پانچ برس اُدھار کے۔۔شرافت ناز
20 ستمبر 2013
جمیل الدین عالی اخبار جنگ میں کالم لکھا کرتے تھے نقار خانے میں."انشاءجی کے آخری ایام میں کینسر کے مرض کے سلسلے میں انکے ساتھ راولپنڈی کے سی ایم ایچ میں گیا تو انہیں وہاں داخل کر لیا اور ٹیسٹوں کے بعد ہمیں بتایا کہ کینسر پھیل گیا ہے اور تھوڑے دن کی بات رھ گئی ہے کیوں کہ ۔علاج کافی وقت سے چل رہا تھا ہم کئی بار یہاں آچکے تھے.
20 ستمبر 2013
جمیل الدین عالی اخبار جنگ میں کالم لکھا کرتے تھے نقار خانے میں."انشاءجی کے آخری ایام میں کینسر کے مرض کے سلسلے میں انکے ساتھ راولپنڈی کے سی ایم ایچ میں گیا تو انہیں وہاں داخل کر لیا اور ٹیسٹوں کے بعد ہمیں بتایا کہ کینسر پھیل گیا ہے اور تھوڑے دن کی بات رھ گئی ہے کیوں کہ ۔علاج کافی وقت سے چل رہا تھا ہم کئی بار یہاں آچکے تھے.
شام کے وقت ہم دونوں ہسپتال کے اپنے کمرے میں باتیں کر رہے تھے کہ کمرے کے دروازے پر دستک ہوئی میں نے دروازہ کھولا تو میرے سامنے ایک بہت خوبصورت تیس سالہ عورت ہاتھوں میں پھولوں کا گلدستہ لئے کھڑی مُسکرا رہی تھی میں اُسے کمرے میں لے آیا۔
محترمہ نے گلدستہ انشاءجی کے ہاتھ میں دیا اور رونا شروع کر دیا اور کہا کہ انشاءجی میں آپکی فین ہوں اور آپ میرے آئیڈیل ہیں مجھے پتہ چلا ہے کہ آپکا کینسر پھیل گیا ہے اور آخری اسٹیج پر ہے.. میں اللّٰہ سے دُعا کرتی ہوں کہ وہ میری زندگی کے پانچ سال آپکو دے دے. میں آپ سے بہت محبت کرتی ہوں میں اپنی ساری زندگی آپکو دے دیتی لیکن میری مجبوری یہ ہے کہ میرے چھوٹے چھوٹے دو بچے ہیں جن کو مجھے پالنا ہے میں پھر بھی سچے دل سے پانچ سال آپکو دے رہی ہوں۔
انشاءجی اُس کی اس بات پر زور سے ہنسے اور کہا: ایسی کوئی بات نہیں ہے میں ٹھیک ہوں۔خاتون تقریباً ایک گھنٹہ بیٹھنے کے بعد چلی گئی۔تھوڑی دیر بعد انشاءجی رونے لگے اور کہا کہ دیکھو جمیل الدین یہ میری فین ہے اور دو بچوں کی ماں بھی ہے اور مجھے اپنی زندگی کے پانچ سال دینا چاہتی ہے اسکو کیا پتہ کہ ایک دن بھی کتنا قیمتی ہوتا ہے. میرا تو وقت آگیا ہے اللّٰہ اسے اپنے بچوں میں خوش وخرم رکھے۔میں اُس رات انشاء کے ساتھ ہسپتال میں رہا اور اگلے روز میں نے دو دن کی اجازت لی کہ میں اپنے عزیزوں سے مل آؤں جوکہ پنڈی میں رہتے تھے۔میں دو روز بعد واپس آیا تو انشاء نے مجھے اپنی تازہ نظم "اب عمر کی نقدی ختم ہوئی, اب ہم کو ادھار کی حاجت ہے" رو رو کر سنائی. جس میں اُس خاتون کے پانچ سالوں کا ذکر بھی کیا۔اردو ادب میں یہ نظم مجھے بہت پسند ہے میری آپ دوستوں سے گزارش ہے کہ آپ بھی اسکو ضرور پڑھنا, بہت کمال اور شاہکار ہے۔ْْ
انشاءجی پچاس سال کی عمر میں اللّٰہ کو پیارے ہو گئے تھے اُنکے لئے اور جمیل الدین عالی کیلئے دعا کی درخواست ہے۔(تحریر: شرافت ناز)
ابن انشاء
اب عمر کی نقدی ختم ہوئی
اب ہم کو ادھار کی حاجت ہے
ہے کوئی جو ساہو کار بنے
ہے کوئی جو دیون ہار بنے
کچھ سال، مہینے، دن لوگو
پر سود بیاج کے بن لوگو
ہاں اپنی جاں کے خزانے سے
