جمعرات, جنوری 31, 2013

" کرنیں (1)۔۔۔ محبت "

٭محبت فاضل پہیہ نہیں کہ جب ٹائر پنکچر ہوا استعمال کر لیا۔۔۔محبت گاڑی کے پہئیوں پر لگا وہ وہیل کپ ہے جو نہ بھی ہو تو گاڑی کی رفتارپرکوئی فرق نہیں پڑتالیکن گاڑی مکمل ہو کر بھی ادھوری دکھائی دیتی ہے۔
٭محبت کمبخت نہیں ہوتی۔۔۔"کمبخت"وہ ہوتا ہے جس کا بخت اسے محبت کے اسرارورموز سے آشنا نہ کرے۔
٭محبت کوئی اختیار نہ رکھتے ہوئے اپنا اختیار چھوڑ دینے کا نام نہیں۔ بلکہ اختیار کی طاقت مل جانے کے بعد اپنی رضا سے سب کچھ بانٹ دینے کا نام ہے۔محبت بانٹنا بغیر کسی غرض کےہرایک کا ظرف نہیں۔
٭محبت ساتھ نہیں حوصلہ دیتی ہے۔ ہرانسان اکیلا آتا ہےاور اکیلا ہی چلا جاتا ہے۔
"محبت صرف دینے کا نام ہے۔۔۔ہم نہیں جانتے پانا کیا ہے"
وصال ِیاروہ لمحہ ہے جس کا صدیوں سے انتظارہوتا ہے پرجب آ جائےتوگرفت کا ایک پل صدیوں کا قرض چکا دیتا ہے۔
٭محبت زندگی کے پلیٹ فارم پر آنے والی وہ گاڑی ہے جس کے آنے کا ذرا برابر پتہ نہیں چلتا۔ یہ خوشبو کی طرح دھیرے دھیرے مشام ِجاں پر اترتی ہے۔۔۔ذہن وجسم پر برسوں سے جمی دھند صاف کر کے 'طوفان میل' کی طرح زن سے گزر جاتی ہے۔
٭محبت زندگی کے ساحل پر بنایا جانے والا وہ ریت کا گھروندا ہے کہ قدم جس کی نرماہٹ اور ٹھنڈک میں دھنسے جاتے ہیں۔۔۔ روح میں سکون اترتا چلا جاتا ہے۔۔۔ کہ یکدم کسی بھی لمحے آگہی کے سورج کی تپش بڑھ جاتی ہے یا وقت کی ظالم لہر ایک پل میں سب تہس نہس کر دیتی ہے۔ لیکن طمانیت اور لذت کا احساس ہر خلش ہر کسک پر ہمیشہ کے لیے حاوی رہتا ہے۔
٭محبت چاہے روح کی ہو یا جسم کی ہمیشہ سے لمس کی طلب گار رہی ہے۔جسم کی محبت جسم کا لمس چاہتی ہے اور روح کی محبت آنکھ کے لمس کا یقین۔ آنکھ جسم انسانی کا وہ خاص جزو ہے جو ہر احساس کو لمحوں میں جذب کر کے رہتی عمر تک یاد کی صورت آنکھ کے پردے پرمحفوظ کر لیتا ہے۔
٭ محبت وہ ہے جو محبوب کو چھونے سے زیادہ محسوس کرنے سے محبوب کو اپنی نگاہ میں معتبر بنا دیتی ہے۔چھونے کی خواہش سے انکار نہیں کہ یہ انسان کی فطرت اور جبلت میں شامل ہے اور خانہ کعبہ رب کی طرف سے اس کی کھلی دلیل اور واضح ثبوت ہے۔اب سوال یہ کہ اہم کیا ہے"چھونا یا دیکھنا تو آنکھ کا لمس اہم ہے یقین کے لیے اور "چھونے کی خواہش پھر ہمیشہ کے لیے ساتھ رکھنے ساتھ رہنے کی ہوس میں بدلتے دیر نہیں لگاتی۔
جسم کی بھوک مٹانے والے شانت تو کردیتے ہیں لیکن طلب بڑھا بھی دیتے ہیں ۔ ساتھ دے نہیں سکتےاورساتھ رہتے بھی نہیں ۔ سارا رس نچوڑ لیتے ہیں اورسیری کی کیفیت بھی پیدا نہیں ہونے دیتے۔جسم کی پیاس رُک جائے تو جان لو قرارآگیا لیکن اگر بھٹکتی رہے تو ہوس بن جاتی ہے۔ خیال کی بھوک اس جسم کی روح کی طرح ہوتی ہے جو ٹھہر جائے تو انسان اس روح کےجسم کا بھی تمنائی ہو جاتا ہے۔ اگر جسم مل بھی جائے تو روح کبھی نہیں ملتی ۔ روح کی زندگی بےقراری میں ہے، سفر میں ہے۔ جو اپنے مالک سے مل کر ہی قرار پاتی ہے۔
بھوک اور محبت ایک دوسرے کی ضد ہیں۔بھوک محبت کو کھا جاتی ہے بظاہر انسان بھوک مٹا کر بڑا شانت دکھتا ہے درحقیقت اُس کی ہوس اور پیاس مزید بڑھ چُکی ہوتی ہے۔بھوک محبوب کو پا لینے کے بعد اُس کو اپنی ملکیت اپنی بڑائی سمجھنے کا نام ہےجبکہ محبت بھوک کو برداشت سکھاتی ہے۔۔۔ محبت اپنی پیاس بُجھانے سے پہلے دوسرے کی پیاس بُجھاتی ہے۔
محبت خود بھوکا رہنے اور دوسرے کو سَیر کر دینے کا نام ہے۔
٭محبت ایک عمل ہے جو وصال سے شروع ہو کروصال پرختم ہوتاہے۔۔۔"روح کا جسم سے ملاپ پھر جسم کا روح سے اور پھر روح کا روح سے"لیکن ہم وصال کے بعد فراق چاہتے ہیں تو پھر محبت کی تکمیل کیونکرہو سکتی ہے۔" محبت کی تکمیل صرف لمس کی گواہی چاہتی ہے"۔خیال کی بھوک خوشبو کی طرح سفر میں رہتی ہے پر یہ وہ سفر ہے جو لاحاصل کبھی نہیں ہوتا اس سفر میں لذتیں ہی لذتیں ہیں۔ہر گاہ پرہمسفر ذرا دیر کو ملتے ہیں،ٹھنڈی چھاؤں کی طرح تازہ دم کرتے ہیں اور پھر نئی منزلوں کو روانہ کر دیتےہیں۔ ۔خیال کی بھوک لمس کی چاہ میں بےقرار رہتی ہے۔اس کو ذرا سی بھی جھری مل جائےتو اپنا راستہ آپ تلاش کر لیتی ہے۔یہ نہ لینے والے پر بوجھ بنتی ہے اورنہ دینے والا بےسروسامان رہ جاتا ہے۔
زندگی میں کچھ لوگ بنا کسی ارادے کسی چاہ کے بس اچانک بڑی خاموشی سے ہماری روح میں جذب ہوجاتے ہیں، سائے کی ٭طرح ہمارے ساتھ تو رہتے ہیں لیکن جہاں ہمارے جسمانی رشتوں سے ذرا دور رہتے ہیں۔ وہیں ہم بھی اپنی ذات کے دائرے میں ان کی موجودگی کا جواز ڈھونڈتے رہ جاتے ہیں۔کیوں نہ ہم سب اگر مگر چھوڑ دیں اور بس یہ کہیں کہ "وہ ہمارے ہیں اور ہم ان کے" درمیان میں کچھ نہیں نہ صلہ ،نہ جفا ،نہ وفا۔ صرف احساس ہے ساتھ کا اور خیال ہے چاہ کا۔
٭بھوک مٹتی جائے تو طلب بڑھ جاتی ہے۔خواہش چاہ بن جائے تو خواہش پوری بھی ہو جاتی ہے لیکن چاہ کبھی نہیں ملتی۔
٭چاہ،محبت اورعشق جب تک قول سے نکل کرعمل کی بھٹی میں نہ پکے کبھی کندن نہیں بنتا۔

بدھ, جنوری 30, 2013

" قدر کرو "

" راضی با رضا "
وقت کی قدر کرو وقت مل جائے گا۔
راستے کی قدر کرو راستہ کُھل جائے گا۔ 
منزل سے محبت کرو منزل قریب آجائے گی۔
اثاثوں کی حفاظت کرو ،عزت مل جائے گی۔
اللہ سے راضی رہو اللہ مل جائے گا۔
زندگی کی قدر کرو زندگی مل جائے گی۔
تقدیر پر شاکر رہو ،بخت نکھر جائے گا۔
ساتھی کی قدر کرو رہبر مل جائے گا۔
 دل کی آواز سنو،اپنے آپ پر یقین آجائے گا۔

منگل, جنوری 29, 2013

" دل "

سب سے سمجھ داردوست اگرہمارا دل ہے توسب سے ناسمجھ ساتھی بھی ہمارا دل ہی ہے۔ کسی بھی فعل کی اچھائی یا برائی کی پہچان ہمارے دل کی گواہی ہےکسی کام کےکرنے کے بعد ہم اپنے آپ کو مطمئن محسوس کریں تو وہ کام ہمارے حق میں اچھا ہو گا۔اس کےبرعکس اگر ہمیں اپنےآپ کووضاحتیں پیش کرنی پڑیں یا دلیلوں سے قائل کرنا پڑے تو یقیناً اس فعل سے کنارہ کشی اختیار کر لینی چاہیے بظاہر اُسے سرانجام دے کر ہمیں بڑی خوشی اور لذت حاصل ہو رہی ہو۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ ہمیں ایک ہی راستے پر چلنا ہے چاہے وہ کتنا ہی دُشوار گزار کیوں نہ دکھائی  دے۔ہمیں راہ میں دکھائی دینے والی پگڈنڈیوں کی طرف متوجہ نہیں ہونا جن پر کھلے رنگ رنگ کے خوشنما پھول اور بےپروا تتلیاں ہمارے دل کو اپنی طرف مائل کرتی ہیں۔ 
ہمارے پاس دل ہی تو ہوتا ہے ایک ایسا دوست جوہماری سب باتیں سُنتا ہے،ڈانٹ دو توچُپ کر کے ایک طرف بیٹھ جاتا ہے جھگڑا نہیں کرتا بس ایک روگ اپنے اندراُتارلیتا ہے۔ دل بہت ایمان دارہوتا ہے،خیانت نہیں کرتا بس جوحصّہ لکھ دیا گیا وہ مانگتا ہے اس سے زیادہ نہیں ۔
ہمارے دل کا نصف حصہ بخوبی جانتا ہےکہ کچھ خواہشات کبھی پایۂ تکمیل نہیں ہوں گی پر اس کے باوجود بھی دل کا دوسرا نصف کسی جادو یا معجزے کے انتظار میں رہتا ہے۔یہ توازن کا کھیل ہےجو رب نے دل کو عطا کیا اس کی بناوٹ میں اس کے کام میں اور اس کے "احساس" میں بھی۔ جیسے صاف اور گندا خون دل میں ساتھ ساتھ اپنے کام سر انجام دیتا ہے اسی طرح اچھی اور بری سوچ اور خواب اور حقیقت کے درمیان رسہ کشی بھی دل کی گاڑی کو رواں رکھنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ 


