بدھ, اکتوبر 31, 2012

"آسیب "

شادی شُدہ مرد یا عورت ایک بیابان میں تنہا تاریک مکان کی طرح ہوتا ہے جس میں اُس کا ساتھی اگراپنے وجود کی روشنی نہ بکھیرے،اپنی سَپُردگی کی اگربتیاں روشن نہ کرے، اپنے آپ کو بُھلا کر اپنے ہونے کا احساس نہ دِلائے تو آسیب زیادہ فاصلے پر نہیں رہتے۔۔۔وہ تو ذرا سی جِھری کی بھی تاک میں ہوتے ہیں ۔ ایک بار راستہ ملِ جائے تو پھر آسیب کی جھنکار اور اُن کی شرابُور موجودگی کے سامنے ساری تپسّیا دھری کی دھری رہ جاتی ہے۔ ساری زندگی روگ کی دھونی دینا پڑتی ہے پھر بھی اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ کب کوئی بھٹکتا ہوا آسیب سب کُچھ اُلٹ پلٹ نہ کر ڈالے۔
2011 ، 10 مارچ
پسِ تحریر
یہ محض افسانہ ہی نہیں حقیقتِ انساں بھی ہے۔۔۔ شرکِ دُنیا کی داستان بھی ہے۔۔ مجازی سے حقیقی کے سفر کی منازل کہانی بھی ہے۔اورعورت مرد کے ازلی تعلق کا تسلسل بھی ہے۔۔۔ کبھی مرد اپنی ذات میں اتنا مکمل اتنا آسودہ دکھتا ہے کہ کسی مدہم سی کسک،موہوم سی خلش کا شائبہ تک نہیں ہوتا۔اسی طرح عورت جو دیکھنے میں موم۔۔۔برتنے میں کانچ۔۔۔پڑھنے میں کھلی کتاب اور سمجھنے میں لاحاصل تحریر کی مانند نظر آتی ہے۔۔۔اُس کا عزم اور حوصلہ اتنا مضبوط بھی ہوتا ہے کہ اپنا آپ فنا کر کے وہ اپنا یقین بچا لیتی ہے۔

پیر, اکتوبر 29, 2012

"سرکاری ملازم"

 زندگی اور کام
کام مکمل کرنے کے لیے زندگی کی دُعا نہ مانگنا بلکہ کام کرنے کے لیے زندگی مانگنا۔ کیونکہ کام اگر شروع کر لیے جائیں تو کبھی ختم نہیں ہوتے۔جوں جوں زندگی کا سفر آگے بڑھتا ہے۔۔۔فائلوں کے انبار جمع ہوتے چلے جاتے ہیں۔ہم کام کے اوقات میں پورا کام کرتے ہیں۔۔۔اوورٹائم بھی لگاتے ہیں لیکن کام ہیں کہ ختم نہیں ہوتے۔پھر یوں ہوتا ہےہم تھکنے لگتے ہیں۔۔۔پریشان رہتے ہیں۔۔۔کیا ہے یہ زندگی؟کبھی آرام بھی ملے گاجب ہم اپنی مرضی سے کچھ وقت گُزارسکیں۔
اسی بھاگ دوڑ میں واپسی کی گھنٹیاں سنائی دینے لگتی ہیں۔بات یہ نہیں کہ اپنی مشقت کی قیمت نہیں ملتی بلکہ ہمیں ہماری اہلیت کےمطابق مراعات ملتی رہتی ہیں۔سب نیت پر ہے کہ اچھی ہو گی تو اچھا پھل ملے گا۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہم اپنی چادر سے زیادہ پاؤں پھیلا لیتے ہیں اور پھرگردشِ زمانہ کا گلہ کرنے لگتے ہیں یا پھرصرف اپنی نااہلی پر پردہ ڈالنے کے لیے کام شروع ہی نہیں کرتے۔اپنی طرف سے جائز بھی ہوتے ہیں کہ کسی کام کی قدر نہیں۔۔۔کسی شے کو دوام نہیں۔۔۔ سب کھیل تماشا ہے تو دل لگانا۔۔۔ محنت کرنا۔۔۔ کیا معنی رکھتا ہے.اپنے آپ کو چھوڑ کر دوسروں کے طرززندگی پرنظر رکھنا ہمارا کام بن جاتا ہے اور یہ کام کبھی مکمل نہیں ہوسکتا اور نہ ہوتا ہے۔عمریں بیت جاتی ہیں کردار بدل جاتے ہیں اور کام ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ منتقل ہوتا جاتا ہے۔ہمیں صرف اپنے حصے کا کام کرنا ہے۔ کسی دوسرے پر نگاہِ غلط ڈالنے کو حرام جانیں گے تو خود بھی سُکھی رہیں گے اور دوسرے بھی آزاد رہیں گے۔ہم سرکاری ملازم ہیں۔اِس سے آگے ہمیں اور نہیں سوچنا۔ لیکن ہوتا یہ ہےکہ ہم اپنےآپ کوایک عام نظرآنے والے 
سرکاری مُلازم کی طرح سمجھنے لگتے ہیں۔ ایک چھوٹےگریڈ کا کلرک جو'نوسے پانچ' کی نوکری کرتا ہے چھوٹے سے کوارٹرمیں رہتا ہے۔۔۔ مالی پریشانیوں کا شکارہوتا ہے۔۔۔ خرچے پورے کرنے کے لیے آمدنی کے ناجائز ذرائع تلاش کرتا ہے۔۔۔ جواز بھی دیتا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں واقعی اُس کی چادراُس کے خیال میں چھوٹی ہوتی ہے۔۔۔سر ڈھانپو تو پیر باہر نکل جاتے ہیں۔ اگر ضمیر کا قیدی ہو تو شام کو پارٹ ٹائم اور رزق ِحلال کے لیے شفٹوں میں کام کرتا ہے،سرکاری نوکری کے اوقات میں ڈنڈی بھی مارتا ہے۔غرض یہ سب کرنے کے باوجود وہ اپنی زندگی کے بوجھ تلےدبا ہی رہتا ہے۔۔۔ہمیشہ ناخوش۔۔۔ گھروالوں کے لیے اپنا آپ مار کے بھی اُن کو پوری طرح مطمئن نہیں کر پاتا۔
اس ساری اذیّت ساری مُشقت میں وہ اُس سرکارکو بھول جاتا ہے جس نے اُسے مُلازم رکھا تھا۔ اُسے کبھی توفیق ہی نہیں ہوئی سرکار کے سامنے اپنے مسائل کے انبار رکھے۔ وہ سوچتا ہےسرکار کا کام فائلیں بھیجنا۔۔۔ اُن کے اُوپر اُس سے کام کرانا اورمہینے کے آخر میں تنخواہ کا ایک چیک بھیجنا ہی سرکار اوراُس کا باہمی تعلق ہے۔آخر وہ ایک چھوٹے دماغ کا سرکاری مُلازم جو ہوا کہ جتنا وہ اپنا دماغ استعمال کرے گا اُتنی ہی کسی بات کو سمجھنے کی صلاحیت پیداکر پائے گا۔
اُسے کبھی پتہ ہی نہیں چلتا سرکار نے اُس کے لیے کیسے کیسے بونس ۔۔۔ کیسے کیسے الاؤنس ۔۔۔ کتنی ترقیّاں سنبھال رکھی ہیں ۔ سرکار کی شرط صرف ایک ہی ہےاپنی ڈیوٹی پوری دیانت داری سے سرانجام دی جائےاُس میں رتی برابر ذہنی یا جسمانی کمزوری نہ دِکھائی جائے۔سرکاربھی تو بےنیاز ہے کام سمجھا کر ہر چیز اختیارمیں دے دی ہے۔کوئی مداخلت نہیں۔۔۔کوئی روک ٹوک نہیں۔۔۔صرف اپنی موجودگی کا احساس ہے۔
حقیقت یہ ہے ہم سب سے اُونچے درجے کے سرکاری مُلازم ہیں۔ بات ماننے کی یہ ہے جتنا بڑا مرتبہ ہوگا اُتنا ہی اہم کام ہوگا۔۔۔ اُتنی ہی بڑی ذمہ داری ہو گی ۔۔۔اُتنے ہی زیادہ کام کے اوقات ہوں گے ۔۔۔اور اُتنی ہی زیادہ نگرانی ہوگی۔ ہماری حیات کا ایک ایک لمحہ نگاہ میں ہے۔ سب ریکارڈ ہو رہا ہے۔ ہمارے لیے ایک پلیٹ فارم سیٹ کر دیا گیا ہے۔ ہمیں اسی پر چلناہے۔ کسی قسم کی غلطی کی کوئی گُنجائش نہیں ۔اپنے ہرعمل، ہر سوچ کا حساب دینا ہے۔اتنی سخت ڈیوٹی سرانجام دینے کے دوران سرکارکی عنایات نہ ہوں تو ہم مرنے سے پہلے مرجائیں ۔ یہ مالک کا کرم ہے کہ وہ ہماری خطاؤں سے درگُذر کرتا ہے۔ اگر ہم خلوصِ نیت سے اپنی ذمہ داری پوری کریں۔۔۔ اپنی خواہشوں کے گھوڑے کو لگام ڈال دیں۔ تواُس کا وعدہ ہے کہ وہ ہمیں اس سے کئی گُنا بہترعطا کرے گا۔
مسئلہ اُس وقت پیدا ہوتاہےجب ہم دُنیا کی فانی لذت کی خاطرآخرت کی ابدی عطا کو فراموش کردیتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہماری پیاس اس دُنیا میں ہی  بُجھ جائے۔غورکرنےکا مقام یہ ہے اگر ہم نے اس دنیا میں ہی سب حاصل کر لیا تو وہاں جا کر کس منہ سے اپنے اللہ سے اپنی من چاہی چیز طلب کریں گے۔
ہم سب سرکاری ملازم ہی تو ہیں اور جو محدود وقت دیا گیا اُسی میں سے اپنے لیے کچھ ڈنڈی مارتے ہیں۔فرق صرف یہ ہے کہ دُنیا کے مالک کچھ نہ جانتے ہوئے بھی بہت بےرحم ہیں تو سب کا مالک جانتے بوجھتے بھی ڈھیل دیئے جاتا ہے۔ یہ سوچ کی دولت بھی اُسی نے دی۔اب اس کو سوچ سمجھ کر خرچ کرنا فرض ہے۔

