جمعرات, دسمبر 03, 2020

"اچھائی،برائی "

سورہ الانعام (6)۔پارہ 7۔ آیت 54۔
تمہارے رب نے اپنے ذمہ رحمت لازم کی ہے، جو تم میں سے ناواقفیت سے برائی کرے پھر اس کے بعد توبہ کرے اور نیک ہو جائے تو بے شک وہ بخشنے والا مہربان ہے۔
برائی کر کے بھولو نہیں اور اچھائی کر کے بھول جاؤ۔
برائی ہو یا اچھائی دونوں کے بدلےضرور ملتے ہیں اور اسی دنیا میں اپنی آنکھ کے سامنے۔لیکن آنکھ بھی وہ جو محض بصارت ہی نہ ہو بلکہ بصیرت کے نور سے بھی روشن ہو۔آنکھ بصارت سے بڑھ کر بصیرت ہے۔
ہر برائی کی سزا نہیں اور ہر اچھائی کی جزا نہیں ۔کہتے ہیں انسان خطا کا پُتلا ہے۔سوبرائی ہو یا گناہ اگر جان بوجھ کر کسی زیارتی کا مرتکب ہوا ہے یا نادانی میں،اگرتو انسان انسانوں کا مجرم ہے یا اللہ کا گناہگار ۔ ہر دو صورتوں میں برائی کرنے کے بعد انسان کو اپنی غلطی کا احساس ہو جائے۔ اہم یہ ہے کہ انسا ن سے معافی مانگنے کی ہمت نہیں یا مہلت نہیں تو پھر بھی کوئی بات نہیں۔اللہ تو ہر وقت پاس ہے،ساتھ ہے۔اُس سےبات کرے ،اُس سے معافی مانگے۔ہم جب اللہ سے کچھ مانگنے کے لیے اپنے جیسےانسان کو وسیلہ بنا سکتے ہیں تو بندوں سے ندامت کے اظہار کے لیے اللہ کو کیوں نہیں وسیلہ بناتے۔ ہم کیوں یہ بھول جاتے ہیں کہ اللہ ہمارے دل کی ندامت اُس انسان کے دل تک پہنچا سکتا ہے۔اور ایسا ضرور ہوتا ہے۔سو عمل اور قول کو تو جانے دیں۔اگر ہمارے دل کے کسی گوشے میں خفیف سا بھی احساسِ ندامت پیدا نہیں ہوتا تو جان لیں کہ ایک ایسا وقت ضرور آتا ہے کہ جب یہ احساس ہمارے دماغ میں پوری شدت سے بیدار ہو گا۔اللہ اُس وقت سے بچائے کہ وہ وقت مکافاتِ عمل کے سوا کچھ بھی نہیں۔

رہی بات اچھائی کی تو اچھائی کی جزا کا تو سنتے آئے ہیں یہ اچھائی کی سزا کے کیا معنی۔ برائی اور اچھائی دو دنیاؤں کی کہانی نہیں بلکہ اِن میں بال برابر فرق ہے۔کسی مجبور پر ہاتھ اُٹھانا ایک لمحۓ کا کام ہے اور وہی ہاتھ اُس کے سر پر رکھ دینا دوسرے لمحۓ کا۔ دیکھا جائے تو پہلا لمحہ سراسر زیارتی ہے اور دوسرا نیکی۔ لیکن اِس نیکی میں اگر بڑائی یا احسان کی رتی برابر بھی ملاوٹ ہو گئی تو یہ اُس زیارتی سے بڑھ کر ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ یہ نیکی اُس شخص کے ساتھ نہیں بلکہ ہم اپنے ساتھ کر رہے ہوتے ہیں۔کیا پتہ وقت کا پہیہ کب ہمیں اس مجبور کی جگہ پر گھڑا کر دے ۔آخر میں انتہائی لرزا دینے والی حقیت یہ ہے کہ برائی کے بعد توبہ کر کے انسان پاک ہو سکتا ہے اور اللہ معاف کر کے اپنے نیک بندوں میں شامل کر دیتا ہے۔لیکن اچھائی کرنے کے بعد برے لوگوں میں شامل ہوجانا ہمیشہ کا خسارا ہے۔

      


 

جمعہ, ستمبر 18, 2020

"اب عمر کی نقدی ختم ہوئی"

پانچ برس اُدھار کے۔۔شرافت ناز

پیر, اگست 31, 2020

"ہنزہ داستان"

ہنزہ داستان۔۔۔مستنصرحسین تارڑ
سفر ۔۔۔1984
1985اشاعت۔۔۔
انتساب۔۔۔امی جان کے لیے











    صفحہ 114۔۔۔گُم وہی چیزیں ہوتی ہیں جو چاہے عارضی طور پر ہی سہی اِنسان  کی گرفت میں ایک مرتبہ تو آتی ہیں- بےشمار لوگ ہوں گے  جِن کے پاس  توگُم کرنے کے لیے بھی کچھ نہیں ہوتا۔
 صفحہ 119۔۔۔ طویل مسافتوں کی تھکاوٹ چند روز میں زائل ہو جاتی ہے ۔لیکن مہہ وسال کے گزرنے سے جو مسافت وجود میں آتی ہے اُس کی تھکاوٹ صرف مٹی میں  پنہاں ہو کر ہی ختم ہوتی ہے۔
 صفحہ 270۔۔۔ انسان فطرت کو مسخر تو کر سکتا ہے لیکن اُس کا دائمی رفیق نہیں  بن سکتا۔وہ سب کچھ رہتا ہے لیکن وہ خود نہیں رہتا۔البتہ اُس کی جگہ رہتی ہے۔

جمعہ, اگست 28, 2020

"اُداسی اور خوشی"

