انسانی زندگی تدبیر اور تقدیر کے مابین چپقلش کو سمجھتے گزرتی ہے۔انسان اپنی عقل پر بھروسہ کرتے ہوئے اکثر تدبیر کی خوش فہمی میں مبتلا ہو جاتا ہے لیکن درحقیقت وہ تقدیر کا غلام ہی رہتا ہے۔ایسا ہی ایک کردار میرے ابو بھی تھےجن کی زندگی تدبیر اور تقدیر کا جوڑ توڑ کرتے اور اس سے الجھتے گزری۔
تقدیر کو مان کر جان کر صدقِ دل سے ایمان لا کر بھی اُن کی انا انہیں اُس کے سامنےسرجھکانے سے روکتی،تدبیر کے سامنے ساری زندگی قیام کی حالت میں رہے۔"بادِمخالف کے تند تھپیڑے" ہوں یا سب کچھ پل میں تہہ وبالا کر کے پیروں تلے زمین کھینچنے والے زلزلہ ہائے زندگی۔۔۔ذرا دیر کوقدم لڑکھڑاتے اور محنت مشقت سے تعمیر کیے گئے خواہشوں اور خوابوں کے محل لمحوں میں زمین بوس ہو جاتے۔۔۔ساری منصوبہ بندی تقدیر کے لکھے کے آگے پل میں فنا ہو جاتی یوں جیسے ریت پر لکھی تحریر ہوا کے جھکڑوں میں غائب ہو جائے یا نرم لہروں کی روانی ہمیشہ کے لیے سب نام ونشان مٹا ڈالے۔ ہار ماننا فطرت نہ تھی سو وہ آہنی عزم وحوصلے کے ساتھ نئے سرے سے تعمیرِنو شروع کر دیتے۔اسی گرنے سنبھلنے میں زندگی کا سفر جاری رہتا۔
وہ ہر روز اپنا کنواں آپ کھودتے اور اپنی پیاس بُجھانے کی لاحاصل سعی کرتے۔زندگی گزارنے کے اُن کے اپنے ہی پیمانے تھےوہ کسی کے قول کی پروا کیے بناء صرف اپنےعمل کو سامنے رکھتے یہاں تک کہ کبھی اُن کا قول ان کےعمل سے راہِ تصادم بھی اختیار کر لیتا۔وہ موقع شناس اور منہ پھٹ نہ تھے یہ خوبی اُن کی سب سے بڑی کمزوری بھی تھی اس کے ساتھ ساتھ وہ بڑے دل کے مالک نہ تھے کہ اپنوں کے رویے اور باتیں دل میں پھانس کی طرح چُبھ جاتیں تو ٹیسوں سے زخم تازہ رہتے۔کسی چہرے کے پیچھے اصل چہرہ نظر آ جائے تو اُس سے سمجھوتہ کرنا دُنیا کا تکلیف دہ سبق ہے۔لوگوں کے میلے رویوں کا دکھ اُن کے اجلے لباس کی چمک ماند کر دیتا۔ رشتوں کے حوالے سے اُن کا بس ایک ہی شکوہ رہا کہ قریب رہنے والے اُن کی زبان نہیں سمجھتے اور نہ ہی اُن کی سوچ کی گہرائی تک جا پاتے ہیں۔انسان انسان کے ظاہر سے نتائج اخذ کرتا ہے۔دیکھنے والے دیکھتے کہ وہ لڑکھڑاتے قدموں سے جھک تو جاتےلیکن تقدیر سےراضی نہ ہوتے۔بظاہر یہ ناشکری لگتی لیکن غور کرنے والے جانتے تھے وہ انسان تھے فرشتہ نہیں۔
اُن کا رب سے تعلق آقا اور غلام کا نہ تھا۔وہ اگر ایک وفا دار خادم کی طرح رب کا کہا دل وجان سے تسلیم کرتے تو اُس دوست کی طرح جھگڑتے بھی تھے جسے اپنے دوست پر مان ہو کہ وہ اس سے کبھی خفا نہیں ہو گا اور نہ ہی ساتھ چھوڑے گا۔ دیکھتی آنکھوں نے ایسا ہی کچھ دیکھا،رب نے اُن کا مان اس طور رکھا کہ وہ صحت مند زندگی میں اگر خلقت کے سامنے سر اٹھا کر چلے تو آخری وقت کے کمزور لمحوں میں جسمانی طور پر کسی ایک انسان کا احسان اٹھانے سے بھی دور رہے خواہ وہ اُن کی اولاد ہی کیوں نہ ہو۔ برداشت کی حد کو چھوتے ہوئے مضبوط اعصاب نے تو آخری لمحوں تک ساتھ دیا لیکن دل کی دھڑکن خسارۂ زندگی کے پےدرپے ہونے والے خودکٗش حملوں کا بوجھ نہ سہار سکی اور خاموشی سے ہار مان لی۔ رب نے زندگی کے آخری چند چھ روز میں عجیب بےنیازی کی صفت بھی عطا کی کہ اپنی بسائی گئی جنت چھوڑنے کا ذرہ برابر ملال نہ تھا۔
حرفِ آخر
ہم انسانوں کا بھی عجیب المیہ ہے کہ ہمیں اپنے ساتھ سانس لیتا جیتا جاگتا انسان نظر نہیں آتا اور جب وہ نظر سے اوجھل ہو جاتا ہے تو اس کی یاد سوہانِ روح بن کر ہمارے اطراف گردش کرنے لگتی ہے۔
