انتظار بھولنے والوں یا معاف کردینے والے قبیلے کے نہیں تھے۔گانٹھ باندھ کے رکھتے تھے اور اس گانٹھ کو یکدم تب کھولتے تھے، جب مدمقابل اپنے آپ کو برتر جان کر غافل ہوجاتا تھا۔ وہ بےخبری میں بےسرو ساماں مارا جاتا تھا۔ انتظار کے ہاتھوں پر بےخبری کے عالم میں مارے جانے والوں کے خون کے چھینٹے بہت تھے۔۔۔۔۔
مستنصر حسین تارڑ
یہ ان بیت چکے زمانوں کی داستان ہے، جب میں نے مذہبِ کاروبار اور عقیدہ معاش ترک کرکے صرف ادب کے صنم خانے کا طواف کرنے کا فیصلہ کرلیا کہ اگر زندگی کرنی ہے تو قلم کی مزدوری کی جتنی بھی اُجرت ہو، اس پر کرنی ہے۔ میڈیا کی قلیل آمدنی پر انحصار کرنا ہے چاہے، اس میں دو چار نہیں سیکڑوں سخت مقام آجاویں۔ بے شک ایک ڈبل روٹی خریدنے کے لیے بھی دام کم پڑ جاویں، کرنا بس یہی کتّا کام ہے اور میری بیگم نے بھی یہی کہا کہ بےشک اگر تم کاروبار کے جھمیلوں میں پڑے رہو ،تو زندگی آسانیوں اور آسائشوں میں گزرے گی، لیکن تم ہمیشہ ناخوش رہوگے، میں تمہیں خوش دیکھنا چاہتی ہوں، چاہے اس میں تنگی تُرشی کے دن آجائیں، میں شکایت نہیں کروں گی۔چنانچہ ایسے بہت دن آئے، لیکن ہم اپنے فیصلے پر پچھتائے نہیں۔ کٹتے ہیں دکھ میں یہ دن، بہت ایسے دن کاٹے۔ اور پھر یکدم غیب سے کچھ سامان ہونے لگے۔ دن پلٹنے اور سدھرنے لگے۔ ”التحریر“ کے خالد سیف اللہ کے توسط سے ضیاالاسلام انصاری نے مجھے اپنے اس زمانے کے مؤقر اخبار ”مشرق“ میں باقاعدگی سے کالم لکھنے کی پیش کش کردی۔ ازاں بعد سنگ میل کے نیاز احمد کا ظہور ہوا، جنھوں نے دھڑا دھڑ میری کتابوں کے درجنوں ایڈیشن فروخت کرکے رائلٹی سے مجھے لبریز کردیا۔ رہی سہی عُسرت اور غربت کی کسر ”صبح کی نشریات“ کی آٹھ برس کی مسلسل میزبانی نے نکال دی۔ لیکن بارش کا پہلا قطرہ جس نے میری بنجر کھیتی کو ہرا کردیا ”مشرق“ کی کالم نگاری تھی۔
ایبٹ روڈ پر گلستان سنیما کے عین سامنے روزنامہ ”مشرق“ کا دفتر واقع تھا اور شاید تیسری پر واقع تھا۔ اس منزل تک پہنچنے کی خاطر سیڑھیاں چڑھتے، دھیمی مسکراہٹ والے، مجھ سے کبھی کلام کرتے اکثر نہ کرتے، ایک بے اعتنائی اور غیریت اختیار کرتے۔ کسی قدر بے رنگ سے، انتظار حسین تھے۔ اور وہ ایسا کرسکتے تھے کہ میں تو ابھی ابھی چار پانچ ابتدائی کتابوں کے ڈنڈ پیل کر، اپنے بدن پر نوجوانی کی نوخیزی کا تیل مل کر اور دنیا ختم کرنے کی مٹی چھڑک کر ادب کے اکھاڑے میں داخل ہوا تھا، جب کہ وہ بہت سے رستم پاکستان، رستم ہند وغیرہ کو پچھاڑ کر اکھاڑے میں رانوں پر ہاتھ مارتے دیگر ادبی رستموں کو چیلنج کر رہے تھے۔ تو میں اکھاڑے کے ایک کونے میں دبک گیا۔
انتظار ان زمانوں میں ”لاہور نامہ“ لکھا کرتے تھے۔ان کے وہ کالم جو ادب سے متعلق ہوتے تھے ان میں ہجرت کے دکھ ہوتے تھے، کوچ کر جانے والے پرندوں کی باتیں ہوتی تھیں، جاتک کہانیاں اور نانی امّی کی سنائی ہوئی کہانیاں ہوتی تھیں۔ میرا جی، قیوم نظر، ناصر کاظمی، احمد مشتاق، سلیم شاہد، زاہد ڈار، ندرت فاطمہ، سہیل احمد خان، حنیف رامے، صلاح الدین شیخ، غالب احمد وغیرہ کے سوا اور کوئی کم ہی ہوتا تھا۔ وہ اپنی پہچان والے لوگوں کے تذکرے میں محدود رہتے تھے۔ وہ ترقی پسند مصنفین سے کسی حد تک الرجک تھے۔ چونکہ میں ترقی پسند مصنفین کا مداح اور پیروکار تھا، اس لیے میں بھی انتظار سے کچھ کچھ الرجک ہوگیا۔ مجھ میں ایک مخاصمت نے جنم لیا۔ میں تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ کوئی شخص ترقی پسندی کا مخالف ہو اور اس کے باوجود وہ ایک بڑا ادیب ہو۔
ان زمانوں میں انتظارحسین کا افسانوی مجموعہ ”کچھوے“ شایع ہوا اور ریڈیو پاکستان لاہور کے ایک ہفتہ وار پروگرام میں نئی کتابوں پر تبصرے کے لیے مجھے مقرر کیا گیا تھا۔ اور میں نہایت دل جمعی سے تبصرے اس لیے کرتا تھا کہ مجھے فی تبصرہ دو سو پچیس روپے کی خطیر رقم کا چیک عنایت کیا جاتا تھا۔ ورنہ میں کہاں کا دانا تھا۔ پرکھ پڑچول کا ماہر نقاد تھا۔ میں نے ”کچھوے“ پر تبصرہ کرتے ہوئے اپنی ذہنی بساط کی محدودگی میں کچھ توصیف تو کی، لیکن کچھ دل کی بھڑاس بھی نکالی اور کہا: ”کچھوے“ کے افسانوں کو ایک مدت اس لیے بھی یاد رکھا جائے گا کہ یہ اسم بامسمیٰ ہیں، کچھوے کی چال چلتے ہیں۔
دو چار ہفتوں کے بعد میں حسب معمول اپنا کالم نذیرحق کی میز پر رکھنے کے لیے سیڑھیاں طے کر رہا تھا، تو کیا دیکھتا ہوں کہ انتظار مجھ سے آگے پھونک پھونک کر قدم رکھتے ہولے ہولے چڑھ رہے ہیں تو میں نے کہا انتظار صاحب!۔
انھوں نے رک کر سانس بحال کیا اور مڑ کر دیکھا۔ اتنی آہستگی کیوں اختیار کر رکھی ہے۔ تو وہ مسکرا دیے۔ انتظار کی مسکراہٹ، قدرے جھینپی ہوئی، کہیں کہیں شرارت کا ایک شرارہ پھوٹتا ہوا۔ علم بشریات کا کوئی بڑے سے بڑا ماہر پرکھ نہیں سکتا تھا اس مسکراہٹ کا بھید کیا ہے۔ وہ آپ کو پسند کرتے ہیں یا شدید ناپسند کرتے ہیں۔ آپ بیٹھے رہیے انتظار کی مسکراہٹ کی گتھیاں سلجھانے کے لیے۔ مسکراہٹ کے گھونگھٹ کے پیچھے کیا ہے۔ کبھی نہ جان پائیں گے۔تو میرے سوال پر وہ مسکرا دیے اور کہنے لگے :”بھئی! ہم تو کچھوے ہیں، بس یہی چال چلتے ہیں“۔
میں تو سناٹے میں آگیا۔ فالج زدہ سا ہوگیا، مجھے کیا معلوم تھا کہ وہ ریڈیو کے ادبی تبصرے اتنی باقاعدگی اور دھیان سے سنتے ہیں۔
انتظار بھولنے والوں یا معاف کردینے والے قبیلے کے نہیں تھے۔ گانٹھ باندھ کے رکھتے تھے اور اس گانٹھ کو یکدم تب کھولتے تھے، جب مدمقابل اپنے آپ کو برتر جان کر غافل ہوجاتا تھا۔ وہ بے خبری میں بے سرو ساماں مارا جاتا تھا۔ انتظار کے ہاتھوں پر بے خبری کے عالم میں مارے جانے والوں کے خون کے چھینٹے بہت تھے۔
ازاں بعد انتظار صاحب نے تو چھیڑ خوباں سے چلی جائے والا رویہ اپنالیا۔ ہم دونوں کسی ادبی تقریب سے باہر آرہے ہیں یا پھر کشور کے گھر سے نکل رہے ہیں تو انتظار کہتے: ”پہلے آپ....!ہم تو کچھوے ہیں، ذرا دھیرے دھیرے چلے آئیں گے۔“
۔”نکلے تری تلاش میں“ کا جب صادقین کا تصویر کردہ ایڈیشن شایع ہوا تو انتظار نے ”لاہور نامہ“ اس کی توصیف میں لبریز کردیا۔ ”کچھوے“ کے تبصرے کو فراموش کرکے مجھے اپنی شاباشی سے نواز کر بہت شرمندہ کیا۔ اگرچہ بعدازاں وہ میری تحریروں سے بظاہر غافل ہوگئے، اپنے کالموں میں قدرے احتیاط کرنے لگے، لیکن وہ ”راکھ“ کی اس تقریب میں خصوصی طور پر شریک ہوتے جہاں میرے ناول کے بارے میں صفدر میر، احمد ندیم قاسمی، سہیل احمد خان اور احمد بشیر نے اظہار خیال کیا۔ مجھ سے کچھ کوتاہی ہوگئی۔ میں نے انتظار صاحب سے اس محفل میں شریک ہونے اور مضمون پڑھنے کی درخواست نہ کی۔ صرف اس لیے کہ میں جھجکتا تھا کہ کہیں وہ انکار نہ کردیں،ورنہ انتظار کی تحریر سے معتبرہونے سے کون کمبخت انکار کرسکتا ہے۔ ویسے دبے لفظوں میں انھوں نے شکایت کردی۔ انھوں نے اپنے انگریزی کالم میں اس تقریب کو اور ”راکھ“ کو بہت سراہا۔ اگرچہ مجھے خفیف سا شک ہے کہ انھوں نے میرا ناول پڑھا نہیں تھا۔ انھیں ضخیم ناولوں سے یوں بھی وحشت ہوتی تھی۔ بےشک وہ مجھ سے بہت غافل ہوتے لیکن ایسا تو کم ہی ہوا ہوگا کہ میرا کوئی نیا ناول شایع ہو اور اس کی پہلی کاپی میں نے انتظار صاحب کی خدمت میں پیش نہ کی ہو۔ اور ایسا تو کبھی نہ ہوا کہ میں نے بعدازاں ان سے دریافت کیا ہو کہ انتظار صاحب! آپ نے میرا ناول پڑھا۔ اگر میں دریافت کر ہی لیتا تو یقینا اس قبیل کا جواب آتا کہ بھئی! میں نے دس بیس ورق اُلٹے ہوں گے کہ زاہد ڈار لے گیا،مسعود اشعر کے ہاں پڑا ہوگا، واپس کریں گے تو پڑھیں گے، کیوں نہیں پڑھیں گے، آخر تم ایک بیسٹ سیلر ہو۔
انتظار صاحب نے مجھے بیسٹ سیلر ہونے پر بھی کبھی معاف نہ کیا۔
جب سنگ میل والوں نے مختلف مہان ادیبوں کے شان اور شکل والے مجموعے شایع کرنے شروع کردیے، راجندر سنگھ بیدی، قرة العین حیدر، سعادت حسن منٹو، عبداللہ حسین، اشفاق احمد اور انتظار حسین تو یہ مجموعے دھڑا دھڑ مقبول ہوتے چلے گئے۔ تو نیاز احمد کے ایک یادگار لاہوری ناشتے کے دوران انھوں نے انتظار صاحب سے مخاطب ہوکر کہا۔ ”آپ کے مجموعے کا ایک نیا ایڈیشن آرہا ہے۔ آپ کی بہت مانگ ہے!“ تو میں تو بھرا بیٹھا تھا۔ میں نے کہا۔” انتظار صاحب! آخر آپ بھی تو ایک بیسٹ سیلر ہوگئے ہیں۔ یہ تو اچھی خبر نہیں ہے۔“
انھوں نے کچھ کہا نہیں، بس مسکراتے چلے گئے۔
انتظار کو میں نے تقریباً نصف صدی کی ادبی مسافتوں کے دوران ہر رنگ میں دیکھا۔ یہاں تک کہ جب ان کے بال اگرچہ تب بھی چھدرے تھے، تب بھی دیکھا۔ اس ناقابل فہم اور بھید بھری مسکراہٹ کے ساتھ مسلسل دیکھا، اکثر کشور کے ہاں، کبھی جمیلہ ہاشمی، شیخ منظور الٰہی، حجاب امتیاز علی، نثار عزیز بٹ کے ہاں اور بہت اکثر ٹی ہاؤس میں۔
وہ لاہور میں ایک مسلسل موجودگی تھے۔ کبھی کسی ادبی محفل یا گھریلو اکٹھ میں غیر حاضر نہ ہوتے۔ کسی عشق کے مارے اور اجاڑے ہوئے نے کہا تھا کہ کبھی کبھار کی یہ لُک چھپ ملاقاتیں، عشق کا مداوا تو نہیں ہیں۔ دن رات کی مسلسل رفاقت اور موجودگی ہی عشق کی تسلی اور تکمیل ہوتی ہے۔ چنانچہ انتظار صاحب ایک تسلی اور ایک تکمیل تھے۔ اگر وہ کسی محفل میں نہ ہوتے تو ایک اجاڑپن کا احساس ہوتا۔
تو جو نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے
یہ مانا کہ محفل جواں ہے حسیں ہے
اور وہ ہمیشہ عالیہ بیگم کے ہمراہ ہوتے، شاذ ہی اکیلے آتے۔ اور عالیہ بہت سادہ، معمولی پیراہنوں میں ملبوس ایک معمولی شکل کی خاتون تھیں۔ لیکن نہایت پُر اعتماد اور ٹھسّے سے چلتی ہوئی ، محفل میں داخل ہونے والی خاتون تھیں۔ انتظار کی زندگی میں یہ طے ہے کہ وہ واحد خاتون تھیں۔ صرف وہ تھیں جن کی جانب دیکھ کر جب انتظار مسکراتے تھے تو اس مسکراہٹ میں کچھ بھید نہ ہوتا تھا۔ اُلفت، شکر گزاری اور ایک بدھ بھکشو ایسی فرمانبرداری والی محبت کی الوہی پرچھائیاں ہوتی تھیں۔ میں بھی تو کسی حد تک ایک جہاں دیدہ شخص ہوں، حیات کے کٹھن راستوں پر مسافر تو ہوا ہوں، اتنا تو جانتا ہوں کہ کہاں، کسی ایک فرد پر، کون سی محرومی کے سبب اس پر کیا گزرتا ہے۔ اس ایک محرومی کے سبب اس کی شخصیت کیسے کیسے دکھوں کو سہتی کچھ بگڑ سی جاتی ہے۔ اولاد نہ ہو تو اکثر میاں بیوی کے درمیان شک شبے کی ایک دیوار حائل ہوجاتی ہے۔ اولاد ایک دوسرے سے کچھ چاہت نہ رکھنے والے میاں بیوی کو بھی سریش کی مانند جوڑ دیتی ہے۔ اگرچہ بقول وارث شاہ....درویش اس دنیا سے جڑ نہیں سکتا کہ پتھر کو ُسریش یا گوند سے جوڑنا ناممکن ہے ۔ لیکن آپس میں کچھ ربط نہ رکھنے والے میاں بیوی کو اولاد ایک گوند کی مانند جوڑ دیتی ہے۔ کس کا دوش ہے کس کا نہیں۔ اکثر بے اولاد جوڑے ایک مجبوری اور مغائرت کی حالت میں حیات گزار دیتے ہیں، لیکن کبھی کبھیبہت کم کم یہی محرومی ان دونوں کو یوں جوڑ دیتی ہے کہ انھیں سوائے ایک دوسرے کے اور کچھ نظر نہیں آتا۔ محرومی سے جنم لینے والے ایک عجب حیرت بھرے عشق میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ عالیہ اور انتظار کو جب ہم باہر دیکھتے تھے تو ان کی جڑت پر ہمیں رشک آتا تھا۔
تو کیا واقعی عالیہ ان کی زندگی میں پہلی اور آخری عورت تھی؟
ویسے افواہوں پر دھیان نہ کرنا چاہیے۔ ہواؤں میں ،اور وہ بھی گزر چکے ایام کی سسکیاں بھرتی ہواؤں میں جو سرگوشیاں ہوتی ہیں ان پر کان نہ دھرنا چاہیے کہ ان افواہوں اور سرگوشیوں میں کہیں نہ کہیں کچھ حقیقت ہوتی ہے۔ داستانیں یوں ہی جنم نہیں لیتیں۔ ہومر کاٹرائے کہیں نہ کہیں موجود ہوتا ہے۔ ہنرخ سلمان یقین رکھتا ہے کہ سب قصے کہانیوں اور داستانوں میں کہیں نہ کہیں کوئی حقیقت پوشیدہ ہوتی ہے جو دریافت کی منتظر ہوتی ہے۔ چنانچہ وہ ہومر کی داستانوں میں بیان کردہ سمندری خزانوں اور ہیلن کے شہر ٹرائے کو ترکی میں دریافت کرلیتا ہے۔ چنانچہ انتظار کی داستانوں میں جو سرگوشیاں سنائی دیتی ہیں، ان میں حقیقت کا پرتو ہے کہ نہیں۔ انتظار مائل تھے، خواہش رکھتے تھے، ایک افسانوی قربت کے تمنائی تو تھے۔ انتظار کے پہلے اور آخری عشق کی داستاں اب تو اصحاب کہف کی غار میں خوابیدہ ہوچکی۔
