی پختگی اس رشتےکا بھرم قائم رکھتی ہے۔ لیکن انسان بہرحال انسان ہے فرشتہ نہیں۔ جسمانی آزادی کی انتہائیں چھونے کے بعد بندھن کی پاکیزگی کی دھجیاں بکھرجاتی ہیں جو بالاآخر ایک گھر۔۔۔ایک خاندان کے بگاڑ کا سبب بنتی ہیں۔
حاصل کلام یہی ہے کہ زیارتی ہرچیزکی نقصان دہ ہے۔ مرد اورعورت دو الگ جگہ پلے بڑھے ہوتے ہیں۔۔۔ جب وہ باہم ایک چھت تلے اکھٹے رہتے ہیں تو اُن کو ایک دوسرے کی خواہشات کا احترام کرنا چاہیے۔ اسی طرح اس بندھن کی گاڑی دھیمی رفتار سے چلتی رہتی ہے۔
!حرفِ آخر
عورت جتنی کمزور دکھتی ہے اُتنی ہی طاقتور بھی ہے۔ ہرخانگی مسئلے کی جڑ گھر کے اندر بند کمرے سے نکلتی ہے۔ غلطی چاہے عورت کی ہو یا مرد کی لیکن اس کا احساس عورت کر لے تو بات اتنی نہیں بڑھتی۔ بچے ہونے کے بعد تو سراسر ذمہ داری عورت پر عائد ہوتی ہے کہ وہ کس طرح اپنا گھر بچانے کی جدودجہد کرتی ہے۔ گھر بچانے کے ہزار طریقے ہیں ایک طریقہ مرد کی جگہ پر جا کر اسکے ذہن سے سوچنے کا بھی ہے اور گھر بچانے کے لیے اپنی ذات اپنی انا کی قربانی دینا سب سے پہلا سبق ہے۔اور مرد کا دوسری شادی کرنا یا اس کی خواہش کرنا اور عورت کا اسے قبول بھی کر لینا اس قربانی کے سامنے کچھ بھی نہیں۔
راز کی بات!۔ 
جوا کھیلنے میں بےانتہا کشش ہے لیکن ہارنے کا حوصلہ ہو تو پھر بات ہی کیا ہے ۔ کسی نے کہا تھا۔۔۔۔ 
" شادی ایک جوا ہے چاہے آنکھیں پھاڑ کر کھیلو یا آنکھیں بند کر کے"۔۔۔ لیکن!" پہلی شادی کے بعد یہ جوا ضرور آنکھیں کھول کر کھیلنا چاہیے ورنہ آخر میں اپنا آپ بھی داؤ پر لگانا پڑ جاتا ہے"۔

بدھ, مئی 29, 2013

"کتاب لڑکی "

زندگی کی تلاش کتابوں تک لائی تو پانے والے سب رشتے اور ملنے والے سب تعلق کتابوں میں ڈھل گئے۔ وہ ہر چہرے کو کتاب جان کر پڑھتی، سرورق اُسے تحریر پڑھنے پر اُکساتا۔ رنگا رنگ کتابوں کی دُنیا میں وہ اپنا آپ بھول گئی - کتابوں سے کیا دوستی ہوئی کہ وہ خود ایک کتاب بن گئی ۔اپنا آپ کتابوں کے بیچ رکھ کر کسی قدر شناس کی منتظر رہتی جو اُسے پڑھے،جانے۔ کتابوں کا سحر اُس کے اندر یوں اُترا کہ وہ دیکھنے والوں کے لیے ایک دیدہ زیب کتاب بن گئی جس کا دلکش سرورق اور ریشمی صفحے نظروں کو مبہوت کر دیتے اور نفس ِمضمون پر توجہ نہ رہتی ۔ وہ اپنے آپ سے لڑتی ۔اپنا وجود ہی اُس کی راہ کی رُکاوٹ بن گیا-کتاب پڑھنے سے زیادہ ساتھ رکھنے کی طلب اُسے کبھی تسکین تو دیتی لیکن ایک شدید نارسائی کا کرب بھی سر اُبھارتا وہ اپنی خوشبو بانٹنا چاہتی تھی اپنا وجود نہیں کہ یہ وجود اُس کا اپنا تھا ہی نہیں-وہ تو زندگی کی لائبریری میں رکھی ایک کتاب تھی جو اُس کی پہنچ میں تو ہوتی ہے جو اُسے پیار سے چھو جائے مگر ہمیشہ کے لیے کسی کی نہیں ہو سکتی ۔ وہ گروی شدہ کتاب تھی اُس کے اندر کوئی چیخ چیخ کر کہتا تھا سنو! میں نے اپنے لفظ سر ِبازار رکھے ہیں اپنی ذات نہیں لیکن دُنیا کی اس منڈی میں جسموں کا بیوپار ہوتا تھا یہاں احساس کا کوئی مول نہ تھا ۔ یہاں صرف رنگ برنگ پیرہن بکتے تھے آنچل کی قیمت کوئی نہیں لگاتا تھا۔

منگل, مئی 28, 2013

" آنکھ کہانی"


زندگی اے زندگی ۔۔۔
بےجان چیزوں اور انسان کی قطرہ قطرہ پگھلتی زندگی میں فرق صرف آنکھ کا ہے۔کبھی دیکھنے والی آنکھ دیکھ کر بھی نہیں دیکھتی اور کبھی صاحب حال کا تمام تر شور آنکھ میں سمٹ آتا ہے جبکہ بےجان اپنے وجود کے قبرستان میں چپ چاپ اتر جاتا ہے۔
آنکھ سے آئینے میں اگر ہم اپنا عکس دیکھتے ہیں توآنکھ چہرے کا آئینہ بھی ہے۔۔آنکھ انسان کے اندر کا اندر دکھا دیتی ہے۔آنکھ انسان کا کردار ہے۔۔۔الفاظ اور لہجے پرخواہ جتنے بھی شائستگی کے غلاف چڑھا لیں پہلی نظر انسان کے اندر کا حال کہہ دیتی ہے بعد میں خواہ اس تاثر کی نفی بھی ہو جائے لیکن دل سے وہ کیفیت کبھی نہیں نکلتی۔آنکھ انسان کے جسم کا وہ واحد حصہ ہے جو پیدائش کے پہلے سانس سے آخری سانس تک نہ صرف ساتھ نبھاتا ہے بلکہ یکساں حُجم میں بھی رہتا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ عمر بڑھنے کے ساتھ آنکھ کی تازگی اور چمک کم ہونے لگتی ہے،گردش ِزمانہ  اورگُزرتے وقت کے ساتھ انسان کے افعال وکردارکا عکس بھی آنکھ کے آئینے پرجھلملانے لگتا ہے۔
یہ صرف آنکھ کا آنکھ سے سفر ہے۔ وہ آنکھ جس سے ہماری شناسائی ہو جس کی روح سے آشنائی ہو وہی آنکھ ہم سے باتیں کرتی ہے۔۔۔ ورنہ ہرآنکھ کو پڑھ کر اُس سے بھاگنے لگ جائیں یا اُس کی قربت کے تمنائی ہو جائیں تو جینا محال ہو جائے۔
آنکھ میں بچے کی سی معصومیت،حیرانی اور پاکیزگی برقرار رہے تو اس سے بڑا حُسن انسان کی شخصیت کا اور کوئی نہیں۔آنکھ کی یہی وہ کشش ہے جو آنکھوں کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔
"کمال کی آنکھ "
لیکن اصل کمال اسے دیکھنے والی آنکھ کا بھی ہے اور اس کے ساتھ اس احساس کو محفوظ کرنے والے کیمرے کا بھی۔

اتوار, مئی 26, 2013

" اجنبی دوست "

 وہ ایک پیارا بچہ تھا۔۔۔ اپنی زندگی کے کھٹے میٹھے رنگوں سے کھیلتا۔۔۔ زمانے کے سرد وگرم سے آشنا۔ایک دن گھومتے پھرتے ان جانے  میں ایک خواب لڑکی کے دروازے پر دستک دے بیٹھا۔نہ اُسے اجازت ملی اور نہ یہ اُس کی راہ تھی۔ بس وہ اچانک اُس کے لفظوں کے عجائب خانےمیں داخل ہو گیا۔ یہ ایک اور ہی دُنیا تھی ایک اور جہان جو اُس کی نگاہوں سےکبھی نہ گزرا  تھا، وہ حیرت زدہ  سا کھو جانے کے خوف سے اُس کا پلو تھامے آگے بڑھنا چاہتا تھا- دیوار پرٹنگی تصویریں کھوجنے کا تمنائی۔۔۔اُس کے سفر کو جاننے کی جُستجو لیے وہ ضدّی بچہ اپنا آپ بھول گیا۔۔۔ کبھی روتا کبھی ہنستا۔۔ بس وہیں ٹھہرگیا۔ ذرا سا وقت مانگتا لیکن اُس کے پاس وقت نہ تھا۔۔۔ وہ ایک اچھے میزبان کی طرح خوش آمدید تو بڑے تپاک سے کہتی اور پھر مہمان کوکہیں بٹھا کربھول جاتی۔
وہ جان کر بھی جاننا نہیں چاہتی تھی کہ وجود کا لمس،اُس کی موجودگی کا احساس ذات کے یقین سے زیادہ ضروری ہوتا ہے۔آنکھوں میں حیرانی لیےسوال پوچھتا توبچہ کہہ کر ڈانٹ دیتی ۔۔۔کہتا میں بچہ نہیں ہوں سب جانتا ہوں۔۔۔اُس کبےساختہ پن سے یوں محسوس ہوتا  جیسے چھوٹے بچے بڑا سا جوتا پہن کر چلنے کی کوشش کرتے ہیں۔
وہ جانتی تھی اس کے اندر ایک بےچین روح ہے۔۔۔وقت کی گردش نے جس کا بچپن چُرا کرایک دم بڑا کر دیا ہے۔وہ اُسے بتانا نہیں چاہتی تھی کہ اُس میوزیم میں تصویریں دیکھنے کے لیے دوسروں کی نظر میں اُس کا قد بہت چھوٹا تھا اوروہ کسی کی نظروں
 سے نہ صرف اپنا آپ بلکہ اُسے بھی بچانا چاہتی۔رفتہ رفتہ جب اُس نے لاتعلقی دیکھی تو ضدّی بچے سے ایک فرماں بردار بچہ بن گیا اب چُپ چاپ ایک کونے میں بیٹھا رہتا کچھ بتا دیتی تو سُُن لیتا۔۔۔دل کی بات کہتی تو جان لیتا۔کبھی جب اُس کا خیال رکھتا۔۔۔ اُسے محسوس کرتا۔۔۔ تو بڑا بڑا سا لگتا۔ اپنے لفظوں کی نرماہٹ سے اُس کے جسم کی تھکن دُور کردیتا تو کبھی ایک جہاں دیدہ دوست کی طرح زمانے کے ہمراہ چلنا سکھاتا۔
وہ کبھی سُنتی کبھی سوچ میں پڑ جاتی کہ وہ جو ایک بچہ تھا چھوٹا سا۔۔۔ کیسے اورکیوں زندگی میں شامل ہو رہا ہے۔۔۔اُس زندگی میں جو ہر طرح سے مکمل ہے۔یہ زندگی گلاب کے پھول کی مانند تھی جس کو کسی شے کی طلب نہیں ہوتی ۔۔۔ جو ہر لمس کی چاہ سے بےپروا۔۔۔ بس آنے والے وقت کا منتظر ہوتا ہے کہ کب وقت کی آندھی آئے اور کہانی ختم ہو جائے۔
وہ بچہ دھیرےدھیرے اُس کے وجود میں سرایت کر رہا تھا۔۔۔آنکھ کا آنسو بن رہا تھا ۔۔۔نہیں جانتا تھا کہ آنسو درد کی کوکھ سے جنم لیتا ہے چاہے خوشی کا ہو یا غم کا۔ وہ اُس سے بھاگتی ۔۔۔ نہیں چاہتی تھی وہ اُس کے اندر کا اندر جان لے۔۔۔ اُس دنیا تک رسائی اس کی منزل نہیں تھی جو بس ختم ہونے والی تھی۔۔۔ ابھی تو نئی منزلیں نئے کارواں اُس کے لیے سر ِراہ تھے۔۔۔ لیکن وہ نادان ضدّی بچہ نہ جانے کیوں ٹھہرنا چاہتا تھا۔۔۔ سمجھنا چاہتا تھا۔۔۔ میوزیم میں لگی اُن تصویروں کو جن کے رنگ اُس کو بہت اپنے اپنے سے لگے تھے۔
اُسے کیسے بتاتی تصویریں رنگوں سے بڑھ کر لکیروں کا کھیل ہوا کرتی ہیں اورلکیریں وقت گزرنے سے ہی سمجھ آتی ہیں۔زندگی کہانی ورق ورق پڑھو توسفر طے ہوتا ہے۔ اگر آغاز میں ہی انجام پر نظر پڑ گئی تو سفر تھکاوٹ میں بدل جایا کرتا ہے۔ وہ اُسے تھکاوٹ سے بچانا چاہتی تھی ۔۔۔ اُس کی تازگی چلتے رہنے میں تھی ۔۔۔ قہقہوں میں تھی ۔۔۔ مُسکراہٹوں میں تھی تو اُسے اپنے آنسو کیسے دے دیتی ۔
حرف ِآخر!
زندگی کی تصویر پرزم کی طرح ان گنت رنگ اپنے اندر رکھتی ہے۔ ہماری آنکھ جس پل جس سفر پر ہو وہی رنگ کھوجتی ہے۔