جمعہ, اکتوبر 26, 2012

" ادھورے لوگ "

ہم ادھورے لوگ ہیں ۔ ہماری ادھوری خواہشیں اور ادھوری حسرتیں ہیں ۔ ہم ادھورے خواب دیکھتے ہیں۔ادھوری ملاقاتیں ہی ہمارا مقدر ہیں۔ ہم سراپا طلب ہیں۔۔۔ ہروقت مانگتےہی رہتے ہیں۔۔۔ پیاسےہی رہتے ہیں۔ حتٰی کہ ہماری روح بھی ہماری نہیں۔ اس کی بےقراری اسے مکمل ہونے پراس طرح اُکساتی ہے جیسے لوہے کو مقناطیس۔
ہمارے غم ادھورے ہیں کہ کوئی کاندھا نہیں۔ہماری خوشیاں ادھوری ہیں کہ کب چِھن جائیں۔اورتواور ہمارا سایہ بھی گردشِ دوراں میں ساتھ چھوڑ جاتا ہے۔ ہمارا لہجہ ادھورا ہے۔۔۔ ہماری باتیں ادھوری ہیں۔۔۔ ہمارے لمس ادھورے ہیں۔۔۔ ہماری شناخت ادھوری ہے۔۔۔کہیں ہم دیوتا ہیں تو کہیں داس۔۔۔ کہیں موم ہیں تو کہیں پتھر۔اوروہ بھی جو زمانے کی ٹھوکروں پر ہے۔لیکن ایک چیز جو مکمل ہے وہ ہے ہمارا شرف کہ ہم خاص ہیں ۔ جب اللہ نے کہہ دیا کہ تم کائنات میں سب سے افضل ہوتو پھر ہم کون ہیں اپنی معذوری کا گِلہ کرنے والے۔ ہمارا رب تمام ترکمیوں،کوتاہیوں اورمعذوری کےباوجود نہ صرف ہمیں معاف کر رہا ہے بلکہ اعلٰی درجہ بھی عطا کر رہا ہے۔ہمیں  اپنے رب کے حضور جُھکنا ہے۔ اور کہنا ہے۔۔۔ جو تو نے دیا اُس کا شُکریہ اور جو تو نے نہیں دیا اُس کا بھی شُکریہ ۔۔۔ کہ تو نے نہ دے کر اُس کی قدر ہمیشہ کے لیے میرے دل میں ڈال دی ۔ اگر وہ مل جاتا تو میرا سفر رُک جاتا۔ میری مُٹّھی میں خواہشوں کی وہ تتلی شاید اپنا رنگ وروپ کھو دیتی۔ اُس کی فنا میری فتح تو ہوتی لیکن میرے وجود کا حصّہ بن کر شاید اُس کی اپنی کوئی پہچان نہ ہوتی ۔
میں نے اُسے کھو کر ہمیشہ کے لیے پا لیا۔ یہی میری تقدیر ہے۔۔۔اور یہی میرا سفر۔ اللہ سے بس یہی دُعا ہے کہ میرے مالک مجھے وہاں مُکمل کر دینا جہاں ہم نے ہمیشہ اکٹّھے رہنا ہے۔ روشنی کی وہ چمک عطا کرنا کہ جب چہرے سیاہ پڑ رہے ہوں تو شرمندگی نہ اُٹھانا پڑے۔اللہ ہر سوال کا جواب دینے کے قابل بنا دے۔عزت کی زندگی مانگی ہے تو ابدی زندگی میں بھی ذات کا بھرم قائم رکھنا۔
ہم ر   ہ گزرِحیات میں بِچھی ہوئی ریل کی دو پٹڑیاں ہی تو ہیں۔ جو لمبے سفروں کی ساتھی تو ہوتی ہیں۔۔۔ مسافتوں کی امین تو ضرورہیں لیکن خود اُن کی قسمت میں ملاپ نہیں۔ احساس ہے ۔۔۔ساتھ ہے۔۔۔ دیدارہے۔ یہی بُہت ہے کہ راستہ تو ایک ہے،منزل تو سانجھی ہے۔ اور کون جانے اصل پڑاؤ پرکون ہمسفرہو۔"یہ زندگی سفر ہے تو پھر سفر کیے جاؤ "

جمعرات, اکتوبر 25, 2012

"شکوہ "