ویسے قرة العین حیدر اور انتظار حسین شاید دنیا بھر کے بڑے ادیبوں میں اس لحاظ سے حیرت ناک طور پر منفرد ہیں کہ دونوں کی تحریروں میں جنسی قربت یا صنف مخالف کی کشش کا کہیں کچھ اعتراف نہیں۔ عینی آپا ”کار جہاں دراز ہے“ میں اپنی حیات کے دیوان کے دیوان لکھ گئیں لیکن مجال ہے کہ ایک اقرار ہو کہ میں نے فلاں شخص کو دیکھا تو میرے دل کی دھڑکن میں ایک لمحے کے لیے خلل آگیا۔ بے شک اور بجا طور پر ان کے حسن اور تخلیقی عجوبہ روزگار دانش کے چرچے رہتے۔ایک زمانہ ان پر جان چھڑکتا، لٹو ہوا جاتا تھا ،ان کا حسن اور تخلیق کا تکبر اپنی جگہ لیکن وہ ایک عورت تھیں، بےشک لٹو نہ ہوئیں پر کبھی نہ کبھی تو وہ کسی کو دیکھ کر بے شک ایک لمحے کے لیے ہی سہی، تھوڑی سی گھوم تو گئی ہوں گی۔ انھوں نے کبھی اقرار نہ کیا۔ شفیق الرحمن کے ساتھ لندن میں جو ملاقاتیں رہیں، ان کا کبھی تذکرہ نہ کیا۔
اور ادھر انتظار صاحب تھے، عورت کے وجود اور اس کے بدن کی کشش سے یکسر غافل۔ مجھے ان دونوں سے بس یہی شکایتیں ہیں۔ وہ دونوں میرے نزدیک جنس کے تذکرے کے بغیر بے شک مہان ادیب ہیں لیکن نامکمل ادیب ہیں۔ان زمانوں میں یہ صرف ڈاکٹر انور سجاد تھا جو انتظار سے بھڑتا رہتا تھا۔ وہ آج بھی کہیں زندہ ہے، ناتواں ہوچکا، نہ اپنے آپ کو اور نہ کسی دوست کو پہچانتا ہے، ڈراما نگار، اداکار، رقاص، اردو میں گنجلک انداز کی جدید افسانوی روایت کا بانی جس کی پیروی بہت لوگوں نے کی۔ یہ وہ زمانے تھے جب وہ ایک اداکار اور ڈراما نگار کے طور پر پاکستان ٹیلی ویژن پر راج کیا کرتا تھا۔ میں نے اس کے تحریر کردہ سیریل ”سورج کو ذرا دیکھ“ میں ایک وِلن کے طور پر اداکاری کے میدان میں شہرت حاصل کی اور اس نے بھی میرے لکھے ہوئے متعدد ڈراموں میں مو ¿ثر اداکاری کی۔
وہ ادب کا ایک نپولین،ٹی ہاؤس میں داخل ہوتا، انتظار، داخلے کی پہلی میز کی کھڑکی کے ساتھ اپنے حواریوں کے ساتھ براجمان ہوتے۔ سلیم شاہد، سہیل احمد خان، زاہد ڈار، یوسف کامران، سگریٹ پھونکتی ندرت، الطاف قریشی،مسعود اشعر، اور وہ ٹی ہاؤس میں داخل ہوتے ہی انتظار سے مخاطب ہوجاتا ۔ اپنے ہونٹ سکیڑتے ہوئے کہتا ”کیوں انتظار! تمہاری نانی اماں نے پچھلی شب تمھیں کوئی نئی کہانی سنائی ہے جسے تم ایک افسانے کا روپ دوگے۔ جاتک کہانیوں میں سے کس کہانی کے بارے میں ایک دقیانوسی تحریر لکھوگے۔ بے شک آئندہ زمانوں میں تمہیں تمھاری زبان کے حوالے سے نصابوں میں یاد رکھا جائے گا، لیکن ایک ادیب کی حیثیت سے نہیں۔ انتظار! جاگ جا ؤ، زمانہ قیامت کی چال چل گیا، تمہیں کچھ خبر نہیں کہ افسانہ کیا سے کیا ہوگیا ہے، نانی جان مر چکیں۔“
انتظار مسکراتا رہتا، اکثر چپ رہتا۔
پھر ایک بار بولا: ”انور سجاد! میں نے تازہ ’فنون‘ میں تمہاری کہانی ’الف سے ےے تک‘ پڑھی ہے اور وہ الف سے یے تک مجھے سمجھ میں نہیں آئی۔“
انور سجاد اور انتظار کی چہلیں چلتی رہتیں۔نہ انور نے انتظار کی تحریروں کو قبول کیا اور نہ ہی انتظار نے انور کے شاہکار ناولٹ ”خوشیوں کا باغ“ کو سراہا۔
ہم دونوں سراسر مختلف مزاج اور جدا ثقافتوں سے پیوستہ شخص تھے۔ وہ یا تو انگریزی لباس زیب تن کرتے، سوٹ اور ٹائی باندھے رہتے یا پھر کھڑا پاجامہ اور کُرتا پہنتے۔ اور میں کبھی کبھار ہی سوٹ وغیرہ پہننے کا تردّد کرتا کہ انگلستان میں طویل قیام کے دوران یہی پیراہن اوڑھے رہا اور بیزار ہوگیا۔ ان دنوں یا تو میں نیلی جین اور کسی شوخ رنگ کی قیمص پہنتا یا پھر شلوار قیمص میں مسلسل قیام کرتا۔ میں نے بہت درپردہ خواہش کی کہ کبھی تو انتظار شلوار قمیص پہنیں۔ یقین کیجیے کہ وہ اس پہناوے میں بےحد بانکا لگتا۔ یہ لباس اس پر سجتا۔ لیکن وہ اپنی گنگا جمنی ثقافت میں حنوط ہوچکا تھا۔ جیسے میں پنجاب کی روایت میں آرام دہ اور پرسکون محسوس کرتا تھا۔ بے شک میں اس کے ذوق جمال، حسِ مزاح اور فقرے کی انوکھی ساخت کا شیدائی تھا لیکن ہم میں اگر کچھ مشترک تھا تو وہ پرندے تھے۔ یہ پرندے تھے جو ہمیں باہم کرتے تھے۔
کوئی ایک شام حسب معمول کشور کے گھر میں، اور یقین کیجیے لاہور میں ان زمانوں میں کوئی شام اترتی تھی تو صرف کشور کے اقبال ٹاؤن والے گھر میں یوں اترتی تھی کہ چھن چھن کرتی تھی۔ ساجن کی گلیوں میں سے گزرنے والی ڈرچی کی جھانجھروں کی چھن چھن کے ساتھ اترتی تھی۔ اس لیے بھی کہ اکثر میری فرمائش پر اقبال بانو موسیقی کے بغیر ”پائل میں گیت ہیں چھم چھم کے“ گانے لگتیں۔ آپا حجاب امتیاز علی اپنی وِگ پر کب سے براجمان مکھی سے بے خبر اپنی ایک اور زرنگار ساڑھی میں ملبوس مسکراتی رہتیں کہ انھیں سنائی کم ہی دیتا تھا۔ کوئی ایک چھم سنائی دے جاتی، دوسری چھم سنائی نہ دیتی۔ منو بھائی اور جاوید شاہین آپس میں ہکلاتے ہوئے ”گفتگو“ کر رہے ہوتے۔ کشور کے گھر میں جو رونقیں ہوا کرتی تھیں ان کا تفصیلی تذکرہ میں نے ”لاہور آوارگی“ کے باب ”لاہور کے ادبی میلوں“ کے عنوان سے درج کردیا ہے۔ تو اس شام ہندوستان سے ایشیا کے سب سے بڑے اور مہنگے مصور مقبول فدا حسین آئے ہوئے تھے اور کشور کی ایک اوڑھنی پر اور وہ زرد نہ تھی، احمد فراز کو سامنے بٹھا کر اس کا پورٹریٹ بنا رہے تھے اور ہم دونوں لان میں بیٹھے کھانا لگنے کا انتظار کر رہے تھے۔ بہت دیر سے چپ بیٹھے تھے جب انتظار بولنے لگے: ”کیا واقعی اسلام آباد کے درختوں میں پرندے گھونسلے نہیں بناتے۔ سر شام راولپنڈی کو لوٹ جاتے ہیں؟“
میں ان وقتوں میں صبح کی نشریات کی میزبانی کے سلسلے میں اسلام آباد میں مقیم تھا۔ تقریباً دس بارہ برس میرا آنا جانا لگا رہا۔ وہاں جب شام ہوتی تو میرا دل گھبرانے لگتا۔ شام کے ساتھ ایک گہری اداسی اور بے برکتی اترتی۔ ایک بنجر پن اور روکھا پن اترتا۔ اور ہر شام میں دیکھتا کہ ہزاروں کی تعداد میں مختلف پرندے اسلام آباد کے بے روح آسمان پر اڑان کرتے وہاں سے ہجرت کرکے راولپنڈی کی جانب لوٹ رہے ہیں ہر شام دیکھتا۔ احمد داؤد اسلام آباد کا دانائے راز تھا۔ اس میں کوئی کہانی کار یا دوستوں کا دوست نہ ہوگا اس نے مجھے بتایا کہ تارڑ! اسلام آباد ایک مصنوعی شہر ہے، ایک ٹیسٹ ٹیوب بے بی ہے۔ جب اسے بسایا گیا تو اس کی ویران اور بے آب و گیاہ لینڈ اسکیپ کو ہریاول سے ڈھانکنے کی خاطر دوسرے ممالک سے جلدازجلد اگنے اور سایہ دار ہوجانے والے درختوں کے بیج درآمد کرکے انھیں ہیلی کاپٹروں کی مدد سے اس مردہ شہر کی زمین پر بکھیر دیا گیا۔ بے شک وہ شتابی سے قدآور اور گھنے ہوئے پر وہ یہاں کے نہیں تھے۔ ان کے پھولوں کی مہک نے لوگوں کو بیمار کردیا۔ موسم بہار میں ان اجنبی درختوں میں سے پولن کا زہر پھوٹتا ہے اور خلق خدا بیمار ہوجاتی ہے۔ تو پرندوں نے بھی انکار کردیا۔ اس بے روح شہر میں دانہ دُنکا تلاش کرو اور پھر یہاں سے فرار ہوجاؤ۔ اپنے آشیانوں کو لوٹ جاؤ۔ میں نے ”پرندوں کی واپسی“ کے عنوان سے ایک کالم لکھا۔
”جی انتظار صاحب!“
۔”کیا واقعی، کیا واقعی!“ انتظار بار بار کہتے تھے۔ ان کے چہرے پر ایک ایسے بچے کی جھینپی ہوئی مسکراہٹ تھی جو کسی گھونسلے سے چڑیا کا ایک بچہ اتار لایا ہے اور وہ اس کی مٹھی کی آغوش میں پھڑپھڑا رہا ہے۔
کشور کے گھر کے اندر جانے کیا کیا ادبی ہنگامے برپا ہو رہے تھے اور باہر لان میں اس شام ہم صرف پرندوں کے بارے میں باتیں کرتے رہے۔ وہ اپنی کتھا کہتے رہے اور میں عطارکے پرندوں کا تذکرہ کرتا رہا۔ پرندے ایک فلسفۂ وحدت الوجود میں پھڑپھڑاتے اڑان کرتے ہیں۔
بس اس شام یہی کچھ ہم پر اتراپرندے
انتظار حسین لارنس گارڈن کے شیدائی تھے۔
میں نے کسی تحریر میں اعتراف کیا کہ باغ جناح میں ایک گھنا شجر ہے جس کے بھیتر میں کوئی اجنبی پرندہ روپوش ہے اور میں ہر سویر اس سے باتیں کرتا ہوں۔ اس کی کوک کی نقل کرکے کوکتا ہوں اور وہ جواب میں کوکتا چلا جاتا ہے۔
انتظار میری اس تحریر سے حیرت اور انبساط سے بندھ گئے۔ کہنے لگے: ”تارڑ! کیا واقعی۔ وہ شجر ہے؟“
”ہے۔“
”مجھے اس شجر کا اتا پتا بتلاؤکہ کہاں ہے، اگر ہے تو؟“
تب میں نے اس شجر کے جغرافیے سے انھیں آگاہ کیا۔ قائد اعظم لائبریری بلکہ جم خانہ کلب کے دائیں جانب۔ ان دو ہیبت ناک درختوں کے جھنڈ سے ذرا ادھر جن کی شاخوں پر پتے کم ہیں اور چمگادڑیں زیادہ۔ وہاں وہ شجر ہے۔
۔”لیکن انتظار صاحب ! پرندے اپنے اپنے۔ اس شجر میں پوشیدہ پرندہ، میرا اپنا ذاتی پرندہ ہے۔ وہ آپ سے کلام نہیں کرے گا۔“
”پرندہ ہے بھی کہ نہیں؟“
۔”ویسے آپ کے افسانوں میں جتنے جانور بولیاں بولتے ہیں، ہنومان مہاراج لٹکتے پھرتے ہیں اور کتّے زرد ہوئے جاتے ہیں، تو وہ بھی ہیں کے نہیں؟“
انتظار کہنے لگے :”بہرطور کچھوے تو ہیں“۔
انڈیا انٹرنیشنل سینٹر، دلّی ادیبوں کی سارک کانفرنسہم دونوں برابر کے کمروں میں مقیم تھے۔ مجھے صبح کی سیر کی علت لاحق ہے، صد شکر کہ علت مشائخ لاحق نہیں ہے ،تو میں بے چین ہوجاتا تھا کہ کل صبح جوگرز پہن کر کدھر جاؤں گا، کدھر نکلوں گا، کہیں پاکستانی جاسوس ہونے کے الزام میں دھر نہ لیا جاؤں، تو میں نے انتظار سے رجوع کیا کہ ”حضور آپ تو ادھر آتے جاتے رہتے ہیں، آپ کی’ ٹیری ٹوریُو ‘ ہے تو کچھ راہ نمائی کیجیے کہ ادھر کوئی گلشن، کوئی سبزہ زار، کوئی گل و گلزار ہے جس کی سیر کے لیے میں نکل جاؤں۔“
تو انتظار کہنے لگے ”ہائیں آپ کیسے بےخبر ہیں، انڈیا انٹرنیشنل سینٹر دلّی کے سب سے پرفضا اور تاریخی باغ، لودھی گارڈن کے درمیان ایک جزیرہ ہے۔ دونوں نکل چلیں گے۔“
اگلی سویر انتظار مجھ سے پہلے اپنے کُرتے پاجامے میں نستعلیق تیار۔ اور میں شلوار قمیص اور جوگرز میں ملبوس۔ اور واقعی انڈیا انٹرنیشنل سینٹر کا ایک گیٹ کھولا تو لودھی گارڈن کے پتھریلے جہان میں داخل ہوگئے۔ قدیم پتھریلے ویران مقابر، کائی زدہ تالاب، مساجد اجڑی ہوئی، کسی قلعے کی سنگلاخ فصیل دھند میں سے یوں ظاہر ہوتی ہوئی جیسے ڈنمارک کے ہیلنسور قلعے کی قدیم فصیل جس پر ہیملٹ صاحب مٹرگشت کیا کرتے تھے اور فارغ اوقات میں ایک کھوپڑی کے ساتھ ”ٹو بی آر ناٹ ٹو بی“ کی بحث کیا کرتے تھے۔ لودھی گارڈن عجب سراب آمیز تصویراں تھا۔ فصیل کے پہلو میں سیکڑوں مرد و زن، بڑے بوڑھے، نوجوان اور نوخیز گھاس پر چٹائیاں بچھائے یوگا کی ورزشوں میں مشغول تھے اور ان کی یوگا ماسٹر ایک نوجوان مسلمان خاتون فاطمہ نام کی تھی۔
اگلی صبح فاطمہ سے اجازت حاصل کرکے میں بھی یوگا کرنے والوں کی صفوں میں شامل ہوگیا، اگرچہ پچھتایا بہت کہ ذرا سے جھکنے سے ہڈیاں کڑکڑانے لگتیں اور گھٹنوں میں سے ٹخ ٹخ کی آوازیں آنے لگتیں جو ٹخنوں تک چلی جاتیں۔ میں یہ عذاب اس لیے سہتا رہا کہ دشمن ملک ہے یہاں پسپائی اختیار کی تو وطن کی ناموس پر حرف آتا ہے۔ لال قلعے پر جھنڈا پھر کبھی لہرائیں گے فی الحال تو اس سر نگوں ہوتے بدن کو سر نگوں نہ ہونے دیا جائے۔ انتظار ایک فاصلے سے میری حالت زار سے لطف اندوز ہوتے نہایت کمینگی سے مسکراتے تھے، مسجد میں کہنے لگے: ”آپ کو یوگا سے کہاں اس یوگا ماسٹر خاتون سے دلچسپی ہوگی، ورنہ کاہے کو ان بکھیڑوں میں پڑتے۔“
انھوں نے اپنے کسی سفرنامے میں اس یوگا وقوعے کا تذکرہ اپنے انداز میں کیا اور زیب داستاں کے لیے کچھ بڑھا بھی دیا۔ جیسے آج ان کے بارے میں لکھتے ہوئے میں بھی تو کچھ بڑھاتا ہوں کہ ایک نثر نگار کا پیشہ ہی یہی ہوتا ہے کہ وہ جھوٹ کے ذریعے سچ کو آشکار کرے۔
انتظارمیری عورتوں سے بہت نالاں تھے۔
