بدھ, اکتوبر 26, 2016

"موت کی تیاری اور حسنِ خاتمہ کے اسباب – خطبہ جمعہ مسجد نبوی ﷺ"

خطبہ جمعہ ۔۔۔امام ڈاکٹر علی الحذیفی 
ترجمہ۔۔۔ شفقت الرحمٰن 
۔20 محرم الحرام 1438ھ بمطابق 21 اکتوبر 2016 
تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جو ہمیشہ سے زندہ اور قائم رہنے والا ہے، وہی بادشاہی، عزت، ملکوت اور جبروت والا ہے، میں اپنے رب کی تعریف اور شکر گزاری کرتے ہوئے اسی کی جانب رجوع کرتا ہوں اور گناہوں کی معافی چاہتا ہوں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ یکتا ہے، تمام انسان اسی کے قابو میں ہیں، وہ جو چاہتا ہے کر گزرتا ہے اور جو چاہتا ہے فیصلے فرماتا ہے، میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی جناب محمد ﷺ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، یا اللہ! اپنے چنیدہ بندے، اور رسول محمد، ان کی آل اور یکسو صحابہ کرام پر درود و سلام اور برکتیں نازل فرما۔
حمد و صلاۃ کے بعد؛
تقوی اپنانے کے لیے رضائے الہی تلاش کرو اور اللہ کی نافرمانی سے دور رہو، تقوی تمہاری زندگی کے حالات درست کرنے کا ذریعہ ہے، مستقبل کے خدشات و توقعات کے لیے یہی زادِ راہ ہے، تباہ کن چیزوں سے تحفظ اسی سے ممکن ہے، اللہ تعالی نے تقوی کے بدلے میں جنتوں کا وعدہ فرمایا ہے۔
اللہ کے بندو!
اس زندگی میں ہر شخص اپنے فائدے کے لیے تگ و دو کرتا ہے، اپنے معاملات سنوارنے اور ذرائع معاش کے لیے کوشش کرتا ہے، ان میں سے کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو دین اور دنیا دونوں کو سنوارتے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اللہ تعالی نے دنیا میں خیر سے نوازا اور آخرت میں بھی ان کے لیے خیر و بھلائی ہے، نیز انہیں آگ کے عذاب سے بھی تحفظ دیا۔
جبکہ کچھ لوگ ایسے ہیں جو دنیا کے لیے دوڑ دھوپ کرتے ہیں لیکن آخرت کو بھول جاتے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جو گل چھرّے اڑاتے ہیں اور ڈنگروں کی طرح کھاتے ہیں، ان کا ٹھکانہ آگ ہے۔
کسی بھی تمنا یا کام کی ایک انتہا ہے، وہاں پہنچ کر وہ ختم ہو جائے گا، فرمانِ باری تعالی ہے؛
{وَأنَّ إلَى رَبِّكَ الْمُنْتَھى}
اور بےشک تیرے رب کی طرف ہی [ہر چیز نے] پہنچنا ہے۔ [النجم : 42]
پاک ہے وہ ذات جس نے تمام دلوں کے لیے مصروفیات، ہر ایک کے دل میں تمنائیں اور سب کے لیے عزم و ارادہ پیدا کیا، وہ اپنی مرضی سے جو چاہے کرتا اور جسے چاہے چھوڑ دیتا ہے، لیکن اللہ تعالی کی مرضی اور ارادہ سب پر بھاری ہے، فرمانِ باری تعالی ہے؛
{وَمَا تَشَاءُونَ إلَّا أنْ يَشَاءَ اللَّہ رَبُّ الْعَالَمِينَ}
اور اللہ رب العالمین کی مرضی کے بغیر تمہاری کوئی مرضی نہیں ہے۔ [التكوير : 29]
لہذا جو اللہ تعالی چاہتا ہے وہ ہو جاتا ہے اور جو نہیں چاہتا وہ نہیں ہوتا۔
موت اس دھرتی پر تمام مخلوقات کا آخری انجام ہے، اس دنیا میں ہر ذی روح چیز کی انتہا موت ہے، اللہ تعالی نے موت فرشتوں پر بھی لکھ دی ہے چاہے وہ جبریل، میکائیل، اور اسرافیل علیہم السلام ہی کیوں نہ ہوں، حتی کہ ملک الموت بھی موت کے منہ میں چلے جائیں گے اور تمام فرشتے لقمۂ اجل بن جائیں گے، فرمانِ باری تعالی ہے؛
{كُلُّ مَنْ عَلَيْھا فَانٍ (26) وَيَبْقَى وَجْہ رَبِّكَ ذُو الْجَلَالِ وَالْاكْرَامِ}
اس دھرتی پر موجود ہر چیز فنا ہو جائے گی [26] صرف تیرے پروردگار کی ذات ِ ذوالجلال و الاکرام باقی رہے گی۔ [الرحمن: 26- 27]۔
موت دنیاوی زندگی کی انتہا اور اخروی زندگی کی ابتدا ہے؛ موت کے ساتھ ہی دنیاوی آسائشیں ختم ہو جاتی ہیں اور میت مرنے کے بعد یا تو عظیم نعمتیں دیکھتی ہے یا پھر درد ناک عذاب۔
موت اللہ تعالی کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے، موت سے اللہ تعالی کی قدرت اور تمام مخلوقات پر اس کا مکمل تسلط عیاں ہوتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:۔
{وَھوَ الْقَاھرُ فَوْقَ عِبَادِہ وَيُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَۃ حَتَّى إذَا جَاءَ أحَدَكُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْۃ رُسُلُنَا وَھمْ لَا يُفَرِّطُونَ}
اور وہی اپنے بندوں پر غالب ہے اور وہ تم پر نگہبان بھیجتا ہے، یہاں تک کہ جب تمھارے کسی ایک کو موت آتی ہے اسے ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے قبض کر لیتے ہیں اور وہ کوتاہی نہیں کرتے۔ [الانعام: 61]موت اللہ تعالی کی طرف سے عدل پر مبنی ہے، چنانچہ تمام مخلوقات کو موت ضرور آئے گی، فرمانِ باری تعالی ہے:۔
{كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ ثُمَّ إِلَيْنَا تُرْجَعُونَ}
ہر جان نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے، پھر ہماری طرف ہی تمھیں لوٹایا جائے گا۔[العنكبوت: 57]موت کی وجہ سے لذتیں ختم ، بدن کی حرکتیں بھسم ،جماعتیں تباہ، اور پیاروں سے دوریاں پیدا ہو جاتی ہیں، یہ سب اللہ تعالی اکیلا ہی سر انجام دیتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:۔
{وَھوَ الَّذِي يُحْيِي وَيُمِيتُ وَلَہ اخْتِلَافُ اللَّيْلِ وَالنَّھارِ أفَلَا تَعْقِلُونَ}
وہی ہے جو زندہ کرتا اور مارتا ہے، رات اور دن کا آنا جانا اسی کے اختیار میں ہے، کیا تم عقل نہیں رکھتے. [المؤمنون: 80]موت کو کوئی دربان روک نہیں سکتا، کوئی پردہ اس کے درمیان حائل نہیں ہو سکتا، موت کے سامنے مال، اولاد، دوست احباب سب بے بس ہوتے ہیں، موت سے کوئی چھوٹا، بڑا، امیر، غریب، با رعب یا بے رعب کوئی بھی نہیں بچ سکتا، فرمانِ باری تعالی ہے:۔
{قُلْ إنَّ الْمَوْتَ الَّذِي تَفِرُّونَ مِنْہ فَانَّہ مُلَاقِيكُمْ ثُمَّ تُرَدُّونَ إلَى عَالم الْغَيْبِ وَالشَّھادَۃ فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ}
آپ کہہ دیں: جس موت سے تم بھاگتے ہوئے وہ تمھیں ضرور ملے گی، پھر تمھیں خفیہ اور اعلانیہ ہر چیز جاننے والے کی جانب لوٹا دیا جائے گا، پھر وہ تمھیں تمہاری کارستانیاں بتلائے گا۔ [الجمعہ:8]۔
موت اچانک آ کر دبوچ لیتی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:۔
{وَلَنْ يُؤَخِّرَ اللہ نَفْسًا إِذَا جَاءَ أجَلُھا وَاللہ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ}
اور جب کسی نفس کی موت کا وقت آگیا تو اللہ ہر گز مہلت نہیں دے گا ، اور اللہ تمہارے کاموں سے باخبر ہے۔ [المنافقون: 11]موت انبیائے کرام کے علاوہ کسی سے اجازت نہیں لیتی؛ کیونکہ اللہ تعالی کے ہاں انبیائے کرام کا مقام و مرتبہ بلند ہوتا ہے، اس لیے موت ہر نبی سے اجازت طلب کرتی ہے، ایک روایت میں ہے کہ ہر نبی کو اللہ تعالی دنیا میں ہمیشہ رہنے یا موت کا اختیار دیتا ہے تو انبیائے کرام موت پسند کرتے ہیں کیونکہ ان کیلیے اللہ تعالی کے ہاں اجر عظیم ہے اور دنیا کو وہ معمولی چیز جانتے ہیں۔یہ اللہ تعالی کی مرضی ہے کہ اولاد آدم کو دنیا سے موت دے کر نکالے اور اس کا رابطہ دنیا سے ختم ہو جائے ، چنانچہ اگر وہ مؤمن ہو تو اس کا دل ذرہ برابر بھی دنیا کا مشتاق نہیں ہوتا، انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: (اللہ تعالی کے ہاں کسی کا اتنا مقام نہیں ہوتا کہ دنیا کی طرف پھر لوٹ جانا پسند کرے، چاہے وہاں اسے دنیا بھر کی چیزیں مل جائیں، البتہ شہید یہ چاہتا ہے کہ وہ دنیا کی طرف لوٹا یا جائے اور اسے دسیوں بار قتل کیا جائے، کیونکہ وہ قتل فی سبیل اللہ کی فضیلت دیکھ چکا ہے) بخاری و مسلم ۔موت لازمی طور پر آ کر رہے گی اس سے خلاصی کا کوئی ذریعہ نہیں ہے، موت کی شدید تکلیف کوئی بھی بیان کرنے کی سکت نہیں رکھتا؛ کیونکہ روح کو رگوں، پٹھوں اور گوشت کے ایک ایک انگ سے کھینچا جاتا ہے، عام درد کتنا ہی شدید کیوں نہ ہو لیکن وہ موت کے درد سے کم ہی ہوتا ہے۔
عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو حالت نزع میں دیکھا، آپ کے پاس ایک پیالے میں پانی تھا، آپ اپنا ہاتھ اس پیالے میں ڈبو کر اپنا چہرہ صاف کرتے اور فرماتے:۔
(اَللَّھمَّ أعِنِّيْ عَلَى غَمَرَاتِ الْمَوْتِ وَسَكَرَاتِ الْمَوْتِ
یا اللہ! موت کی سختی اور غشی پر میری مدد فرما) ترمذی نے اسے روایت کیا ہے، کچھ روایات کے الفاظ میں ہے کہ: (بیشک موت کی غشی بہت سخت ہوتی ہے)ایک شخص نے اپنے والد سے حالت نزع اور ہوش میں پوچھا: ابا جان! مجھے موت کے درد کے بارے میں بتائیں تا کہ میں بھی عبرت پکڑوں تو والد نے کہا: بیٹا! ایسے محسوس ہو رہا ہے کہ ایک مڑی ہی کنڈی میرے پیٹ میں گھمائی جا رہی ہے اور میں سوئی کے ناکے میں سے سانس لے رہا ہوں. ایک اور قریب المرگ شخص سے کہا گیا کہ کیسا محسوس کر رہے ہو؟ تو اس نے کہا: مجھے لگ رہا ہے کہ میرے پیٹ میں خنجر چلائے جا رہے ہیں، ایک شخص سے موت کی المناکی کے بارے میں پوچھا گیا تو اس نے کہا: ایسے لگتا ہے کہ میرے پیٹ میں آگ بھڑکائی جا رہی ہے.جو شخص ہمیشہ موت کو یاد رکھے تو اس کا دل نرم رہتا ہے، اس کے اعمال اور احوال اچھے ہوتے ہیں ، وہ گناہ کرنے کی جرأت نہیں کرتا، فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی نہیں برتتا، اور نہ ہی دنیا کی رنگینیاں اسے دھوکے میں ڈالتی ہیں، وہ ہمیشہ اپنے پروردگار سے ملنے کا شوق رکھتا ہے، اور جنت میں جانے کا سوچتا ہے۔لیکن جو شخص موت کو بھول جائے، دنیا میں مگن ہو، بد عملی میں مبتلا ہو، خواہشات کا انبار ذہن میں ہو ، تو ایسے شخص کیلیے موت سب سے بڑی نصیحت ہے، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (لذتوں کو پاش پاش کر دینے والی موت کو کثرت سے یاد کیا کرو) ترمذی، نسائی نے روایت کیا ہے اور ابن حبان نے اسے صحیح کہا ہے، اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ: موت لذتوں کو ختم اور زائل کر دینے والی ہے۔
ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب رات کی ایک تہائی گزر گئی تو نبی ﷺ کھڑے ہوئے اور فرمانے لگے: (لوگو! اللہ کو یاد کرو، جب پہلا صور پھونکا جائے گا تو ساتھ ہی دوسرا بھی پھونک دیا جائے گا، موت کے ساتھ ہی تمام سختیاں شروع ہو جاتی ہیں) ترمذی نے اسے روایت کیا اور حسن قرار دیا۔
ابو درداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں: “نصیحت کیلیے موت اور توڑنے کیلیے زمانہ کافی ہے، آج گھروں میں تو کل قبروں میں رہو گے” ابن عساکر۔
ہر قسم کی سعادت مندی، کامیابی، کامرانی موت کیلیے تیاری میں پنہاں ہے، کیونکہ موت جنت یا جہنم کا دروازہ ہے ۔اللہ رب العالمین کی وحدانیت کا اقرار، صرف ایک اللہ کی عبادت اور شرک سے بیزاری موت کی تیاری کیلیے از بس ضروری ہے، انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ: (اللہ تعالی فرماتا ہے: ابن آدم! اگر تو   مجھے زمین بھر گناہوں کے ساتھ ملے لیکن تم نے میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا ہو تو میں تمھیں اتنی ہی مقدار میں مغفرت دے دوں گا) ترمذی نے اسے روایت کیا ہے اور حسن قرار دیا۔موت کی تیاری کے لیے حدودِ الہی اور فرائض کی حفاظت کریں، فرمانِ باری تعالی ہے:۔
{وَالْحَافِظُونَ لِحُدُودِ اللَّهِ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ}
اور حدودِ الہی کی حفاظت کرنے والے اور مومنوں کو خوشخبری دے دیں۔ [التوبہ: 112]
موت کی تیاری کیلیے کبیرہ گناہوں سے باز رہیں، فرمانِ باری تعالی ہے:۔
{إِنْ تَجْتَنِبُوا كَبَائِرَ مَا تُنْھوْنَ عَنْهُ نُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَنُدْخِلْكُمْ مُدْخَلًا كَرِيمًا}
اگر تم منع کردہ کبیرہ گناہوں سے اجتناب کرو تو ہم تمہارے گناہ مٹا دیں گے اور تمہیں عزت والی جگہ داخل کریں گے۔[النساء: 31]موت کی تیاری کے لیے مخلوق کے حقوق ادا کریں، انہیں پامال مت کریں، یا ان کی ادائیگی میں ٹال مٹول سے کام مت لیں؛ کیونکہ شرک کے علاوہ کوئی بھی حقوق اللہ سے متعلق گناہ ہو تو اسے اللہ تعالی معاف فرما دے گا، لیکن مخلوق کے حقوق اللہ تعالی معاف نہیں فرمائے گا بلکہ ظالم سے مظلوم کا حق لے کر دے گا۔
موت کی تیاری کے لیے وصیت لکھ کر رکھے اور اس میں کسی قسم کی غلطی مت کرے۔موت کی تیاری کچھ اس انداز سے ہو کہ کسی بھی وقت موت کے لیے انسان تیار رہے، چنانچہ جس وقت یہ آیت نازل ہوئی:۔
{فَمَنْ يُرِدِ اللہ أنْ يَھدِيَہ يَشْرَحْ صَدْرَہ لِلاسْلَامِ}
جس کے بارے میں اللہ تعالی ہدایت کا ارادہ فرما لے تو اسلام کے لیے اس کی شرح صدر فرما دیتا ہے۔ [الأنعام: 125] تو نبی ﷺ نے فرمایا: (یعنی: اس کے دل میں اللہ تعالی نور ڈال دیتا ہے) اس پر صحابہ کرام نے پوچھا: یا رسول اللہ! اس کی علامت کیا ہوگی؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: (آخرت کی تیاری، دنیا سے بیزاری اور موت آنے سے پہلے موت کی تیاری)
حقیقی سعادت مندی اور سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ انسان کا خاتمہ بالخیر ہو، حدیث میں ہے کہ: (اعمال کا دارو مدار ان کے خاتمے پر ہوتا ہے)معاذ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (جس شخص کی آخری بات لا الہ الا اللہ ہوئی تو وہ جنت میں داخل ہوگا) ابو داود اور حاکم نے اسے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔کلمہ پڑھنے کے لیے تاکید اس حکم سے بھی عیاں ہوتی ہے کہ قریب المرگ شخص کو نرمی سے کلمہ شہادت کی تلقین کی جائے، تاکہ اسے یاد آ جائے نیز اس پر سختی نہیں کرنی چاہیے کیونکہ وہ پہلے ہی سخت تکلیف میں ہوتا ہے، ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (اپنے مرنے والوں کو لا الہ الا اللہ کی تلقین کرو) مسلم
یہ بد بختی کی بات ہے کہ انسان موت کو بھول جائے اور اس کیلیے تیاری کرنا چھوڑ دے، گناہوں میں مگن ہو جائے اور عقیدہ توحید پامال کر دے، ظلم و زیادتی کرتے ہوئے معصوم جانوں کا قتل کرے، حرام مال کمائے اور کھائے، مخلوقات کے حقوق غصب کرے، ہوس پرستی میں ڈوب جائے، اور آخری دم تک گناہوں کی دلدل میں پھنسا رہے، پھر موت کے وقت اسے کسی قسم کی پشیمانی کوئی فائدہ نہیں دے گی اور نہ ہی موت کا وقت ٹلے گا، فرمانِ باری تعالی ہے:۔
{حَتَّى إذَا جَاءَ أحَدَھمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِ (99) لَعَلِّي أعْمَلُ صَالِحًا فِيمَا تَرَكْتُ كَلَّا إنَّهَا كَلِمَۃ ھوَ قَائِلھا وَمِنْ وَرَائِھمْ بَرْزَخٌ إلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ}
جب ان میں سے کسی کو موت آنے لگتی ہے تو کہتا ہے اے میرے پروردگار! مجھے واپس لوٹا دے [99] جسے میں چھوڑ آیا ہوں امید ہے کہ اب میں نیک عمل کروں گا [اللہ فرمائے گا]”ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا” یہ بس ایک بات ہوگی جسے اس سے کہہ دیا۔ اور ان [مرنے والوں] کے درمیان دوبارہ جی اٹھنے کے دن تک ایک آڑ حائل ہوگی ۔[المؤمنون: 99- 100]جب کہ قیامت کے دن سستی اور موت کی تیاری نہ کرنے کی وجہ حسرت و ندامت مزید بڑھ جائے گی، فرمانِ باری تعالی ہے:۔
{وَاتَّبِعُوا أحْسَنَ مَا أنْزِلَ إلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَاتِيَكُمُ الْعَذَابُ بَغْتَۃ وَأنْتُمْ لَا تَشْعُرُونَ (55) أنْ تَقُولَ نَفْسٌ يَاحَسْرَتَا عَلَى مَا فَرَّطْتُ فِي جَنْبِ اللہ وَإنْ كُنْتُ لَمِنَ السَّاخِرِينَ (56) أوْ تَقُولَ لَوْ أَنَّ اللہ ھدَانِي لَكُنْتُ مِنَ الْمُتَّقِينَ (57) أوْ تَقُولَ حِينَ تَرَى الْعَذَابَ لَوْ أنَّ لِي كَرَّةً فَاكُونَ مِنَ الْمُحْسِنِينَ (58) بَلَى قَدْ جَاءَتْكَ آيَاتِي فَكَذَّبْتَ بِھا وَاسْتَكْبَرْتَ وَكُنْتَ مِنَ الْكَافِرِينَ }
اور پیروی کرو اس بہترین چیز کی جو تمہاری طرف نازل کی گئی ہے اس سے پہلے کہ تم پر اچانک عذاب آ جائے اور تمہیں اطلاع بھی نہ ہو [55] [پھر وہ کہے] افسوس میری اس کوتاہی پر جو میں اللہ کے حق میں کرتا رہا اور میں تو مذاق اڑانے والوں میں سے تھا [56] یا یوں کہے کہ: ‘ اگر اللہ مجھے ہدایت دیتا تو میں پرہیز گاروں سے ہوتا [57] یا جب عذاب دیکھے تو کہنے لگے: “مجھے ایک اور موقعہ مل جائے تو میں نیک کام کرنے والوں میں شامل ہو جاؤں [58] [اللہ فرمائے گا] کیوں نہیں ! تیرے پاس میری آیات آئیں تو تو نے انہیں جھٹلا دیا اور اکڑ بیٹھا اور تو کافروں میں سے ہی تھا[الزمر: 55، 59]اللہ تعالی میرے اور آپ سب کے لیے قرآن کریم کو خیر و برکت والا بنائے، مجھے اور آپ سب کو اس کی آیات سے مستفید ہونے کی توفیق دے، اور ہمیں سید المرسلین ﷺ کی سیرت و ٹھوس احکامات پر چلنے کی توفیق دے، میں اپنی بات کو اسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں، تم بھی اسی سے گناہوں کی بخشش مانگو۔
دوسرا خطبہ۔۔۔
تمام تعریفیں اللہ رب العالمین کے لیے ہیں وہی بادشاہ، حق اور ہر چیز واضح کرنے والا ہے، کامل حکمت اور مؤثر دلائل اسی کیلیے مختص ہیں، اگر وہ چاہے تو سب کو ہدایت سے نواز دے، میں اپنے رب کیلیے حمد و شکر بجا لاتا ہوں، توبہ اور استغفار اسی سے کرتا ہوں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اس کے علاوہ کوئی معبودِ برحق نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، وہی قوی اور مضبوط ہے، میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی اور سربراہ محمد ﷺ اس کے بندے اور چنیدہ رسول ہیں، آپ وعدے کے سچے اور امین ہیں، یا اللہ! اپنے بندے اور رسول محمد ، انکی آل ، تابعین عظام اور صحابہ کرام پر رحمت ، سلامتی اور برکتیں روزِ قیامت تک نازل فرما۔
حمد و صلاۃ کے بعد:۔
کما حقُّہ تقوی الہی اختیار کرو ، متقی کامیاب ہوں گے اور شکوک و شبہات میں مبتلا سمیت سستی و کاہلی کرنے والے نقصان اٹھائیں گے۔
مسلمانو!۔
خاتمہ بالخیر کے اسباب کی پابندی کرو، اس کیلیے اسلام کے ارکان خمسہ پر عمل پیرا رہو، گناہوں اور ظلم و زیادتی سے بچو۔
موت کے وقت خاتمہ بالخیر کا سب سے بڑا ذریعہ یہ ہے کہ ہمیشہ خاتمہ بالخیر کی دعا کریں؛ کیونکہ فرمانِ باری تعالی ہے:
{اُدْعُونِي أسْتَجِبْ لَكُمْ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَھنَّمَ دَاخِرِينَ}