" تم میرے کچھ بھی نہیں "
" جو ہمارے نہیں ہوتے وہ ہمیں کیوں ملتے ہیں ''
دُنیا میں دو طرح کے لوگ ہمارے قریب ہوتے ہیں۔ایک وہ جو ہمیں چاہتے ہیں یا ہم اُنہیں چاہتے ہیں۔ ہمارے اُن سے تعلُقات ہوسکتے ہیں ۔۔۔ رشتے ہوتے ہیں۔۔۔ ہم اپنی ضروریات اپنی آسائشوں کے لیے اُن کے قریب جاتے ہیں۔۔۔ دُنیا میں زندہ رہنے کے لیے ہمیں اُن کا سہارا قدم قدم پردرکار ہوتا ہے۔نہ چاہتےہوئے بھی کسی نہ کسی انسان سے واسطہ رکھنا پڑتا ہے۔ نہ صرف ہمارے دوست بلکہ ہمارے دُشمن یا ہمیں ناپسند کرنے والے اور ہمیں برداشت کرنے والے بھی اسی زمرے میں آتے ہیں ۔
یہ تو سیدھا سادھا زندگی گُزارنے کا فارمولہ ہے۔ لیکن حیرت کی بات ہے کہ ایک اور طرح کے لوگ بھی ہیں جو ہمارے کوئی بھی نہیں ہوتے۔۔۔ کوئی تعلق،کوئی واسطہ کوئی رشتہ، کوئی جذبہ، کوئی خواہش نہ ہونے کے باوجود وہ کسی نہ کسی موڑ پر دوبارہ اس طرح مل جاتے ہیں کہ اجنبیت کی دبیز چادر کی تاریکی میں جُگنو کی چمک جیسے۔ اور زندگی ایک نئے ڈھنگ سے اپنی چَھب دِکھلاتی ہے۔ زندگی کے نصاب کے وہ اوراق جو پڑھنے کے بعد پُرانے ہو جاتے ہیں اور نئے اسباق کے دوران جب یک دم سامنے آجاتے ہیں تو صرف ایک بات ذہن میں آتی ہے کہ زندگی رُکتی نہیں ۔۔۔ آگے بڑھتی رہتی ہے لیکن وہ اپنے سارے اثاثے،ساری کمائی لے کرسفر جاری رکھتی ہے۔عُمرو عیّار کی زنبیل کی طرح کشکول بظاہر خالی نظر آتا ہے۔۔۔ ہم اپنی سہولت کے مطابق وزن ڈال کر سفر طے کرتے جاتے ہیں اوراپنی دانست میں غیرضروری سامان ِسفر کم بھی کرتے ہیں در حقیقت اُس میں کمی نہیں ہوتی ۔ زندگی میں کس موڑ پر اور کس مقام پر ہمیں کس چیزکی ضرورت پڑ جائے ہم کبھی نہیں جان سکتے۔
"یہ ہمارے رب کا ہم پر فضل ہے کہ ضرورت ابھی خواہش کی سیڑھی پربھی نہیں آتی اور ہم مالا مال ہو جاتے ہیں"
فروری 5 ،2012

''ہماری خوشیاں ہمارے غم"

"خوشیاں بانٹنے سے دُگنی ہوتی ہیں اورغم بانٹنےسےآدھے رہ جاتے ہیں"
یہ بات سوفیصد دُرست ہے پریہ سچائی اتنی کڑواہٹ رکھتی ہے کہ اس کا ذائقہ چکھنا سخت نادانی ہے۔ پہلے آتے ہیں خوشیوں کی جانب،خوشی میں انسان اتنا بےخود ہوتا ہے کہ کسی کو اس رقص میں شامل کرے یا نہ کرے سب خود اس کی جانب کھنچے چلے آتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بعض خلوص سے آگے بڑھتے ہیں تو بعض رشک سے یا پھر حسد وبُغض کے مخملی لبادے پہن کرسامنے آتے ہیں۔جوبھی ہے ایک ہجوم ِعاشقاں انسان کومرکزِ نگاہ بنا لیتا ہے۔
غم کے حوالے سے  پہلے تویہ طے ہوکہ غم کیا ہے اورغم کیوں؟ اگرہرچیز مُنجانِبِ اللہ ہے تو آنکھ کے آنسو اوردل کی بےچینی بھی اُسی کی عطا ہے۔ جب ہم خوشی کو سنبھال سنبھال کر نہیں تھکتے توذرا سی تکلیف بلکہ ابدی زندگی کےمقابلےمیں ایک پل کی خلش بھی گراں کیوں گزرتی ہے۔ مان لیا کہ ہم انسان ہیں، اورانسانوں میں رہتےہیں اورمشکل وقت میں اُن کی طرف ہی دوڑتے ہیں لیکن جب ہم بہت سوچ کرصرف اپنےغمگُسار دوستوں کے حلقے میں کوئی بات کریں تو یہ بھی بہت بڑا سراب ہے۔ہمارا پیارا اُس درد کو بالکُل ایسے ہی محسوس کرے گا جیسے اُس پریہ سانحہ گُزرا ہے۔ ہماری آنکھوں سے ٹپکنے والےآنسو اُس کے دل پر اثرانداز ہوں گے۔ ہم خود تو بہت ہلکے پُھلکے ہوجائیں گے لیکن ذرا غورکریں تو ہم نے اپنی محرومی کا ایک حصہ اپنے ہنستے مُسکُراتےدوست کو دے کراُسےاُداس کردیا۔ یہی ہے ہماری محبت،یہی ہے ہمارا خلوص۔ بات بظاہرچھوٹی سی ہےلیکن غور کیا جائے تو بہت بڑی ہےدُنیا میں لوگ ہمیں ڈسٹ بِن کی طرح استعمال کرتے رہے جب ہمارا وجود مایوسی کے کثیف انبار سے بھر گیا تو ہم نے وہی ڈسٹ بِن اپنے دوست کے سر پر اُلٹ دیا۔ یہ ہے ہمارا فہم؟یہ ہے ہمارا شعور؟۔
"ہمیں اپنے دوستوں کوڈسٹ بن کی طرح نہیں بلکہ پھولوں کے گُلدستےکی طرح سنبھال کررکھناچاہیےاوراس میں اپنی چاہت کے خوش رنگ پھولوں کا اضافہ کرتے رہناچاہیے۔ضمنی سی بات ہےکہ پھول کے پاس کانٹےلازمی ہیں تو دوست جب اِن کانٹوں کو بھی دل سے لگائیں گے تو ہمارے وجود میں پیوست نادیدہ سوئیاں خود بخود ہی نکل جائیں گی"۔
اہنے ذاتی مسائل سے نپٹتے ہوئے ہر وہ غم ،پریشانی یا صدمہ جو ناقابلِ برداشت دِکھائی دے اِسے اپنے دماغ کی فائلوں میں محفوظ کر لیں یا دوسرے لفظوں میں ڈاؤن لوڈ کر لیں۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم خوشی ہو یا غم ہر فائل کو اُسی وقت دیکھنے کی لت کا شکار ہیں۔۔۔غم اگر مجبوری ہے تو خوشی ہوس بن جاتی ہے۔اور کچھ نہیں تو اپنے انٹرنیٹ سے سبق سیکھیں جہاں فیس بک یا گوگل پلس کے ہوم پیج پر آنے والے عکس اور لفظ نظر کے سامنے سےگزرتے رہتے ہیں۔۔۔کسی کے سیاق وسباق میں ذرا دیر کو دلچسپی پیدا ہو جاتی ہے۔۔۔ زیادہ ہی اچھا لگے اور وقت نہ ہو تو بک مارک لگا کر آئندہ پڑھنے کو محفوظ کر لیتے ہیں۔۔۔جب دل کسی کو اس احساس میں شریک کرنے کی خواہش کرے تو فوراً شئیر کرنا چاہتے ہیں۔۔۔اپنی بات لگے تو اس کے ساتھ اپنا احساس بھی شامل کر دیتے ہیں۔۔۔جب دل کسی صورت اس سے جدا ہونے پر آمادہ نہ ہو تو اپنے پاس رکھنے کے لیے ڈاؤن لوڈ کر کے سنبھال لیتے ہیں۔ ہم یہ سب محض انگلی کے ہلکے سے لمس سے جب چاہیں کر سکتے ہیں۔ بالکل یہی سبق ہماری زندگی کہانی کے لیےبھی ہے کہ محض سوچنے کے انداز میں تبدیلی سے ہم کسی بھی ناقابلِ برداشت یا لاحل مسئلے کو برداشت کرنے اور کسی حد تک سمجھنے کے قابل ہو سکتے ہیں۔جو ہو چکا یا ہو رہا ہے اِسے بدلنا ہمارے اختیار میں نہیں ۔ 