اتوار, جنوری 27, 2013

" کرنیں (1) "

"خاص وعام"

عام سے لوگ بھی خاص ہو سکتے ہیں خاص بننے کے لیے خاص ہونا شرط نہیں۔خاص وہ ہے جو عام ہو کر بھی خاص لگے۔جو خاص دکھتے ہیں وہ خاص نہیں ہوتے۔صرف نظر چاہیے خاص کی پہچان کے لیے اور یہ نظر عام نہیں ہوتی۔خاص کی پہچان بھی خاص ہی جانتا ہے ورنہ عام نظر میں خاص عام ہی دکھتا ہے۔خاص کی چاہ صرف خاص ہی کر سکتا ہے۔ہرانسان ہرایک کے لیے خاص نہیں ہوتا۔خاص وعام کی اِن بھول بھلیوں میں اپنا آپ تلاش کرتےکبھی بہت خاص بھی پل میں نگاہ سے اوجھل ہوجاتے ہیں تو کبھی بہت عام اپنا آپ منوانے کی سعی میں اُس مقام کو چھو جاتے ہیں جہاں کوئی خاص ہی پہنچ پاتا ہے۔
ہر انسان خاص ہے کہ اس جیسا کہیں بھی کوئی دوسرا نہیں۔اپنے شرف کی پہچان ہر انسان کو دوسرے سے جدا کرتی ہے۔
رب نے ذہنی اور جسمانی طور پر صحت مند انسان کو ایک جیسی صلاحیتیں عطا کی ہیں۔اب یہ وقت اور تقدیر کے فیصلے ہیں کہ کوئی کہاں تک اِن سے فیض اٹھا پاتا ہے۔
۔۔۔
:: ہر شخص اپنے اندر یہ خدائی چاہتا ہے کہ اُس کا اور صرف اُس کا طواف کیا جائے۔

::کچھ لوگ گھر کی طرح ہوتے ہیں دل بےاختیار اُن کی طرف سمٹنے کو بےچین رہتا ہے۔
::ہر جنس بےمول ہے یہ احساس ہے جو اُسے انمول بناتا ہے۔
:: ہم خوش فہمیوں کی جنت  میں رہتے ہیں اور غلط فہمی کے دوزخ میں زندگی گزار دیتے ہیں ۔
:: سہارا ضرورت بن جائے تو انسان ڈس ایبل ہو جاتا ہے۔
:: جان کسی چیز میں نہ ڈالو ور نہ جان نہیں نکلے گی ۔
:: جسے بےخبری کی زندگی عطا نہیں ہوئی اُسے بےخبری کی موت کیونکر آ سکتی ہے۔
:: جو اپنی حد نہیں جانتا وہ دوسرے کی حدود کیا پہچانے گا۔نشان منزل۔۔۔ انہی کا نصیب ہے جو اپنی حد پہچانتے ہوئے پرواز کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

 :: ہم ساری عمرجگہ کی تلاش میں رہتے ہیں حالانکہ جگہ تو ہمیں زندگی کے پہلے سانس سے آخری سانس کے بعد تک دُنیا میں مل ہی جاتی ہے ہماری ضرورت سپیس (کھلی فضا) ہے جسے ہم خود اپنے اندر تلاش کریں تو مل جائے گی ۔
:: انسان خواہ جتنا  مرضی بلند پرواز کر لے ، جانا اس نے زمین کے اندر ہی ہے ۔
:: قربانی کے جانور کی قسمت میں قربان ہونا لکھا ہے ۔
::لاعلمی کا احساس علم کی راہ کی پہلی سیڑھی ہےتو خود ساختہ علمیت کا فخر وتکبر بےعلمی کی کھائی کو جاتی ڈھلوان ہے۔
 :: بہت سے زخم ایسے ہیں یا ایسی جگہ لگتے ہیں کہ انسان مسیحا کو دکھانے کی ہمت پیدا نہیں کر پاتا پھر بھی مسیحا کی تلاش میں در در بھٹکتے ہیں۔۔۔ نہیں جان پاتے کہ ایک مسیحا ہے جو ہمارے بغیربتائے بغیر ہی درد کا درماں ہے۔۔۔ ہمارے ذمے پہلا قدم رکھنا ہے اور بس۔
 :: ہم سب فالٹ لائن پر ہیں۔۔۔ ہمارے اندربھی کئی فالٹ لائنز ہیں۔ ہماری کوئی بھی فالٹ لائن کسی وقت سب  تہس نہس کرسکتی ہے۔ اگر ہم اپنے اندر کی فالٹ لائن کو تقدیرکی فالٹ لائن پر آنے سے کسی طور بچانے کی کوشش کر لیں تو شاید وقت ہمیں سکون کی کچھ ساعتیں بخش دے۔
٭  ہماری ذات سے جُڑے ہمارے تمام کے تمام اثاثے   صرف اور صرف ہماری زندگی کی حد تک اور ہماری نگاہوں کے دائرے میں ہی قیمتی ہوتے ہیں۔ہمارےجانے کےبعد حسرت،بےبسی اور بےقدری کی تصویر بن کر   وقت  کی دھول میں  گم ہو جاتے ہیں۔

٭ ہمیں اپنے اثاثے ہر وقت ساتھ رکھنے چاہیں اب یہ ہم پرہے کہ کہاں تک ان کو ساتھ رکھ سکتے ہیں۔ جب سفر پرنکلو تو اثاثے لے کر سفرکرو،نہ جانے کس مقام پرکس چیز کی ضرورت پڑجائے، اپنی قیمتی چیزیں گاڑی میں نہیں گھر میں نہیں دل میں محفوظ کر لو۔ہاتھ میں جتنا سنبھال سکتے ہو سنبھال لو۔۔۔ کہ گھر سے نکل آئے تو واپسی کا رستہ نہ جانے کب ملے اور گاڑیاں تو چوری ہو جاتی ہیں۔ دل وہ بنک ہے جس کا لاکر صرف تمہاری ذات ہی کھول سکتی ہے۔اپنے دست وبازو پر بھروسہ رکھو اور ان کی حدود جان لو۔
٭اپنے نظریات ،اپنی نیت میں صاف وشفاف رہ کر ہی  ہم دُنیا کے بدبودار جوہڑ میں تازہ ہوا کو محسوس کر سکتےہیں چاہے وہ دُنیا کی نظر میں کتنے ہی آلودہ کیوں نہ ہوں - جس کو بدبو کا احساس ہو گا اُسے ہی تو بدبو آئے گی اور جو اپنے آپ کو پاکیزہ جان کر بدبو کا شور مچائے گا اُسے دُنیا کی ہر شے میں بدبو کا احساس ہو گا سوائے اپنی ذات کے۔

۔۔۔۔۔۔۔

٭ماں گلاب کے پھول کی مانند ہے۔ ان ہاتھوں کو بھی مہکا دیتا ہے جو اسے مسلتے ہیں۔

۔۔۔۔

٭ماں کے بغیر گھر قبرستان  ہےاوردھرتی ماں کے بغیر گھر بن توجاتےہیں پرپانی پر بنے ڈانواں ڈول یا پھرفلک بوس سکائی سکریپرزمٹی کے لمس سے ناآشنا۔
۔۔۔ 
٭ماں باپ تخت تو دے سکتے ہیں لیکن بخت نہیں۔
۔۔۔
٭زندگی کے کشکول میں کھوٹے سکے بھی نصیب سے ملتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔
٭ زندگی ایک نیلام گھر ہے۔۔۔ جس میں ہمیں قدم قدم پر سوالوں  کےجوابات دینا پڑتے ہیں۔۔۔ دُرست جواب پرانعام ملتے ہیں۔۔۔ غلط جواب سے ہمارے پوائنٹس منفی ہو جاتے ہیں۔ یہاں تک کےایک وقت آتا ہے کہ غلطی کی گُنجائش ختم ہوجاتی ہے۔اِسی وقت ہماری فہم وفراست کا اصل امتحان شروع ہوتا ہے۔ ہرقدم پھونک پھونک کررکھنا پڑتاہے۔۔اللہ ہرامتحان میں سُرخروکرے اورکچھ نہیں چاہیے۔
۔۔۔
٭ زندگی کی حقیقت ایک ایسےسیف میں بند ہے جسے کھولنے کے نمبرہم ساری زندگی گھماتے ہی رہتے ہیں لیکن درست 
ہندسے قسمت والوں سے ہی لگتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔
دنیاوی کامیابی ۔۔۔ وقتی کامیابی ہے اور اس کا حصول صرف وقت کی نبض تھام کر فیصلے کرنا ہے۔ آخروی کامیابی کا معیار یقیناً دوسرا ہے۔
۔۔۔۔۔
٭ کائنات کا سب سے بڑا سچ انسان کا اشرف المخلوقات ہونا ہے اور انسان کا سب سے بڑا شرف اپنے اس اعزاز کو پہچاننا ہے۔
۔۔۔۔۔
٭خاموشی میں عافیت ہے۔
۔۔۔۔۔
 ٭قناعت جو مل جائے اس پر راضی ہونے سے نہیں ۔ جب تک کہ جو نہیں ملا اُس پر راضی نہ ہوا جائے۔
۔۔۔۔۔
٭ مانگتے رہنے سے ہمیشہ نہیں ملتا ، چپ چاپ بیٹھ جاؤ لیکن مطمئن ہو کر تو جھولی خود بخود بھر جاتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔
 ٭سمجھنا اور بات ہے اختیار ہونا الگ بات۔ کبھی ہم سب سمجھتے ہیں لیکن عمل کا اختیار نہیں ہوتا۔۔۔اور کبھی اختیار رکھتے ہوئے بھی ہم کچھ سمجھ نہیں پاتے ۔
۔۔۔۔۔
٭ کسی تعلق سے اگر ہم کچھ حاصل نہ کر سکیں اُس کو رکھنا بےکار ہے۔ جب تک انسان اپنی محبتوں اپنی نفرتوں سے نہیں سیکھتا وہ کسی کو بھی مطمئن نہیں کر سکتا۔
۔۔۔۔۔
٭کبھی چاہ کی طلب ہوتی ہے اور کبھی طلب چاہ بن جاتی ہے۔
۔۔۔۔۔
٭بھوک مٹ جائے تو طلب بڑھ جاتی ہے۔
۔۔۔۔۔
٭ہم بےخبر لوگ ہیں نہیں جانتے کہ ایک عارضی دور سے گزر رہے ہیں۔
۔۔۔۔۔
٭ہر مرض کی دوا ہے۔ شرط صرف ایک کہ اس سے نجات کی خواہش بھی ہو۔
۔۔۔
٭جو شے جہاں ہے ہی نہیں وہاں اسے کھوجنا لاحاصل ہے ۔
۔۔۔
٭مایوسی خالی ہاتھ ہونے کا احساس ہی نہیں۔ خالی ہاتھ جانے کی چبھن کا نام ہے۔
۔۔۔۔