ہاں عمر کے توشہ خانے سے
کیا کوئی بھی ساہو کار نہیں؟
کیا کوئی بھی دیون ہار نہیں؟
جب نام ادھار کا آیا ہے
کیوں سب نے سر کو جھکایا ہے
کچھ کام ہمیں نپٹانے ہیں
جنہیں جاننے والے جانے ہیں
کچھ پیار دلار کے دھندے ہیں
کچھ جگ کے دوسرے پھندے ہیں
ہم مانگتے نہیں ہزار برس
دس پانچ برس دو چار برس
ہاں، سود بیاج بھی دے لیں گے
ہاں اور خرا ج بھی دے لیں گے
آسان بنے، دشوار بنے
پر کوئی تو دیون ہار بنے
تم کون ہو تمہارا نام کیا ہے
کچھ ہم سے تم کو کام کیا ہے
کیوں اس مجمع میں آئی ہو
کچھ مانگتی ہو؟ کچھ لاتی ہو
یہ کاروبار کی باتیں ہیں
یہ نقد ادھار کی باتیں ہیں
ہم بیٹھے ہیں کشکول لیُے
سب عمر کی نقدی ختم کیُے
گر شعر کے رشتے آئی ہو
تب سمجھو جلد جدائی ہو
اب گیت گیا سنگیت گیا
ہاں شعر کا موسم بیت گیا
اب پت جھڑ آئی پات گریں
کچھ صبح گریں، کچھ رات گریں
یہ اپنے یار پرانے ہیں
اک عمر سے ہم کو جانے ہیں
ان سب کے پاس ہے مال بہت
ہاں عمر کے ماہ و سال بہت
ان سب کو ہم نے بلایا ہے
اور جھولی کو پھیلایا ہے
تم جاؤ ان سے بات کریں
ہم تم سے نا ملاقات کریں
کیا پانچ برس؟
کیا عمر اپنی کے پانچ برس؟
تم جان کی تھیلی لائی ہو؟
کیا پاگل ہو؟ سو دائی ہو؟
جب عمر کا آخر آتا ہے
ہر دن صدیاں بن جاتا ہے
جینے کی ہوس نرالی ہے
ہے کون جو اس سے خالی ہے
کیا موت سے پہلے مرنا ہے؟
تم کو تو بہت کچھ کرنا ہے
پھر تم ہو ہماری کون بھلا
ہاں تم سے ہمارا رشتہ کیا ہے
کیا سود بیاج کا لالچ ہے؟
کسی اور خراج کا لالچ ہے؟
تم سوہنی ہو، من موہنی ہو؛
تم جا کر پوری عمر جیو
یہ پانچ برس، یہ چار برس
چھن جائیں تو لگیں ہزار برس
سب دوست گئے سب یار گئے
تھے جتنے ساہو کار، گئے
بس ایک یہ ناری بیٹھی ہے
یہ کون ہے؟ کیا ہے؟ کیسی ہے؟
ہاں عمر ہمیں درکار بھی ہے؟
ہاں جینے سے ہمیں پیار بھی ہے
جب مانگیں جیون کی گھڑیاں
گستاخ اکھیں کتھے جا لڑیاں
ہم قرض تمہیں لوٹا دیں گے
کچھ اور بھی گھڑیاں لا دیں گے
جو ساعت و ماہ و سال نہیں
وہ گھڑیاں جن کو زوال نہیں
لو اپنے جی میں ا تار لیا
لو ہم نے تم سے ادھار لیا"
محترمہ نے گلدستہ انشاءجی کے ہاتھ میں دیا اور رونا شروع کر دیا اور کہا کہ انشاءجی میں آپکی فین ہوں اور آپ میرے آئیڈیل ہیں مجھے پتہ چلا ہے کہ آپکا کینسر پھیل گیا ہے اور آخری اسٹیج پر ہے.. میں اللّٰہ سے دُعا کرتی ہوں کہ وہ میری زندگی کے پانچ سال آپکو دے دے. میں آپ سے بہت محبت کرتی ہوں میں اپنی ساری زندگی آپکو دے دیتی لیکن میری مجبوری یہ ہے کہ میرے چھوٹے چھوٹے دو بچے ہیں جن کو مجھے پالنا ہے میں پھر بھی سچے دل سے پانچ سال آپکو دے رہی ہوں۔
انشاءجی اُس کی اس بات پر زور سے ہنسے اور کہا: ایسی کوئی بات نہیں ہے میں ٹھیک ہوں۔خاتون تقریباً ایک گھنٹہ بیٹھنے کے بعد چلی گئی۔تھوڑی دیر بعد انشاءجی رونے لگے اور کہا کہ دیکھو جمیل الدین یہ میری فین ہے اور دو بچوں کی ماں بھی ہے اور مجھے اپنی زندگی کے پانچ سال دینا چاہتی ہے اسکو کیا پتہ کہ ایک دن بھی کتنا قیمتی ہوتا ہے. میرا تو وقت آگیا ہے اللّٰہ اسے اپنے بچوں میں خوش وخرم رکھے۔میں اُس رات انشاء کے ساتھ ہسپتال میں رہا اور اگلے روز میں نے دو دن کی اجازت لی کہ میں اپنے عزیزوں سے مل آؤں جوکہ پنڈی میں رہتے تھے۔میں دو روز بعد واپس آیا تو انشاء نے مجھے اپنی تازہ نظم "اب عمر کی نقدی ختم ہوئی, اب ہم کو ادھار کی حاجت ہے" رو رو کر سنائی. جس میں اُس خاتون کے پانچ سالوں کا ذکر بھی کیا۔اردو ادب میں یہ نظم مجھے بہت پسند ہے میری آپ دوستوں سے گزارش ہے کہ آپ بھی اسکو ضرور پڑھنا, بہت کمال اور شاہکار ہے۔ْْ
انشاءجی پچاس سال کی عمر میں اللّٰہ کو پیارے ہو گئے تھے اُنکے لئے اور جمیل الدین عالی کیلئے دعا کی درخواست ہے۔(تحریر: شرافت ناز)
ابن انشاء
اب عمر کی نقدی ختم ہوئی
اب ہم کو ادھار کی حاجت ہے
ہے کوئی جو ساہو کار بنے
ہے کوئی جو دیون ہار بنے
کچھ سال، مہینے، دن لوگو
پر سود بیاج کے بن لوگو
ہاں اپنی جاں کے خزانے سے
ہاں عمر کے توشہ خانے سے
کیا کوئی بھی ساہو کار نہیں؟
کیا کوئی بھی دیون ہار نہیں؟
جب نام ادھار کا آیا ہے
کیوں سب نے سر کو جھکایا ہے
کچھ کام ہمیں نپٹانے ہیں
جنہیں جاننے والے جانے ہیں
کچھ پیار دلار کے دھندے ہیں
کچھ جگ کے دوسرے پھندے ہیں
ہم مانگتے نہیں ہزار برس
دس پانچ برس دو چار برس
ہاں، سود بیاج بھی دے لیں گے
ہاں اور خرا ج بھی دے لیں گے
آسان بنے، دشوار بنے
پر کوئی تو دیون ہار بنے
تم کون ہو تمہارا نام کیا ہے
کچھ ہم سے تم کو کام کیا ہے
کیوں اس مجمع میں آئی ہو
کچھ مانگتی ہو؟ کچھ لاتی ہو
یہ کاروبار کی باتیں ہیں
یہ نقد ادھار کی باتیں ہیں
ہم بیٹھے ہیں کشکول لیُے
سب عمر کی نقدی ختم کیُے
گر شعر کے رشتے آئی ہو
تب سمجھو جلد جدائی ہو
اب گیت گیا سنگیت گیا
ہاں شعر کا موسم بیت گیا
اب پت جھڑ آئی پات گریں
کچھ صبح گریں، کچھ رات گریں
یہ اپنے یار پرانے ہیں
اک عمر سے ہم کو جانے ہیں
ان سب کے پاس ہے مال بہت
ہاں عمر کے ماہ و سال بہت
ان سب کو ہم نے بلایا ہے
اور جھولی کو پھیلایا ہے
تم جاؤ ان سے بات کریں
ہم تم سے نا ملاقات کریں
کیا پانچ برس؟
کیا عمر اپنی کے پانچ برس؟
تم جان کی تھیلی لائی ہو؟
کیا پاگل ہو؟ سو دائی ہو؟
جب عمر کا آخر آتا ہے
ہر دن صدیاں بن جاتا ہے
جینے کی ہوس نرالی ہے
ہے کون جو اس سے خالی ہے
کیا موت سے پہلے مرنا ہے؟
تم کو تو بہت کچھ کرنا ہے
پھر تم ہو ہماری کون بھلا
ہاں تم سے ہمارا رشتہ کیا ہے
کیا سود بیاج کا لالچ ہے؟
کسی اور خراج کا لالچ ہے؟
تم سوہنی ہو، من موہنی ہو؛
تم جا کر پوری عمر جیو
یہ پانچ برس، یہ چار برس
چھن جائیں تو لگیں ہزار برس
سب دوست گئے سب یار گئے
تھے جتنے ساہو کار، گئے
بس ایک یہ ناری بیٹھی ہے
یہ کون ہے؟ کیا ہے؟ کیسی ہے؟
ہاں عمر ہمیں درکار بھی ہے؟
ہاں جینے سے ہمیں پیار بھی ہے
جب مانگیں جیون کی گھڑیاں
گستاخ اکھیں کتھے جا لڑیاں
ہم قرض تمہیں لوٹا دیں گے
کچھ اور بھی گھڑیاں لا دیں گے
جو ساعت و ماہ و سال نہیں
وہ گھڑیاں جن کو زوال نہیں
لو اپنے جی میں ا تار لیا
لو ہم نے تم سے ادھار لیا"
عمدہ
جواب دیںحذف کریں