"صدقہ جاریہ"
ﷺ
ﷺ
ہم بخوبی جانتے ہیں اور سمجھتے بھی ہیں کہ سب بڑے گھروں میں بڑے لوگ نہیں رہتے اورچھوٹے گھروں میں چھوٹے لوگ نہیں بستے۔یہ ایک بڑے گھر میں رہنے والی اُس ہستی کی داستاں حیات ہےجن کی چھوٹی چھوٹی باتیں اور گہری یادیں میری زندگی میں ہمیشہ کے لیے ٹھہر گئیں ۔
روزانہ صبح 8 بجے کے قریب دل بےچین ہو جاتا ہے کہ وہ مہربان کاندھا کہیں سے مل جائے جس سے لپٹ کر جی بھر کر آنسو بہاؤں ،چیخ چیخ کرکہوں تم جیت گئیں ہم ہار گئے۔ ہم عقل والے دو اور دو چارکا سبق پڑھتے رہ گئے اورتم سب کو پڑھا کر علم اپنے اندر اُتار کر جاوداں ہو گئیں۔
کہانی زیادہ پرانی نہیں 19 مارچ 2011 کا دن تھا جب میری ماں بچھڑ گئیں ۔۔۔ وہ ماں جن سے جنم کا نہیں احساس کا رشتہ تھا اور ماں کی ممتا میرے وجود پر نچھاور کر کے ماں کی عظمت کا انمنٹ نقش چھوڑ گئیں ۔
روزانہ صبح 8 بجے کے قریب دل بےچین ہو جاتا ہے کہ وہ مہربان کاندھا کہیں سے مل جائے جس سے لپٹ کر جی بھر کر آنسو بہاؤں ،چیخ چیخ کرکہوں تم جیت گئیں ہم ہار گئے۔ ہم عقل والے دو اور دو چارکا سبق پڑھتے رہ گئے اورتم سب کو پڑھا کر علم اپنے اندر اُتار کر جاوداں ہو گئیں۔
کہانی زیادہ پرانی نہیں 19 مارچ 2011 کا دن تھا جب میری ماں بچھڑ گئیں ۔۔۔ وہ ماں جن سے جنم کا نہیں احساس کا رشتہ تھا اور ماں کی ممتا میرے وجود پر نچھاور کر کے ماں کی عظمت کا انمنٹ نقش چھوڑ گئیں ۔
وہ میرے گھر کے سامنے والے گھر میں رہتی تھیں۔۔۔ ایک ریٹائرڈ ہیڈمسٹریس۔۔۔ تعلیم اور علم کی دولت سے مالامال۔۔۔دنیاوی لحاظ سے سُرخرو کہ نہ صرف دوسری بچیوں کو علم کے زیور سے آراستہ کیا بلکہ اُن کے اپنے بچے بھی اعلیٰ ڈگریاں اوربڑے ملکوں میں ایک پہچان اپنا مقام رکھتے ہیں۔
بیٹی کو اُنہوں نے جنم نہیں دیا شاید اسی لیے میرے اندر وہ اپنا آپ اپنی نسوانیت کھوجتی تھیں۔ اپنے ہمسفر کے سنگ اپنے گھر میں تنہا رہتیں، زندگی کے ہر رنگ ہر رشتے کو بحسن وخوبی برت کرمطمئن ومسرور ۔ کوئی گلہ نہیں کوئی شکوہ نہیں ، بندوں سے اور نہ رب سے۔
خوشیوں اورخواہشوں کی بارش میں شاداں وفرحاں ۔لیکن وہ ایک انسان بھی تو تھیں جو بظاہراپنے اوپر کتنے ہی غلاف چڑھا لے،اپنے اندر کا اپنا پن کسی اپنے سے بانٹ کر ہی مکمل ہوتا ہے چاہے وہ اُس کا جسم آشنا ہو یا مزاج آشنا۔ خود کلامی کی یہ لذت بےشک اُسے رب سے بڑھ کر کسی سے نہیں مل سکتی ،جو اُس کے ہر سوال کا جواب جانتا ہی نہیں بلکہ عطا بھی کرتا ہے لیکن جب تک جنس کو جنس کا لمس نہ ملے وہ قرار نہیں پاتی۔
وہ اپنے دل کی بات کہتیں ،خوابوں کے اسرار و رموز سے آشنا کرتیں،زمانے کی چیرہ دستیوں کا احوال سناتیں ہماری شاندار تاریخ کا ورق ورق اُن کی آنکھوں میں نظر آتا اورقطرہ قطرہ میرے دل میں اُترتا جاتا۔یوں سفر کرتے ہوئے میں بھی اُسی ماحول میں سانس لینے لگ جاتی گویا وہ میرے لیے ایک ٹائم مشین تھیں جس میں داخل ہو کر میں بیتے ادوار میں چلی جاتی وہ ماضی کاخزینہ ہی نہیں بلکہ حال میں موجود میرا بنک اکاؤنٹ بھی تھیں۔۔۔"اےٹی ایم" کی طرح میں جب چاہتی من کی مراد بن مانگے مل جاتی -کبھی اپنے ہاتھوں کا نوالہ میرے منہ میں ڈالتیں کبھی میرے تھکے ہاتھوں پر مساج کرتیں ۔۔۔ انہیں چومتیں۔۔۔ کھانا بنا کر اُس کی خوشبو انہیں مجبور کر دیتی کہ وہ سب سے پہلے مجھے کھلا دیں۔۔۔کبھی کوئی پسندیدہ بچی ہوئی لذت میرے لیے چھپا کررکھ دیتیں اورچپکے سے دروازہ کھٹکھٹا کربنا کہےدے کرچلی جاتیں۔
میرے غم اُن کے غم اور میری خوشی اُن کی خوشی تھی۔اُن کی محبت بےلوث اورعطا بےغرض تھی لیکن پھر وہی بات ہم انسان ہیں نا کوئی بھی کام کوئی بھی نیکی کسی غرض کے بغیر نہیں کرتے اُن کی غرض تھی تو فقط یہ کہ میں اپنے وقت میں سے چند پل ہی اُن کو دے دوں۔