دُنیا میں ملنے والی ہرآسائش ہرآسانی باعثِ سکون نہیں ہوتی اور دُنیا میں ملنے والی ہر پریشانی،ہر تنگی باعثِ آزار نہیں ہوتی بظاہر وہ کتنی ہی خوشنما یا بدنما نظر آ رہی ہو۔صرف وقت ہی ہے جو ہمیں ہر  احساس،ہر چیز کی اصلیت سے آگاہ کرتا ہے۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ دُنیا میں کسی بھی شے کو دوام نہیں۔عام گاڑی کی طرح زندگی کی گاڑی کو چلانے کے لیے بھی ایندھن درکار ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ خرچ ہوتا رہتا ہے۔ہماری خوشیاں ہماری محرومیاں ایندھن کی طرح ہیں گاڑی چلتی رہے تو اِن کی ضرورت کبھی ختم نہیں ہوتی۔مسئلہ تب پیدا ہوتاہے جب ایندھن نہ ملے پھر گاڑی نے تو رُک ہی جانا ہے، یہ کہیں بھی بند ہو سکتی ہے کسی مصروف سڑک کے درمیان یا کسی سُنسان موڑ پر، اندھیری رات میں کسی خطرناک علاقے میں یا پھر اپنے گھر کے محفوظ قلعے میں۔ اگر بروقت پتہ چل جائے تو انسان حفاظتی اقدامات کر سکتا ہے پر کبھی کبھی آنکھوں پر ایسا پردہ پڑ جاتا ہے کہ یک دم پتہ چلتا ہے کہ اب گاڑی آگے نہیں چل سکتی۔یہ وقت نہایت خطرناک ہوتا ہے۔ ایک صورت یہ بھی ہے کہ گاڑی میں ضرورت سے زیادہ ایندھن ہو یہ بھی مُہلک ہے۔ ہر شے ایک خاص تناسب میں ہو تو فائدہ مند ہوتی ہے۔اس میں کامیابیاں اورناکامیاں یکساں اہمیت رکھتی ہیں جیسے ترقی یافتہ ممالک میں جب انسان سب کچھ حاصل کر لیتا ہے تو اُس کے پاس رونے کو آنسو بھی نہیں بچتے - ہر شے اُس کے قدموں میں ہوتی ہے تو پھر بھی وہ ڈپریشن میں چلا جاتا ہے اور خود کشی کر لیتا ہے۔ اسی طرح کُچلے ہوئے پسے ہوئے لوگوں کے پاس تو لُٹانے اور گنوانے کوکچھ باقی نہیں بچتا تو وہ اپنی زندگی دے کر یہ آخری قرض بھی لوٹا دیتے ہیں۔
ہمارے مسئلے یا پریشانیاں پانی کی لہروں کی طرح ہیں اور اِن کے بیچ ہمارا وجود ایستادہ چٹان کی صورت رہنا چاہیے۔۔۔۔جسے پانی کی بپھرتی ہوئی موجیں ہر آن نم تو کرتی ہیں ۔۔۔مدوجزر سرتاپا شرابور بھی کر دیتے ہیں اور کبھی سونامی ہمیشہ کے لیے نگاہ سے اوجھل بھی کر دیتے ہیں لیکن ہمیشہ کے لیے فنا صرف مالک کا حکم ہے۔۔۔اُس کی مرضی ہے ۔۔اُس کے قائم کردہ وقت کی عدالت میں ہی یہ فیصلہ سنایا جا سکتا ہے۔ ہمیں نہ صرف دوسروں کی زندگی بلکہ اپنی زندگی میں بھی تقدیر کے کسی فیصلے کے خلاف ڈٹے رہنے کا اختیار نہیں۔ ہم نہیں جانتے کہ آنے والے وقت میں آج کی خوشی کے پیچھے کیا غم پوشیدہ ہیں اور آج کے نہ بھولنے والے صدمات کے پہلو میں خوشیوں کی کون سی گھڑیاں منتظر ہیں۔
کسی بھی شے کے ملنے یا نہ  ملنے کی خوشی یا غم نہ ہونا ہی اصل کامیابی ہے کیونکہ ہم نہیں جانتے کہ ہمیں ملنے والی شے خوشی کا باعث ہو گی یا پھر ملنے والی محرومی واقعی اس قابل ہے کہ اس کا سوگ منایا جائے۔وقتی پسپائی ہمیشہ کی شکست کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں اور جس نے ہار کا ذائقہ نہیں چکھا وہ کبھی جیت کی ابدی لذت نہیں پا سکتا۔
 خوشی وہ جنس وہ دولت ہے جو کسی بھی وقت کہیں سے مفت تو مل سکتی ہے لیکن اُسے لوٹا نہیں جا سکتا۔ یہ بھیک مانگ کر تو مل سکتی ہے لیکن کسی سے چھین کر کبھی حاصل نہیں کی جا سکتی ۔
 خوشی بھرے ہوئے برتن کی طرح ہے حد سے بڑھ جائے تو چھلک جاتی ہے۔غم تو شرابور کر دیتا ہے اندر باہر سے۔۔ اگر اسے سمجھنے کا گر نہ آئے۔ انسان کو اگر معلوم ہو جائے کہ اس کو آئندہ کیا غم ملیں گے تو وہ ایک پل بھی زندہ نہ رہے اور اگر انسان کو یہ معلوم ہو جائے کہ آئندہ اُسے کیا خوشیاں ملنے والی ہیں تو وہ کبھی مرنے کے لیے تیار نہ ہو۔


" وقت کہانی "

سورۂ العصر (103)۔۔۔
'' وَالعصّر''
ہم اچھے وقت کے انتظارمیں عمرگُزاردیتےہیں۔ یہ جانے بغیرکہ جو وقت گُزر رہا ہے وہی اچھا وقت ہے۔اور آنے والا وقت بُرا ہی ہوتا ہے چاہے پریشانی میں آئے یا  فراغت میں۔کیونکہ ہمیں نہیں معلوم اُس وقت ہمیں صبروشکر کا موقع مل سکے گا یا نہیں ؟ہم اس قابل بھی ہوں گے کہ اُس وقت کی خوشیاں سمیٹ سکیں یا غموں کا مقابلہ ہمت وبرداشت سےکرسکیں؟ اور سب سے بڑھ کر اپنے رب کے حضور توبہ کی توفیق نصیب ہوگی ؟ اور اپنےمالِک کی خوشنودی ورضاکے لیے نیک اعمال کا وقت میسّر ہوگا کہ نہیں؟۔
"فرض کریں اچھا وقت آبھی جائے تواس بات کی کیا ضمانت ہےکہ ہم اُس کا استقبال کرنےکے لیےموجود بھی ہوں گے"۔۔۔۔
دُنیا خسارے کا سودا ہے۔۔۔خسارا ہی خسارا۔۔۔ محبتوں میں بھی خسارا اور نفرتوں میں بھی خسارا ۔ بات کو سمجھنے میں بھی خسارا اور ماننے میں بھی خسارا۔ہماری زندگی کا سب سے بڑا المیہ سب سے بڑا خسارا یہی ہے کہ ہم خسارے کے ساتھ جیتے ہیں اور خسارے کے ساتھ مر جاتے ہیں۔ہم مرمر کر جیتے ہیں اور جیتے جیتے ایک دم سے مر بھی جاتے ہیں ۔خسارے کے اس سفر میں اگر ہماری سوچ سب سے زیادہ نقصان پہنچاتی ہے تو مکمل خسارے سےبچاتی بھی یہی سوچ ہے۔
کبھی سینما جانے کا اتفاق ہوا ہو توذہن میں لائیں کہ کوئی آگے کھڑا ہوتا ہےکوئی پیچھے۔سب شوقین۔۔۔نئی دُنیا۔۔۔۔نئےمزے نئی لذت دیکھنے کے تمنائی ۔ایک دوسرےکودیکھتےہوئےایک دوسرے سےنظریں چرائے۔آگے والوں کو حسرت سےکہ ہمارا سفر ابھی باقی ہے اور پیچھے والوں کو فخرسے کہ شاید وہ اس نعمت سے محروم رہ جائیں گے۔نہیں جانتے کہ ٹکٹ لینے کے بعد فلم دیکھنا پڑے گی اور وہ کیسی ہو؟کیا معلوم۔
ٹریلر سے فلم کا صحیح روپ سامنے نہیں آتا۔اورپھرمعلوم ہو گا کون خسارے میں ہے اور کس نے گھاٹےکا سودا کیا؟اور کون فائدے میں رہا۔ ہم تواپنے آپ کو بھی نہیں جانتے اوردنیا کو سبق پڑھاتے ہیں۔ اگر ہم اپنےآپ پرایک نظر ڈال لیں تو سارا غرورسارا تکبرکلف لگے کپڑے کی طرح ایک دھلائی میں اتر جائے گا۔  حق یہ بھی ہے کہ کچھ کپڑے دھوبی گھاٹ میں دُھل کر بھی اپنی"میں"سے باہر نہیں آتے۔ اُن کے لیے اجل کا پٹخا کافی ہوتا ہے۔