تم مجھے پکارو میں تمہاری دعا قبول کروں گا، بیشک جو لوگ میری عبادت سے رو گردانی کرتے ہیں وہ عنقریب جہنم میں رسوا ہو کر داخل ہوں گے۔[غافر: 60]دعا ہمہ قسم کی خیر کا سر چشمہ ہے، چنانچہ نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (دعا عبادت ہے) اسے ابوداود اور ترمذی نے روایت کیا ہے، اور اسے حسن صحیح قرار دیا۔
ایک حدیث میں ہے کہ: (جو شخص کثرت کے ساتھ یہ کہتا ہے کہ:۔
اَللَّھمَّ أحْسِنْ عَاقِبَتَنَا فِيْ الْامُوْرِ كُلِّھا وَأجِرْنَا مِنْ خِزْيِ الدُّنْيَا وَعَذَابِ الْآخِرَةِ
[یا اللہ! تمام معاملات کا انجام ہمارے لیے بہتر فرما، اور ہمیں دنیاوی رسوائی اور اخروی عذاب سے پناہ عطا فرما]تو وہ آزمائش میں پڑنے سے پہلے اس دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے)اور موت کے وقت برے انجام کے اسباب میں یہ شامل ہے کہ: حقوق اللہ اور حقوق العباد پامال کیے جائیں، کبیرہ گناہوں پر انسان مُصر رہے، اللہ تعالی کی تعظیم کی بجائے تحقیر کرے، انسان دنیا میں مگن ہو کر آخرت بالکل بھول جائے۔
اللہ کے بندو!۔
إنَّ اللہ وَمَلَائِكَتہ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أيُّھا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْہ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا
یقیناً اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں، اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود و سلام پڑھو[الاحزاب: 56]،
اور آپ ﷺ کا فرمان ہے کہ: (جو شخص مجھ پر ایک بار درود پڑھے گا اللہ تعالی اس پر دس رحمتیں نازل فرمائے گا)
اس لیے سید الاولین و الآخرین اور امام المرسلین پر درود و سلام پڑھو۔
اللھم صلِّ على محمدٍ وعلى آل محمدٍ، كما صلَّيتَ على إبراھيم وعلى آل إبراھيم، إنك حميدٌ مجيد، اللھم بارِك على محمدٍ وعلى آل محمدٍ، كما باركتَ على إبراھيم وعلى آل إبراھيم، إنك حميدٌ مجيد، وسلم تسليما كثيراً۔
یا اللہ ! تمام صحابہ کرام سے راضی ہو جا، یا اللہ ! تمام صحابہ کرام سے راضی ہو جا، یا اللہ! ہدایت یافتہ خلفائے راشدین ابو بکر، عمر، عثمان ، علی اور تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے راضی ہو جا، تابعین کرام اور قیامت تک انکے نقشِ قدم پر چلنے والے تمام لوگوں سے راضی ہو جا، یا اللہ ! انکے ساتھ ساتھ اپنی رحمت و کرم کے صدقے ہم سے بھی راضی ہو جا، یا ارحم الراحمین ، یا ذو الفضل العظیم!یا اللہ اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ نصیب فرما، یا اللہ اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ نصیب فرما، یا اللہ اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ نصیب فرما، کفر اور کافروں کو ، شرک اور مشرکوں کو ذلیل فرما، یا رب العالمین! یا اللہ! بدعات اور بدعتی لوگوں کو ذلیل و رسوا فرما، یا اللہ! ہمیں سید المرسلین ﷺ کی سنتوں پر کار بند فرما یہاں تک کہ جب ہم تجھ سے ملیں تو توں ہم سے راضی ہو ، یا ارحم الراحمین!یا اللہ! تمام مسلمان فوت شدگان کی بخشش فرما، یا اللہ! تمام مسلمان فوت شدگان کی بخشش فرما، یا اللہ! ان کی قبروں کو وسیع فرما، ان کی قبریں منور فرما، یا اللہ ! ان کی قبروں کو منور فرما، یا اللہ! اپنی رحمت کے صدقے ان کے گناہوں سے در گزر فرما، اور ان کی نیکیوں میں اضافہ فرما، یا رب العالمین!
یا اللہ! تمام معاملات کا انجام ہمارے لیے بہتر فرما، اور ہمیں دنیاوی رسوائی اور اخروی عذاب سے پناہ عطا فرما۔
یا اللہ! اپنی رحمت کے صدقے ہمیں اور ہماری اولاد کو شیطان ، شیطانی چیلوں اور چالوں سے محفوظ فرما، بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے۔
یا اللہ! ہمیں ہمارے نفسوں اور برے اعمال کے شر سے محفوظ فرما، یا اللہ ! ہمیں ہر شریر کے شر سے محفوظ فرما، یا اللہ! تو ہی ان کو قابو رکھنے والا ہے، یا ذو الجلال والاکرام!
یا اللہ! ہم تجھ سے سوال کرتے ہیں کہ تو ہمارے گناہ معاف فرما دے، یا اللہ! تو ہمارے اگلے پچھلے، خفیہ اعلانیہ، اور جنہیں تو ہم سے بہتر جانتا ہے سب گناہ معاف فرما دے، تو ہی ترقی و تنزلی دینے والا ہے ، تیرے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔
یا اللہ! ہم تجھ سے جنت اور اس کے قریب کرنے والے ہر قول و فعل کا سوال کرتے ہیں، یا اللہ! ہم جہنم اور اس کے قریب کرنے والے ہر قول و فعل سے تیری پناہ مانگتے ہیں۔
یا اللہ! تمام امور میں ہمارے لیے انجام بہتر فرما ، یا ذو الجلال و الاکرام! یا اللہ! ہمیں ایک لمحہ کیلیے بھی ہمارے سپرد مت فرما، یا اللہ! ہم تجھ سے دنیا و آخرت میں معافی اور عافیت کا سوال کرتے ہیں، یا ذو الجلال و الاکرام!
یا اللہ! ہم تجھ سے سوال کرتے ہیں کہ مسلم ممالک میں پھوٹنے والے فتنوں کا خاتمہ فرما دے، یا رب العالمین! یا اللہ! ہم تجھ سے سوال کرتے ہیں کہ مسلم ممالک میں پھوٹنے والے فتنوں کا خاتمہ فرما دے، یا رب العالمین! یا اللہ! ایسے انداز سے فتنے ختم فرما جس کے نتائج اسلام اور مسلمانوں کیلیے بہتر ہوں، یا ارحم الراحمین!
یا اللہ! یمن کے فتنے کا خاتمہ فرما دے، یا اللہ! یمن کے فتنے کا خاتمہ فرما دے، یا اللہ! یمن کے فتنے کا خاتمہ فرما دے، جس میں اسلام اور مسلمانوں کیلیے عافیت ہو، یا رب العالمین!
یا اللہ! اپنی رحمت کے صدقے ہماری سرحدوں کی حفاظت فرما، اور ہمارے ملک کی حفاظت فرما، ہمارے فوجیوں کی حفاظت فرما، اور ان کی صحیح سمت میں رہنمائی فرما، یا ارحم الراحمین!
یا اللہ! ہم تجھ سے سوال کرتے ہیں کہ تو مسلمانوں کی شام میں مدد فرما، یا اللہ! شام میں مظلوم مسلمانوں کی مدد فرما، یا اللہ! ان پر ان کے دین کی وجہ سے مال و جان پر ظلم ڈھایا جا رہا ہے، یا رب العالمین!
یا اللہ! ان کی ان پر ظلم ڈھانے والوں کے خلاف مدد فرما، یا اللہ! تباہی ظالموں اور کافروں کا مقدر بنا دے، یا رب العالمین! بیشک تو ہی ہر چیز پر قادر ہے۔
یا اللہ! عراق میں ہمارے بھائیوں پر رحم و کرم فرما، یا اللہ! پوری دنیا میں تمام مسلمانوں پر رحم و کرم فرما ، یا رب العالمین! یا اللہ! انہیں اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف نجات دے ، یا ذو الجلال والاکرام!
یا اللہ! ہم سب مسلمان جادو گروں کے شر سے تیری پناہ چاہتے ہیں، یا اللہ! ہم ان کے شر سے تیری ہی پناہ چاہتے ہیں، یا اللہ! جادوگروں نے اس دھرتی پر سرکشی، بغاوت اور فساد پھیلا رکھا ہے ، یا اللہ! ان پر اپنی پکڑ نازل فرما، یا اللہ! اپنی رحمت سے ان کی مکاریاں تباہ فرما، یا ذو الجلال و الاکرام!
یا اللہ! خادم حرمین شریفین کو تیری مرضی کے کام کرنے کی توفیق عطا فرما، یا اللہ! انہیں تیری مرضی کے مطابق توفیق عطا فرما، یا اللہ! ان کی تمام تر کاوشیں تیری رضا کیلیے مختص فرما ، اور ان کی ہر اچھے کام پر مدد فرما، یا رب العالمین! یا اللہ! انہیں تیری رضا کے کام کرنے کی توفیق عطا فرما، بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے، یا اللہ! انہیں صحت و عافیت سے نواز، بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے، بیشک تو ہی معبود برحق ہے، تیرے سوا کوئی معبود نہیں، یا اللہ! ان کے دونوں نائبوں کو تیری مرضی اور اسلام و مسلمانوں کیلیے بہتر فیصلے کرنے کی توفیق عطا فرما، یا رب العالمین!
یا اللہ ! ہمارے ملک کی ہر قسم کے شر و برائی سے حفاظت فرما، یا رب العالمین!
یا اللہ! یا ذو الجلال والاکرام! ہم تجھ سے سوال کرتے ہیں کہ تو مسلمانوں کے دلوں میں الفت ڈال دے، یا اللہ! مسلمانوں کے دلوں کو آپس میں ملا دے۔
یا اللہ! بیماروں کو شفا یاب فرما، یا اللہ! ہمارے بیماروں کو شفا یاب فرما، یا اللہ! اپنی رحمت کے صدقے ہمارے بیماروں کو شفا یاب فرما، یا رب العالمین!
یا اللہ! برے فیصلوں ، دشمنوں کی پھبتی ، بدبختی اور سخت آزمائش سے ہم تیری پناہ چاہتے ہیں، یا ذو الجلال والاکرام!
یا اللہ! ہمیں دنیا و آخرت میں بھلائی عطا فرما، اور ہمیں جہنم کے عذاب سے محفوظ فرما۔اللہ کے بندو!
إنَّ اللہ يامُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاحْسَانِ وَإيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْھى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ (90) وَأوْفُوا بِعَھدِ اللَّهِ إذَا عَاھدْتُمْ وَلَا تَنْقُضُوا الْايْمَانَ بَعْدَ تَوْكِيدِھا وَقَدْ جَعَلْتُمُ اللہ عَلَيْكُمْ كَفِيلًا إنَّ اللہ يَعْلَمُ مَا تَفْعَلُونَ
اللہ تعالی تمہیں عدل و احسان اور قریبی رشتہ داروں کو دینے کا حکم دیتا ہے، اور تمہیں فحاشی، برائی، اور سرکشی سے روکتا ہے ، اللہ تعالی تمہیں وعظ کرتا ہے تاکہ تم نصیحت پکڑو[90] اور اللہ تعالی سے کئے وعدوں کو پورا کرو، اور اللہ تعالی کو ضامن بنا کر اپنی قسموں کو مت توڑو، اللہ تعالی کو تمہارے اعمال کا بخوبی علم ہے [النحل: 90، 91] ۔
۔(مسجد نبوی ﷺ میں امام ڈاکٹر علی الحذیفی کے خطبہ جمعہ کا ترجمہ شفقت الرحمن نے کیا ہے. جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں ایم ایس تفسیر کے طالب علم ہیں اور ادارہ ترجمہ، مسجد نبوی میں بطور اردو مترجم فرائض انجام دے رہے ہیں. مسجد نبوی ﷺ کے خطبات کا ترجمہ اردو دان طبقے تک پہنچانا ان کا مشن ہے)۔