ہم محبوب اورمُحب کی طرح راز ونیاز کرتے اُن کے لمس میں بےتکلف دوستوں کی سی گرم جوشی تھی اور ماں کی طرح شفقت۔وہ بہنوں کی طرح زمانے کے ساتھ چلنا سکھاتیں تو کبھی ناتجربہ کار بیٹی بن کر دکھ سکھ پرولتیں۔۔۔ہم سفرکی شکایتیں کرتیں۔۔۔ اُس کی ناقدری کا گلہ ایک پل کو اُن کی ذات کا اعتماد لے جاتا۔کبھی اُس کی محبتوں کی شدت بیان کرتے ہوئے اُن کی آنکھیں جگنوؤں کی طرح چمکنے لگتیں تو کبھی اُس سے سہم کر جی اچھا کہتے ہوئے حاضر سروس ہو جاتیں۔ کبھی پڑوسنوں کی طرح رشتوں کی ناقدری کا اظہار کرتیں تو کبھی ساس کی طرح وقت بے وقت حُکم بھی دیتیں۔۔۔ جو میں بہو بن کر بادل نخواستہ مان لیتی بعد میں افسوس بھی ہوتا کہ انسان کسی اپنے سے ہی تو کہتا ہے اور ہرایک اپنا نہیں ہوتا۔۔۔ ہم کسی کے ساتھ ساری عمر گُزار دیتے ہیں اپنا آپ نچھاور کر کے بھی وہ ہمیں اپناتا نہیں ۔
ایسے ہی قربتوں کے کسی لمحے انہوں نے کہا "پتہ نہیں کون میرے اس گھر کو آباد کرے گا کیا یہاں کبھی بچوں کی آوازیں گونجیں گی؟ " آگے اُن سے کہا نہیں گیا لیکن میں نے سُن لیا کہ کیا میرا یہ آشیانہ جس سے مجھے بڑی محبت ہے ویران ہو جائے گا ؟- میں سوچتی تھی وہ زندگی گزارچُکی ہیں لیکن کبھی مرنے کی بات نہیں کرتیں جانے کا ذکر نہیں کرتیں؟ ایک الہڑ دوشیزہ کی طرح رنگوں اور خوشبوؤں کی موج میں رہتی ہیں۔
اورمیں!!!جس کی جوانی نے بچپن میں ہی بیوگی کی چادر اُوڑھ لی تھی حیرت سے تکے جاتی کہ یہ اُس منزل کی بات کیوں نہیں کرتیں جو دو قدم کے فاصلے پر ہے۔ اُن سے دل کی بات کرنا چاہتی ،پوچھنا چاہتی کہ انسان کیسا محسوس کرتا ہے جب منزل قریب آنے لگتی ہے۔۔۔ گاڑی اسٹیشن کے قریب پہنچنے والی ہوتی ہے۔ وہ اپنا سامان سمیٹنا کب شروع کرتا ہے۔ مجھے لگتا وہ ابھی تک ریل گاڑی میں بیٹھی جاتے منظروں میں قید ہیں اس بات سے بےخبر کہ کب یہ منظر نگاہوں سے اوجھل ہو جائیں اور گاڑی رُک جائے۔
میں بڑا بن کر بتانا چاہتی لیکن اُن کے چہرے کی بشاشت میری خود ساختہ سنجیدگی پر غالب آجاتی اور ہم سب بھلا کر پھولوں خوشبوؤں تتلیوں اور پرندوں کی باتیں کرنے لگتے۔
ایک رات اچانک وہ اپنی بسائی جنتِ ارضی سے جنت ِابدی کی طرف روانہ ہو گئیں، نہ کہا نہ سُنا شاید معراج ایسی ہی ہوتی ہے۔یہ کیسا بےغرض محبت کا اٹوٹ رشتہ تھا کہ برسوں سے ان کی زندگی بخش حرارت اپنے اندر جذب کرتے کرتے، اس روز نمازفجر کے بعد ان کے کروٹ لیے ہمیشہ کے لیے سوئے وجود کو چھونے والا پہلا لمس میرا ہی تھا۔ انہوں نے مجھے زندگی کے سبق دیے اور اب جانے کے بعد موت کے اسرار سے آگاہ کرتی تھیں۔ ان کے گھروالوں نے میت کو چند گھنٹوں کے لیے کولڈسٹوریج میں رکھنے کو بہتر جانا۔ جس سے میں چاہتے ہوئے بھی اختلاف نہ کر سکی۔ میرے نزدیک "میت" کا کولڈ سٹوریج میں بنا کسی اشد ضرورت کے رکھوایا جانا ہم پیچھے رہ جانے والوں کی بہت بڑی خودغرضی اوربےحسی ہی تو ہے، کیا ہم اپنی زندگی کے چند گھنٹے بھی اپنے پیارے کے لیے وقف نہیں کر سکتے؟۔ خیر اس پیچیدہ بحث سے قطع نظر میں نے زندگی میں پہلی بار "کولڈسٹوریج" دیکھا اور اپنی عزیزازجان آنٹی کو اس کی "درازوں" کے حوالے کر دیا۔ بمشکل دو سے تین گھنٹے کے بعد ان کو گھر واپس لے آئے۔ ان کی بہنوں ، ان کی بچیوں اور بہوؤں کے ہونے اور میرے پیچھے پیچھے رہنے کی خواہش کے باوجود محض اتفاق سے مجھے ان کی میت کی تکریم کا موقع ملا۔میرا اور ان کا تعلق چونکہ کسی خونی رشتے یا معاشرتی تعلق کے حصار میں نہ تھا بلکہ عمر میں تفاوت کی بنا پر" دوستی" کے زمرے میں بھی نہ آتا تھا، اس بات کو ہم دونوں ہی اپنی جگہ بخوبی محسوس کر سکتے تھے اور کرتے بھی تھے۔ دوسرے لفظوں میں یہ "خفیہ آشنائی" ہم دونوں کے قریبی احباب کے لیے ناقابلِ فہم بھی تھی۔ یوں ہم اپنے طور حتیٰ الامکان اسے چھپانے کی کوشش بھی کرتے۔لیکن وہ کہتے ہیں نا کہ عشق اور مشک چھپائے نہیں چھپتے،تو زندگی میں جس تعلق کو اپنی قیمتی دولت جان کر خود سے بھی چھپانے کی سعی کرتے رہے ،ان کی وفات نے اسے ساری دنیا کے سامنے عیاں کر دیا۔ نا صرف ان کی تکفین اور غسل کے مراحل تک بلکہ گھر سے ہمیشہ کی رخصتی کے بعد ان کے ماشاءاللہ پانچ انتہائی قابل ڈاکٹر اور انجنئیر بیٹے جن میں سب سے چھوٹا بیٹا بھی عمر میں مجھ سے بڑا تھا،سرجھکائے اپنی امی کی باتیں سنتے تھے۔ یہ نہیں کہ میں آج پہلی بار ان سے مخاطب تھی بلکہ مہینوں اور اکثر سالوں کے وقفے کے بعد جب بھی ان کا آنا ہوتا کہ میں یہی کہتی کہ آپ اگر مصروف ہیں تو کم از کم اپنے بچوں کو ہی بےلوث محبت کے ان چشموں اور علم وادب اور تاریخ کے اس قیمتی ورثے سے محروم نہ رکھیں ،اس مٹی کی قربت محسوس کرنے دیں جو انہیں دنیا کے آسمانوں میں بےوزنی کی کیفیت سے دوچار نہ ہونے دے۔لیکن کیا کیا جائے اعلیٰ ڈگری کے حامل افراد صرف دو اور دو چار سے آگے نہیں بڑھتے۔ خیر اگلے دو روز تک بچے وہاں رہے، میں ان سے ان کی امی کی باتیں کرتی اور ان کے خواب سناتی کہ کس طرح انہوں نے وفات سے چند روز پہلے ہی گھر میں ہونے والی یہ آمدورفت جزئیات تک دیکھی تھی اور انہیں بچھڑنے کا دھڑکا سا محسوس ہوا اور بےساختہ گہری نیند سوئے "انکل" کو جھنجھوڑ بیٹھیں۔ یادوں کو پرولتے انکل کا ذکر آیا تو کچھ ان کے بارے میں بھی ۔۔۔وہ بھی ایک مکمل داستان تھے اور ہیں ،اللہ انہیں صحت سلامتی کی زندگی عطا فرمائے آمین (تادمِ تحریر (اکتوبر 2017)عمر میں95 کے ہندسے کو ذہنی اور جسمانی صحت کے ساتھ عبور کرنے والے) انکل بظاہر بالکل خاموش اور عام انسانوں کے خیال میں آدم بیزار شخصیت تھےلیکن میرے سامنے ان کا ایک کا الگ ہی روپ تھا۔ بےشک آنٹی کی طرح بےتکان کبھی نہیں بولتے تھے بہت کم بات چیت کرتے زیادہ تر آنٹی ہی کی زبانی احوال سننے کو ملتا۔یہ اور بات کہ میں پھر بال کی کھال نکالتے ہوئے انکل کو بولنے پر مجبور کر دیتی اور انکل کی آنکھوں کے گوشوں سے پھوٹتی غیرمرئی چمک پل میں ان کی گرد اجنبیت کے حصار گرا دیتی۔ بات ان دونوں کے بچپن سے شروع کرتے ہیں۔آنٹی ان کی کزن تھیں، یہ ہندوستان میں ضلع ہوشیارپور کے رہنے والے تھے۔آنٹی کے والد وہاں کے اسکول میں ہیڈماسٹر تھے جبکہ انکل کے والد بچپن میں وفات پا گئے تھے۔ یوں مالی لحاظ سے آنٹی کا پلہ بھاری رہا اور انکل کا بچپن محنت مشقت میں گزرا۔ایک فرق اور بھی رہا کہ آنٹی پانچ چھ بہنوں اور دو بھائیوں پر مشتمل ایک بھرے پورے خاندان میں پلی بڑھیں جبکہ انکل کے صرف ایک ہی بڑے بھائی تھے ،یوں انکل بچپن سے ہی تنہائی کے اسیر رہے۔ رشتہ طے ہونے کی تفصیل یاد نہیں یاد ہے تو بس اتنا کہ منگنی کے بعد انکل نے آنٹی کے نام پر اپنا نام رکھ لیا۔ یہ نام کہانی اس طور مجھ پر کھلی کہ ان کے گھر کھڑی گاڑی کے ٹوکن پر جب میں نے اصغری بیگم کا نام دیکھا تو حیران ہو کر پوچھاکہ کیا عجب اتفاق ہے آپ اصغری اور انکل اصغر۔آنٹی کا نام اصغری بیگم تھا جبکہ انکل کا نام محمد علی تھا۔ انکل عام طور پر ایم اے اصغر کے طور پر معروف تھے اور یہ ان کے گھر کی تختی پر بھی درج تھا۔ساری زندگی وہ اصغر صاحب کے نام سے پکارے جاتے رہےاور محمدعلی صرف کاغذی کارروائی کی حد تک محدود ہو گیا۔انکل کی یادوں میں سفر کرتے مجھے معلوم ہوا کہ 1935 میں جب وہ آٹھویں جماعت میں تھے تو بادشاہ کی تاج پوشی پر منعقد ہونے والی گیمز میں انہیں انگلینڈ جانےکے لیے سیلکٹ کیا گیا، گرچہ یہ گیمز کینسل ہو گئیں اور وہ نہ جا سکے لیکن ایک بچے کے ذہن میں لندن کا نام چپک کر رہ گیا۔ آنے والے سالوں میں سادہ ماں اور دیہاتی پس منظر رکھنے والے اس بچے نے اپنی محنت جاری رکھی،تعلیم کے مرحلے طے کرتے کرتے لندن اس وقت پہنچا کہ ملکہ برطانیہ کی تاج پوشی اور جلوس کو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔آنے والی دہائیوں میں دنیا کے پانچ برِاعظموں کے سفر کیے۔امریکہ کے صدر کینڈی اور چین کے وزیرِ اعظم چوائن لائی اور بانی ماؤذرے تنگ سے ملاقات کی ،ہاتھ ملایا۔اس سے پہلے قریباً بیس سال کی عمر میں 1942 میں جب قائداعظم لاہور تشریف لائے ،وہاں کی آسٹریلین مسجد میں نمازِ ادا کی۔ان کے اسلامیات کے استاد لاہور کی "آسٹریلین مسجد" کے امام تھے۔انھوں نے اپنے طلبا کو قائدِاعظم کی مہمان داری کے فرائض سونپے۔جناب اصغر صاحب بھی ان میں شامل تھے،قائدِاعظم نے نماز کے بعد اپنے جوتے پہنتے ہوئے ان سے ہاتھ ملایا اور ان کی کمر پر تھپکی دی ۔1971 کا سانحہ جناب اصغر صاحب کی زندگی کی کایا پلٹ گیا۔ دسمبر 71 سے چند ماہ پہلے ان کو مشرقی پاکستان کی اسلحہ ساز فیکٹری میں تعینات کیا گیا۔ ایک ماہ کے قلیل عرصے میں انہوں نے زنگ آلود مشینیں ٹھیک کرتے ہوئے بند ہوتی فیکٹری کو چالو کردیا،جس کا اعتراف صدر ایوب نے اپنے دورے کے دوران بھی کیا۔ دنوں میں بگڑتے حالات وواقعات کے بعد سب کیا کرایا دھرا رہ گیا اور اصغر صاحب بھی اور بہت سے لوگوں کی طرح جنگی قیدی بنا دیے گئے۔ اب نہ صرف ان پر بلکہ ان کے خاندان پر آزمائشوں کے ایک تکلیف دہ دور کا آغاز ہوا۔مہینوں گھر اور وطن سے رابطہ نہ ہوسکا۔یہ قیدِناحق تین سال جاری رہی۔اس کے بعد وطن لوٹے تو سازشوں اور سیاسی جوڑتوڑ کے ماحول میں اپنی جگہ پر کام کرنا کاٹی گئی قید سے بڑھ کر اذیت ناک ثابت ہوا۔سدا سے خاموش رہنے والے رفتہ رفتہ اپنی ذات کے حصار میں سمٹتے چلے گئے۔زندگی صرف روٹین کے دفتر۔گھر اور بچوں کی ذمہ داریوں تک محدود ہوکر رہ گئی جس میں نہ کسی دوست اور نا ہی کسی رشتہ دار کی گنجائش تھی۔جوں توں وقت گذار کر ریٹائرمنٹ لی اور گھر کے سوداسلف لانے،گھر سے وابستہ کاموں اور پودوں کی دیکھ بھال کرنے میں ہی مصروف رہنے لگے۔راتیں اگر رب کے حضور سجدہ ریز ہو کر کٹتیں تو دن میں اخبار اور ریڈیو ان کے ساتھی تھے۔ٹیلی وڑن اور اُس کے پروگراموں سے دلچسبی صرف آنٹی کا ہی دردِسر تھا۔زندگی کے نشیب فراز جھیلنے کے بعد ان کی زندگی دیکھنے والوں کے لیے قابلِ رشک تھی کہ اپنے گھر میں مزے سے رہتے،مالی اور معاشرتی لحاظ سے اپنے پرائے کسی کے محتاج نہیں تھے۔
بیٹی کو اُنہوں نے جنم نہیں دیا شاید اسی لیے میرے اندر وہ اپنا آپ اپنی نسوانیت کھوجتی تھیں۔ اپنے ہمسفر کے سنگ اپنے گھر میں تنہا رہتیں، زندگی کے ہر رنگ ہر رشتے کو بحسن وخوبی برت کرمطمئن ومسرور ۔ کوئی گلہ نہیں کوئی شکوہ نہیں ، بندوں سے اور نہ رب سے۔
خوشیوں اورخواہشوں کی بارش میں شاداں وفرحاں ۔لیکن وہ ایک انسان بھی تو تھیں جو بظاہراپنے اوپر کتنے ہی غلاف چڑھا لے،اپنے اندر کا اپنا پن کسی اپنے سے بانٹ کر ہی مکمل ہوتا ہے چاہے وہ اُس کا جسم آشنا ہو یا مزاج آشنا۔ خود کلامی کی یہ لذت بےشک اُسے رب سے بڑھ کر کسی سے نہیں مل سکتی ،جو اُس کے ہر سوال کا جواب جانتا ہی نہیں بلکہ عطا بھی کرتا ہے لیکن جب تک جنس کو جنس کا لمس نہ ملے وہ قرار نہیں پاتی۔
وہ اپنے دل کی بات کہتیں ،خوابوں کے اسرار و رموز سے آشنا کرتیں،زمانے کی چیرہ دستیوں کا احوال سناتیں ہماری شاندار تاریخ کا ورق ورق اُن کی آنکھوں میں نظر آتا اورقطرہ قطرہ میرے دل میں اُترتا جاتا۔یوں سفر کرتے ہوئے میں بھی اُسی ماحول میں سانس لینے لگ جاتی گویا وہ میرے لیے ایک ٹائم مشین تھیں جس میں داخل ہو کر میں بیتے ادوار میں چلی جاتی وہ ماضی کاخزینہ ہی نہیں بلکہ حال میں موجود میرا بنک اکاؤنٹ بھی تھیں۔۔۔"اےٹی ایم" کی طرح میں جب چاہتی من کی مراد بن مانگے مل جاتی -کبھی اپنے ہاتھوں کا نوالہ میرے منہ میں ڈالتیں کبھی میرے تھکے ہاتھوں پر مساج کرتیں ۔۔۔ انہیں چومتیں۔۔۔ کھانا بنا کر اُس کی خوشبو انہیں مجبور کر دیتی کہ وہ سب سے پہلے مجھے کھلا دیں۔۔۔کبھی کوئی پسندیدہ بچی ہوئی لذت میرے لیے چھپا کررکھ دیتیں اورچپکے سے دروازہ کھٹکھٹا کربنا کہےدے کرچلی جاتیں۔
میرے غم اُن کے غم اور میری خوشی اُن کی خوشی تھی۔اُن کی محبت بےلوث اورعطا بےغرض تھی لیکن پھر وہی بات ہم انسان ہیں نا کوئی بھی کام کوئی بھی نیکی کسی غرض کے بغیر نہیں کرتے اُن کی غرض تھی تو فقط یہ کہ میں اپنے وقت میں سے چند پل ہی اُن کو دے دوں۔
ہم محبوب اورمُحب کی طرح راز ونیاز کرتے اُن کے لمس میں بےتکلف دوستوں کی سی گرم جوشی تھی اور ماں کی طرح شفقت۔وہ بہنوں کی طرح زمانے کے ساتھ چلنا سکھاتیں تو کبھی ناتجربہ کار بیٹی بن کر دکھ سکھ پرولتیں۔۔۔ہم سفرکی شکایتیں کرتیں۔۔۔ اُس کی ناقدری کا گلہ ایک پل کو اُن کی ذات کا اعتماد لے جاتا۔کبھی اُس کی محبتوں کی شدت بیان کرتے ہوئے اُن کی آنکھیں جگنوؤں کی طرح چمکنے لگتیں تو کبھی اُس سے سہم کر جی اچھا کہتے ہوئے حاضر سروس ہو جاتیں۔ کبھی پڑوسنوں کی طرح رشتوں کی ناقدری کا اظہار کرتیں تو کبھی ساس کی طرح وقت بے وقت حُکم بھی دیتیں۔۔۔ جو میں بہو بن کر بادل نخواستہ مان لیتی بعد میں افسوس بھی ہوتا کہ انسان کسی اپنے سے ہی تو کہتا ہے اور ہرایک اپنا نہیں ہوتا۔۔۔ ہم کسی کے ساتھ ساری عمر گُزار دیتے ہیں اپنا آپ نچھاور کر کے بھی وہ ہمیں اپناتا نہیں ۔
