ہفتہ, نومبر 28, 2015

" جیون ساگر کا عالی"



اس وقت سے میں ڈرتا ہوں
جب وقت سے میں ڈر جاؤں
"لاحاصل"
جیوے پاکستان،جیون ساگر (اتنے بڑے جیون ساگر میں تونے پاکستان دیا۔۔۔گلوکار،الن فقیر) سے لے کر میرا پیغام پاکستان کے خالق جناب جمیل الدین عالی ایک شاعرِبےمثل ہی نہیں بلکہ ایک سچے کھرے پاکستانی بھی تھے جنہوں نے 1951 میں سی ایس ایس کا امتحان پاس کر کے سرکاری ملازمت اختیار کی ۔یہ وہ دور تھا جب وسائل نہ ہونے کے برابر پر جذبہ ہمت اور لگن انمول اور بےمحابا تھی۔ جمیل الدین عالی کی ایک پہچان" ببول کے کانٹے" بھی ہیں جو آپ اس دور میں فائلوں پر کامن پنوں کی جگہ استعمال کرتے۔ جتنی عزت سے آپ نے یہ کانٹےسمیٹے اتنی ہی خوشبو اور رس سےآپ کا لہجہ ہمیشہ مہکتا رہا۔
دوہےلکھتے اور تحت اللفظ پڑھتے ہوئے اردو شاعری میں ایک نئے اسلوبِ بیان کی بنیاد بھی رکھی۔۔۔"انسان“کے نام سے پندرہ ہزار اشعار کی طویل نظم جس کو وہ اپنا لکھا ہوا منظوم ڈراما بھی کہتے تھے۔ یہ رزمیہ نظم ایک مکمل کتاب اورایک شاہکار تخلیق ہےجس میں انہوں نے انسان کے تمام پہلوؤں کی عکاسی کی،جن میں مذاہبِ عالم، نفسیات، فلسفہ،ادب اخلاقیات، جمالیات، سائنس، اور تاریخ جیسے اہم موضوعات شامل ہیں۔
جمیل الدین عالی کی شاعری سے انتخاب۔۔۔۔
اب جو یہ میرے بغیر انجمن آرائی ہے
لوگ کہتے ہیں کہ تم کو میری یاد آئی ہے
یہ جو عالی ہے یہ شاعر نہیں سودائی ہے
یہ تو سچ ہے ہے مگر آگے تری رسوائی ہے
میرے شکووں پہ نہ جا میں تو وہی ہوں جس نے
بارہا ترکِ محبت کی قسم کھائی ہے
خود بھی گمنام رہیں اُن کو بھی گمنام رکھیں
ہائے وہ لوگ جنہیں نازِ شکیبائی ہے
ہاں بھلا ترے خدوخال کو ہم کیا سمجھیں
دل میں یوں ہی تری تصویر اتر آئی ہے
ان کو آزردہ بھی کرتے نہیں بنتی ورنہ
اپنی باتوں پہ بھلا کس کو ہنسی آئی ہے
ہم نے صحرا میں بھی رہ کر جو پکارا ہے تجھے
کتنے غنچوں کے چٹکنے کی صدا آئی ہے
اہلِ شہر،اہلِ چمن،اہلِ قفس خیر تو ہے
کیا خبر بھی نہیں آئی کہ بہار آئی ہے
میری ہنگامہ پسندی پہ نہ الزام رکھو
شاید اِک یہ بھی علاج غمِ تنہائی ہے
۔۔۔۔۔۔
عالی" جی اب آپ چلو تم اپنے بوجھ اٹھائے
ساتھ بھی دے تو آخر پیارے کوئی کہاں تک جائے
جس سورج کی آس لگی ہے شاید وہ بھی آئے
تم یہ کہو خود تم نے اب تک کتنے دیے جلائے
اپنا کام ہے صرف محبت باقی اس کا کام
جب چاہے وہ روٹھے ہم سے جب چاہے من جائے
کیا کیا روگ لگے ہیں دل کو کیا کیا اب کے بھید
ہم سب کو سمجھانے والے،کون ہمیں سمجھائے
