'زلزلے کی گیارھویں برسی سے پہلے بیٹا لوٹ آیا'
رپورٹ۔۔۔تابندہ کوکب
بشکریہ۔۔۔بی بی سی اُردو ڈاٹ کام،مظفرآباد
پاکستان کے زیرِانتظام کشمیر کے زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں جہاں گزرتا ہوا وقت کئی لوگوں کے زخموں پر مرہم بن رہا ہے اور وہ اپنوں کے بچھڑ جانے کا غم دھیرے دھیرے بھلانے کی کوشش کر رہے ہیں وہیں 11 سال بعد اگست کی ایک صبح معروف اعوان اور ان کے خاندان کے لیے آٹھ اکتوبر 2005ء والی بےچینی اور اضطراب واپس لے کر آئی۔ انہیں اس دن کے قیامت خیز زلزلے میں لاپتہ ہو جانے والے اپنے 12 سالہ بیٹے نزاکت کے ملنے کی اُمید ملی۔کسی نے فیس بک پر پوسٹ لگائی تھی کہ زلزلے میں لاپتہ ہو جانے والا کوئی بچہ گجرات میں موجود ہے اگر کسی کا بچہ بچھڑا ہے تو ان سے رابطہ کرے۔
سانحے کی 11ویں برسی سے عین ایک ہفتے پہلے نزاکت اسی گھر میں کھڑا تھا جہاں سے سکول جاتے ہوئے اس نے سوچا بھی نہ تھا کہ یہ سانحہ اس گھر کی طرف آنے والا راستہ بھی اس کے ذہن سے معدوم کر دے گا۔
نزاکت کی والدہ بتاتی ہیں کہ اس روز ان کی ساس اور دیورانی سمیت خاندان کے 21 لوگوں کی جانیں گئیں لیکن وہ زخمی حالت میں اپنے بڑے بیٹے نزاکت کی تلاش میں گھر سے دور مظفرآباد شہر کی جانب دوڑیں۔
۔'میں سکول پہنچی تو بچوں کی لاشیں نکال نکال کر میدان میں رکھی جا رہی تھیں۔ ان کے پرچوں والی فائلیں ان کے چہروں پر تھیں۔ میں ایک ایک بچے کے چہرے سے فائل ہٹاتی کہ شاید یہ میرا نزاکت ہو۔جب وہ نہیں ملا تو میں نے لوگوں سے کہا کہ وہ مجھے عمارت کے ملبے کے اندر جانے دیں میں اپنے بیٹے کو خود ڈھونڈوں گی۔ لیکن اسے تب نہیں ملنا تھا وہ نہیں ملا'۔
والد معروف اعوان کہتے ہیں: 'دکھ تو مرنے والوں کا بھی تھا لیکن نزاکت کے نہ ملنے کی اذیت بہت زیادہ تھی کہ اگر زندہ نہیں بھی رہا تو کم از کم لاش تو مل جائے۔'
معروف اعوان بتاتے ہیں کہ زلزلے کے بعد جب 12 تاریخ کو پہلی بار اخبار آیا تو اس میں زخمی بچوں کی تصاویر میں ایک بچے کی صورت ان کے بیٹے جیسی تھی اور اس نے انھیں امید کی ڈور تھما دی۔ انھوں نے اسلام آباد، پشاور اور لاہور تک کے ہسپتالوں میں اپنے بیٹے کو تلاش کیا۔ وہ اخبار آج بھی ان کے پاس محفوظ ہے۔
انھیں بیٹا کیسے ملتا وہ تو ملک میں تھا ہی نہیں۔ نزاکت نے بتایا کہ انھیں سر میں گہرے زخم آئے تھے انھیں علاج کے لیے دبئی لے جایا گیا۔ جہاں سے چھ ماہ بعد وہ واپس اسلام آباد کے کیمپ میں آ گئے۔
گہرے صدمے، زخموں اور اپنوں سے دوری نے ان سے ان کی یادیں چھین لی تھیں۔ انھیں ماں باپ کے چہرے یاد تھے لیکن نام بھول گئے تھے۔ انھیں صرف سکول کا نام یاد تھا اور شہر اور قریبی دیہات کا نام۔ ایک دن کیمپ سے نکل کر وہ گجرات جانے والی گاڑی پر بیٹھ گئے ایک خداترس انسان نے انھیں اپنا بیٹا بنا لیا۔
گیارہ سال ان کے ساتھ رہ کر بھی نزاکت ماں باپ کو یاد کر کے روتے۔ انھیں پالنے والے خاندان کے سربراہ چوہدری نصیر نے انھیں کئی بار مظفرآباد اور قریبی علاقوں میں لا کر ان کے خاندان کی تلاش کی۔ نزاکت اپنا نام بھی بھول گئے تھے۔ اور نئے نام سے انھیں اپنے گھر کا پتہ نہیں مل رہا تھا۔
نزاکت کے والد معروف اعوان کہتے ہیں ملک میں دہشت گردی کے واقعات بڑھے تو ان کی اذیت دگنی ہو گئی۔ انھیں ڈر تھا کہ بچے کا برین واش کر کے اسے شدت پسندوں نے استعمال نہ کر لیا ہو۔ 'جب بھی حملہ آور کی عمر ایسی بتاتے جو نزاکت کی عمر کا ہوتا تو ہمارا دل گھبرانے لگتا کہ کہیں یہ ہمارا بیٹا ہی نہ ہو۔
فیس بک پوسٹ پڑھتے ہی معروف اعوان کی بڑی بیٹی نے دیے ہوئے نمبر پر فون کیا جہاں سے 20 منٹ میں نزاکت کی تصویر آگئی۔ نزاکت کی والدہ ان کی پجپن کی تصاویر نکال لائیں اور تازہ تصویر سے اس کے نقش ملانے لگیں۔ پھر انھوں نے نزاکت کے جسم پر موجود تلوں اور نشانات کا حوالہ دیا ان کی بھی تصدیق ہو گئی۔ یہاں سے ماں باپ اور کچھ خاندان کے بڑوں کی تصاویر بھجوائی گئیں۔
ادھر نزاکت کے دل کی حالت عجیب تھی۔ وہ پہلے بھی تین خاندانوں کے ساتھ جا چکا تھا۔ ہر بار اس امید سے چلا جاتا کہ شاید کچھ یاد آ جائے۔ لیکن ایسا نہ ہوتا۔
وہ اب کی بار پھر سے غلط جگہ جا کر تکلیف اٹھانا نہیں چاہتا تھا۔ لیکن وہ آنے والی تصاویر میں اپنے والد والدہ اور چچا چچی کو پہچان گیا۔
اسے یاد تھا کہ زلزلے سے دو سال پہلے چچا کی شادی ہوئی تھی، اور سب سے خاص بات جو والدین کو یقین دلانے کا باعث بنی وہ یہ کہ نزاکت نے بتایا کہ جہاں ان کا گھر تھا پہلے اس عمارت میں سکول ہوا کرتا تھا۔
معروف اعوان اور ان کی اہلیہ کے لیے اتنے ثبوت کافی تھے۔ وہ اگلے روز ہی گجرات کے لیے نکل پڑے۔
نزاکت والدین کو پہچاننے کے بعد بھی انھیں سامنے دیکھ کر ان کے پاس فوراً نہیں گئے۔ 11 سال کی منتوں اور مرادوں کے بعد ماں باپ آنکھوں کے سامنے تھے لیکن وہ جھجھک رہے تھے نزاکت کا کہنا تھا: 'میں سوچ رہا تھا اگر انھوں نے نہ پہچانا، اگر انھیں میں اپنا بیٹا نہ لگا تو کیا ہوگا؟'
نزاکت کی والدہ کا کہنا تھا جب ہم گجرات پہنچے تو کچھ لوگ ہمیں لینے آئے ہوئے تھے۔ 'ایک موٹر سائیکل پر دو نوجوان تھے میرے شوہر نے کہا وہ دیکھو پیچھے والا ہمارا نزاکت ہے۔
'باجی جی خون کو کسی نشانی کی ضرورت نہیں پڑتی۔'
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں