25 جنوری لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
25 جنوری لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

بدھ, جنوری 25, 2023

"خواب سے حسرت تک"

اس دنیا میں اربوں انسان ہیں ہر ایک دوسرے سے مختلف ۔اِسی طرح اُن کے خواب،خواہشیں اور حسرتیں بھی جُدا ٹھہریں ۔ ہم عام انسان ہیں اور ہماری عام سی خواہشات۔۔۔ زندگی کے میلے میں دوسروں کے لیے آسانیاں بہم پہنچانے کی سعی کرتے چُپکے سے اپنی پٹاری میں بھی اپنے خواب جمع کرتے جاتے ہیں اچھے وقتوں کے۔۔کبھی مہربان موسموں کے ۔۔

ایک وقت آتا ہے اور ان شااللہ ضرور آتا ہے جب ہمارے خواب حقیقت بن جاتے ہیں ،خواہش پوری ہو جاتی ہے،حسرت سیراب ہو جاتی ہے۔ کبھی تو یوں لگتا ہے کہ جیسے کوئی پلیٹ میں رکھ کر پیش کر رہا ہے لیکن اُس وقت ہم پر اپنے خواب ،اپنی خواہش اور اپنی طلب کی قدروقیمت بھی واضح ہو جاتی ہے۔وہ خواب جنہیں ہم تاعمر اپنی زندگی کی خوشی کی قیمت پر پالتے رہےاب قطعاً بےمعنی بلکہ لایعنی دِکھتے ہیں ۔

زندگی کی شطرنج کا اصل مہرہ وقت ہے۔وہ جب اپنی چال چلتا ہے تو ہر شے کی اصلیت بیان کرتا ہے۔ہم اچھے وقت کے انتظار میں عمر گزار دیتے ہیں۔ہر کسی کے مقدر میں اچھا وقت نہیں آتا ۔لیکن یوں بھی ہوتا ہے کہ جن کے نصیب میں اچھاوقت آ جائے تو پھر پتہ چلتا ہے کہ اُن کا اپنا وقت تو ختم ہو گیا۔

زندگی کے رشتوں کی ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہونے کے بعد ہمارے خیال میں جب ہماری اپنی ذات کے لیے ہماری اپنی زندگی شروع ہوتی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ زندگی تو راستے میں ہی کہیں تمام ہوگئی تھی۔ہم اپنے سارے رنگوں کو اپنی پلکوں میں چھپائے خود سے وابستہ رشتوں کی تصویر میں رنگ بھرنے کی کوشش کرتے ہیں ،اُن کی مکمل تصویرکشی کے بعد جب خود پر نظر پڑتی ہے تو معلوم ہوتا ہےاپنے سارے رنگ تو عمر کے بڑھتے سالوں کی بارشوں میں مُٹھی میں دبی تتلی کی طرح بکھر گئے ،اب تو صرف دو رنگ بچے ہیں ، آگہی کا روشن سفید اور واپسی کا "بلیک ہول"۔ زندگی کی باگ دوڑ (جو پہلے بھی اپنے ہاتھ میں کہاں تھی بس یقین کا دھوکا تھا) اپنے ہاتھ سے نکل چُکی۔اب تو بس انتظار ہے نقارےکا ۔ویسے تو یہاں کسی کا نہیں پتہ ۔کہتے ہیں نا کہ آنے کی ترتیب ہے جانے کی نہیں ۔لیکن ایک جا نشینی اپنے بڑوں کی بھی ہےکہ اُن کے جانے کے بعد اب ہم اُن کی جگہ پر ہیں ۔۔ انسان بھی عجیب ہے کہ دنیا کے تخت کی جانشینی کے لیے بےتاب رہتا ہے اور واپسی کے تختے کی جانشینی کی سوچ کو بھی قریب نہیں آنے دیتا۔

عمر کے بڑھتے ادوار میں انسانی اہلیت اور حسرتِ زندگی کی کسی نامعلوم لکھاری نے کیا خوب منظرکشی کی ہے۔۔۔۔