ایک اسی امید پہ ہیں سب دشمن دوست قبول
کیا جانے اس سادہ روی میں کون کہاں مل جائے
جب تم سب ہو سچے سادھو،میں بھی سچا سادھو ہوں
ایک غریب اکیلا پاپی کس کس سے شرمائے
اتنا بھی مجبور نہ کیجو ورنہ ہم بھی کہہ دیں گے
او عالی پر ہنسنے والے! تو عالی بن جائے
۔۔۔۔۔۔۔۔
کب تم بھٹکے کیوں تم بھٹکے کس کس کو سمجھاؤ گے
اتنی دور تو آپہنچے ہو اور کہاں تک جاؤ گے
اس چالیس برس میں تم نے کتنے دوست بنائے ہیں
اب جو عمر بچی ہے اس میں کتنے دوست بناؤ گے
بچپن کے سب سنگی ساتھی آخر کیوںکر چھوٹ گئے
کوئی یار نیا پوچھے تو اس کو کیا بتلاؤ گے
جو بھی تم نے شہرت پائی جو بھی تم بدنام ہوئے
کیا یہی ورثہ اپنے پیارے بچوں کو دے جاؤ گے
اس جوشِ خود آگاہی میں آگے کی کیا سوچی ہے
شعر کہو گے،عشق کرو گے،کیا کیا ڈھونگ رچاؤ گے
عالی کس کو فرصت ہوگی ایک تمہی کو رونے کی
جیسے سب یاد آجاتے ہیں تم بھی یاد آ جاؤ گے
۔۔۔۔۔۔۔
اب عالی جی اہلِ سخن کی صحبت سے گھبراتے ہیں
جب کہیں بیٹھنا ہی پڑ جائے گیت پرانے گاتے ہیں
گیت پرانے سوہنے لیکن کب تک گائے جاؤ گے
ایک سے بول اور ایک سی لَے سے کن رس بھی تھک جاتے ہیں
یہ سب شکوے سر آنکھوں پر،لیکن یارو! سوچو تو
ایسے خوش گویانِ سخن کیوں چپ ہو کر رہ جاتے ہیں
کچھ تو ایسے جرم تھے جن کا رنگ کچھ ایسا گہرا ہے
لوگ جتائیں یا نہ جتائیں، یہ خود سے شرماتے ہیں
کچھ ناکام ارادوں نے بھی ہمت توڑ کے رکھ دی ہے'
کچھ اپنی کم مائیگیوں کے خوف سے بھی گھبراتے ہیں
نوعمری میں عشق کی گلیاں اندھےپن سے مل نہ سکیں
اور اب جاتی عمر کے سائے کوسوں دور بھگاتے ہیں
بےتقصیر وہ جیون ساتھی ایسا ساتھ نبھاتی ہے
اس کو کوئی بھی دکھ دینے کے دھیان سے ہی تھراتے ہیں
اب جو بھولے بھٹکے کوئی دعوتِ شوق آ جاتی ہے
کیا کیا وعدے،کیا کیا وہم اور کیا کیا دھیان ستاتے ہٰیں
ایسی نیند بھی لے نہیں سکتے جس سے اٹھنا مشکل ہو
بھولے بھالے چاہنے والے بچے روز جگاتے ہیں
جب سے چین میں گھوم آئے ہیں بےچینی سی رہتی ہے
کیا کچھ پایا،کیا نہیں،پایا کچھ بھی کہہ نہیں پاتے ہیں
جس دنیا کے خواب کتابوں اور قصوں میں دیکھے تھے
وہ نہ ملی اور یہ سب کو وہی خواب دکھاتے ہیں
۔۔۔
میری ڈائری سے۔۔
جس میں جناب جمیل الدین عالی کے مارچ 1986 کے دستخظ ثبت ہیں تو اسی صفحے پر تقریباً انتیس سال بعد اُن کے بیٹے راجو جمیل کے دستخظ بھی ہیں۔
 

"گرہ در گرہ"