"پُکار"

اے میرے خدا! اے میرے پروردگار ! دُنیا کی ہر شے کا ایک وقت تو نے مقرر کر رکھا ہے۔ ہر چیز رفتہ رفتہ فنا ہو جاتی ہے ۔ میرے خدا میں تیرے کاموں میں مداخلت نہیں کر رہی صرف اپنے دل کا حال کہہ رہی ہوں مجھے معلوم ہے تو دلوں کا حال خوب جانتا ہے پھر بھی انسان ہوں نا کمزور سی ہستی ۔ میرے اللہ میں نے زندگی کو اتنا پہن لیا ہے کہ اب یہ بوسیدہ بلکہ چیتھڑے چیتھڑے ہو گئی ہے ۔ اسے میں نے ہر انداز میں برت لیا ہے۔ میرے دل میں زندگی کی کسی شے کے لیے کوئی جگہ نہیں شاید زندگی کو بھی میری اب کوئی ضرورت نہیں ۔ میں واپس آنا چاہتی ہوں حالانکہ واپسی کا سوچ کر ہی دل لرز اُٹھتا ہے کہ زاد ِراہ تو کوئی ہے نہیں لیکن اب اس کے سوا کوئی راستہ نہیں دکھائی دے رہا ۔ میرے خدا مجھے واپس بُلا لے۔ میرے گناہوں کو معاف کر،واپسی کے سفر کو آسان بنا دے ،میں توبہ کرتی ہوں ،میری توبہ قبول فرما- موت کی سختی سے بچا لے۔میرے خدا زندگی کی مہلت دینی ہے تو میں التجا کرتی ہوں مجھے حج ِبیت اللہ کی سعادت نصیب فرما ۔ زندگی سے صرف دیدارِخانۂ کعبہ مانگتی ہوں اور مجھے کچھ نہیں چاہیے۔
مجھے ذہنی سکون دے دے۔مجھے زندگی گزارنے کا ہنرعطا فرما-مجھےعبادت کا سلیقہ بخش دے۔میرے مالک مجھے میرے پیاروں سے پہلے واپس بلا لے۔میری دُعاؤں کو قبول فرما۔
آمین یا رب العالمین۔ 

جمعہ, مئی 24, 2013

"قربت (2)"

جب ذرّے کسی کے قریب آتے ہیں بہت قریب تو صرف ایک بات ہوتی ہے کہ وہ اپنے مدار سے نکل کر اُس کے مدار میں گردش کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔انسان ان گنت ذرات کا مجموعہ ہی تو ہے لیکن جب وہ کسی کے قریب آتا ہے تو قربت یا تو گلے کا پھندا بن جاتی ہے جس سے رہائی سانس کی آخری سرحد سے پہلے ممکن نہیں اوریا قربت گلے کا انمول ہار بن جاتی ہے جس سے جدائی کا تصورسوچ کی گرفت میں نہیں آتا۔قربت لمس کی اس شدت کا نام ہے جسے جسمانی حواس سے کبھی پرکھا نہیں جا سکتا۔قربت کے لمحے بہت مختصر ہوتے ہیں لیکن کرب کی شدّت انہیں ساری زندگی پرمحیط کر دیتی ہے تو کبھی پانے کی لذت میں پوری زندگی سمٹ آتی ہے۔ قربت سب راز کھول دیتی ہے۔ صرف کھرے جذبے ہی قربت کی خوشبو کے امین ہوتے ہیں۔
اکثر ہم کسی سے بہت دُور ہوتے ہیں لیکن بہت قریب دِکھتے ہیں اورجب قریب آ جاتے ہیں اتنا قریب کہ لمس کی حدّت سے  پگھلنے لگتے ہیں تو درحقیقت زمانوں کی دوری پرہوتے ہیں۔وہ لوگ جو ہمارے دل کے قریب ہوتے ہیں جب ہمارے قریب آتے ہیں تو یا تو دل میں اُتر جاتے ہیں اور یا دل سے اُتر جاتے ہیں۔ اس لیے کسی کے ہمیشہ ساتھ رہنے کی آرزو ہے تو اُس کے قریب مت جاؤ۔۔۔ اُس کوتلاش نہ کرو۔۔۔اُس کو سمجھو نہیں۔۔۔ بلکہ محسوس کرو ایک مقدس کتاب کی طرح دل کے معبد میں اونچے مقام پرسجا دو۔ انسان سے مل کر اُس کو سمجھنے لگ گئے تو راستہ دُشواراورسفرطویل ہو جائے گا-
لیکن کیا دشوار گُزار راستوں کے ڈرسے اورسفر کی طوالت کے خوف سے قربت کی خواہش کو ترک کر دیا جائے؟ جو پیارے دھڑکن دھڑکن ہمارے وجود میں گونج رہے ہوتے ہیں اُن کے قریب جانے یا اُن کو قریب کرنے کی فطری خواہش کو اندیشوں کی نظر کر دیا جائے ؟ نہیں! بلکہ کبھی کسی بھی طلب سے بے نیاز ہو کر اُن کو قریب کر کے یا اُن کے قریب ہو کر دیکھو۔۔۔تو اندازہ ہوتا ہے کہ اُجلی اور کھری محبتوں کا کوئی مول نہیں۔

اتوار, مئی 19, 2013

" اجنبی "

وہ کبھی  بھی کہیں بھی  ایک دوسرے کی محبت نہیں تھے۔ دُور بہت دور لمس سے پرے الگ الگ دُنیاؤں کے باسی۔ 
وقت کی سوئیاں بھی گھڑی کی ٹک ٹک کی طرح مطابقت نہ رکھتی تھیں،زمانے کی گردش بھی یکساں نہ تھی ۔ کچھ بھی تو مشترک نہ تھا پھر کیا ہوا کہ وہ قریب آگئے بہت قریب آئے تو پتہ چلا محبت نہیں ،محبت کی پیاس تھی جو محبتوں کے اندر ڈھونڈتے تھک چُکے تھے پانی کے اندر رہ کر بھی پانی کے لمس کو ترسے ہوئے تھے۔ چاہتوں کی بارشیں ،رفاقتوں کی نرم پھوار بھی اُن میں بسی تشنگی مٹانے سے قاصر تھی ۔ ایک سفر تھا جو طے  نہیں  ہو رہا تھا ۔ زندگی کی بھول بھلیوں میں بند گلی کے کنارے یوں ملے کہ روزن میں در تو نظر نہیں آیا لیکن تازہ ہوا کی خوشبو ضرور محسوس ہوئی ۔ اب جانا کہ محبت راہ میں نظر آنے والا بےپروا پھول نہیں کہ جب گُزرے کالر پرسجا لیا بنا کسی سے اجازت لیے -محبت وقت کی وہ رنگین تتلی بھی نہیں جسے ایک پل کو مُٹھی میں لے کر خوش ہو جائیں اور جب مٹھی کھلے تو نہ تتلی باقی رہے نہ رنگ ۔
"محبت تو راستے میں ملنے والا وہ خوشنما پھول ہے جو ذرا دیر کو قدم روک تو لیتا ہے لیکن اپنی ساری خوشبو رگوں میں اُتار کر نئی منزلوں کی جانب رواں دواں کر دیتا ہے ۔
محبت وہ دلپذیر تتلی ہے جس کے پیچھے کچھ دیر بھاگنا اچھا لگتا ہے
سب بھلا کر اُُس کو چھونے کی خواہش کرنا اچھا لگتا ہے
اور جب وہ اُڑ جائے تو ذرا دیر کو اُسے کھوجنا بھی اچھا لگتا ہے
لیکن پھر حقیقت کی دُنیا میں آکر اپنے آپ پر مُسکرانا بھی اچھا لگتا ہے۔
"محبت خوشی ہے اورکچھ بھی نہیں جو دینے سے بڑھتی ہے اورچھپانے سے چھپتی نہیں لیکن اداس ضرور کر دیتی ہے "

" لمس "

" مکان مکینوں سے سجتے ہیں اور لفظ پڑھنے والوں کے حُسن ذوق سے دمکتے ہیں "
سارا کھیل لمس کا ہے،احساس کا ہے ور نہ ہر چیز بےجان بےتوقیر۔
 جسم میں روح کا لمس نہ ہو تو بدبُو دار مٹی کا ڈھیر۔۔۔
خواہش میں محبت کا لمس نہ ہو تو ہوس۔۔۔
گھر میں مکیں نہ ہوں تو اینٹ پتھر سے بنا خالی مکان۔۔۔
آنکھ کو بینائی نہ ملےتوہرسمت تاریکی۔۔۔
قوت ِسماعت نہ ہو تو ہر منظراجنبی۔۔۔
آواز نہ ہو تو ہر پکار بےمعنی۔۔
لہجے کو لفظ کا آہنگ نہ ملے تو بےربط کہانی۔۔۔
لفظ تحریر بن کر جگمگائے اورکوئی دیکھنے والا نہ ہو تو قبرستان کی چاندنی۔۔۔
حرف کتابوں میں بند طاق پر سجا ہو تو ہمیشہ کی محرومی۔۔۔
انسان کی سوچ لفظ میں ڈھلنے کے بعد دل میں نہ اترے تو لکھنے والے کی کم نصیبی۔۔۔
لفظ نظر کے سامنے ہواوراُس کی گہرائی کا اندازہ نہ کرسکوتواپنی کم مائیگی۔۔
 "علم کے موتی سیپ میں بند گُہر کی طرح ہیں۔اگر کوئی تلاش نہ کر سکے تو بےمصرف،بےوقعت ۔اور اگرقدردان مل جائیں تو نہ صرف اپنا مقام پا جاتے ہیں بلکہ لینے والوں کی توقیر کا باعث بھی بنتے ہیں ۔

جمعہ, مئی 17, 2013

"تخلیق کہانی "


"تخلیق کہانی "
"سورۂ آل ِعمران ۔۔2 ( آیت ۔۔ 66 ۔۔"اور اللہ جانتا ہے تم نہیں جانتے ")
 صرف اللہ اپنی تخلیق کے بارے میں سب جانتا ہے۔ انسان ہر وقت اینی سوچ کے دائرے کے اندرایک عالم ِتخلیق میں مصروف ہے۔۔۔ سوچ کے زاویے اُسے زندگی کے نئے رنگ ڈھنگ سے روشناس کراتے ہیں-اس بات سے بےخبر کہ اُس کے پاس کیا نیا خیال، کیسا اچھوتا جذبہ ہے یا کون سے انمول خزانے ہیں وہ ساری عمر کھوج کی کیفیت میں نظر آتا ہے۔ کبھی جب وہ ان کی جھلک محسوس کرلے تو کسی حد تک مطمئن ہو جاتا ہے اور جب دنیا کے سامنے اُس کا کوئی رنگ آشکار ہو جائے تو جاننے والے سمجھنے والے اِن کی چکا چوند سے متاثر ہوتے ہیں۔
 اپنی تخلیق اپنے ہاتھ میں لفظ کی صورت ہو یا وجود کی صورت دُنیا کا کوئی بھی لفظ اس احساس کی ترجمانی نہیں کر سکتا۔ اور نہ کوئی اس طور سراہ سکتا ہے سوائے اس کے جس نے جذبے کی شدت اور کرب کی اذیت برداشت کر کے اسے حاصل کیا ہو۔
 ایسا بھی ہوتا ہے کہ اُس کے جانے کے بعد اُس کی باتیں ،اُس کی پکار سامنے آتی ہے تو جہاں دلوں میں تازگی جنم لیتی ہے وہیں پچھتاوے کا احساس بھی ہوتا ہے کہ کاش اُس کی حیات میں اس کی قدر کی ہوتی تو اُس سے بہت کچھ سیکھا جا سکتا تھا۔۔۔اُس کو کسی حد تک وقت کی دست بُرد سے محفوط کیا جا سکتا تھا۔
 کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ ہماری اپنی ہی کہی ہوئی باتیں،لکھے ہوئے لفظ ایک طویل مُدت کے بعد یوں لگتے ہیں جیسے ہماری آج کی کہانی ہو اورپھر اپنی ذات اپنی سوچ پرتعجب کے ساتھ ایک انوکھی خوشی بھی ہوتی ہے کہ جس راستے سے سفر کا آغاز کیا تھا وہ سیدھا راستہ ہی تھا۔پر یہ زندگی آخری سانس تک سفر ہی سفر ہے منزل اور راستے کی نشان دہی ہو بھی جائے پھر بھی ہم نہیں جان سکتے کہ اختتام ِسفر کیسا ہو۔
 عاجزی اور شکر کا احساس زاد ِراہ ہے ورنہ ایک پل کا زعم اورتکبر سب خاک میں ملا دیتا ہے۔ اللہ پاک راستے کی کھائیوں اور گھاٹیوں سے بچاتےہوئے سفر بخیر کرے۔ آمین یا رب العالمین۔