"میری ڈائری سے  میرا انتخاب"
تقریباً چار دہائیاں  پہلے  کے لفظ ۔۔۔نہیں جانتی کہ کس کے لکھے ہیں۔ لیکن  اداسی اور خوشی کی تمثیل  آج بھی  دل کو چھوتی ہے اور آنکھ نم کرتی ہے۔
"اُداسی" 
جیسے۔۔۔ ساون کی گھٹا  ذرا    دیر کے لیے برسے اور پھر دھوپ نکل آئے۔
 جیسے۔۔۔کوئی مہمان چند روز کے لیے آئے اور قہقہے برسا کر واپس چلا جائے۔
جیسے۔۔۔ کوئی میلہ بھر کر خالی ہو جائے۔
جیسے۔۔۔ چُھٹی کا دن آئے اور گُزرجائے۔
جیسے ۔۔۔روزِعید کی شام ہو۔
جیسے۔۔۔ دُلہن کی رُخصتی کے بعد گھر کی حالت۔
جیسے۔۔۔تماشۂ رفتہ کا خالی پنڈال۔
 جیسے۔۔۔ کسی پردیسی کی الوداعی مسکراہٹ۔
جیسے۔۔۔بھولے بسرے خطوط۔
جیسے۔۔۔ مرنے والے کے تہہ در تہہ کپڑے۔
جیسے۔۔۔ گرمیوں کی طویل دوپہر میں باغ کا منظر۔
جیسے۔۔۔  کسی  ویران مسجد میں شام کا چھٹپٹا۔
جیسے۔۔۔ کسی کھنڈر میں چھٹکی چاندنی۔
جیسے۔۔۔ کسی سُنسان پہاڑ پر خزآں کی آمد۔
جیسے۔۔۔جاڑے کی چاندنی۔۔
۔" اےاُداسی۔اے اُداسی تیرا جواب نہیں ،تخلیق کاروں کی اُمنگ،اے شاعروں کی محبوبہ،اے اداسی تو میرے جذبوں کی گھٹا ہےاور تو میرے قلم کی وہ سیاہی بھی جس کے سامنے صفحۂ ہستی کی تمام تر وُسعت بھی ناکافی ہے۔۔۔مگراداس موسم میں اداس ہو جانا ایک عام سی بات ہے کیونکہ اس وقت بھی تو سال  بھر کا اداس اور سوگوار موسمَِ خزاں عروج پر ہے۔لیکن اگر  میں اس اداس موسم میں اداس ہوں تو کئی لوگ ہوں گے جو اس موسم سے لُطف اندوز ہو رہے ہوں گےاور یوں اُن کے چہروں سے شفق پھوٹ رہی ہو گی۔ان کے کھنکتے قہقہے ہر سمت پھیل رہے ہوں گے،اُن کے چہروں سے خوشی و شادمانی ٹپک رہی ہو گی مگر دوسری طرف ایسے بھی لوگ ہوں گے جن کے چہروں پر غم کی گھٹا چھائی ہو گی،آنکھوں  میں افسُردگی کے سائے  ہوں گے اور چہرہ دھواں دھواں ہو گا۔اور ہاں وہ لوگ بھی تو ہوں گے جو اندر سے تو افسردہ ہوں گے مگر ہنستا چہرہ لیے زمانے کے سامنے ہوں گےمگراُن کے چہرے کا کوئی حصہ اس جھوٹ کی چغلی کھا رہا ہو گا۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
" خوشی"
 جیسے۔۔۔ ساون کی گھنگھور گھٹا سے پانی کا پہلا قطرہ۔
جیسے۔۔۔ کسی میلے میں ڈھول پر پڑنے والی پہلی تھاپ۔
جیسے۔۔ کسی سُونے آنگن میں بچے کی پہلی چہکار۔
جیسے۔۔۔کسی دور کے نگر میں کسی شناسا چہرے کا دیدار۔
جیسے۔۔۔کسی اُجڑے آنگن میں بہار کی واپسی کا احساس۔
جیسے۔۔۔ کسی خوشخبری سنانے والے کے ہونٹوں کی مخصوص جنبش۔
جیسے۔۔۔کسی  مسکرانے والے کی آنکھ کا نرالا آنسو۔
جیسے۔۔۔کسی لوٹ کر آنے والے کے قدموں کی خوش کن صدا۔
۔"اے خوشی تو  دل کے سمندر کا  سب سے انمول موتی ہے۔تو زندگی کی لہر ہے۔تو کائنات کی روح ہے۔ تو نے شاذ ہی مجھے اپنی زندگی کی  جھلک دکھائی ہے ۔لیکن مجھے تجھ سے کوئی شکوہ نہیں کیونکہ تیری کمیابی ہی توتیرا حُسن ہے"۔




جمعہ, جولائی 10, 2020

"کیا ہے زندگی"

"کیا ہے زندگی"
٭ زندگی  تو بس پکے مکان سے کچی قبر تک فقط آنکھ بند ہونے اور آنکھ کھلنے کے بیچ کی سفرکہانی ہے جو کبھی تو حقوق وفرائض کے محور کے گردسمجھوتے کے کھوپے چڑھائے صبح وشام کرتے گزرتی ہے تو کبھی لایعنی خواہشوں  کی چادر میں اُمیدوں کی گلکاری کرتے،لباس کی   تکمیل کے  خمار میں  ڈولتے تو کبھی ناکافی حسرتوں کے لاشے اُٹھائے  گن گن کر دن   گزارتے۔ زندگی کے میلے میں اپنی محنت ومشقت کے سکًوں سے  آسودگی  خریدتے خریدتے ایک ایسا وقت بھی آتا ہے  کہ  کاروبارِحیات  کا  مرکزی کردار   ایکسٹرا کی جانب بڑھنے لگتا ہے۔ پچاس ساٹھ سال کی بھاگ دوڑ کے بعدانسان سوچتا ہے کہ اس شجرِسایہ دار کےنیچے کچھ دیر آنکھیں موند کر اپنی مرضی سے پیر پھیلا کر چند سانسیں لے لیکن یہ کیا کہ اب تو  اپنے وجود میں سمٹ کر بھی رویوں کی چکاچوند اجنبی مسافر بنا دیتی ہے۔
۔" مکان محنت سے بنتے ہیں اور گھر نصیب سے" ۔۔۔ 
 مکان بنانا  دُشوار تو ہے کہ مکان مکینوں کے لیے بنتے ہیں جو مکان بنانے کی صعوبت سے آشنا ہوتے ہیں لیکن مکان کو گھر کی  صورت دے کر آباد کرنا دُشوار  تر ہے کہ ان جان مکینوں سے گھر آباد ہوتے ہیں ۔جو گھر  کی قدروقیمت سے تو واقفیت رکھتے ہیں لیکن گھر بنانے والے کی قدر سے  ناواقف بلکہ کہا جائے تو قطعاً نابلد ۔ ستم تو یہ ہے کہ اُنھیں اس کا رتی برابر احساس بھی نہیں ہوتا۔ کیا کیا جائے کہ یہی  دائرۂ زندگی ہے تو حاصلِِ زندگی بھی یہی۔ اہم یہ ہے کہ گھر بنانے والے ہی گھر آباد رکھنے  کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔  لیکن اس سے بڑھ کر کڑوا سچ یہ ہے کہ اپنی زندگی برباد کر کے ہی گھر آباد ہوتے ہیں۔" مکان محنت سے بنتے ہیں اور گھر نصیب سے"۔ لیکن نصیب کو دوش دے کر محنت ترک نہیں کرنی چاہیے کہ محنت کا پھل بھی نصیب سے ملتا ہے۔۔۔کبھی ساری عمر کولہو کا بیل  بن کر بھی سر پر چھت نہیں ملتی  اور کبھی چھت مل بھی جائے تو زندگی دوگام سستانے کی مہلت نہیں دیتی۔اہم یہ ہے کہ راضی رہو خواہ گھر ہو یا مکان۔جان لو سب عارضی ہے ،حتمی اور ذاتی صرف دوقدم کے فاصلے پر مٹی 
کا ٹھکانہ ہے۔ستم یہ ہے کہ وہ بھی خوش نصیبوں کا نصیب ہے۔
٭مکان مال سے بنتے ہیں اور گھر جان سے۔ مکان سے گھر تک کے سفر میں مال اور جان کی قیمت ادا کرنے  والے یوں خالی ہاتھ اور خالی ذہن رہ جاتے ہیں کہ اپنے وجود کے سوا کوئی پناہ گاہ دکھائی نہیں دیتی ۔
٭زندگی سفردرسفر ہے تو زندگی کہانی تھکن درتھکن۔۔۔ ڈھلتی عمر کی چاپ سنتے  ذمہ داریوں کی چیختی چلاتی تھکن اُترنے لگے تو زندگی کی  تھکن
 یوں  خاموشی سے  اپنے حصار میں جکڑتی ہے کہ  ہر رنگ بےرنگ اور ہر عکس میں بس ایک ہی نقش نظر آتا ہے۔ساتھ رہنے والے،ساتھ چلنے والے  چلتی گاڑی میں دِکھتے منظروں کی طرح   رُخ بدلتے ہیں تو ہمیشہ کے لیے  رُخصت ہو جانے والے چہرے احساس کی شدت لیے یاد کے دریچوں سے جھانکتے ہیں۔ کبھی ہم رشتوں کو ترستے ہیں تو کبھی خاندان مکمل کرنے کی  جدوجہد میں  سفرِزندگی طے کرتے ہیں۔  رشتے برتتے سمے  جب دنیاوی رشتوں کی حقیقت اور محبتوں کی قلعی اُترتی ہے تو  انسان کچھ کہنے کے قابل رہتا ہے اور نہ ہی کسی سے  بانٹنے کے۔ چاہ سےجوڑے گئے رشتوں کے رویے انسان  کو ذہنی تھکن کی ایسی بندگلی میں پہنچا دیتے ہیں کہ  جسم ہزار کوشش کے باوجود آگے بڑھنے سے انکاری ہو جاتا ہے۔
٭ جسمانی تھکاوٹ چاہے برسوں کی ہو یا گھنٹوں کی ، کچھ لمحوں کی بےخبر میٹھی نیند کے بعد اُتر ہی جاتی ہے لیکن رویوں کی تھکن کی کڑواہٹ لہجوں کی شیرینی کے باوجود ساتھ نہیں چھوڑتی۔
٭۔۔بس کر اے زندگی کہاں تک ہم  تیرے عذاب جھیلیں۔کبھی کوئی تھک کر سو جاتا ہے اور کوئی اس ڈر سے نہیں سوتا کہ تھک گیا تو مر جائے گا۔
۔"یہ شام پھر نہیں آئے گی"۔ 
زندگی اگر دن کے رات اور رات کے دن میں ڈھلنے سے آگے بڑھتی ہے تو انہی رات اور دن کے بیچ میں ہماری زندگی کی صُبحیں اور شامیں بھی آتی ہیں۔ایک پُرسکون رات کے اختتام پر طلوع ہونے والی صبح  کی مہک اگر  جسم وجاں میں جذب ہو کر اسے تازہ دم کرتی ہےتو دن بھر کی تھکاوٹ کے بعد  چائے کے کپ  کے  ساتھ اپنی ذات کی تنہائی میں سرکنے والی شام کے چند لمحے روح کے بوجھ اتار دیتے ہیں۔ جو وقت  بیت جائے وہ کبھی پلٹ کر نہیں آتا خواہ وہ درد بھرے لمحات ہوں یا خوشیوں کی کہکشاں پر رقص کرتے جگنو لمحے ہوں یا   دکھ اور تکلیف کے آسیب میں  جکڑےکیکر لمس۔
 دھوپ ڈھلنے کے لیے ہوتی ہے آج یا کل زندگی کی شام نے آ کر رہنا ہے۔ ایک    ایسی شام  جو  بیک وقت گونگی بھی  ہوتی ہے اور چیختے چلاتے اپنے حصار میں بھی جکڑ لیتی ہے۔


بدھ, اپریل 15, 2020

"قرانِ عظیم اور اعداد"