تقدیر کو مان کر جان کر صدقِ دل سے ایمان لا کر بھی اُن کی انا انہیں اُس کے سامنےسرجھکانے سے روکتی،تدبیر کے سامنے ساری زندگی قیام کی حالت میں رہے۔"بادِمخالف کے تند تھپیڑے" ہوں یا سب کچھ پل میں تہہ وبالا کر کے پیروں تلے زمین کھینچنے والے زلزلہ ہائے زندگی۔۔۔ذرا دیر کوقدم لڑکھڑاتے اور محنت مشقت سے تعمیر کیے گئے خواہشوں اور خوابوں کے محل لمحوں میں زمین بوس ہو جاتے۔۔۔ساری منصوبہ بندی تقدیر کے لکھے کے آگے پل میں فنا ہو جاتی یوں جیسے ریت پر لکھی تحریر ہوا کے جھکڑوں میں غائب ہو جائے یا نرم لہروں کی روانی ہمیشہ کے لیے سب نام ونشان مٹا ڈالے۔ ہار ماننا فطرت نہ تھی سو وہ آہنی عزم وحوصلے کے ساتھ نئے سرے سے تعمیرِنو شروع کر دیتے۔اسی گرنے سنبھلنے میں زندگی کا سفر جاری رہتا۔
وہ ہر روز اپنا کنواں آپ کھودتے اور اپنی پیاس بُجھانے کی لاحاصل سعی کرتے۔زندگی گزارنے کے اُن کے اپنے ہی پیمانے تھےوہ کسی کے قول کی پروا کیے بناء صرف اپنےعمل کو سامنے رکھتے یہاں تک کہ کبھی اُن کا قول ان کےعمل سے راہِ تصادم بھی اختیار کر لیتا۔وہ موقع شناس اور منہ پھٹ نہ تھے یہ خوبی اُن کی سب سے بڑی کمزوری بھی تھی اس کے ساتھ ساتھ وہ بڑے دل کے مالک نہ تھے کہ اپنوں کے رویے اور باتیں دل میں پھانس کی طرح چُبھ جاتیں تو ٹیسوں سے زخم تازہ رہتے۔کسی چہرے کے پیچھے اصل چہرہ نظر آ جائے تو اُس سے سمجھوتہ کرنا دُنیا کا تکلیف دہ سبق ہے۔لوگوں کے میلے رویوں کا دکھ اُن کے اجلے لباس کی چمک ماند کر دیتا۔ رشتوں کے حوالے سے اُن کا بس ایک ہی شکوہ رہا کہ قریب رہنے والے اُن کی زبان نہیں سمجھتے اور نہ ہی اُن کی سوچ کی گہرائی تک جا پاتے ہیں۔انسان انسان کے ظاہر سے نتائج اخذ کرتا ہے۔دیکھنے والے دیکھتے کہ وہ لڑکھڑاتے قدموں سے جھک تو جاتےلیکن تقدیر سےراضی نہ ہوتے۔بظاہر یہ ناشکری لگتی لیکن غور کرنے والے جانتے تھے وہ انسان تھے فرشتہ نہیں۔
اُن کا رب سے تعلق آقا اور غلام کا نہ تھا۔وہ اگر ایک وفا دار خادم کی طرح رب کا کہا دل وجان سے تسلیم کرتے تو اُس دوست کی طرح جھگڑتے بھی تھے جسے اپنے دوست پر مان ہو کہ وہ اس سے کبھی خفا نہیں ہو گا اور نہ ہی ساتھ چھوڑے گا۔ دیکھتی آنکھوں نے ایسا ہی کچھ دیکھا،رب نے اُن کا مان اس طور رکھا کہ وہ صحت مند زندگی میں اگر خلقت کے سامنے سر اٹھا کر چلے تو آخری وقت کے کمزور لمحوں میں جسمانی طور پر کسی ایک انسان کا احسان اٹھانے سے بھی دور رہے خواہ وہ اُن کی اولاد ہی کیوں نہ ہو۔ برداشت کی حد کو چھوتے ہوئے مضبوط اعصاب نے تو آخری لمحوں تک ساتھ دیا لیکن دل کی دھڑکن خسارۂ زندگی کے پےدرپے ہونے والے خودکٗش حملوں کا بوجھ نہ سہار سکی اور خاموشی سے ہار مان لی۔ رب نے زندگی کے آخری چند چھ روز میں عجیب بےنیازی کی صفت بھی عطا کی کہ اپنی بسائی گئی جنت چھوڑنے کا ذرہ برابر ملال نہ تھا۔
حرفِ آخر
ہم انسانوں کا بھی عجیب المیہ ہے کہ ہمیں اپنے ساتھ سانس لیتا جیتا جاگتا انسان نظر نہیں آتا اور جب وہ نظر سے اوجھل ہو جاتا ہے تو اس کی یاد سوہانِ روح بن کر ہمارے اطراف گردش کرنے لگتی ہے۔
Roz o shab ke meley mai gaflaton k marey log
جواب دیںحذف کریںbas ye he samajtey hai
ham ney jis ko dafnaya
bas
us he ko marna tha