" تعلیمِ بالغاں "  کی اہمیت سے انکار نہیں کیونکہ حق الیقین آخری سانس سے پہلے ممکن ہی نہیں- وقت سب سے بڑا اُستاد ہے زندگی ہر لمحہ سبق دیتی ہے-آنے والا پل نئے دَور کا آغاز ہوتا ہے۔ان سب باتوں کے باوجود حساب کتاب کا سبق جتنا جلد ازبر ہو جائے اُتنا ہی فائدہ ہے- ایک اَن جان ساری عمرمول تول میں مصروف رہے وقت گُزرنے کے بعد جب جمع تفریق سمجھ میں آئے تو پتہ چلے کہ وہ تو سراسر گھاٹے کا سودا خریدتا رہا اور بیچتا رہا ۔
" پچھتاوا زندہ انسان کے لیے دوزخ کا وہ عذاب ہے جو اُسے پل پل موت سے ہمکنار توکرتا ہے لیکن اگلے ہی پَل مرنے کے لیے پھر زندہ کردیتا ہے ـ"

بدھ, اکتوبر 24, 2012

" تلاش ِذات "

وہ کم عقل تلاشِ ذات کےسفر پرتھی۔۔۔اس نےکشت اُٹھائےجوگ لیا،دردرسوالی بنی۔روح کا رستہ دکھائی نہ دیتا تھا شاید اس  کائنات سے پرے کوئی اوردُنیا تھی جہاں اُس کا سکون تھا۔وہ بےچین تھی،فراق یارمیں پل پل جیتی تھی پل پل مرتی تھی۔ کہاں جائے؟کس سے ملے؟ پھر یوں ہوا کہ جب درد حد سے سوا ہو گیا تو مالک نے کہا کہ اب میری تو سُن ! اپنے اندر تو جھانک شاید تجھےتیرا گوہرِمراد مل جائے۔
وجود کی چاہ حق ہے پر چاہ کو کبھی وجود میں تلاش نہ کرنا۔اگر وجود مِل گیا تو چاہ نہیں ملے گی۔جب وجود مل جائےتوانسان چاہ کو بھول جاتا ہے۔ وجود کی کشش کا دائرہ اتنا وسیع ہوتا ہے کہ طوافِ وجود میں انسان بےخود سا ہو جاتا ہے۔ کہا گیا ہے کہ طواف کرو تو وجود کو نہ دیکھو، چاہ کو دیکھو،اُس میں گُم ہو جاؤ۔ اگر وجود کو دیکھا تو چاہ نہیں رہے گی ۔ یہ بھی نہیں کہ وجود کو بھول جاؤ- جب طواف کر چُکو تو پھر جتنا چاہے آنکھوں میں تصویراُتارلو۔ دیکھتے جاؤ، دیکھتےجاؤ۔۔۔ یہ وہ لذّت ہےجس سےسَیری نہیں ہوتی، وہ پیاس ہے جو کبھی نہیں بُجھتی۔۔۔ لیکن اس لذت میں بھی ،اس پیاس میں بھی وہ ٹھنڈک ہے جو روح کی تِشنگی مٹا دیتی ہے۔
ذات تو ہروقت تمہارے پاس ہے۔۔۔ جب دل چاہےبات کرو۔۔۔لاڈ کرو۔۔۔ لڑوجھگڑو۔۔۔خفا ہو جاؤ۔۔۔بھول جاؤ لیکن 'وہ' ذات اپنے بندے کو کبھی نہیں بھولتی ۔ وہ تو ہرنازوادا میں اُس کے پاس ہے۔ مسکراتی ہے۔۔ دیکھتی ہے۔۔۔ اور کہتی ہے کہ تو نے جو کرنا ہے کرلے۔۔۔جو چاہنا ہے چاہ۔۔۔جہاں بھاگنا ہے بھاگ جا۔۔۔ جس کو اپنانا ہے اپنا لے۔ ہوگا تو وہی جو میں چاہوں گا اورتجھے کیا معلُوم تیرے حق میں کیا بہتر ہے؟تُو کس راستےکا مسافر ہے؟ تو ان چھوٹی موٹی پگڈنڈیوں کو ہی نشانِ ِمنزل جان رہا ہے۔۔۔تو نے کہاں جانا ہے یہ صرف میں جانتا ہوں۔اُس وقت بات ہو گی جب تو پلٹ کر آئے گا پھر کس منہ سے کہے گا۔(آیتِ کریمہ سورہ الانبیاء(21) آیت 87۔ترجمہ)
اللہ کے سِوا کوئی معبُود نہیں سب تعریف اللہ کے لیے ہے۔بےشک میں ہی ظالموں میں سے ہوں۔
حق اللہ ہو۔۔کائنات حق کےسوا کچھ بھی نہیں۔ہرشے ہرجذبہ،ہرخواہش ہرقانون،ہررابطہ،ہرتعلق،ہررشتہ ایک اورصرف ایک چیز کا عکس ہے۔
یہی کاروبار ِحیات ہےتویہی وصالِ دنیا ہے۔۔۔یہی ہجرِذات ہے اوریہی رضائے رب ہے۔
یہی فنا کا پیغام ہے یہی بقا کا سلام ہے۔۔۔ یہی نقش برآب ہےتو یہی حقیقت ِگلاب ہے۔
یہی صبح کا نور ہےیہی شب کا غرور ہے۔
یہی رہبرِکامل ہے تو یہی نشانِ منزل بھی۔
اخلاق ِآدمیت ہے توخلق کی جامعیت بھی یہی۔
روح کی پکار ہے تو جسم کی طلب بھی ہے۔
یہی راستہ ہے فلاح کا۔۔۔ پرکیا کریں۔۔۔
"یہی وجود کی چاہ بھی ہے اوریہی آنکھ کا آنسو بھی ہے" 

وجود کی چاہ حق ہے۔وجود نہ ہو تو ذات نہیں ملتی۔ ثبوت نہ مانگنا۔ثبوت مل گیا تو یقین کرنا پڑے گا پھر واپسی کا راستہ نہیں ملے گاکہ سفر پر چل  پڑو تو کشتیاں پہلے ہی جلانا پڑتی ہیں اگر اب بھی ثبوت چاہیے تو سُن لو" وجود خانہ ء کعبہ ہے اور ذات خالقِ کائنات ہے"۔خانہءکعبہ جسے خالق نے صرف ہمارے عقلی معیار کے اطمینان کے لیے پیدا کیا ہے۔ ورنہ اُسے کسی کے سجدوں۔۔۔ کسی کے سفر۔۔۔ کسی کی مُشقّت کی کوئی ضرورت نہیں۔ 
یاد رکھو!تلاشِ ذات کے سفر پرنہ نکلنا،تکمیلِ ذات ہو گئی تووجود باقی نہیں رہے گا۔جب حضرت موسٰی تجلّی کی تاب نہ لاسکے تو تم تو کچھ بھی نہیں اس کائنات کے ایک ادنیٰ ذرّے سے بھی کمتر۔لیکن تمہارا وجود ہے۔۔۔تمہاری موجودگی ہے۔۔۔اس کو باقی رہنے دو۔ جو مل جائے رب کی رضا سے جھولی میں بھر لو۔دینے والا تو دیتا ہی چلا جاتا ہے یہ نہ ہو پھر تنگیءداماں کا شکوہ کرنے لگو۔
جسم کی روح کو جانے بغیر'روح' کی معراج کا سفرلاحاصل ٹھہرتا ہے۔مجاز کے پردے سے حقیقت کا عکس صرف    
 زمین سے سفر کرنے والوں کا نصیب ہے۔مجاذ اور حقیقت ایک ہی دائرے میں باہم جڑے ہیں ۔ ہمیں بس مجاذ میں سے حقیقت تلاش کرنی ہے اور حقیقت کو مجاذ کے پردے میں سمجھنے کی کوشش کرنا ہے یہی مقصدِحیات ہے۔
یکم اکتوبر ، 2010

اتوار, اکتوبر 21, 2012

" لمبی جُدائی "

شادی مرد اورعورت کے زندگی کے آخری سانس تک ساتھ رہنے کا سماجی مُعاہدہ ہے۔عورت مرد کا یہ تعلق دیکھنے میں تو بہت پُرکشش اور دلفریب دِکھتا ہے مگر  درحقیقت اس میں اتنےپیچ وخم اورایسی گہری کھائیاں ہوتی ہیں کہ انسان ایک گرداب سے بچتا ہے تو دوسرے میں جا نکلتا ہے۔مرد یا عورت کی تخصیص سے قطع نظر کسی بھی انسان کے لیے ایک  کامیاب شادی شدہ زندگی  گذارنا  خصوصاً اپنے  جذبات اور احساسات کے حوالے سے دنیا کی  زندگی میں سب سے بڑی آزمائش ہےتو اس بندھن کو آخری سانس تک نبھاتے رہنا اس سے کہیں گنا زیادہ کڑا امتحان ہے۔اپنی فطری جبلت کی انسان کو بہت بھاری قیمت ادا کرنا پڑتی ہےاس رشتے میں بندھنے کے بعد ایک نامعلوم سا حساب کتاب کا کھاتہ کھل جاتا ہے،دن اور رات کا ہر لمحہ دوسرے کے سامنے عیاں کرنا پڑتا ہے۔عورت کی زندگی کا محور اگر  نئے بننے والے رشتوں اور ان سے وابستہ مسائل کو سمجھتے ،سلجھاتے اور اپنے اندر  بری طرح الجھتے گذرتا ہے تو دنیا میں بےفکری کی سیٹیاں بجاتے معصوم سے مرد کو گھریلو ذمہ داریوں  اور روٹی روزی کے جھنجھٹ کان پکڑ کر کولہو کا بیل بنا دیتے ہیں۔اس تعلق کی کامیابی یا ناکامی بیرونی سے زیادہ اندرونی عوامل کی مرہونِ منت ہوتی ہےاور یہ فیصلہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک دونوں میں سے کوئی ایک اس دُنیا سے رخصت نہ ہو جائے۔احساس کی پھوار اورسمجھوتے کے گریس سے پنپتی ایک لمبی رفاقت کےبعد جب کوئی فریق جُدا ہوتا ہے تو مرد عورت دونوں کےاحساسات مُختلف ہوتے ہیں۔
شادی شدہ زندگی گزارنے اورماں بننے سے قطع نظر ماں یا مامتا عورت کا ایک ایسا رویہ ہے جس کی جھلک عمر کے ہر دور میں نظر آتی ہے تو زندگی کے ہرکردار میں بحسن وخوبی پورا اترنے کے لیے اس کی فطرت میں لکھ دیا گیا ہے۔عورت کی قربت میں جب تک ممتا کی آغوش کی نرمی نہ ملے وہ بھرپور نہیں ہوتی۔مرد کےاندرکا چھوٹا بچہ کبھی بڑا نہیں ہو پاتا وہ ہر رشتے،ہر تعلق میں پہلے اپنے اندر کے چھوٹےبچے کومطمئن کرتا ہے پھر آگے بڑھتا ہے۔
اِس رشتے کے حصار میں آنے والامرد زندگی کے میلے میں گھومنے والے اُس چھوٹے سے بچے کی طرح سے ہے جو اپنے بڑوں کا ہاتھ پکڑ کرمیلے میں جاتا ہے،مختلف اقسام کی رنگ برنگی اشیاء اُسے اپنی جانب کھینچتی ہیں،وہ ہاتھ چُھڑا کر بھاگنا چاہتا ہے تاکہ اپنی مرضی سے ہرطرف گھوم پھر سکے،ہر شے کو حسرت بھری نگاہ سےدیکھتا ہے۔لے جانے والے اُسے مطمئن کرنے کی پوری کوشش کرتے ہیں، اُس کی خواہشات کا ہر ممکن خیال رکھا جاتا ہے،کسی شے کی کمی نہیں ہونےدی جاتی لیکن اُس کا ضدی دل  لڑتے جھگڑتےاپنی  چاہ پر اڑا رہتا ہے،خیرخواہ دشمن دِکھتے ہیں جو زندگی کا بھرپور لُطف اُٹھانے نہیں           دیتے۔کبھی گرفت  اتنی مضبوط ہوتی ہے کہ فرار ناممکن ہو جاتا ہے۔اچانک ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ گرفت کمزور پڑ جائے یا پھر کسی خواہش یا ہوس کی حدّت اتنی بڑھ جاتی ہے کہ سب راکھ ہو جاتا ہے۔وہ اپنے نفع نقصان کی پرواہ کیے بناء ہاتھ چُھڑا لیتا ہےتوکبھی بغیر کسی خواہش کے بھی ہاتھ چھوٹ جاتا ہے۔ یہ ایک نئی کہانی کا نقطۂ آغاز ہے۔اب وہ اپنی مرضی سے ہر جگہ جانے کے لیے آزاد ہوتا ہے۔جب وہ اپنے طور پر گھومنا چاہتا ہے تو کہیں اونچے دروازے اُس کی راہ میں رُکاوٹ بنتے ہیں کبھی اپنی ضروریات پوری کرنے سے قاصر رہتا ہے کہ اسے ہر قدم پر سہارے کی عادت جو تھی۔وہ مہربان ساتھ جو اُس کی خواہشات کی تکمیل میں ہر گھڑی اس کے ہم قدم تھا اب زندگی کے میلے میں کھو چُکا۔ وہ ننھا سا بچہ ہرشکل میں اُس کو ڈھونڈتا ہے اورکسی کوظاہر بھی نہیں ہونے دیتا مبادا کسی کو اُس کے اکیلے پن کا پتہ نہ چل جائے۔وہ راستے کی بُھول بُھلیوں میں بھٹک کر بھی سر اونچا کر کے چلےجاتا ہے اپنے خول میں بند۔۔۔ اندر سے غیر محفوظ۔
عورت پہلے زندگی کی بازی ہارجائے تو وہ مرد کے لیے ایسے دانت کی مانند ہوتی ہے جس کی موجودگی کا اُسے قطعاً کوئی احساس نہیں ہوتا۔۔۔ لذتِ کام ودہن کے لیے اس دانت کووہ ایک اوزار سے زیادہ اہمیت نہیں دیتا۔ اُسے کبھی خیال نہیں آتا کہ کسی سخت ترین چیز کو توڑنے کے لیے اس دانت کوکتنی اذیّت برداشت کرنا پڑتی ہے؟وہ اپنی زندگی جیتا ہے،اُسےصرف اپنےٹھنڈے گرم سےغرض ہوتی ہے۔۔۔یہ جانے بغیرکہ شدید ٹھنڈا یا تیز گرم اس دانت کے لیے کس قدرنُقصان دہ ہے؟۔ صبح شام بُرش کرکے سمجھتا ہے کہ اپنا فرض پورا کر دیا۔۔۔اُس نے کبھی اُسکی رگوں میں اُتر کر نہیں دیکھا کہ وہاں کس چیز کی کمی ہو رہی ہے؟بالاآخرجیسے ہی وہ سخت جان جُدا ہوتا ہےعین اُس لمحے مرد پرآگہی کے در وا ہو جاتے ہیں۔جس چیزکی طرف ہاتھ بڑھاتا ہے ایک خالی جگہ اُسے پیچھے دھکیل دیتی ہے۔وہ اپنے آپ کومضبُوط جان کراس کمی پرقابو پانے کے لیےزورلگاتا ہے لیکن وہ مزاوہ لذّت اُسے کبھی نہیں ملتی۔ یہ احساس کچوکے دیتا رہتا ہے کہ اگرذرا احتیاط کرتاتومیرا ہی فائدہ تھا۔۔۔
نوٹ: یہ احساس بھی ہرکسی کا مُقدرنہیں کُچھ نادان یا بےحس پتھروں سے بھی گئے گُزرے ہوتے ہیں۔
اگر مرد پہلے داغِ مفارقت دے جائے تووہ عورت کے لیےایسے آکسیجن سلنڈر کی طرح ہوتا ہےجسے وہ اپنی پیٹھ پر لادے اپنی عمر کے بند کمرے کے دائروں میں سفرکرتی ہے۔۔۔بالکُل کولہو کے بیل کی طرح۔جُدائی کی گھڑی میں جہاں وزن ہٹنے سے ایک ہلکے پن کا احساس ہوتا ہےگویا کششِ ثقل ختم ہو گئی ہو          ،    وہیں   آکسیجن کے حصول کے لیےکھڑکی بھی کھولنا پڑتی ہے۔۔۔ایسی کھڑکیاں جن پر  ہوا مُدتوں      دستکیں دیتی رہی لیکن کبھی گُھٹن محسوس ہی نہ ہوئی۔ اب خود آگے بڑھ کرکھڑکی کھولی تو پتہ چلا کہ وہ دستکیں توخواب وخیال ہوئیں۔۔۔ اب تو تازہ ہوا کے جھونکوں کے ساتھ آلودہ فضا اور گرم لُو ہی مُقدر ہے۔
مرد اور عورت دونوں اپنی اپنی دُنیا کے بادشاہ ہیں۔ مرد کی بادشاہی اُس وقت تک ہے جب تک عورت کا وجود اُس کی زندگی میں جی حضوری کی صورت قائم رہےجبکہ عورت کی بادشاہی اُس وقت شروع ہوتی ہے جب مرد کا وجود ہمیشہ کے لیے نگاہوں سے اوجھل ہو جائے۔عورت کی بادشاہی جنگل کے اُس بڈھے شیر کی طرح ہے جو اپنا شکار بھی خود تلاش نہیں کر سکتا اور انا کے خول میں بھوکا پیاسا اندر ہی اندر مر جاتا ہے۔
حرف ِآخر!
دنیا کی ہر چیز ہر رشتہ اور ہرتعلق صرف برتنے اور پھر چھوڑنے کے لیے ہے۔کبھی ہم برتنے کے بعد اسے سمیٹنے کی جستجو میں خوار ہوتے ہیں تو کبھی اپنی گرفت میں سنبھالے رکھنے کی جدوجہد میں اسے کھو دیتے ہیں۔اکثر یوں بھی ہوتا ہے کہ ہم اس کی موجودگی اور اہمیت کے احساس سے ہمیشہ بےخبر رہتے ہیں تاوقت کہ وہ ہماری نظروں سے ہمیشہ کے لیے دور نہ ہو جائے۔وقت کو تھام لو اس سے پہلے کہ وقت ہاتھ سے نکل جائے۔
2004 ، 30 جولائی

ہفتہ, اکتوبر 20, 2012

" تُحفہ "

ایک دوست دوسرے دوست کو سب سے بہترین تُحفہ دینا چاہے یا ایک چاہنے والا اپنی عزیز ترین ہستی کو دینا چاہے تو وہ کیا ایسا دے کہ جو نہ صرف دوست کو بلکہ اُسے بھی شانت کر دے۔ ہمارے پاس فقط دو ہی چیزیں ہیں ایک مال دوسری جان ۔ پہلے آتے ہیں مال کی جانب -اس میں زیادہ سے زیادہ ایک شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ میں چاند  تارے بھی توڑ کر لا دوں گا ۔ اب تو یہ بھی ممکن ہے کہ انسان خلا تک جا چُکا ہے تاروں کا مشاہدہ اُن کے قریب جا کر کرتا ہے یعنی انسانی استطاعت کے مطابق یہ آخری حد ہے۔اس سے زیادہ اپنے محبوب کو  وہ اور کیا دے سکتا ہے۔سچے عاشق اب یہ کہیں کہ میں جان بھی قُربان کر سکتا ہوں        تو ذرا ایک منٹ ٹھہرجائیں کہ کون سی جان؟جان! جسے ہم اپنی سب سے قیمتی شے سمجھتے ہیں۔۔۔ اُسے بچانے کی خاطر دوسروں سےٹکراجاتے ہیں۔ وہ تو ہماری ملکیت ہی نہیں۔ جان تو ایسی بےوفا ساتھی ہے کہ جانے لگتی ہے تو پلٹ کردیکھتی  ہی  نہیں کہ اُس کے ساتھی کوکتنی اذیت ہو رہی ہے وہ توایک پل  بھی مہلت نہیں دیتی۔
ایک اور شے جس کے بارے میں اہلِ نظر کا کہنا ہے کہ سب سے قیمتی تُحفہ ہے جو ہم کسی کو دے سکتے ہیں۔۔۔
وہ ہے۔۔۔" ہمارا وقت "
مگر درحقیقت وقت بھی ہمارا اپنا نہیں ہوتا۔ہم جس سسٹم میں رہتے ہیں اُس میں وقت پر بھی ہمارا اختیارنہیں۔ ہم بڑی مشکل سے اپنا وقت چوری کرکے اپنی مرضی سے خرچ کرتے ہیں۔جیسے آتے ہیں ویسے خالی دُنیا سے چلے جاتے ہیں۔
اپنے دوست کوجان،مال اور وقت دینے کے لیے بھی ہمیں دوسروں کا سہارا چاہیے تو پھر ہم اپنے دوست کوکیا ایسا دے سکتے ہیں جو کہ خالص ہمارا ہو۔جب اللہ نے انسان کو اشرف المخلوقات پیدا کیا ہے تو پھر ہم کون ہیں اپنی کم مائیگی کا گلہ کرنے والے۔اللہ سے اِس سوال کا جواب یوں ملا کہ ہم اپنی سوچ،اپنے خیالات جو دوست سے شیئر کرتے ہیں اُن کی گہرائی اور معنویت جب اس کی سوچ سے ہم آہنگ ہو جاتے ہیں تو یہ وہ بہترین تُحفہ ہے جو ہم اپنے دوست کو دیتے ہیں اور ہمیں اپنے دوست کی طرف سے ملتا ہے۔ کمال یہ ہے کہ دینے والا بھی مالامال ہو جاتا ہےاور لینے والا تو ظاہر ہے بُلند مقام پر ہوتا ہے۔۔۔ جیسے کسی درگاہ کا گدی نشیں جس کے مُرید اندھی عقیدت میں ڈوب کر اپنی جان،مال اورعزت اُس کے قدموں میں ڈھیر کرتے جاتےہیں۔
لیکن یہ رشتہ،یہ تعلّق ایسی کسی بھی مثال سے بُلند ہے۔بڑائی چھوٹائی انسان صرف اپنی ذات کے حوالے سے محسوس کر سکتا ہےلیکن اسے کسی اور پر لاگو نہیں کیا جاسکتا۔
مایوسی کے اندھے کنوئیں میں یہ روشنی کی وہ خفیف سی جھلک ہے جو ڈوبتے ہوئےانسان کو زندگی کی نوید دیتی ہے۔قابلِِ ذکر بات یہ ہے کہ ہرشخص اس راز کو جان سکتا ہے صرف اس کو اپنے اندر جھانکنے کی ضرورت ہے۔
مارچ 25، 2011

جمعہ, اکتوبر 19, 2012

"حکمت کہانی"

سورۂ البقرہ (2) ۔۔آیت۔ 216
ترجمہ!
"مگر عجب نہیں کہ ایک چیز تم کو بری لگے اور وہ تمہارے حق میں بھلی ہو اورعجب نہیں کہ ایک چیز تم کو بھلی لگے اور وہ تمہارے لیے مضر ہو اور اللہ ہی بہتر جانتا ہے اورتم نہیں جانتے"
انسان کو کیا ملتا ہے؟ اوروہ کیا حاصل کرتا ہے؟بظاہریہ ایک ہی سوال ہے پر اس کے  جوابات مختلف   ہیں۔انسان کی کم عقلی کہہ لیں یا غوروفکر کا فقدان کہ وہ اس سوال کے پہلے جُزو کو ہی کُل جان کر ساری زندگی کسمپُرسی کی حالت میں گُزار دیتا ہے۔انسان ساری عمر یہ ہی سوچتا رہتا ہے کہ اسے دُنیا سے کیا ملا ؟ رشتوں نے اسے کتنی تقویت بخشی ؟ زندگی نے اُسے کس کس محاذ پر پسپا کیا ؟ وہ آخری سانس تک حالتِ جنگ میں رہتا ہے۔
" زندگی کا اہم سوال جس پر غور کرنا چاہیے کہ ہم نے کیا حاصل کیا "
اس کی مثال ایسےکہ خوراک انسان بھی کھاتا ہے اور جانور بھی لیکن انسان جانتا ہے کہ خوراک نہ صرف ہماری بھوک مٹاتی ہے بلکہ اس کے صحت بخش اجزاء ہمارے لیےمفید ہیں اور یہی پہلو اس کی اصل ہے۔ بدقسمتی سے ہم لوگ خصوصیت یا خاصیت کی بجائے مقدار پر اپنی توجہ مرکوز رکھتے ہیں اسی لیے خود ترسی کا شکار ہو جاتے ہیں۔
ہماری زندگی کے بد سے بد ترین تجربے میں بھی ایک مثبت سبق پوشیدہ ہے ۔"اللہ کے ہر کام میں حِکمت ہے"۔
اس سبق کا ادراک ہماری آکسیجن ہے ورنہ نفرتوں ،محرومیوں اور بےبسی کی کاربن ڈائی آکسائیڈ ہمارے وجود کو کُمہلا کر زندہ لاش بنا دیتی ہے۔

اتوار, اکتوبر 14, 2012

" لبْیک اللھم لبّیک "

لبیّک اللھم لبّیک ! 
خانۂ کعبہ کو اگر ایک لفظ میں بیان کرنا چاہیں تو وہ "حرکت " ہے۔
وہاں وقت تھم جاتا ہے۔۔۔ گھڑی کی سوئیاں رُک جاتی ہیں۔۔۔ منٹوں سیکنڈوں کےدن رات ختم ہوجاتےہیں۔۔۔ وقت اور اُجالے کی ہر تعریف بےمعنی نظر آتی ہے۔بس زندگی اپنے دھیان میں چلتی رہتی ہے۔ہر چہرہ کسی نہ کسی گمان میں ہوتا ہے۔۔۔ ساکت نہیں ہوتا۔ صرف نماز باجماعت کے اوقات میں کائنات کی ہر شے رُک جاتی ہے پھر سب اپنے مدار میں 
جاری وساری رہتا ہے۔
حرم کعبہ کے "پھیروں"میں پاؤں تھک جاتے ہیں  اور دل نہیں تھکتا۔جسم باغی ہوجاتا ہے اور روح  اُس کےسامنےمجبور وبےبس ۔جبکہ سفرِزندگی کے "اُلٹ پھیر "میں پاؤں کبھی نہیں تھکتے۔جسم ہے کہ آخری سانس تک خواہشوں اور حسرتوں کے منہ زور گھوڑے   کی پیٹھ سے بندھا  گھسٹتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ دل تھک جاتا ہے۔
۔۔۔
 ٭  انسان دُنیاوی آسائشوں اور مادی لذتوں کا اتنا  رسیا ہو چُکا ہے کہ  اللہ کا مہمان بننے کے اعزاز کی سچی خوشی  اور  سرزمین ِ مقدس میں  ہر سُو ملنے والا "وی آئی پی پروٹوکول" محسوس ہی نہیں  کر سکتا۔  نفس کی ہوس  اورزبان کےچٹخارے     روح کی طمانیت پر حاوی آ جاتے ہیں۔
٭ چہروں کے بھی عجب کھیل ہیں ۔کچھ چہروں کے ساتھ عمر گزار دو لیکن اجنبیت کا  غازہ کبھی نہیں اُترتا اور کبھی انسانوں کے  ہجوم میں  زندگی میں پہلی اور آخری بار لمحہ بھر کو ملنے والے  اپنائیت کی ایسی مٹھاس دے جاتے ہیں کہ  دل  روزِ  قیامت بھی اُن کے ساتھ کی آرزو   کرتا ہے۔
٭ ایک کمرے میں صرف میاں بیوی ہی  رہ سکتے ہیں  جو ہر تنگی ترشی میں  بہرحال گزارہ کر ہی لیتے ہیں جبکہ  سفر میں  مختصر مدت   کا  ساتھ  انسانوں کی خصلت اور اوقات بتا دیتا ہے۔
٭ کاٖغذی رشتے کاغذ کے پھول کی طرح ہوتے ہیں۔جتنا  چاہے خلوص کی خوشبو سے سنوارنے کی کوشش کرو ،احساس کی مہک سے خالی رہتے ہیں۔
٭نیکی صرف اتنی کرنا چاہیے جو دوسرے کو ہضم ہو سکے۔

ہفتہ, اکتوبر 13, 2012

"اللہ کے نام سے "



سورۂ الفاتحہ (1)آیت ۔2۔۔ ترجمہ
۔"سب تعریف اللہ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے"۔
سب تعریف اللہ کے لیے ہے۔۔۔
جب ہم کسی شے سے پُوری طرح مُطمئن ہوتے ہیں تو پھر ہی اُس کی تعریف کرتے ہیں لیکن اللہ کےمعاملےمیں ہم ڈراور خوف سے۔۔۔ایک فرض اور جبرکےطورپر جب تعریف کرتے ہیں تو اللہ سےلاشعوری طور پر دُور ہوتے چلے جاتے ہیں۔ہم  اللہ کےسامنےاپنی کمزوریاں نہیں لانا چاہتے۔
ہم اللہ سے ڈرتے ہیں۔۔۔اُس کی عبادت کرتے ہیں۔۔۔آخرت پرایمان لاتے ہیں لیکن سب سے ضروری کام کے وقت ہم تھک چُکے ہوتے ہیں۔ہم عمل پہلے کرتے ہیں اورسوچتے بعد میں ہیں۔قُرآن پاک کی پہلی سورۂ کی دوسری آیت پراپنی توجہ مرکوز کریں۔۔
"سب تعریف اللہ کے لیے ہے"
اِس آیت میں کسی عبادت کے کرنے کا حُکم نہیں دیا گیا۔اللہ کی تعریف کرنا ہے۔اگرہم اللہ کو جانتے ہوں گے پھر ہی اُس کی تعریف کر سکیں گے۔ ہم نے اپنے کاموں کی ترتیب ٹھیک کرنی ہے۔یعنی پہلےغور کرنا ہے۔۔۔سوچنا ہے۔۔۔سوچ کے بعد جب عمل کیا جائے گا،وہ ذمہ داری نہیں بلکہ ہماری رگوں میں دوڑتے خون کی مانند ہوگا۔۔۔جواپنا رستہ آپ بناتا ہےاور جسم کو تقویت بخشتا ہے۔اگربغیر سوچے سمجھےعمل کیا جائے گا۔۔۔تو وہ اُس خون کی طرح ہو گا۔۔۔جوراستہ تو اُسی طرح کا اختیار کرتا ہے لیکن کہیں رگوں میں جا کرکلوٹ پیدا کرتا ہے۔۔۔ توکہیں 
ہیمریج کا سبب بنتا ہے۔ پھرکبھی معمولی علاج سے روانی بہتر ہو جاتی ہے اورکبھی ساری عمر اس روگ کو پالتے گزر جاتی ہے۔
clot کلوٹ۔۔۔
haemorrhageہیمریج ۔۔۔
اپریل 21 ، 2011

"سیٹل اور سیٹل منٹ"

سورۂ فرقان(25) آیت 2۔۔   وَخَلَقَ كُلَّ شَىْءٍ فَقَدَّرَهٝ تَقْدِيْـرًا ترجمہ۔ اور جس نے ہر شے کو پیدا کیا اور پھر اس کے لیے ایک اند...