چالیس  سال کی عمر میں زیادہ پڑھے لکھے اور کم پڑھے لکھے کا فرق ختم ہو جاتا ہے۔ بعض دفعہ تو کم تعلیم یافتہ افراد کہیں زیادہ پیسے کماتے ہیں۔

 پچاس سال کی عمر میں بدصورتی اور خوبصورتی کا فرق ختم ہو جاتا ہے۔ اپنے زمانے کے حسین ترین انسان کے چہرے پر بھی جھریاں نظر آنے لگتی ہے۔

ساٹھ سال کی عمر میں بڑے عہدے اور چھوٹے عہدے کی حیثیت ختم ہو جاتی ہے۔ سر پھرے بیوروکریٹ کو ریٹائرمنٹ کے بعد دفتر کا چپڑاسی چوکیدار بھی سلام نہیں کرتا۔

ستر سال کی عمر میں چھوٹے گھر اور بڑے گھر کا فرق ختم ہوجاتا ہے۔ گھٹنوں کی درد اور کمر کی تکلیف کی وجہ سے صرف بیٹھنے کی جگہ ہی تو چاہئیے۔

اسی سال کی عمر میں پیسے کی قدر و قیمت ختم ہوجاتی ہے۔ اگر اکاونٹ میں کروڑوں اور جیب میں لاکھوں روپے بھی ہوں تو کونسا سکھ خریدلو گے؟

نوے  سال کی عمر میں سونا اور جاگنا ایک برابر ہو جاتا ہے۔ جاگ کر بھی کیا تیر مار لو گے؟؟

 حرفِ آخر

 زندگی ہماری کبھی بھی نہیں ہوتی  ۔ہم  فقط  اس کے ساتھ کے احساس میں  اسے گزار دیتے ہیں۔

پیر, جنوری 24, 2022

"بچپن سےپچپن تک"

"بچپن سے پچپن تک"

پچیس جنوری ۔۔۔1967۔
پچیس جنوری۔۔۔2022۔

"جانا توبس یہ جانا کہ کچھ نہیں جانا"

بچپن اور پچپن کے بیچ لفظی طور پر دو "نقطوں" کا یہ فرق بچپن کی نادانی اور پچپن کی دانائی کا اُلٹ پھیر ہے یا پھر ہماری زندگی کے ادوار کو تین لفظوں میں سموتی ۔۔۔ بچہ،بڑا اور بوڑھا کی مثلث۔

بچپن کی نادانی سُنی سنائی بات ہی کہی جا سکتی ہے لیکن پچپن تک آتے آتے اور زندگی کے بےشمار اسباق ملتے ملتے یہ بات پتھر پر لکیر کی طرح ذہن پر ثبت ہو جاتی ہے کہ بچپن کی نادانی بڑوں کی محبتوں اور شفقتوں کے سائے تلے بادِصبا کے جھونکے کی طرح چھو کر گزر گئی لیکن پچپن کی دانائی صرف اور صرف اپنی ذات کے حوالے سے ہی سمجھی جائے تو بہتر ہے کہ اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہونے کے بعد دنیاوی رشتوں کی نظر میں عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ بڑوں میں عقل کی کمی ہونے لگتی ہے۔

بچپن میں بڑے ہاتھ تھام کر چلنا سکھاتے ہیں ۔زندگی کے ابتدائی اسباق ذہن کی کوری سلیٹ پرنقش کرتے ہیں تو پچپن میں چھوٹے ہاتھ جھٹک کر ہمارا اپنے آپ پر یقین بھی ختم کرنے کے درپے ہوتے ہیں۔اس سمے طویل سفرِزندگی کے ان منٹ اسباق ریت پر لکھی تحریر دِکھتے ہیں۔ عمرِرائیگاں کے احساس کی اذیت کو کم کرنے میں اصل کردار ذہنی برداشت کا ہے جو زندگی کے سکون اور بےسکونی کا تعین کرتی ہے۔ ذہنی برداشت ،اپنے آپ پر یقین ہی وہ اصل دانائی ہے جو انسان کو مایوسی سے بچاتی ہے۔