جمعرات, جنوری 24, 2013

" رنگ باتیں کریں "



"ہر انسان رنگیلا بھی ہے رنگساز بھی۔ چاہےتو رنگوں کی پچکاریاں اِدھراُدھر پھینک کررنگ بکھیردے اور نہ کر سکےتو کوئی ایک رنگ اوڑھ کر رنگیلا بن جائے"۔
ہمارے رشتے ہمارے تعلق زندگی کے بکھرے رنگ ہی توہیں۔رنگ وجود نہیں رکھتے، لمس نہیں رکھتے بس احساس دلاتے ہیں اپنی موجودگی کا اوریہ اتنا جامع اوربھرپور ہوتا ہے کہ وجود بھی معدوم ہو جاتا ہے۔ 
رشتے ہماری روح ہیں، روح کے بغیر جسم بےمعنی ہے۔اسی طرح رنگ تصویر کی جان ہیں۔رنگ کے بغیر تصویر نہیں  اور تصویر نہ ہو تو کہانی نہیں ۔تصویر ایک پلاٹ ہے  جس پر عمارت استوار ہوتی ہے،ایک فکر ہے جو نظریے کی تکمیل کرتی ہے۔رنگ نہ ہوں تولگتا ہے جیسے آسمان بنا بادل کے، اُداس،تنہا،بےکراں۔رنگ برسیں تو بادل یوں سمٹ سمٹ کر باتیں کرتے ہیں کہ دوریاں نزدیکیوں میں بدل جاتی ہیں اور کبھی جب بادل گھٹاؤں کا روپ دھارلیتے ہیں تورنگوں کی برسات یوں چھما چھم   برستی ہے کہ ہرطرف جل تھل ہوجاتا ہے۔یہ قدرت کی کاری گری ہے۔انسان بھی اپنی سعی میں اسی طور گرفتار ہے۔ایک رنگریزکی مشقّت ہے جو شب و روز جاری ہے۔آس پاس بکھرے رنگوں میں اپنے رنگ کی کھوج ہے،رنگ سے رنگ ملانے کی کوشش ہے۔
انسان نادان ہےنہیں جانتا کہ کچھ رنگ کچے ہوتے ہیں،کبھی بدل بھی جاتے ہیں۔
کچھ بھٹی میں پکنے کے بعد وہ نہیں رہتےاپنا اصل دکھا دیتے ہیں۔

کوئی اتنے کچے ہوتے ہیں کہ ایک ہی دھلائی میں پانی پربنا نقش بن کرنظروں سے اوجھل ہو جاتے ہیں۔
کبھی کچے تو ہوتے ہیں لیکن اپنا اثر دوسرے رنگوں پر یوں چھوڑ جاتے ہیں کہ خود تو جان سے جاتے ہیں اور اُن کو بھی کسی قابل نہیں چھوڑتے۔
کچھ رنگ کبھی پکے ثابت نہیں ہوتے لیکن وہ اتنے پُرکشش دکھتے ہیں کہ انسان  اپنی چولی بدل کر  بےاختیارانہیں اپنانے کوتیار ہوجاتا ہے۔گرچہ اس کی قیمت چُکانا پڑتی ہے کہ وہ اپنا خراج مانگتے ہیں۔
زندگی کے کینوس پر بنتی بگڑتی تجریدی تصویر کے رنگوں کی اصلیت آزمائشوں کی بارش میں کُھل کر سامنے آتی ہے۔وقت کی گرد میں اَٹ کر جب اِن کی اصل سامنے آتی ہے تو پھرہمارے پاس حیرانی اور پشیمانی کے سِوا کچھ باقی نہیں بچتا۔ 
اس لیے زندگی کے کینوس پرجورنگ دل کوبھا جائے خاموشی سے اپنا لو۔۔۔جتنی اوقات ہے اتنی قیمت ادا کرو۔ وقت خود ہی اُن کے اصلی نقلی ہونے کا تعیّن کردے گا۔
ہماری زندگی میں کبھی ایسے کچے رنگ بھی شامل ہو جاتے ہیں جو سالوں کی بارشوں کے بعد بھی کچے ہی رہتے ہیں لیکن اپنی پہچان،اپنا مقام رکھتے ہیں ۔ اُن میں جو نا آسودگی کی خوشبو اُترتی ہے وہ جسم و جان کی تسکین کے لیے پکّے رنگوں کی بھرپور خوشبو سے زیادہ پائیدار ہوتی ہے۔
یہ کچے رنگ ہی ہیں جو زندگی کی قوسِ قزح بناتےہیں،اگروہ آخری اورمکمل رنگ کی تکمیل کے راستے پرہو تو یہی اصل کمائی 

 ہے۔

آخری بات
زندگی اپنے سامنے جس پل جس رنگ میں اترے اسے کہہ دو۔ زندگی کی تلخی جذب ہو جائے تو ناسور بن جایا کرتی ہے۔
 زندگی پڑھتے جاؤ ہر صفحے پر نیا نقش ملتا ہے اور سب سے خاص اپنا وہ رنگ ہےجس سے ہم خود بھی واقف نہیں ہوتے۔
لفظ لکھنا بھی رنگ سے رنگ ملانا ہے،ایک رنگریز کی طرح ۔ کبھی کہیں سے کوئی رنگ ،کبھی بھولا بسرا ،کبھی بالکل انوکھا،ان 
چھوا ،کبھی خالص اپنا رنگ۔کبھی کوئی ایسا جو اپنا تو نہیں لیکن  اپنا اپنا لگے،کبھی ایسا جو ہر رنگ میں رنگ جائے۔اور سب سے بڑھ کر اُس آخری اور مکمل رنگ کی تلاش جو ہر رنگ میں جان ڈال دے۔

بدھ, جنوری 23, 2013

" ماں کی یاد "

 
ہم کتنےہی سمجھ دارکیوں نہ بن جائیں ،انسانی نفسیات اور ذاتی نفسیات کی کتنی ہی خود ساختہ کتابیں کیوں نہ پڑھ لیں وقت وہ اُستاد ہے جو ہمیں ایسے ایسے نُکات سمجھاتا ہے جو اگرچہ سامنے ہی ہوتے ہیں لیکن ہم اُنہیں کسی اور نظر سے دیکھ کر گُزر جاتے ہیں۔
ماں کے جانے کے بعد آنسو کیوں خشک ہو گئے؟۔ یہ اب جانا ہے۔ 'ماں' کتنی ہی مجبور،لاچار اور بےبس کیوں نہ ہو،ہمارے آنسو بھی نہ پونچھ سکتی ہو لیکن کم از کم ہمارے ساتھ مل کرآنسو تو بہا سکتی ہے-آنسو کا رشتہ جوڑ کر ہم تو شانت ہو جاتے ہیں یہ جانے بغیر کہ ہماری آنکھ کا آنسو ماں کے دل کو چھید ڈالتا ہے اورماں اپنی خلش اپنا درد فراموش کر کے اپنے آنسو اپنے دامن میں سمیٹ کر ہمیں سہارا دیتی ہے اور ہم نادان یہ سمجھتے ہیں کہ ماں کو احساس ہی نہیں ہماری اذیت کا ۔ یہ تو کہیں بعد میں پتہ چلتا ہے کہ ماں نے اُن آنسوؤں کو کس طور اپنے اندر جذب کر لیا تھا اب کسی کے سامنے آنسو بہانا محض جگ ہنسائی ہے اور کچھ بھی تو نہیں۔ ماں کے آنسو  ہر کسی کو نظر نہیں آتے کیونکہ وہ 
شور نہیں کرتےاندر کی طرف بہتے ہیں۔۔۔روح میں جذب ہو کر کبھی خدمت،کبھی محنت،کبھی چاہت، کبھی بےنیازی تو کبھی لفظ کی صورت اپنا عکس آئینۂ دُنیا میں چھوڑ جاتے ہیں۔اب دیکھنے والے ،برتنے والے کہاں تک ان موتیوں کی قدر کرتے ہیں یہ ان کا ظرف اور ان کا مقدر ہے۔
ماں کے سامنےسوائے ماں کے سب ظاہری رشتے بہت اہم لگتے ہیں۔۔۔اس لیے کہ ماں اپنی اہمیت کبھی ظاہر نہیں کرتی اور ماں کے بعد سب رشتے صرف روٹین ہی رہ جاتے ہیں اہم یا غیر اہم بھی نہیں۔۔۔اب بن کہے ہمیں ہماری تھکن کااحساس دلانے والا کوئی نہیں ہوتا۔کوئی کاندھا نہیں ملتا،سننے والے چاہنے والےحتیٰ کے منانے والے بھی بہت مل جاتے ہیں لیکن !!! لڑنے والا کوئی نہیں ملتا۔۔۔جان بوجھ کر ہارنے والا کوئی نہیں ملتا۔یوں جانو کہ ایک بےضرر باکسنگ پیڈ چلا جاتا ہے جس پر مکے مار کر ہم اپنی بھڑاس نکال سکتے تھے یا نکالتے بھی تھے۔۔۔ نا چاہتے ہوئے بھی۔
ماں کے رّتبے کا اس سے بڑا ثبوت کیا ہے!دُنیا میں پہلا سانس ماں کے وسیلے سے ملتا ہے۔۔۔اگر اپنی آخری سانس تک ماں کو یاد نہیں رکھا توایسی زندگی جانور سے بھی بدتر ہے۔یاد یہ نہیں کہ ٹھنڈی آہیں بھرتے۔۔۔غم زدہ رہتے ہوئے۔۔۔ ماں کو روتے رہیں۔ بلکہ ماں کی یاد کو ایک ایسا مضبوط ساتھ بنائیں جوزندگی میں ہرقدم پرسراُٹھا کرچلنے کا حوصلہ دے۔
اس میں شک نہیں کہ ماں کے بغیر  زندگی کے کینوس پر رنگ پھیکے پڑ جاتے ہیں بلکہ رنگ  اُڑ ہی جاتے ہیں۔ماں "اوزون" کی وہ پرت ہے جو ہمیں زمانے کے سرد وگرم سے خبردارکرتی رہتی ہے۔ لیکن ہم اپنی قابلیت،اپنی علمیّت کے بَل پر نِت نئے تجربات میں مصروف رہتے ہیں۔۔۔اس بات سے بےخبر کہ سرپر ردا کے بغیر کُھلے آسمان تلے ہم کیوں کرمحفوظ رہ سکتے ہیں۔ وہ 'اوزون' جو  ممکن حد تک ہماری حفاظت کرتا ہے۔پرکب تک۔ ہمارے تجربات کے بدبو دار مادے اُس میں شگاف ڈالنے میں لگے رہتے ہیں اورجب وقت نکل جاتا ہے توساری عمر تپش میں چلنا ہی مقدر ٹھہرتا ہے۔
ماں"متاعِ جاں" ہے۔اورجب سے قیمتی شے ہی چلی جائے تو پھرکیا فائدہ کیا نقصان۔ تخلیق کے پہلے لمس، پہلے سانس  سے  ماں کی کوکھ  ہی بچے کی دنیا اور زندگی  ہے۔ یقین   کی  چیخ سے کرب سے آشنائی تک ساری عمر وہ ماں کی کوکھ کی خوشبو محسوس کرتا ہے۔ ماں کی کوکھ زندگی اورماں کا وجود دُنیا ہے۔ ماں نہ رہے توزندگی بےمعنی اور وجود نہ ہو تو بھری دنیا میں اپنا وجود خالی ہو جاتا ہے ۔ماں کےبغیر زندگی کسی اورسمت نکل جاتی ہے اور وجود کےبغیر دُنیا اجنبی سی لگنے لگتی ہے اور بغیر چھت کے ایک چاردیواری  رہ جاتی ہے۔ ہر چہرے میں اُس عکس کی تلاش ہوتی ہے۔ ہر لمس اُس پھوار کی چاہ کرتا ہے۔دُنیا بہت چھوٹی اورراستہ طویل تر ہو جاتا ہے۔راستہ ہمدم کے بغیر نہیں کٹتا اورجب ہمدم نہ رہے تو اپنا وجود کٹنے لگتا ہے۔ اُسے بکھرنے سے بچانے کے لیے نئے سرے سے سفر شروع کرنا پڑتا ہے۔ قدم قدم پر راہ نما تو ملتے ہیں لیکن وہ کبھی نہیں ملتا جو چلا گیا ۔ کبھی یہ راہ برخود کسی قطب نما کی تلاش میں ہوتے ہیں تو کبھی کوئی قطب نما خود ہی تلاش کے سفر میں ساتھ بن جاتا ہے۔ راز کی بات یہ ہے کہ جو ہمارے اندر ہو یا ہم جس ذات کا وجود ہیں وہ کبھی کہیں نہیں جاتا،نگاہوں سے اوجھل تو ہوتا ہے پرہمارے اندر اُترجاتا ہے۔ ہمارے وجود کے قبرستان میں ایک چھوٹی سی قبر اُس کی یاد کی ضرور بن جاتی ہے۔قبرسے پھوٹتی روشنی جب جگ کو منورکرتی ہے تو پھر قبر قبر نہیں رہتی مزار بن جایا کرتے ہیں۔مزار پر عُرس ہوتے ہیں، چراغاں ہوتا ہے،ہجوم ہوتے ہیں، میلے لگتے ہیں،قوالیاں ہوتی ہیں، مرادیں،منّتیں مانگی جاتی ہیں،چڑھاوے ہوتے ہیں۔رفتہ رفتہ یقین اتنا پختہ ہو جاتا ہے کہ مرادیں بر آتی ہیں،مانگنے والے تھک جاتے ہیں،عطا کرنے والا دیتے نہیں تھکتا۔
ماں اور زندگی درحقیقت ایک ہی سکّے کے دو رُخ ہیں۔ زندگی بس ایک بار ملتی ہے اورکبھی نہ ملنے کے لیے بظاہر ختم ہو جاتی ہے لیکن کسی اور انداز میں جاری رہتی ہے۔ماں صرف ایک بار ملتی ہے لیکن اُس کا احساس اُس کا ساتھ اپنے اندرسمو لیا جائے  توآخری سانس تک اُس کی مہک محسوس کی جا سکتی ہے۔
کسی اپنےکے جانے سے زندگی ختم نہیں ہوتی لیکن ایک نئی زندگی ضرور شروع ہوجاتی ہے"۔"

