منگل, ستمبر 16, 2014

"سفردرسفر از اشفاق احمد"

 سفردرسفر از اشفاق احمد پر میرا اظہار۔۔۔۔
دل کی آنکھ ہر ایک کے پاس ہوتی ہے بس کھلتی کسی کسی کی ہے۔ 
 خلیل جبران،احمد فراز،پروین شاکر کے لفظوں کی خوشبو میں کھو جانے کے بعد"سفر درسفر" کی صورت اچانک جیسے ایک نئی دنیا دریافت ہوئی۔۔۔میری اپنی دنیا۔۔۔۔ جہاں اگر وجود سےاُٹھنے والی ہر مہک کا سراغ ملتا تھا تو میری ہر محبت میرے سامنے کھڑی مسکراتی تھی۔۔۔۔باہیں پھیلا کر کہتی تھی۔۔۔۔ آؤ مجھے چھو لو۔۔۔۔۔
 یہ وہ کتاب ہے جس نے میرے خیال کی وسعت کو مہمیز کیا۔ پہاڑوں اور نظاروں کی قربت کی خواہش روح کی پکار بنتی گئی تو کہیں پر یہ انسانوں کو سمجھنے اور برتنے کی سرگوشیاں بھی کرتی تھی۔
تیس برس پہلے پڑھی گئی اس کتاب  میں سےاپنی ڈائری پر اسی وقت درج ذیل لفظ نوٹ کیے۔۔ایسی کتاب ایسے لفظ جو آج بھی میرے اندر سانس لیتے ہیں۔




سفردرسفر سے اقتباسات۔۔۔۔
صفحہ۔28۔۔
 پہاڑوں میں،کھوئی ہوئی محبتیں اوربھولی ہوئی یادیں پھر لوٹ آتی ہیں۔جس طرح بارش کےدنوں میں باہر بوندیں پڑتی ہیں تو انسان کے اندر بھی بارش ہونے لگتی ہے۔اوپر سے تو ٹھیک رہتا ہے،لیکن اندر سے بالکل بھیگ جاتا ہے۔اس قدر شرابور کہ آرام سے بیٹھنے کی کوئی جگہ باقی نہیں رہتی۔ یہی کیفیت پہاڑوں میں جا کر ہوتی ہے۔ کیسا بھی اچھا ساتھ کیوں نہ ہو انسان تنہا ہو کر رہ جاتا ہے۔اور اداسی کی دھند اسے چاروں طرف سے لپیٹ لیتی ہے۔اندرآہستہ آہستہ اندھیرا چھانے لگتا ہے اورباہر کیسی بھی دھوپ کیوں نہ کھلی ہو،کیسی ہی ٹھنڈی ہوا کیوں نہ چل رہی ہو اندر ٹپاٹپ بوندیں گرنے لگتی ہیں اور شدید بارش ہو جاتی ہے۔اوراندر سے بھٹکا ہوا انسان باہر کے آدمیوں کے کام کا نہیں رہتا۔ان کا ساتھی نہیں رہتا۔
صفحہ۔36ََ۔۔۔
منزل قریب ہونے  آ جانے پر مسافر ایک دوسرے سے اورساربان سے دور ہونے لگتے ہیں۔ منزل بھی کیا محبوب ہے کہ جب قریب آتی ہےتو محبت کرنے والے ایک دوسرے کے رقیب بن جاتے ہیں۔ 
 میں نے رقیبوں کو محبت کی آگ میں جلتے اوربھسم ہوتے دیکھا ہے۔ پھر ان کی راکھ کو کئی دن اور کئی کئی مہینے ویرانوں میں اڑتے دیکھا ہے۔ان لوگوں سے بھی ملا ہوں،جو محبت کی آگ میں سلگتے رہتے ہیں اورجن پر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہلکی سی تہہ چڑھ جاتی ہے۔پھراور وقت گزرنے پر دور پار سے ہوا کا جھونکاگزرتا ہے، تو ان کی یہ راکھ جھڑ جاتی ہے اورانگارے پھر دہکنے لگتے ہیں۔ ایسے لوگ بھی میری زندگی میں گزرے ہیں،جو چپ چاپ محبت کے سمندر میں اتر گئے اور کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔وہ لوگ بھی ہیں جو کاروبار کرتے ہیں دفتروں میں بیٹھتے ہیں،دریا روکتے ہیں ،ڈیم بناتے ہیں،ٹینک چلاتے ہیں،اور محبت کی ایک بند ڈبیا ہروقت اپنے سینے کےاندرمحفوظ رکھتے ہیں۔ مسافر،سیاح،کوہ پیما،دشت نورد،آپ کسی کے بارے میں یقین سے نہیں کہہ سکتے۔