مرد اور عورت کے بیچ بہت سے رشتے اور گرہ درگرہ تعلق ہوتے ہیں۔ہر رشتہ ایک دوسرے رشتے میں خود کو بدلتا ہوا اور ہرتعلق ایک اور نامعلوم سمت کی جانب سفر کرتا ہوا۔ہررشتے کی بنیاد اگرجسمانی تعلق سے سر اُبھارتی ہے تو ہر تعلق کی جڑیں ذہنی وقلبی رشتے سے پھوٹتی ہیں۔رشتے جسمانی ہم آہنگی کی بدولت قائم ہوتے ہیں تو تعلق ذہنی ہم آہنگی کے بغیر کبھی پروان نہیں چڑھ سکتے۔جسمانی تعلق کا ہم صرف ایک شخص کے حوالے سے ایک ہی مطلب نکالتے ہیں اسی لیے لکھنے میں ہچکچاہٹ بھی محسوس کرتے ہیں ورنہ دیکھا جائے تو انسان کے دوسرے انسانوں سے صرف جسم بانٹنے کے رشتے ہی تو ہوتے ہیں جو ہر رشتے کی بنیاد رکھتے ہیں۔ اجنبی مرد اورعورت شادی کےتعلق کے بعد جب ایک خاندان کی بنیاد رکھتے ہیں تو مرد کے حوالے سے ماں،بہن اور بیٹی کے رشتے وجود میں آتے ہیں اسی طرح عورت کی زندگی میں باپ، بھائی اور بیٹے کا رشتہ کبھی ختم نہ ہونے والا تعلق بن جاتا ہے۔
۔"رشتے محبت تو دے سکتے ہیں لیکن آسودگی ہمیشہ تعلق سے ملتی ہے چاہے وہ ذہنی ہو یا جسمانی"۔
مقدر کےرشتے ہمیشہ بنے بنائے ملتے ہیں ہمارا ان کی بنت پر  کوئی اختیار نہیں ہوتا۔ ۔۔اُن کے لیےکوئی بھاگ دَوڑنہیں۔۔۔جِگ سا پزل کی طرح ایک دوسرے سے جُڑتے ہوئے۔۔۔ایک دوسرے کے لیے لازم وملزوم ۔ تعلُق ہمیشہ اپنے دائرے سے باہر قائم کیا جاتا ہے۔ اس میں اپنی جگہ تلاش کرنا پڑتی ہے۔۔۔ ایک دوسرے کو جگہ دینی ہوتی ہے۔اس کے لیے جاننا معنی نہیں رکھتا،حسب نسب،بڑائی چھوٹائی اس کا کوئی معیارنہیں۔یہ ایک نگاہ کا کمال ہےجوجسم کے پاراترے تو بظاہربےجوڑ تعلق دُنیا کے کامیاب ساتھ بن جاتے ہیں۔اگر یہ نگاہ روح پر پڑ جائے توانسان تکمیلِ ذات کے اُس مقام پرجا پُہنچتا ہے جہاں دنیا کی ہر خوشی معمولی دکھائی دیتی ہے۔
رشتے صرف ایک بات پر فوقیت رکھتے ہیں ہےاور وہ ہے"اعتماد "انسان رشتے پراندھادُھند اعتماد کرتا ہے جبکہ تعلق پرکبھی اعتبارنہیں آتا۔زندگی کے اس سفرمیں مات ہوتی ہے تو رشتوں کے ٹھکرائے ہوئے ساری عمر سسکتے رہتے ہیں،بےچین رہتے ہیں۔اگر تعلق دھوکا دے جائے تو اگرچہ ادھورے تو رہ جاتے ہیں لیکن اپنے اندر سے شانت ہوتے ہیں کہ ہمیں کون سا اعتبار آیا تھا۔
انسانی فہم کے یقین کے ساتھ بظاہر ذہنی ہم آہنگی جسمانی سے زیادہ ضروری دکھتی ہےکہ اول اگر ہو تو دوسری خودبخود مطمئن    ہو جاتی ہےاگراس بات کو حتمی مان لیا جائے تو پھرذہنی ہم آہنگی والے رشتے ناکام کیوں ہو جاتے ہیں ؟اورمکمل جسمانی ہم آہنگی اور محبت کے باوجود انسان کی تلاش کیوں جاری رہتی ہے؟کیا یہ محض انسان کے کردار کی خرابی ہے؟یہ بہت اہم سوال ہے جن کا جواب جاننا اس لیے بھی ضروری ہے کہ ہم اسے محض اپنے کردار کی کجی کہہ کر دامن نہیں چھڑا سکتے۔
سرسری نگاہ سے جائزہ لیا جائے تو مردعورت خواہ کاغذ کے بندھن میں ساتھ رہیں یا کسی ان دیکھے تعلق کی ڈور میں بندھ جائیں ایک دوسرے کی ضرورت بن جاتے ہیں۔وہ اپنی اپنی ضرورتیںِ،خواہشیں ،حسرتیں اور جبلتیں ہرانداز میں ایک دوسرے کے حوالے کرنے کو بھی آزاد ہوتے ہیں۔جسمانی تعلقات اور ذہنی رشتے قائم کرنا انسانی فطرت اور جبلت کاحصہ ہے جس میں محبت اور کشش کو ایک اہم عنصر سمجھا جاتا ہے۔چاہ کی ڈور میں گندھے ایسے جذبے ہیں جن کے سرے تلاش کرنا اکثراوقات ناممکن دکھتا ہے۔جسمانی ہم آہنگی اور محبت دو متضاد چیزیں ہیں۔اسی طرح محبت کے بغیر محض ذہنی ہم آہنگی فقط اپنے آپ کو دھوکا دینے یا راہِ فرار اختیار کرنے کی بات ہے۔درحقیقت ذہنی ہم آہنگی کا بُت ٹوٹنے کے بعد انسان کسی کو کچھ کہنے کے قابل نہیں رہتا۔مکمل جسمانی آسودگی ذہنی تعلق کے بنا صرف تھکن اور بوجھ ہے اور صرف ذہنی قربت ایسے ریشمی دھاگوں کا فریب بن جاتی ہے جس کی گرہوں کو کھوجتے انگلیاں تھکنے لگتی ہیں لیکن کہیں سے فرار کے سرے نہیں ملتے۔ایسی جامد خاموشی روح کو اپنے حصار میں جکڑتی ہے کہ انسان کسی کو پکارنے کے قابل رہتا ہےاور نہ اپنے آپ سے کچھ کہنے کی ہمت رکھتا ہے۔اس بات کو جناب اشفاق احمد نے اپنی کتاب "سفردرسفر(صفحہ67)" میں یوں بیان کیا۔
۔"جب انسانوں کے درمیان جسم کی محبت ہو تو وہ ایک دوسرے کی طرف مقناطیس کی طرح کھچنے لگتے ہیں جب ان میں آگہی اور دانش کی قدر مشترک ہوتو وہ لمبی سیروں ،لمبے راستوں اور لمبے سفر کے ساتھی بن جاتے ہیں اور جب ان کی محبت میں روحانیت کا ابر اُتر آئے تو وہ بستروں کے انبار میں دو معصوم بچوں کی طرح ٹانسے کی چادریں بن جاتے ہیں جس سے ان کی رہائی مشکل ہو جاتی ہے وہ یا تو چیخ چیخ کر مدد کرنے والوں کو بلاتے ہیں یا دم گھٹنے سے مر جاتے ہیں"۔
اِسی اُلجھن میں زندگی سرکتی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ تعلقات خواہ کسی بھی انسان سے کسی بھی سطح پر کیوں نہ ہوں کچھ وقت گزرنے کے بعد اپنی اصل میں بےرنگ ہو جاتے ہیں۔اکثراوقات ذہنی ہم آہنگی بھی ذہنی لاتعلقی میں بدلتے دیر نہیں لگاتی۔
اسباقِ زندگی کے رٹے لگاتے لگاتے ساری عمرعمرِرائیگاں کی طرح گزار کر انسان آخر میں خالی ہاتھ خالی ذہن رہ جاتا ہے۔محبت نفرت،غرض بےغرضی ہر چیز بےمعنی دکھتی ہے۔اس سمے اگر ہم ذہن ودل کی کشادگی کے ساتھ اس فانی دنیا میں فانی جذبوں کی رمز سمجھنے کی کوشش کریں تو دکھائی دیتا ہے کہ بحیثیت انسان ہمارے دوسرے انسانوں سے گر جسمانی رشتے ہیں تو محبت کے تعلق بھی ہوتے ہیں لیکن ان سے ہٹ کر ایک احساس کا تعلق بھی ہوتا ہے جسے ہم مانتے تو ہیں لیکن سمجھنے میں ناکام رہتے ہیں۔احساس کا یہ تعلق جسمانی اور ذہنی ہم آہنگی سے بھی بہت آگے ہے۔حد تو یہ ہے کہ احساس کی قربت کی خوشبو وقت اور فاصلوں کے حساب کتاب کی بھی پابند نہیں اورنہ ہی جنسِ مخالف کی جانب فطری کشش اس کا سبب بنتی ہے۔مجازی تسکین کے اس احساس کو سمجھنے کے لیے ہمیں مالک ِحقیقی اور انسان کے اسی ربط پر غور کرنا ہے جس کی وضاحت قران پاک کی کئی آیات میں ملتی ہےاور اس کے ساتھ ساتھ ہمیں کبھی اپنے جسمانی اور روحانی رشتوں کا تقابل نہیں کرنا ورنہ شدید قسم کی الجھن کا شکار ہو جائیں گے۔ہرجذبے،ہراحساس کو سمجھنا اور ہر رشتے میں توازن برقرار رکھنا  نہ صرف ہمارے سکون  بلکہ اس کی بقا کے لیے بھی ضروری ہے۔
کچھ رشتے یا تعلق ہم بہت ناپ تول کر بناتے ہیں اورکچھ بغیرکسی حساب کتاب کے خود ہی بن جاتے ہیں۔خون کے تعلق سے جُڑے اٹوٹ رشتے ہوں یا روح کی تسکین کا حاصل غیرمرئی تعلق،وقت کی کسوٹی سب بھید کھول دیتی ہے۔رشتے روگ بن جائیں تو زندگی چاٹ جاتے ہیں اور تعلق روگ بن جائے تو مقصدِ حیات سے دُور کر دیتا ہے۔
 رشتے ایک بار قائم ہو جائیں تو پھر اُن کو نبھانا پڑتا ہے،سنوارنا پڑتا ہے،بہلانا پڑتا ہے،نکھارنا پڑتا ہے۔یہ زندگی کے وہ  دھاگے ہیں جو اُلجھ جائیں تو اُن کو بڑے رسان سے ایک ایک کر کے الگ کرنا پڑتا ہے کہ  جتنے ریشمی دِکھتے ہیں اُتنے ہی نازک بھی ہوتے ہیں،جتنے کُھردرے لگتے ہیں اُتنا ہی زخمی بھی کر سکتے ہیں،جتنے بکھرے ملتے ہیں اُتنا ہی اُن کو سنبھالنا مشکل ہو جاتا ہے۔بہرحال زندگی کی تصویر کی بُنت  ہموار  نقوش سے کرنا ہے تو ان دھاگوں کے سروں کو تلاش کرنے میں ہی عافیت ہے جبکہ تعلقات میں ایسا نہیں ہوتا اُن کے الجھے سِرے اگر سنور نہ رہے ہوں تو وقت کی چادر میں ڈھانپے بھی جا سکتے ہیں ،اُن کو بعینٰہہ اِسی طرح چھوڑ کر بھی اپنے ساتھ رکھا جا سکتا ہے یا پھر جتنا جلد ہوسکے کنارہ کشی کا اختیار بھی اپنے پاس رہتا ہے بغیر کسی جھجھک کے۔
حرفِ آخر