انسان سدا سے انسانوں کا اور انسانوں کے وسیلے سےبنے رشتوں کا محتاج رہا ہے۔ دنیا میں آنکھ کھولنے کے بعد "زندہ رہنے "کے لیے اُسے کسی تعلق کسی رشتے سے بےنیاز سہاروں کی ضرورت پڑتی ہے۔وقت گزرتا ہے یہاں تک کہ وہ خود کسی کو سہارا دینے،کسی کاسہارا بننےکے قابل ہو جاتا ہے۔ ۔پھر ایک وقت ایساآتا ہے کہ کسی رشتے کسی تعلق سے ہٹ کر اُسے زندگی گزارنے کے لیے سہاروں کی ضرورت پڑتی ہے۔ اب یہ سہارے اُسے خود تلاش کرنا پڑتے ہیں۔اس کے اپنے خونی رشتے کہیں پیچھے رہ جاتے ہیں اور اپنی دنیا میں مگن ہوجاتے ہیں۔جذباتی اور معاشرتی سہاروں کے بنیادی عوامل سے بڑھ کر مالی وسائل بہت اہمیت اختیار کر جاتے ہیں۔اپنی جسمانی و ذہنی صحت کا خیال رکھنے اور اس کے مسائل سے باخبر رہنے کے باوجود زندگی کے سفر میں عمر کے ہندسے بڑھنے کے ساتھ ہی جسمانی مشینری میں کمزوریاں نمایاں ہونے لگتی ہیں۔ انسان خواہ کتنا ہی صحت مند ،مال دار او ر سمجھ دار کیوں نہ ہو ، اُسے عمر میں پچاس سال کا سنگِ میل چھونے کے بعد جسم میں کہیں نہ کہیں دردوں،ساٹھ برس کے بعدبیماری کی علامات ، ستر برس کے بعد بیماری اور اُس کے اثرات اور اسی برس کے بعد کبھی بھی کسی بھی حادثے کے لیے ذہنی طور پر تیار رہنا چاہیے ۔

بات بچپن سے شروع ہو یا پچپن تک آ کر ختم کی جائے،یہ اہم نہیں ۔اہم یہ ہے کہ بچپن ہو یا پچپن ہم نے ذاتی طور پر زندگی سے کیا سیکھا۔ یہاں یہ بھی اہم نہیں کہ زندگی نے کیا سبق دیئےکہ زندگی تو ہر گھڑی ہر آن ہماری آخری سانس تک ایک نیا سبق سامنے رکھتی چلی جاتی ہے۔ اب یہ ہم پر ہے کہ ہم اس میں سے کتنا ذہن نشیں کرتے ہیں ؟ کتنا ازبر ہوتا ہے ؟ اور اس پر کس حد تک عمل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟۔



بدھ, جنوری 25, 2017

"میرے پچاس سال"