کہا جاتا ہے کہ انتظار کی تحریروں میں عام طور پر عورت ایک شجر ممنوعہ ہے۔ اگر عورت نہ ہوگی تو ناقابل فہم طور پر جنس نہ ہوگی۔ کچھ لذت نہ ہوگی اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان کی ایک کہانی میں جو عورت ہے تو وہ بھی ان کی اہلیہ عالیہ ہیں۔ اور بیوی عورت نہیں ہوتی۔ چنانچہ قابل فہم طور پر انتظار میری ان عورتوں سے بے حد نالاں تھے، جو نہ صرف میری تحریر میں در آتی ہیں بلکہ ادبی میلوں کے دوران میرے گرد ہجوم بھی کرلیتی ہیں۔
یہ نومولود فیصل آباد لٹریری فیسٹیول کا قصہ ہے کہ میں اپنے سیشن سے فارغ ہوکر ادیبوں کے لاؤنج میں چلا آیا اور کوئی درجن بھر بیشتر ادھیڑعمر خواتین میری کتابیں تھامے ان پر دستخط حاصل کرنے کے لیے پیچھے پیچھے چلی آئیں اور یہ معمول کی بات تھی۔ وہاں لاؤنج میں آگ اور پانی ساتھ ساتھ بیٹھے تھے یعنی انتظار حسین اور عبداللہ حسین باہم شیر و شکر ہو رہے تھے۔ تب انتظار نے ان خواتین کو دیکھ کر کہا :”لو جی، تارڑ کی گوپیاں چلی آرہی ہیں۔“
یہ اصطلاح عبداللہ کو بہت پسند آئی اور اس نے اپنا مخصوص سلسلہ وار قہقہہ لگا کر کہا: ”ہاں جی مگر اس عمر میں گوپیاں کارآمد ثابت نہیں ہوتیں۔“ بعدازاں جب کبھی کسی محفل میں کوئی بھی خاتون چاہے وہ ایک دادی اماں ہوں میری جانب بڑھتی تو عبداللہ کہتا :”لو جی، ایک اور گوپی۔“
انتظار سگریٹ نہ پیتے تھے۔ البتہ جب میں سلگانے سے پیشتر ان کی جانب پیکٹ بڑھاتا تو وہ ہمیشہ ایک سگریٹ کھینچ کر نہایت ابتدائی انداز میں اسے سلگاتے اور خواہ مخواہ پھونکتے رہتے، دھواں آنکھوں میں چلا جاتا تو انھیں مسلنے لگے۔ اور ہاں بقول غالب غالب چھٹی شراب مگر اب بھی کبھی کبھی ۔ تو انتظار بھی کبھی کبھی۔ بہ قدرِ اشکِ بلبل۔ وہ بھی کبھی کبھی!۔
پچھلے برس(2015)۔ یہی مہینے تھے، جون جولائی کے، میں نیشنل اسپتال کے ایک کمرے میں کچھ طویل آپریشنوں کے بعد درجن بھر ٹیوبوں میں پرویا ہوا، آکسیجن ماسک میں سے سانس لیتا ہوا، پڑا ہوں سلجوق اور عینی امریکا سے آچکے ہیں اور سمیر کے چہرے پر مایوسی ہے، میمونہ کچھ نہ کچھ پڑھتی مجھ پر پھونکتی ہے۔
میں چنگا بھلا تھا، ایک روز ایک سانس لیا تو دوسرا سانس آنے سے انکاری ہوگیا۔ سانس کی نالی میں کوئی اٹک آگئی۔ بہو نے 112 کو فون کردیا۔ سمیر تلاوت کرنے لگا اور مونا رونے لگی۔ سانس کا آخری گھنگھرو بسنے لگا اور پھر کوئی معجزہ ہوا اور رکا ہوا دم بحال ہوگیا۔ بچے بدتمیز ہوگئے، مجھ پر حکم چلانے لگے۔ ابو اپنا مکمل میڈیکل معائنہ کروائیے۔ شوکت خانم سے معائنہ کروایا تو الٹرا ساؤنڈ میں سوائے دل کی معمولی بے ترتیبی کے سوا کچھ نہ تھا۔ البتہ جگر کو ایک جھلّی نے پوری طرح اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ یہ جھلّی کسی بھی لمحے پھٹ کر اپنا زہر میرے بدن میں پھیلا کر مجھے موت سے ہمکنار کر سکتی تھی۔ ڈاکٹر محمود ایاز نے مشورہ دیا کہ پرسوں آئیے، معمولی سا آپریشن ہے، دو روز بعد گھر چلے جائیے۔ اور جب انھوں نے آپریشن تھیٹر میں میرا بدن چاک کیا تو وہاں بہت کام رفو کا نکلا۔ دس روز بعد انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں قیام کے بعد جب میں اک شب گھر واپس جانے کی تمنا میں تھا تو میڈیکل کے فرشتے مجھے لینے آگئے کہ الٹراساؤنڈ ٹیسٹ کے دوران ایک عجیب دریافت ہوئی ہے۔ آپ کے بدن کے اندر مردہ آنتوں کا مجموعہ ہے جس نے آپ کے پورے نظام کو بلاک کردیا ہے، اس لیے آپ کی صحت گرتی چلی جاتی ہے۔ اس مجموعے یا گولے کو نکالنا ہے۔
”کب؟“
”ابھی!“ اور وہ سب کے سب سرجن محمود ایاز کے نائب فرشتے میرے بستر کے آس پاس کھڑے تھے۔
”کل کیوں نہیں؟“ میں ڈر گیا۔
”نہیں، ابھی۔“
میں نے صرف عینی کی جانب دیکھا اور اسے ڈاکٹر محمود ایاز نے اجازت دے رکھی تھی کہ وہ میرے آپریشن کے دوران تھیٹر میں موجود رہ سکتی ہے۔ اور عینی نے سر ہلادیا کہ ہاں ابّو.... ابھی۔ چنانچہ میں ایک مرتبہ پھر دریدہ بدن ہوا۔
کمرے کے باہر واضح طور پر ”نو وزیٹر الاؤڈ“ کی تختی نصب تھی۔ اگرچہ میں نے اپنے میڈیا کے دوستوں کو سختی سے منع کیا کہ میری بیماری کا چرچا نہیں کرنا۔ اسے ایک ”بریکنگ نیوز“ نہیں بنانا۔ یعنی گلدستے چلے آرہے ہیں، صحت یابی کی دعائیں کی جا رہی ہیں، یہ مجھے نہیں منظور۔
اور اس کے باوجود.... آئرلینڈ کے ایک چرچ میں، لاہور کے کیتھڈرل چرچ میں اور سندھ کے کنڈیارو کی جامع مسجد میں درجنوں حافظ قرآن میرے لیے دعائیں کر رہے ہیں۔
تو ان موسموں میں یہ عبداللہ حسین تھا جو دندناتا ہوا اپنی وہیل چیئر پر براجمان میرے کمرے میں داخل ہوتا ہے۔ میں اس کے چہرے پر موت کی زرد پرچھائیاں دیکھ سکتا ہوں کہ اسے خون کا سرطان لاحق ہے۔ ابھی چند روز بعد مرنے والا ہے۔
وہ کہتا ہے ’:’یہ جناب عالی تم نے کیا ڈراما رچا رکھا ہے۔ اس بستر پر تو مجھے ہونا چاہیے تھا تو تم کیوں لیٹے ہوئے ہو۔ دراصل تم اصل میں ایک اداکار ہو۔ ہمیشہ لائم لائٹ میں رہنا چاہتے ہو۔ اس لیے یہاں آکر لیٹ گئے ہو۔“
وہ ہمیشہ مونا کو کہتا تھا کہ آپ تو میری گرل فرینڈ ہو۔
اس سے مخاطب ہوکر کہنے لگا :”مونافکر نہ کرویہ اداکاری کر رہا ہے۔ بیمار شمار نہیں ہے۔“
یہ عبداللہ حسین کے ساتھ میری آخری ملاقات تھی۔
شاید وہی دن تھا یا اگلا دن تھا۔ میں تو نیم مدہوش تھا۔ مجھے کیا خبر کہ کون آیا کون گیا۔
تب سلجوق نے میرے کان میں سرگوشی کی: ”ابّو انتظار صاحب آئے ہیں۔“
میں نے اپنے چہرے سے آکسیجن ماسک ہٹا کر دیکھا تو بستر کے برابر میں انتظار صاحب جھکے جھکے سے تھے۔ جھکے ہوئے میرے جھاڑ جھنکار ناتواں چہرے کو تشویش سے تکتے تھے۔ مسعود اشعر ان کے ہمراہ تھے۔ مجھ میں کچھ کہنے کی سکت کہاں تھی۔ میں ناتوانی میں جتنی بھی شکرگزاری چہرے پر طلوع ہوسکتی ہے اس کی آمد سے مسکراتا رہا اور انتظار باتیں کرتے رہے۔
بھئی! تم نے اپنی بیماری کی خبر کیوں نہ کی۔ کسی کو کچھ بھی نہیں بتایا۔ کیوں نہیں بتایا؟ تم اسپتال کے بستر پر یوں پڑے اچھے نہیں لگ رہے۔ ٹھیک ہوجاؤ۔ انھوں نے کہا تو نہیں لیکن ان کی آنکھوں میں شرارت کا ایک شرارہ دمکا ،جو کہتا تھا تمہارے گوپیاں تمہارا انتظار کرتی ہیں۔ میں نے دھیمی آواز میںمسعود سے شکایت کی کہ تم انھیں کیوں لے آئے ہو۔ لاٹھی کے سہارے چلتے ہیں، جانے کیسے سیڑھیاں چڑھ کر آئے ہیں۔ نہیں لانا تھا۔
تو جیساکہ اس کاایک مخصوص انداز ہے، مسعود دونوں ہاتھوں کو نِرت کے انداز میں نچا کر کہنے لگے۔” بھئی! میں کیا کرتا، یہ مانتے ہی نہیں تھے۔ انھیں خبر ہوئی تو بے چین ہوگئے، کہنے لگے مجھے لے چلو۔ تارڑ کا حال اچھا نہیں ہے تو میں نے اسے دیکھنے کے لیے جانا ہے۔ بھئی! یہ کیا بات ہوئی کہ وہ بھی بیمار پڑ گیا ہے، مجھے لے چلو۔“
یہ کل کی کہاں آج کی بات ہے۔ سمیر نے مجھ سے پوچھا کہ ابّو ان دنوں کیا لکھ رہے ہو؟ میرے بچے بھلے وہ جو میں لکھتا ہوں اسے پڑھیں یا نہ پڑھیں، لیکن مسلسل ٹوہ میں رہتے ہیں کہ قبلہ والد صاحب جو رات گئے تک جاگتے ہیں تو ان دنوں کیا لکھ رہے ہیں۔ کچھ لکھ بھی رہے ہیں یا شبینہ غیرشرعی سرگرمیوں میں مشغول ہیں۔ میرے آپریشنوں کے بعد کڑی نظر رکھتے ہیں، تو میں نے سمیر کو بتایا کہ ان دنوں میں انتظار کی رفاقت میں شبیں بسر کر رہا ہوں۔ میں نے پچھلی شب اسے دیکھا تھا کہ وہ لاٹھی ٹیکتا پریشان حال نیشنل اسپتال کے کمرہ نمبر 24 میں داخل ہو رہا ہے اور میں بستر پر ٹیوبوں میں پرویا ہوا، آکسیجن نقاب چہرے پر چڑھائے سانس لیتا ہوں اور وہ کہتا ہے تارڑ! تم اسپتال کے بستر پر لیٹے ہوئے اچھے نہیں لگتے۔
تب سمیر کہنے لگا۔ ابّو جب ایرج مبارک نے فون کرکے کہا تھا کہ انتظار صاحب آپ کے ابّو کو دیکھنا چاہتے ہیں ،تو جب وہ آئے تو ہم نے آپ کی ٹیوبیں اور ان سے منسلک متعدد پلاسٹک کے تھیلے سمیٹ کر آپ کو ایک وہیل چیئر پر بٹھادیا تھا۔
یہ دیکھیے۔
مجھے اب تک کچھ خبر نہ تھی۔ سمیر میری بے خبری میں یقینا اس خیال سے کہ مجھے یہ لمحات کیمرے میں محفوظ کرلینے ہوں گے، اس کے نزدیک اس کا باپ ایک تاریخ تھا، جس کا ریکارڈ رکھنا اس کا فرض تھا۔ مسلسل تصویریں اتارتا رہا تھا۔ جب میں خوش و خرم حالت میں تھا، جب مجھے آپریشن تھیٹر کی جانب لے جایا جا رہا ہے اور سرجن حضرات چہروں پر سفید نقاب اوڑھے میرے اسٹریچر کے ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں، کمپیوٹر کی اسکرین پر دل کی دھڑکن کبھی کبڑی ہوتی ہے پھر ایک لمحے کے لیے ہموار ہوکر پھر سے سنبھل جاتی ہے۔
یہ دیکھیے سمیر نے کہا۔
کمپیوٹر اسکرین پر وہ کمرہ کسی اسپتال کا نہیں، کسی باذوق ڈرائنگ روم کا لگتا ہے۔ گل دانوں میں سرخ پھول، دیواروں پر معروف مصوروں کی تصویریں آویزاں، بڑی کھڑکی کے راستے دھوپ اترتی ہوئی، بستر پر ایرج مبارک، میں وہیل چیئر پر۔ یہ کون ہے، کسی قبر میں سے برآمد ہونے والا ڈھانچا، لیکن مسکراتا ہوا کہ سامنے کے صوفے پر انتظار اورمسعود براجمان مجھ سے باتیں کر رہے ہیں۔ ہم گفتگو کر رہے ہیں لیکن ویڈیو میں کچھ خلل آگیا ہے، صاف سنائی نہیں دے رہا کہ ہم کیا کہہ رہے ہیں۔ انتظار ہاتھ بلند کرکے مجھ سے کچھ کہہ رہے ہیں، مسعود عینک سنبھالتے مسکرا رہے ہیں اور میں انتظار کی آمد کی خوشی میں باتونی ہوا جاتا ہوں۔
اسکرین پر منظر یوں زندہ ہے کہ گمان تک نہیں ہوتا کہ لاٹھی کا سہارا لیتا ایک شخص جس کے خدوخال کھڑکی میں سے اترنے والی دھوپ کی زد میں آکر ایک مجسمے کی صورت دکھائی دے رہے ہیں، وہ اب زندہ نہیں ہے۔
ویڈیو کی آواز میں رکاوٹ ہے، جو کچھ بولا جا رہا ہے مبہم اور بجھا بجھا سا ہے، لیکن یہ طے ہے کہ موروں کی باتیں ہو رہی ہیں۔ انھی دنوں کسی ادبی مجلے میں ”اور سندھ بہتا رہا“ کا ایک باب شایع ہوا تھا جس میں ننگرپار کر اور تھر کے صحرا ؤں میں مرنے والے موروں کا تذکرہ تھا۔ ہم ادھر موروں کے بیری ہوگئے تھے۔ انھیں ہلاک یا حلال کرکے اپنی دعوتوں میں بھونتے تھے، تو وہ اپنی جان بچانے کی خاطر سرحد کے پار چلے گئے کہ وہاں کے لوگ انھیں اپنے من مندر میں سجاکر ان کی پوجا کرتے تھے۔ اور اُدھر سور دندناتے تھے ،وہی لوگ جو موروں کے پرستار تھے، انھیں بھون کر کھا جاتے تھے چنانچہ سور حضرات بھی اپنی جان بچانے کی خاطر سرحد پار کرکے ادھر پاکستان چلے آئے اور پھر ادھر آس پاس قیام نہ کیا۔ پورے ملک میں پھیل گئے۔ یعنی ہم ایسے سوداگر تھے جنھوں نے موروں کے بدلے میںسورحاصل کرلیے۔
انتظار نے یہ تذکرے مور وںاورسوروںکے پڑھ رکھے تھے۔
”تو ننگرپارکر کے کاسبو قصبے میں اب بھی مور مقدس ہیں اور اڑانیں کرتے پھرتے ہیں۔ تو یہ مور تھرپارکر کے مرتے کیوں جاتے ہیں؟“
مسعود اشعر کہتے ہیں: ”وہ ایک پرندوں کے لیے جان لیوا بیماری رانی کھیت میں مبتلا ہوکر مر رہے ہیں۔ یہ بیماری مرغیوں کو بھی ہوجاتی ہے“۔
”بھئی! مرغیاں تو مور نہیں ہوتیں۔“
پرندے تو ہوتی ہیں انتظار!“۔"
اس دوران ایرج مبارک کچھ کہتے ہیں اور میں کہتا ہوں: ”آپ یکدم کیوں کود پڑے؟“
وہ خفا سے ہوجاتے ہیں۔ ایرج نثری نظم کے سب سے بڑے مبلغ مبارک احمد کے بیٹے ہیں،۔
ادب کی پہچان رکھتے ہیں اور انھوں نے اپنے آپ کو انتظار حسین کی دیکھ بھال کے لیے وقف کردیا۔
انتظار فراموش کرچکے ہیں کہ وہ میری خبر گیری کے لیے آئے ہیں اور میں نے کچھ لمحوں کے لیے آکسیجن ماسک اتار دیا ہے۔ وہ موروں میں مبتلا ہوچکے ہیں۔
اب میں رطب اللسان ہوں۔بھول چکا ہوں کہ میرے پیٹ پر ٹانکوں کی ایک کشیدہ کاری ہے، نصف درجن سے زائد سوراخ ہیں جن میں پیوستہ ٹیوبوں کے سہارے میں سانس لیتا ہوں اور میری ناک میں سے ایک ٹیوب میرے معدے میں اترتی ہے۔ تو میں کہتا ہوں: ”انتظار صاحب! مور میرے تھے۔ گھٹا گھنگھور گھنگھور، مور مچاوے شور والے مور ہیں۔ لیکن گوجرانوالہ کی ثریا شیخ کا گیت ’من مورا ہوا متوالا رے، یہ کس نے جادو ڈالا رے‘ میرے من کو متوالا کرتا جادوکر ڈالا رے۔
مسعود اپنی عینک کو اڑستے ہوئے کہتے ہیں: ”واہسبحان اللہ! کیا گیت ہے۔“
تب سلجوق کہتا ہے کہ ”انتظار صاحبابّو تھک گئے ہیں۔“
”بھئی! تم ٹھیک ہوجاؤ۔ یوں تو اچھے نہیں لگتے۔“