" محبت اور معراج "

" محبت اور برداشت "
محبت کی معراج وہ ہے جب عاشق محبوب بن جاتا ہےاور محبوب عاشق۔
 یہ سچ ہے جو جہاں ہے اُس نے ہمیشہ وہاں رہنا ہے۔ یہ تقدیر ہے۔۔۔ لوحِ محفوظ پررقم ہے لیکن وضاحت یوں جب محبوب عاشق کی جگہ پرآ کراُس کے احساسات سمجھنے لگ جائے اورعاشق محبوب کی جگہ توجان لو اب منزل قریب آرہی ہے۔ راستے کی رُکاوٹ کی فکر نہ کرو کہ واپس ہی پلٹ جاؤ۔اگر رُکاوٹ دور نہیں کرسکتے تو ٹھہر جاؤ وقت خود ہی راستے صاف کر دے گا۔
 انتظار زندگی ہے۔۔۔۔ برداشت محبت کی روح ہے۔۔۔اس لیے محبت چاہتے ہو تو روح سے محبت کرو۔۔۔ زندگی چاہتے ہو تو انتظار کرو۔ عمر گُزر جاتی ہے انتظار ختم نہیں ہوتا۔
برداشت کی حد پار کرتے کرتے انسان کا وجود ریزہ ریزہ ہو جاتا ہے لیکن حاصل کچھ بھی نہیں ہوتا۔ برداشت کی بھی ایک حد ہوتی ہے جہاں یہ ختم ہوتی ہے تو وہاں ایک نئی حد شروع ہو جاتی ہے۔ انسانی ذہن ہراول دستہ ہے۔جیسے جیسے اپنے خیال میں یہ پسپائی کی طرف جاتا ہے جسمِ انسانی بےبس ہوتاچلا جاتا ہے۔۔۔ ذہن کبھی شکست قبول نہیں کرتا وہ بقا کے لیے کوئی نہ کوئی راستہ نکال لیتا ہے۔ کب تک ؟ کسی نہ کسی درز سے جبر کی لُو جسم کو نڈھال کرنے لگتی ہے۔غرض کہ اُٹھنے اور گرنے کا یہ کھیل آخری سانس تک جاری رہتا ہے۔ صرف اس دنیا کو سامنے رکھو تو یہ سب منطقی اور ٹھیک دکھائی دے گا۔ واقعی ہماری زندگی میں یہی کچھ ہوتا ہے۔ لیکن اس خیال کو اپنے اوپرحاوی نہ ہونے دینا۔
 جب زندگی کو ایک بڑے دائرے بڑے کینوس پردیکھو گے تو یہ محرومی یہ بدنصیبی محض ایک ذرّے سےبھی کمتردکھائی دے گی۔اپنے مالک کے کرم کو محسوس کرو تودکھائی دے گا کہ جب ہرعمل کا بدلہ لکھ دیا گیا۔۔۔ ہر درد کی دوا ہے تومالک تنہا کیسےچھوڑ سکتا ہے پھراپنی جلد بازی اورنظر کادھوکا
 دکھائی دے گا کہ جورُکاوٹ تھی وہ تو درحقیقت سیڑھی تھی۔۔۔جودیوار تھی اُس میں دروازہ بھی تھا۔۔۔ جو پتھر تھا اُس میں سے راستہ بنایا جا سکتا تھا۔۔۔ برہنہ پا تھے لیکن پاؤں سلامت توتھے۔ سفردشوارتھا لیکن شوقِ سفرباقی تھا۔۔۔دیدارسےمحروم تھے پرلذتِ دیدارکی آس تو تھی۔ یوں قرارملتا جائےگا، سکون آتا جائے گا، سفر کٹتا جائے گا۔سفرختم ہونے سے پہلے کچھ گھڑیاں سکون کی مل جائیں تو کامیابی سے پہلے کامیابی کی جھلک سفرکی آخری منزلوں آخری پل صراط کو آسان بنا دیتی ہے۔

" پہلی بار،پہلا احساس"

"ایک بار"
زندگی میں ہمیں ہرچیز،ہرلمحہ،ہرخوشی،ہرجذبہ،ہرلمس،ہر احساس،ہرلذّت صرف ایک بارعطا ہوتا ہےاوریہی پہلی بارہوتا ہے۔ بعد میں انسان اِس بارے میں سوچ کراُسے محسوس کرنےاپنی گرفت میں رکھنے اوردوبارہ پانے کے لیے پھراُس کے حصول کے لیےکوشاں ہوتا ہے یوں ایک چین ری ایکشن شروع ہو جا تا ہے،لیکن وہ پہلی باروالامزہ پھرکبھی نہیں ملتا۔ نارسائی کا کرب،ٹھکرائے جانے کی کسک،حقارت بھرا رویہ حاکمانہ اندازِفکر یہ سب بھی پہلی بار دل پر یوں نقش ہوجاتے ہیں بعد میں کئیر(خیال رکھنا) اور پروٹیکشن (تحفظ)کی بارش میں بھیگ کربھی یہ انمنٹ داغ کبھی صاف نہیں ہوسکتے۔
اگر چاہتے ہوکہ کاش کا لفظ کبھی آپ کی زندگی میں نہ آئے  توکسی بھی کام کے لیے جوخیال پہلے ذہن میں آئےاُس پرعمل کر لودوسرے الفاظ میں دل جس طرف مائل ہواُس طرف رُجوع کرنا چاہیےشرط صرف ایک ہے دماغ سے مشورہ ضرورکرو۔پہلی نظر،پہلا خیال،پہلا احساس،پہلی سوچ قابلِ معافی ہے قابلِ گرفت نہیں ۔ ہوتا یہ ہے ہم ایک خیال کے بعد اس کے حصار سے نکل نہیں پاتے وہیں اٹک کررہ جاتے ہیں سمجھ دارہوتے ہیں تو اپنی عقل اپنے فہم پرلعنت بھیجتے ہیں دل ہی دل میں نادم ہوتے ہیں، معافی مانگتے ہیں، شیطانی فریب اورنہ جانے کیا کیا تاویلیں تراشتے ہیں- زیادہ عقل مند ہوں تو اللہ سےکہتے ہیں کہ تو نے یہ خیال بھیجا ہےاب تو ہی جانے،ہم تقدیر کے غلام ہیں جو ہمارے لیےلکھ دیا گیا،ہم نے وہی کرنا ہے،ہمارا تو کچھ ہے ہی نہیں اورزیادہ گہرائی میں جائیں تو دُنیا داری چھوڑ کراللہ سے لو لگاتے ہیں باقاعدہ حوالے بھی ہوتے ہیں کہ یہ سب خرافات ہے، دھوکا ہے راہ سے بھٹکانے کے لوازمات ہیں،ہمارا اِن سے کیا لینا دینا۔ یہ تو ناعاقبت اندیش لوگوں کے کام ہیں جو اپنا بھلا بھی نہیں جانتے کہ یہ سب کھیل تماشا ہے دنیا فانی ہے۔ یہ سب پہلے خیال کی کرامات ہیں جس سے آگے ہم کبھی بڑھ ہی نہیں سکے۔ اصل بات یہ ہے پہلے خیال کے بعد جو دوسراخیال آئے اُس پردھیان دو۔اگراُس میں کوئی ابہام نہیں، واضح اشارے ہیں تو پھر آگے بڑھو،کرنے کا کام یہ ہے جو پہلا خیال ہواُس کا ایک بچے کی طرح خیال کرواُس کے گلے میں بانہیں ڈالو دھیان سے اس کی بات سنو وہ بہل جائے گا ۔ یاد رکھو اگراُسے ڈانٹ ڈپٹ کربھگا دیا تو وہ ایک آسیب کی طرح جان سے چمٹ جائے گا ۔ اب یہ قسمت کا کھیل ہے کہ وہ آسیب ہماری زندگی سنوارتا ہے یا بگاڑتا ہے کہ آسیب اچھے بھی ہوتے ہیں اور بُرے بھی ۔ لیکن آسیب بذاتِ خود ہمیں اصل زندگی اپنے مقصدِ حیات سے دُورضرورکر دیتے ہیں کہ ہم اپنے مدارکو چھوڑ کراُن کے مدار میں گردش کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں ۔