جمعرات, مئی 16, 2013

"محبت "

اِک دلپذیر تتلی
جس کے پیچھے 
کچھدیر بھاگنا اچھا لگتا ہے
سب بھلا کر چھونے کی
 خواہش کرنا اچھا لگتا ہے
جب اُڑ جائے تو 

ذرا دیر کو 
اُسے کھوجنا اچھا لگتا ہے
اور پھر حقیقت کی دُنیا میں

اپنے آپ پر
 مُسکرانا بھی اچھا لگتا ہے

بدھ, مئی 15, 2013

"جل پری "

وہ ایک جل پری تھی،زندگی کے ساحل کے قریب،کبھی پانی میں کبھی پانی سے باہر،بےچین و بےقرار،پانی میں ہوتی تو یوں جیسے ڈوب رہی ہو کوئی آئے اوراُسے نکال لے جائے اور پانی سے باہر پیاس سے بےحال ہو جاتی ۔ رنگوں کی ہمہ گیری نظروں کو اُس کے قریب لاتی ۔ پانی میں ہوتی تو قوس ِقزح کی صورت اُبھرتی ۔ اُس کی خاموش التجا مجبور کر دیتی کہ اُسے اس گرداب سے نکالا جائے۔ بڑھا ہوا ہاتھ تھام کر دھیرے دھیرے کنارے پر آتی،مہربان لمس اُس کو آغوش میں لے کر اُداسی کی نمی جذب کرنے کی سعی کرتے۔ وہ ساری کُلفتیں ،ساری مسافتیں بھلا کر ایک پل کو کھل اُٹھتی ۔ وقت بھی ٹھہر کراُس کے رقص کو مبہوت ہوکر تکے جاتا لیکن کب تک !جب آنکھ کھلتی تو  وقت ہوتا اور نہ وہ لمس۔ سب دھوپ کی تمازت میں پگھل چُکا ہوتا اور وہ بےدم اپنی اصل کو پکارتی،وہ جو بےخبر تو دِکھتا  تھا پر سب جانتا تھا۔اُس کے قرب کا  احساس ہر خلش مٹا دیتا-پھر یوں ہوتا کنارہ خود اُس کے قدموں کو چھونے لگتا ،بنا شکوہ کیے اُسے ڈھانپ لیتا ماں کی گود کی طرح جو بچے سے کبھی خفا نہیں ہوتی ۔
بلاشبہ وہ ایک خوبصورت جل پری تھی جسے چھوا تو جا سکتا ہے پر اپنایا نہیں جا سکتا،چاہا تو جا سکتا ہے لیکن ہمیشہ ساتھ نہیں رکھا جا سکتا ۔ اُسے سمیٹا تو جا سکتا ہے لیکن اُس کے اندر اُتر کر اُس کی پیاس نہیں بُجھائی جا سکتی۔حنوط کر کے دل کے فریم پر لٹکایا جا سکتا ہے،اُس کے لمس کی پھوار میں اپنا سب لُٹایا جا سکتا ہے،اُس کا اپنا پن محسوس تو کیا جا سکتا ہے لیکن راستوں کی دھول میں اُس کو پایا نہیں جا سکتا کہ وہ ایک جل پری تھی جو صرف دل کے ساحلوں کے آس پاس بکھرتی تھی اور اُن کے لیے خاص تھی جو اُسے چھونے کا، پانے کا اور کھونے کا بھی حوصلہ رکھتے تھے۔

" درد ِزہ "

سورۂ المومنون ۔23 (آیت ۔۔14)
 "پھر نطفے کا لوتھڑا بنایا ،پھر لوتھڑے کی بوٹی بنائی،پھر بوٹی کی ہڈیاں بنائیں پھر ہڈیوں پر گوشت چڑھایا پھر اس کو نئی صورت میں تخلیق کیا۔اللہ سب سے بہتر بنانے والا بڑا بابرکت ہے"۔
 شکم ِمادر میں بچے کا وجود بلاشبہ اس دنیا میں اللہ کا وہ معجزہ ہے جس کے اسرار ورموز کو آج تک عقل ِانسانی چھو بھی نہیں سکی۔ اِسے ہم محض زندگی کے پردے پر چلنے والی ایک گھسی پٹی فلم کی طرح دیکھتے ہیں اور گزر جاتے ہیں۔ تحقیق کرنے والے اس کے ایک ایک منظر کی نقش بندی بڑی عمدگی سے کرتے ہیں۔انتہائی اعلیٰ درجے کے حسّاس آلات کی مدد سے مرحلہ وار واقف ہوتے ہیں یہاں تک کہ ترقی کے اس مقام پر پہنچ گئے ہیں کہ اُس بچے کی سوچ کی لہروں کو بھی محسوس کر سکتے ہیں،سوچا جائے تو ابھی تک ہم پہلے قدم سے بھی دورہیں۔ہم نہیں جان سکے کہ ایسا خودبخود کس طرح ممکن ہو جاتا ہے۔ یہ وہ راز ہے جو روزِروشن کی مانندعیاں تو ہے لیکن اندھیری رات کی طرح ہماری نظروں پر پردہ ڈالے ہوئے ہے۔ 
شاید ہم کبھی نہ جان سکیں کہ یہ اللہ کی وہ صفت ہے جس کا  اُس کی وحدت ، بے نیازی کے بعد ذکر کیا گیا ہے(سورۂ اخلاص آیت (3)"نہ اس نےکسی کو جنا اور نہ اس سے کوئی جنا گیا") اور اس کے بعد کہا گیا ہے'اس کا کوئی ہم سر نہیں(آیت 4)۔ اس لیے ہمیں وہی دیکھنا چاہیے جتنی استطاعت ہےاور وہی سوچنا ہے جہاں تک سوچنے کی صلاحیت عطا ہوئی ہے۔ ایک عظیم تخلیق کی تکمیل کے بعد اُس کو اُسی شان سے پیش کرنا اس کی عظمت پر مہر ثبت کرتا ہے۔ اس کا بھی ہماری عقل آج تک فیصلہ نہیں کر سکی کہ وہ کیا حکمت ہے کہ ایک شدید کرب اور تکلیف کے بعد بچہ اس دُنیا میں آتا ہے۔ اپنے علم کے زور پر ہم صرف یہ جان پائے ہیں کہ وہ نومولود بھی اس کرب کو محسوس کرتا ہے جس سے اُسے جنم دینے والی ماں گزرتی ہے ایک ماں سے بڑھ کر اس کرب کو کوئی نہیں جان سکتا لیکن ماں اس کرب کی حقیقت سے آگاہ ہو جائے تو ساری عمر شکر گزاری کے سجدوں سے سر نہ اُٹھائے یہ وہ سبق ہے جو دُنیا کے کسی ادارے تو کیا گیان کے کسی موتی میں بھی نہیں سما سکتا۔
درد ِزہ اصل میں عالم ِنزاع کے مثل ہے۔ اس پرغور کریں تو حد درجہ مماثلت عقل کُنگ کر دیتی ہے۔"درد ِزہ" کیا ہے؟ ایک روح کا جسم کی قید سے نکل کر آزاد ہونا۔۔۔ایک روح کا ہمیشہ کے لیے اپنا مسکن چھوڑ دینا اور ایک نئے وجود کی صورت میں نئی زندگی کا آغاز کرنا۔ وہ گھر جہاں جنم لیا،زندگی کا پہلا سانس لیا،اپنی کُل کائنات۔۔۔ جو صرف اُس روح اُس جسم کے لیے تخلیق کی گئی تھی اُس کو یک لخت یوں چھوڑ جانا جیسے کوئی واسطہ ہی نہ تھا،کبھی ملے ہی نہ تھے۔اُن ریشمی لمحوں کو بُھلا دینا جب قدرت دھیرے دھیرے زندگی کے رنگ لگا رہی تھی۔آنے والی زندگی کی بےقراری میں جلدازجلد اس قید سے نکل جانے کی سعی کرنا۔ محبتیں چھوڑنا آسان نہیں ہوتا وہ وجود میں سرایت کر کے اُس کا حصہ بن جاتی ہیں اس لیے جب روح تن سے جُدا ہوتی ہے تو بہت شور کرتی ہے،چیختی چلاتی ہے نہیں جانتی کہ آگے وہ زندگی منتظر ہے جس کا تصور اُس کے خواب میں بھی نہیں آسکتا۔
 یہ تو اُس روح کی کہانی تھی جو ان جان ہوتی ہے،جسے طلب ہوتی ہے تو بس یہ کہ اپنے اصل سے مل کر مکمل ہو جائے، ہمیشہ کے ابدی گھر میں قرار پا جائے۔ لیکن وہ جسم جس سے یہ روح باہر نکلتی ہے وہ اپنی متاع چھن جانے کا سوگ مناتا ہے،اُس کی دُنیا اندھیر ہو جاتی ہے اُس وقت کسی پل چین نہیں آتا،نہ روکنے کا اختیار اور نہ خاموش رہ کر اُس کے جانے کا انتظار۔لگتا ہے قیامت کا یہ لمحہ بہت طویل اور کبھی نہ ختم ہونے والے قیامت کے دن میں تبدیل ہو گیا ہو۔ہم نہیں جانتے کہ وقت سب بہا لے جاتا ہے جو باقی بچتا ہے وہ ہماری سوچ ہوتی ہے جس پر حیرانی بھی ہوتی ہے کہ بعد میں ہم اپنی ڈگر پر واپس آجاتے ہیں سب بھول جاتے ہیں۔
 دردِزہ اور حالت ِنزاع میں فرق ہے تو صرف اتنا کہ اُس وقت ہمارا جسم اس تکلیف کو برداشت کر کے ایک نئی روح نئے جسم کو پانے کی سرشاری میں مبتلا ہو جاتا ہے جبکہ حالت ِنزاع میں ہم نہیں جان سکتےکہ ہمارے جسم پر کیا بیتتی ہے جب وہ اس کرب سے گزرتا ہے۔اللہ تعالٰی ہمیں موت کی سختی سے بچائے یہ ایک نئی منزل کی جانبپہلا دروازہ ہے، اس سے سر اُٹھا کر گزر گئے تو اللہ پاک کی ذات سے اُمید ہے کہ آگے بھی آسانی ہو گی۔آمین یا رب العالمین۔

پیر, مئی 13, 2013

" مُحبت یوں بھی بہتی ہے "

خواہشوں کے جزیروں پر
 جب بھی پھو ل کِھلتے ہیں
درد کی فصیلوں پر
 جب بھی زخم ملتے ہیں
 بےمحابا خوشبو
 جابجا بکھرتی ہے
 اِک روشنی چمکتی ہے
 چاہتوں کی بارش
  بے موسم برستی ہے
پھول کے کھلنے سے
 زخم کے ملنے سے
فاصلے سمٹتے ہیں
اور قدم بہکتے ہیں
 آنکھ بند ہوتی ہے
 پھر آنکھ کُھلتی ہے 
 خواب لمحے گلاب ہوتے ہیں
 سراب لمحے حساب ہوتے ہیں
 پھول جو بھی کھلتے ہیں
 وقت کی تعبیروں میں
 آخر یوں مسلتے ہیں
 ہاتھ خالی رہتے ہیں
 درد سوالی رہتے ہیں 
سانس آتی رہتی ہے 
آس باقی رہتی ہے
یاد کے آئینوں میں جھلک ہمیشہ رہتی ہے
لمس کے پوروں پر مہک ہمیشہ رہتی ہے 

بدھ, مئی 08, 2013

"نظر لگ گئی "