ایسے ہی قربتوں کے کسی لمحے انہوں نے کہا "پتہ نہیں کون میرے اس گھر کو آباد کرے گا کیا یہاں کبھی بچوں کی آوازیں گونجیں گی؟ " آگے اُن سے کہا نہیں گیا لیکن میں نے سُن لیا کہ کیا میرا یہ آشیانہ جس سے مجھے بڑی محبت ہے ویران ہو جائے گا ؟- میں سوچتی تھی وہ زندگی گزارچُکی ہیں لیکن کبھی مرنے کی بات نہیں کرتیں جانے کا ذکر نہیں کرتیں؟ ایک الہڑ دوشیزہ کی طرح رنگوں اور خوشبوؤں کی موج میں رہتی ہیں۔
اورمیں!!!جس کی جوانی نے بچپن میں ہی بیوگی کی چادر اُوڑھ لی تھی حیرت سے تکے جاتی کہ یہ اُس منزل کی بات کیوں نہیں کرتیں جو دو قدم کے فاصلے پر ہے۔ اُن سے دل کی بات کرنا چاہتی ،پوچھنا چاہتی کہ انسان کیسا محسوس کرتا ہے جب منزل قریب آنے لگتی ہے۔۔۔ گاڑی اسٹیشن کے قریب پہنچنے والی ہوتی ہے۔ وہ اپنا سامان سمیٹنا کب شروع کرتا ہے۔ مجھے لگتا وہ ابھی تک ریل گاڑی میں بیٹھی جاتے منظروں میں قید ہیں اس بات سے بےخبر کہ کب یہ منظر نگاہوں سے اوجھل ہو جائیں اور گاڑی رُک جائے۔
میں بڑا بن کر بتانا چاہتی لیکن اُن کے چہرے کی بشاشت میری خود ساختہ سنجیدگی پر غالب آجاتی اور ہم سب بھلا کر پھولوں خوشبوؤں تتلیوں اور پرندوں کی باتیں کرنے لگتے۔
ایک رات اچانک وہ اپنی بسائی جنتِ ارضی سے جنت ِابدی کی طرف روانہ ہو گئیں، نہ کہا نہ سُنا شاید معراج ایسی ہی ہوتی ہے۔یہ کیسا بےغرض محبت کا اٹوٹ رشتہ تھا کہ برسوں سے ان کی زندگی بخش حرارت اپنے اندر جذب کرتے کرتے، اس روز نمازفجر کے بعد ان کے کروٹ لیے ہمیشہ کے لیے سوئے وجود کو چھونے والا پہلا لمس میرا ہی تھا۔ انہوں نے مجھے زندگی کے سبق دیے اور اب جانے کے بعد موت کے اسرار سے آگاہ کرتی تھیں۔ ان کے گھروالوں نے میت کو چند گھنٹوں کے لیے کولڈسٹوریج میں رکھنے کو بہتر جانا۔ جس سے میں چاہتے ہوئے بھی اختلاف نہ کر سکی۔ میرے نزدیک "میت" کا کولڈ سٹوریج میں بنا کسی اشد ضرورت کے رکھوایا جانا ہم پیچھے رہ جانے والوں کی بہت بڑی خودغرضی اوربےحسی ہی تو ہے، کیا ہم اپنی زندگی کے چند گھنٹے بھی اپنے پیارے کے لیے وقف نہیں کر سکتے؟۔ خیر اس پیچیدہ بحث سے قطع نظر میں نے زندگی میں پہلی بار "کولڈسٹوریج" دیکھا اور اپنی عزیزازجان آنٹی کو اس کی "درازوں" کے حوالے کر دیا۔ بمشکل دو سے تین گھنٹے کے بعد ان کو گھر واپس لے آئے۔ ان کی بہنوں ، ان کی بچیوں اور بہوؤں کے ہونے اور میرے پیچھے پیچھے رہنے کی خواہش کے باوجود محض اتفاق سے مجھے ان کی میت کی تکریم کا موقع ملا۔میرا اور ان کا تعلق چونکہ کسی خونی رشتے یا معاشرتی تعلق کے حصار میں نہ تھا بلکہ عمر میں تفاوت کی بنا پر" دوستی" کے زمرے میں بھی نہ آتا تھا، اس بات کو ہم دونوں ہی اپنی جگہ بخوبی محسوس کر سکتے تھے اور کرتے بھی تھے۔ دوسرے لفظوں میں یہ "خفیہ آشنائی" ہم دونوں کے قریبی احباب کے لیے ناقابلِ فہم بھی تھی۔ یوں ہم اپنے طور حتیٰ الامکان اسے چھپانے کی کوشش بھی کرتے۔لیکن وہ کہتے ہیں نا کہ عشق اور مشک چھپائے نہیں چھپتے،تو زندگی میں جس تعلق کو اپنی قیمتی دولت جان کر خود سے بھی چھپانے کی سعی کرتے رہے ،ان کی وفات نے اسے ساری دنیا کے سامنے عیاں کر دیا۔ نا صرف ان کی تکفین اور غسل کے مراحل تک بلکہ گھر سے ہمیشہ کی رخصتی کے بعد ان کے ماشاءاللہ پانچ انتہائی قابل ڈاکٹر اور انجنئیر بیٹے جن میں سب سے چھوٹا بیٹا بھی عمر میں مجھ سے بڑا تھا،سرجھکائے اپنی امی کی باتیں سنتے تھے۔ یہ نہیں کہ میں آج پہلی بار ان سے مخاطب تھی بلکہ مہینوں اور اکثر سالوں کے وقفے کے بعد جب بھی ان کا آنا ہوتا کہ میں یہی کہتی کہ آپ اگر مصروف ہیں تو کم از کم اپنے بچوں کو ہی بےلوث محبت کے ان چشموں اور علم وادب اور تاریخ کے اس قیمتی ورثے سے محروم نہ رکھیں ،اس مٹی کی قربت محسوس کرنے دیں جو انہیں دنیا کے آسمانوں میں بےوزنی کی کیفیت سے دوچار نہ ہونے دے۔لیکن کیا کیا جائے اعلیٰ ڈگری کے حامل افراد صرف دو اور دو چار سے آگے نہیں بڑھتے۔ خیر اگلے دو روز تک بچے وہاں رہے، میں ان سے ان کی امی کی باتیں کرتی اور ان کے خواب سناتی کہ کس طرح انہوں نے وفات سے چند روز پہلے ہی گھر میں ہونے والی یہ آمدورفت جزئیات تک دیکھی تھی اور انہیں بچھڑنے کا دھڑکا سا محسوس ہوا اور بےساختہ گہری نیند سوئے "انکل" کو جھنجھوڑ بیٹھیں۔ یادوں کو پرولتے انکل کا ذکر آیا تو کچھ ان کے بارے میں بھی ۔۔۔وہ بھی ایک مکمل داستان تھے اور ہیں ،اللہ انہیں صحت سلامتی کی زندگی عطا فرمائے آمین (تادمِ تحریر (اکتوبر 2017)عمر میں95 کے ہندسے کو ذہنی اور جسمانی صحت کے ساتھ عبور کرنے والے) انکل بظاہر بالکل خاموش اور عام انسانوں کے خیال میں آدم بیزار شخصیت تھےلیکن میرے سامنے ان کا ایک کا الگ ہی روپ تھا۔ بےشک آنٹی کی طرح بےتکان کبھی نہیں بولتے تھے بہت کم بات چیت کرتے زیادہ تر آنٹی ہی کی زبانی احوال سننے کو ملتا۔یہ اور بات کہ میں پھر بال کی کھال نکالتے ہوئے انکل کو بولنے پر مجبور کر دیتی اور انکل کی آنکھوں کے گوشوں سے پھوٹتی غیرمرئی چمک پل میں ان کی گرد اجنبیت کے حصار گرا دیتی۔ بات ان دونوں کے بچپن سے شروع کرتے ہیں۔آنٹی ان کی کزن تھیں، یہ ہندوستان میں ضلع ہوشیارپور کے رہنے والے تھے۔آنٹی کے والد وہاں کے اسکول میں ہیڈماسٹر تھے جبکہ انکل کے والد بچپن میں وفات پا گئے تھے۔ یوں مالی لحاظ سے آنٹی کا پلہ بھاری رہا اور انکل کا بچپن محنت مشقت میں گزرا۔ایک فرق اور بھی رہا کہ آنٹی پانچ چھ بہنوں اور دو بھائیوں پر مشتمل ایک بھرے پورے خاندان میں پلی بڑھیں جبکہ انکل کے صرف ایک ہی بڑے بھائی تھے ،یوں انکل بچپن سے ہی تنہائی کے اسیر رہے۔ رشتہ طے ہونے کی تفصیل یاد نہیں یاد ہے تو بس اتنا کہ منگنی کے بعد انکل نے آنٹی کے نام پر اپنا نام رکھ لیا۔ یہ نام کہانی اس طور مجھ پر کھلی کہ ان کے گھر کھڑی گاڑی کے ٹوکن پر جب میں نے اصغری بیگم کا نام دیکھا تو حیران ہو کر پوچھاکہ کیا عجب اتفاق ہے آپ اصغری اور انکل اصغر۔آنٹی کا نام اصغری بیگم تھا جبکہ انکل کا نام محمد علی تھا۔ انکل عام طور پر ایم اے اصغر کے طور پر معروف تھے اور یہ ان کے گھر کی تختی پر بھی درج تھا۔ساری زندگی وہ اصغر صاحب کے نام سے پکارے جاتے رہےاور محمدعلی صرف کاغذی کارروائی کی حد تک محدود ہو گیا۔انکل کی یادوں میں سفر کرتے مجھے معلوم ہوا کہ 1935 میں جب وہ آٹھویں جماعت میں تھے تو بادشاہ کی تاج پوشی پر منعقد ہونے والی گیمز میں انہیں انگلینڈ جانےکے لیے سیلکٹ کیا گیا، گرچہ یہ گیمز کینسل ہو گئیں اور وہ نہ جا سکے لیکن ایک بچے کے ذہن میں لندن کا نام چپک کر رہ گیا۔ آنے والے سالوں میں سادہ ماں اور دیہاتی پس منظر رکھنے والے اس بچے نے اپنی محنت جاری رکھی،تعلیم کے مرحلے طے کرتے کرتے لندن اس وقت پہنچا کہ ملکہ برطانیہ کی تاج پوشی اور جلوس کو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔آنے والی دہائیوں میں دنیا کے پانچ برِاعظموں کے سفر کیے۔امریکہ کے صدر کینڈی اور چین کے وزیرِ اعظم چوائن لائی اور بانی ماؤذرے تنگ سے ملاقات کی ،ہاتھ ملایا۔اس سے پہلے قریباً بیس سال کی عمر میں 1942 میں جب قائداعظم لاہور تشریف لائے ،وہاں کی آسٹریلین مسجد میں نمازِ ادا کی۔ان کے اسلامیات کے استاد لاہور کی "آسٹریلین مسجد" کے امام تھے۔انھوں نے اپنے طلبا کو قائدِاعظم کی مہمان داری کے فرائض سونپے۔جناب اصغر صاحب بھی ان میں شامل تھے،قائدِاعظم نے نماز کے بعد اپنے جوتے پہنتے ہوئے ان سے ہاتھ ملایا اور ان کی کمر پر تھپکی دی ۔1971 کا سانحہ جناب اصغر صاحب کی زندگی کی کایا پلٹ گیا۔ دسمبر 71 سے چند ماہ پہلے ان کو مشرقی پاکستان کی اسلحہ ساز فیکٹری میں تعینات کیا گیا۔ ایک ماہ کے قلیل عرصے میں انہوں نے زنگ آلود مشینیں ٹھیک کرتے ہوئے بند ہوتی فیکٹری کو چالو کردیا،جس کا اعتراف صدر ایوب نے اپنے دورے کے دوران بھی کیا۔ دنوں میں بگڑتے حالات وواقعات کے بعد سب کیا کرایا دھرا رہ گیا اور اصغر صاحب بھی اور بہت سے لوگوں کی طرح جنگی قیدی بنا دیے گئے۔ اب نہ صرف ان پر بلکہ ان کے خاندان پر آزمائشوں کے ایک تکلیف دہ دور کا آغاز ہوا۔مہینوں گھر اور وطن سے رابطہ نہ ہوسکا۔