صفحہ۔37۔۔۔
 دراصل محبت کے لئےایک خاص فضا،ایک خاص علاقے،ایک خاص ایکولوجی کی ضرورت ہوتی ہے۔اس کےلیےدو لوگوں کی یاد،دلوں کے ملنے کی احتیاج نہیں ہوتی۔ایک خاص پس منظر کی ضرورت ہوتی ہے۔دراصل پس منظر بھی مناسب لفظ نہیں۔یہ تو آدمی کی سوچ محدود کردیتا ہے۔اس کے لیےایک اور چیز کی ضرورت ہوتی ہے،جس کا ابھی تک نام تجویز نہیں کیا جاسکا۔ الفاظ بھی کیا بڑھئی کے اوزار ہیں کہ خیال کو چھیل چھال کرکاٹ کر رندہ سا لگا دیتے ہیں اور اس کا قد گھٹا دیتے ہیں۔ ہم بھی کیا لوگ ہیں کہ ان بونوں کے سہارے تصورکی فصیلوں پریلغارکرتے ہیں اوراپنے انجانے قلعے فتح کر لیتے ہیں۔
صفحہ۔43۔۔۔۔
 میں نے انتظار کرنے والوں کو دیکھا.انتظار کرتے کرتے سو جانے والوں کو بھی اور مر جانے والوں کو بھی. میں نے مضطرب نگاہوں اور بے چین بدنوں کودیکھا ہے۔آہٹ پہ لگے ہوئے کانوں کے زخموں کو دیکھا.انتظار میں کانپتے ہوئے ہاتھوں کو دیکھا۔ منتظرآدمی کے دو وجود ہوتے ہیں. ایک وہ جو مقررہ جگہ پر انتظار کرتا ہے، دوسرا وہ جو جسد خاکی سے جدا ہو کر پذیرائی کے لئے بہت دور نکل جاتا ہے۔جب انتظار کی گھڑیاں دنوں،مہینوں اور سالوں پر پھیل جاتی ہیں تو کبھی کبھی دوسرا وجود واپس نہیں آتا اور انتظار کرنے والے کا وجود،اس خالی ڈبے کی طرح رہ جاتا ہے جسے لوگ خوبصورت سمجھ کر سینت کے رکھ لیتے ہیں اور کبھی اپنے آپ سے جدا نہیں کرتے۔ یہ خالی ڈبا کئی بار بھرتا ہے،قسم قسم کی چیزیں اپنے اندر سمیٹتا ہے،لیکن اس میں "وہ" لوٹ کر نہیں آتا جو پذیرائی کے لئے آگے نکل گیا تھا۔ایسے لوگ بڑے مطمئن اورپورے طور پہ شانت ہوجاتے ہیں۔ ان مطمئن، پرسکون اورشانت لوگوں کی پرسنیلٹی میں بڑا چارم ہوتا ہے اور انہیں اپنی باقی ماندہ زندگی اسی چارم کے سہارے گزارنی پڑتی ہے۔ یہی چارم آپ کو صوفیا کی شخصیتوں میں نظر آئے گا۔ یہی چارم عمرقیدیوں کے چہرے پر دکھائی دے گا اوراسی چارم کی جھلک آپکو عمر رسیدہ پروفیسروں کی آنکھوں میں نظر آئے گی۔
صفحہ۔46۔۔
 ہم کو تو الفاظ نے اتنا مجبوراتنا ہتھل کر دیا ہے کہ جب تک کسی اجنبی کی زبان نہ آتی ہو ہم اس کی خاموشی کا مطلب بھی نہیں جان سکتے۔
صفحہ۔67۔۔۔
 جب انسانوں کے درمیان جسم کی محبت ہو تو وہ ایک دوسرے کی طرف مقناطیس کی طرح کھچنے لگتے ہیں جب ان میں آگہی اور دانش کی قدر مشترک ہوتو وہ لمبی سیروں ،لمبے راستوں اور لمبے سفر کے ساتھی بن جاتے ہیں اور جب ان کی محبت میں روحانیت کا ابر اُتر آئے تو وہ بستروں کے انبار میں دو معصوم بچوں کی طرح ٹانسے کی چادریں بن جاتے ہیں جس سے ان کی رہائی مشکل ہو جاتی ہے وہ یا تو چیخ چیخ کر مدد کرنے والوں کو بلاتے ہیں یا دم گھٹنے سے مر جاتے ہیں۔