  " اور نظر لگ گئی"۔۔۔

 پسِ تحریر۔۔۔۔
یہ  بلاگ الیکشن 2013 سے پہلے کا ہے جب عمران خان کو ایک حادثہ پیش آیا۔ یہ بلاگ  گھر کے لان میں بیٹھ کر صبح کےملگجے اندھیرے میں تقریباً ایک سے دو گھنٹے میں اُس شام (7 مئی 2013) کے بعد آنے والی صبح لکھا جب کپتان عمران خان 11 مئی 2013 کے عام انتخابات سے محض چار روز پہلے ایک جلسے کے دوران شدید زخمی ہو گئے۔
رات کولکھنے کا ذرا سا بھی خیال نہ تھا۔ بس اس حادثے کے حوالے سے کچھ عجیب سا احساس تھا اور پھر نمازِفجر کے بعد میری سوچ لفظوں کی روانی میں بہتی چلی گئی اور میں ایک جذب کےعالم میں لکھتی رہی اوراسی روز (8مئی 2013)دن دو بجے یہ بلاگ پوسٹ کر دیا۔ غور کریں اس بلاگ میں عمران خان کی زندگی کے برسوں کے سفر کی جھلک کے علاوہ خوابوں کی باتیں ہی ہیں۔۔۔ ۔وہ بھی جو میری آنکھ نے اپنے محدود زاویے کے اندر رہتے ہوئے دیکھے۔
بحیثیت پاکستانی ہم ایک جان لیوا مرض میں مبتلا ہیں۔ سب سے پہلے شناخت خطرے میں ہے کہ قوم ہیں یا ہجوم ،نہ صرف معاشی بلکہ اخلاقی طور پربھی دیوالیہ پن کی طرف گامزن۔ جس مسیحا کی طرف رجوع کیا اُس کی دوا نے بہتری کی بجائے ابتری کا سامان ہی پیدا کیا۔سچ تو ہے کہ برسوں سے ہمارے سیاسی رہنما اور مذہب کے ٹھیکے دار ہم عام عوام کا معاشی  اور معاشرتی طور پر استحصال کرتے رہے۔ ہمارے اندھے قانون نے ہماری آنکھوں سے امید کے خوابوں کی بینائی بھی چھین لی۔ ہمارے چوکی دار "ٹو دی پوئنٹ" رہتے ہوئے صرف چار دیواری کی حفاظت کی نوکری کرتے رہے۔ لیکن ان چوکی داروں سے پھر بھی شکوہ نہیں کہ وہ کم ازکم اپنا فرض ایمان داری اور ذمہ داری سے ادا کرنے کی آخری حد تک کوشش تو کرتے ہیں۔ آج اس لمحے پندرہویں صدی کا پہلا عشرہ گزرنے کے بعد بحیثیت قوم ہمارا سب سےبڑا صدمہ سب سے زیادہ غم وغصہ اس بات پر ہے کہ آج کے "سیاسی اور مذہبی رہنما" ہمارے جذبات اور مذہبی اقدار سے کھیل رہے ہیں۔ اور ایک بار پھر ہم جاہل عوام کو بےوقوف بنا رہے ہیں۔المیہ یہ ہے کہ اس بارجاہل یامعاشرے کے پسے طبقات نہیں بلکہ نئی نسل اور پڑھا لکھا طبقہ ملک وقوم کے "مفاد" میں کروٹٰیں بدلنے والوں کے لیے ترنوالہ ثابت ہو رہاہے۔ہم عام عوام کو  جس طور اپنے ذاتی مقاصد  بلکہ صرف اور صرف مالی منفعت کے لیےاستعمال کیا  جا رہا ہے ،وہ انتہائی لائق نفرین اور حیرت انگیز بھی ہے۔۔۔۔ اس طرح لٹنے والا سب گنوا کر بھی یوں شاداں ہے جیسے اس پر احسان ِ عظیم ہوا ہے۔ پہلے والے لٹیرے تمام کے تمام سیاست دان تو چلو ہماری نئی نسل کی عقل کا سودا تو نہیں کر کے گئے تھے لیکن اب ان خودساختہ سیاست دانوں نے ہماری نوجوان نسل ۔۔۔ ہمارے مستقبل کے معماروں۔۔ہمارے پڑھے لکھے طبقے کی بھی مت مار دی ہے۔ ایسے سبز باغ دکھائے اور ایسی جنتوں کی بشارتیں دیں کہ کیا مرد کیا عورت سب دُنیا تو کیا اپنا ایمان بھی گروی رکھنے پر خوشی خوشی آمادہ دکھائی دینے لگے۔جہالت کے اس اندھیرے میں اللہ سے اس کے کرم کی دعا ہی کی جا سکتی ہے۔ اللہ ہم سب کو کھرے کھوٹے کی تمیز اور اپنے پرائے کی پہچان عطا فرمائے ۔ آمین
"زیرو پوئنٹ"۔۔۔
نظام بدلو۔۔۔ تبدیلی۔۔دھرنوں-استعفوں اور گالی گلوچ کے بعد اب اسی کوچے کی جانب رواں دواں۔اور ہم عام عوام اسی طرح کولہو کے بیل کی طرح ہر روز اپنا کنواں آپ کھودتے ہوئے۔۔۔ذائقے اور تاثیر سے ماورا صرف زندگی کی پیاس بجھانے کی سعی کرتے ہوئے۔
"جیو پاکستانیو۔۔ ہمیں اپنی قوتِ مدافعت پر دل سے فخر کرنا چاہیے اور اللہ کا ہر حال میں شکرگزار ہونا ہے۔" 
۔۔۔۔۔۔
" اور نظر لگ گئی"۔۔۔ سات مئی۔۔۔2013 
یہ 31 سال پرانی کہانی ہے۔۔۔82 کا پاک بھارت میچ تھا۔ جس میں ایک مغرور کھلاڑی نے اپنی جادؤئی بالنگ سے میچ کا پانسہ پلٹ دیا۔۔۔ یکے بعد دیگرے وکٹیں یوں گریں جیسے ہمارے جانبازوں نے 65 کی جنگ میں دُشمن کے جہاز مار گرائے تھے۔۔۔۔ وہ لمحہ تو ہواؤں کا منظر تھا جو اُس راستے کے مسافروں کے ذہن میں ایک فخر کی صورت ٹھہر گیا اور تباہ ہونے والوں کا آخری لمحہ نہ ماننے والی حیرت پر ختم ہو گیا۔ لیکن کھیل کا یہ منظر بہت سی آنکھوں کے دل پر ثبت ہو گیا۔
بچے ہر چمکتی چیز سے متاثر ہو جاتے ہیں۔۔۔ وہ تو آگ اور انگارے کے فرق سے بھی ناآشنا ہیں۔۔۔ اورلڑکیاں تو ویسے ہی کانچ کی گڑیا ہوتی ہیں۔ آگ کی تپش سے پگھلنے لگتی ہیں۔۔۔ اپنا آپ چھپاتی۔۔۔ آگ کے رنگوں سے وجود میں پھیلتی قوس ِقزح کے سحر میں خود کو گم کر لیتی ہیں۔ تو ایسی ہی ایک 15 سالہ لڑکی کی آنکھوں میں وہ لمحہ خواب کی صورت ٹھہر گیا۔۔۔ وہ اس یونانی شہزادے کی اسیر ہو گئی ۔ لفظوں کے سہارے اس کے قریب رہتی ۔ جانتی تھی ہر چمکنے والی چیز سونا نہیں ہوتی لیکن وہ خوش تھی بچی تھی نا۔ اُس کھلاڑی کا ہرانداز نرالا تھا۔ اس کی بےنیازی۔۔۔اکھڑ پن۔۔۔ اس کے جھگڑے۔۔۔ اس کے اسکینڈل۔۔۔ وہ ہمیشہ اپنی ذات میں گم ملتا۔۔۔ زمانے سے بے پروا۔۔۔ اورتواور اُسے ہمسفر کے طور پر بھی کوئی جچتا نہ تھا۔ وہ اس دنیا کا نہ تھا اس کی اپنی الگ کائنات تھی۔اپنے ملک میں وہ صرف تھوڑے وقت کے لیے آتا مہینوں باہر کے بڑے ملکوں میں رہتا۔ کیا کیا قصے اس کے بارے میں سننے کو نہ ملتے۔ وہ پھر بھی ہیرو تھا کوئی بات اس کی شخصیت میں دراڑ نہ ڈال سکی۔
اسی دوران 87 کا ورلڈ کپ آگیا۔اس کا فائنل ہمارے ملک میں اور کپتان کے شہر لاہور میں دُنیا کی سب سے تگڑی ٹیم سےہوا۔ اب وہ کپتان تھا فیصلے کرنے والا۔ لیکن وہ دن ہمارا نہ تھا ہم میچ ہار گئے۔آنکھوں نے پہلی بار اُس کا اُترا چہرہ دیکھا۔ دل ڈوب گیا۔ وہ تو پیدا ہی دلوں کو فتح کرنے ہوا تھا۔۔۔ یہ کیا ہو گیا ؟کیا اُس کی کہانی ختم ہو گئی؟ اس میں کوئی شک نہیں ہر بلندی کے بعد پستی کے لیے بھی تیار رہنا چاہیے۔ اُس نے اس ورلڈ کپ سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ میں نے اب کرکٹ نہیں کھیلنی ۔ وہ آزاد منش تھا۔۔۔ پابندیاں اس کے پاؤں کی زنجیر۔۔۔ رشتے راہ کی رُکاوٹ۔۔۔وہ اپنی زندگی جینا چاہتا تھا۔ گھر والوں کا بھی لاڈلا تھا چار بہنوں کا بھائی جو ہوا- جو چاہتا مل جاتا اسی لیے اُس کی بےجا ضدوں پر سبھی خاموش رہے ور نہ اپنے بیٹے کے سر پر سہرا دیکھنے کی خواہش کس کی نہیں ہوتی ۔ وہ بڑبولا بھی بہت تھا۔۔۔ پہلےسے ہی کہہ دیا تھا کہ ورلڈ کپ کے بعد نہیں کھیلنا۔ ظاہر ہے کھیلنے والے پہلے سے ہار کی بات نہیں کرتے۔۔۔تو یہ اُس کے خواب کی پہلی ہار تھی اُس نے میدان چھوڑ دینا تھا - دیکھنے والوں نے رنراپ کی ٹرافی لیتے اس کا بُجھا چہرہ دیکھا تو شاید "منو بھائی " تھے جنہوں نے اپنا معرکتہ آرا کالم "بھریا میلہ" کے عنوان سے لکھا- لفظ یاد نہیں لیکن مفہوم یوں تھا کہ ہر کسی کے مقدر میں سجا ہوا میلہ چھوڑنا نہیں، کبھی سب لٹا کر خالی ہاتھ۔ جانا پڑتا ہے۔
وقت بڑا مرہم ہے ہمارے اس وقت کے حکمران خواہ اُن کے مسلک سے ہر ایک کو کتنا ہی اختلاف کیوں نہ ہو ایک شفیق اور انسان دوست آدمی تھے جناب ضیاءالحق صاحب نے اُس جوان کو بلایا شاید تھپکیاں دی ہوں گی۔۔۔ کیا کہا ہو گا اور وہ شہزادہ جس نے اپنے ماں باپ کی بات بھی اب تک نہیں مانی تھی اُس مہربان لہجے پر پگھل گیا اور دوبارہ سے میدان میں کود پڑا۔ کہنے سُننے والوں نے بہت تنقید کی۔۔۔بڑھتی عمر کو خامی قرار دیا۔۔۔ لیکن وہ قول کا پکا تھا مان لیا تو انکار نہیں ۔ اسی دوران اُس کی لااُبالی زندگی میں تکلیف کا پہلا کنکر گرا،جان سے پیاری ماں کو روگ لگ گیا۔
اب اسے پتہ چلا دکھ کیا ہوتا ہے-
آنکھیں کھلیں تو دوسرے لوگ نظر آئےغریب لوگ ۔۔۔بھوکے لوگ۔۔۔ پیاسے لوگ۔۔ وہ ایک کھاتے پیتے گھرانے کا فرد تھا جس نے خواب میں بھی ایسے لوگ نہ دیکھے تھے۔وہ ان لوگوں میں سے تھا جو روٹی نہ ملنے پر بریڈ کھانے کا مشورہ دیتے تھے۔ وہ شہزادہ تھا اور شہزادوں کے ملک میں رہنا پسند کرتا تھا۔ماں کی بیماری سامنے آئی تو وہ سب چھوڑ چھاڑ ننھا بچہ بن گیا۔ جانےاُس نے کتنے آنسو بہائے ہوں گے جب روپیہ پیسہ اُس کی ماں کی جان نہ بچا سکا-
ماں کے جانے کے بعد وہ بڑا ہو گیا۔۔۔ حقیقت سے آگاہی ہوئی یہ تو ایک اور ہی دنیا تھی۔۔۔ اس کی رنگا رنگ مصنوعی زندگی سے ہٹ کراصلی زندگی والی۔۔۔جہاں مریض کبھی تو غربت کی وجہ سے سسک سسک کر مر جاتے تھے تو کبھی صاحب حیثیت علاج کے جدید ذرائع کی عدم دستیابی کے باعث جان کی بازی ہار بیٹھتے۔ ماں کا صدمہ اپنے لوگوں کے لیے ایک جدید ہسپتال بنانے کے خواب میں بدل گیا۔ وہ عجیب شخص تھا ہمیشہ خواب ہی دیکھے۔۔۔ پہلے معاشرے کی روایتی قدروں سے بغاوت کے خواب اوراب اُمید کی نئی کرنیں اجاگر کرنے کے خواب ۔ وہ کمال شخص تھا ایک ہی پل میں شہزادے کا لباس اتار کر بھکاری بن گیا۔ اپنی خوبصورت نیلی جینز اور پشاوری پہنے کشکول اُٹھایا اور دُنیا کے بازار میں نکل پڑا۔
'شمع محفل'اب انہیں محفلوں میں جانے کس حوصلے سے پیسے مانگنے لگ گیا۔کسی کی پروا پہلے تھی نہ اب۔ اس کی نیت خالص تھی اور اللہ نیت دیکھتا ہے۔۔۔عمل کو سنوارنا اورقبول کرنا اللہ کا کام ہے۔ نیت کی وجہ سے اس کی جھولی بھرتی گئی ۔ وقت آگے بڑھا 92 کا ورلڈ کپ آگیا پھر وہی اس کے بلند وبانگ دعوے۔۔۔ان ہونی کو پانے کا عزم۔
اپنے ٹوٹے بازو اورعمر کی چالیسویں سیڑھی سے دو قدم کے فاصلے پرہونے کے باوجود۔۔۔معصوم بچے کی طرح وہی کھلونا پانے کی ضد جو پہلے کہیں کھو گیا تھا۔ بس ایک فرق تھا پہلے ذات کی تکمیل کا خواہش مند تھا اپنے ہنر کی معراج چاہتا تھا اوراب جذبوں کی شدت۔۔۔محبتوں کا قرض اُسے چاند کا تمنائی بنا رہا تھا۔
وہ اپنے اُسی روپ ، سج دھج کو لیے میدان میں اُترا 10 برس پہلے جس نے نظروں کو مسمرائز کیا تھا۔۔۔جب دلوں کا شہزادہ تھا اور اب دل اوردماغ بھی اس کے خوابوں کی تعبیر کے لیے دعا گو تھے۔اللہ کے فضل سے نیت کا پھل ملا۔اُس نے سب کھلاڑیوں کو ایک لڑی میں پرو کر خوبصورت کرسٹل کی ٹرافی اُن کے ہاتھوں میں تھما دی ۔ اُس کی آنکھیں اپنے خواب کی تعبیر ملنے پر جگمگا رہی تھیں۔
اُس کے پاؤں میں پہیئے تھے۔۔۔وہ رُکا نہیں ایک خواب پورا ہوا تو دوسرے کی تکمیل کے لیے کوشاں ہو گیا۔ اب اُس کے سامنے ایک قوم تھی جس کو سربلند کرنا تھا۔ وہ نادان تھا۔۔۔ نہیں جانتا تھا جو نظام صدیوں سے جاری ہے اُسے فرد ِواحد کا خواب نہیں بدل سکتا۔ وہ نہ مانا وہ بڑا ہو گیا تھا لیکن اس کے اندر کا ضدی بچہ بڑا نہ ہوا وہ اپنی خواہشات کی تکمیل چاہتا تھا۔ ٹھوکریں کھاتا اپنے راستے چلتا گیا۔ ساتھی ملتے گئے۔۔۔ بچھڑتے گئے۔ایک الہڑ شہزادی ذرا دیر کو ہمسفر بنی لیکن اُس کی محبت بھی اسکی راہ الگ نہ کر سکی اور راستے جدا ہو گئے۔ رفتہ رفتہ خوابوں کو حقیقت کا روپ ملتا گیا ۔ وہ پیدائشی لیڈر تھا ثابت قدمی سےچلتا گیا تو کارواں بنتا گیا۔ وہ شرمیلا لڑکا جو بڑا ہو کر بھی نظریں ملاتے ہوئے جھجھکتا تھا اب آنکھ ملا کر دھاڑنے لگا ۔ جس کو صرف حکم دینا آتا تھا اب دھیما پن در آیا۔ وہ دلیل سے بات کرتا۔ وہ کھلاڑی ہی نہیں شکاری بھی تھا۔ پہاڑوں ،جنگلوں سے عشق تھا۔ راستوں درندوں سے بےخوفی اُس کے لہجے میں در آئی اور وہ بڑے بڑے بُتوں کو للکارنے لگا -پہلے سب اُس کے کمال سے مسحور تھے اب اُس کی سوچ کے اسیر ہو گئے- کچی عمروں کے خواب پہلے بھی اُس کے ہمسفر تھے اور اب بھی اُس کے ہمراہ تھے- کسی نے اُس کی اس خوبی کو خامی بھی قرار دیا کہ جوان بچے تو صرف وقتی چمک دیکھتے ہیں اصل بازی بڑے کھیلتے ہیں۔ وہ بے پروا سب کی سنتا لیکن کرتا اپنی مرضی تھا۔ اپنوں کو ناراض کیا۔۔۔دلوں کوتوڑا لیکن مقصد سے پیچھے نہ ہٹا-
وہ لڑکی اس کے سنگ سفر کرتی رہی -اب ایک ماں کی طرح اُس کے لیے دعا کرتی اپنے بچوں کی آنکھوں میں اسے اپنی چمک نظر آتی ۔ وہ دل میں ہنستی کہ اُس کا جادو اب بھی سر چڑھ کر بولتا ہے۔ پہلے اگر لڑکیاں اُس کی شخصیت کے طلسم میں تھیں تو اب لڑکے لڑکیاں اور بڑے بھی اُس کے گرویدہ تھے اور طُرہ یہ کہ جو مخالف تھے اُن کے پاس بھی اُس کی کشش سے فرار کے راستے مسدود تھے -'بلا' اُس کی پہچان تھا اور بلا ہر امیر غریب بڑا چھوٹا زندگی میں ایک بار ضرور اُٹھاتا ہے اور جو اُٹھا لے وہ اس کے فریب سے باہر نہیں نکلتا -اُس کا قول وفعل روزِروشن کی طرح عیاں تھا جس سے انکار کی کوئی وجہ نہ تھی۔اس لیے اس کی ماضی کی زندگی کو ہی حدف بنایا جاتا۔ باقاعدہ ثبوت پیش ہوتے اور آخر میں منہ کی کھانی پڑتی ۔
وہ لڑکی جو ماں بھی تھی ۔۔۔ ماؤں کے دل بہت چھوٹے اور اُن کی محبت بہت گہری ہوتی ہے جسے وہ اپنی نظروں سے بھی چھپانا چاہتی ہیں-وہ بچوں کے معاملے میں بہت حساس ہوتی ہیں۔۔۔حقیقت کی دُنیا میں رہ کر بھی ڈراؤنے خوابوں سے جان نہیں چھڑا پاتیں۔۔۔ایسے ہی کسی خواب سے ڈر کر وہ اس چہرے کو نظر بھر کر نہ دیکھتی۔۔۔ جو سب کا پیارا تھا وہ سوچ جو قوم کو نیا عزم دے رہی تھی وہ راستہ جو ملک کے نظام کی تبدیلی کا تھا۔ ماؤں کی باتیں بچوں کے لیے لایعنی اور طفلانہ ہوتی ہیں لیکن ان کے خواب سچے ہوتے ہیں۔۔۔ چاہے بند آنکھوں سے دیکھیں یا کھلی آنکھوں سے۔ایسے ہی بھیانک خواب کی تعبیر یوں سامنے آئی کہ اُس چہرے کو نظر لگ گئی ۔ کوئی بات نہیں اللہ کی مرضی اللہ کی حکمت ۔ہم نہیں جانتے اس میں کیا بھلائی ہے۔ اللہ نہ صرف ہمیں بلکہ اس اعتماد کے پیکر کو کیا سبق دینا چاہ رہا ہے جو اُس کی آئندہ زندگی میں مددگار ہو۔۔۔ ہم نہیں جان سکتے۔ ہم صرف اللہ کا شُکر ادا کرتے ہیں کہ اس نے چھوٹی آزمائش دے کر بڑی آزمائش سے بچا لیا - ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کریں اورآج صبح پہلے الفاظ جو اُس کے بدلے لہجے سے ملے یہی تھے 'اب آپ نے سب کرنا ہے۔۔۔آپ نے ملک کو بدلنا ہے۔'شاید یہی بات اللہ اس کے دل میں ڈالنا چاہ رہا تھا کہ انسان فقط ایک کردار ہوتے ہیں آتے ہیں چلے جاتے ہیں ۔ زندگی کا ڈرامہ چلتا رہتا ہے بس اپنا کردار نبھاؤ اور گھر جاؤ۔ اللہ پاک اُس کو مکمل ذہنی اور جسمانی صحت کے ساتھ بہت جلد اپنے قدموں پر کھڑا کرے کیونکہ قوم کو ابھی اپنے قدموں پر کھڑا ہونے کے لیے اُس کے عزم اور حوصلے کی توانائی درکار ہے۔
آخری بات !
خوابوں کی تعبیر انہی کا مقدر ہے جو خواب دیکھتے ہیں بے خواب آنکھیں نہ خوابوں کی لذت سے آشنا ہوتی ہیں اور نہ ان کی تعبیروں سے واقف ۔ خواب دیکھنے والے خوابوں کی طرح ان کی تعبیروں پر بھی یقین رکھتے ہیں بلکہ ان کا پھل سہارنے کا حوصلہ بھی ۔ یہی ان کا ارادہ ہے جو گرنے کے بعد سنبھلنے اور پلٹنے کے بعد جھپٹنے کا فن سکھاتا ہے۔