اور وہ تینوں رخصت ہوجاتے ہیں۔ مجھے سمیر نے بتایا کہ وہ انکل عبداللہ حسین کی خبر گیری کے لیے بعدازاں ان کے گھر گئے تھے۔ عجب کہانی ہے کہ آگ، پانی کی خبر لینے جاتی ہے۔ یعنی اصل میں آگ اور پانی ایک ہیں، ہمیں ہی فریب میں مبتلا کر رکھا ہے کہ ہم جدا ہیں۔
اس روز میں نے انتظار کا ایک ایسا روپ دیکھا جو میرے گمان میں بھی نہ تھا۔ اس کے چہرے پر تشویش کی جو پرچھائیاں تھیں، ان کے سوا میرے لیے ایک پدرانہ محبت کا چراغ بھی جلتا تھا۔ مجھے اس شفقت اور قربت کی توقع نہ تھی۔ میں تو جی اٹھا، ان کی فکرمندی اور الفت بھری بے چینی میرے بدن میں پیوستہ ٹیوبوں میں سرائیت کرکے، میری شریانوں اور رگوں میں رواں یوں ہوئی کہ میں صحت مند محسوس کرنے لگا۔
رخصت ہوتے ہوئے بھی انھوں نے یہی کہا :”تارڑ! تم اچھے نہیں لگتے اسپتال کے بستر پر لیٹے ہوئے، اچھے ہوجاؤ۔“
بدھ حکایتوں میں بیان ہے کہ مہاتما بدھ سے پیشتر بہت سے بدھ پیدا ہوئے۔ ان کی موت کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہا ۔ یہ بودھی ستوا کہلائے۔ تو اگر آج کے زمانوں کا ایک بودھی ستوا میرے لیے دعا کرتا ہے کہ تم اچھے ہوجاؤتو میں کیسے اچھا نہ ہوجاتا، میں ہوگیا۔
میں تو اچھا ہوگیا پر عبداللہ حسین نہ ہوا۔ خون کے کینسر کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔ کومے کی تاریکی میں اترنے سے پیشتر اس کی اکلوتی بیٹی نور کا کہنا ہے کہ اس کا آخری فقرہ یہ تھا کہ جانے مستنصر کا کیا حال ہے۔
کچھ دنوں بعد ابھی میرے پیٹ پر چیر پھاڑ کے زخم بھرے نہ تھے، میں ایک مرتبہ پھر نیشنل اسپتال کے انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں داخل ہوتا ہوں جہاں میں نے ابھی حال ہی میں کچھ روز و شب قضا سے لڑتے جھگڑتے گزارے ہیں۔ کبھی آر کبھی پار جاتا تھا، میں اس کے ایئر کنڈیشنڈ ماحول میں قریب المرگ لوگوں کے آخری سانسوں کو سنا کرتا تھا، میں یہاں اجنبی نہ تھا لیکن آج ایک بستر پر مصنوعی تنفس کی ٹیوبوں سے پرویا ہوا ایک بوڑھا بدن پڑا تھا۔ پڑا تو نہ تھا، سانس کھینچنے کی کشمکش میں پھڑکتا تھا۔ جیسے ایک پرندہ جان کنی کی حالت میں پھڑکتا ہے۔ اس کا چہرہ آکسیجن ماسک سے ڈھانپا ہوا تھا، کون تھا؟
اس وارڈ میں داخلے کی اجازت نہ تھی، ایک نوجوان ڈاکٹر نے مجھے پہچان لیا کہ سر! آپ بھی تو کچھ دن پہلے اس وارڈ میں مقیم ہوا کرتے تھے۔ اس نے مجھے اندر آنے دیا۔
”انتظار حسین یہی ہیں؟“
جی سر!“۔"
”آر یُو شور؟“
”جی سر! ان کے سرہانے آویزاں میڈیکل ہسٹری کی رپورٹ پر یہی نام درج ہے۔“
میں پہچان نہیں پا رہا تھا، چہرہ آکسیجن ماسک سے ڈھکا ہوا تھا، بقیہ بدن کسی بھی زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا شخص کا ہوسکتا تھا۔ جو سانس کی کھینچا تانی میں بسمل ہوتا تھا، میں قریب نہ جاتا تھا، دور سے دیکھتا تھا۔
”کچھ امید ہے؟“
”تارڑ صاحب! ڈاکٹروں کی کوڈ میں شامل ہے کہ وہ ہمیشہ ڈھارس بندھاتے ہیں۔ امید کا دامن کبھی نہیں چھوڑتے، تسلی دیتے ہیں، یقینی موت کا بھی اقرار نہیں کرتے، لیکن صرف آپ سے کہتا ہوں کہ نہیں!“۔
”کیا حیات اور شعور کی کسی بھی نامعلوم سطح پر، وہ آگاہ ہیں کہ وہ کہاں ہیں؟ ان کے آس پاس کون ہے یا وہ مکمل طور پر ایک بےخبری کی حالت میں ہیں۔“
”تارڑ صاحب! آپ ان کے نزدیک جاکر، ان کے کان میں انھیں پکاریے شاید وہ سن رہے ہوں۔“
نوجوان ڈاکٹر نے پیشکش تو کردی لیکن میں جھجک گیا، ایک خوف میں مبتلا ہوگیا، جب میرا سانس رک رہا تھا اور میرے گلے میں سے ایک خرخراہٹ موت کی برآمد ہوتی تھی تو اس لمحے میں نہیں چاہتا تھا کہ کوئی بھی مجھے پکارے۔ مدد کی کوشش کرے کہ یہ میرے اور فنا کے درمیان ایک کشمکش جاری تھی اور کوئی بھی اس جنگ میں میری مدد نہیں کرسکتا تھا۔
اس لیے میں نے انتظار کو نہ پکارا۔ کیا جانیئے، اگر اس کشمکش کے دوران موت سے مبارزت کے لمحوں میں اگر انھیں کہیں دور سے میری آواز سنائی دے جاتی ،جبکہ وہ مدہوش ہوتے۔ جانے کون ہے جو مجھے پکارتا ہے اس کا تعین نہ کرسکتے۔ بلکہ انھیں میری پکار، انتظار سے مزید اذیت ہوتی، تو میں نے انھیں پکارا نہیں۔
دوپہر ہوچکی تھی۔ابھی تک کوئی بھی ان کی خبرگیری کے لیے آیا نہ تھا۔ انتظار تنہا پڑے تھے۔
”پچھلے پہر کچھ لوگ آئیں گے۔“ نوجوان ڈاکٹر نے بتایا۔
انتظار اپنے کالموں میں میری خبر لیا کرتے تھے، اکثر بےوجہ لیا کرتے تھے اور آج میں ان کی خبر لینے آیا تھا تو وہ بےخبر پڑے تھے۔ نہ کوئی شہرزاد ان کی مدد کو پہنچی، نہ کوئی جاتک کہانی اور نہ ہی کوئی زرد کتّا۔ اگلے روز وہ مرگئے۔اور یہ میری دعا کا اثر تھا کہ وہ مرگئے۔ ان کی حالت دیکھ کر جب کہ وہ بستر پر صرف ایک سانس کھینچنے کے لیے تڑپتے تھے میں نے دعا کی تھی کہ یا اللہ! یہ ایک بھلا اور معصوم شخص تھا ،اسے امتحان میں نہ ڈال، اس کی منزل آسان کردے، اسے اپنے پاس بلالے۔ ایک ایسی ہی دعا میں نے اپنے ابّا جی کے لیے کی تھی۔ وہ بھی قبول ہوگئی۔
انتظار پر بہت الزام لگے اور ان میں ایک یہ تھا کہ وہ نوسٹلجیا کا پیغمبر تھا۔ ماضی کے قبرستانوں میں دیے جلاتا تھا۔ حکایتوں اور کہانیوں کے تانے بانے میں الجھا، لمحہ موجود کی حقیقتوں کا سامنا نہ کرتا تھا۔ مجھے بھی شکایتیں تھیں کہ لاہور میں ایک عمر بسر کرنے کے باوجود کبھی لاہوری نہ ہوا۔ نہ پنجابی زبان سے آشنائی کی اور نہ مقامی ثقافت کے گیت گائے۔ اپنی ڈبائیوں میں ہی ڈوبا رہا۔ اس کی تحریروں میں بے شک دجلہ اور فرات آئے، گنگا اور جمنا کے دھارے رواں ہوئے پر اس کی کہانیوں میں راوی، چناب اور سندھ کے پانیوں پر کوئی داستانوں کی بادبانی کشتی نہ تیری۔ اور پھر جوانی کی جنوں خیزی کے بعد جب یکدم میں بڑھاپے کی خزاں میں اترا تو مجھ پر کھلا کہ بیشتر بڑے ادب نوسٹلجیا کی کوکھ میں سے جنم لیا ہے۔ میں اگر آج بھی لاہور کے ان تین گھروں کی بالکونیوں، برآمدوں، صحنوں، شب براتوں، بسنت دنوں اور دیوالی کی راتوں کو یاد کرتا ہوں جن میں میری حیات بسر ہوئی تو وہ لوگ جب کہ میں تو بچھڑا بھی نہیں، لاہور میں ہی ادھر ادھر ہوتا رہا اور وہ لوگجو ہمیشہ کے لیے بچھڑ گئے۔ ہر صحن، ہر قبر اور ہر شجر سے اور شجر پر کوکنے والے ہر پرندے سے، اپنے پہلے عشق چھوڑ آئے، آباواجداد کی مٹی سے جدا ہوگئے، بچھڑ گئے تو ان پہ کیا گزرتی ہے یہ میں تو نہ جان سکتا تھا، صرف وہی جانتے تھے، جن پہ وہ گزری ہے تو اگر وہ اپنی تحریروں میں بچھڑ چکے موسموں اور اپنے لہجوں کو یاد کرتے ہیں تو برا نہیں کرتے۔ اگر میں اپنے دریا ؤں کے پانیوں اور ان کی سطح پر ٹھہری ہوئی دھند میں روپوش پرندوں اور لاہور کی گلیوں سے ہمیشہ کے لیے جدا ہوجاتا تو میں بھی ایک نوحہ گر ہوتا۔
کیا عبداللہ حسین، عزیز احمد، قرة العین حیدر، خدیجہ مستور، کرشن چندر، بیدی اور بلونت سنگھ نوسٹلجیا کے شکار کبھی نہ کبھی نہیں ہوتے۔ میلانکنڈیرا اپنے چیکوسلواکیہ، نجیب محفوظ اپنے قاہرہ، پاشا کمال اور پاموک اپنے اناطولیہ اور استنبول، سونرے نتسن یہاں تک کہ اسماعیل کدارے اپنے البانیہ کی اجڑ چکی تہذیبوں اور بستیوں کے نوسٹلجیا میں سے اپنی فکشن کی شراب کشید نہیں کرتے۔ اگر انتظار نے ایسا کیا تو کیا برا کیا، اچھا کیا۔
جیسے برنارڈ شا کے ڈرامے ”پیگ ملین“کو ایک میوزیکل کی صورت ”مائی فیئر لیڈی“ کے نام سے تھیٹر میں پیش کیا گیا اور اس کا ایک گیت بہت مقبول ہوا۔ ”مجھے تمہارے چہرے کی عادت ہوگئی ہے“ تو کیوں مجھے بھی اپنی ادبی جبلت کی محفلوں، دعوتوں، تقریبات اور ”مشرق“ کے سیڑھیوں پر چڑھتے انتظار حسین کے چہرے کی عادت ہوگئی تھی۔ وہ ایک مسلسل اور ہمہ وقت اور ہمہ موسم موجودگی یوں تھے جیسے لاہور کا عجائب گھر، جنرل پوسٹ آفس اور اس کے فٹ پاتھ میں سے برآمد ہوتا قدیم برگد، یا پھر لاہور کی سب سے عالی شان اور پرشکوہ عمارت، بابا ڈِنگا سنگھ بلڈنگ اور اس کے پرشوکت گنبد کے چار گھڑیال، یا پھر پاک ٹی ہاؤس، فرض کیجیے آپ کسی سویر باغ جناح جانے کے لیے گھر سے نکلتے ہیں۔ مال روڈ اور بیڈن روڈ کے سنگم پر واقع ڈِنگا سنگھ بلڈنگ کی جانب یوں ہی نگاہ کرتے ہیں تو نظر ٹھٹھک جاتی ہے کہ وہاں ایک خلا ہے۔ ڈِنگا سنگھ بلڈنگ جہاں تھی وہاں صرف ایک خلا ہے تو آپ کو ایک دھچکا تو لگے گا، یقین تو نہ آئے گا، صدمہ تو ہوگا۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ لاہور ہو، مال روڈ ہو اور وہاں ڈِنگا سنگھ بلڈنگ نہ ہو۔ اس کے چار گھڑیال منادی نہ کرتے ہوں تو ایسے ہی آج انتظار وہاں نہیں، جہاں اکثر ہوا کرتے تھے تو ہر بار کسی محفل میں داخل ہوتے ہی دھچکا لگتا ہے، کسی ادبی محفل میں ان کا چہرہ دکھائی نہیں دیتا تو صدمہ ہوتا ہے۔ وہ بھی تو ایک طرح سے ادب کے بابا ڈِنگا سنگھ تھے۔ ڈِنگے یعنی قدرے ٹیڑھے تھے۔ سمجھ میں نہ آتے تھے، اور یہ بھی سمجھ میں نہیں آتا کہ کدھر چلے گئے۔ یہیں کہیں تھے، جانے کدھر چلے گئے۔ ناصر کاظمی کے ساتھ لاہور کی رات میں کہیں آوارہ ہوئے اور ابھی تک واپس نہیں آئے۔ سب منتظر ہیں، چرند پرند، بندرابن، زرد کتّے، غاروں میں خوابیدہ لوگ، فرات اور دجلہ، کوفہ اور بغداد، کراچی اور لاہور، کرشن کی بانسری اور دف بجانے والی مدنی لڑکیاں، بدھ کے برگد، گنگا اور جمنا کے پانی، حسینی براہمن اور بنارس کے بسم اللہ خان کی شہنائی، دلّی کی گلیاں اور زبان کے کرشمے، لہجے کے معجزے اور میری گوپیاں، سب کے سب منتظر۔ میں سمجھتا ہوں کہ جیسے عبداللہ حسین نے خوش دلی سے قہقہہ لگا کر کہا تھا کہ تارڑ اگر انتظار نوّے برس کا ہوگیا تو مجھے خدشہ ہے کہ وہ سو برس کا بھی ہوجائے گا۔ انتظار نے ابھی جینا تھا۔ حلقہ ارباب ذوق کی ادبی کانفرنس میں، دن بھر کی شمولیت اور پھر اس شب نہ صرف اپنے آپ کو فروخت کرنے والے بلکہ دیگر ادیبوں کو بھی بہلا پھسلا کر اہل اقتدار کے سامنے حاضر کرکے انھیں بھی فروخت کردینے والے صاحب انتظار کی منت سماجت کرکے انھیں واپڈا ہاؤس کی چھت پر ایک ڈنر کے لیے لے گئے اور موسم ٹھنڈک اور برفیلے مزاج والے تھے، کھلی چھت پر، انتظار کو سردی لگ گئی، انھیں نمونیہ ہوگیا۔
انھوں نے اسے معمول کا بخار جانا، پھر طبیعت بگڑنے لگی تو ان کے ایک عزیز ڈاکٹر نے تسلی دی کہ آپ اسپرو یا ڈسپرین کی گولیاں پھانک لیجیے۔ انتظار احتجاج کرتے رہے کہ میری طبیعت بگڑتی جاتی ہے پر کسی نے دھیان نہ کیا، یوں سب کچھ بگڑ گیا۔
نصرت فتح علی نے بری نظامی، ایک غیرمعروف لائل پوری شاعر کا کلام گایا تھا کہ:
وِگڑ گئی اے تھوڑے دِناں توں
دوری پے گئی اے تھوڑے دِناں توں
یعنی چند روز سے سب کچھ بگڑ گیا ہے، چند روز سے دوری ہوگئی ہے۔
چنانچہ سب کچھ بگڑ گیا اور ہمیشہ کی دوری پڑ گئی۔
میں نے نیشنل اسپتال کے انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں جب انتظار حسین کو بستر پر صرف ایک سانس کی آرزو میں پھڑکتے دیکھا، تو کیا لکھا کہ موت، ایک انسان کی سب سے بڑی بے عزتی ہے، بے حرمتی ہے۔ یہ تو کسی کی بھی توقیر نہیں کرتی، کچھ لحاظ نہیں کرتی۔ چہرہ بگاڑ دیتی ہے، بہت ظلم کماتی ہے۔ وہ جو کوزہ گر ہے، اپنی من مرضی سے کوزے بناتا ہے، انھیں اپنی شکل میں ڈھالتا ہے، خود ہی بناتا ہے تو پھر خود ہی کیوں بگاڑ دیتا ہے، تو نہ بنائے، کیوں اسے ایک انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں یوں بگاڑتا ہے کہ وہ پہچانا ہی نہ جائے اور میں پوچھوں کہ کیا یہی انتظار حسین ہیں۔
جیسے میرے ناول ”خس و خاشاک زمانے“ کا امیر بخش دریائے چناب کے پانیوں پر معلق سرما کی دھند میں ایک ست رنگے پرندے کی صورت ڈوب جاتا ہے، تو کچھ عجب نہیں کہ اگر میں کسی سویر باغ جناح میں جا نکلوں۔ اس قدیم شجر کی گھناوٹ تلے کھڑے ہوکر اس میں پوشیدہ اپنے یار پرندے کو پکاروں جو مجھ سے باتیں کیا کرتا تھا ،تو وہاں سے جواب آئے۔ اب ڈھونڈو مجھے اپنی گوپیوں کے چراغِ رُخ زیبا لے کر۔ وہ جو تمھاری تحریروں میں عطار کے پرندے اڑان کرتے تھے۔ میں ان میں شامل ہوچکا، سچ کی تلاش میں نکل چکا، مجھے اب مت پکارو۔