جنوری 25۔۔۔1967
جنوری 25۔۔۔2017
پچاس سال۔۔۔نصف صدی۔۔۔بظاہر زندگی کی بےسمت بہتی جھیل میں پچاسواں بےضرر کنکر۔۔۔دیکھا جائے تودو صدیوں کے درمیان ہلکورے لیتی عمر کی کشتی نے وقت کے سمندر میں صدیوں کا سفر طے کر لیا ۔دو صدیوں کے ملاپ سے بنتی پچاس برسوں کی ایسی مالا۔۔۔جس میں  اپنے بڑوں سے سنے گئے اور کتابوں کی زبان سے محسوس کیے گذرنے والی صدی کے پکے رنگ عکس کرتے ہیں تو کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کی بدولت آنے والے دور  کے انوکھے رنگ نظریں خیرہ کیے دیتے  ہیں۔
زندگی اے زندگی!تونےبچھڑ جانے والوں کے تجربات،احساسات اور مشاہدات جذب کیے تو اب آنے والی نسل کے لیے خدشات تیرا دامن تھامے ہیں۔پچاس برس کا سفر  کیا ہے گویا سرپٹ بھاگتی زندگی کی  ریل گاڑی پچاس اسٹیشنوں پر پل بھر کر رُکی ہو۔بہت سوں کی تو یاد بھی باقی نہیں،بس یہ ہوا کہ ہر پڑاؤ پر سامان میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔اب جب طوق گلےتک آن پہنچے تو سوچنا پڑ گیا کہ اگلے کسی بھی اسٹیشن پر اترنا پڑ گیا توکس بوجھ سےکس طور جان چھوٹے گی اور کیا سامان ساتھ رہ جائے گا۔حد ہو گئی۔۔۔۔زندگی خواہ کتنی ہی بےکار اور لاحاصل ہی کیوں نہ گذرے،واپسی کی گھٹیاں سنائی دینے لگیں تو اُداسی اور مایوسی کی دُھول یوں قدموں سے لپٹتی ہے جیسے کچھ سانسیں اُدھار کی ملنے سےنہ جانے عظمت وکامیابی کا کون سا ماؤنٹ ایورسٹ سر کیا جا سکے گا۔
کوئی کچھ بھی کہے،خواہ مخالفت میں کتنے ہی مضبوط دلائل کیوں نہ دے لیکن یہ حقیقت ہے کہ   زندگی کے سرکتے ماہ وسال  کی اونچی نیچی پگڈنڈیوں پر صبح شام کرتے پچاس کا سنگِ میل ایک ایساپڑاؤہے جس کے بعد چاہتے ہوئے یا نہ چاہتے ہوئے ہر صورت اترائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔واپسی کے سفر کے آغاز کےبعد انسان خواہ کتنا ہی کامیابی کے جھنڈے گاڑ لے،اس کی محنت ومشقت کتنی ہی بارآور کیوں نہ ہوجائے،اُس کی ذہنی صلاحیت کتنےہی آسمان کیوں نہ چھو لے۔اس کے جسمانی قویٰ ہرگزرتےپل نقارۂ کوچ کی صدا لگاتے ہیں،یہ اور بات کہ ہم  میں سے زیادہ تر اس کو سننا ہی نہیں چاہتے یا جان کر انجان بنے رہنے میں بھلاسمجھتے ہیں۔زندگی کےسفر میں صحت وعافیت کے  پچاس برس  ایک پھل دار  درخت پر لگنے والےرسیلےپھل کی  مانند ہوتے ہیں  جسے  اگر بروقت  توڑا نہ جائے تو  اس کا رس اندر ہی اندر  خشک ہونے لگتا ہے، بظاہر وہ کتنا ہی تروتازہ کیوں نہ دکھائی دے۔محترم اشفاق احمد  "من چلے کا سودا "(صفحہ436) میں لکھتے ہیں " خوش رنگ  مطمئن پھول وہ ہوتا ہے جس کی پتیاں بس گرنے  ہی  والی ہوں  "۔