مقدر سے بنے والے رشتے چیزوں کی طرح ہوتے ہیں۔ بنانے سے پہلے خواہ کتنی ہی چھان پھٹک کر لو، عمر کے تجربے سے جانچ لو،رنگ ونقش کی ضمانت کی قسمیں اُٹھوا لو۔جب تک قریب سے برتنے کی نوبت نہیں آتی۔سب ہوائی اور فرضی باتیں ہی رہتی ہیں۔اصل امتحان تو یہ ہے کہ زندگی کے سودے میں سب خسارا جاننے،سمجھنے کے بعد کبھی تو اپنی زندگی کی قیمت پر،کبھی خود سے وابستہ خونی رشتوں کے سکون کی خاطر"آخری حد" تک سمجھوتے کا کڑوا گھونٹ امرت جان کر پینا ہے۔ بس "آخری حد" کی سمجھ ہی زندگی کہانی کی کامیابی کی ضمانت ہے۔خواہ یہ آخری حد زندگی کے آخری سانس تک چلے۔

بدھ, نومبر 04, 2015

سرورق کتب۔۔۔۔مستنصرحسین تارڑ



کالم۔۔۔صادقین، ایم ایف حسین سے لے کر عمران قریشی تک کا سفر ــــ مستنصر حسین تارڑ
۔22 جولائی   2015
پچھلے دنوں تقریباً پچیس برس بعد میرے افسانوں کا دوسرا مجموعہ"15۔۔ کہانیاں"شائع ہوا تو اس کےسرورق  کو بہت سے پڑھنے والوں نے پسند کیا،وہاں کچھ  لوگ ایسے تھے جنہوں نے  باقاعدہ احتجاج کیا کہ سرورق پر خون کے چھینٹے طبع پر گراں گزرتے ہیں۔ اتنا خون چھڑکنے کی کیا ضرورت تھی، تو میں نے ان سے گزارش کی کہ ادبی کتابوں کے سرورق بھی اس عہد کے سیاسی، ثقافتی اور مذہبی رجحانات کی نمائندگی کرتے ہیں، اس مجموعے میں چونکہ بہت سی کہانیاں دہشت گردی اور مذہبی تعصب کے نتیجے میں ہونے والے قتل و غارت کو بیان کرتی ہیں، سانحہ بابوسر ٹاپ، سوات میں رونما ہونے والے پرتشدد واقعات، پشاور کے بچوں کے قتل عام اور ایک مسیحی جوڑے کو زندہ جلا دینے والے بہیمانہ سانحے کے بارے میں ہیں تو سرورق پر خون کے چھینٹوں کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے۔
 البتہ آپ اگر غور کریں تو خون کے ان چھینٹوں میں کہیں کہیں گلاب کے سرخ پھول بھی کھلتے نظر آتے ہیں یعنی کم از کم میں اب بھی امید کے شجر سے پیوستہ ہوں اور امیدِ بہار رکھتا ہوں۔ ’’15 کہانیاں‘‘ کا یہ سرورق پاکستان کے بین الاقوامی شہرت یافتہ مصور عمران قریشی کی تخلیق ہے جس کی تصویریں دنیا کی بیشتر آرٹ گیلریوں میں آویزاں ہیں یہاں تک کہ میٹرو پالٹن میوزیم نیویارک کی چھت پراس کا ایک خصوصی شو بھی منعقد کیا گیا تھا اورآج اس کی تصویریں بین الاقوامی مارکیٹ میں ہزاروں ڈالروں میں فروخت ہوتی ہیں۔۔۔ وہ اس عہد کا نمائندہ مصور ہے اور مجھے فخر ہے کہ اس نے بغیر کسی معاوضے کے میرے افسانوں کے مجموعے کا سرورق تخلیق کیا۔