کارِ جہاں دراز ہے‘ اب مرا انتظار
مستنصر حسین تارڑ
یہ ان بیت چکے زمانوں کی داستان ہے، جب میں نے مذہبِ کاروبار اور عقیدہ معاش ترک کرکے صرف ادب کے صنم خانے کا طواف کرنے کا فیصلہ کرلیا کہ اگر زندگی کرنی ہے تو قلم کی مزدوری کی جتنی بھی اُجرت ہو، اس پر کرنی ہے۔ میڈیا کی قلیل آمدنی پر انحصار کرنا ہے چاہے، اس میں دو چار نہیں سیکڑوں سخت مقام آجاویں۔ بے شک ایک ڈبل روٹی خریدنے کے لیے بھی دام کم پڑ جاویں، کرنا بس یہی کتّا کام ہے اور میری بیگم نے بھی یہی کہا کہ بےشک اگر تم کاروبار کے جھمیلوں میں پڑے رہو ،تو زندگی آسانیوں اور آسائشوں میں گزرے گی، لیکن تم ہمیشہ ناخوش رہوگے، میں تمہیں خوش دیکھنا چاہتی ہوں، چاہے اس میں تنگی تُرشی کے دن آجائیں، میں شکایت نہیں کروں گی۔چنانچہ ایسے بہت دن آئے، لیکن ہم اپنے فیصلے پر پچھتائے نہیں۔ کٹتے ہیں دکھ میں یہ دن، بہت ایسے دن کاٹے۔ اور پھر یکدم غیب سے کچھ سامان ہونے لگے۔ دن پلٹنے اور سدھرنے لگے۔ ”التحریر“ کے خالد سیف اللہ کے توسط سے ضیاالاسلام انصاری نے مجھے اپنے اس زمانے کے مؤقر اخبار ”مشرق“ میں باقاعدگی سے کالم لکھنے کی پیش کش کردی۔ ازاں بعد سنگ میل کے نیاز احمد کا ظہور ہوا، جنھوں نے دھڑا دھڑ میری کتابوں کے درجنوں ایڈیشن فروخت کرکے رائلٹی سے مجھے لبریز کردیا۔ رہی سہی عُسرت اور غربت کی کسر ”صبح کی نشریات“ کی آٹھ برس کی مسلسل میزبانی نے نکال دی۔ لیکن بارش کا پہلا قطرہ جس نے میری بنجر کھیتی کو ہرا کردیا ”مشرق“ کی کالم نگاری تھی۔
ایبٹ روڈ پر گلستان سنیما کے عین سامنے روزنامہ ”مشرق“ کا دفتر واقع تھا اور شاید تیسری پر واقع تھا۔ اس منزل تک پہنچنے کی خاطر سیڑھیاں چڑھتے، دھیمی مسکراہٹ والے، مجھ سے کبھی کلام کرتے اکثر نہ کرتے، ایک بے اعتنائی اور غیریت اختیار کرتے۔ کسی قدر بے رنگ سے، انتظار حسین تھے۔ اور وہ ایسا کرسکتے تھے کہ میں تو ابھی ابھی چار پانچ ابتدائی کتابوں کے ڈنڈ پیل کر، اپنے بدن پر نوجوانی کی نوخیزی کا تیل مل کر اور دنیا ختم کرنے کی مٹی چھڑک کر ادب کے اکھاڑے میں داخل ہوا تھا، جب کہ وہ بہت سے رستم پاکستان، رستم ہند وغیرہ کو پچھاڑ کر اکھاڑے میں رانوں پر ہاتھ مارتے دیگر ادبی رستموں کو چیلنج کر رہے تھے۔ تو میں اکھاڑے کے ایک کونے میں دبک گیا۔
انتظار ان زمانوں میں ”لاہور نامہ“ لکھا کرتے تھے۔ان کے وہ کالم جو ادب سے متعلق ہوتے تھے ان میں ہجرت کے دکھ ہوتے تھے، کوچ کر جانے والے پرندوں کی باتیں ہوتی تھیں، جاتک کہانیاں اور نانی امّی کی سنائی ہوئی کہانیاں ہوتی تھیں۔ میرا جی، قیوم نظر، ناصر کاظمی، احمد مشتاق، سلیم شاہد، زاہد ڈار، ندرت فاطمہ، سہیل احمد خان، حنیف رامے، صلاح الدین شیخ، غالب احمد وغیرہ کے سوا اور کوئی کم ہی ہوتا تھا۔ وہ اپنی پہچان والے لوگوں کے تذکرے میں محدود رہتے تھے۔ وہ ترقی پسند مصنفین سے کسی حد تک الرجک تھے۔ چونکہ میں ترقی پسند مصنفین کا مداح اور پیروکار تھا، اس لیے میں بھی انتظار سے کچھ کچھ الرجک ہوگیا۔ مجھ میں ایک مخاصمت نے جنم لیا۔ میں تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ کوئی شخص ترقی پسندی کا مخالف ہو اور اس کے باوجود وہ ایک بڑا ادیب ہو۔
ان زمانوں میں انتظارحسین کا افسانوی مجموعہ ”کچھوے“ شایع ہوا اور ریڈیو پاکستان لاہور کے ایک ہفتہ وار پروگرام میں نئی کتابوں پر تبصرے کے لیے مجھے مقرر کیا گیا تھا۔ اور میں نہایت دل جمعی سے تبصرے اس لیے کرتا تھا کہ مجھے فی تبصرہ دو سو پچیس روپے کی خطیر رقم کا چیک عنایت کیا جاتا تھا۔ ورنہ میں کہاں کا دانا تھا۔ پرکھ پڑچول کا ماہر نقاد تھا۔ میں نے ”کچھوے“ پر تبصرہ کرتے ہوئے اپنی ذہنی بساط کی محدودگی میں کچھ توصیف تو کی، لیکن کچھ دل کی بھڑاس بھی نکالی اور کہا: ”کچھوے“ کے افسانوں کو ایک مدت اس لیے بھی یاد رکھا جائے گا کہ یہ اسم بامسمیٰ ہیں، کچھوے کی چال چلتے ہیں۔
دو چار ہفتوں کے بعد میں حسب معمول اپنا کالم نذیرحق کی میز پر رکھنے کے لیے سیڑھیاں طے کر رہا تھا، تو کیا دیکھتا ہوں کہ انتظار مجھ سے آگے پھونک پھونک کر قدم رکھتے ہولے ہولے چڑھ رہے ہیں تو میں نے کہا انتظار صاحب!۔
انھوں نے رک کر سانس بحال کیا اور مڑ کر دیکھا۔ اتنی آہستگی کیوں اختیار کر رکھی ہے۔ تو وہ مسکرا دیے۔ انتظار کی مسکراہٹ، قدرے جھینپی ہوئی، کہیں کہیں شرارت کا ایک شرارہ پھوٹتا ہوا۔ علم بشریات کا کوئی بڑے سے بڑا ماہر پرکھ نہیں سکتا تھا اس مسکراہٹ کا بھید کیا ہے۔ وہ آپ کو پسند کرتے ہیں یا شدید ناپسند کرتے ہیں۔ آپ بیٹھے رہیے انتظار کی مسکراہٹ کی گتھیاں سلجھانے کے لیے۔ مسکراہٹ کے گھونگھٹ کے پیچھے کیا ہے۔ کبھی نہ جان پائیں گے۔تو میرے سوال پر وہ مسکرا دیے اور کہنے لگے :”بھئی! ہم تو کچھوے ہیں، بس یہی چال چلتے ہیں“۔
میں تو سناٹے میں آگیا۔ فالج زدہ سا ہوگیا، مجھے کیا معلوم تھا کہ وہ ریڈیو کے ادبی تبصرے اتنی باقاعدگی اور دھیان سے سنتے ہیں۔
انتظار بھولنے والوں یا معاف کردینے والے قبیلے کے نہیں تھے۔ گانٹھ باندھ کے رکھتے تھے اور اس گانٹھ کو یکدم تب کھولتے تھے، جب مدمقابل اپنے آپ کو برتر جان کر غافل ہوجاتا تھا۔ وہ بے خبری میں بے سرو ساماں مارا جاتا تھا۔ انتظار کے ہاتھوں پر بے خبری کے عالم میں مارے جانے والوں کے خون کے چھینٹے بہت تھے۔
ازاں بعد انتظار صاحب نے تو چھیڑ خوباں سے چلی جائے والا رویہ اپنالیا۔ ہم دونوں کسی ادبی تقریب سے باہر آرہے ہیں یا پھر کشور کے گھر سے نکل رہے ہیں تو انتظار کہتے: ”پہلے آپ....!ہم تو کچھوے ہیں، ذرا دھیرے دھیرے چلے آئیں گے۔“
۔”نکلے تری تلاش میں“ کا جب صادقین کا تصویر کردہ ایڈیشن شایع ہوا تو انتظار نے ”لاہور نامہ“ اس کی توصیف میں لبریز کردیا۔ ”کچھوے“ کے تبصرے کو فراموش کرکے مجھے اپنی شاباشی سے نواز کر بہت شرمندہ کیا۔ اگرچہ بعدازاں وہ میری تحریروں سے بظاہر غافل ہوگئے، اپنے کالموں میں قدرے احتیاط کرنے لگے، لیکن وہ ”راکھ“ کی اس تقریب میں خصوصی طور پر شریک ہوتے جہاں میرے ناول کے بارے میں صفدر میر، احمد ندیم قاسمی، سہیل احمد خان اور احمد بشیر نے اظہار خیال کیا۔ مجھ سے کچھ کوتاہی ہوگئی۔ میں نے انتظار صاحب سے اس محفل میں شریک ہونے اور مضمون پڑھنے کی درخواست نہ کی۔ صرف اس لیے کہ میں جھجکتا تھا کہ کہیں وہ انکار نہ کردیں،ورنہ انتظار کی تحریر سے معتبرہونے سے کون کمبخت انکار کرسکتا ہے۔ ویسے دبے لفظوں میں انھوں نے شکایت کردی۔ انھوں نے اپنے انگریزی کالم میں اس تقریب کو اور ”راکھ“ کو بہت سراہا۔ اگرچہ مجھے خفیف سا شک ہے کہ انھوں نے میرا ناول پڑھا نہیں تھا۔ انھیں ضخیم ناولوں سے یوں بھی وحشت ہوتی تھی۔ بےشک وہ مجھ سے بہت غافل ہوتے لیکن ایسا تو کم ہی ہوا ہوگا کہ میرا کوئی نیا ناول شایع ہو اور اس کی پہلی کاپی میں نے انتظار صاحب کی خدمت میں پیش نہ کی ہو۔ اور ایسا تو کبھی نہ ہوا کہ میں نے بعدازاں ان سے دریافت کیا ہو کہ انتظار صاحب! آپ نے میرا ناول پڑھا۔ اگر میں دریافت کر ہی لیتا تو یقینا اس قبیل کا جواب آتا کہ بھئی! میں نے دس بیس ورق اُلٹے ہوں گے کہ زاہد ڈار لے گیا،مسعود اشعر کے ہاں پڑا ہوگا، واپس کریں گے تو پڑھیں گے، کیوں نہیں پڑھیں گے، آخر تم ایک بیسٹ سیلر ہو۔
انتظار صاحب نے مجھے بیسٹ سیلر ہونے پر بھی کبھی معاف نہ کیا۔
جب سنگ میل والوں نے مختلف مہان ادیبوں کے شان اور شکل والے مجموعے شایع کرنے شروع کردیے، راجندر سنگھ بیدی، قرة العین حیدر، سعادت حسن منٹو، عبداللہ حسین، اشفاق احمد اور انتظار حسین تو یہ مجموعے دھڑا دھڑ مقبول ہوتے چلے گئے۔ تو نیاز احمد کے ایک یادگار لاہوری ناشتے کے دوران انھوں نے انتظار صاحب سے مخاطب ہوکر کہا۔ ”آپ کے مجموعے کا ایک نیا ایڈیشن آرہا ہے۔ آپ کی بہت مانگ ہے!“ تو میں تو بھرا بیٹھا تھا۔ میں نے کہا۔” انتظار صاحب! آخر آپ بھی تو ایک بیسٹ سیلر ہوگئے ہیں۔ یہ تو اچھی خبر نہیں ہے۔“
انھوں نے کچھ کہا نہیں، بس مسکراتے چلے گئے۔
انتظار کو میں نے تقریباً نصف صدی کی ادبی مسافتوں کے دوران ہر رنگ میں دیکھا۔ یہاں تک کہ جب ان کے بال اگرچہ تب بھی چھدرے تھے، تب بھی دیکھا۔ اس ناقابل فہم اور بھید بھری مسکراہٹ کے ساتھ مسلسل دیکھا، اکثر کشور کے ہاں، کبھی جمیلہ ہاشمی، شیخ منظور الٰہی، حجاب امتیاز علی، نثار عزیز بٹ کے ہاں اور بہت اکثر ٹی ہاؤس میں۔
وہ لاہور میں ایک مسلسل موجودگی تھے۔ کبھی کسی ادبی محفل یا گھریلو اکٹھ میں غیر حاضر نہ ہوتے۔ کسی عشق کے مارے اور اجاڑے ہوئے نے کہا تھا کہ کبھی کبھار کی یہ لُک چھپ ملاقاتیں، عشق کا مداوا تو نہیں ہیں۔ دن رات کی مسلسل رفاقت اور موجودگی ہی عشق کی تسلی اور تکمیل ہوتی ہے۔ چنانچہ انتظار صاحب ایک تسلی اور ایک تکمیل تھے۔ اگر وہ کسی محفل میں نہ ہوتے تو ایک اجاڑپن کا احساس ہوتا۔
تو جو نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے
یہ مانا کہ محفل جواں ہے حسیں ہے
اور وہ ہمیشہ عالیہ بیگم کے ہمراہ ہوتے، شاذ ہی اکیلے آتے۔ اور عالیہ بہت سادہ، معمولی پیراہنوں میں ملبوس ایک معمولی شکل کی خاتون تھیں۔ لیکن نہایت پُر اعتماد اور ٹھسّے سے چلتی ہوئی ، محفل میں داخل ہونے والی خاتون تھیں۔ انتظار کی زندگی میں یہ طے ہے کہ وہ واحد خاتون تھیں۔ صرف وہ تھیں جن کی جانب دیکھ کر جب انتظار مسکراتے تھے تو اس مسکراہٹ میں کچھ بھید نہ ہوتا تھا۔ اُلفت، شکر گزاری اور ایک بدھ بھکشو ایسی فرمانبرداری والی محبت کی الوہی پرچھائیاں ہوتی تھیں۔ میں بھی تو کسی حد تک ایک جہاں دیدہ شخص ہوں، حیات کے کٹھن راستوں پر مسافر تو ہوا ہوں، اتنا تو جانتا ہوں کہ کہاں، کسی ایک فرد پر، کون سی محرومی کے سبب اس پر کیا گزرتا ہے۔ اس ایک محرومی کے سبب اس کی شخصیت کیسے کیسے دکھوں کو سہتی کچھ بگڑ سی جاتی ہے۔ اولاد نہ ہو تو اکثر میاں بیوی کے درمیان شک شبے کی ایک دیوار حائل ہوجاتی ہے۔ اولاد ایک دوسرے سے کچھ چاہت نہ رکھنے والے میاں بیوی کو بھی سریش کی مانند جوڑ دیتی ہے۔ اگرچہ بقول وارث شاہ....درویش اس دنیا سے جڑ نہیں سکتا کہ پتھر کو ُسریش یا گوند سے جوڑنا ناممکن ہے ۔ لیکن آپس میں کچھ ربط نہ رکھنے والے میاں بیوی کو اولاد ایک گوند کی مانند جوڑ دیتی ہے۔ کس کا دوش ہے کس کا نہیں۔ اکثر بے اولاد جوڑے ایک مجبوری اور مغائرت کی حالت میں حیات گزار دیتے ہیں، لیکن کبھی کبھیبہت کم کم یہی محرومی ان دونوں کو یوں جوڑ دیتی ہے کہ انھیں سوائے ایک دوسرے کے اور کچھ نظر نہیں آتا۔ محرومی سے جنم لینے والے ایک عجب حیرت بھرے عشق میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ عالیہ اور انتظار کو جب ہم باہر دیکھتے تھے تو ان کی جڑت پر ہمیں رشک آتا تھا۔
تو کیا واقعی عالیہ ان کی زندگی میں پہلی اور آخری عورت تھی؟
ویسے افواہوں پر دھیان نہ کرنا چاہیے۔ ہواؤں میں ،اور وہ بھی گزر چکے ایام کی سسکیاں بھرتی ہواؤں میں جو سرگوشیاں ہوتی ہیں ان پر کان نہ دھرنا چاہیے کہ ان افواہوں اور سرگوشیوں میں کہیں نہ کہیں کچھ حقیقت ہوتی ہے۔ داستانیں یوں ہی جنم نہیں لیتیں۔ ہومر کاٹرائے کہیں نہ کہیں موجود ہوتا ہے۔ ہنرخ سلمان یقین رکھتا ہے کہ سب قصے کہانیوں اور داستانوں میں کہیں نہ کہیں کوئی حقیقت پوشیدہ ہوتی ہے جو دریافت کی منتظر ہوتی ہے۔ چنانچہ وہ ہومر کی داستانوں میں بیان کردہ سمندری خزانوں اور ہیلن کے شہر ٹرائے کو ترکی میں دریافت کرلیتا ہے۔ چنانچہ انتظار کی داستانوں میں جو سرگوشیاں سنائی دیتی ہیں، ان میں حقیقت کا پرتو ہے کہ نہیں۔ انتظار مائل تھے، خواہش رکھتے تھے، ایک افسانوی قربت کے تمنائی تو تھے۔ انتظار کے پہلے اور آخری عشق کی داستاں اب تو اصحاب کہف کی غار میں خوابیدہ ہوچکی۔