"خودغرضی کی بھوک"


پاپی پیٹ"
سورہ یونس(10)۔
آیت ۔۔44۔ترجمہ۔۔.
اللہ تو لوگوں پر کچھ ظلم نہیں کرتا لیکن لوگ ہی اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں"۔"
خودغرضی اللہ کی بہترین نعمتوں میں سے ایک  ہے۔ ایسی نعمت جس کی پہچان بہت کم کسی کے قلب وذہن پر اُترتی ہے اور جو اِس کی اصل روح کو پا لے وہ ولی اللہ کے درجے کو چھو جاتا ہے۔عام طور پر کسی کو خودغرض کہا جائے تو نہ صرف کہنے والا بلکہ سُننے والا اَسے طعنے یا گالی کے طور پر محسوس کرتا ہے۔ درحقیقت دونوں اِس کے اصل مفہوم سے ناآشنا ہیں۔
 خودغرض یا خودغرضی کا عام مطلب ہے اپنے آپ سے غرض رکھنا۔۔۔صرف اپنا بھلا چاہنا اور دوسروں کی قطعی پروا نہ کرنا۔اِن معنوں اوراس مفہوم میں کوئی کجی نہیں اور یہی اصل مطلب بھی ہے۔ بات پلٹ کر وہیں آ جاتی ہے کہ ہم ہر چیز ہر لفظ اور ہر احساس کو سرسری نگاہ سے دیکھ کر حرفِ آخر کا فیصلہ صادر کر دیتے ہیں ۔۔۔اس کے ساتھ ساتھ اپنے دل ودماغ کی کھڑکیاں ہٹ دھرمی کی میخوں سے بند کر کے اُسی بات پر اڑے رہتے ہیں۔
خود غرضی کیا ہے؟ اپنی طلب سے غرض رکھنا۔۔۔اپنا بھلا چاہنا۔ تو کیا کسی نے سوچا کہ اُس کی بھلائی کس میں ہے؟ اُس کی طلب کی نوعیت کیا ہے؟ اٗس کی بھوک اور پیاس کی حدیں کہاں تک پھیلی ہیں ؟ اور سب سے اہم بات یہ کہ اس کی "غرض" اُس کے لیے کتنے وقت تک اور کتنا ساتھ دے سکے گی؟
 سب سے پہلے بھوک کی بات کہ یہی وہ غرض ہے جوانسان کو اپنے پرائے رشتوں ناطوں حتیٰ کے اپنے اہل وعیال سے بھی بیگانہ کر دیتی ہے۔بھوک ایسا طاقتور اور بےرحم جذبہ ہے جس کے آگے اِبن ِآدم کی ساری تمیز تہذیب دھری کی دھری رہ جاتی ہے۔اگرچہ بھوک ایک آدم خور درخت ہے جس کی شاخیں انسان کے اندر ہر جگہ پھیلی ہیں جیسے ناشُکرا پن اور ہوس بھی بھوک کے کرشمے ہیں لیکن پیٹ کی آگ اور جنس کی طلب انسانی اخلاقیات کے لیے زہرِقاتل کا درجہ رکھتی ہیں۔
 بھوک کوئی بھی ہو وہ کبھی اپنے اندرسے پوری نہیں پڑتی ۔اُس کے لیے اپنی ذات سے باہرآ کر ڈھونڈنا پڑتا ہے۔۔۔ خاموشی سے۔۔۔ چُپ چاپ دبے پاؤں ۔
پیٹ کی آگ اورجنس کی بھوک بہت شورمچاتی ہے،اسے سنبھالنا بہت مشکل ہے جواکثراوقات ناممکن بن جاتا ہے۔اس کو قابو کرنے کا فن زندگی کی ریاضت چاہتا ہے۔ ساری زندگی کی کمائی دینے کے بعد کب ملے یہ کوئی نہیں جانتا اور اس جن کو بوتل میں بند کرنے کے بعد بھی آزمائش ختم نہیں ہوتی۔جو اس پر قابو پا گیا وہ ولی اللہ کے رُتبے کو پا گیا۔جیسے جیسے اس بھوک کو سمجھتے جائیں اس سے پنجہ آزمائی کرتے رہیں،اس کے گلے میں بانہیں ڈال کر اس سے باتیں کرتے رہیں یہ سر پر سوار نہیں ہوتی ۔
پیٹ کی آگ جسمِ انسانی کا وہ بھڑکتا الاؤ ہے جس میں انسان کی ساری اخلاقیات سوکھی لکڑیوں کی طرح لمحوں میں جل کر خاکستر ہو جاتی ہے۔پیٹ کی ہوس وہ ضرورت ہے جس پر انسان ذرا سا بھی شرمندہ نہیں ہوتا اور نہ ہی اُسے اس طور اتنا بُرا محسوس کرتا ہے۔انسان وقتی لذت کے چسکے اور اُس ذائقے کے لیے جو زبان پر چند لمحوں اور پیٹ میں چند گھنٹوں سے زیادہ نہیں ٹھہرتا اپنے فہم اور شعور کو بہت کم قیمت پر فروخت کر دیتا ہے۔۔جس طرح کہا جاتا ہے کہ نیند سولی پر بھی آ جاتی ہے اسی طرح پیٹ گھڑی بھی وقت بےوقت سے بےپروا اپنے وقت پر الارم بجانے لگتی ہے۔عام زندگی میں ایسے مظاہرے کئی بار دیکھنے کو ملتے ہیں خاص طور پر جب ہمیں مالِ مفت کے مصداق کھانے کو مل جائے تو ہم اس الارم کی ضرورت اور ہوس میں فرق بھول جاتے ہیں۔خوشی کی تقریبات میں"کھانا کھلنے"کا اعلان ہو یا کسی کا جنازہ اٹھنے کے بعد کھانے کا منظر جسے پہلے زمانوں میں"کڑوی روٹی" کہا جاتا تھا کھانے والوں کے انداز اور اطوار میں صرف کچھ ہی فرق ہوتا ہے لیکن نظروں میں رتی برابر فرق دیکھنے کو نہیں ملتا۔ خوشی کے موقع پر تو بہت کچھ خوشی خوشی نظرانداز کیا جا سکتا ہے اور کیا بھی جاتا ہے لیکن مرنے والے کے گھر میں چاولوں میں"بوٹی"اور سالن میں "تری" پر نظر رکھی جاتی ہے۔اپنے گھروں میں روز ہی پیٹ بھر کر مرغِ مسلم کھانے والے ایسی بدنیتی کا مظاہرہ کریں تو اس بےحسی سے زیادہ اُن کی اپنی غرض کی ناسمجھی پرشدید تاسف ہوتا ہے۔
 مال اوراولاد کو دُنیا کی زندگی میں سب سے بڑی آزمائش کہا گیا ہے۔اس میں کوئی اختلاف نہیں گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو اس آزمائش کا سرا "پیٹ" سے جا ملتا ہے۔انسان کی بھوک اس کے ہر احساس پر غالب آ جاتی ہے۔کہا جاتا ہے کہ محبت سے پیٹ نہیں بھر سکتا لیکن یہ بھی سچ ہے کہ پیٹ بھر جائے تو پھردوسری ہر محبت کی طلب بیدار ہوجاتی ہے۔
 پیٹ کی بھوک کی طرح جنس کی بھوک کی بدنمائی بھی انسان کاانسان پر سے اعتبار ختم کر دیتی ہے۔وہ ایسی ہوس ہے جو انسان کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دوسروں کی نظر سےگرا دیتی ہے۔جسم کی طلب کو اگر چھوٹے بچے کی ضدوں کی طرح سمجھا جائے تو اسے منانے میں آسانی   ہو جاتی ہے۔ یہ فرمائشوں کو پورا کرنے کےعارضی وعدوں اورمحبت کے دو بول سےبہل جاتی ہے اور اپنی پوری معصومیت سے انتظار کرنے لگتی ہے اچھے وقت کا،خوبصورت موسم کا۔ اوراگر اسے سخت گیر اُستاد کے حُکم کی طرح سُن لیا اوراس سے سہم گئے تو یہ کبھی پیچھا نہیں چھوڑتی نہ خوابوں میں اور نہ حقیقت میں۔ اپنی پوری کمینگی اور سفاکیت کے ساتھ یوں حملہ آور ہوتی ہے کہ اس کے نوکیلے پنجے روح میں شگاف ڈال دیتے ہیں اور جسم ہر طرف سے کیکر بن جاتا ہے جو قریب آنے والوں کو زخمی کر دیتا ہے۔
حرفِ آخر
 بھوک وہ سانپ ہے جو ہر بار نئے رنگ سے نئے ڈھنگ سے بہروپ بدل بدل کر ڈستا ہے- زیادہ طلب بڑھے تو بھوک مرتی نہیں راستہ بدل لیتی ہے۔۔۔ لبادہ اُوڑھ لیتی ہےکبھی صبر کا ۔۔۔ کبھی قناعت کا ۔۔۔ کبھی بہادری کا تو کبھی مذہب کا- بھوک فطرت ہے کہ جھولی خالی ہو تو خیرات ملتی ہے۔۔۔ طلب ہو تو بھوک ہوتی ہے پھر خواہش ضرورت بنتی ہے۔ بھرے پیٹ کی خواہش تو ہوس ہوتی ہے۔۔۔ بدنظری ہوتی ہے۔۔۔ خودغرضی ہوتی ہے۔۔۔ لُوٹ کھسوٹ ہوتی ہے۔۔۔اجتماعی زیارتی ہوتی ہے۔گھاٹے کے سوداگر ایک لمحے کی خوشی ایک پل کے عارضی سکون کی خاطر ہمیشہ کی آسودگی قربان کر دیتے ہیں۔دنیا کی باتیں دُنیا میں سمجھ آ جائیں تو آگہی کی جنت دورنہیں۔ہم اس حال کی فانی دنیا کواپنی محدود عقل کے دائرے میں جاننے کی کوشش کیےبغیر نہ صرف اپنے لیے بلکہ دوسروں کے لیے بھی دوزخ بھڑکاتے ہیں۔آگے کی اللہ جانے کہ وہ ایمان والوں کے ایمان کا معاملہ ہے۔اللہ کی نعمت اور رحمت کا دائرہ کس قدر وسیع اور لامحدود ہے اوروہ کتنا بےنیاز ہے ہم کبھی نہیں جان سکتے۔لیکن اتنا ضرور محسوس کیا جا سکتا ہے کہ وہ خلوصِ نیت سے پلٹنے والوں،سوچنے والوں اور اس کے مطابق عمل کرنے والوں کو اس دنیا میں ہی جنت عطا کر دیتا ہے۔