(انتخاب)
قرآن حکیم کا ایک ایک حرف اتنی زبردست کیلکولیشن اور اتنے حساب و کتاب کے ساتھ اپنی جگہ پر فٹ ہے - اتنی بڑی کتاب میں اتنی باریک کیلکولیشن کا کوئی رائٹر تصور بھی نہیں کرسکتا۔ بریکٹس میں دیے گئے یہ الفاظ بطور نمونہ ہیں ورنہ قرآن کا ہر لفظ جتنی مرتبہ استعمال ہوا ہے وہ تعداد اور اس کا پورا بیک گراؤنڈ اپنی جگہ خود علم و عرفان کا ایک وسیع جہان ہے۔ دنیا کا لفظ اگر 115 مرتبہ استعمال ہوا ہے تو اس کے مقابل آخرت کا لفظ بھی 115 مرتبہ استعمال ہوا ہے۔
(دنیا وآخرت:115) ۔
(شیاطین وملائکہ:88)
( موت وحیات:145)
(نفع وفساد:50)
(اجر فصل108)
 (کفروایمان :25)
۔(شہر:12)کیونکہ شہر کا مطلب مہینہ اور سال میں 12 مہینے ہی ہوتے ہیں ( اور یوم کا لفظ 360مرتبہ استعمال ہوا ہے) اتنی بڑی کتاب میں اس عددی مناسبت کا خیال رکھنا کسی بھی انسانی مصنف کے بس کی بات نہیں۔ مگر بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔۔۔
جدیدترین ریسرچ کے مطابق قرآن حکیم کے حفاظتی نظام میں 19 کے عدد کا بڑا عمل دخل ہے ،اس حیران کن دریافت کا سہرا ایک مصری ڈاکٹر راشد خلیفہ کے سر ہے جوامریکہ کی ایک یونیورسٹی میں کیمسٹری کے پروفیسر تھے۔1968 ء میں انہوں نے مکمل قرآنِ پاک کمپیوٹر پر چڑھانے کے بعد قرآنِ پاک کی آیات ان کے الفاظ و حروف میں کوئی تعلق تلاش کرنا شروع کردیا رفتہ ،رفتہ اور لوگ بھی اس ریسرچ میں شامل ہوتے گئے حتی کہ 1972ء میں یہ ایک باقاعدہ سکول بن گیا۔ریسرچ کے کاکام جونہی آگے بڑھا ان لوگوں پر قدم قدم پر حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے ، قرآنِ حکیم کے الفاظ و حروف میں انہیں ایک ایسی حسابی ترتیب نظر آئی جس کے مکمل ادراک کیلئے اس وقت تک کے بنے ہوئے کمپیوٹر ناکافی تھے۔
کلام اللہ میں 19 کا ہندسہ صرف سورہ مدثر میں آیاہے جہاں اللہ نے فرمایا:دوزخ پر ہم نے انیس محافظ فرشتوں کو مقرر کر رکھا ہے اس میں کیا حکمت ہے یہ تو رب ہی جانے لیکن اتنا اندازہ ضرور ہوجاتا ہے کہ 19 کے عدد کا تعلق اللہ کے کسی حفاطتی انتظام سے ہے پھر ہر سورت کے آغاز میں قرآنِ مجید کی پہلی آیت بسم اللہ کو رکھا گیا ہے گویا کہ اس کا تعلق بھی قرآن کی حفاظت سے ہے کیونکہ ہم دیکھتے ہیں بسم اللہ کے کل حروف بھی 19 ہی ہیں پھر یہ دیکھ کر مزید حیرت میں اضافہ ہوتا ہے کہ بسم اللہ میں ترتیب کے ساتھ چار الفاظ استعمال ہوئے ہیں اور ان کے بارے میں ریسرچ کی تو ثابت ہوا کہ اسم پورے قرآن میں 19 مرتبہ استعمال ہوا ہے لفظ الرحمن 57 مرتبہ استعمال ہوا ہے جو3×19 کا حاصل ہے اور لفظ الرحیم 114 مرتبہ استعمال ہو ہے جو 6×19 کا حاصل ہے اور لفظ اللہ پورے قرآن میں 2699 مرتبہ استعمال ہوا ہے 142×19 کا حاصل ہے لیکن یہاں بقیہ ایک رہتا ہے جس کا صاف مطلب ہے کہ اللہ کی ذات پاک کسی حساب کے تابع نہیں ہے وہ یکتا ہے۔ قرآن مجید کی سورتوں کی تعداد بھی 114 ہے جو 6×19 کا حاصل ہے سورہ توبہ کےآغاز میں بسم اللہ نازل نہیں ہوئی لیکن سورہ نمل آیت نمبر 30 میں مکمل بسم اللہ نازل کرکے 19 کے فارمولا کی تصدیق کردی اگر ایسا نہ ہوتا تو حسابی قاعدہ فیل ہوجاتا۔
اب آئیے حضور علیہ السلام پر اترنے والی پہلی وحی کی طرف : یہ سورہ علق کی پہلی 5 آیات ہیں :اور یہیں سے 19 کے اس حسابی فارمولے کا آغاز ہوتا ہے! ان 5 آیات کے کل الفاظ 19 ہیں اور ان 19 الفاظ کے کل حروف 76 ہیں جو ٹھیک 4×19 کا حاصل ہیں لیکن بات یہیں ختم نہیں ہوتی جب سورہ علق کے کل حروف کی گنتی کی گئی تو عقل تو ورطہ حیرت میں ڈوب گئی کہ اسکے کل حروف 304 ہیں جو 4×4×19 کا حاصل ہیں۔ اور سامعین کرام ! عقل یہ دیکھ کر حیرت کی اتھاہ گہرائیوںمیں مزید ڈوب جاتی ہے کہ قرآنِ پاک کی موجودہ ترتیب کے مطابق سورہ علق قرآن پاک کی 96 نمبر سورت ہے اب اگر قرآن کی آخری سورت والناس کی طرف سے گنتی کریں تو اخیر کی طرف سے سورہ علق کا نمبر 19 بنتا ہے اور اگر قرآن کی ابتدا سے دیکھیں تو اس 96 نمبر سورت سے پہلے 95 سورتیں ہیں جو ٹھیک 5×19 کا حاصل ضرب ہیں جس سے یہ بھی ثابت ہوجاتا ہے کہ سورتوں کے آگے پیچھے کی ترتیب بھی انسانی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے حسابی نظام کا ہی ایک حصہ ہے۔ قرآنِ پاک کی سب سے آخر میں نازل ہونے والی سورت سورہ نصر ہے یہ سن کر آپ پر پھرایک مرتبہ خوشگوار حیرت طاری ہوگی کہ اللہ پاک نے یہاں بھی 19 کا نظام برقرار رکھا ہے پہلی وحی کی طرح آخری وحی سورہ نصرٹھیک 19 الفاظ پر مشتمل ہے یوں کلام اللہ کی پہلی اور آخری سورت ایک ہی حسابی قاعدہ سے نازل ہوئیں۔ 
سورہ فاتحہ کے بعد قرآن حکیم کی پہلی سورت سورہ بقرہ کی کل آیات 286 ہیں 2 ہٹادیں تو مکی سورتوں کی تعداد سامنے آتی ہے 6ہٹا دیں تو مدنی سورتوں کی تعداد سامنے آتی ہے۔86 کو 28 کے ساتھ جمع کریں تو کل سورتوں کی تعداد 114 سامنے آتی ہے۔
آج جب کہ عقل وخرد کو سائنسی ترقی پر بڑا ناز ہے یہی قرآن پھر اپنا چیلنج دہراتا ہے حسابدان، سائنسدان، ہر خاص وعام مومن کافر سبھی سوچنے پر مجبور ہیں کہ آج بھی کسی کتاب میں ایسا حسابی نظام ڈالنا انسانی بساط سے باہر ہے طاقتور کمپوٹرز کی مدد سے بھی اس جیسے حسابی نظام کے مطابق ہر طرح کی غلطیوں سے پاک کسی کتاب کی تشکیل ناممکن ہوگی لیکن چودہ سو سال پہلے تو اس کا تصور ہی محال ہے لہذا کوئی بھی صحیح العقل آدمی اس بات کا انکارنہیں کرسکتا کہ قرآنِ کریم کا حسابی نظام اللہ کا ایسا شاہکار معجزہ ہے جس کا جواب قیامت تک کبھی بھی نہیں ہوسکتا۔( منقول)۔

بدھ, مارچ 18, 2020

"منہ دکھائی سے منہ دیکھنے تک"

 عام بول چال  اور اردو زبان دانی میں "منہ دکھائی" ایک بہت ہی عام فہم  لفظ ہے۔روزمرہ زندگی میں  اس کا استعمال   دنیا میں زندگی کی آنکھ کھلنے کے بعد نومولود کی منہ دکھائی سے  ہوتا ہے جب دیکھنے والے اپنی  اپنی سوچ کے مطابق بچے  کے نین نقش پر تبصرے کرتے ہیں  تو کہیں تحائف اور روپے پیسے سے   رسمِ دنیا  نباہتے  ہیں ۔   سفرِزندگی طے کرتے  کرتے ایک "منہ دکھائی" کا مرحلہ نئی نویلی دلہن کی زندگی میں   آتا ہے۔جو انہی مراحل سے گزرتی ہے۔لیکن   اس سمے وہ   اس "منہ دکھائی" سے نہ صرف باخبر ہوتی ہے بلکہ پوری طرح کاسہ لیس ہو کر اس امتحان  کا سامنا کرتی ہے۔  
عام تاثر ہے کہ مرنے کے بعد عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا لیکن  دُنیاوی زندگی   میں اتنے بڑے بڑے عذاب ہیں  کہ جو دفن ہونے تک پیچھا نہیں چھوڑتے۔ زندگی تو ہر ایک کی اپنی اپنی قسمت،اپنی اپنی اہلیت ،اپنے اپنے ظرف،اپنی اپنی ہمت،طاقت کے مطابق "اپنے دامن میں منہ چھپائے" دوسروں کی نظر سے  اوجھل کٹ ہی جاتی ہے  ۔لیکن جیسے ہی آنکھ بند ہوتی ہے دنیا کی نظریں ہمارے چہرے پرمرکوز ہو جاتی ہیں۔کیا اپنا کیاپرایا،ہر ایک آگے بڑھ کر "میت" کے دیدار کی جستجو میں  ہوتا ہے۔زندہ چہروں کی کھوجتی نگاہیں ،ہمارے پتھر ہوتے سرد وجود کے بےحس چہرے میں نہ جانے کون سے اسرار دیکھنے کی  متمنی ہوتی ہیں۔ہم ابھی تو ہر اذیت،ہر مشقت اور ہر روگ کے خاردار تاروں سے اپنی لہولہان روح گذار کر دنیا کی روشنی میں چند ساعتوں کے مہمان ہوتے ہیں۔دنیا اور آخرت کے بیچ بند آنکھوں کی یہ نیند  شاید سکون کا پہلا اور آخری لمحہ ہی توہے کہ مٹی   میں ملنے کے بعد جو آنکھ کھلتی ہےپھر شاید کبھی بند نہیں ہوتی۔
 منسلک بلاگ۔۔۔۔۔" آخری جھلک"۔
 بتاریخ۔۔نومبر 12۔۔2012


" انتساب سے کتبے تک"۔۔۔۔ سفر درسفر

اپنے احساسات اور خیالات کو لفظ میں پرونے کے بعد کسی بھی لکھاری کی دلی خواہش کتاب کی صورت اُنہیں عزت دینے اور محفوظ کرنے کی ہوتی ہے۔ کتاب کی اشاعت ہو تو اس کا انتساب بھی تحریر کیا جاتا ہے جو کہ سراسر لکھاری کی صوابدید پرہے کہ اپنی سوچ کو لفظ کا جامہ پہنانے اور پھر اسے سمیٹ کر مرتب کرتے ہوئے اپنی کتاب کےپہلےصفحے پر کیا درج کرتا ہے۔انتساب دراصل لکھاری کی طرف سے خراجِ عقیدت ہوا کرتا ہے کہ سوچ سفرکے اس لمحے میں وہ کس کو اپنے ساتھ محسوس کرتا ہے۔
ہم سب کی زندگی میں سب سے اہم ہماری اپنی زندگی کتاب کی بھی عجیب کہانی ہے جس کے آغاز کا انتساب ایک آفاقی سچائی ہے کہ یہ ہمارے ماں باپ کے نام ہے اس کے بعد تاعمر ہم اپنے مقدر کا لکھا پڑھتے چلے جاتے ہیں۔دنیا کی مختصر زندگی کے خاتمے پر جب کبھی نہ ختم ہونے والی زندگی شروع ہوتی ہے تو اس کا انتساب سب کے سامنے تحریر ہوتا ہے۔ اس کو "آخری جھلک" بھی کہا جائے تو بےجا نہ ہو گا۔
"آخری جھلک"
تعلیمی ادوار میں ہمیں جتنے بھی امتحانات سے گُزرنا پڑتا ہے اُن سب کا طریقِ کارایک سا ہے۔پہلا سوال لازمی ہوتا ہے۔۔۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ سبجیکٹیو اور اوبجیکٹیومیں تقسیم کر دیا جاتا ہے۔۔۔ ایک پرچہ پہلے بیس منٹ میں حل کر کے دینا پڑتا ہے۔۔۔ کمرۂ امتحان میں موجود ممتحن حضرات اگر چاہیں تو اس کو پڑھ کردینے والے کی قابلیت جانچ سکتے ہیں۔ اگرچہ اس کا دینے والے کو کوئی فائدہ یا نقصان نہیں ہوتا۔۔۔ نہ اس بات سے اس کے پرچے پر کوئی اثر پڑتا ہے۔۔۔کوئی یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ پرچے کے پہلے  حصے میں  پورے نمبر لینے والا دوسرے حصے میں بھی اوّل آئے گا۔ بےشک جس کی تیاری بھرپورہو یقیناً وہ دونوں میں ٹاپ کر سکتا ہےلیکن یہ انسانی ذہن ہی ہےکہ وہ اُس مختصر وقت میں اُن سوالوں کو کس طرح جانچتا ہے جس میں ایک بار لکھنے کے بعد مٹانے کی بھی اجازت نہیں۔الغرض صرف اندازہ تو لگایا جا سکتا ہے لیکن اصل نتیجہ پورا پرچہ حل کر کے ہی سامنے آتا ہے جو کہ صرف لینے والا اور دینے والا ہی جانتا ہے۔ بعض اوقات پہلے پرچے میں کم نمبر لینے والا دوسرے حصے میں اتنے نمبر لے لیتا ہے کہ اچھے طریقے سے پاس ہو جاتا ہے۔
زندگی کے پرچے کو حل کرتے ہوئے بھی ہمیں بالکل اِسی صورتِحال سے گُزرنا پڑتا ہے۔ اس پرچے کے مخصوص سوالات ہوتے ہیں۔۔۔ اُن کے جوابات بھی نوٹس کے ساتھ بتا دیئے جاتے ہیں اورتیاری کا وقت ہماری نظرمیں لامحدود ہوتا ہے۔۔۔ اس لیے ہم ریلیکس کرجاتے ہیں۔۔۔ صرف یہ یاد رکھتے ہیں کہ امتحان ہو گا۔۔۔ یہ سوچتے ہیں کہ یہ تو بُہت آسان ہے۔۔۔ اس لیے اس کی تیاری کی کوئی ضرورت نہیں، بس آخر میں جلدی جلدی سب کُچھ دیکھ لیں گے۔۔۔ ابھی ہم نے اس سے مُشکل امتحان دینے ہیں۔۔۔ اُن کی توتیاری کر لیں۔۔۔ اُس امتحان کا لینے والا غفورالرّحٰیم ہے۔۔۔ لیکن یہاں کے امتحان میں ذرّہ برابر بھی کمی رہ گئی توجینا محال ہو گا۔
ایک جیتے جاگتے انسان کا ہمیشہ کے لیے آنکھیں بند کر لینا ہمارے اُس آخری امتحان کا ایسا پہلا سوال ہے جو سب کے سامنے عیاں ہو جاتا ہے۔ہمیں ایسا عُنوان مل جاتا ہے کہ ہم یہ سوچتے ہیں کہ ہم نے نفسِ مضمون بھانپ لیا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں جس کا پہلا مرحلہ اچھا طے ہو گیا اس کے آگے کے بھی مراحل آسان ہوجائیں گے۔ دوسرے یہ دُنیا کے سامنے ہماری آخری رونمائی ہوتی ہے۔ہم تمام عمراس جدوجہد میں لگے رہتے ہیں کہ دُنیا ہمیں اچھاسمجھے۔۔۔ اگرہم اس کوشش میں ناکام بھی رہیں پھربھی چاہتے ہیں کہ کم از کم مرتے وقت ہی دُنیا ہمیں اچھا جان لے۔یہ عین حقیقت بھی ہےکہ ہم اللہ سے دُعا میں بھی یہی  مانگتے ہیں کہ ہمیں عزت کی زندگی اورعزت کی موت عطا فرما۔
موت تو وہ عمل ہےجس سے ہر ذی روح نے گُزرنا ہے۔ یہ حیات ِفانی سے حیاتِ ابدی کے سفر کی پہلی منزل ہے۔۔۔ پہلا دروازہ ہے۔ اگر اس میں سے سر اُٹھا کر گُزر گئے تو یقیناً آگے آسانی ہی ہو گی۔ یہ ہمارا گُمان ہے۔ اور اللہ کی طرف اچھا گُمان ہی رکھنا چاہیے۔ اس گُمان کو انسانوں پر اپلائی کرنے سے بچنا ہے۔۔۔ ورنہ ہم شدید قسم کے مغالطے کا شکار ہو جائیں گے۔۔۔ ہمیں کسی کے قدموں کے نشان پر نہیں چلنا۔ہمیں صرف یہ دیکھنا ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں ؟ہم نے کہاں جانا ہے؟ اور ہمارے لیے کون سی منزل کافی ہے؟۔
اصل امتحان وہی ہے جو آخری سانس کی کہانی ہے۔ اللہ سب کو ہر امتحان میں ثابت قدم رکھے۔

جمعرات, فروری 27, 2020

"امی کا خط"