ویسے قرة العین حیدر اور انتظار حسین شاید دنیا بھر کے بڑے ادیبوں میں اس لحاظ سے حیرت ناک طور پر منفرد ہیں کہ دونوں کی تحریروں میں جنسی قربت یا صنف مخالف کی کشش کا کہیں کچھ اعتراف نہیں۔ عینی آپا ”کار جہاں دراز ہے“ میں اپنی حیات کے دیوان کے دیوان لکھ گئیں لیکن مجال ہے کہ ایک اقرار ہو کہ میں نے فلاں شخص کو دیکھا تو میرے دل کی دھڑکن میں ایک لمحے کے لیے خلل آگیا۔ بے شک اور بجا طور پر ان کے حسن اور تخلیقی عجوبہ روزگار دانش کے چرچے رہتے۔ایک زمانہ ان پر جان چھڑکتا، لٹو ہوا جاتا تھا ،ان کا حسن اور تخلیق کا تکبر اپنی جگہ لیکن وہ ایک عورت تھیں، بےشک لٹو نہ ہوئیں پر کبھی نہ کبھی تو وہ کسی کو دیکھ کر بے شک ایک لمحے کے لیے ہی سہی، تھوڑی سی گھوم تو گئی ہوں گی۔ انھوں نے کبھی اقرار نہ کیا۔ شفیق الرحمن کے ساتھ لندن میں جو ملاقاتیں رہیں، ان کا کبھی تذکرہ نہ کیا۔
اور ادھر انتظار صاحب تھے، عورت کے وجود اور اس کے بدن کی کشش سے یکسر غافل۔ مجھے ان دونوں سے بس یہی شکایتیں ہیں۔ وہ دونوں میرے نزدیک جنس کے تذکرے کے بغیر بے شک مہان ادیب ہیں لیکن نامکمل ادیب ہیں۔ان زمانوں میں یہ صرف ڈاکٹر انور سجاد تھا جو انتظار سے بھڑتا رہتا تھا۔ وہ آج بھی کہیں زندہ ہے، ناتواں ہوچکا، نہ اپنے آپ کو اور نہ کسی دوست کو پہچانتا ہے، ڈراما نگار، اداکار، رقاص، اردو میں گنجلک انداز کی جدید افسانوی روایت کا بانی جس کی پیروی بہت لوگوں نے کی۔ یہ وہ زمانے تھے جب وہ ایک اداکار اور ڈراما نگار کے طور پر پاکستان ٹیلی ویژن پر راج کیا کرتا تھا۔ میں نے اس کے تحریر کردہ سیریل ”سورج کو ذرا دیکھ“ میں ایک وِلن کے طور پر اداکاری کے میدان میں شہرت حاصل کی اور اس نے بھی میرے لکھے ہوئے متعدد ڈراموں میں مو ¿ثر اداکاری کی۔
وہ ادب کا ایک نپولین،ٹی ہاؤس میں داخل ہوتا، انتظار، داخلے کی پہلی میز کی کھڑکی کے ساتھ اپنے حواریوں کے ساتھ براجمان ہوتے۔ سلیم شاہد، سہیل احمد خان، زاہد ڈار، یوسف کامران، سگریٹ پھونکتی ندرت، الطاف قریشی،مسعود اشعر، اور وہ ٹی ہاؤس میں داخل ہوتے ہی انتظار سے مخاطب ہوجاتا ۔ اپنے ہونٹ سکیڑتے ہوئے کہتا ”کیوں انتظار! تمہاری نانی اماں نے پچھلی شب تمھیں کوئی نئی کہانی سنائی ہے جسے تم ایک افسانے کا روپ دوگے۔ جاتک کہانیوں میں سے کس کہانی کے بارے میں ایک دقیانوسی تحریر لکھوگے۔ بے شک آئندہ زمانوں میں تمہیں تمھاری زبان کے حوالے سے نصابوں میں یاد رکھا جائے گا، لیکن ایک ادیب کی حیثیت سے نہیں۔ انتظار! جاگ جا ؤ، زمانہ قیامت کی چال چل گیا، تمہیں کچھ خبر نہیں کہ افسانہ کیا سے کیا ہوگیا ہے، نانی جان مر چکیں۔“
انتظار مسکراتا رہتا، اکثر چپ رہتا۔
پھر ایک بار بولا: ”انور سجاد! میں نے تازہ ’فنون‘ میں تمہاری کہانی ’الف سے ےے تک‘ پڑھی ہے اور وہ الف سے یے تک مجھے سمجھ میں نہیں آئی۔“
انور سجاد اور انتظار کی چہلیں چلتی رہتیں۔نہ انور نے انتظار کی تحریروں کو قبول کیا اور نہ ہی انتظار نے انور کے شاہکار ناولٹ ”خوشیوں کا باغ“ کو سراہا۔
ہم دونوں سراسر مختلف مزاج اور جدا ثقافتوں سے پیوستہ شخص تھے۔ وہ یا تو انگریزی لباس زیب تن کرتے، سوٹ اور ٹائی باندھے رہتے یا پھر کھڑا پاجامہ اور کُرتا پہنتے۔ اور میں کبھی کبھار ہی سوٹ وغیرہ پہننے کا تردّد کرتا کہ انگلستان میں طویل قیام کے دوران یہی پیراہن اوڑھے رہا اور بیزار ہوگیا۔ ان دنوں یا تو میں نیلی جین اور کسی شوخ رنگ کی قیمص پہنتا یا پھر شلوار قیمص میں مسلسل قیام کرتا۔ میں نے بہت درپردہ خواہش کی کہ کبھی تو انتظار شلوار قمیص پہنیں۔ یقین کیجیے کہ وہ اس پہناوے میں بےحد بانکا لگتا۔ یہ لباس اس پر سجتا۔ لیکن وہ اپنی گنگا جمنی ثقافت میں حنوط ہوچکا تھا۔ جیسے میں پنجاب کی روایت میں آرام دہ اور پرسکون محسوس کرتا تھا۔ بے شک میں اس کے ذوق جمال، حسِ مزاح اور فقرے کی انوکھی ساخت کا شیدائی تھا لیکن ہم میں اگر کچھ مشترک تھا تو وہ پرندے تھے۔ یہ پرندے تھے جو ہمیں باہم کرتے تھے۔
کوئی ایک شام حسب معمول کشور کے گھر میں، اور یقین کیجیے لاہور میں ان زمانوں میں کوئی شام اترتی تھی تو صرف کشور کے اقبال ٹاؤن والے گھر میں یوں اترتی تھی کہ چھن چھن کرتی تھی۔ ساجن کی گلیوں میں سے گزرنے والی ڈرچی کی جھانجھروں کی چھن چھن کے ساتھ اترتی تھی۔ اس لیے بھی کہ اکثر میری فرمائش پر اقبال بانو موسیقی کے بغیر ”پائل میں گیت ہیں چھم چھم کے“ گانے لگتیں۔ آپا حجاب امتیاز علی اپنی وِگ پر کب سے براجمان مکھی سے بے خبر اپنی ایک اور زرنگار ساڑھی میں ملبوس مسکراتی رہتیں کہ انھیں سنائی کم ہی دیتا تھا۔ کوئی ایک چھم سنائی دے جاتی، دوسری چھم سنائی نہ دیتی۔ منو بھائی اور جاوید شاہین آپس میں ہکلاتے ہوئے ”گفتگو“ کر رہے ہوتے۔ کشور کے گھر میں جو رونقیں ہوا کرتی تھیں ان کا تفصیلی تذکرہ میں نے ”لاہور آوارگی“ کے باب ”لاہور کے ادبی میلوں“ کے عنوان سے درج کردیا ہے۔ تو اس شام ہندوستان سے ایشیا کے سب سے بڑے اور مہنگے مصور مقبول فدا حسین آئے ہوئے تھے اور کشور کی ایک اوڑھنی پر اور وہ زرد نہ تھی، احمد فراز کو سامنے بٹھا کر اس کا پورٹریٹ بنا رہے تھے اور ہم دونوں لان میں بیٹھے کھانا لگنے کا انتظار کر رہے تھے۔ بہت دیر سے چپ بیٹھے تھے جب انتظار بولنے لگے: ”کیا واقعی اسلام آباد کے درختوں میں پرندے گھونسلے نہیں بناتے۔ سر شام راولپنڈی کو لوٹ جاتے ہیں؟“
میں ان وقتوں میں صبح کی نشریات کی میزبانی کے سلسلے میں اسلام آباد میں مقیم تھا۔ تقریباً دس بارہ برس میرا آنا جانا لگا رہا۔ وہاں جب شام ہوتی تو میرا دل گھبرانے لگتا۔ شام کے ساتھ ایک گہری اداسی اور بے برکتی اترتی۔ ایک بنجر پن اور روکھا پن اترتا۔ اور ہر شام میں دیکھتا کہ ہزاروں کی تعداد میں مختلف پرندے اسلام آباد کے بے روح آسمان پر اڑان کرتے وہاں سے ہجرت کرکے راولپنڈی کی جانب لوٹ رہے ہیں ہر شام دیکھتا۔ احمد داؤد اسلام آباد کا دانائے راز تھا۔ اس میں کوئی کہانی کار یا دوستوں کا دوست نہ ہوگا اس نے مجھے بتایا کہ تارڑ! اسلام آباد ایک مصنوعی شہر ہے، ایک ٹیسٹ ٹیوب بے بی ہے۔ جب اسے بسایا گیا تو اس کی ویران اور بے آب و گیاہ لینڈ اسکیپ کو ہریاول سے ڈھانکنے کی خاطر دوسرے ممالک سے جلدازجلد اگنے اور سایہ دار ہوجانے والے درختوں کے بیج درآمد کرکے انھیں ہیلی کاپٹروں کی مدد سے اس مردہ شہر کی زمین پر بکھیر دیا گیا۔ بے شک وہ شتابی سے قدآور اور گھنے ہوئے پر وہ یہاں کے نہیں تھے۔ ان کے پھولوں کی مہک نے لوگوں کو بیمار کردیا۔ موسم بہار میں ان اجنبی درختوں میں سے پولن کا زہر پھوٹتا ہے اور خلق خدا بیمار ہوجاتی ہے۔ تو پرندوں نے بھی انکار کردیا۔ اس بے روح شہر میں دانہ دُنکا تلاش کرو اور پھر یہاں سے فرار ہوجاؤ۔ اپنے آشیانوں کو لوٹ جاؤ۔ میں نے ”پرندوں کی واپسی“ کے عنوان سے ایک کالم لکھا۔
”جی انتظار صاحب!“
۔”کیا واقعی، کیا واقعی!“ انتظار بار بار کہتے تھے۔ ان کے چہرے پر ایک ایسے بچے کی جھینپی ہوئی مسکراہٹ تھی جو کسی گھونسلے سے چڑیا کا ایک بچہ اتار لایا ہے اور وہ اس کی مٹھی کی آغوش میں پھڑپھڑا رہا ہے۔
کشور کے گھر کے اندر جانے کیا کیا ادبی ہنگامے برپا ہو رہے تھے اور باہر لان میں اس شام ہم صرف پرندوں کے بارے میں باتیں کرتے رہے۔ وہ اپنی کتھا کہتے رہے اور میں عطارکے پرندوں کا تذکرہ کرتا رہا۔ پرندے ایک فلسفۂ وحدت الوجود میں پھڑپھڑاتے اڑان کرتے ہیں۔
بس اس شام یہی کچھ ہم پر اتراپرندے
انتظار حسین لارنس گارڈن کے شیدائی تھے۔
میں نے کسی تحریر میں اعتراف کیا کہ باغ جناح میں ایک گھنا شجر ہے جس کے بھیتر میں کوئی اجنبی پرندہ روپوش ہے اور میں ہر سویر اس سے باتیں کرتا ہوں۔ اس کی کوک کی نقل کرکے کوکتا ہوں اور وہ جواب میں کوکتا چلا جاتا ہے۔
انتظار میری اس تحریر سے حیرت اور انبساط سے بندھ گئے۔ کہنے لگے: ”تارڑ! کیا واقعی۔ وہ شجر ہے؟“
”ہے۔“
”مجھے اس شجر کا اتا پتا بتلاؤکہ کہاں ہے، اگر ہے تو؟“
تب میں نے اس شجر کے جغرافیے سے انھیں آگاہ کیا۔ قائد اعظم لائبریری بلکہ جم خانہ کلب کے دائیں جانب۔ ان دو ہیبت ناک درختوں کے جھنڈ سے ذرا ادھر جن کی شاخوں پر پتے کم ہیں اور چمگادڑیں زیادہ۔ وہاں وہ شجر ہے۔
۔”لیکن انتظار صاحب ! پرندے اپنے اپنے۔ اس شجر میں پوشیدہ پرندہ، میرا اپنا ذاتی پرندہ ہے۔ وہ آپ سے کلام نہیں کرے گا۔“
”پرندہ ہے بھی کہ نہیں؟“
۔”ویسے آپ کے افسانوں میں جتنے جانور بولیاں بولتے ہیں، ہنومان مہاراج لٹکتے پھرتے ہیں اور کتّے زرد ہوئے جاتے ہیں، تو وہ بھی ہیں کے نہیں؟“
انتظار کہنے لگے :”بہرطور کچھوے تو ہیں“۔
انڈیا انٹرنیشنل سینٹر، دلّی ادیبوں کی سارک کانفرنسہم دونوں برابر کے کمروں میں مقیم تھے۔ مجھے صبح کی سیر کی علت لاحق ہے، صد شکر کہ علت مشائخ لاحق نہیں ہے ،تو میں بے چین ہوجاتا تھا کہ کل صبح جوگرز پہن کر کدھر جاؤں گا، کدھر نکلوں گا، کہیں پاکستانی جاسوس ہونے کے الزام میں دھر نہ لیا جاؤں، تو میں نے انتظار سے رجوع کیا کہ ”حضور آپ تو ادھر آتے جاتے رہتے ہیں، آپ کی’ ٹیری ٹوریُو ‘ ہے تو کچھ راہ نمائی کیجیے کہ ادھر کوئی گلشن، کوئی سبزہ زار، کوئی گل و گلزار ہے جس کی سیر کے لیے میں نکل جاؤں۔“
تو انتظار کہنے لگے ”ہائیں آپ کیسے بےخبر ہیں، انڈیا انٹرنیشنل سینٹر دلّی کے سب سے پرفضا اور تاریخی باغ، لودھی گارڈن کے درمیان ایک جزیرہ ہے۔ دونوں نکل چلیں گے۔“
اگلی سویر انتظار مجھ سے پہلے اپنے کُرتے پاجامے میں نستعلیق تیار۔ اور میں شلوار قمیص اور جوگرز میں ملبوس۔ اور واقعی انڈیا انٹرنیشنل سینٹر کا ایک گیٹ کھولا تو لودھی گارڈن کے پتھریلے جہان میں داخل ہوگئے۔ قدیم پتھریلے ویران مقابر، کائی زدہ تالاب، مساجد اجڑی ہوئی، کسی قلعے کی سنگلاخ فصیل دھند میں سے یوں ظاہر ہوتی ہوئی جیسے ڈنمارک کے ہیلنسور قلعے کی قدیم فصیل جس پر ہیملٹ صاحب مٹرگشت کیا کرتے تھے اور فارغ اوقات میں ایک کھوپڑی کے ساتھ ”ٹو بی آر ناٹ ٹو بی“ کی بحث کیا کرتے تھے۔ لودھی گارڈن عجب سراب آمیز تصویراں تھا۔ فصیل کے پہلو میں سیکڑوں مرد و زن، بڑے بوڑھے، نوجوان اور نوخیز گھاس پر چٹائیاں بچھائے یوگا کی ورزشوں میں مشغول تھے اور ان کی یوگا ماسٹر ایک نوجوان مسلمان خاتون فاطمہ نام کی تھی۔
اگلی صبح فاطمہ سے اجازت حاصل کرکے میں بھی یوگا کرنے والوں کی صفوں میں شامل ہوگیا، اگرچہ پچھتایا بہت کہ ذرا سے جھکنے سے ہڈیاں کڑکڑانے لگتیں اور گھٹنوں میں سے ٹخ ٹخ کی آوازیں آنے لگتیں جو ٹخنوں تک چلی جاتیں۔ میں یہ عذاب اس لیے سہتا رہا کہ دشمن ملک ہے یہاں پسپائی اختیار کی تو وطن کی ناموس پر حرف آتا ہے۔ لال قلعے پر جھنڈا پھر کبھی لہرائیں گے فی الحال تو اس سر نگوں ہوتے بدن کو سر نگوں نہ ہونے دیا جائے۔ انتظار ایک فاصلے سے میری حالت زار سے لطف اندوز ہوتے نہایت کمینگی سے مسکراتے تھے، مسجد میں کہنے لگے: ”آپ کو یوگا سے کہاں اس یوگا ماسٹر خاتون سے دلچسپی ہوگی، ورنہ کاہے کو ان بکھیڑوں میں پڑتے۔“
انھوں نے اپنے کسی سفرنامے میں اس یوگا وقوعے کا تذکرہ اپنے انداز میں کیا اور زیب داستاں کے لیے کچھ بڑھا بھی دیا۔ جیسے آج ان کے بارے میں لکھتے ہوئے میں بھی تو کچھ بڑھاتا ہوں کہ ایک نثر نگار کا پیشہ ہی یہی ہوتا ہے کہ وہ جھوٹ کے ذریعے سچ کو آشکار کرے۔
انتظارمیری عورتوں سے بہت نالاں تھے۔
کہا جاتا ہے کہ انتظار کی تحریروں میں عام طور پر عورت ایک شجر ممنوعہ ہے۔ اگر عورت نہ ہوگی تو ناقابل فہم طور پر جنس نہ ہوگی۔ کچھ لذت نہ ہوگی اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان کی ایک کہانی میں جو عورت ہے تو وہ بھی ان کی اہلیہ عالیہ ہیں۔ اور بیوی عورت نہیں ہوتی۔ چنانچہ قابل فہم طور پر انتظار میری ان عورتوں سے بے حد نالاں تھے، جو نہ صرف میری تحریر میں در آتی ہیں بلکہ ادبی میلوں کے دوران میرے گرد ہجوم بھی کرلیتی ہیں۔