 ادیبوں اور شاعروں کی نسبت میں مصوروں سے زیادہ قریب رہا ہوں اور اسی لئے میری کتابوں کے سرورق پاکستانی مصوری کی ایک نمایاں آرٹ گیلری کی صورت اختیار کر گئے ہیں، اور اپنے ادوار کی نمائندگی کرتے ہیں۔ مجھے اپنی نمائش مقصود نہیں میں صرف پاکستان کے ان عظیم مصوروں کو ہدیۂ تبریک پیش کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے بغیر کسی معاوضے کے میری کتابوں کے سرورق بنائے۔۔۔ میری کتابوں کی تعداد ساٹھ سے بڑھ چکی ہے ، اس لئے سب کا تذکرہ ممکن نہیں، سرورق کے حوالے سے جو سفرنامے، ناول اور کالم وغیرہ اہم ہیں ان کے مصوروں کا مختصر تذکرہ کروں گا۔
۔ 19711ء میں شائع ہونے والے میرے پہلے سفرنامے’نکلے تری تلاش میں‘‘کا سرورق مصورِمشرق عبدالرحمن چغتائی کا ایک انوکھا شاہکار تھا۔ چغتائی صاحب کے ساتھ میری کبھی ملاقات نہ ہوئی۔ یہ کمال مقبول جہانگیر کا تھا کہ انہوں نے میرے سفرنامے کے کمالات کے بارے میں ایسی لچھے دار گفتگو کی کہ چغتائی صاحب نے ٹائٹل بنانے کی ہامی بھری۔۔۔ سرورق کی یہ ڈرائنگ آج بھی میری سٹڈی ٹیبل کے پہلو میں آویزں ہے، اسی سفرنامے کے دوسرے ایڈیشن کے لئے صادقین نے زبردست سرورق بنایا۔
 میری پورٹریٹ کے علاوہ بیس سے زیادہ خاکے بھی تصویر کئے، ان میں سے کچھ خاکے شائع نہ ہوسکے کہ ان میں صادقین خواتین کو کپڑے پہنانا بھول گئے تھے، ازاں بعد ’’نکلے تری تلاش میں‘‘ کے درجنوں ایڈیشن شائع ہوئے جن کے سرورق معروف مصوروں نے تخلیق کئے۔۔۔
 ۔"اندلس میں اجنبی"کا پہلا سرورق جناب آزر زوبی نے بنایا۔
دوسرے ایٖڈیشن  کا سرورق فیض صاحب کی بیٹی سلیمہ ہاشمی نے اور تیسرے ایڈیشن کے ماتھے پر لمحۂ موجود میں پاکستان کے سب سے بڑے مصور سعید اختر کا ایک شاہکار تھا۔۔۔ ’’خانہ بدوش‘‘کا ٹائٹل جو میری آوارگیوں کا ایک نقش تھا وہ بھی سعید اختر کا تخلیق تھا۔۔۔ ایک مرتبہ پھر ’’بہاؤ‘‘ کے پہلے ایڈیشن کا سرورق سعید اخترنے بنایا اور پھر ذوالفقار تابش نے اپنے مخصوص انداز میں اپنے جوہر دکھائے۔۔۔’’راکھ‘‘ کا سرورق جدید مصوری کے نمائندہ ترین مصور قدوس مرزا نے تخلیق کیا۔ میں قدرے شرمندگی سے عرض کرتا ہوں کہ میری بیشتر کتابوں کے چونکہ درجنوں ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں اس لئے ممکن نہیں کہ میں ہر مصور کے سرورق کا تذکرہ کر سکوں۔۔’’قربت مرگ میں محبت‘‘کے پہلے ایڈیشن کے لئے سعید اختر اور نذیر احمد نے مشترکہ طور پر ایک تصویر بنائی۔۔۔ ’’خس و خاشاک زمانے‘‘کے دوسرے ایڈیشن پر غلام رسول کمال کے مصور ہیں۔۔۔ بشیر فراز نے بھی میرے لئے خصوصی سرورق تیار کئے، اور ہاں بعدازاں’’نکلے تری تلاش میں‘‘ کے لئے عبدالرحمن چغتائی کے بھتیجے اور میرے دوست عبدالوحید چغتائی نے کیا ہی دلکش سرورق بنایا۔۔۔ میرے ناول ’’پیار کا پہلا شہر‘‘ کے تادم تحریر ساٹھ ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں اور اس کے سروق کی تزئین متعدد نامور مصوروں نے کی لیکن ان میں کلاسیک سعید اختر کی پاسکل کی دلکش پورٹریٹ کو قرار دیا گیا۔۔۔’’نیپال نگری‘‘ کا سرورق لینڈ سکیپ کے باکمال مصور نذیراحمد نے بنایا۔
 ایک زمانہ تھا جب ادبی کتابوں کے سرورق کے لئے ان زمانوں کے بڑے مصور بخوشی اپنے رنگ پیش کرتے تھے اور میں بھی بہت تردد کیا کرتا تھا۔ اور اب تو یہ ہے کہ میری بیشتر کتابوں کے سرورق کمپیوٹر کی مصوری اور تزئین سے آراستہ ہوتے ہیں کہ یہ کام آسان ہو چکا ہے۔ کتاب کی روح سرورق میں ہوتی ہے اور ایک مدت سے سرورق بے روح ہو چکے ہیں۔
 اور ہاں میں بھولنے کو تھا میرے اولین ناولٹ ’’فاختہ‘‘ کے تازہ ایڈیشن پر ہندوستان کے سب سے بڑے مصور ایم ایف حسین کے ہاتھوں سے تخلیق کردہ ایک فاختہ کا نقش ہے اور اس سرورق کے لئے میں نے حسین صاحب کی بہت منت سماجت کی تھی۔۔۔ اور حسین کا بنایا ہوا فاختہ کا یہ نقش بھی میری سٹڈی ٹیبل کے پہلو میں چغتائی صاحب کی ڈرائنگ کے برابر میں آویزاں ہے، اور پھر ایک عجیب اتفاق ہوا، مسجد نبویؐ میں منبر رسولؐ کی قربت میں نفل ادا کرتے ہوئے میں سلام پھیرتا ہوں اور دائیں جانب ایک سفید ریش بوڑھا روتا ہوا نظر آتا ہے اور اس کی مشابہت شناسا سی ہے اور وہ ایم ایف حسین ہے۔ اس کے برابر میں اس کا بھتیجا بیٹھا ہے اور وہ اپنے چچا کو قرآن پاک پڑھ کرسنا رہا ہے۔ حسین کی بنائی ہوئی ہندو دیو مالا کی کچھ دیویوں کی برہنہ تصویریں بنانے پر ہندو علمائے کرام مشتعل ہو گئے کہ ہائیں ایک مسلمان کی یہ جرأت، حسین کو اپنی جان بچانے کے لئے ہندوستان سے فرار ہونا پڑا۔۔۔ قطر نے اسے خوش آمدید کہہ کر اپنی شہریت سے نوازا۔ ظاہر ہے میں مسجد نبویؐ میں حسین کی عبادت میں مخل ہوا، انہیں میں یاد آگیااور ہم نے کچھ باتیں کیں۔ حسین کچھ عرصہ بعد دربدری کی حالت میں لندن میں مر گیا۔
 چنانچہ پچھلے پینتالیس برس میں میری جو ساٹھ سے تجاوز کرتی کتابیں شائع ہوئی ہیں ان کے سرورق اپنے زمانوں کی نمائندگی کرتے ہیں اور اب اگر ’’15 کہانیاں‘‘ کے سرورق پر خون کے چھینٹے ہیں تو کیا یہ ہمارے عہد کی تصویر نہیں ہیں؟

"سیٹل اور سیٹل منٹ"

سورۂ فرقان(25) آیت 2۔۔   وَخَلَقَ كُلَّ شَىْءٍ فَقَدَّرَهٝ تَقْدِيْـرًا ترجمہ۔ اور جس نے ہر شے کو پیدا کیا اور پھر اس کے لیے ایک اند...