https://www.facebook.com/AwnChaudryOfficial/videos/1675727639390704/?pnref=story

منگل, مئی 07, 2013

" صدقہ جاریہ"

"صدقہ جاریہ"

ہم بخوبی جانتے ہیں اور سمجھتے بھی ہیں کہ سب بڑے گھروں میں بڑے لوگ نہیں رہتے اورچھوٹے گھروں میں چھوٹے لوگ نہیں بستے۔یہ ایک بڑے گھر میں رہنے والی اُس ہستی کی داستاں حیات ہےجن کی چھوٹی چھوٹی باتیں اور گہری یادیں میری زندگی میں ہمیشہ کے لیے ٹھہر گئیں ۔
روزانہ صبح 8 بجے کے قریب دل بےچین ہو جاتا ہے کہ وہ مہربان کاندھا کہیں سے مل جائے جس سے لپٹ کر جی بھر کر آنسو بہاؤں ،چیخ چیخ کرکہوں تم جیت گئیں ہم ہار گئے۔ ہم عقل والے دو اور دو چارکا سبق پڑھتے رہ گئے اورتم سب کو پڑھا کر علم اپنے اندر اُتار کر جاوداں ہو گئیں۔
کہانی زیادہ پرانی نہیں 19 مارچ 2011 کا دن تھا جب میری ماں بچھڑ گئیں ۔۔۔ وہ ماں جن سے جنم کا نہیں احساس کا رشتہ تھا اور ماں کی ممتا میرے وجود پر نچھاور کر کے ماں کی عظمت کا انمنٹ نقش چھوڑ گئیں ۔
وہ میرے گھر کے سامنے والے گھر میں رہتی تھیں۔۔۔ ایک ریٹائرڈ ہیڈمسٹریس۔۔۔ تعلیم اور علم کی دولت سے مالامال۔۔۔دنیاوی لحاظ سے سُرخرو کہ نہ صرف دوسری بچیوں کو علم کے زیور سے آراستہ کیا بلکہ اُن کے اپنے بچے بھی اعلیٰ ڈگریاں اوربڑے ملکوں میں ایک پہچان اپنا مقام رکھتے ہیں۔ 
 بیٹی کو اُنہوں نے جنم نہیں دیا شاید اسی لیے میرے اندر وہ اپنا آپ اپنی نسوانیت کھوجتی تھیں۔ اپنے ہمسفر کے سنگ اپنے گھر میں تنہا رہتیں، زندگی کے ہر رنگ ہر رشتے کو بحسن وخوبی برت کرمطمئن ومسرور ۔ کوئی گلہ نہیں کوئی شکوہ نہیں ، بندوں سے اور نہ رب سے۔
خوشیوں اورخواہشوں کی بارش میں شاداں وفرحاں ۔لیکن وہ ایک انسان بھی تو تھیں جو بظاہراپنے اوپر کتنے ہی غلاف چڑھا لے،اپنے اندر کا اپنا پن کسی اپنے سے بانٹ کر ہی مکمل ہوتا ہے چاہے وہ اُس کا جسم آشنا ہو یا مزاج آشنا۔ خود کلامی کی یہ لذت بےشک اُسے رب سے بڑھ کر کسی سے نہیں مل سکتی ،جو اُس کے ہر سوال کا جواب جانتا ہی نہیں بلکہ عطا بھی کرتا ہے لیکن جب تک جنس کو جنس کا لمس نہ ملے وہ قرار نہیں پاتی۔
وہ اپنے دل کی بات کہتیں ،خوابوں کے اسرار و رموز سے آشنا کرتیں،زمانے کی چیرہ دستیوں کا احوال سناتیں ہماری شاندار   تاریخ کا ورق ورق اُن کی آنکھوں میں نظر آتا اورقطرہ قطرہ میرے دل میں اُترتا جاتا۔یوں سفر کرتے ہوئے میں بھی اُسی  ماحول میں سانس لینے لگ جاتی گویا وہ میرے لیے ایک ٹائم مشین تھیں جس میں داخل ہو کر میں بیتے ادوار میں چلی جاتی وہ ماضی کاخزینہ ہی نہیں  بلکہ حال میں موجود میرا بنک اکاؤنٹ بھی تھیں۔۔۔"اےٹی ایم" کی طرح میں جب چاہتی من کی مراد بن مانگے مل جاتی -کبھی اپنے ہاتھوں کا نوالہ میرے منہ میں ڈالتیں کبھی میرے تھکے ہاتھوں پر مساج کرتیں ۔۔۔ انہیں چومتیں۔۔۔ کھانا بنا کر اُس کی خوشبو انہیں مجبور کر دیتی کہ وہ سب سے پہلے مجھے کھلا دیں۔۔۔کبھی کوئی پسندیدہ بچی ہوئی لذت میرے لیے چھپا کررکھ دیتیں اورچپکے سے دروازہ کھٹکھٹا کربنا کہےدے کرچلی جاتیں۔
 میرے غم اُن کے غم اور میری خوشی اُن کی خوشی تھی۔اُن کی محبت بےلوث اورعطا بےغرض تھی لیکن پھر وہی بات ہم انسان ہیں نا کوئی بھی کام کوئی بھی نیکی کسی غرض کے بغیر نہیں کرتے اُن کی غرض تھی تو فقط یہ کہ میں اپنے وقت میں سے چند پل ہی اُن کو دے دوں۔
 ہم محبوب اورمُحب کی طرح راز ونیاز کرتے اُن کے لمس میں بےتکلف دوستوں کی سی گرم جوشی تھی اور ماں کی طرح شفقت۔وہ بہنوں کی طرح زمانے کے ساتھ چلنا سکھاتیں تو کبھی ناتجربہ کار بیٹی بن کر دکھ سکھ پرولتیں۔۔۔ہم سفرکی شکایتیں کرتیں۔۔۔ اُس کی ناقدری کا گلہ ایک پل کو اُن کی ذات کا اعتماد لے جاتا۔کبھی اُس کی محبتوں کی شدت بیان کرتے ہوئے اُن کی آنکھیں جگنوؤں کی طرح چمکنے لگتیں تو کبھی اُس سے سہم کر جی اچھا کہتے ہوئے حاضر سروس ہو جاتیں۔ کبھی پڑوسنوں کی طرح رشتوں کی ناقدری کا اظہار کرتیں تو کبھی ساس کی طرح وقت بے وقت حُکم بھی دیتیں۔۔۔ جو میں بہو بن کر بادل نخواستہ مان لیتی بعد میں افسوس بھی ہوتا کہ انسان کسی اپنے سے ہی تو کہتا ہے اور ہرایک اپنا نہیں ہوتا۔۔۔ ہم کسی کے ساتھ ساری عمر گُزار دیتے ہیں اپنا آپ نچھاور کر کے بھی وہ ہمیں اپناتا نہیں ۔
 ایسے ہی قربتوں کے کسی لمحے انہوں نے کہا "پتہ نہیں کون میرے اس گھر کو آباد کرے گا کیا یہاں کبھی بچوں کی آوازیں گونجیں گی؟ " آگے اُن سے کہا نہیں گیا لیکن میں نے سُن لیا کہ کیا میرا یہ آشیانہ جس سے مجھے بڑی محبت ہے ویران ہو جائے گا ؟- میں سوچتی تھی وہ زندگی گزارچُکی ہیں لیکن کبھی مرنے کی بات نہیں کرتیں جانے کا ذکر نہیں کرتیں؟ ایک الہڑ دوشیزہ کی طرح رنگوں اور خوشبوؤں کی موج میں رہتی ہیں۔
 اورمیں!!!جس کی جوانی نے بچپن میں ہی بیوگی کی چادر اُوڑھ لی تھی حیرت سے تکے جاتی کہ یہ اُس منزل کی بات کیوں نہیں کرتیں جو دو قدم کے فاصلے پر ہے۔ اُن سے دل کی بات کرنا چاہتی ،پوچھنا چاہتی کہ انسان کیسا محسوس کرتا ہے جب منزل قریب آنے لگتی ہے۔۔۔ گاڑی اسٹیشن کے قریب پہنچنے والی ہوتی ہے۔ وہ اپنا سامان سمیٹنا کب شروع کرتا ہے۔ مجھے لگتا وہ ابھی تک ریل گاڑی میں بیٹھی جاتے منظروں میں قید ہیں اس بات سے بےخبر کہ کب یہ منظر نگاہوں سے اوجھل ہو جائیں اور گاڑی رُک جائے۔
میں بڑا بن کر بتانا چاہتی لیکن اُن کے چہرے کی بشاشت میری خود ساختہ سنجیدگی پر غالب آجاتی اور ہم سب بھلا کر پھولوں خوشبوؤں تتلیوں اور پرندوں کی باتیں کرنے لگتے۔
ایک رات اچانک وہ اپنی بسائی جنتِ ارضی سے جنت ِابدی کی طرف روانہ ہو گئیں، نہ کہا نہ سُنا شاید معراج ایسی ہی ہوتی   ہے۔یہ کیسا بےغرض محبت کا اٹوٹ رشتہ تھا کہ برسوں سے   ان کی زندگی  بخش حرارت  اپنے اندر  جذب کرتے کرتے،   اس روز نمازفجر کے بعد  ان کے کروٹ لیے  ہمیشہ کے لیے سوئے وجود کو چھونے والا پہلا لمس میرا ہی تھا۔  انہوں نے مجھے زندگی کے سبق دیے اور اب جانے کے بعد موت کے اسرار سے آگاہ کرتی تھیں۔ ان کے گھروالوں  نے میت کو چند گھنٹوں کے لیے کولڈسٹوریج  میں رکھنے کو بہتر جانا۔ جس  سے میں چاہتے ہوئے بھی اختلاف نہ کر سکی۔ میرے نزدیک "میت" کا کولڈ سٹوریج میں بنا کسی اشد ضرورت کے رکھوایا جانا ہم پیچھے رہ جانے والوں   کی بہت بڑی   خودغرضی اوربےحسی ہی تو ہے، کیا ہم اپنی زندگی کے چند گھنٹے بھی اپنے پیارے کے لیے  وقف نہیں کر سکتے؟۔ خیر اس پیچیدہ بحث سے قطع نظر میں نے زندگی میں پہلی بار "کولڈسٹوریج" دیکھا اور اپنی عزیزازجان آنٹی کو اس کی  "درازوں" کے حوالے کر دیا۔ بمشکل دو سے تین گھنٹے کے بعد ان کو گھر واپس لے آئے۔ ان کی بہنوں ، ان کی بچیوں اور بہوؤں کے ہونے اور میرے    پیچھے پیچھے رہنے کی خواہش کے باوجود محض اتفاق سے مجھے ان کی میت کی تکریم کا موقع ملا۔میرا اور ان کا تعلق چونکہ کسی خونی رشتے یا معاشرتی تعلق   کے حصار میں نہ تھا بلکہ عمر   میں تفاوت کی بنا پر" دوستی" کے  زمرے میں بھی نہ آتا تھا، اس بات کو ہم دونوں ہی اپنی جگہ بخوبی محسوس کر سکتے تھے اور کرتے بھی تھے۔ دوسرے لفظوں میں  یہ "خفیہ آشنائی" ہم دونوں کے قریبی احباب کے لیے ناقابلِ فہم بھی تھی۔ یوں ہم  اپنے طور حتیٰ الامکان اسے چھپانے کی کوشش بھی کرتے۔لیکن وہ کہتے ہیں نا کہ عشق اور مشک چھپائے نہیں چھپتے،تو  زندگی میں جس تعلق کو  اپنی قیمتی دولت  جان   کر خود سے بھی  چھپانے کی   سعی کرتے رہے ،ان کی وفات نے اسے ساری دنیا کے سامنے عیاں کر دیا۔ نا صرف ان کی  تکفین اور غسل کے مراحل   تک بلکہ  گھر سے ہمیشہ کی رخصتی کے بعد  ان کے   ماشاءاللہ پانچ انتہائی قابل  ڈاکٹر اور انجنئیر بیٹے  جن میں  سب سے چھوٹا بیٹا بھی  عمر میں مجھ سے بڑا تھا،سرجھکائے اپنی امی کی باتیں سنتے تھے۔ یہ نہیں کہ میں آج پہلی بار ان سے مخاطب تھی بلکہ  مہینوں  اور اکثر سالوں کے وقفے کے بعد جب بھی ان کا آنا ہوتا کہ میں یہی کہتی کہ   آپ اگر مصروف ہیں تو کم از کم  اپنے بچوں کو ہی  بےلوث محبت کے ان چشموں اور علم  وادب اور تاریخ  کے اس قیمتی ورثے سے محروم نہ رکھیں ،اس مٹی کی قربت محسوس کرنے دیں جو انہیں دنیا کے آسمانوں  میں  بےوزنی  کی کیفیت سے دوچار نہ ہونے دے۔لیکن   کیا کیا جائے   اعلیٰ ڈگری کے حامل افراد صرف دو اور دو چار سے آگے نہیں بڑھتے۔ خیر اگلے دو روز تک بچے وہاں رہے، میں ان سے ان کی امی کی باتیں کرتی  اور ان کے خواب سناتی کہ کس طرح انہوں نے وفات سے چند روز پہلے ہی  گھر میں ہونے والی یہ  آمدورفت جزئیات تک دیکھی تھی اور انہیں    بچھڑنے کا دھڑکا سا محسوس ہوا اور بےساختہ   گہری نیند سوئے "انکل" کو جھنجھوڑ بیٹھیں۔ یادوں کو پرولتے انکل کا ذکر آیا تو کچھ ان کے بارے میں بھی ۔۔۔وہ بھی ایک مکمل داستان تھے اور ہیں ،اللہ انہیں صحت سلامتی کی زندگی عطا فرمائے آمین (تادمِ تحریر (اکتوبر 2017)عمر میں95 کے ہندسے کو ذہنی اور جسمانی صحت کے ساتھ عبور کرنے والے) انکل بظاہر بالکل خاموش اور عام انسانوں کے خیال میں آدم بیزار شخصیت تھےلیکن میرے سامنے ان کا ایک کا الگ ہی روپ تھا۔  بےشک آنٹی کی طرح بےتکان کبھی نہیں بولتے تھے  بہت کم بات چیت کرتے زیادہ تر آنٹی ہی کی زبانی احوال  سننے کو ملتا۔یہ اور بات کہ میں پھر بال کی کھال نکالتے ہوئے انکل کو بولنے پر مجبور کر دیتی اور انکل  کی آنکھوں  کے گوشوں سے پھوٹتی غیرمرئی  چمک پل میں ان کی گرد اجنبیت کے حصار گرا دیتی۔ بات ان دونوں کے بچپن سے شروع کرتے ہیں۔آنٹی ان کی کزن تھیں، یہ ہندوستان میں ضلع ہوشیارپور کے رہنے والے تھے۔آنٹی کے والد  وہاں کے اسکول میں ہیڈماسٹر تھے جبکہ انکل کے والد بچپن میں وفات پا گئے تھے۔ یوں مالی لحاظ  سے آنٹی کا پلہ بھاری رہا اور انکل کا بچپن محنت مشقت میں گزرا۔ایک  فرق اور بھی رہا کہ آنٹی  پانچ چھ بہنوں اور دو بھائیوں پر مشتمل ایک بھرے پورے خاندان میں پلی بڑھیں جبکہ انکل کے صرف ایک ہی بڑے بھائی تھے ،یوں انکل بچپن سے ہی تنہائی کے اسیر رہے۔   رشتہ طے ہونے کی تفصیل یاد نہیں یاد ہے تو بس اتنا کہ منگنی کے بعد انکل نے آنٹی کے نام پر اپنا نام رکھ لیا۔ یہ نام کہانی اس طور  مجھ پر کھلی کہ ان کے گھر کھڑی گاڑی کے ٹوکن پر جب میں نے اصغری بیگم کا نام دیکھا تو حیران ہو کر پوچھاکہ کیا عجب اتفاق ہے آپ اصغری اور انکل اصغر۔آنٹی کا نام اصغری بیگم تھا جبکہ انکل کا نام محمد علی تھا۔ انکل عام طور پر ایم اے اصغر کے طور پر معروف تھے اور یہ ان کے گھر کی تختی پر بھی درج تھا۔ساری زندگی وہ اصغر صاحب کے نام سے  پکارے جاتے  رہےاور محمدعلی  صرف کاغذی کارروائی کی حد تک محدود ہو گیا۔انکل کی یادوں میں سفر کرتے مجھے معلوم ہوا کہ  1935 میں جب وہ آٹھویں جماعت میں تھے تو  بادشاہ کی تاج پوشی پر منعقد ہونے والی گیمز میں انہیں انگلینڈ جانےکے لیے سیلکٹ کیا گیا، گرچہ یہ گیمز کینسل ہو گئیں اور  وہ نہ جا سکے لیکن ایک بچے کے ذہن میں لندن کا نام چپک کر رہ گیا۔ آنے والے  سالوں میں سادہ ماں اور دیہاتی پس منظر رکھنے والے اس بچے نے اپنی محنت جاری رکھی،تعلیم کے مرحلے طے کرتے کرتے لندن اس وقت پہنچا کہ ملکہ برطانیہ کی تاج پوشی اور جلوس کو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔آنے والی دہائیوں میں دنیا کے پانچ برِاعظموں کے سفر  کیے۔امریکہ کے صدر کینڈی اور چین کے وزیرِ اعظم چوائن لائی اور بانی ماؤذرے تنگ سے ملاقات کی ،ہاتھ ملایا۔اس سے پہلے قریباً بیس سال کی عمر میں 1942 میں جب قائداعظم لاہور تشریف لائے ،وہاں کی آسٹریلین مسجد میں نمازِ ادا کی۔ان کے اسلامیات کے استاد لاہور کی "آسٹریلین مسجد" کے امام تھے۔انھوں نے اپنے طلبا کو قائدِاعظم  کی مہمان داری  کے فرائض سونپے۔جناب اصغر صاحب بھی ان میں شامل تھے،قائدِاعظم  نے نماز کے بعد اپنے جوتے پہنتے ہوئے ان سے ہاتھ ملایا اور ان کی کمر پر تھپکی  دی ۔1971 کا سانحہ جناب اصغر صاحب کی زندگی کی کایا پلٹ گیا۔ دسمبر 71 سے  چند ماہ پہلے ان کو مشرقی پاکستان کی اسلحہ ساز فیکٹری میں تعینات کیا گیا۔ ایک ماہ کے قلیل عرصے میں انہوں نے زنگ آلود مشینیں ٹھیک کرتے ہوئے بند ہوتی فیکٹری کو چالو کردیا،جس کا اعتراف صدر ایوب نے اپنے دورے کے دوران بھی کیا۔ دنوں میں بگڑتے حالات وواقعات کے بعد سب کیا کرایا دھرا رہ گیا اور اصغر صاحب بھی اور بہت سے لوگوں کی طرح جنگی قیدی بنا دیے گئے۔  اب نہ صرف ان پر بلکہ ان کے خاندان پر آزمائشوں کے ایک تکلیف دہ دور کا آغاز ہوا۔مہینوں گھر اور وطن سے رابطہ نہ ہوسکا۔یہ قیدِناحق تین سال جاری رہی۔اس کے بعد وطن لوٹے تو  سازشوں اور سیاسی جوڑتوڑ کے ماحول میں  اپنی جگہ پر کام کرنا کاٹی گئی   قید سے بڑھ کر  اذیت ناک ثابت ہوا۔سدا سے خاموش رہنے والے رفتہ رفتہ اپنی ذات کے حصار میں   سمٹتے چلے گئے۔زندگی صرف  روٹین کے دفتر۔گھر اور بچوں کی ذمہ داریوں  تک محدود ہوکر رہ گئی جس میں نہ کسی دوست اور نا ہی کسی رشتہ دار  کی گنجائش تھی۔جوں توں وقت گذار کر ریٹائرمنٹ لی اور گھر کے سوداسلف لانے،گھر  سے وابستہ کاموں  اور پودوں کی دیکھ بھال کرنے  میں ہی مصروف  رہنے لگے۔راتیں اگر رب کے حضور سجدہ ریز ہو کر کٹتیں تو دن  میں اخبار اور ریڈیو ان کے ساتھی تھے۔ٹیلی وڑن  اور اُس کے پروگراموں سے دلچسبی صرف آنٹی کا ہی دردِسر تھا۔زندگی کے نشیب فراز  جھیلنے کے بعد ان کی زندگی دیکھنے والوں کے لیے قابلِ رشک تھی کہ اپنے گھر میں مزے سے رہتے،مالی اور معاشرتی لحاظ سے اپنے پرائے کسی کے محتاج نہیں تھے۔
"ایم اے اصغر صاحب ستمبر 2020  کو    لاہور میں انتقال   فرما گئے۔اللہ پاک اُن کی مغفرت فرمائے ۔آمین۔"
زندگی اورموت کا مفہوم میں نے ان کے جانے کے بعد جانا۔۔۔ جو بات لاکھ چاہنے کے باوجود میں اُن سے نہ پوچھ سکی انہوں نے اب بتا دی۔ وہ میرے دل کاحال جانتی تھیں نا۔وہ مرنا نہیں چاہتی تھیں۔۔۔زندگی کی طلب گار تھیں جس سے انہیں عشق تھا ۔ اللہ سے جو مانگو ملتا ہے اس کا عملی ثبوت میں نے دیکھا ۔ اُن کے جانے کے بعد وہ گھر واقعی ویران ہو گیا،اُجاڑ ہو گیا۔ لیکن یہ عارضی تھا بیج  بویا جا چکا تھا اور بارآور ہونے کے لیے وقت چاہیے موسم چاہیے اور سب سے بڑھ کردیکھنے والی آنکھ۔ تو وہ بیج جو میرے  سامنے بویا گیا تھا اورشاید میرے لیے ہی ۔۔۔ اُس کے ثمر کو میں نے ہی محسوس کیا۔
ایک سال گذر گیا اب اُس گھر میں صبح کا آغاز معصوم چھوٹے چھوٹے بچوں کی چہچہاہٹ ،دل میں اُترتی دُعاؤں اور پیارے نبی ﷺ کی شان میں مدھر درود پاک سے ہوتا ہے وہاں ایک سکول کھل گیا ہے جس سے قطعی اُن کا یا اُن کے بچوں سے کوئی تعلق نہیں۔اُنہوں نے اپنا فرض ادا کیا ،کام ختم کیا اور گھر کو روانہ ہوئیں، اسی طرح اُن کے بچوں نے اپنے حصے کا کام کیا اوراپنے گھروں میں شاد وآباد۔بعد میں آنے والے غیر لوگوں نے اس بات سے بےخبر کہ وہاں کتنے قیمتی لمحات سانس لیتے تھے اُس گھر کو مہنگے اورمغربی تعلیمی ادارے کے حوالے کردیا جن کے نصاب میں دین اور مذہب کو اوّلیت نہیں لیکن شاید یہ سچے دل کی طلب تھی جو اُس آنگن میں مہکتی ہے اورزندگی پر یقین مستحکم کرتی ہے۔ انسان زندہ رہنے کا فن جان جائے، زندگی اپنے اندر اُتار لے تو موت بھی اُس سے دُور بھاگتی ہے۔
آخری بات ! 
 صدقۂ جاریہ اصل میں یہی ہے کہ ہم اپنی نیت خالص رکھیں ،بےحساب دیں تو مالک ہمارے ظاہری وجود کے منظر سے ہٹنے کے بعد بھی ہماری خواہشات پوری کرتا ہے اور اجر عطا کرتا ہے۔
راز کی بات !
وہ میری آنکھ کا آنسو تھیں جو اُن کے ساتھ چلا گیا اورمیں خشک آنکھوں سے اُسے جاتے دیکھتی رہی۔ یہ حقیقت بھی ہے بے شک وہ میری ماں تھیں لیکن جب رُخصتی کا وقت آیا تو میں نے سپاٹ چہرے کے ساتھ ایک ماں بن کر انہیں بیٹی کی طرح  رُخصت کیا۔
 میں حیران تھی کہ آنسو کہاں چلے گئے ہم تو کسی کے فراق میں آنسو بہا کر ساری چاہتوں کا حق ادا کر دیتے ہیں۔میں دل ہی دل میں نادم تھی کہ اُن سے میری محبت وقتی یاسرسری تھی؟ حقیقت اللہ جانتا ہے ہم نہیں ،ہم تو اپنی سوچ سے بھی انجان ہیں۔ وہ سانس لیتا ہوا جسم جس کی روح سے میری آشنائی تھی جب اُس کی روح جُدا ہوئی تو وہ جسم میرا تھا۔۔ اتفاق سے اُس جسم کو میرے سوا کوئی چھو بھی نہ سکا۔ میں نے بڑی چاہت سے اُس کو سمیٹا ،سجا کر ابدی گھر روانہ کیا۔
اب یہ لفظ لکھتے ہوئے اُس لازوال روح نے میرے سارے آنسو بھی مجھے واپس کر دئیے میرا ادھورا پن مکمل کر دیا اور مجھے زندگی کا یہ عظیم سبق مل گیا کہ "محبت کبھی تشنہ نہیں چھوڑتی کبھی آزردہ نہیں کرتی ۔۔۔ محبت جسم میں اُتر کر روح کو آسودہ کر دیتی ہے اور یہ کہ محبت میں فراق اور وصال کوئی معنی نہیں رکھتے۔۔۔ محبت کا لمس مل جائے تو فراق بھی وصال بن جاتا ہے"۔
اہم بات ایک درخواست ! 
 اس پوسٹ کو پڑھنے والے ایک بار درود شریف پڑھ کر دعا ضرور کریں ، اپنے لیے ہم سب کے لیے اور اُس استاد کے لیے جو جانے کے بعد بھی زندہ ہے اپنے چاہنے والوں کے دل میں ۔
۔۔۔