صَفحہ۔104۔۔۔
 عورتوں کو واقعات اورحادثات من حیث المجموع یاد رہتے ہیں اور مرد کو ان کی تفصیلات یاد رہتی ہیں۔عورت خالق ہے اور مرد کرافٹس مین ہے۔عورت اپنے اندرہی سے پُرانا سُرانا مواد لے کر ایک جیتا جاگتا برانڈنیو بچہ تخلیق کر دیتی ہے اور مرد بھاگ بھاگ کر اور چار دانگ عالم سے چھوٹی چھوٹی چیزیں اکھٹی کر کے بڑی چابکدستی کے ساتھ ایک مووی کیمرہ ایک وی ٹی آر ریکارڈر ایک فوٹوسٹیٹ مشین بنا سکتا ہے۔مرد پرفیکشنسٹ ہوتا ہے اس لیے اس کی نظر ہمیشہ جزئیات پر رہتی ہے۔ زندگی اور محبت کے میدان میں وہ چھوٹے چھوٹے پیچ اور ڈھبریاں کستا چلتا ہے اور اس کا ایک پیچ ڈھیلا پڑ جانے سے ساری مشین لڑکھڑانے لگتی ہے۔عورت کے تانے بانے کا مواد ایک ہی ہوتا ہے کہیں سے بھی ایک تار ٹوٹ جائے تو بھی کپڑے کی مجموعی ساخت میں فرق نہیں آتا۔
صفحہ۔145۔۔۔۔149۔۔۔۔۔
 مرد کا کام عورت کو سمجھنا نہیں، اس کو محسوس کرنا ، اس کی حفاظت کرنا ، اس سے محبّت کرنا ہے۔ عورت کو اگر اس بات کا علم ہو جائے کہ مرد اس کو سمجھنے لگا ہے،یا اس کے جذبات کو جانچنے کا راز پا گیا ہے تو وہ فوراً تڑپ کر جان دے دی گی۔ آپ عورت کے ساتھ کتنی بھی عقل ودانش کی بات کریں،کیسے بھی دلائل کیوں نہ دیں، اگر اس کی مرضی نہیں ہے تو وہ اس منطق کو کبھی نہیں سمجھے گی۔ اس کے ذہن کے اندر اپنی منطق کا ایک ڈرائنگ روم ہوتا ہے،جسے اس نے اپنی مرضی سے سجایا ہوتا ہے اور وہ اسے روشن کرنے کے لیے باہر کی روشنی کی محتاج نہیں ہوتی۔ اس لیے وہ کسی عقل ودانش اور دلائل کے معاملے میں مانگے کی روشنی پر ایمان نہیں رکھتی۔ اس نے جو فیصلہ کر لیا ہوتا ہے وہی اس مسئلے کا واحد اور آخری حل ہوتا ہے۔
صفحہ۔.188
 تلاش کا عمل بھی خوب ہے ۔لوگ نیلے آسمان پر عید کا چاند تلاش کرتے ہیں۔ قدموں کا نشان دیکھ کر چور کا کھوج لگاتے ہیں۔ کلائی ہاتھ میں لے کر معدے کے اندر حدت تلاش کرتے ہیں۔ کھنڈرات دیکھ کر پرانے لوگوں کا چلن ڈھونڈتے ہیں۔ شادی کے لیۓ اچھی نسل تلاش کرتے ہیں۔خوش وقتی کے لیےاچھا جسم تلاش کرتے ہیں۔ جب بچہ گھر نہیں پہنچتا تو ماں اس کی تلاش کرنے کے لیے دیوانہ وار راہوں اور شاہراہوں پر نکل جاتی ہے۔ جب اسی بچے کی شادی ہوجاتی ہے تو وہ اپنی بیوی کے کھانوں میں ماں کے پکوانوں کی بوُ باس تلاش کرتا ہے۔جب نوجوان اداس اور تنہا ہوتا ہے وہ جیون ساتھی تلاش کرتا ہے ۔اور جب اسے زندگی کا ساتھی مل جاتا ہے ،تو وہ اسے گھر چھوڑ کر دوسروں کے جیون ساتھیوں کا نظارہ کرنے باہر نکل جاتا ہے۔
صفحہ۔191۔۔۔۔ 