یہ نومولود فیصل آباد لٹریری فیسٹیول کا قصہ ہے کہ میں اپنے سیشن سے فارغ ہوکر ادیبوں کے لاؤنج میں چلا آیا اور کوئی درجن بھر بیشتر ادھیڑعمر خواتین میری کتابیں تھامے ان پر دستخط حاصل کرنے کے لیے پیچھے پیچھے چلی آئیں اور یہ معمول کی بات تھی۔ وہاں لاؤنج میں آگ اور پانی ساتھ ساتھ بیٹھے تھے یعنی انتظار حسین اور عبداللہ حسین باہم شیر و شکر ہو رہے تھے۔ تب انتظار نے ان خواتین کو دیکھ کر کہا :”لو جی، تارڑ کی گوپیاں چلی آرہی ہیں۔“
یہ اصطلاح عبداللہ کو بہت پسند آئی اور اس نے اپنا مخصوص سلسلہ وار قہقہہ لگا کر کہا: ”ہاں جی مگر اس عمر میں گوپیاں کارآمد ثابت نہیں ہوتیں۔“ بعدازاں جب کبھی کسی محفل میں کوئی بھی خاتون چاہے وہ ایک دادی اماں ہوں میری جانب بڑھتی تو عبداللہ کہتا :”لو جی، ایک اور گوپی۔“
انتظار سگریٹ نہ پیتے تھے۔ البتہ جب میں سلگانے سے پیشتر ان کی جانب پیکٹ بڑھاتا تو وہ ہمیشہ ایک سگریٹ کھینچ کر نہایت ابتدائی انداز میں اسے سلگاتے اور خواہ مخواہ پھونکتے رہتے، دھواں آنکھوں میں چلا جاتا تو انھیں مسلنے لگے۔ اور ہاں بقول غالب غالب چھٹی شراب مگر اب بھی کبھی کبھی ۔ تو انتظار بھی کبھی کبھی۔ بہ قدرِ اشکِ بلبل۔ وہ بھی کبھی کبھی!۔
پچھلے برس(2015)۔ یہی مہینے تھے، جون جولائی کے، میں نیشنل اسپتال کے ایک کمرے میں کچھ طویل آپریشنوں کے بعد درجن بھر ٹیوبوں میں پرویا ہوا، آکسیجن ماسک میں سے سانس لیتا ہوا، پڑا ہوں سلجوق اور عینی امریکا سے آچکے ہیں اور سمیر کے چہرے پر مایوسی ہے، میمونہ کچھ نہ کچھ پڑھتی مجھ پر پھونکتی ہے۔
میں چنگا بھلا تھا، ایک روز ایک سانس لیا تو دوسرا سانس آنے سے انکاری ہوگیا۔ سانس کی نالی میں کوئی اٹک آگئی۔ بہو نے 112 کو فون کردیا۔ سمیر تلاوت کرنے لگا اور مونا رونے لگی۔ سانس کا آخری گھنگھرو بسنے لگا اور پھر کوئی معجزہ ہوا اور رکا ہوا دم بحال ہوگیا۔ بچے بدتمیز ہوگئے، مجھ پر حکم چلانے لگے۔ ابو اپنا مکمل میڈیکل معائنہ کروائیے۔ شوکت خانم سے معائنہ کروایا تو الٹرا ساؤنڈ میں سوائے دل کی معمولی بے ترتیبی کے سوا کچھ نہ تھا۔ البتہ جگر کو ایک جھلّی نے پوری طرح اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ یہ جھلّی کسی بھی لمحے پھٹ کر اپنا زہر میرے بدن میں پھیلا کر مجھے موت سے ہمکنار کر سکتی تھی۔ ڈاکٹر محمود ایاز نے مشورہ دیا کہ پرسوں آئیے، معمولی سا آپریشن ہے، دو روز بعد گھر چلے جائیے۔ اور جب انھوں نے آپریشن تھیٹر میں میرا بدن چاک کیا تو وہاں بہت کام رفو کا نکلا۔ دس روز بعد انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں قیام کے بعد جب میں اک شب گھر واپس جانے کی تمنا میں تھا تو میڈیکل کے فرشتے مجھے لینے آگئے کہ الٹراساؤنڈ ٹیسٹ کے دوران ایک عجیب دریافت ہوئی ہے۔ آپ کے بدن کے اندر مردہ آنتوں کا مجموعہ ہے جس نے آپ کے پورے نظام کو بلاک کردیا ہے، اس لیے آپ کی صحت گرتی چلی جاتی ہے۔ اس مجموعے یا گولے کو نکالنا ہے۔
”کب؟“
”ابھی!“ اور وہ سب کے سب سرجن محمود ایاز کے نائب فرشتے میرے بستر کے آس پاس کھڑے تھے۔
”کل کیوں نہیں؟“ میں ڈر گیا۔
”نہیں، ابھی۔“
میں نے صرف عینی کی جانب دیکھا اور اسے ڈاکٹر محمود ایاز نے اجازت دے رکھی تھی کہ وہ میرے آپریشن کے دوران تھیٹر میں موجود رہ سکتی ہے۔ اور عینی نے سر ہلادیا کہ ہاں ابّو.... ابھی۔ چنانچہ میں ایک مرتبہ پھر دریدہ بدن ہوا۔
کمرے کے باہر واضح طور پر ”نو وزیٹر الاؤڈ“ کی تختی نصب تھی۔ اگرچہ میں نے اپنے میڈیا کے دوستوں کو سختی سے منع کیا کہ میری بیماری کا چرچا نہیں کرنا۔ اسے ایک ”بریکنگ نیوز“ نہیں بنانا۔ یعنی گلدستے چلے آرہے ہیں، صحت یابی کی دعائیں کی جا رہی ہیں، یہ مجھے نہیں منظور۔
اور اس کے باوجود.... آئرلینڈ کے ایک چرچ میں، لاہور کے کیتھڈرل چرچ میں اور سندھ کے کنڈیارو کی جامع مسجد میں درجنوں حافظ قرآن میرے لیے دعائیں کر رہے ہیں۔
تو ان موسموں میں یہ عبداللہ حسین تھا جو دندناتا ہوا اپنی وہیل چیئر پر براجمان میرے کمرے میں داخل ہوتا ہے۔ میں اس کے چہرے پر موت کی زرد پرچھائیاں دیکھ سکتا ہوں کہ اسے خون کا سرطان لاحق ہے۔ ابھی چند روز بعد مرنے والا ہے۔
وہ کہتا ہے ’:’یہ جناب عالی تم نے کیا ڈراما رچا رکھا ہے۔ اس بستر پر تو مجھے ہونا چاہیے تھا تو تم کیوں لیٹے ہوئے ہو۔ دراصل تم اصل میں ایک اداکار ہو۔ ہمیشہ لائم لائٹ میں رہنا چاہتے ہو۔ اس لیے یہاں آکر لیٹ گئے ہو۔“
وہ ہمیشہ مونا کو کہتا تھا کہ آپ تو میری گرل فرینڈ ہو۔
اس سے مخاطب ہوکر کہنے لگا :”مونافکر نہ کرویہ اداکاری کر رہا ہے۔ بیمار شمار نہیں ہے۔“
یہ عبداللہ حسین کے ساتھ میری آخری ملاقات تھی۔
شاید وہی دن تھا یا اگلا دن تھا۔ میں تو نیم مدہوش تھا۔ مجھے کیا خبر کہ کون آیا کون گیا۔
تب سلجوق نے میرے کان میں سرگوشی کی: ”ابّو انتظار صاحب آئے ہیں۔“
میں نے اپنے چہرے سے آکسیجن ماسک ہٹا کر دیکھا تو بستر کے برابر میں انتظار صاحب جھکے جھکے سے تھے۔ جھکے ہوئے میرے جھاڑ جھنکار ناتواں چہرے کو تشویش سے تکتے تھے۔ مسعود اشعر ان کے ہمراہ تھے۔ مجھ میں کچھ کہنے کی سکت کہاں تھی۔ میں ناتوانی میں جتنی بھی شکرگزاری چہرے پر طلوع ہوسکتی ہے اس کی آمد سے مسکراتا رہا اور انتظار باتیں کرتے رہے۔
بھئی! تم نے اپنی بیماری کی خبر کیوں نہ کی۔ کسی کو کچھ بھی نہیں بتایا۔ کیوں نہیں بتایا؟ تم اسپتال کے بستر پر یوں پڑے اچھے نہیں لگ رہے۔ ٹھیک ہوجاؤ۔ انھوں نے کہا تو نہیں لیکن ان کی آنکھوں میں شرارت کا ایک شرارہ دمکا ،جو کہتا تھا تمہارے گوپیاں تمہارا انتظار کرتی ہیں۔ میں نے دھیمی آواز میںمسعود سے شکایت کی کہ تم انھیں کیوں لے آئے ہو۔ لاٹھی کے سہارے چلتے ہیں، جانے کیسے سیڑھیاں چڑھ کر آئے ہیں۔ نہیں لانا تھا۔
تو جیساکہ اس کاایک مخصوص انداز ہے، مسعود دونوں ہاتھوں کو نِرت کے انداز میں نچا کر کہنے لگے۔” بھئی! میں کیا کرتا، یہ مانتے ہی نہیں تھے۔ انھیں خبر ہوئی تو بے چین ہوگئے، کہنے لگے مجھے لے چلو۔ تارڑ کا حال اچھا نہیں ہے تو میں نے اسے دیکھنے کے لیے جانا ہے۔ بھئی! یہ کیا بات ہوئی کہ وہ بھی بیمار پڑ گیا ہے، مجھے لے چلو۔“
یہ کل کی کہاں آج کی بات ہے۔ سمیر نے مجھ سے پوچھا کہ ابّو ان دنوں کیا لکھ رہے ہو؟ میرے بچے بھلے وہ جو میں لکھتا ہوں اسے پڑھیں یا نہ پڑھیں، لیکن مسلسل ٹوہ میں رہتے ہیں کہ قبلہ والد صاحب جو رات گئے تک جاگتے ہیں تو ان دنوں کیا لکھ رہے ہیں۔ کچھ لکھ بھی رہے ہیں یا شبینہ غیرشرعی سرگرمیوں میں مشغول ہیں۔ میرے آپریشنوں کے بعد کڑی نظر رکھتے ہیں، تو میں نے سمیر کو بتایا کہ ان دنوں میں انتظار کی رفاقت میں شبیں بسر کر رہا ہوں۔ میں نے پچھلی شب اسے دیکھا تھا کہ وہ لاٹھی ٹیکتا پریشان حال نیشنل اسپتال کے کمرہ نمبر 24 میں داخل ہو رہا ہے اور میں بستر پر ٹیوبوں میں پرویا ہوا، آکسیجن نقاب چہرے پر چڑھائے سانس لیتا ہوں اور وہ کہتا ہے تارڑ! تم اسپتال کے بستر پر لیٹے ہوئے اچھے نہیں لگتے۔
تب سمیر کہنے لگا۔ ابّو جب ایرج مبارک نے فون کرکے کہا تھا کہ انتظار صاحب آپ کے ابّو کو دیکھنا چاہتے ہیں ،تو جب وہ آئے تو ہم نے آپ کی ٹیوبیں اور ان سے منسلک متعدد پلاسٹک کے تھیلے سمیٹ کر آپ کو ایک وہیل چیئر پر بٹھادیا تھا۔
یہ دیکھیے۔
مجھے اب تک کچھ خبر نہ تھی۔ سمیر میری بے خبری میں یقینا اس خیال سے کہ مجھے یہ لمحات کیمرے میں محفوظ کرلینے ہوں گے، اس کے نزدیک اس کا باپ ایک تاریخ تھا، جس کا ریکارڈ رکھنا اس کا فرض تھا۔ مسلسل تصویریں اتارتا رہا تھا۔ جب میں خوش و خرم حالت میں تھا، جب مجھے آپریشن تھیٹر کی جانب لے جایا جا رہا ہے اور سرجن حضرات چہروں پر سفید نقاب اوڑھے میرے اسٹریچر کے ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں، کمپیوٹر کی اسکرین پر دل کی دھڑکن کبھی کبڑی ہوتی ہے پھر ایک لمحے کے لیے ہموار ہوکر پھر سے سنبھل جاتی ہے۔
یہ دیکھیے سمیر نے کہا۔
کمپیوٹر اسکرین پر وہ کمرہ کسی اسپتال کا نہیں، کسی باذوق ڈرائنگ روم کا لگتا ہے۔ گل دانوں میں سرخ پھول، دیواروں پر معروف مصوروں کی تصویریں آویزاں، بڑی کھڑکی کے راستے دھوپ اترتی ہوئی، بستر پر ایرج مبارک، میں وہیل چیئر پر۔ یہ کون ہے، کسی قبر میں سے برآمد ہونے والا ڈھانچا، لیکن مسکراتا ہوا کہ سامنے کے صوفے پر انتظار اورمسعود براجمان مجھ سے باتیں کر رہے ہیں۔ ہم گفتگو کر رہے ہیں لیکن ویڈیو میں کچھ خلل آگیا ہے، صاف سنائی نہیں دے رہا کہ ہم کیا کہہ رہے ہیں۔ انتظار ہاتھ بلند کرکے مجھ سے کچھ کہہ رہے ہیں، مسعود عینک سنبھالتے مسکرا رہے ہیں اور میں انتظار کی آمد کی خوشی میں باتونی ہوا جاتا ہوں۔
اسکرین پر منظر یوں زندہ ہے کہ گمان تک نہیں ہوتا کہ لاٹھی کا سہارا لیتا ایک شخص جس کے خدوخال کھڑکی میں سے اترنے والی دھوپ کی زد میں آکر ایک مجسمے کی صورت دکھائی دے رہے ہیں، وہ اب زندہ نہیں ہے۔
ویڈیو کی آواز میں رکاوٹ ہے، جو کچھ بولا جا رہا ہے مبہم اور بجھا بجھا سا ہے، لیکن یہ طے ہے کہ موروں کی باتیں ہو رہی ہیں۔ انھی دنوں کسی ادبی مجلے میں ”اور سندھ بہتا رہا“ کا ایک باب شایع ہوا تھا جس میں ننگرپار کر اور تھر کے صحرا ؤں میں مرنے والے موروں کا تذکرہ تھا۔ ہم ادھر موروں کے بیری ہوگئے تھے۔ انھیں ہلاک یا حلال کرکے اپنی دعوتوں میں بھونتے تھے، تو وہ اپنی جان بچانے کی خاطر سرحد کے پار چلے گئے کہ وہاں کے لوگ انھیں اپنے من مندر میں سجاکر ان کی پوجا کرتے تھے۔ اور اُدھر سور دندناتے تھے ،وہی لوگ جو موروں کے پرستار تھے، انھیں بھون کر کھا جاتے تھے چنانچہ سور حضرات بھی اپنی جان بچانے کی خاطر سرحد پار کرکے ادھر پاکستان چلے آئے اور پھر ادھر آس پاس قیام نہ کیا۔ پورے ملک میں پھیل گئے۔ یعنی ہم ایسے سوداگر تھے جنھوں نے موروں کے بدلے میںسورحاصل کرلیے۔
انتظار نے یہ تذکرے مور وںاورسوروںکے پڑھ رکھے تھے۔
”تو ننگرپارکر کے کاسبو قصبے میں اب بھی مور مقدس ہیں اور اڑانیں کرتے پھرتے ہیں۔ تو یہ مور تھرپارکر کے مرتے کیوں جاتے ہیں؟“
مسعود اشعر کہتے ہیں: ”وہ ایک پرندوں کے لیے جان لیوا بیماری رانی کھیت میں مبتلا ہوکر مر رہے ہیں۔ یہ بیماری مرغیوں کو بھی ہوجاتی ہے“۔
”بھئی! مرغیاں تو مور نہیں ہوتیں۔“
پرندے تو ہوتی ہیں انتظار!“۔"
اس دوران ایرج مبارک کچھ کہتے ہیں اور میں کہتا ہوں: ”آپ یکدم کیوں کود پڑے؟“
وہ خفا سے ہوجاتے ہیں۔ ایرج نثری نظم کے سب سے بڑے مبلغ مبارک احمد کے بیٹے ہیں،۔
ادب کی پہچان رکھتے ہیں اور انھوں نے اپنے آپ کو انتظار حسین کی دیکھ بھال کے لیے وقف کردیا۔
انتظار فراموش کرچکے ہیں کہ وہ میری خبر گیری کے لیے آئے ہیں اور میں نے کچھ لمحوں کے لیے آکسیجن ماسک اتار دیا ہے۔ وہ موروں میں مبتلا ہوچکے ہیں۔
اب میں رطب اللسان ہوں۔بھول چکا ہوں کہ میرے پیٹ پر ٹانکوں کی ایک کشیدہ کاری ہے، نصف درجن سے زائد سوراخ ہیں جن میں پیوستہ ٹیوبوں کے سہارے میں سانس لیتا ہوں اور میری ناک میں سے ایک ٹیوب میرے معدے میں اترتی ہے۔ تو میں کہتا ہوں: ”انتظار صاحب! مور میرے تھے۔ گھٹا گھنگھور گھنگھور، مور مچاوے شور والے مور ہیں۔ لیکن گوجرانوالہ کی ثریا شیخ کا گیت ’من مورا ہوا متوالا رے، یہ کس نے جادو ڈالا رے‘ میرے من کو متوالا کرتا جادوکر ڈالا رے۔
مسعود اپنی عینک کو اڑستے ہوئے کہتے ہیں: ”واہسبحان اللہ! کیا گیت ہے۔“
تب سلجوق کہتا ہے کہ ”انتظار صاحبابّو تھک گئے ہیں۔“
”بھئی! تم ٹھیک ہوجاؤ۔ یوں تو اچھے نہیں لگتے۔“
اور وہ تینوں رخصت ہوجاتے ہیں۔ مجھے سمیر نے بتایا کہ وہ انکل عبداللہ حسین کی خبر گیری کے لیے بعدازاں ان کے گھر گئے تھے۔ عجب کہانی ہے کہ آگ، پانی کی خبر لینے جاتی ہے۔ یعنی اصل میں آگ اور پانی ایک ہیں، ہمیں ہی فریب میں مبتلا کر رکھا ہے کہ ہم جدا ہیں۔