یہ قیدِناحق تین سال جاری رہی۔اس کے بعد وطن لوٹے تو سازشوں اور سیاسی جوڑتوڑ کے ماحول میں اپنی جگہ پر کام کرنا کاٹی گئی قید سے بڑھ کر اذیت ناک ثابت ہوا۔سدا سے خاموش رہنے والے رفتہ رفتہ اپنی ذات کے حصار میں سمٹتے چلے گئے۔زندگی صرف روٹین کے دفتر۔گھر اور بچوں کی ذمہ داریوں تک محدود ہوکر رہ گئی جس میں نہ کسی دوست اور نا ہی کسی رشتہ دار کی گنجائش تھی۔جوں توں وقت گذار کر ریٹائرمنٹ لی اور گھر کے سوداسلف لانے،گھر سے وابستہ کاموں اور پودوں کی دیکھ بھال کرنے میں ہی مصروف رہنے لگے۔راتیں اگر رب کے حضور سجدہ ریز ہو کر کٹتیں تو دن میں اخبار اور ریڈیو ان کے ساتھی تھے۔ٹیلی وڑن اور اُس کے پروگراموں سے دلچسبی صرف آنٹی کا ہی دردِسر تھا۔زندگی کے نشیب فراز جھیلنے کے بعد ان کی زندگی دیکھنے والوں کے لیے قابلِ رشک تھی کہ اپنے گھر میں مزے سے رہتے،مالی اور معاشرتی لحاظ سے اپنے پرائے کسی کے محتاج نہیں تھے۔
"ایم اے اصغر صاحب ستمبر 2020 کو لاہور میں انتقال فرما گئے۔اللہ پاک اُن کی مغفرت فرمائے ۔آمین۔"
زندگی اورموت کا مفہوم میں نے ان کے جانے کے بعد جانا۔۔۔ جو بات لاکھ چاہنے کے باوجود میں اُن سے نہ پوچھ سکی انہوں نے اب بتا دی۔ وہ میرے دل کاحال جانتی تھیں نا۔وہ مرنا نہیں چاہتی تھیں۔۔۔زندگی کی طلب گار تھیں جس سے انہیں عشق تھا ۔ اللہ سے جو مانگو ملتا ہے اس کا عملی ثبوت میں نے دیکھا ۔ اُن کے جانے کے بعد وہ گھر واقعی ویران ہو گیا،اُجاڑ ہو گیا۔ لیکن یہ عارضی تھا بیج بویا جا چکا تھا اور بارآور ہونے کے لیے وقت چاہیے موسم چاہیے اور سب سے بڑھ کردیکھنے والی آنکھ۔ تو وہ بیج جو میرے سامنے بویا گیا تھا اورشاید میرے لیے ہی ۔۔۔ اُس کے ثمر کو میں نے ہی محسوس کیا۔
ایک سال گذر گیا اب اُس گھر میں صبح کا آغاز معصوم چھوٹے چھوٹے بچوں کی چہچہاہٹ ،دل میں اُترتی دُعاؤں اور پیارے نبی ﷺ کی شان میں مدھر درود پاک سے ہوتا ہے وہاں ایک سکول کھل گیا ہے جس سے قطعی اُن کا یا اُن کے بچوں سے کوئی تعلق نہیں۔اُنہوں نے اپنا فرض ادا کیا ،کام ختم کیا اور گھر کو روانہ ہوئیں، اسی طرح اُن کے بچوں نے اپنے حصے کا کام کیا اوراپنے گھروں میں شاد وآباد۔بعد میں آنے والے غیر لوگوں نے اس بات سے بےخبر کہ وہاں کتنے قیمتی لمحات سانس لیتے تھے اُس گھر کو مہنگے اورمغربی تعلیمی ادارے کے حوالے کردیا جن کے نصاب میں دین اور مذہب کو اوّلیت نہیں لیکن شاید یہ سچے دل کی طلب تھی جو اُس آنگن میں مہکتی ہے اورزندگی پر یقین مستحکم کرتی ہے۔ انسان زندہ رہنے کا فن جان جائے، زندگی اپنے اندر اُتار لے تو موت بھی اُس سے دُور بھاگتی ہے۔
آخری بات !
صدقۂ جاریہ اصل میں یہی ہے کہ ہم اپنی نیت خالص رکھیں ،بےحساب دیں تو مالک ہمارے ظاہری وجود کے منظر سے ہٹنے کے بعد بھی ہماری خواہشات پوری کرتا ہے اور اجر عطا کرتا ہے۔
راز کی بات !
وہ میری آنکھ کا آنسو تھیں جو اُن کے ساتھ چلا گیا اورمیں خشک آنکھوں سے اُسے جاتے دیکھتی رہی۔ یہ حقیقت بھی ہے بے شک وہ میری ماں تھیں لیکن جب رُخصتی کا وقت آیا تو میں نے سپاٹ چہرے کے ساتھ ایک ماں بن کر انہیں بیٹی کی طرح رُخصت کیا۔
میں حیران تھی کہ آنسو کہاں چلے گئے ہم تو کسی کے فراق میں آنسو بہا کر ساری چاہتوں کا حق ادا کر دیتے ہیں۔میں دل ہی دل میں نادم تھی کہ اُن سے میری محبت وقتی یاسرسری تھی؟ حقیقت اللہ جانتا ہے ہم نہیں ،ہم تو اپنی سوچ سے بھی انجان ہیں۔ وہ سانس لیتا ہوا جسم جس کی روح سے میری آشنائی تھی جب اُس کی روح جُدا ہوئی تو وہ جسم میرا تھا۔۔ اتفاق سے اُس جسم کو میرے سوا کوئی چھو بھی نہ سکا۔ میں نے بڑی چاہت سے اُس کو سمیٹا ،سجا کر ابدی گھر روانہ کیا۔
اب یہ لفظ لکھتے ہوئے اُس لازوال روح نے میرے سارے آنسو بھی مجھے واپس کر دئیے میرا ادھورا پن مکمل کر دیا اور مجھے زندگی کا یہ عظیم سبق مل گیا کہ "محبت کبھی تشنہ نہیں چھوڑتی کبھی آزردہ نہیں کرتی ۔۔۔ محبت جسم میں اُتر کر روح کو آسودہ کر دیتی ہے اور یہ کہ محبت میں فراق اور وصال کوئی معنی نہیں رکھتے۔۔۔ محبت کا لمس مل جائے تو فراق بھی وصال بن جاتا ہے"۔
اہم بات ایک درخواست !