" متاعِ جاں "

" متاعِ جاں "
عورت تمہارے لیےموم کی طرح ہے۔۔۔بےحس،بے چہرہ، بےسمت۔اگراس کا سرا تلاش کرلو۔۔۔اُس میں اپنی قربت کی حدّت پیدا کردو۔۔۔تو وہ اپنے وجود کوفنا کر کے تمہیں روشن کر دے گی اور خود امر ہو جائے گی۔
اپنی زندگی میں آنے والی ہرعورت کی قدر کرو۔اُس کا احترام کرو۔۔۔اس کو پہچانو۔۔۔ وہ تمہارے لیے سانپ بھی ہوسکتی ہےاورسیڑھی بھی۔اگرسانپ لگے تو جان لو کہ وہ ایسا زہر ہے جو تریاق بھی ہے،اگر تم اپنے اندر برداشت کا جوہر پیدا کر لو۔۔۔ورنہ وقت کے فیصلے کا انتظار کرو یا پھر زہر کے لیے  زہر ہی بن جاؤ اور چپ چاپ اپنی راہ پر چلتے جاؤ۔
عورت اگر آسمان کی رفعتوں کی سیر کرا سکتی ہے تو ذلّت کی پستیوں میں بھی دھکیل دیتی ہے۔ثبوت چاہتے ہوتو اپنے پیارے نبی(صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم) کو دیکھ لو، اُن سے بڑھ کر کون آئیڈیل ہے۔ اُن کی ساتھی نے سب سے پہلے سہارا دیا، تصدیق کی۔سفرِ معراج کے موقع پراپنی بہن کے گھر تشریف فرما تھے۔اور بیٹی سےبڑھ کر کس کی مثال دی جائے،اپنےآخری لمحات میں آپ ﷺ نےآخری بات  اپنی بیٹی سے ہی کی۔
"ماں" توماں ہے، زندگی کا پہلا سانس اس کے وسیلے سے ہے اُس کی تعریف میں اس سے زیادہ کچھ نہیں ۔
عورت کی خواہش کی انتہا جاننا چاہتے ہو تو'زلیخا' کو دیکھو جو اپنے دل کی خاطر آخری حد تک جانے کو تیار ہے اور یقین اتنا کہ دنیا کے سامنےاقرار بھی ہے۔ اگر اُس کے جال میں آگئے تو ہمیشہ کا خسارہ اپنی جگہ ، قائم ر ہے تو مال ومتاع پھر بھی چِھن جائے گا لیکن عارضی ذلت مقدر ہو گی۔ثابت قدمی سےاپنی شناخت، اپنا شرف برقرار رکھا اوراس کی عزت پھر بھی ترک نہ کی،تو دین ودُنیا کی بادشاہی قدموں کی خاک ٹھہرے گی۔حاصل کلام یہ ہےکہ احسن القصص میں تلاش کرنےوالوں کے لیے اپنی زندگی کے حوالے سے بڑی بڑی نشانیاں اور ایسے چھوٹے چھوٹے سوالوں کے جواب ہیں جنہیں اپنےآپ سے پوچھتے ہوئے ندامت ہوتی ہے۔
رب جب نوازتا ہے تو اس کےکرم کی کوئی حد نہیں۔وہ انسان کی رگوں میں اُترے شک کے معمولی سے زہرکو بھی اس مہارت سے نکالتا ہے کہ درد کا شائبہ تک نہیں ہوتا اوردل بے اختیار اُن مسیحاؤں کو بھی سلام کرتا ہےجو اسی طور ہماری ٹریفائن بائیوپسی کرتے ہیں۔
(TrephineBiopsy --- ریڑھ کی ہڈی سے گودا نکالنا )

منگل, جنوری 22, 2013

" مُنتظمِ اعلیٰ "

دنیا میں جو بھی بڑے ادارے ہیں اُن کا ایک مرکزی دفترہوتا ہے۔۔۔ اس کے ماتحت چھوٹے چھوٹے ادارے بنائے جاتے ہیں۔۔۔ ہر ذیلی ادارے کا افسرخود مختار ہوتا ہے۔۔۔ وہ صرف مرکز کو جوابدہ ہوتا ہے۔۔۔ اُس کا کام ایک عالیشان ٹھنڈے کمرے میں بیٹھ کر کاغذات پردستخط کرنا ہے۔۔۔ شیشے کی کھڑکیوں سے دیکھ کراُس کی قسمت پررشک آتا ہے۔۔اگر قریب جائیں تو اصلیت سامنے آجاتی ہے۔۔۔اس بڑے افسر کی میز پرفائلیں اتنے تواتر سے آرہی ہوتی ہیں کہ اسے سر اٹھانے کی مہلت بھی نہیں ملتی۔ جسمانی اور ذہنی تھکن سے بےحال وہ کھڑکی سے باہر کسی منظر پر اپنی نگاہ بھی نہیں ڈال سکتا۔۔۔ کمر سیدھی کرنا چاہےتو نادیدہ ہاتھ اتنی زور کا کوڑا رسید کرتے ہیں کہ روح تک کانپ اُٹھتی ہے۔۔۔ بادی النظر میں اس نے صرف دستخط ہی تو کرنا تھے۔۔۔
"دستخط" کیا ہیں ؟ ایسے حروف جن کی لکھائی میں ہر بار ذرّہ برابر بھی فرق نہیں آنا چاہیے۔۔۔ ورنہ اُن کی اہمیت صفر ہو جاتی ہے۔۔۔ ذرا اور قریب جائیں تو اس طلسمِ ہوش رُبا کی اصلیت کُھل جاتی ہے۔یہ ایک ایسی تلخ حقیقت ہے۔۔۔جسےجتنا مرضی شکر کی گولی میں لپیٹا جائے۔۔۔ اُس کی کڑواہٹ کم نہیں ہوتی۔۔۔دستخط کے خانے میں جو لکھا جا رہا ہے۔ وہ لفظ ہے"ہاں"۔۔زندگی صرف "یس سر نو سر" کا نام ہے' یس سر' کہا تو زندگی گُزرتی جائے گی اور' نو سر' کہا تو زندگی گُزارنا پڑجائے گی۔

" آداب ِ محبت "

سورہ الاحزاب (33)۔۔ آیت 56۔ترجمہ !
"اللہ اور اُس کے فرشتے پیغمبرﷺ پر درود بھیجتے ہیں۔مومنو تم بھی اُن پر درود وسلام بھیجا کرو ۔"
محبت کا راستہ چاہتے ہو تو والدین کے بارے میں سوچو کس طرح بچے کے لیے اپنا آج اورکل گروی رکھ دیتے ہیں،جس کی کوئی گارنٹی نہیں کہ کل وہ اُن کے لیے کچھ کر بھی سکے گا یا نہیں ۔
عاشق بننا چاہتے ہو یا عاشقی کےاصول سیکھنا چاہو تو کسی کو یا اپنے آپ ہی کو چھوٹے بچوں سے بات کرتے ہوئے یا ان سے پیار کرتے ہوئے ان کا خیال رکھتے ہوئے دیکھ لو،جان جاؤ گے کہ کس طرح ہم بغیر جھنجھلائے ان کی ہر ہاں میں ہاں ملائے جاتے ہیں ۔
محبوب بننا چاہتے ہوتو اللہ کو دیکھ لوکہ وہ کس طرح اپنی خوشبواپنی نعمتیں سارے جہاں پر نچھاور کر رہا ہے اور بے نیاز ہے جس نے جاننا ہے وہ جان کر آئے جس نے ماننا ہے وہ مان کر آئے محض دیکھا دیکھی کسی جبر یا خوف کے زیرِاثر اپنا آپ اُس کے حوالے نہ کرے ۔
محبت کرنا چاہتے ہو اور محبت کے جواب کی بھی چاہ ہے اورمحبوب سے اس جواب کی طلب بھی ہے تواللہ اور اس کے نبی ﷺ کی محبت کو دیکھ لو۔ کوئی 'میں' نہیں ،کوئی بڑائی چھوٹائی نہیں، اللہ خالق ہے لیکن پھر بھی اپنی تخلیق سے محبت کا ثبوت پیش کرتا ہےمحبت کا ایک انداز یہاں سے بھی سیکھ لو کہ محبت شراکت کا نام بھی ہے اور وحدت بھی کہ اللہ اپنی محبت میں فرشتوں اور انسانوں کو بھی دعوتِ عام دیتا ہے کہ میں اپنے پیارے بندے پر درود بھیجتا ہوں تو تم بھی اس میں شریک ہو جاؤ اور یکجائی کا یہ عالم ہے کہ جب بلاتا ہے تو کسی کی پرواہ نہیں کسی کی مداخلت نہیں،"بس میں اورتو"محبوب کے مُحب کودیکھنا چاہو اپنے نبیﷺ کو دیکھ لو جومحبت میں یوں گم ہے کہ اپنی حیثیت کا احساس بھی ہے اورمحبوب کی ناراضگی کا لحاظ بھی،آنسوؤں کا خراج بھی ہے لیکن راضی برضا بھی اگرمحبوب نے اس قابل جانا ہے تو جواس کی رضا، بلاوہ آیا تو یوں چل دیئےکہ کوئی تکرار نہیں کوئی جھجھک نہیں ۔

جمعہ, جنوری 18, 2013

" ہماری مُٹھی "