اس روز میں نے انتظار کا ایک ایسا روپ دیکھا جو میرے گمان میں بھی نہ تھا۔ اس کے چہرے پر تشویش کی جو پرچھائیاں تھیں، ان کے سوا میرے لیے ایک پدرانہ محبت کا چراغ بھی جلتا تھا۔ مجھے اس شفقت اور قربت کی توقع نہ تھی۔ میں تو جی اٹھا، ان کی فکرمندی اور الفت بھری بے چینی میرے بدن میں پیوستہ ٹیوبوں میں سرائیت کرکے، میری شریانوں اور رگوں میں رواں یوں ہوئی کہ میں صحت مند محسوس کرنے لگا۔
رخصت ہوتے ہوئے بھی انھوں نے یہی کہا :”تارڑ! تم اچھے نہیں لگتے اسپتال کے بستر پر لیٹے ہوئے، اچھے ہوجاؤ۔“
بدھ حکایتوں میں بیان ہے کہ مہاتما بدھ سے پیشتر بہت سے بدھ پیدا ہوئے۔ ان کی موت کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہا ۔ یہ بودھی ستوا کہلائے۔ تو اگر آج کے زمانوں کا ایک بودھی ستوا میرے لیے دعا کرتا ہے کہ تم اچھے ہوجاؤتو میں کیسے اچھا نہ ہوجاتا، میں ہوگیا۔
میں تو اچھا ہوگیا پر عبداللہ حسین نہ ہوا۔ خون کے کینسر کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔ کومے کی تاریکی میں اترنے سے پیشتر اس کی اکلوتی بیٹی نور کا کہنا ہے کہ اس کا آخری فقرہ یہ تھا کہ جانے مستنصر کا کیا حال ہے۔
کچھ دنوں بعد ابھی میرے پیٹ پر چیر پھاڑ کے زخم بھرے نہ تھے، میں ایک مرتبہ پھر نیشنل اسپتال کے انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں داخل ہوتا ہوں جہاں میں نے ابھی حال ہی میں کچھ روز و شب قضا سے لڑتے جھگڑتے گزارے ہیں۔ کبھی آر کبھی پار جاتا تھا، میں اس کے ایئر کنڈیشنڈ ماحول میں قریب المرگ لوگوں کے آخری سانسوں کو سنا کرتا تھا، میں یہاں اجنبی نہ تھا لیکن آج ایک بستر پر مصنوعی تنفس کی ٹیوبوں سے پرویا ہوا ایک بوڑھا بدن پڑا تھا۔ پڑا تو نہ تھا، سانس کھینچنے کی کشمکش میں پھڑکتا تھا۔ جیسے ایک پرندہ جان کنی کی حالت میں پھڑکتا ہے۔ اس کا چہرہ آکسیجن ماسک سے ڈھانپا ہوا تھا، کون تھا؟
اس وارڈ میں داخلے کی اجازت نہ تھی، ایک نوجوان ڈاکٹر نے مجھے پہچان لیا کہ سر! آپ بھی تو کچھ دن پہلے اس وارڈ میں مقیم ہوا کرتے تھے۔ اس نے مجھے اندر آنے دیا۔
”انتظار حسین یہی ہیں؟“
جی سر!“۔"
”آر یُو شور؟“
”جی سر! ان کے سرہانے آویزاں میڈیکل ہسٹری کی رپورٹ پر یہی نام درج ہے۔“
میں پہچان نہیں پا رہا تھا، چہرہ آکسیجن ماسک سے ڈھکا ہوا تھا، بقیہ بدن کسی بھی زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا شخص کا ہوسکتا تھا۔ جو سانس کی کھینچا تانی میں بسمل ہوتا تھا، میں قریب نہ جاتا تھا، دور سے دیکھتا تھا۔
”کچھ امید ہے؟“
”تارڑ صاحب! ڈاکٹروں کی کوڈ میں شامل ہے کہ وہ ہمیشہ ڈھارس بندھاتے ہیں۔ امید کا دامن کبھی نہیں چھوڑتے، تسلی دیتے ہیں، یقینی موت کا بھی اقرار نہیں کرتے، لیکن صرف آپ سے کہتا ہوں کہ نہیں!“۔
”کیا حیات اور شعور کی کسی بھی نامعلوم سطح پر، وہ آگاہ ہیں کہ وہ کہاں ہیں؟ ان کے آس پاس کون ہے یا وہ مکمل طور پر ایک بےخبری کی حالت میں ہیں۔“
”تارڑ صاحب! آپ ان کے نزدیک جاکر، ان کے کان میں انھیں پکاریے شاید وہ سن رہے ہوں۔“
نوجوان ڈاکٹر نے پیشکش تو کردی لیکن میں جھجک گیا، ایک خوف میں مبتلا ہوگیا، جب میرا سانس رک رہا تھا اور میرے گلے میں سے ایک خرخراہٹ موت کی برآمد ہوتی تھی تو اس لمحے میں نہیں چاہتا تھا کہ کوئی بھی مجھے پکارے۔ مدد کی کوشش کرے کہ یہ میرے اور فنا کے درمیان ایک کشمکش جاری تھی اور کوئی بھی اس جنگ میں میری مدد نہیں کرسکتا تھا۔
اس لیے میں نے انتظار کو نہ پکارا۔ کیا جانیئے، اگر اس کشمکش کے دوران موت سے مبارزت کے لمحوں میں اگر انھیں کہیں دور سے میری آواز سنائی دے جاتی ،جبکہ وہ مدہوش ہوتے۔ جانے کون ہے جو مجھے پکارتا ہے اس کا تعین نہ کرسکتے۔ بلکہ انھیں میری پکار، انتظار سے مزید اذیت ہوتی، تو میں نے انھیں پکارا نہیں۔
دوپہر ہوچکی تھی۔ابھی تک کوئی بھی ان کی خبرگیری کے لیے آیا نہ تھا۔ انتظار تنہا پڑے تھے۔
”پچھلے پہر کچھ لوگ آئیں گے۔“ نوجوان ڈاکٹر نے بتایا۔
انتظار اپنے کالموں میں میری خبر لیا کرتے تھے، اکثر بےوجہ لیا کرتے تھے اور آج میں ان کی خبر لینے آیا تھا تو وہ بےخبر پڑے تھے۔ نہ کوئی شہرزاد ان کی مدد کو پہنچی، نہ کوئی جاتک کہانی اور نہ ہی کوئی زرد کتّا۔ اگلے روز وہ مرگئے۔اور یہ میری دعا کا اثر تھا کہ وہ مرگئے۔ ان کی حالت دیکھ کر جب کہ وہ بستر پر صرف ایک سانس کھینچنے کے لیے تڑپتے تھے میں نے دعا کی تھی کہ یا اللہ! یہ ایک بھلا اور معصوم شخص تھا ،اسے امتحان میں نہ ڈال، اس کی منزل آسان کردے، اسے اپنے پاس بلالے۔ ایک ایسی ہی دعا میں نے اپنے ابّا جی کے لیے کی تھی۔ وہ بھی قبول ہوگئی۔
انتظار پر بہت الزام لگے اور ان میں ایک یہ تھا کہ وہ نوسٹلجیا کا پیغمبر تھا۔ ماضی کے قبرستانوں میں دیے جلاتا تھا۔ حکایتوں اور کہانیوں کے تانے بانے میں الجھا، لمحہ موجود کی حقیقتوں کا سامنا نہ کرتا تھا۔ مجھے بھی شکایتیں تھیں کہ لاہور میں ایک عمر بسر کرنے کے باوجود کبھی لاہوری نہ ہوا۔ نہ پنجابی زبان سے آشنائی کی اور نہ مقامی ثقافت کے گیت گائے۔ اپنی ڈبائیوں میں ہی ڈوبا رہا۔ اس کی تحریروں میں بے شک دجلہ اور فرات آئے، گنگا اور جمنا کے دھارے رواں ہوئے پر اس کی کہانیوں میں راوی، چناب اور سندھ کے پانیوں پر کوئی داستانوں کی بادبانی کشتی نہ تیری۔ اور پھر جوانی کی جنوں خیزی کے بعد جب یکدم میں بڑھاپے کی خزاں میں اترا تو مجھ پر کھلا کہ بیشتر بڑے ادب نوسٹلجیا کی کوکھ میں سے جنم لیا ہے۔ میں اگر آج بھی لاہور کے ان تین گھروں کی بالکونیوں، برآمدوں، صحنوں، شب براتوں، بسنت دنوں اور دیوالی کی راتوں کو یاد کرتا ہوں جن میں میری حیات بسر ہوئی تو وہ لوگ جب کہ میں تو بچھڑا بھی نہیں، لاہور میں ہی ادھر ادھر ہوتا رہا اور وہ لوگجو ہمیشہ کے لیے بچھڑ گئے۔ ہر صحن، ہر قبر اور ہر شجر سے اور شجر پر کوکنے والے ہر پرندے سے، اپنے پہلے عشق چھوڑ آئے، آباواجداد کی مٹی سے جدا ہوگئے، بچھڑ گئے تو ان پہ کیا گزرتی ہے یہ میں تو نہ جان سکتا تھا، صرف وہی جانتے تھے، جن پہ وہ گزری ہے تو اگر وہ اپنی تحریروں میں بچھڑ چکے موسموں اور اپنے لہجوں کو یاد کرتے ہیں تو برا نہیں کرتے۔ اگر میں اپنے دریا ؤں کے پانیوں اور ان کی سطح پر ٹھہری ہوئی دھند میں روپوش پرندوں اور لاہور کی گلیوں سے ہمیشہ کے لیے جدا ہوجاتا تو میں بھی ایک نوحہ گر ہوتا۔
کیا عبداللہ حسین، عزیز احمد، قرة العین حیدر، خدیجہ مستور، کرشن چندر، بیدی اور بلونت سنگھ نوسٹلجیا کے شکار کبھی نہ کبھی نہیں ہوتے۔ میلانکنڈیرا اپنے چیکوسلواکیہ، نجیب محفوظ اپنے قاہرہ، پاشا کمال اور پاموک اپنے اناطولیہ اور استنبول، سونرے نتسن یہاں تک کہ اسماعیل کدارے اپنے البانیہ کی اجڑ چکی تہذیبوں اور بستیوں کے نوسٹلجیا میں سے اپنی فکشن کی شراب کشید نہیں کرتے۔ اگر انتظار نے ایسا کیا تو کیا برا کیا، اچھا کیا۔
جیسے برنارڈ شا کے ڈرامے ”پیگ ملین“کو ایک میوزیکل کی صورت ”مائی فیئر لیڈی“ کے نام سے تھیٹر میں پیش کیا گیا اور اس کا ایک گیت بہت مقبول ہوا۔ ”مجھے تمہارے چہرے کی عادت ہوگئی ہے“ تو کیوں مجھے بھی اپنی ادبی جبلت کی محفلوں، دعوتوں، تقریبات اور ”مشرق“ کے سیڑھیوں پر چڑھتے انتظار حسین کے چہرے کی عادت ہوگئی تھی۔ وہ ایک مسلسل اور ہمہ وقت اور ہمہ موسم موجودگی یوں تھے جیسے لاہور کا عجائب گھر، جنرل پوسٹ آفس اور اس کے فٹ پاتھ میں سے برآمد ہوتا قدیم برگد، یا پھر لاہور کی سب سے عالی شان اور پرشکوہ عمارت، بابا ڈِنگا سنگھ بلڈنگ اور اس کے پرشوکت گنبد کے چار گھڑیال، یا پھر پاک ٹی ہاؤس، فرض کیجیے آپ کسی سویر باغ جناح جانے کے لیے گھر سے نکلتے ہیں۔ مال روڈ اور بیڈن روڈ کے سنگم پر واقع ڈِنگا سنگھ بلڈنگ کی جانب یوں ہی نگاہ کرتے ہیں تو نظر ٹھٹھک جاتی ہے کہ وہاں ایک خلا ہے۔ ڈِنگا سنگھ بلڈنگ جہاں تھی وہاں صرف ایک خلا ہے تو آپ کو ایک دھچکا تو لگے گا، یقین تو نہ آئے گا، صدمہ تو ہوگا۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ لاہور ہو، مال روڈ ہو اور وہاں ڈِنگا سنگھ بلڈنگ نہ ہو۔ اس کے چار گھڑیال منادی نہ کرتے ہوں تو ایسے ہی آج انتظار وہاں نہیں، جہاں اکثر ہوا کرتے تھے تو ہر بار کسی محفل میں داخل ہوتے ہی دھچکا لگتا ہے، کسی ادبی محفل میں ان کا چہرہ دکھائی نہیں دیتا تو صدمہ ہوتا ہے۔ وہ بھی تو ایک طرح سے ادب کے بابا ڈِنگا سنگھ تھے۔ ڈِنگے یعنی قدرے ٹیڑھے تھے۔ سمجھ میں نہ آتے تھے، اور یہ بھی سمجھ میں نہیں آتا کہ کدھر چلے گئے۔ یہیں کہیں تھے، جانے کدھر چلے گئے۔ ناصر کاظمی کے ساتھ لاہور کی رات میں کہیں آوارہ ہوئے اور ابھی تک واپس نہیں آئے۔ سب منتظر ہیں، چرند پرند، بندرابن، زرد کتّے، غاروں میں خوابیدہ لوگ، فرات اور دجلہ، کوفہ اور بغداد، کراچی اور لاہور، کرشن کی بانسری اور دف بجانے والی مدنی لڑکیاں، بدھ کے برگد، گنگا اور جمنا کے پانی، حسینی براہمن اور بنارس کے بسم اللہ خان کی شہنائی، دلّی کی گلیاں اور زبان کے کرشمے، لہجے کے معجزے اور میری گوپیاں، سب کے سب منتظر۔ میں سمجھتا ہوں کہ جیسے عبداللہ حسین نے خوش دلی سے قہقہہ لگا کر کہا تھا کہ تارڑ اگر انتظار نوّے برس کا ہوگیا تو مجھے خدشہ ہے کہ وہ سو برس کا بھی ہوجائے گا۔ انتظار نے ابھی جینا تھا۔ حلقہ ارباب ذوق کی ادبی کانفرنس میں، دن بھر کی شمولیت اور پھر اس شب نہ صرف اپنے آپ کو فروخت کرنے والے بلکہ دیگر ادیبوں کو بھی بہلا پھسلا کر اہل اقتدار کے سامنے حاضر کرکے انھیں بھی فروخت کردینے والے صاحب انتظار کی منت سماجت کرکے انھیں واپڈا ہاؤس کی چھت پر ایک ڈنر کے لیے لے گئے اور موسم ٹھنڈک اور برفیلے مزاج والے تھے، کھلی چھت پر، انتظار کو سردی لگ گئی، انھیں نمونیہ ہوگیا۔
انھوں نے اسے معمول کا بخار جانا، پھر طبیعت بگڑنے لگی تو ان کے ایک عزیز ڈاکٹر نے تسلی دی کہ آپ اسپرو یا ڈسپرین کی گولیاں پھانک لیجیے۔ انتظار احتجاج کرتے رہے کہ میری طبیعت بگڑتی جاتی ہے پر کسی نے دھیان نہ کیا، یوں سب کچھ بگڑ گیا۔
نصرت فتح علی نے بری نظامی، ایک غیرمعروف لائل پوری شاعر کا کلام گایا تھا کہ:
وِگڑ گئی اے تھوڑے دِناں توں
دوری پے گئی اے تھوڑے دِناں توں
یعنی چند روز سے سب کچھ بگڑ گیا ہے، چند روز سے دوری ہوگئی ہے۔
چنانچہ سب کچھ بگڑ گیا اور ہمیشہ کی دوری پڑ گئی۔
میں نے نیشنل اسپتال کے انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں جب انتظار حسین کو بستر پر صرف ایک سانس کی آرزو میں پھڑکتے دیکھا، تو کیا لکھا کہ موت، ایک انسان کی سب سے بڑی بے عزتی ہے، بے حرمتی ہے۔ یہ تو کسی کی بھی توقیر نہیں کرتی، کچھ لحاظ نہیں کرتی۔ چہرہ بگاڑ دیتی ہے، بہت ظلم کماتی ہے۔ وہ جو کوزہ گر ہے، اپنی من مرضی سے کوزے بناتا ہے، انھیں اپنی شکل میں ڈھالتا ہے، خود ہی بناتا ہے تو پھر خود ہی کیوں بگاڑ دیتا ہے، تو نہ بنائے، کیوں اسے ایک انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں یوں بگاڑتا ہے کہ وہ پہچانا ہی نہ جائے اور میں پوچھوں کہ کیا یہی انتظار حسین ہیں۔
جیسے میرے ناول ”خس و خاشاک زمانے“ کا امیر بخش دریائے چناب کے پانیوں پر معلق سرما کی دھند میں ایک ست رنگے پرندے کی صورت ڈوب جاتا ہے، تو کچھ عجب نہیں کہ اگر میں کسی سویر باغ جناح میں جا نکلوں۔ اس قدیم شجر کی گھناوٹ تلے کھڑے ہوکر اس میں پوشیدہ اپنے یار پرندے کو پکاروں جو مجھ سے باتیں کیا کرتا تھا ،تو وہاں سے جواب آئے۔ اب ڈھونڈو مجھے اپنی گوپیوں کے چراغِ رُخ زیبا لے کر۔ وہ جو تمھاری تحریروں میں عطار کے پرندے اڑان کرتے تھے۔ میں ان میں شامل ہوچکا، سچ کی تلاش میں نکل چکا، مجھے اب مت پکارو۔
کارِ جہاں دراز ہے‘ اب مرا انتظار
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں