شادی شُدہ مرد یا عورت ایک بیابان میں تنہا تاریک مکان کی طرح ہوتا ہے جس میں اُس کا ساتھی اگراپنے وجود کی روشنی نہ بکھیرے،اپنی سَپُردگی کی اگربتیاں روشن نہ کرے، اپنے آپ کو بُھلا کر اپنے ہونے کا احساس نہ دِلائے تو آسیب زیادہ فاصلے پر نہیں رہتے۔۔۔وہ تو ذرا سی جِھری کی بھی تاک میں ہوتے ہیں ۔ ایک بار راستہ ملِ جائے تو پھر آسیب کی جھنکار اور اُن کی شرابُور موجودگی کے سامنے ساری تپسّیا دھری کی دھری رہ جاتی ہے۔ ساری زندگی روگ کی دھونی دینا پڑتی ہے پھر بھی اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ کب کوئی بھٹکتا ہوا آسیب سب کُچھ اُلٹ پلٹ نہ کر ڈالے۔
2011 ، 10 مارچ
پسِ تحریر
یہ محض افسانہ ہی نہیں حقیقتِ انساں بھی ہے۔۔۔ شرکِ دُنیا کی داستان بھی ہے۔۔ مجازی سے حقیقی کے سفر کی منازل کہانی بھی ہے۔اورعورت مرد کے ازلی تعلق کا تسلسل بھی ہے۔۔۔ کبھی مرد اپنی ذات میں اتنا مکمل اتنا آسودہ دکھتا ہے کہ کسی مدہم سی کسک،موہوم سی خلش کا شائبہ تک نہیں ہوتا۔اسی طرح عورت جو دیکھنے میں موم۔۔۔برتنے میں کانچ۔۔۔پڑھنے میں کھلی کتاب اور سمجھنے میں لاحاصل تحریر کی مانند نظر آتی ہے۔۔۔اُس کا عزم اور حوصلہ اتنا مضبوط بھی ہوتا ہے کہ اپنا آپ فنا کر کے وہ اپنا یقین بچا لیتی ہے۔
2011 ، 10 مارچ
پسِ تحریر
یہ محض افسانہ ہی نہیں حقیقتِ انساں بھی ہے۔۔۔ شرکِ دُنیا کی داستان بھی ہے۔۔ مجازی سے حقیقی کے سفر کی منازل کہانی بھی ہے۔اورعورت مرد کے ازلی تعلق کا تسلسل بھی ہے۔۔۔ کبھی مرد اپنی ذات میں اتنا مکمل اتنا آسودہ دکھتا ہے کہ کسی مدہم سی کسک،موہوم سی خلش کا شائبہ تک نہیں ہوتا۔اسی طرح عورت جو دیکھنے میں موم۔۔۔برتنے میں کانچ۔۔۔پڑھنے میں کھلی کتاب اور سمجھنے میں لاحاصل تحریر کی مانند نظر آتی ہے۔۔۔اُس کا عزم اور حوصلہ اتنا مضبوط بھی ہوتا ہے کہ اپنا آپ فنا کر کے وہ اپنا یقین بچا لیتی ہے۔