پیر, مئی 06, 2013

لوڈ شیڈنگ "

لوڈ شیڈنگ اور وہ بھی غیراعلانیہ لوڈ شیڈنگ ایک عذاب ہے۔۔۔ مصیبت ہے۔۔۔ شدید ناانصافی ہے۔۔۔ ہمارے حُکمرانوں کا ظلم ہے- یہ خیالات یا کلمات ہمیں ہر وقت سراپا احتجاج بنائے رکھتے ہیں۔ ہم چڑچڑے پن کا شکارہوتے جا رہے ہیں۔کبھی ملک کو کوستے ہیں تو کبھی اپنے حالات کو۔کہنا سُننا بےشک بہت ضروری ہے۔انسان اپنے دل کی بھڑاس بھی نہ نکالے تو اورکیا کرے-مگرٹھہر کر ذرا غور بھی کر لیں تو منظراور ہے- لوڈ شیڈنگ کوئی آج کل کی بات نہیں یہ تو سالوں پرانا قصہ ہےپھر ہمیں اس کی عادت کیوں نہیں ہوئی ۔ عذاب یا مصیبت وہ ہے جو یکدم ٹوٹ پڑے۔ بہت سوں نے توآنکھ اِسی کے پہلو میں کھولی ہے تو پھر اس سے لاتعلقی کیسی -
اصل بات یہ ہے کہ ہم سہل پسند ہو گئے ہیں۔ چاہتے ہیں زندگی کی ہرلذت ہمارے دسترخوان پر سجا کررکھ دی جائے۔۔۔جی چاہا ہاتھ بڑھا لیا نہ چاہا تو پرے کر دی- سردیوں میں تو وقت جیسے تیسے گُزر جاتا ہے لیکن گرمی کاآغاز ہوتے ہی اس کے خلاف ہنگامے شروع ہو جاتے ہیں -درست ہے کہ سارا قصور پالیسی سازوں اوراس پرعمل درآمد کرانے والوں کا ہے پرعوام اس سے براہ ِراست متاثر ہوتے ہیں-
ہم لوڈ شیڈنگ کا جن تو بوتل میں بند نہیں کر سکتے لیکن اس کے شر سے بچنے کی معمولی سی کوشش تو کر سکتے ہیں-سب سے پہلے اس بن بلائے مہمان کو جو خواہ عذاب ِجاں ہی ہےقبول کرلیں،اس کے آنے سے پہلے نہ صرف ذہنی طور پر تیار ہوں بلکہ عملی طور پر بھی اپنے کام نپٹا لیں - یہ بات گھریلو خواتین کی حد تک تو درست ہے لیکن جن افراد کا روزگار ہی بجلی کی دستیابی سے وابستہ ہے اُن کے لیے بلاشُبہ عذاب ہے۔ دوسرے مسائل جیسے مہنگائی ،تعلیم وصحت کی سہولیات کا فقدان ،امن وعامہ کی مخدوش صورتِحال ،ذہنی عوارض سب کی جڑ بھی یہی لوڈ شیڈنگ ہے-
کیا لوڈ شیڈنگ ختم کیے بغیر خوشحالی کے راستے پر قدم رکھا جاسکتا ہے؟ یہ آج کا سوال ہےجس کا جواب آنے والا وقت ہی دے گا ۔ ہم کمزورانسان ہیں دُور کی سوچ نہیں رکھتے لیکن بچپن میں سُنی ہوئی اس کہانی کو دہرائیں۔۔۔جس میں شیر آتا دیکھ کر ایک دوست جان بچانے کو درخت پرچڑھ گیا اور دوسرا وہیں بےسُدھ ہو کر پڑا رہااور شیر اُسے نقصان پہنچائے بغیر پلٹ گیا۔ جب پہلے نے پوچھا کہ شیر نے تمہارے کان میں کیا کہا تو دوسرے دوست نے وہ لازوال فقرہ کہا جو آج بھی ہم سب کے کانوں میں گونجتا ہے
" دوست وہ ہے جو مصیبت کے وقت کام آئے " -
اس وقت ہم سب اگر ایک ہو جائیں ویسے تو خاصی فلمی ،خیالی اورناممکن بات ہے لیکن خواب دیکھے جائیں تو ہی تعبیر ملتی ہے۔۔۔۔ بےخواب آنکھیں کیا جانیں خواب کی لذت - یہ وقت قربانی کا ہے،مالی طور پرخوشحال لوگ اگر اپنی رفتار تھوڑی سی کم کردیں پیچھےرہنے والوں کے لیے۔۔۔تو پھر ہم سب قدم ملا کر بحیثیت قوم سُرخرو ہو سکتے ہیں-

اتوار, مئی 05, 2013

" محبت کی حقیقت "

" محبت کرنے سے پہلے اپنے آپ کو محبت کیے جانے کے قابل بناؤ "
زندگی میں جس سے بھی محبت کرو یہ سوچ کر کبھی نہ کرنا کہ وہ اس کے بدلے تم سے بھی  محبت کرے گا۔ تم   اُس سے اس لیے محبت کرتے ہو کہ وہ محبت کیے جانے کے قابل ہے۔ لیکن! ایک پل کو یہ سوچ لو کہ تم بھی اس قابل ہو یا نہیں کہ کوئی تم سے محبت کر سکے۔
 یہی ہمارا المیہ بھی ہے کہ ہم محبت کرنے کے بعد ویسی ہی محبت ملنے کی توقع بھی پال لیتے ہیں- بجا محبت پر اختیار نہیں یہ کی نہیں جاتی بس ہو جاتی ہے۔۔۔ یہ جانے بنا کہ کوئی کیسا ہے- خود کو نہیں بدل سکتے تو کم از کم اپنی محبت کو ہی اس قابل بنا دوکہ کوئی تمہاری محبت سے محبت کرنے لگ جائے اور تمہاری محبت کی طاقت تمہیں عاشق سے محبوب کے منصب پر فائز کر دے -

" فیصلے اور آخری فیصلہ "

" فیصلے "
زندگی فیصلوں کا نام ہے۔۔۔ بڑے بڑے فیصلے چھوٹے چھوٹے فیصلے۔
ہمارے لیے کیے گئے فیصلے ہمارے نہیں ہوتے۔ کبھی کوئی بڑا بن کر چھوٹے فیصلے کر دیتا ہے اور کبھی ہمیں چھوٹا جان کردوسرے بڑے فیصلے کر دیتے ہیںاور ہم ساری زندگی بڑے اور چھوٹے فیصلوں کے بیج لُڑھکتے رہ جاتے ہیں ۔۔۔ خود کو اذیت دیتے۔۔۔ سمجھوتے کرتے اپنے آپ سے ناخوش ۔۔۔ خوش ہونے کی اداکاری کرتے۔۔۔ بےآواز چیخوں کے شور میں 'می رقصم'-اتنی مصروفیت مہلت ہی نہیں دیتی کہ ایک پل کو رُک کران فیصلوں کو من وعن قبول کر لیں۔ذرا دیر کو نابینا بھکاری ہی بن جائیں جو کاسے میں پڑنے والے کھرے کھوٹے کے فرق سے انجان ہوتا ہے پھر بھی صدا لگاتا ہے 'جو دے اُس کا بھلا جو نہ دے اُس کا بھی بھلا' ۔ ہم تو بہت عقل مند ہوتے ہیں۔۔۔ آنکھوں والے- ہم بھی کہتے ہیں 'جس نے دیا اُس کا بھلا اور جس کے وسیلے سے ملا اُس کا بھی بھلا اورجو ملا وہ بھی قبول ہے'۔
بس ایک فرق ہم میں اوراُس بھکاری میں یہ ہے وہ کہتا ہے جو نہ دے اس کا بھی بھلا اور ہم کہتے ہیں جو نہیں ملا وہ سب سے بھلا تھا اور ہمارا بھلا اُسی میں تھا -ہماری بات منطقی طور پر بالکل درست لگتی ہے کہ ہم تو پڑھے لکھے کامیاب انسان ہیں اوروہ گلی گلی پھرنے والا ناکام گداگر۔غور کیا جائے تو ہم ایک بات بھول جاتے ہیں کہ زندگی کے اسباق ہمیں کہیں بھی کسی سے بھی مل جاتے ہیں اُن کے لیے بڑے اداروں میں داخلہ لینے یا جیب میں پیسہ ہونا ضروری نہیں-
کائنات کا ہر ذرہ ہمیں زندگی کا کوئی نہ کوئی راز بتاتا ہے- فرق یہ ہے کہ دنیا کے تعلیمی اداروں میں باقاعدہ ببانگ ِدہل تصدیق کے بعد علوم پڑھائے جاتے ہیں ۔۔۔ ہماری آنکھیں کھلی ہوں یا نہ ہمارے کان میں معلومات اُنڈیل دی جاتی ہیں جبکہ زندگی کے سبق چپکے سے کہہ دیے جاتے ہیں۔۔۔ کان حاضر ہوں یا نہ  پرآنکھیں کھلی ہوں۔
تعلیمی اداروں میں اسباق دماغ میں محفوظ ہو کر پرچہ حل کرنےمیں مدد دیتے ہیں اور اسباق ِزندگی روح کو چھو کرکسی نہ کسی گوشے میں چھپ جاتے ہیں۔جب آنکھ کھلتی ہے تو روشنی کے جھماکے کی طرح وہ سبق سامنے آجاتا ہے جس کی اُس وقت ضرورت ہو۔
ہمارے بارے میں کیے گئے فیصلے بھی زندگی کے ایسے ہی اسباق ہیں جو وجود میں کہیں کنڈلی مار کربیٹھ گئے ہیں لیکن ہم اُن کو تعلیمی اداروں کے اسباق کی طرح پڑھ کر اُسی وقت حل کرنا چاہتے ہیں اسی لیے پریشان رہتے ہیں کہ کیا لکھیں۔۔۔ جانتے تو ہیں نہیں۔زندگی میں ایک ایسا وقت ضرور آتا ہےجب ہمیں اِن فیصلوں کی اصل سے آگاہی ہو جاتی ہے۔۔۔ شرط یہ ہے کہ اُس وقت ہماری آنکھوں سے خود ساختہ مظلومیت کی دُھند چھٹ چکی ہو۔ ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا۔اکثر جیسے روتے آتے ہیں اسی طرح روتے ،ناآسودہ دنیا سےچلے جاتے ہیں۔
اللہ تعالٰٰی ہمیں اپنے اندر کی آنکھ کھولنے کی توفیق عطا فرمائے۔اورجتنی جلد فیصلوں کی اصلیت معلوم ہو جائے اُتنا اچھا ہے کہ اپنی زندگی کا سب سے بڑا مسئلہ حل ہو جائے تو پھر ہی ہم اس قابل ہو سکتے ہیں کہ کسی کے لیے بڑے بڑے فیصلے کر سکیں۔
جہاں تک ممکن ہو ہمیں دوسروں کے لیے بڑے فیصلے کرنے سے بچنا چاہیے کیونکہ ہم نہیں جانتےکہ ہم کس قابل ہیں۔اور جہاں تک ہو اپنے لیے کیے گئے تقدیر کے فیصلوں کو سمجھنا چاہیے کہ ہم یہ بھی نہیں جانتے کہ وہ فیصلے جو بہت بڑے دکھتے ہیں حقیقت میں بہت چھوٹے فیصلے تھے جنہوں نے ہمیں زندگی میں بڑا ہونے ہی نہیں دیا ۔

آخری فیصلہ "
ہماری زندگی میں کیا جانے والا کوئی بھی فیصلہ بڑا اور حتمی نہیں ہوتا ،سب فیصلے ہمارے اختیار میں ہوتے ہیں -ہمارے بارے میں کیے گئے فیصلے اور وہ بھی جو ہم خود کرتے ہیں اوربعد میں اُن کے نتائج بُھگتّے رہتے ہیں آخری سانس سے پہلے سب کو بدلا جاسکتا ہے-
سب سے پہلے زندگی ملنے کے فیصلے سے نالاں ہوتے ہیں وہ ہمیں قدم قدم پر دھوکا دیتی ہےنامہربان ہوتی ہے۔ ٹھوکریں کھاتے ہیں کسی مقام پرنہ  خوشی ملتی ہے اور نا ہی کامیابی کا کوئی سرا ہاتھ آتا ہے۔ بیماری لگ جائے تو روگ بن جاتی ہے-
اس کے بعدایک اورغم کہ ہم اپنی پسند کا ہم خیال شریک ِسفر نہ ملنے پر کُڑھتے ہیں،سسکتے ہیں قربانی دیتے ہیں،بچے ہو جائیں تو اُن کا سوچ کرخاموشی اختیار کرلیتے ہیں۔کبھی روزگار کے وسیلے سے دل برداشتہ کہ گلے کا ڈھول ہے بس بجائے چلے جارہے ہیں۔ اپنی مرضی سے کوئی کام بھی نہیں کر سکتے۔۔۔ ہم نے تو دُنیا میں بڑے بڑے کام کرنا تھے۔۔۔ ہماری صلاحیت ان معمولی کاموں میں ضائع ہو رہی ہے۔۔۔ دُنیا نے ہمارے جیسے ہیرے کی قدر نہیں کی وغیرہ وغیرہ ۔
ان میں سے ہر بات سو فیصد درست ہے۔ ہم ہر وقت اس کا پرچار کرتے ہیں ۔دل میں یا زبان پراپنے ہم خیال لوگوں سے مل کر- ہم کہتے رہتے ہیں پر سوچتے نہیں- اگر سوچ لیں تو ایک بات جان جائیں گے کہ ہم 'بزدل' ہیں -
ہرفیصلہ بدلاجا سکتا ہے- زندگی سے تنگ ہیں تو مرجائیں ایک سیکنڈ بھی نہیں لگتا۔۔۔ کسی اونچی عمارت سے چھلانگ لگا دیں - ہمسفر سے راضی نہیں تو صرف تین لفظ درکار ہیں۔ نوکری سے سمجھوتہ نہیں تو ایک دستخط چاہیے یا گھر میں رہیں بنا کسی سے کہے ُسنے- لوگ دُشمن ہیں تو اُن کومارڈالیں - سب ہمارے اختیار میں ہے۔
لیکن ہم نہیں مانتے کیونکہ ہم بزدل ہیں ہمارے سامنے اگرمگر ہیں۔ کہیں ہمیں اللہ سے ڈر لگتا ہے۔۔۔کہیں بندوں سے۔۔۔کہیں بچے کہیں  ماں باپ، پاؤں کی زنجیر بن جاتے ہیں ۔۔۔ کہیں معاشرہ اور اُس کے قوانین راستہ روک لیتے ہیں اور ہم جان چھڑانے کی خاطر اپنے آپ کو بہادر مان لیتے ہیں۔حقیقت یہ ہے ہم بُزدل ہیں اور بُزدل کوئی فیصلہ کرنے کا اہل نہیں ہوتا - فیصلے صرف بہادر کرتے ہیں سود وزیاں سے آزاد ہو کر- ایک بار بہادر بن جائیں رب کے سامنے سر جھکا دیں پھر احساس ہو گا کہ یہ تو بہت چھوٹے فیصلے تھے جنہوں نے ہمیں بڑا ہی نہیں ہونے دیا -
یاد رکھو بندوں سے شکوہ نہیں کرنا لیکن اللہ سے کہنا ہے اُس سے لڑنا ہے۔ لیکن!!! پہلے اُس کے فیصلوں کو بلا چوں چرا ماننا بھی ہے پھر وہ تمہیں ان فیصلوں کی اصلیت بتا دے گا۔اگر بندوں سے خفا ہوتے رہے اور اللہ سے ڈر کر اُس کے فیصلے کو مرتا کیا نہ مرتا کے مصداق مان لیا تو اُس کی اصل سے کبھی آگاہ نہ ہو سکو گے۔اوراگرخود کو اوّلیت دے کر فیصلے کیے تو سب سے پہلے ایمان کی دولت سے محروم ہو جاؤ گے پھر اپنے فیصلوں کے نتائج کو بھی قبول کرنا ہو گا-
ایک رب کا فیصلہ ہے اورایک انسان کا اِن کو باہم سمجھنا ہی کامیابی ہے۔غور وفکر کے بغیر رب کے فیصلے کو ماننے سےخودساختہ قناعت اور صبر وشُکر کا لبادہ تو اُوڑھا جا سکتا ہے لیکن اطمینان کی چادر سے سر نہیں ڈھانپا جا سکتا۔ستر پوشی کے بعد سر ڈھانپنا بلا تخصیص مرد وعورت لازم ہے خواہ اپنے آپ کو جتنا ہو سکے لباس سے آراستہ کر لیں۔
آخری بات!
اپنی زندگی کے سب فیصلوں کا اختیار وقت کو دے دوکہ یہ سب چھوٹے فیصلے ہیں اورسب سے بڑا فیصلہ تو رب کا ہےـ

"سیٹل اور سیٹل منٹ"

سورۂ فرقان(25) آیت 2۔۔   وَخَلَقَ كُلَّ شَىْءٍ فَقَدَّرَهٝ تَقْدِيْـرًا ترجمہ۔ اور جس نے ہر شے کو پیدا کیا اور پھر اس کے لیے ایک اند...