منگل, اکتوبر 25, 2016

"کٹر پنجابی،کٹر پاکستانی اور کٹر اردو ادیب"

"عہدِ تارڑ "
مستنصرحسین تارڑ عہدِحاضر میں جہاں   اردو زبان و ادب کا  قابلِ فخر سرمایہ  ہیں وہیں اپنی شخصیت ،اور عادات وگفتار کے لحاظ سے قابلِ تقلید "تعصب" اور اُس کے  توازن کی  عمدہ مثال ہیں۔
لکھاری جس مٹی میں پلا بڑھا ہواس کی خوشبو سے کبھی فرار حاصل نہیں کر سکتا۔ اور مٹی سے وابستہ اس کے پڑھنے والے بھی اُسے اِسی طور محسوس کرتے ہیں۔کسی لکھاری کو پسند کرنے والوں کو درحقیقت اس کے لفظ میں اپنے دل اپنی سوچ سے قربت کی مہک آتی ہے۔ وہ لکھاری جو ہمارے دل کے تار چھو جاتا ہے اس ساز کی ایک جھلک دیکھنے کی خواہش سے انکار نہیں کیا جا سکتا خاص طور پر اگر وہ ہمارے عہد اور ہماری دنیا میں ہمارے قریب بھی کہیں موجود ہو۔ قاری اور لکھاری کا گم نام سا رشتہ ساز وآواز کی مانند ہے  بےشک آواز  ساز کے بنا مکمل  تو ہے لیکن ساز آواز کو چہار سو پہنچا ضرور دیتا ہے ورنہ دل کی بات دل  ہی میں  رہ جاتی ہے۔ہم انسان ہر رشتے ہر احساس میں بنیادی طور پر بُت پرست واقع ہوئے ہیں جہاں ذرا سی روشنی دکھائی دی سجدہ کر لیا۔شخصیت کا بُت پہلی نظر یا پہلی ملاقات میں ٹوٹ بھی سکتا ہے۔ ہم بھول جاتے ہیں  کہ لکھنے والا  اپنے افعال  وکردار میں ہمارے جیسا عام انسان ہی  ہے۔کبھی بت یوں ٹوٹتا ہے جب ہم قول وفعل کا تضاد دیکھتے ہیں یا لفظ اور کردار میں کہیں سے بھی مماثلت دکھائی نہ دے۔اکثر کاغذی رشتے۔۔۔صوتی ہم آہنگی جب رسائی کی حدت میں جذب ہوتے ہیں تو خزاں رسیدہ پتوں کی طرح بےجان لگتے ہیں تو کبھی پُرشور ڈھول کی طرح اندر سے خالی۔ اس لمحے ہماری محبت ہمارا عشق چپکے سے دل کے مدفن میں اُتر جاتا ہے۔ یاد رہے " بت ٹوٹنے کے لیے ہی ہوتے ہیں "۔یہ بہت اچھی بات ہے کہ اس طرح انسان حقیقت اور تصور کے مابین گومگو کی کیفیت سے نکل جاتا ہے۔ اس میں اس لکھاری کا ذرا سا بھی قصور نہیں کہ
بُت ہم خود بناتے ہیں اور اپنی خواہشوں کے مندر میں اونچا مقام دیتے ہیں"۔ " 
اپنے محبوب لکھاری مستنصرحسین تارڑ سے ملاقات کرنے والے ان کے لفظ کے عشق میں سرشار کیا کہتے ہیں ذرا سنیئے۔۔۔۔۔
٭24 اکتوبر 2016۔۔ ایک ملاقات۔۔۔از سید عرفان احمد
گھنٹہ پہلے مستنصر صاحب سے اُن کے لکھائی والے کمرے میں ملاقات ہوئی۔
آج سارا دن نزلے اور بخار کی وجہ سے بستر پر لیٹ لیٹ کر اُکتاہٹ اور بوریت سی ہونے لگی۔ شام کو خیال آیا کہ مستنصر صاحب سے اُن کے نئے گھر میں ابھی تک ملاقات نہیں ہوئی، اُن سے ملا جائے۔ غیر مناسب وقت کی پروا نہ کرتے ہوئے رات آٹھ بجے اُن کے گھر کے دروازے پر پہنچ گیا۔ فون کیا اور اپنا نام بتایا۔ نام پہچانتے ہوئے انہوں نے کہا ’’کِدّر پھرنا پیا ایں؟‘‘۔ میں نے کہا ایسے ہی آپ سے ملنے کا خیال آ گیا تھا۔
’’کِتھے ویں ایس ویلے؟ انہوں نے پوچھا
’’تُہاڈے گیٹ تے‘‘ میں نے جواب دیا
’’اچھا میں گیٹ کھلوانا واں‘‘
 ملازمہ نے کہیں سے چابی ڈھونڈ کر دروازہ کھولا اور مجھے مستنصر صاحب کے لکھائی والے کمرے میں بٹھا دیا۔اُن کی  غیرحاضری کوغنیمت جان کر ارد گرد کی چند تصویریں کھینچیں۔ چند منٹوں بعد مستنصر صاحب آ گئے اور پہلے والا سوال دہرایا۔ میں نے کہا کہ صبح سے نزلے اور بخار  سے گھر پر تھا اور اب آپ سے ملنے آ گیا ہوں۔ میری بےساختہ ہنسی نکل گئی جب انہوں نے کہا ’’میرے کولوں پراں ای رو‘‘۔ اُن کے لہجے میں پیار و محبت اور مذاق اکٹھے ہی تھے۔
تھوڑا پیلوں آ جانا سی، تینوں تھوڑا وقت تے دیندا۔ ھُن میرا لکھن دا ویلا ہُندا پیا اے‘‘۔"
مستنصر صاحب اپنی آنے والی کتابوں کا بتانے لگے اور اُن کی جو تحریریں انگریزی زبان میں چند لوگ ترجمہ کر رہے ہیں۔ اُن کے دوستوں نے انہیں اپنی ٹی وی کی زندگی اور اُس سے جڑے واقعات کو کتابی شکل دینے کا کہا تھا۔ اس کا ذکر جب انہوں نے اپنی اہلیہ سے کیا تو انہوں نے اسے ویٹو کر دیا۔ میں نے کہا کہ ٹی وی سے متعلقہ جو واقعات ہم آپ سے سنتے رہتے ہیں وہ واقعی اس قابل ہیں کہ انہیں ضبطِ تحریر میں لایا جائے۔ ایک تاریخ ہے جو محفوظ ہو جائے گی۔ اس پر انہوں نے کہا ’’لکھاری پر ایک ایسا وقت بھی آتا ہے جب اُس کا مقابلہ اپنے آپ سے ہو جاتا ہے اور اپنے آپ سے لڑنا آسان نہیں۔ اب مجھے کچھ لکھنا ہے تو پہلے سے بڑھ کر لکھنا ہے،یہ میرا خود سے مقابلہ ہے‘‘۔
کیہڑی کتاب لینی اُوں‘‘ میں اُٹھنے لگا تو انہوں نے مجھ سے پوچھا۔"
’’تہاڈیاں کافی کتاباں ہین نے میرے کول، رہن دیو‘‘۔ میں نے رسماً کہا۔ دل تو کر رہا تھا کہ کہہ دوں کہ ساریاں دے دوو۔
’’فیر وی، دس کوئی‘‘ انہوں نے پھر پوچھا
’’بہاؤ دے دیو‘‘
مستنصرصاحب نے اُٹھ کر کتابوں کے ریک سے بہاؤ نکالی اور اپنے شفیق جملے اور دستخطوں کے ساتھ مجھے عنایت کی۔ میرے اصرار کے باوجود کہ رہنے دیں، مستنصر صاحب باہر نکل کر دروازے تک مجھے چھوڑنے آئے۔
پتھر کے پہاڑ اور اور انسان کے پہاڑ بننے میں فرق یہ ہے کہ پتھر کے پہاڑ کا سر جھک نہیں سکتا۔ انسان جب پہاڑ بنتا ہے تو کسی بڑے ظرف والے انسانی پہاڑ کا سر انکساری اور اعلیٰ ظرفی سے جھک جاتا ہے اور یہ ادا اُسے اور بلند کر دیتی ہے۔
مستنصر صاحب کے یار دوست اگر کبھی غلطی سے اُن سے اردو میں گفتگو کرنے لگیں تو مستنصر صاحب اکثر یہ جملہ بولتے ہیں:
تیری طبیعت ٹھیک اے، اردو پیا بولنا ایں؟
٭ عمارہ خان کہتی ہیں ۔۔۔
میں ان کو اپنی فیملی میں پنجابی ہی بولتے دیکھا ہے۔میں نے اپنی زندگی میں سر جیسے انکساری برتنے والے انسان نہیں دیکھے.. ان سے مل کے نہیں لگتا کہ یہ ایک لیجنڈ ہیں.. اور یہ ہی چیز سر کو سب میں بہت نمایاں کرتی ہے..
دوسری بات سر کا اپنی زبان پہ قائم رہنا واہ شاندار.. آج کے زمانے میں جب لوگ اپنے گھر پنجابی نہیں بولتے سر ڈنکے کی چوٹ پہ ہر محفل, ڈنر, تقریب میں بولتے ہیں .. انسان کو اپنے اصل کو کبھی نہیں بھولنا چاہیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭ابوبکر سیال کہتے ہیں ۔۔
مجھے بھی ٹوکا تھا کہ کونسے علاقے سے ہو تو میں نے سرائیکی بیلٹ کا بتایا اور اردو میں بات کی۔ تو انہوں نے کہا کہ اتنی گاڑھی اردو مت بولو اور پنجابی میں بات کرو۔ میری بھی جھجھک ختم ہوئی اور پنجابی تو میٹھی زبان ہے ہی۔
حرفِ آخر از نورین تبسم 
اپنی زمین ہر انسان کی پہچان ہے تو زمین سے نسبت اس کو سربلندی عطا کرتی ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا۔۔۔
زمین اچھی طرح ان کی جڑیں جب تھام لیتی ہے
درختوں کی بھی پھر طوفاں میں گردن خم نہیں ہوتی