اس پوسٹ کو پڑھنے والے ایک بار درود شریف پڑھ کر دعا ضرور کریں ، اپنے لیے ہم سب کے لیے اور اُس استاد کے لیے جو جانے کے بعد بھی زندہ ہے اپنے چاہنے والوں کے دل میں ۔
زندگی اورموت کا مفہوم میں نے ان کے جانے کے بعد جانا۔۔۔ جو بات لاکھ چاہنے کے باوجود میں اُن سے نہ پوچھ سکی انہوں نے اب بتا دی۔ وہ میرے دل کاحال جانتی تھیں نا۔وہ مرنا نہیں چاہتی تھیں۔۔۔زندگی کی طلب گار تھیں جس سے انہیں عشق تھا ۔ اللہ سے جو مانگو ملتا ہے اس کا عملی ثبوت میں نے دیکھا ۔ اُن کے جانے کے بعد وہ گھر واقعی ویران ہو گیا،اُجاڑ ہو گیا۔ لیکن یہ عارضی تھا بیج بویا جا چکا تھا اور بارآور ہونے کے لیے وقت چاہیے موسم چاہیے اور سب سے بڑھ کردیکھنے والی آنکھ۔ تو وہ بیج جو میرے سامنے بویا گیا تھا اورشاید میرے لیے ہی ۔۔۔ اُس کے ثمر کو میں نے ہی محسوس کیا۔
ایک سال گذر گیا اب اُس گھر میں صبح کا آغاز معصوم چھوٹے چھوٹے بچوں کی چہچہاہٹ ،دل میں اُترتی دُعاؤں اور پیارے نبی ﷺ کی شان میں مدھر درود پاک سے ہوتا ہے وہاں ایک سکول کھل گیا ہے جس سے قطعی اُن کا یا اُن کے بچوں سے کوئی تعلق نہیں۔اُنہوں نے اپنا فرض ادا کیا ،کام ختم کیا اور گھر کو روانہ ہوئیں، اسی طرح اُن کے بچوں نے اپنے حصے کا کام کیا اوراپنے گھروں میں شاد وآباد۔بعد میں آنے والے غیر لوگوں نے اس بات سے بےخبر کہ وہاں کتنے قیمتی لمحات سانس لیتے تھے اُس گھر کو مہنگے اورمغربی تعلیمی ادارے کے حوالے کردیا جن کے نصاب میں دین اور مذہب کو اوّلیت نہیں لیکن شاید یہ سچے دل کی طلب تھی جو اُس آنگن میں مہکتی ہے اورزندگی پر یقین مستحکم کرتی ہے۔ انسان زندہ رہنے کا فن جان جائے، زندگی اپنے اندر اُتار لے تو موت بھی اُس سے دُور بھاگتی ہے۔
آخری بات !
صدقۂ جاریہ اصل میں یہی ہے کہ ہم اپنی نیت خالص رکھیں ،بےحساب دیں تو مالک ہمارے ظاہری وجود کے منظر سے ہٹنے کے بعد بھی ہماری خواہشات پوری کرتا ہے اور اجر عطا کرتا ہے۔
راز کی بات !
وہ میری آنکھ کا آنسو تھیں جو اُن کے ساتھ چلا گیا اورمیں خشک آنکھوں سے اُسے جاتے دیکھتی رہی۔ یہ حقیقت بھی ہے بے شک وہ میری ماں تھیں لیکن جب رُخصتی کا وقت آیا تو میں نے سپاٹ چہرے کے ساتھ ایک ماں بن کر انہیں بیٹی کی طرح رُخصت کیا۔
میں حیران تھی کہ آنسو کہاں چلے گئے ہم تو کسی کے فراق میں آنسو بہا کر ساری چاہتوں کا حق ادا کر دیتے ہیں۔میں دل ہی دل میں نادم تھی کہ اُن سے میری محبت وقتی یاسرسری تھی؟ حقیقت اللہ جانتا ہے ہم نہیں ،ہم تو اپنی سوچ سے بھی انجان ہیں۔ وہ سانس لیتا ہوا جسم جس کی روح سے میری آشنائی تھی جب اُس کی روح جُدا ہوئی تو وہ جسم میرا تھا۔۔ اتفاق سے اُس جسم کو میرے سوا کوئی چھو بھی نہ سکا۔ میں نے بڑی چاہت سے اُس کو سمیٹا ،سجا کر ابدی گھر روانہ کیا۔
اب یہ لفظ لکھتے ہوئے اُس لازوال روح نے میرے سارے آنسو بھی مجھے واپس کر دئیے میرا ادھورا پن مکمل کر دیا اور مجھے زندگی کا یہ عظیم سبق مل گیا کہ "محبت کبھی تشنہ نہیں چھوڑتی کبھی آزردہ نہیں کرتی ۔۔۔ محبت جسم میں اُتر کر روح کو آسودہ کر دیتی ہے اور یہ کہ محبت میں فراق اور وصال کوئی معنی نہیں رکھتے۔۔۔ محبت کا لمس مل جائے تو فراق بھی وصال بن جاتا ہے"۔
اہم بات ایک درخواست !
اس پوسٹ کو پڑھنے والے ایک بار درود شریف پڑھ کر دعا ضرور کریں ، اپنے لیے ہم سب کے لیے اور اُس استاد کے لیے جو جانے کے بعد بھی زندہ ہے اپنے چاہنے والوں کے دل میں ۔
ﷺ
۔۔۔
اللہ تبارک تعالیٰ والدہ محترمہ کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے۔۔۔ آمین۔۔۔
جواب دیںحذف کریںمیں نہیں جانتی مین یہ سب پڑھنے کے بعد کیا کمنٹ کروں ۔بعض وقت اپنے احساس و تاثرات کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔میں نہیں جانتی یہ شدت احساس سے ہوتا ہے یا اس کے اظہار کے لئے الفاظ بنے ہی نہیں ہوتے ہیں۔۔۔۔خیر میں مرحومہ کی مقفرت اور بلندِدرجات کے لئے بدست دعا ہوں ، اللہ پاک قبول فرمائے
جواب دیںحذف کریںاللہ تعالیٰ مرحومہ کے درجات بلند فرمائے۔
جواب دیںحذف کریںصدقہ جاریہ بذاتِ خود ایک مکمل "فیلڈ" ہے۔
بلا کا تسلسل ہے اس تحریر میں۔ بہت خوبصورت پیرائے میں زندگی کی حقیقت کو لفظوں کی مالا میں پرو دیا آپ نے۔ قلم کی روانی لفظ کے بہاؤ میں تیرتی جاتی ہے۔ آپ کو اللہ تبارک تعالی نے لکھنے کی خداداد صلاحیت سے نوازا ہے۔ جو بہت کم لوگوں کے حصے میں آتی ہے۔
جواب دیںحذف کریں"صدقۂ جاریہ"
جواب دیںحذف کریںمیرے وہ لفظ جودوبرس پہلے آج کے روز مجھ پر اترے اور کچھ دیر بعد پوسٹ بھی کر دئیے۔ جب بھی انہیں پڑھتی ہوں تو کسی بھی قاری سے زیادہ مسحور ہو جاتی ہوں کہ یہ لفظ کاغذ پر تو بعد میں لکھے گئے میری روح میں بہت پہلے جذب ہو چکے تھے اور میں لکھنے سے پہلے بالکل بھی نہیں جانتی تھی ۔ اللہ کا ہزار شکر کہ اس نے لفظ کے ساتھ اس کا یقین بھی عطا کیا۔۔ بےشک ۔۔۔
۔"اللہ یقین کے ساتھ لفظ اتارتا ہے اور ہم لفظ لکھ کر اس پر یقین کرتے ہیں "
https://daleel.pk/2017/12/01/65656
جواب دیںحذف کریں