ہماری حیثیت"
 کسی بھی شے کی اہمیت صرف اورصرف اُس وقت تک ہےجب تک وہ ہمیں حاصل نہیں ہو جاتی ہماری 'مُٹھی' میں نہیں آجاتی چاہے وہ دولت ہو، وقت ہو ،عزت ہواور یا پھر طاقت ۔اب یہاں انسان یہ سوچ لے کہ مٹھی کب تک بند رہ سکتی ہے یا مٹھی میں کیا کچھ سما سکتا ہے تواس کو اپنی ذات کی کم مائیگی کا فوراً پتہ چل جائے گا۔
ہر انسان کی مٹھی کاسائز یکساں ہے،اس میں کوئی مضبوط قفل نہیں، کوئی سات پردے نہیں ہاں البتہ سمجھوتوں کی درزیں ہیں جن سے ہمارا محفوظ سرمایہ چِھن چِھن کرباہرآتا رہتا ہے۔ بےخبرانسان پھربھی دونوں ہاتھوں سے سمیٹتا جاتا ہےاوراسی کشمکش میں بند مٹھی میں جو ہوتا ہے اس سےبھی ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔جوانسان کی مٹھی ہےوہ اس کی قسمت ہے۔۔۔ تقدیر ہے اور تقدیر بدلی نہیں جا سکتی۔اس پرراضی ہوا جائے تواس سے سمجھوتہ ہو سکتاہے اور نہ ماننے والوں کے لیے خود اپنے آپ سے آخری سانس تک جنگ جاری رہتی ہے۔
"محبت"ہمیں ملنے والی ایسی چیز ہےجو مٹھی میں نہیں  روح میں اُترتی ہےاورجس کی طلب جس کی ضرورت آخری سانس تک ختم نہیں ہوتی۔وقت بدلتا ہے۔۔۔رشتے بدلتے ہیں۔۔۔احساس بدلتے ہیں۔۔۔ضرورت بدلتی ہے۔۔۔ ماحول بدلتاہے۔۔۔ محبت ایک کردار سے دوسرے کردار میں اپنے آپ کو ڈھالتی جاتی ہے۔ لیکن کسی رشتے کسی تعلق کی محبت اپنی جگہ محفوظ رہتی ہے۔۔۔ایک مضبوط خول میں بند(ان چھوئی)۔ہرمحبت میں اس محبت کا عکس ضرورملتا ہے لیکن اُس محبت کی تلاش کبھی ختم نہیں ہوتی، اس کا سفر جاری رہتا ہے۔ ہم جان کربھی نہیں جان پاتے۔۔۔ وہ محبت توہمارےاندرموجود تھی جسے ہم باہر تلاش کرتے رہے۔ ہم اگر اس کو اپنے ساتھ بانٹ لیں اس کوجان لیں تو پھر اپنے آپ کومطمئن کرسکتے ہیں ۔ کبھی معجزے بھی ہو جایا کرتےہیں۔
 روح کی گہرائی کی تڑپ ایک سفرِمسلسل،ایک امانتداری ایک تلاشِ وجود کسی بےخبر اَن جان میں محبت کے ایسے چشمے جاری کردے کہ جو نہ صرف اس کے اپنے اندر کی تشنگی مٹائیں بلکہ اُن کا فیض عام ہو جائے۔ زمان ومکان کی قیود سے بُلند کہ زمانےکی فکرہو اورنہ وقت کا ڈر۔
ہر شے کو زوال ہے۔۔ ہر چیز فانی ہے۔۔۔ ہر رشتہ ہرتعلق اپنی پرواز کے لیے صرف ہماری آنکھ بند ہونےکا منتظر ہے۔ اورعین حقیقت ہے کہ محبت کے چشمے کو اگرکوئی روک سکا ہے تو وہ موت ہے۔ لیکن ایسی سیری ایسےقرار کے بعد موت بھی وصال ہےکہ یہ اپنے رب کی نعمتوں کا شکرانہ ہے۔

"سال گرہ "











"اللہ ہی ہے جو مردہ میں سے زندہ اور زندہ میں سے مردہ کونکالتا ہے"۔
"زندگی صرف ملنا اور بچھڑنا ہے"۔ملنا اوربچھڑنا ایک دوسرے سے مشروط جُڑے ہوئے ہیں۔۔۔جو چیز ہمیں مل رہی ہے وہ کہیں سے دور بھی ہو رہی ہے۔ مثال کے طور پر زندگی کے پہلے سانس سے ہی آخری سانس کی طرف گنتی(کاؤنٹ ڈاؤن) شروع ہو جاتی ہے ۔ہم بے خبر لوگ عارضی دور سے گزر رہے ہیں۔زندگی صرف پانے کا نہیں کھونے کا نام بھی ہے۔ہمیں پانے کے لیے  ہی نہیں بلکہ کھونے کے لیے بھی تیار رہنا چاہیے۔اہل علم وعقل اسی لیے سالگرہ منانے کو تنقیدی نگاہ سے دیکھتے ہیں کہ عمر گھٹ رہی ہے اور ہم خوشی منا رہے ہیں۔
ہمیں اپنی سوچ کا دائرہ وسیع کرنا ہے۔دیکھا جائے تو  پھرکوئی خوشی نہیں۔۔۔کوئی راحت نہیں۔۔۔بس افرتفری ہے۔قطار بندھی ہےکوئی آگے کوئی پیچھے پھرخوشی کہاں سے ہو۔یہ حقیقت سر پرسوار ہو توجینا محال ہوجائے۔ہمیں چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو تلاشنا ہے۔۔۔اُن کو تتلیوں کی طرح پکڑنے کی سعی کرنا ہے۔۔۔اپنے آج میں رہنا ہے لیکن کل کو بھی نظر میں رکھنا ہے۔
کل کی خاطر آج کو قربان نہیں کرنا اور آج کی خاطر کل کا سودا نہیں کرنا ورنہ ہم ہر جگہ گھاٹے میں رہیں گے۔۔۔آج بھی اور کل بھی۔کرنے کا کام یہ ہےکہ جو جس راستے پر جا رہا ہے اسے جانے دیں۔ جو راستہ ہمیں دکھائی دے رہا ہے اس پر چُپ چاپ چلتے جائیں۔دوسروں کو اپنی نظر کی عینک سے دیکھنے پرمجبور نہ کریں۔ ہمارا راستہ درست ہو گا تولوگ کبھی نہ کبھی خود پیچھے آئیں گے۔یہ نہ ہودوسروں کو اپنے راستے پر لانے کی جدوجہد میں اپنا راستہ کھوٹا کر لیں۔
اہم یہ ہے کہ اس روز اپنے ساتھ کچھ وقت گزارا جائے،اپنے آپ کو وقت دیا جائے۔اور ہم اس کے برعکس اپنے آپ کو فراموش کر کے اپنی خوشیاں دوسروں کی آنکھوں میں تلاش کرنے کی سعی کرتے ہیں ۔ اس میں شک نہیں کہ ہمارے پیاروں کے احساس میں وہ ہمیں ضرور ملتی ہیں لیکن جتنی خوشی ہم اپنے آپ کو دے سکتے ہیں اتنی شاید کسی کا بڑے سے بڑا تحفہ بھی نہیں دے سکتا۔ " سکون" وہ نعمت وہ تحفہ ہے جو اپنے جنم دن کی صبح بستر سے صحت اور سلامتی کے ساتھ اٹھنے کے بعد ملتا ہے۔اگر ہم اس پل اس خوشگوار احساس کو محسوس کر سکیں۔ 
جنم دن سالگرہ کا دن بھی کہلاتا ہے۔ گزرتے سال جو کھویا جو پایا اُس کو گرہ کی صورت ذہن نشیں کر لینا آگے بڑھنے کا حوصلہ دیتا ہے۔ ماضی کی یاد میں ٹھنڈی آہیں بھرنے والے نہ صرف حال سے مطمئن نہیں ہوتے بلکہ مستقبل کے وسوسے اوراندیشے بھی کسی پل چین نہیں لینے دیتے۔ سالگرہ کے بعد آنے والا اگلا دن ہمارا ایک نیا جنم دن ہوتا ہے جس میں آنے والے سال کے خواب ہمارے ساتھ آنکھیں کھولتے ہیں ۔ خواب اور حقیقت کے مابین فاصلہ رکھنا ہی اصل کمائی اوراہلیت ہے۔ جن کے خواب زندہ رہتے ہیں حقیقت کی دُنیا میں بھی پوری تابندگی کےساتھ جگمگانا اُن کا مقدر ہے۔ ورنہ محض خواب دیکھنے والی آنکھیں عمل سے دور اپنی ذات کی اسیر ہوجاتی ہیں۔
جیسے دعا دی جاتی ہے کہ ہر روز روزِعید ہو تو ہر رات شبِ برات۔اسی طرح دیکھا جائے تو ہر روز کی رات شبِ محشر ہے اور ہر رات کا بستر قبر کی منجمد تنہائی اورتاریکی کا استعارہ بھی ہے۔ ہم ایسا نہیں سوچتے اور سوچنا بھی نہیں چاہیے۔اگر اس سوچ کا آسیب ذہن ودل پرمسلط ہو جائے تو ہم نہ اس دُنیا کے رہیں گےاور اپنی ذات سے وفا بھی نہ کرپائیں گے۔ ہماری بےخبری آکسیجن کی صورت غیر محسوس طریقے سے راہ ِحیات پر گامزن رکھتی ہے۔ لیکن اس بےخبری کو غفلت اور بے حسی کی چادر میں نہیں لپٹنا چاہیے ورنہ انسان فرعون بن جاتا ہے اورہرنسل میں جبروقہر کی علامت بن کر زندہ رہتا ہے یہاں تک کہ تاریخ کے اوراق میں باعثِ عبرت بن کر رقم ہو جاتا ہے۔ اگر ہراُترتی شب ہم اپنا محاسبہ نہ بھی کر سکیں تو سال کا آخری روز پورے سال کے اعمال کا جائزہ لینے کو کافی ہوتا ہے لیکن یہ بھی ممکن نہ ہو تو سال میں کم از کم ایک دن تو ایسا آتا ہے جب اتنی بڑی کائنات میں وہ دن صرف ہمارا ہوتا ہے۔
ہمارا جنم دن ۔۔۔۔۔ 
اگر اس روز ہمارا احساس نہ جاگے ایک پل کو بھی یہ خیال نہ آئے کہ ہم کیوں اس دُنیا میں آئے؟ ہماری تخلیق کا مقصد کیا تھا؟ تو اس سے بڑی زیارتی اپنے آپ کے ساتھ اورکوئی نہیں ۔ بے شک اس سوال کا جواب ہمیں کبھی نہیں ملتا اور نہ ہی ہم اس کو جاننے کی اہلیت رکھتے ہیں ۔ پر کسی سوال کا جواب نہ ملنا یہ ثابت نہیں کرتا کہ وہ سوال لایعنی ہے۔" سوال ہمارے وجود کے شجر سے پھوٹتی وہ نرم ونازک کونپلیں ہیں جو خیال کی بارش کے بعد نمودار ہوتی ہیں اور اِسے سرسبز بناتی ہیں۔اگر یہ نہ ہوں تو ٹنڈ منڈ درخت نہ سایہ دیتے ہیں اورنہ ہی بارآور ہوتے ہیں"۔ 
بچے کا جنم دن ماں کی نظر میں۔۔۔
ماں  کا احساس بچے کے جنم دن پر بہت خاص ہوتا ہے کہ یہ دن اس کی  زندگی میں  ایک بالکل انوکھے احساسِِ، کبھی نا بھولنے والے تجربے اور ایک نئے روپ نئے کردار کا بھی آغاز ہوتا ہے۔ اسی لیے ایک ماں کے لیے اولاد کا  ہر آنے والاجنم دن بہت اہم ہوتا ہے۔وہ خاص دن  اس کی یادوں کی البم میں ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو جاتا ہے۔سال بہ سال یہ البم کُھلتی ہے تو ماں کا اپنے وجود پر یقین بڑھ جاتا ہے۔کبھی یہ ہوتا ہے کہ البم وہیں رہتی ہے،تصویر غائب ہو جاتی ہے ، کوئی تتلی کوئی فرشتہ اپنی چھب دکھلا کر غائب ہو جا تا ہے۔گردشِ زمانہ میں ذہن سے محو بھی ہو جاتا ہے اور پھرماں کی ذات تک ہی محدود رہتا ہے کہ اللہ درد دیتا ہے تو دوا بھی اسی کا ذمہ ہے۔کبھی یہ دن  زندگی میں ایک اذیت ناک احساس  کی صورت ساری زندگی پر محیط ہو جاتا ہے۔ یوں ہوتا ہے کہ وہ تصویر نہ جانے کس وجہ سے،اللہ کی کون سی آزمائش کے سبب مکمل نہیں ہو پاتی۔ ایک ادھوری تحریر کی صورت کہ نہ آغاز پر نظر اور نہ انجام کی خبر، پھر ساری عمر ان بکھرے حرفوں کو سمیٹنے میں ہی گُزر جاتی ہے،اپنے لمس سے جتنا بھی نکھار لو ،وہ تحریر کبھی مکمل نہیں ہوتی۔عمر بیت جاتی ہے  وقت گزر جاتا ہے، زندگی نہیں گزرتی۔ یہ صرف ایک ماں کا ہی حوصلہ ہے جو اسے زندگی کے اس پل صراط پر ثابت قدمی عطا کرتا ہے-


" ہم وہ ہرگز نہیں جو نظر آتے ہیں "

انسان اپنے اندرلامتناہی وسعتیں رکھتا ہے،اس کو جاننےکے لیے کسی قسم کے مشکل اسباق پڑھنے کی ضرورت نہیں صرف اپنے اوپرایک نظر ڈال لیں تو حیرت کے درکُھلتے چلے جائیں گے۔زندگی کا پہیہ جیسے جیسے سِرکتا ہے ہرموڑ پر ہماری شخصیت کا ایک نیا منظر دکھائی دیتا ہے اور ہر منظر اتنا جان دار اورمکمل ہوتا ہے کہ یوں لگتا ہے یہی اصل حقیقت ہے۔
زندگی آگے بڑھنے کا نام ہے۔ وقت کے ساتھ ہماری جہت بدلتی ہے، ہماری روح ایک قالب سے دوسرے میں ڈھلتی ہے اور ہمارا جسم حیران وپریشان  اس کا ساتھ دینے کی سعی کرتا جاتا ہے۔ روح کی کرشمہ سازیاں اسے افسردہ تو کبھی مطمئن کردیتی   ہیں۔ یہی زندگی کا حسن،اصل کمائی اور یہی بقا کا راز بھی ہے۔ جب سانپ جیسی مخلوق جسم کی سلامتی کے لیے ایک نئے لبادے کی تلاش میں ہے تو انسان جو اشرف المخلوقات ہے اس کی تو خوراک ہی اس کی تلاش میں پنہاں ہے۔کائنات کی ہر شے کا رنگ ایک انسان کے اندر موجود ہے۔۔۔۔
وہ پارے کی طرح بےقرار ہے تو پتھر کی طرح جامد بھی ۔۔۔
کہیں پھول ہے تو کہیں خوشبو۔۔۔
کہیں  محبوب ہے تو کہیں عاشق۔۔۔
کہیں دنیا کی حسین ترین شبہیہ ہے تو کہیں پاؤں کی گرد سے بھی زیادہ وقعت نہیں رکھتا۔۔۔
کہیں اس کی آواز کانوں میں رس گھولتی ہے تو کہیں  آواز  اپنے کان بھی سُن نہیں پاتے۔۔۔
کہیں مسیحا ہے تو کہیں قاتل ۔۔۔
کہیں ساقی ہے تو کہیں خمار۔۔۔
کہیں خود منتظر ہے تو کہیں صدیوں سے کوئی اس کی تلاش میں ہے۔۔۔
کہیں سرِراہ ہے تو کہیں والیءتخت ۔۔۔
کہیں آسودہ ہے تو کہیں ناآسودگی کی تپش اسے کُمہلا رہی ہے۔۔۔
کہیں پاس ہے تو کہیں دُور۔۔۔
کبھی کچے گھڑے پر دُنیا فتح کرنے نکلتا ہے تو کہیں اپنی ذات کی بولی لگاتا ہے اور کوڑیوں کے مول بھی خریدار نہیں ملتا۔۔۔
کبھی اپنے آنسوؤں میں یوں ڈوب جاتا ہے کہ نام ونشان تک باقی نہیں بچتا اور اگلے ہی پل دریا ایسے خشک کہ محبتوں کی جھڑی بھی اس میں شگاف نہیں ڈال سکتی۔۔۔
ایک تلاش ہے جو ختم ہونے میں نہیں آرہی۔۔۔ ایک سفر ہے جو جُہدِمسلسل سے عبارت ہے۔۔۔ ایک خلش ہے جو جان کا روگ ہے۔۔۔ ایک پھانس ہے جو کسی کروٹ چین سے بیٹھنے نہیں دیتی ۔
 اہم  یہ ہے کہ سب زندگی کا کھیل ہے زندگی کے رنگ ہیں۔زندگی کی چاہت ہے تو اپنے ہررنگ کو اپنے اندرسمو لو۔
یاد رکھو ان رنگوں کی  قوسِ قزح بن گئی تووہ تمہیں ایک الوہی رنگ کی جانب ضرور لے جائےگی۔اور!!!قوسِ قزح صرف آسمانوں کی ہمسفر ہوتی ہے۔بکھرے رنگ زمین پر بنی ایک تجریدی تصویر سے زیادہ وقعت نہیں رکھتےجو دل پذیرتو دِکھتی ہے پربنانے والے سےزیادہ دیکھنے والے کے حُسن ِذوق کی مرہون ِمنت ہواکرتی ہے۔

" اپنا خیال رکھنا "

"پہلی دعا ،پہلی توبہ"
" الاعراف 7 (آیت 23)" 
"قالا رَبّنا ظلمنَا اَنفسَنا "
" اورہم نے اپنی جان پرظلم کیا " 
 ہم جتنی زیارتی اپنے آپ کےساتھ کرتے ہیں اتنی کوئی بھی ہمارے ساتھ نہیں کرسکتا۔ہم ساری زندگی کسی ساتھی کسی چاہنے والے کی تلاش میں رہتے ہیں۔۔۔ جو ہمارا خیال رکھے۔۔۔ ہمیں جانے۔۔۔ہمیں پھول کی طرح سنبھالے۔۔۔جو ہروقت اپنی نظر کے حصار میں رکھے اورجس کے لمس کی پھوار سے ہماری برسوں کی تشنگی دورہو جائے۔ ہوتا یوں ہے کہ وقت کی لہریں سیراب تو کرتی ہیں لیکن ہم کسی اَنجان لمحے کےمنتظر ہی رہتے ہیں۔اِسی انتظارمیں ہمارا وجود خشک ٹہنی کی طرح چٹخنے لگتا ہے۔عمر بیت جاتی ہے، وقت گُزرتا جاتا ہے لیکن ہم وہیں کے وہیں رہتے ہیں۔۔۔ ایک ضدّی بچے کی طرح۔ اگر خلوصِ نیت سے محبت کے طلب گار ہوں تو مُہلت ختم ہونے سے پہلے آگہی کا در کُھل جاتا ہے پھر ہمارے پاس کم عقلی کا ماتم کرنے کے سِوا کچھ نہیں بچتا۔
کہانی یوں ہے کہ ہر رشتہ ہرجذبہ ہمیں کچھ نہ کچھ عطا ہی کر رہا ہےہم خود ترسی اورمحرومی کا شکار رہتے ہیں۔ جب اس آیتِ قرآنی کا مفہوم ہمارے اندر اُترتا ہے تو پھر معلوم ہوتا ہے کہ ہم نے تو کچھ بھی نہیں کیا سوائےاپنی جان پر ظلم کرنے کے اپنے وجود کے بخیے اُدھیڑنے کے۔ اپنے آپ کو ریزہ ریزہ کر کے اپنا آپ تباہ کرنے کے۔ ہمارا محبوب تو ہرلمحہ ہمارے ساتھ تھا۔ ہمارا خالق توہرپل نگاہ رکھے ہوئے تھا ہمیں کس وقت کس شے کی طلب ہو گی اورکس وقت وہ ملنی چاہیے سوائے اُس کے کوئی بھی نہیں جانتا تھا۔۔۔ "ہم بھی نہیں"

"صبغت اللہ "

سورۂ البقرۂ(2)۔۔۔138
ترجمہ!
(کہہ دو) اللہ کا رنگ ( اختیار کر لیا ہے) اوراللہ سے بہتر رنگ کس کا ہو سکتا ہے۔اور ہم اُسی کی عبادت کرنے والے ہیں ۔
" اللہ کا رنگ "
دنیا کی ہرشے کا خالق اللہ ہے۔ ہررشتہ۔۔۔ہرجذبہ۔۔۔ہرچاہت پر صرف اورصرف اللہ کا رنگ ہے۔اس رنگ کا ادراک دیکھنے والی آنکھ ہی کرسکتی ہے۔اللہ کا ساتھ اُس کی قربت اگر نصیب ہوجائے توزندگی کی فلم کے ہرمنظرمیں اللہ ہی اللہ دکھائی دیتا ہے۔ جن کودکھائی نہیں دے رہا اللہ وہاں بھی ہے۔ لیکن وہ اپنی دُھن میں مست اپنے بل بوتے پرنئی دُنیائیں تخلیق کیے جارہے ہیں۔ اسی لیےقُرآن پاک میں انسان کی تخلیقی صلاحیت کی نفی کی گئی ہے۔۔۔کسی شے کو بناتے بناتے انسان لاشعوری طور پر ہی سہی اپنے آپ کو خدا کے برابر سمجھنے لگتا ہے۔
انسان کی شبہیہ بنانے کی تو سختی سے ممانعت ہے کہ یہ نقل بنانے کا عمل ہے۔
 ایک تخلیقی کام شاعری ہے جس میں انسان اپنے محبوب کی تعریف میں اُسے کہیں سے کہیں پہنچا دیتا ہے اور بعض اوقات بات کُفریہ کلمات تک جا پہنچتی ہے۔شاعری سے اگر منع نہیں کیا گیا تو اسے قابلِ فخر بھی نہیں گردانا گیا۔
 بات جاننے کی یہ ہےکہ ہر راستہ اللہ کی طرف جاتا ہےاورشاعری کا راستہ اللہ کی طرف جاتا نظرآئے تو یہ بھی سیدھا راستہ ہے۔غور کیا جائے تو کسی عام سے شاعر کےعام سے شعرمیں بھی اللہ مل جاتا ہے اس کے لیے دیکھنے والی نظردرکار ہے جو اسے خاص بنا دے۔ یہ کوئی لایعنی فلسفہ نہیں "شعرتخلیق ہے اوراللہ خالقِ کُل" ہرشے کی بنیاد اگر اللہ ہے تو پھرانسان اور اس کی سوچ میں بھی اللہ ہی اللہ ہے۔
ہم ناسمجھ ہیں کہ اللہ کی قدرت کو سرسری دیکھ کرگزرجاتے ہیں۔۔۔ ہم خسارے کے سوداگر ہیں۔ اس کو ایک مثال سے یوں جانا جا سکتا ہے کہ کوئی صبح سےشام تک پانی بھرتا رہے،دوسروں کو سیراب کرے لیکن معلوم ہی نہ ہو کہ اس پانی سے اس کی پیاس بھی بجھ سکتی تھی۔وہ اپنے تئیں محنت مشقّت کر کے فنا ہو جائے اور بعد میں پتہ چلے کہ" آبِ حیات ہاتھوں سے نکل گیا"۔
"سبحان اللہ"
اللہ تبارک تعالیٰ " رب العالمین" ہے۔۔۔اس کا نبی ﷺ " رحمت العالمین" ہے تو اس کی مخلوق کی بخشش کیسے محدود ہو سکتی ہے۔ انسان کی اصل یہی ہے کہ اس کو  صلاحیت کی جو روشنی عطا کی گئی ہے اسے ممکن حد تک رنگ ۔تعصب اور مذہب سے قطع نظر جہان میں پھیلائے۔ یہ اس کی فطرت میں شامل ہے۔ دلی تسکین فطرت سے قربت سے ہی ملتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تحقیق و دریافتیں کرنے والے ہوں یا سائنس وٹیکنالوجی کے میدانوں میں حیرت انگیزکمالات دکھانے والے،کسی صلے یا توقع کے بغیر اپنا کام خاموشی سے کیے جاتے ہیں صرف اپنے ذہنی سکون کی خاطر اپنی صلاحیت کی تکمیل کی آرزو میں جئیے جاتے ہیں۔اللہ چاہتا ہے جو آئے وہ اپنا پورا وجود لے کر آئے۔ پورے یقین اور ذات کے اعتماد کے ساتھ بےخوف وخطر اپنا آپ اس کے حوالےکردے۔اگرکوئی ناسمجھ راستہ توسیدھا پکڑ لے لیکن بھول بھلیوں میں کھو جائے تووہ بھی مالک کے لُطف وکرم سے محروم نہیں رہے گا ان شاءاللہ۔

منگل, جنوری 15, 2013

"آخری خواہش "

تم کہتے ہو
 میں خود کشی کر لوں
 کیا تم نہیں جانتے
 مردے خود کشی نہیں کیا کرتے 
اور کچھ نہیں تو
 عزت کا کفن
 اور احساس کا کافور
 لگا کر مجھے دفنا دو

"رفاقت "

گرم گھروں میں رہنے والے
 مکمل انسان ہیں
 سرد تنہائی
 اور اندھیرے سے نا آشنا
 آگ تا پتا ہوا شخص
اُس کے پاس وہی جائے گا 
جسے حرارت چاہیے
--------------------------------
 ٹھنڈے کمروں کے مکیں
لوُ دیتی گرم ہوا
کیا جانیں 
دُور برگد کے نیچے
بیٹھے مسافر
 درد آشنا ہیں

" تنہا ئی "

"گوشہ نشینی "
تنہائی ایک  گوہرِ نایاب ہےاس میں جو خزانے پوشیدہ ہیں،دُنیا کا ہرانسان چاہے مومن ہو یا مشرک اس پر یکساں طورپرظاہر ہو جاتے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ مومن ایمان کی دولت سے مالا مال ہوتا ہےوہ پہچان کےساتھ اس کو حاصل کرتا ہے۔
 اللہ کو نہ ماننے والا اگرچہ جان تو جاتا ہےکہ کوئی ہے جوعطا کر رہا ہے۔ لیکن وہ ہمیشہ شک اور یقین کے درمیان رہتا ہے۔غوروفکراورتلاش کا یہ سفرتنہائی سے شُروع ہوتا ہے۔اپنے آپ کو جاننے کی طلب اُسے دوسرے انسانوں سےلاتعلق سا کر دیتی ہے۔وہ اس دنیا میں رہتے ہوئے ایک اور دنیا کے عشق میں گرفتار ہو جاتا ہے۔ اپنی ذات کے حصار سے نکل کر وہ کائنات کے سربستہ رازوں کے کھوج میں نکل جاتا ہے۔جوں جوں اندر کا شور بڑھتا ہے وہ باہر کی دنیا سے بےخبر اور خاموش ہوتا جاتا ہے۔انسانوں کے ہجوم میں وہ اجنبی اورناپسندیدہ جانا جاتا ہے۔تنہائی اور سوچ بچار کے بعد جب اسےعطا کیا جاتاہےتو اسکی خواہش ہوتی ہےکہ عام انسانوں کو اس اکرام میں شامل کرے۔دُنیا کے سائنسدانوں،عظیم مفکّروں اور،فلسفیوں نے جیسے جیسےنامعلوم سے معلوم کے اس سفر میں انسانوں کو شامل کرنا چاہا،انہیں قدم قدم پر مشکلات اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ نت نئی ایجادات کرنے والوں کی ہمیشہ حوصلہ شِکنی کی گئی۔انتہائی نامساعد حالات میں انہوں نے صرف اپنی لگن کے سہارے کام جاری رکھا۔ بہت کم ایسے تھے جن کے خیالات وافکار کو اُن کی زندگی میں تسلیم کر لیا گیا ہو۔بیشتر کو اپنی سوچ اپنی جدوجُہد کو سچ ثابت کرنے کے لیے جان ومال کی قربانی دینا پڑی ۔
 یہاں پہنچ کربُزرگانِ دین اوردُنیا کے بُلند پایہ مفکرین اورتحقیق وتجربات کرنے والوں کے درمیان فرق واضح ہو جاتا ہے۔عرفان ِحقیقت کے بعد اولیاءاللہ کےعاجزانہ اندازسے لوگ غیر محسوس طور پرخود بخود اُن کی طرف کھنچے چلے آئے جبکہ مغربی مشاہرین نے دلیل کے زور پر لوگوں کو قائل کرنا چاہا اورلوگوں نے اپنے موروثی علم کی بدولت اسے ردّ کیا۔
یہ ظاہری علم اور باطنی علم کا معاملہ تھا مثال کے طور پر ذہین وفطین افراد نے جب یہ علم حاصل کیا کہ سورج کیسے روشنی دیتا ہے اس کا زمین سے فاصلہ کتنا ہے؟اس کی روشنی کے اثرات کیا ہیں؟ تواللہ والے اس سوچ میں محّو تھے کہ سورج کو روشن رکھنے والی ذات کتنی عظیم ہے۔۔۔اس کائنات کی تخلیق کے کیا مقاصد ہیں۔۔۔ ہم کس طرح اس کرم کا حق ادا کر سکتے ہیں۔۔۔اس روشنی کو کس طور آگے منتقل کیا جا سکتا ہے۔
ظاہری تلاش کا سفر اپنے آپ سے شروع ہو کرایک ادارے پر ختم ہوتا ہے۔انسان نت نئی ایجادات کرتا ہے۔۔۔ نئے نظریات پیش کرتا ہے۔۔۔ دوسرے لوگوں کو اس سے آگاہ کرتا ہے۔۔۔آنے والے کام میں مزید بہتری لاتے ہیں۔ یوں کڑی سے کڑی ملتی جاتی ہے انسان نہ صرف انسانیت کی بھلائی کے کاموں میں میں بلکہ اپنی برتری قائم رکھنے کے لیے بنی نوع انسان کو تباہ کرنےکی کشمکش میں عروج تک جا پہنچتا ہے۔
'میں'سےشروع ہونےوالا سفر'میں' پرہی ختم ہوجاتا ہے۔تحقیق وجستجو کے مسافر آگے سے آگے بڑھنے اورجاننے کی خواہش میں اپنی طلب اپنی پیاس ورثے میں چھوڑ کرراہیء مُلکِ عدم ہوتے ہیں ۔
 باطنی تلاش کے لیے انسان دوسرے انسانوں سے رفتہ رفتہ دُورہونے لگتا ہے۔۔۔اگرچہ اُسے بےکلی تورہتی ہےکہ وہ ایسی زبان جاننے لگا ہے جسے دوسرے بالکل نہیں جانتے لیکن وہ کسی پرحاوی نہیں ہونا چاہتا ۔ وہ اپنی ذات میں اپنی کائنات آپ ہوتا ہے۔ اپنے رب سے رابطہ ہو یہی کافی ہے۔ چاہ ہے توفقط یہ اُسے اُس کے حال پرچھوڑدیا جائے اگرہم کسی کو کچھ دے نہ سکیں تو لینے کا حق بھی نہیں رکھتے۔ اللہ والے علم کے راستے پر چلنے کے بعد اتنا جان گئے وہ کچھ بھی نہیں جانتے۔ جو کچھ بھی ہے وہ اُن کی محدودعقل و شعورسے ماورا ہے۔ جوبنیادی احکامات ہیں ان پرعمل کرنا اور آگے پہنچانا ہی ان محدود ماہ و سال کا مقصد ہے۔ یہ ایسا سفر ہے جس میں اپنی "میں" کی نفی کرکے اپنے رب کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہو کر اپنے آپ کی تلاش ہے۔ موت اس سفر کا اختتام نہیں صرف ایک سنگِ میل ہے،آگے کیا ہو یہ صرف رب جانتا ہے۔
پسِ تحریر
 "تنہائی"(اکتوبر 2011)۔یہ  اس وقت کی تحریر ہے جب میرے سامنے کوئی پڑھنے والا دور دور تک نہیں تھا اور مجھے خود بھی نہیں پتہ تھا کہ میں کیوں لکھتی ہوں ؟ اور پھر بجائے ضائع کرنے کے بڑے اہتمام سے چھپا کر رکھ دیتی ہوں ؟.
لیکن لکھنا اس وقت بھی میرے لیے ایک عجیب مسرت کا باعث ہوتا تھا جیسے خود سے باتیں کرنا ،اپنے آپ کو سمجھانا۔ اور لکھنے کے بعد کبھی اضافہ نہیں کیا کہ ہوتا بھی نہیں۔اس لیے اکثر تحاریر آپ کو ادھوری یا الجھی ملیں گی۔ میری تحاریر ایک طرح سے میری اپنے آپ سے بات چیت ہے جس میں سوال بھی میرے ہیں اور جواب بھی مجھی کو دینا پڑتے ہیں۔

"سیٹل اور سیٹل منٹ"

سورۂ فرقان(25) آیت 2۔۔   وَخَلَقَ كُلَّ شَىْءٍ فَقَدَّرَهٝ تَقْدِيْـرًا ترجمہ۔ اور جس نے ہر شے کو پیدا کیا اور پھر اس کے لیے ایک اند...