پیر, اکتوبر 24, 2016

"مستنصرحسین تارڑ۔۔۔ ہمارا بےمثال لکھاری "



"بارش کا پہلا قطرہ"
۔24 اکتوبر 2014۔۔۔24 اکتوبر 2016"
جناب مستنصرحسین تارڑ کو خاموشی سے پڑھتے برسوں بیت گئے ۔ دو برس پہلے آج کے روز محترمہ ثمینہ طارق کے بلاگ کو پڑھنے کے بعد اس پر کمنٹ کی صورت پہلی بار جناب تارڑ کو سوچتے ہوئے لکھنا شروع کیا اور پھرتخیل کی رم جھم لفظ کے ملبوس میں اتنا برسی کہ آج تک تھمنے میں نہیں آئی۔
جناب مستنصرحسین تارڑ کے لفظ وقتی لذت یا سحر سے بہت  آگے زندگی برتنے اور اپنی عمر کے ہر ہر دور کے رویے اور احساسات سمجھنے کا قرینہ ہیں۔جناب مستنصرحسین تارڑ کا زرخیز تخیل  نشے کی طرح قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے تو اُن کے لفظ اُردو ادب کے نخلستان میں اس  ٹھنڈے میٹھے چشمے کی مانند ہیں کہ جس کے بعد کہیں اور پڑاؤ کی  طلب رہتی ہے اور نہ خواہش۔۔۔کم ازکم ہماری اس محدود عمر اور اُردو زبان میں  ہماری وسعتِ نگاہ  کی حد تک۔ورنہ دنیا میں اور  بھی بہت سے ادبی شاہکار ضرور ہوں گےاور یقیناً ہیں بھی جن تک ہماری رسائی نہیں۔لفظوں سے تصویر کشی کرتے ہوئے  فطرت اور فطرتی مناظر سے محبت کا سفر دیکھنے والی آنکھ کو اپنے ساتھ بہت دور تک بہا لے جاتا ہے لیکن سیلابی ریلے کی طرح ڈوبنے نہیں دیتا بلکہ آخر میں کنارے پر پہنچا ہی دیتا ہے۔۔۔ اگر کوئی پار لگنا چاہے۔جناب تارڑ کی ایک خاص بات یہ بھی  ہے کہ اپنی تحاریر کے آئینے میں  ہمیں نہ صرف دُور دیسوں کی سیر کراتے ہیں بلکہ وہاں  کے لکھاریوں ،ثقافت اور تاریخ سے بھی روشناس کراتے ہیں۔
شکریہ ثمینہ طارق۔۔۔،جناب  مستنصرحسین تارڑ کے حوالے سے میرے لکھنے کا سارا کریڈٹ آپ کے نام۔ 
اور شکریہ "مستنصرحسین تارڑ ریڈز ورلڈ" (فیس بک گروپ)کہ اس پلیٹ فارم نے نہ صرف میرے لفظ کو جگہ دی بلکہ میرے تخیل کو مہمیز کرنے میں بہت بڑا کردار ادا کیا۔

یہ صرف "پلیٹ فارم" کا کمال ہے اوروسیع معنوں میں سمجھا جائے تو "زمین" کے لشکارے ہیں جو انسان کو کسی بھی مدار میں محوِرقص کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔ یہ دیکھا دیکھی کی جذباتی لہر ہرگز نہیں  اور نہ ہی عقیدت کی کسی بھاگ دوڑ میں تمغہ لینے کی ہوس ہے۔"مستنصرحسین تارڑ ریڈزورلڈ" میں بطورِخاص جناب تارڑ کے لفظ سے محبت کا سفر ان کے لمس کی قربت تک جا پہنچا اور ان کے چاہنے والے جہاں ان کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے فطرت سے قریب ہوتے ہیں وہیں ان کی شخصیت کے سحر میں گزرے چند لمحے عجیب خمار میں مبتلا کر دیتے ہیں ۔بہرحال یہ بات تو طے ہے کہ اس گروپ میں جناب تارڑ کے حوالے سے نری عقیدت کی جہالت ہرگز نہیں بلکہ صرف اور صرف محبت ہے اور اس کے بےشمار رنگ اور انداز۔  "مستنصرحسین تارڑ ریڈرز ورلڈ"جناب مستنصرحسین  تارڑ کو پڑھنے والوں کا گروپ تو ہے ہی لیکن اس سے بڑھ کر یہ ایک ایسا"ہائیڈپارک" "بھی ہے جہاں مستنصرحسین تارڑ کے لفظ سے محبت کرنے والے بلاجھجکے اپنا دل کھول کر رکھ دیتے ہیں اور دل والے اسے اپنے دل کی آواز سمجھتے ہیں۔ بقول تارڑ یہ دیوانوں کی دنیا ہے۔ یہ گروپ عجیب دنیا ہے کہ اس نے  جناب تارڑ کے قارئین کو لکھاری بنا دیا، تارڑ کے لفظوں نے اگر دشت گردی اور فطرت کے سفر پر اکسایا، تو اس گروپ نےمناظر کی ہوس اور لذت میں مبتلا ان کوہ نوردوں کو عزت دی ان کے احساس کی قدر کی۔ یہاں لکھنے والے تو لکھتے ہی ہیں لیکن پڑھنے والے جو سب کہہ نہیں سکتے اور ان جگہوں پر جا بھی نہیں سکتے وہ اپنے دل کی بات سمجھتے ہیں اور اسی طور سراہتے بھی ہیں۔"تکیہ تارڑ" کے عنوان سے جمنے والی محفلوں  کے حوالے سے تحاریر  یاد کے ایسے سچے موتیوں سے لکھی جاتی ہیں  جن کی چمک نہ صرف لکھاری کی شخصیت کو روشن کرتی ہے بلکہ  قاری کی آنکھ کی نمی اس احساس کو سلامِ عقیدت پیش کرتی ہے۔
کبھی دیارِغیر میں ، برفیلی بارشوں میں جناب مستنصرحسین تارڑ  سے اُن کی تحاریر کے آئینوں  میں گرما گرم ملاقات کی روئیداد پڑھنے والے کو اُنہی لمحوں کا سیر کر دیتی ہے۔دور دیس میں  رہنے والے اپنی زبان اور ادب  کا علم اُٹھائے  جناب مستنصرحسین تارڑ کی تحاریر سے محبت  کرنے والے  اُن مہربان موسموں کی نوید  دیتے ہیں  جب بوئی گئی ان ننھی ننھی بےضرر خوشیوں کے بیج سےکتنے رنگا رنگ پھول کھلیں گےاور  اپنے وطن کی مٹی سے  محبت اور اپنائیت کی خوشبو کا اضافہ ہو گا۔
ایک ذرا سی خلش یا خامی کہہ لیں کہ جناب مستنصرحسین تارڑ کے لفظ سے سفر کرتی ان کی ذات تک پہنچنے والی محبت کے شیرے میں لبالب ڈوبی اُن کے قارئین کی تحاریر کی اس گروپ سے باہر کہیں جگہ نہیں۔ حتٰی کہ ہم میں سے بہت سوں نے کبھی اپنی ذاتی وال پر بھی  جناب تارڑ اور اُن ک کی تحاریر اپنے "دلی جذبات واحساسات" شئیر کرنے کی جئرات نہیں کی۔ اور یہی بات خاصی اہم بھی ہے کہ محبت یا عشق کی گہرائی اور پائیداری اس بات پر منحصر ہےکہ انسان ببانگِ دہل سب کے سامنے کہہ سکے دوسرے لفظوں میں اسے "اون" کرے۔
اور ایک خلش اور کہ اس گروپ میں بہت کم ہی ایسا ہوتا ہے کہ جناب تارڑ کے بارے میں کوئی اختلافی بات کی جائے گرچہ ایڈمنز اجازت دیتے ہیں لیکن اس گروپ کے قاری تصویر کے دوسری طرف دیکھنا ہی نہیں چاہتے ۔۔۔اور اور اس میں ہرج بھی کوئی نہیں جس کی جتنی نظر ہے اس نے اسی کے دائرے میں سفر کرنا ہے۔ہم دوسرے کو کبھی بھی اپنے نظر کی حد میں دکھائی دینے والا منظر دیکھنے پر نہ مجبور کر سکتے ہیں اور نہ ہی ایسا ممکن ہے۔
گروپ کی مین وال صرف جناب تارڑ کی تحریر یا ان کی تصاویر کے لیے ہے اور اپنے ذاتی احساس کو اسی گروپ کے دوسرے لنک میں شئیر کیا جاتا ہے، لیکن چاہے جان بوجھ کر نہ بھی ہو ہوتا یہ ہے کہ جو جناب تارڑ سے لفظ سے ہٹ کر ذاتی طور پر قریب ہے اس کے احساس کے سامنے کوئی ضابطے نہیں چاہے وہ محض تصاویر ہوں یا "رائٹ اپ"۔۔۔۔
سو باتوں کی ایک بات ۔۔۔۔۔۔ "پارس"۔ ہم خودغرض انسان ہیں اپنا بھلا سوچیں تو جناب تارڑ کا ایک ہی کمال کافی ہے کہ انہوں نے اپنے قارئین کو لکھاری بنا دیا۔۔۔۔  پڑھنا ایک نشہ تو ہے لیکن لکھنا ایک ایسا نشہ ہے جس کا خمار انسان کو اپنی نظر میں محترم بنا دیتا ہے یوں جیسے کہ جینے کا  ایک مقصد  یہ بھی ہو۔کسی نئے نام کی پہلی تحریر دل میں اترنے والے لفظوں کی ایسی رم جھم ہوتی ہے جو روح میں جذب ہو کر اسے ایک عجیب سی سرخوشی میں مبتلا کر دیتی ہے اور دل بےاختیار اس مہان لکھاری کے لفظ اور خیال کی سچائی پر مہرِتصدیق ثبت کرتا ہے جس کا فیض روزاول کی طرح جاری ہے اور جو اپنے قاری کے دل میں رہتا ہے۔جو بھی ہے ہمارا لکھاری بےمثال ہے کہ اپنے قاری کو عزت کے بلند مقام پر بٹھا دیتا ہے۔
اللہ پاک سے دعا ہے کہ جناب مستنصرحسین تارڑ کی زندگی کی روانی آپ کے قلم کی اسی تازگی کی طرح غیرمحسوس انداز میں سفر طے کرتی رہے۔ آمین اللہ سے دعا ہے تو صرف یہی کہ راضی برضا رکھے ہر حال میں ہر ساتھ میں اور سفر بخیر ہو 
چاہے دنیاوی ہو یا ابدی -آمین
جناب  مستنصرحسین تارڑ کے لفظ،اُن کی شخصیت اور ان کی کتابوں سے قربت کی خوشبو محسوس کرتے میرے  بیس سے زائد بلاگ میرا بہت قیمتی سرمایہ ہیں۔درج ذیل لنک پر جناب تارڑ کے حوالے سے میرے تمام بلاگ دیکھے جا سکتے ہیں ۔
http://noureennoor.blogspot.com/…/%D9%85%D8%B3%D8%AA%D9%86%…
دو برس پہلے آج کے روز ثمینہ طارق کے بلاگ  پر میرا اظہار۔۔۔
طویل سفر کے بعد ۔۔۔۔ لفظ کی خوشبو سے لمس کی مسکراہٹ کی عکاسی آپ نے بہت خوبی سے بلاگ کے کینوس پر بکھیری۔ تارڑ صاحب کے لفظ سے قربت کا میرا تعلق بھی برسوں پرانا ہے ۔ فطرت سے رومانس کا جو احساس جناب کے سفرناموں میں ملتا ہے وہ محبت کے جذبے کی آفاقیت پر یقین کی مہر ثبت کرتا ہے۔ محبت کی عام انسانی روش اور جبلی خواہشات کی غمازی کرتے لفظ "پیار کا پہلا شہر" کی جپسی میں یوں چپکے سے دل میں اتر جاتے ہیں کہ جیسے ہماری ہی کہی ان کہی ہو ۔
 پھروقت کی گرد جب ہر چیز کی اصلیت سے آگاہ کرتی ہے تو " غارحرا میں ایک رات " اور " منہ ول کعبہ شریف" اس عشق کی پاکیزگی کی گواہی دہتے ہیں ۔ تارڑ صاحب کے لفظوں کی خوشبو ہمیشہ اپنے آس پاس محسوس کی۔ چاہے وہ شمالی علاقوں میں پہاڑوں کی نکھری شفاف مہک میں ملی یا پھر غار حرا کی بلندیوں کو پاؤں کا بوسہ دینے کی سعادت نصیب ہوئی ۔
اور ہاں اس سال 2014 میں تارڑ صاحب سے چند لمحے کی ملاقات بھی ہوئی۔ لیکن اس سے پہلے بڑی دیر تک ان کے سامنے بیٹھ کر ان کے آس پاس "عقیدت مندوں "کو دیکھ دیکھ کر مسکراتی بھی رہی کہ " محبت کا جادو ہمیشہ سر چڑھ کر بولتا ہے۔ اور اس میں عمر کی قید نہیں ۔ اور جب بات لفظ کی محبت کی ہو تو پھر زمان ومکان کے فاصلے بھی بےمعنی ہو جاتے ہیں۔
(نورین تبسم)
محترمہ ثمینہ طارق کے بلاگ "طویل سفر کے بعد ایک خوشبو بھری ملاقات، مستنصر حسین تارڑ صاحب کے ساتھ" کا لنک

ہفتہ, اکتوبر 22, 2016

"اکرامِ میت"

"انسانی جان نکلنے کے فوراً بعد کیا جانے والا پہلا کام"
 وہ مکمل طورپرمیرے رحم وکرم پرتھے۔ میرے ہاتھ اُن کی آنکھوں کو چھوتے تو کبھی اُن کی ٹھوڈی کو،میری انگلیوں کالمساُن کی انگلیوں کو سیدھا کرتا توکبھی میں بہت آرام سے اُن کی گردن کو دھیرے دھیرے حرکت دیتی۔یہ وقت میری سخت دلی   کا متقاضی تھا لیکن میرے ہاتھوں کی نرمی مجھے کوئی بھی سختی کرنے سے روکتی تھی۔ یہ وہ وقت تھا جب اُن کی شریک ِحیات اوربیٹی نے بھی اُن کا ساتھ چھوڑ دیا تھا ،وہ خالی خالی نظروں سے مجھے دیکھے جاتیں ۔کچھ دیر بعد ایک پڑوسی کے ہمراہ  ڈاکٹر آئے۔۔۔ ٹارچ سے آنکھ میں روشنی کی جھلک نہ دیکھ کراورنبض کی خاموشی جان کراُلٹے قدموں واپس لوٹ گئے۔گھر میں اس وقت  اور کوئی  نہ تھا۔میں نے اپنا کام شروع کیا۔پٹی دستیاب نہ تھی میں نے دکھ کے عالم میں اُن کی پرانی شرٹ سے پٹی پھاڑ کر دھجی کی صورت بنا کر پاؤں کے انگوٹھے باندھے اور پھر ایک اور پٹی ٹھوڈی کے نیچے سے گزار کر چہرے کے گرد باندھی۔۔۔ گردن کو موڑ کر داہنی جانب کیا ۔
یہ کسی انسان کی  جان نکلنے کے فوراً بعد کیا جانے والا پہلا کام ہے جو اگر اُسی وقت نہ کیا جائے تو میت کے لیے زندہ انسانوں کی طرف سے پہنچنے والی  اس سے بڑی سزا اورکوئی نہیں ۔۔۔رونےدھونے اوراپنا سرمایۂ حیا ت ہمیشہ کے لیے چھن جانے کے صدمے کو پس ِپشت ڈال کراس کے جسم کو مٹی کے حوالے کرنے سے پہلے، اس سے اپنی محبت کا عملی اور آخری ثبوت صرف یہی ہوتا ہے۔اگر جان نکلنے کے چند منٹوں کے اندراندر میّت کی آنکھیں بند نہ کی جائیں ،ہاتھ سیدھے نہ کیےجائیں ،ٹھوڈی کو اونچا کر کے منہ بند نہ کیا جائے، مؑصنوعی دانت یا بتیسی  نکال کر چند سیکنڈز کے لیے  اُس کے دونوں ہونٹوں پر اپنی انگلیاں نہ جمائی  جائیں ،گردن گھما کر داہنی طرف نہ کی جائے اورپاؤں کے انگوٹھے نہ باندھے  جائیں تو انسان کا جسم جوجان نکلنے کے بعد اکڑنا شروع ہو جاتا ہے اورجس حالت میں اعضا ہو اسی طورمنجمد ہوکر رہ جاتا ہے بعد میں جتنا چاہے کوشش کر لیں وہ اپنی جگہ سے ایک انچ  نہیں ہلتا۔آنکھیں کھلی رہیں یا منہ کھلا رہے تو کچھ دیر بعد ہی بند کرنا تقریباً ناممکن ہو جاتا ہے۔
اپنی زندگی کے پچھلے چند برسوں میں کئی اجنبی خواتین  میت کے ساتھ ساتھ، ماں کی خوشبو لیے ماں اور اپنی حقیقی امی کی آخری سانس کے فوراً بعد میں نےیہی سب کیا تھا ۔ لیکن کسی مرد اور وہ بھی جس کے ساتھ میرا کوئی رشتہ نہ تھا میرے لیے ایک ناقابلِ فراموش لمحہ تھا۔محرم نامحرم کا خیال آتا تو سوچتی کہ ابھی کچھ دیر پہلے آنے والے محلے دار کیسے پڑھے لکھےدیندار مرد تھے جنہوں نے یہ بھی نہ سوچا کہ گھر میں صرف  خواتین ہیں۔ بےشک انہوں نے باہر جا کر دوسرے انتظامات کیے اورمحض چند گھنٹوں کے اندر ہی اُن کےجسد ِخاکی کو خاک کے سپرد کرنے کے لیے بھاگ دوڑ بھی کی۔۔اللہ اُن کی بےغرض خدمت کا اجر دے لیکن یہ خیال کی بات تھی جو اس وقت ان کے ذہن میں نہیں آیا وہ خاموشی سے آئے اور دیکھ کر چلے گئے۔
بحالت ِمجبوری کسی کی جان بچانے کے لیے بہت کچھ جائز ہو جاتا ہے تو جانجس حالت میں عطا کی گئی  اُسے   مالک کے حوالے کرنےکے وقت  پیچھے رہ جانے والوں کا  سب سے پہلاقرض یہی ہے،کفن دفن اور غسل بعد میں آتے ہیں اور اُس میں محرم نامحرم کے مسائل ہم سب جانتے ہیں۔۔۔۔ یہ عمل قدرت میں مداخلت یا بےجان جسم کے ساتھ زیارتی ہرگز نہیں کہ ہم تو جسم کو ایسی حالت میں رکھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ بالکل نارمل محسوس ہو۔ باقی اس سے آگے بہت لمبی اختلافی بحث ہے کہ کئی علاقوں میں مرنے والے کو دو بار نہلایا جاتا ہے پہلی بار عام کپڑے پہنا دیے جاتے ہیں اور کفن پہنانے کے وقت دوبارہ نہلایا جاتا ہے اور بعض جگہوں پر تو عورت کے ہاتھوں پرمہندی بھی لگائی   جاتی ہے چاہے وہ کسی بھی عمر میں وفات پا  جائے۔دُنیاوی نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو میت کا سن کر آنے والے کیا اپنے کیا پرائے سب اس کا چہرہ دیکھنا چاہتے ہیں، اسی پر بس نہیں بلکہ  اس کی بیماری  یا موت کے سبب   اور یا لواحقین کی کم علمی اور بےپروائی کے سبب چہرے پر جو آثار دکھائی دیں اُن پر  اس کے اعمال  کی جزا وسزا  کا   فیصلہ بھی صادر کر دیتے ہیں۔کبھی ہمیں مرنے والے کا چہرہ "پرنور" اور جوان دِکھتا ہے تو کبھی مسکراتا ہوا،کبھی  سیاہی مائل یا سپاٹ محسوس ہو تو  اس کے کرب کا تعین کرتے ہیں۔ یہ سب  کم علمی کے اندازے بلکہ فیصلے ہوتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جان نکلتے ہی  انسانی جسم ٹھنڈا ہونے لگتا ہے تو جسم  اکڑنے کے ساتھ  اس کےپٹھے بھی کھنچ جاتے ہیں،چہرے کی جلدسخت ہونے سے  چہرہ تروتازہ لگنے لگتا ہے تو کبھی  دل کے بند ہونے سے یا کسی بیماری کے زیرِاثر خون کے دباؤ کی وجہ سے رنگت سیاہ پڑ جاتی ہے۔
بڑے شہروں میں فلاحی اور رفاعی اداروں کے توسط سے جان نکلنے کے بعد سے تدفین تک کے مرحلوں میں سب سے بنیادی کام میت کو غسل دینا اور کفنانا کوئی بڑا مسئلہ نہیں رہا۔ اپنے  جانے والے پیارے کے لیے تدفین سے زیادہ اہم اور ضروری اس کو مسنون طریقے سے غسل دینا اور کفنانا ہے ۔ افسوس کا مقام ہے کہ ہم میں سے بہت سے تعلیم وتربیت کے اونچے درجوں پر فائز رہنے والے اپنے عزیز  کے ہمیشہ کے لیے آنکھ بند کرتے ہی چاہے صدمے سے بےحال ہو جائیںآنسو بہا کراپنے غم کا اظہار کریں لیکن اسےچُھونے سے خوف کھاتے ہیں۔اس کے پہنے کپڑے اتارنے اور نہلانے کے لیے کسی ان جان اور مسجد کے اُسی ملا کی طرف بھاگتے ہیں جس سے ساری زندگی عجیب سی خار رکھتے ہیں ۔عام خواتین بلکہ اعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین میں تو یہ تعلیم نہ ہونے کے برابر ہے اور "نہلانے والی " تلاش کے بعد مل جائے تو اسے عجیب  نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔
   میت کو اسلامی طریقے سے غسل دینے کے ساتھ ساتھ ہمیں  کورے لٹھے سے کفن  اور اس کے سارے لوازمات  بنانے سے   آگاہی اشد ضروری ہے۔اسلام میں عورت کے لیے کفن کم ازکم  پانچ کپڑوں اور مرد کے لیے  تین کپڑوں میں ہونا ضروری   ہے۔ عورت کے لیے دو چادر، سر پر اسکارف، کرتہ، اور سینہ بند  جبکہ مرد کے لیے دو چادر،اور ایک کرتہ  لازمی ہے۔
مسنون کفن کی تفصیل  درج ذیل  ہے۔ْ
مرد کے لیے۔۔۔
۱:… بڑی چادر، پونے تین گز لمبی، سوا گز سے ڈیڑھ گز تک چوڑی۔
۲:… چھوٹی چادر، اڑھائی گز لمبی، سوا گز سے ڈیڑھ گز تک چوڑی۔
۳:… کفنی یا کرتا، اڑھائی گز لمبا، ایک گز چوڑا۔
عورت کے کفن میں دو کپڑے مزید ہوتے ہیں،
۱:… سینہ بند، دو گز لمبا، سوا گز چوڑا۔
۲:… اوڑھنی ڈیڑھ گز لمبی، قریباً ایک گز چوڑی،
کفن بنانے اور غسل کا طریقہ جاننے کے ساتھ ساتھ  ایک  بہت اہم مرحلہ "کفن بچھانے" کا بھی ہے،جس کا طریقۂ کار جاننا  بھی حددرجہ اہم ہے۔ یہ مرحلہ غسل سے پہلے سرانجام دینا پڑتا ہے۔سب سے پہلےکفن کی چارپائی کےاطراف میں لگی کنڈی  کا  رُخ دیکھ کر چارپائی  رکھی جائے تا کہ غسل کے بعد  لکڑی کے پھٹے سے میت کو آسانی سے اور فوراً منتقل کیا جا سکے۔اب اس چارپائی پر کفن بچھانے سے پہلے گھر میں استعمال کی عام دُھلی ہوئی  چادر کی پٹی بنا کر چارپائی کے درمیان میں  اس طور رکھا جائے کہ  اِس کی مدد سے  میت  کو لحد میں اتارنے میں  آسانی ہو۔بعد میں اس پٹی نما چادر کو نکال لیا جاتا ہےچادر  کی اس پٹی کے ساتھ اور دونوں اطراف کفن کے لیے لائے گئے لٹھے میں سے تین دھجیاں آرپار لٹکائی جاتی ہیں جو میت لٹانے کے بعد کفن کی چادریں باندھنے کے کام آتی ہیں۔اب دوسرا مرحلہ چادریں بچھانے کا ہے ، چادریں ایک ساتھ ملا کر اس طرح رکھی جائیں کہ  سرہانے اور پیر کی طرف کفن کو باندھنے کے لیے اچھا خاصا کپڑا مل جائے۔ اور ساتھ ہی دونوں طرف باندھنے  کے لیے  کپڑے کی دھجیاں یا ڈوریاں بھی رکھ دی جائیں۔  اب ان چادروں پر سرہانے اور سر  ڈالنے  کا دھیان رکھتے  ہوئے کرتہ بچھایا جائے، کرتے کا اوپر والا حصہ اُٹھا کر پیچھے کر دیا جائے،اب  خاتون میت ہے تو سینہ بند اس کی جگہ پر یوں بچھایا جائے کہ  میت  کے گرد  لپیٹا جاسکے اور کرتے میں گلے کی جگہ پر اسکارف یا اوڑھنی رکھ دی جائے تا کہ بعد میں سر ڈھانپ سکیں۔ میت کو غسل دینے کے بعد سب سے مشکل مرحلہ  نہلانے کی جگہ سے  جنازے کی چارپائی میں منتقل کرنا ہے جس میں میت کے وزن کی وجہ سے  محرم  رشتہ دار کی مدد کی ضرورت بھی پڑ سکتی ہے۔ اس مرحلے میں  میت کو عام چادر سے مکمل طور پر ڈھانپ کر اٹھایا جاتا ہے۔
اس پوسٹ کے لکھنے کا واحد مقصد پڑھنے والوں کو  میت کے اس اکرام  سے آگاہ کرنا تھا جس کی میت کو جان نکلنے کے فوراً بعد ضرورت ہوتی ہے ورنہ جانے والا تو ہر ضرورت ہر جذبے سے بےنیاز ہو چکا ہوتا ہے۔ ہم میں سے بہت سے لوگ اس بارے میں نہیں جانتے ،پڑھے لکھے ڈگری یافتہ ہوں یا جہاں دیدہ عمر رسیدہ اکثر اوقات  سب ہی  اپنے پیارے  کی جان نکلنے کے بعد اُس کے قریب جانے سےہچکچاتے ہیں۔ پڑھے لکھوں نے شاید یہ سبق پڑھا نہیں ہوتا اور بڑے اپنے آپ پر یہ وقت آنے کا سوچ کر ڈرتے ہیں۔ایسے مواقع پر اپنے پرائے کے خیال کو جھٹکتے ہوئے،کسی نیکی کی نیت،اس کے صلے کی توقع کے بغیراور اپنوں کی خدمت کےجذبے سے ہٹ کر صرف یہ سوچ کرآگے بڑھا جائے کہ  ایسا وقت ہم پر بھی آئے گا جب ہم بےیارو مددگار کسی کے منتظر ہوں گے۔ اللہ جس عمل اور خیال کی توفیق دےاس  کو پھیلانا صرف خالص نیت سے بہت ضروری ہے اور ایک علم کے طور پر دوسروں کو اس میں شریک کرنا فرض اولین ہے۔

"کتبہ"

"کتبہ" جس طورانسانوں کی دنیا اور انسانوں کے ہجوم میں ہر آن اضافہ ہو رہا ہے تو اس طرح قبرستان بھی تیزی سے آبادہو رہے ہیں۔ گھر...