 " کسی نے کیا  خوب کہا تھا کہ "پرانے خطوں کو پڑھنے میں اس لیے مزا آتا ہے کہ اُن کا جواب نہیں دینا پڑتا "۔لیکن   ہم نہیں جانتے تھے کہ آنے والے دور میں لفظ "خط" ہی معدوم ہو کر رہ جائے گا۔ ایک دور تھا کہ  جب دور دیس میں   بسنے والے اپنے پیاروں  سے ربطِ باہمی کا سب سے خوبصورت ذریعہ  خط لکھنا  اور   قیمتی تحفہ خط پڑھنا  ہوا کرتا تھا۔  اپنی امی کے انتقال کے آٹھ برس بعد  ملنے والے بوسیدہ  ہوتے کاغذ میں مدہم مِٹتے حروف آج اس لمحے اپنی پوری تازگی کے ساتھ سانس لیتے ہیں اور ہماری آنکھوں کو اُن کی محبت سے نم کرتے ہیں ۔بنا کسی کانٹ ٖٖچھانٹ کے لفظوں کا یہ صدقۂ جاریہ اپنے بلاگ کی صورت میں محفوظ کرتی ہوں کہ  اپنی نوبیاہتا بیٹی  کو لکھا گیا یہ خط محض ذاتی  حال احوال ہی نہیں بلکہ نئی زندگی کا آغاز کرنے والی ہر لڑکی کے لیے  ایک رہنمائی  ہے تو اس کے لفظ لفظ میں ماں کی اپنی بیٹی سے  بےلوث محبت کی  مہک بھی۔اس کے ساتھ ساتھ  اٹھائیس سال پرانے اس خط میں اس دور کے خاندانی  نظام  کی جھلک بھی  ملتی ہے جب سب  کے پاس ایک دوسرے کے ساتھ گزارنے کے لیے وقت ہوتا تھا اور ظرف بھی۔ 
(نورین تبسم)
۔۔۔۔۔۔
92۔10۔2
اسلام آباد
پیاری ہردلعزیزبیٹی عالیہ بشیر ہمیشہ خوش وخرم رہو
السلام علیکم
نیک تمناؤں اور پُرخلوص دعاؤں کے ساتھ نامہ یادآوری ارسال کر رہی ہوں۔اللہ تعالیٰ سے دعاگو  ہوں کہ تمہارا زندگی کا سفر ہمراہ شریکِ سفرپُرسکون اور باہمی تعاون اور اُلفتوں کے سائے میں بسر ہو اور اُمید کرتی ہوں کہ تم ایک باشعور اور سمجھدار لڑکی کے کردار میں اعلیٰ ظرفی،وسعتِ قلبی اور جذبہ پیارومحبت ، ہمدردی  اور خلوص  کے جذبوں  سے اپنےآپ کو مزین کرسکو تاکہ تمہارے افعال وکردارسےتمہارے اہلِ خانہ کے دلوں میں تمہاری قدر محبت خلوص گھر کر جائے۔ اللہ کا شکر ہے  کہ  اُ س نے تم کواچھا گھر،قدردان لوگ،پُرسکون ماحول اور پُرفضا وادی عطا کی ہے۔اب تم اپنی ذات کی اعلیٰ ترین صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر اپنے گھر کو خوشیوںِ  مسرتوں کا گہوارہ بنا سکتی ہو۔زندگی کی اعلیٰ ترین معراج گھر کا ماحول اور باہمی پیارومحبت ہوتا ہے۔امید ہے تم اپنے تمام دینی دُنیاوی معاملات خوش اسلوبی سے   ادا کرتی ہو گی۔ انہی الفاظ میں ہم دونوں (ماں باپ ) کی خوشی پنہاں ہے۔
اب جناب تمہارے خط  کے جواب کی طرف آتی ہوں ۔تم سوچنے  لگی ہو گی کہ امی کیا فلسفہ  لے کر بیٹھ گئی ہیں لیکن پیاری بیٹی یہ ہر ماں باپ کے دل کی آواز  ہوتی ہے ۔تمہارا خط جمعرات  دس بجے دن ملا ۔میں نے اُس  دن ربیع الاول کے حوالے سے میلاد کا پروگرام رکھا تھا۔خاندان کے  سب ہی لوگ مدعو تھے کیونکہ جمعرات  کو ہی اسلام آباد میں  تبلیغی اجتماع  تھا ،اس لیے میں نے سوچا  چلو ایک  پنتھ دوکاج ہو جائیں گے ۔مرد تبلیغ  میں شرکت  کریں گے اور  خواتین  پیارے پیغمبر  ﷺ کی  محفل سجا لیں گی۔تو جناب  ہمارا پہلا مہمان  روبی  تھی ۔وہ صبح   آٹھ بجے  آ گئی تھی ۔اُس کا خیال تھا کہ آنٹی  کی کچن کے کام  کی مدد ہو جائے گی۔میں اور ثمرین،تانیہ مل کر گھر کے سامان  میں ردوبدل کر رہے تھے کہ تمہارا خط آ گیا۔تمام کام چھوڑ کر  سب تمہارے  خط کو پڑھنے میں  لگ گئے۔بڑے ذوق و شوق  سے تمہاری لفظی ملاقات ہوئی ۔پھر تو تمہارا خط سب مہمانوں کے لیے موضوع بن گیا۔تقریباً تمام اہلِ خانہ نے فرداً فرداً    وہ   خط پڑھا اور سب لوگ خوش ہوئے۔ابو تمہارا خط گاڑی میں  لے گئے کہ  میں آرام سے پڑھوں  گا ۔اورہاں اہم بات یہ تھی کہ  بشیراحمد  کا خط گو کہ مختصر تھا لیکن لاجواب ،بہترین لفظوں کا  خزینہ تھا۔پڑھ کر طبیعت باغ باغ ہو گئی اور اُس کی حالت بھی ایسے صحیفہ کی بن گئی کہ جیسے کسی نے پہلی دفعہ ایسا نسخۂ کیمیا دیکھا ہو۔میری اور ڈاکٹرصاحب کی طرف سے  بہت بہت شکریہ ادا کر دینا کہ جن لفظوں سے انہوں نے یاد کیا  ہے۔ اللہ تعالیٰ اس خلوص کو قائم ودائم رکھے آمین۔
تو جناب یہ محفلِ میلاد کافی پُررونق رہی۔تقریباً 45خواتین نے  شرکت کی اور بچے تو  تم کوپتہ ہی ہے کہ اس کے علاوہ ہوتے ہیں ۔تمہاری اور نورین کی کمی کو لوگوں نے بہت محسوس کیا اور سب نے تم دونوں کویاد کیا اورتمہارے ماش کی دال کے بڑے ،گلابی چائے کا بہت ذکر ہوا،میں نے قیمہ سموسے اور بالوشاہی آڈر پر بنوائی تھی،باقی بسکٹ،دہی پھلکیاں ،چنے نرم والے بنائے تھے۔بالوشاہی محفل کے ختم ہونے پر لفافوں میں ڈال کر لوگوں کو جاتے ہوئے دی تھی۔رات کو تقریباً دو ڈھائی بجے تک  گھر کے لوگ جاگتے رہے،گھر کے باہر بیڈمنٹن کا  کورٹ لگا تھا،بڑا بلب لگا کر سب کھیلتے رہے۔یامین،سلیم ،فہیم صوفی بڑے چمپئین تھے۔لڑکیاں پکڑن پکڑائی کھیلتی رہیں اور تمام آنٹیوں نے اپنی مخصوص  گپ شپ  کی،اُس دن طویل دورانیہ کا ڈرامہ تھا،اس لیے کچھ لوگ اس  کو دیکھنے میں محو  ہو گئے،کچھ لوگ  خراٹے لیتے رہےاور محوِخواب  ہوگئے۔ رات کو  چائے کی محفل  چلی ۔اور سب لڑکے سونےکے لیے اجتماع کےکیمپ میں چلے گئےکیونکہ فیاض بھائی کی تاکید تھی کہ رات  گھر پر کسی نے نہیں سونا ہے۔ابو دیر سے آئےاور سب کو دیکھ کر حسبِ عادت بہت خوش ہوئے اور پھر نہانےکھانے کے بعد ابو آرام کرنے لگے اور صبح تقریباً  4 بجے ابو اجتماع میں چلے گئے۔ آٹھ بجے حلوہ گرم گرم لے کر آئے اور سب کو  شور کر کے اُٹھا یا کہ حلوہ گرم ہے حلوہ گرم ہے۔ناشتے کے بعدتقریباً  دس بجے  لوگ  شاردا آنٹی (خالہ) کے گھر چلے گئے کیونکہ دوپہر کا کھانا انہوں نے بنانا تھا۔ابو نے اپنا تمام دن تبلیغ میں گزارا۔اور اس طرح تم لوگوں کے بغیر  یہ محفل ختم ہوگئی۔
اور سناؤ تمہاری طبیعت کیسی رہتی ہے۔تم نے یہی کہنا ہے کہ ٹھیک ہے۔اللہ تعالیٰ ٹھیک ہی رکھے ۔اور ہماری بہن  کا کیا حال ہے،اُن کی طبیعت اب پہلے سے بہتر ہے،اُن کے آرام کا خیال رکھا کرو اور اُن سے خوش وخرم رہنےکے لیے کہا کرو۔اللہ سے دعا ہے کہ اُن کی صحت میں افاقہ کرےآمین۔ اور آپ کی پھوپھی صاحبہ کے مزاج کیسے ہیں ،اُن کے بچوں کو دعا کہنا اور اُن کی خدمت میں سلام عرض کرنا۔خالدہ کی طبیعت کیا خراب ہے  وہ سیلاب کے دنوںیں آ گئی تھیں لیکن ملاقات نہ ہوسکی۔ اُن کو بھی دعا سلام کہنا۔اور یہاں پر تمام حالات بدستور ہیں اور سب لوگ  خیریت سے ہیں۔ثمرین تانیہ کے سہ ماہی امتحان ہیں ،اس لیےوہ پڑھائی میں مصروف ہیں ۔اور تم گھر کے کام کی فکر نہ کیا کرو۔جب تک صحت تندرستی ساتھ دےگی،میں زندگی کے فرائض بخوبی ادا  کرتی رہوں گی ۔تم کبھی سوچتی ہو گی  کہ امی کام کرنے  میں کیوں دلچسپی لیتی  تھیں ،تو  بیٹا یہ  چیز شاہد ہے کہ بیٹی کی  ذمہ داریاں شادی کے بعد بڑھ جاتی ہیں۔اس لیے ماں کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ وہ گھر پر کم سے کم کام میں ہاتھ ڈالے۔لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہےکہ لڑکی بالکل نکھٹو اور کام چور  ہوجائے اور اُسے کچھ کرنا ہی نہ آئے۔یہ بھی مشکل مرحلہ ہوتا ہے،ثمرین کو بھی کوشش کررہی ہوں کہ کچن کے کام کی کچھ سوجھ بوجھ آ جائے۔تم تو ماشااللہ  ماسڑ ہو۔سب کام کر لیتی ہوں گی اور اچھی بات ہے ،کام کو ہمیشہ خوش دلی سے کرنا چاہیے۔اور سناؤ تم نے اپنا چیک اپ  کرایا ہے،اپنا وزن  ضرور کراتی رہنا۔خوراک میں اخروٹ اور دودھ کا استعمال  ضرور جاری رکھنا  اور موسم تو کافی تبدیل ہورہا ہے۔نورین کا فون ،خط آیا  ہے،وہ بھی کہتی ہے کہ موسم کافی سرد ہونے لگا ہے،تم کو بچے یاد کرتے ہیں،تمہارا خط بھی کل ملا ہے نورین کو۔ میں  یہ خط دیر سےپوسٹ کر رہی ہوں ۔اُمید ہے درگزر کرو گی۔ اور فیض اللہ الگ تم کو بہت یاد کرتا ہے۔اکثر ٹیلی فون گھماتا ہے کہ عالیہ آؤ۔میں اُس کو کہتی ہوں کہ تم عالیہ  سے لڑائی کرتے تھے  اس لیے وہ چلی گئی ہے۔ تو کان پکڑ کر بیٹھ جاتا ہے اور کافی اُداس ہوجاتا ہے۔ثمرین تانیہ سب تم کو یاد کرتے ہیں۔تانیہ تم سے بھابھی کا خطاب دینے پر ناراض ہے اور تم نے ہیپی برتھ ڈے بھی نہیں کہا۔تمہیں پتہ ہے کہ وہ اپنی سالگرہ کو بڑی اہمیت دیتی ہے ،باقاعدہ کیک کاٹا گیا اور ابو  کے ساتھ سالگرہ منائی۔ اچھا تمام لوگوں کو درجہ بدرجہ سلام ودعا۔امی کو بہت بہت سلام کہنا۔بشیراحمد کو  ڈھیرساری دعائیں ۔ابو کی طرف سے سب کو سلام ودعا۔
والسلام تمہاری امی





"کتبہ"

"کتبہ" جس طورانسانوں کی دنیا اور انسانوں کے ہجوم میں ہر آن اضافہ ہو رہا ہے تو اس طرح قبرستان بھی تیزی سے آبادہو رہے ہیں۔ گھر...