 ایک تلاش ایسی ہوتی ہے کہ آدمی کو علم ہی نہیں ہوتا کہ وہ تلاش کر رہا ہے یا اس کو کسی چیز کی چنتا ہے یا وہ کوئی رستہ ڈھونڈ رہا ہے یا اسے کسی شے کی تلاش ہے۔۔ پھر بھی یہ عمل جاری رہتا ہے اور مرتے دم تک اس کو اس بات کا سراغ نہیں ملتا کہ وہ اس قدر بے چین کیوں ہے، خالی کیوں ہے۔ اس کی روح کے اندر ایک تھرتھری کیوں رہتی ہے؟" 
صفحہ ۔235۔۔۔
۔"مفتی جی ! ملامتی فرقے کے لوگوں کا ایمان ہے کہ نفس ہمیشہ دھوکہ دہی کی طرف مائل رہتا ہے - نفس چاہے آگے آگے چل کر رہبری کر رہا ہو چاہے پیچھے چل کر پیروی کر رہا ہو،چاہے باادب تابع اور فرماں بردار بن جائے ، چاہے باغی اور سرکش  ہو جائے اس کا کوئی اعتبار نہیں۔۔۔کبھی اعتبار نہیں۔۔۔ہرگز اعتبار نہیں"۔
۔(1970 کے عشرے  میں  جناب اشفاق احمد کے اُس سفرکی ایک یادگار تصویر جو لفظ کی صورت" سفر درسفر" میں رقم ہوا)۔

جمعرات, ستمبر 11, 2014

"حجرِہشت پہلو"

سانس لینے اور ہوش وحواس کی آنکھ کھل جانے کے بعد طوافِ زندگی شروع ہو جاتا ہے۔۔۔ دائرے کا یہ سفر ان دیکھے مرکز کے گرد رواں رہتا ہے۔۔۔ ملنے والے محبتوں کے رشتے اس مرکز سے پیوستہ حجر کی مانند ہیں تومحرومیوں، مایوسیوں اورنفرتوں کے تعلق پیروں تلے آنے والے سنگ ریزوں سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے۔سفرِزیست کا ہر ہر مرحلہ مرکز سے جڑے پتھر کو چوم کر آگے بڑھتا ہے۔۔۔تومسافت کی خراشیں مسافر کو گھسٹنے پر مجبور بھی کر دیتی ہیں۔۔۔ کبھی دھکم پیل اور بھگدڑ اتنا زخمی کر دیتی ہےکہ طواف رُکتا سا محسوس ہوتا ہے۔۔۔کبھی ہجوم کے دباؤ میں آکر بلاسوچےسمجھے کولہو کے بیل کی طرح بس چکر پہ چکر لگتے جاتے ہیں۔۔۔مرکز سے بےپروا۔۔۔ مقدس پتھر کے لمس سے ناآشنا۔
سانس آتی ہے۔۔۔ جان باقی رہتی ہے۔۔۔ بس انسان اندر سے شجرِسایہ دار کی طرح جامد ہو جاتا ہے۔۔۔ جس کا گھنا سایہ قریب آنے والوں کو فرحت دیتا ہے۔۔۔اس کے ظاہری عوامل نگاہوں میں معززومحترم بناتے ہیں تو اتنا ہی پُراسرار بھی بنا دیتے ہیں۔لیکن اس کا سفرِزیست ہمیشہ نظرسے اوجھل ہی رہتا ہےتاوقت یہ کہ وقت اسے ڈی کوڈ نہ کر دے۔
درخت کاٹا جائے تو ہی اس کے مضبوط تنے کے اندر چھپی طواف کہانی عیاں ہوتی ہے۔۔۔جوعلم وتحقیق کی راہ کے مسافر ہی جان سکتے ہیں۔ جبکہ انسان اپنی ہر کہانی اپنے ساتھ لے کر دفن ہوجاتا ہے۔ شجر اور انسان کا فرق 'مخلوق' اور'اشرف المخلوق' کا ہے۔ انسان کو نہ صرف اپنے ہر طواف کا ادراک ہونا چاہیے بلکہ جب تک اس کے خاتمے پر جسم یا نظر کے لمس سے یا خیال کی پہنچ سے مقدس پتھر کو چھوا نہ جائے۔۔۔اور ہاتھ اٹھا کر گواہی نہ دی جائے ایک دائرہ مکمل نہیں ہوتا۔
جذب کی کیفیت میں ڈوب کر سالہا سال چکر لگتے رہیں سب بےکار ہے۔جب تک عقل کا دامن تھام کر حساب کتاب نہ کیا جائےطوافِ حق کی قبولیت کی سند نہیں ملتی۔ لیکن یہ بھی حق ہےکہ سوچ سمجھ کر جتنے بھی طواف کیے جائیں وہ محبتوں کی پہلی سیڑھی پر ہی رہتے ہیں کبھی آگہی کی بلندی کو نہیں چھو پاتے۔ آگہی نظر جھکا کر خاموشی سے حضوری کی حالت ہے جو اصل مقصدِ حیات ہے۔
دائروں کے سفر میں جسم وروح کو چھونے والے حجرِ ہشت پہلو قدم روکنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں تو اتنے مبارک بھی ہوتے ہیں کہ اُن کا احساس سفر کی تھکان لمحوں میں اُتار دیتا ہے۔۔۔بظاہر ہر موڑ پر پتھر کو آخری بار چوم کر آگے ہی کیوں نہ بڑھا جائے۔۔۔ بنا کسی رُکاوٹ کسی حجاب کے نئی تازگی سے ایک منزل کے بعد اگلی منزل کا سراغ ملتا چلا جاتا ہے۔
پتھر فلاح نہیں دیتا یہ سچ ہے۔ لیکن راہ میں آنے والے مصائب برداشت کرنے کا ہنر بخشتا ہے۔اس انعام کو جتنے پیار سے بوسہ دیا جائے۔۔۔ اور پھر اسی آہستگی سے آگے بڑھا جائے۔۔۔ طوافِ زندگی اسی طور رواں دواں رہتا ہے۔
!آخری بات

ہر شخص اپنے اندر یہ خدائی چاہتا ہے کہ اُس کا اورصرف اس کا طواف کیا جائے۔ اور رنگ پتھر میں نہیں ہماری نگاہ میں ہے جس پل جس رنگ کی تمنا ہو وہی جھلکتا ہوتا ہے۔

منگل, ستمبر 02, 2014

"تحفظ عدم تحفظ"

عورت کے بارے میں ازل سے لکھا جارہا ہے اور نہ جانے کب تک لکھا جاتا رہے گا۔ ہر عورت ایک کہانی ہے اور دنیا کی کوئی بھی داستان عورت کے بغیر نہ تو دھرتی پر اتر سکتی ہے اور نہ ہی لفظ کی صورت کاغذ میں جذب ہو سکتی ہے۔۔
عورت ایک کھلی کتاب کی طرح ہے۔ جس کے ہر صفحے پراس کے جذبے اس کے احساسات روشن سیاہی سے پڑھے جا سکتے ہیں۔ہم اپنی شخصیت کو عمر کے مختلف ادوار میں تقسیم کر کے تجزیہ کریں تو ہوش سنبھالنے سے لے کر بلوغت تک ہرانسان ایک عجیب سرخوشی کی کیفیت میں آس پاس مہکتے پھولوں کو محسوس کرتا جاتا ہے۔۔۔اُن کے کانٹوں کی چبھن سے بےپروا اور اسی طرح پاؤں زخمی کرنے والے سنگریزے بھی اپنی نادانی اور کمزوری جان کر چپکے سے جھولی میں چھپا لیتا ہے۔بڑھتی عمر میں مرد وعورت دونوں کے احساسات کسی حد تک جدا ہوتے ہیں۔اس عمر میں لڑکیاں جتنا بااعتماد نظر آنے کی کوشش کرتی ہیں اتنا ہی اندر سےغیرمحفوظ اور پریشان بھی رہتی ہیں۔ان کہی کو لفظوں میں کھوجتی ہیں اور سنی کو ان سنی بھی کر دیتی ہیں۔ جو بھی ہے اس دور کی آگہی ہی وہ آگہی ہے جو برسوں بعد کے تجربے کی مضبوط بنیاد ثابت ہوتی ہے۔معاشرے اور گھر میں عورت کے بہت سے کردار ہیں اور ہر روپ اہم ہے۔
عورت ۔۔۔۔ایک ایسا شفاف آئینہ ہے کہ جو جس نظر سے دیکھتا ہے اسے اُس کا وہی رنگ دکھتا ہے۔۔۔"ظاہر"عورت کا اصل روپ نہیں رشتوں اور تعلقات کے پیرہن میں ملبوس ہو کر عورت کا اصل ہمیشہ چھپا ہی رہتا ہے۔اگریہ اُس کی مجبوری ہے توبقا کی ضمانت بھی ہے۔عمر کے ہر دور میں عورت کو مرد کے سہارے کی ضرورت پڑتی ہے۔ باپ ۔۔۔بھائی۔۔۔شوہر اوربیٹے جیسے رشتوں کی ڈوریاں عورت کو سمیٹے رکھتی ہیں۔ مرد سے منسلک کسی بھی رشتے کا ہونا یا نہ ہونا عورت کی زندگی اور اُس کی شخصیت پر گہرا اثر ڈالتا ہے۔عورت کی زندگی میں باپ اور بھائی دو ایسے اولین رشتے ہیں جو اس کی پہلی سانس کے رازدار ہوتے ہیں تو ہوش سنبھالنےکے بعد ہر سانس کے ساتھ ان کی اہمیت کا احساس پنپتا جاتا ہے۔
باپ۔۔۔۔ ہوش سنبھالتےہی باپ کے اولین لمس سے ملنے والاتحفظ کا احساس اتنا گہرا ہوتا ہے کہ بعد میں بننے والے ہر رشتے میں اس خوشبو کی تلاش اولیت رکھتی ہے۔ اور وہ لڑکی جس کی قسمت میں اس رشتے کی محرومی لکھ دی گئی ہو،آنے والی زندگی میں بھرپور خوشیاں پا کربھی اس کے دل کا ایک گوشہ ہمیشہ غیرمحفوظ ہی رہتا ہے۔باپ سے ملنے والی محبتیں اگربھلائے نہیں بھولتیں تو اس سے ملنے والے زخم بھی اتنے ہی گہرے ہوتے ہیں جو بعد میں مرد سے بننے والے ہر رشتے اور ہر تعلق میں ایک خلیج سی پیدا کر دیتے ہیں۔
بھائی۔۔۔ برابری کی بنیاد پر بننے والا یہ رشتہ دوسرے تمام رشتوں سے منفرد اہمیت کا حامل ہے تو اِس کا ہونا یا نہ ہونا بھی ایک عورت کی زندگی میں الگ  کردار ادا کرتا ہے۔ بھائی کا ہونا اگر تحفظ دیتا ہے تو دُنیا میں تنہا چلنے اور اپنے فیصلے خود کرنے کا اعتماد بھی چھین لیتا ہے۔ جبکہ بھائی کا نہ ہونا اگر مرد سے وابستہ ہر رشتے میں بےاعتباری کے بیج بوتا ہے تو اپنی ذات پر انحصار اور آنکھ میں آنکھ ڈال کر دیکھنے کی جئرات بھی پیدا کرتا ہے۔

عام خیال ہے کہ "مرد عورت کی حفاظت کرتا ہے لیکن! مرد عورت کی حفاظت نہیں کرتا بلکہ بھائی بہن کی،میاں بیوی کی اور بیٹا ماں کی حفاظت کرتا ہے۔۔۔"حفاظت صرف مقدس رشتوں کی کی جاتی ہے عورت کی نہیں"۔
وہ عورت جو ان رشتوں سے فرار کی خواہش مند ہو اسے مرد کی دنیا سے محبت تو مل سکتی ہے لیکن تحفظ کے پیرہن میں لپٹی عزت کبھی نہیں ملتی۔ جس محبت میں عزت کی مہک نہ ہو وہ محبت نہیں ہوس ہوتی ہے اور جس عزت میں محبت کی خوشبونہ ہو وہ مجبوری ہے۔عورت کی ساری  عمر محبت اور عزت کے اُلجھے سرے تلاش کرتے گزر جاتی ہے۔عزت کی خاطر محبت قربان کر دیتی ہے تو کبھی محبت کے دھوکے میں ساری حدیں پھلانگ جاتی ہے۔ انہی دو انتہاؤں کے درمیان زندگی اسے گزار دیتی ہے۔۔۔ طلب اور خواہش کہیں پیچھے رہ جاتی ہے۔
محبت سے عقیدت اور پھر چھت تک کے سفر میں عورت در بدر ہی رہتی ہے۔ وہ جان کر بھی نہیں جان پاتی کہ اُس کی منزل کیا ہے؟ حاصل ِزیست کیا ٹھہرا ؟ چاہے جانے سے پرستش کیے جانے تک اور بانٹنے سے لُٹا دینے تک وہ تہی داماں ہو جاتی ہے۔ عمر تمام ہو جاتی ہے پر سفر ختم نہیں ہوتا ۔ سیراب ہو جاتی ہے پر پیاس نہیں بجھتی ۔ کیا چاہیے اُسے؟ کیوں ہے اتنی تشنگی؟ ۔ آگہی کا در یوں کھلتا ہے کہ عزت ہر جذبے پر مقدم ہے۔
عزت نہ ہو تو محبت بےمعنی، عزت نہ ہو تو عقیدت فقط چڑھاوا (رچوئل )،عزت نہ ہو تو چھت بغیر ستون کے وہ شاندار عمارت جو محفوظ تو رکھتی ہے پر اپنے ساتھ لپٹا کر تحفظ کا احساس نہیں دلاتی۔ستون دیکھنے میں تو عمارت کی دلکشی متاثر کرتے
ہیں،وسعتِ نظر میں حائل ہوتے ہیں ،طمانیت کے رقص میں رکاوٹ بنتے ہیں لیکن اُن کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے ۔وہ ایک پائیدارساتھ کی ضمانت ہیں زندگی کے نامہربان فرش پر گرنے سے پہلے تھام لیتے ہیں۔
محبت سے  عزت تک اور معاشرے میں باوقار مقام  کی تلاش میں گھر سے بھاگی ہوئی لڑکی کو "جان نثار" کی والہانہ" سچی"محبت ۔۔۔"اندھے قانون"کی لاٹھی ۔۔۔"دنیا" کے ہر مذہب کی رضا۔۔۔"مجبور " والدین"کی رضامندی۔۔۔"غیرت مند" بھائیوں کا وقتی سمجھوتہ ۔۔۔یار دوستوں " کی "دلی" خوشی اور اپنے" ضمیر" کی آواز کا اطمینان مل بھی جائے ۔۔۔پر!!!اُسے " عزت" کبھی نہیں ملتی۔۔۔اپنی ساری زندگی کی قیمت پر بھی نہیں،اپنی آنے والی نسلوں کے سامنے بھی نہیں۔اسے صرف سمجھوتے کرنا ہوتے ہیں۔ وہ سمجھوتے جن سے فرار کے لیے اس نے یہ انتہائی قدم اٹھایا۔زندگی کا یہ گول چکر اسے ساری زندگی گزار کر ہی سمجھ آتا ہے۔"عزت" دنیا میں سب سے قیمتی اور کم یاب شے ہے جو ہمیں دوسروں کے رویےاور اپنے دل کی آنکھ میں اپنے لیے ملتی ہے" ملتی رہے تو ہم اس کے ماخذ پر غور کیے بنا ہمیشہ "ٹیک اٹ فور گرانٹڈ" لیتے ہیں ۔۔۔ جانے لگے تو اتنی بے وفا ہے کہ ہماری ذرا سی بھول سے یوں خفا ہو جاتی ہے کہ دلوں پر "مہر" لگ جاتی ہے اور اپنا ہی سایہ ساتھ چھوڑ دیتا ہے۔
عورت کی کامیابی کا معیار،معاشرے میں اُس کی عزت کی معراج ،دُنیا کی اندھی دلدل سے بچاؤ کا واحد راستہ صرف اور صرف  پیروں تلے زمین اور اُس پر نظر رکھنا ہے۔ یہی عورت کی اصل کمائی ہے چاہے اس کمائی میں اس کا حصہ آٹے میں نمک کے برابر ہی کیوں نہ سمجھا جائے یا پھر اس سے بھی کم۔آسمان کی بلندیوں کو چھونے کی خواہش اگر طلب کا روپ دھار لے تو منہ کے بل گرنا نصیب ہے لیکن یہ چوٹ ایسی چوٹ ہے کہ جس کے درد کا اظہار کرنا نہ صرف دوسروں کے سامنے بلکہ اپنی ذات کی تنہائی میں بھی چوٹ سے بڑھ کرتکلیف دہ ہو جاتا ہے۔کبھی یوں ہوتا ہے کہ عورت بھرپورمکمل رشتوں اور آسودہ تعلقات کے مضبوط حصار میں رہ کر بھی اپنی ذات میں تنہا ہوتی ہے۔ یہ مایوسی نہیں بلکہ رب کا بہت بڑا انعام ہے کہ اس طرح وہ کسی بھی جذباتی دباؤ کے زیرِاثر اپنے فیصلے کرنے سے آزاد رہتی ہے۔بقا کی جنگ کا اہم نکتہ تنہائی ہےمکمل تنہائی ۔۔۔ جو کاندھے کوکمزور نہیں پڑنے دیتی اورگرنے کے بعد پہلے سے بھی زیادہ توانائی کا احساس دیتی ہے۔لیکن "چوٹ تو چوٹ ہے جو جاڑے کی سرد رات میں کچھ زیادہ ہی ٹیس دیتی ہے۔
گرچہ گھر سے بڑھ کر آزادی اور تحفظ عورت کو کہیں نصیب نہیں لیکن سچ یہ بھی ہے کہ عدم تحفظ کا احساس ابتدا سے اس کے ساتھ چلتا ہے۔اہل خانہ شعوری طور پراعتماد دیتے ہیں تو بن کہے آنے والے خطرات سے آگاہ بھی کرتے ہیں۔ایک تلخ حقیقت یہ ہے کہ ہمدردی،احترام ،عزت اورمحبت کے وقتی لبادے سکون تو دے سکتے ہیں۔۔۔ لیکن ذات پراعتماد اپنوں سے کبھی نہیں ملتا۔۔۔اپنی صلاحیت پہچان کر اپنے آپ کو قدم قدم پر منوانے کی جدوجہد عورت کی زندگی کہانی ہے جو اسے اعتماد دیتی ہے تو کسی حد تک تحفظ کا احساس بھی دلاتی ہے۔
دُنیا کا سامنا کرنے کے لیے دل نہیں دماغ نہیں فقط مقام  اہم ہے۔ دل اوردماغ اپنی ذات کی حد تک تو ساتھ دے سکتے ہیں لیکن اس سے آگے رشتوں کی بیساکھیوں کا سہارا درکار ہوتا ہےجیسے کہا جاتا ہے کہ جب تک انسان کے ساتھ ڈگری نہ ہو چاہے جعلی سہی ۔۔۔وہ محترم نہیں اسی طرح عورت کے ساتھ جب تک رشتے نہ ہوں وہ محض بازار میں بکنے والی چیز ہی سمجھی جاتی ہے۔ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ عورت کی زندگی کمائی کا حاصل اُس کے نام سے جڑی بڑی ڈگریاں احترام کی وقتی خوشبو کا چھڑکاؤ کرتے عقیدت کے کاغذی پھول تو نذر کرسکتی ہیں لیکن شک اور ہوس کے کانٹے کبھی نہیں نکال سکتیں۔ ذاتی محنت ومشقت یا پھر خاندانی جاہ وجلال سے بنائے جانے والے محل ہمیشہ چار دیواری کے بغیر ہی بنا کرتےہیں۔
عورت وہ ضدی مخلوق ہے جو کبھی کسی کی بات نہیں سمجھتی۔ جب تک  اس کا دل اُس کے دماغ کی تائید نہ کرے وہ نہ صرف دوسروں بلکہ اپنے دماغ سے بھی حالتِ جنگ میں رہتی ہے۔ یہ ایسی جنگ ہے جس میں نقصان دونوں طرف کا اپنا ہی ہوتا ہے۔ ہتھیار پھینک کر صلح کرلینا یا مدد کے لیے پکارنا شکست سے زیادہ موت کا پیغام ہے۔ زندگی کی خواہش میں بس ہروار کے بعد نئے سرے سے تازہ دم ہو کر مقابلہ کرنا اصل حکمتِ عملی ہے۔
دیکھا جائے توعورت مرد سے زیادہ آزاد اور خودمختار ہے۔۔۔ اس طرح کہ دُنیا اورآخرت میں اس کے رشتوں کو اُس کی ضرورت ہے۔ ایک گھر کی تکمیل عورت کے بغیر ممکن نہیں تو آخرت میں بخشش کے لیے رب کی رضا کے بعد والدین کی خوشنودی لازمی ہے۔ والدین میں سے ماں کا مقام باپ سے بڑھ کر ہے۔ لیکن یہ بھی حق ہے کہ مقام مل جانا یا پا لینا اہم نہیں۔اہم اپنے آپ کو اس منصب کا اہل ثابت کرنا ہے۔ دوسرے الفاظ میں جنت کا مکین بننا کامیابی نہیں بلکہ جنت میں رہنا اصل آزمائش ہے۔
!آخری بات
کاش آج کی پڑھی لکھی باشعورعورت کو کوئی بتا سکےکہ رشتوں کی بیساکھی کے بغیر تو وہ اللہ کے گھر کی سیڑھی بھی نہیں چڑھ سکتی کہاں وہ دُنیا فتح کرنے کے خواب دیکھتی ہے۔

"سیٹل اور سیٹل منٹ"

سورۂ فرقان(25) آیت 2۔۔   وَخَلَقَ كُلَّ شَىْءٍ فَقَدَّرَهٝ تَقْدِيْـرًا ترجمہ۔ اور جس نے ہر شے کو پیدا کیا اور پھر اس کے لیے ایک اند...