   کتاب زندگی  کے ورق اُلٹتے جب ہم اس کے پچاسویں باب پر پہنچتے ہیں تو وہ ہمارے  نصابِ زندگی کا بہت اہم موڑ ہوتا   ہے،یہاں پہنچ کر اگر پچھلے اسباق ازبر نہ ہوں،ذیلی امتحانات میں کی گئی غلطیوں کا احساس نہ ہو  تو آنے والے آخری  امتحان میں پاس ہونا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔زندگی کی شاہراہ پر  پچاس برس کا سنگِ میل ایک ایسا آئینہ ہے  جسے انسان  کےتجرباتِ زندگی صیقل کرتے ہیں تو رشتوں،تعلقات اور جذبات کے حوالے سے ذہن ودل پر چھائی دھند بھی بہت حد تک  چھٹ جاتی ہے۔آسمانِ دل کی وسعت دکھائی دیتی ہے تو اپنی طاقتِ پرواز کی اصلیت بھی کھل کر سامنے آ جاتی ہے۔ ہم میں سے بہت کم روز روشن کی طرح عیاں اس سچائی کا سامنا کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں ورنہ زیادہ تر  اپنے آئینوں سے منہ چھپاتے دوسروں کی فکر کرتے ہیں  اور یا پھر اپنے چہرے پر  بناوٹ کے غازوں کی تہہ جمائے لاحاصل رقصِ زندگی میں  خسارے کے سودے کرتے چلے جاتے ہیں۔ زندگی سمجھنے سے زیادہ برتنے کی چیز ہے۔ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم ساری عمر کتابِ زندگی سمجھنے میں گزار دیتے ہیں اور المیہ یہ ہے کہ زندگی آخری صفحے کے آخری لفظ سے پہلے سمجھ آ ہی نہیں سکتی جس  لمحے اس کی پہچان آنکھ میں اترتی ہےتو انسان ایک کائنات چھوڑ کر دوسری کائنات کے سفر پر روانہ ہونے کو تیار ہوتاہے۔
گزرے برسوں کے احساسات کو عشروں میں سمیٹا جائے اور ہر عشرےکے کینوس پر بنتی تصویر پر نگاہ ڈالی جائے  تو زندگی کے پہلے دس برس لفظوں اور رشتوں سے خوشیاں کشید کرنے اور ہمیشہ کے لیے اپنی روح میں جذب کرنے کی کیفیت کا عکس تھے۔اگلے دس برس محبتوں کی بےیقینی  کی دھند میں سانس لینے کی کوشش کرتے گذرے تو بیس سے تیس  کا عشرہ یقین کی ایسی خودفراموشی کی نذر ہو گیا جس میں نئے ماحول اور نئے زندگیوں کو پروان چڑھانے میں اپنی ذات،اپنے احساسات اور اپنے جذبات  کہیں کھو کر رہ گئے۔زندگی شاید اسی طرح گزر جاتی کہ تیس سے چالیس کےعشرے کے  بالکل درمیان پینتیس برس ایک اہم موڑ تھا  گویا کسی خواب غفلت نے چونکا دیا ہو۔۔۔یہ کیا ! زندگی تو گزر گئی؟کیا یہی حاصلِ زیست تھا؟  کیا بس یہی آنے کا مقصد تھا ؟ بس اتنی ہی کہانی تھی؟۔ اس دور میں خود سے الجھتے، سوچ کو ان الفاظ میں سمیٹا۔۔
۔" ادھورا خط" سے اقتباس۔۔"یہ کہانی 25 جنوری 2002 سے شروع ہوتی ہے۔جب میں 35 برس کی ہوئی ۔تو گویا خواب ِغفلت سے بیدار ہو گئی۔میں نے سوچنا شروع کیا کہ میں نے کیا کھویا کیا پایا۔ مجھے اب ہر حال میں آگے دیکھنا تھا۔۔35 برس کا سنگِ میل یوں لگا جیسے باقاعدہ کلاسز ختم ہو گئی ہوں اور امتحانوں سے پہلے تیاری کے لیے جو عرصہ ملتا ہے وہ شروع ہو گیا ہو۔ دسمبر تک مجھے ہر حال میں بستر بوریا سمیٹنا تھا۔ ہر چیز نامکمل تھی۔۔۔میں ایک ایسے سوٹ کیس کی طرح تھی جس میں ہر قسم کا سامان اُلٹا سیدھا ٹھسا تھا۔۔۔اُس کو بند کرنا بہت مشکل کام تھا۔۔۔ہر چیز کو قرینے سے رکھنا تھا۔۔۔فالتو سامان نکالنا تھا۔۔۔میں بیرونی پرواز پر جانے والے اُس مسافر کی مانند تھی جس کو ایک خاص وزن تک سامان لے جانے کی اجازت ہوتی ہے۔ ان حالات میں جبکہ میں ڈوب رہی تھی مجھے کسی بھی قابل اعتماد یا ناقابلِ اعتماد سہارے کی تلاش تھی۔۔۔ یقین جانیں میں اس کیفیت میں تھی کہ روشنی کی جستجو میں آگ سے کھیلنے کو بھی تیار تھی"۔

۔۔۔۔۔۔

زندگی کی سیڑھی چڑھتے  عمر کے پینتیسویں پائیدان نے مقناطیس کی طرح  برسوں سے جامد سوچ کو اس طور گرفت  میں لیا کہ برف احساسات کے پگھلنے سے لفظوں کی آبشار جاری ہو گئی لیکن اس خودکلامی کو سمجھنے اور منظم ہونے میں ابھی کچھ وقت  درکار تھا اور یہ وقت دس برسوں پر محیط ہو گیا۔پینتالیس برس کی عمر میں کمپیوٹر سے دوستی ہوئی تو اس نے  ایک وفادار دوست کی طرح  دامنِ دل وسیع کر دیا اور یوں بلاگ ڈائری میں احساس کی رم جھم  جذب ہونے لگی اور دھنک رنگ  فیس بک صفحے اور ٹویٹر کی زینت بنتے چلے گئے۔

نصف صدی کا قصہ تمام ہونے کو ہے۔اللہ بس خاتمہ ایمان پر کرے آمین۔زندگی سے اور کچھ بھی نہیں چاہیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گزرے برسوں کی کتھا،کچھ یادیں۔۔۔میری بھوری ڈائری سے بلاگ ڈائری میں۔۔۔۔۔
٭خلیل جبران۔۔۔۔(1982)۔۔۔سوچ جزیرے پر پہلی کشتی
٭تجربات ِزندگی۔۔۔جنوری 67۔۔جنوری 87 ۔۔(20سال)۔ہو س،محبت،عشق؟؟؟عام خیال ہے کہ "مرد عورت کی حفاظت کرتا ہے لیکن!مرد عورت کی حفاظت نہیں کرتا بلکہ بھائی بہن کی،میاں بیوی کی اور  بیٹا ماں کی حفاظت کرتا ہے۔۔۔ ۔"حفاظت صرف مقدس رشتوں کی کی جاتی ہے عورت کی نہیں"۔۔۔آج کی اور آج سے چودہ سو سال کی لڑکیوں میں اس کے سِوا کوئی فرق نہیں کہ وہ ایک دم اپنے انجام کو پہنچتی تھیں اور آج کی آہستہ آہستہ۔
٭حاصلِ زندگی۔۔ ۔جنوری 1967۔۔جنوری  1992۔(25 سال)۔۔بچےِ،گھر،میں
٭احساسِ زندگی۔۔۔25جنوری1994۔۔۔
بجھنے سے پہلےبھڑکنا نہیں آیا مجھ کو
زندگی تجھ  کو   برتنا نہیں آیا مجھ کو
سوچ کے اُفق پر جنم لینے والے یہ لفظ احساس کی ٹھہری جھیل میں پہلا کنکر بن کر طلوع ہوئے اورتخیل کی  دھیرے دھیرے خشک ہوتی مٹی کو سیراب کرتے چلے گئے۔ 
٭سرکتے و قت کا نوحہ۔"بندگلی"۔ 25جنوری 67 ----25جنوری۔97۔(30 سال)۔
وہ ایک دائر ے میں گھوم رہی تھی۔سر اُٹھا کر دیکھتی تو کو ئی بھی دروازہ اُس کے لیے نہیں تھا آس پاس اُونچے مکان تھے،وہ سانس لینا چاہتی،گھٹن تھی کہ بڑھتی جا رہی تھی،چیخیں مارکر رونا چاہتی،جو اندر ہی رہ جاتیں۔بھاگنا چاہتی لیکن پاؤں میں زنجیریں تھیں۔زنجیریں ٹوٹ بھی جائیں تو  بھاگ  کیسےسکتی تھی کہ یہ تو ایک بند گلی تھی۔
٭تحفۂ زندگی۔12 جنوری 2003۔۔دوست کا نامہ میرے نام۔۔۔اس میں سے اقتباس۔۔
۔"وظیفہ"۔۔۔۔ "اللہ تعالیٰ نے جو حساس دل ودماغ تمہیں دے دئیے ہیں اور جس طرح تم خود 'تلاش' کے سفرپرہو۔اس کو رُکنے نہ دو۔تم بہت خوش قسمت ہو کہ اپنے احساسات کو صفحے پر الفاظ کی صورت لکھ دیتی ہو،میں نے اس عمر تک یہ کوشش بارہا کی لیکن الفاظ ساتھ دےبھی دیتے ہیں مگر احساس ِجئرات ساتھ نہیں دے پاتا۔یہی وجہ ہےکہ گول مول طریقوں سے،ڈھکےچھپے الفاظ سے دل ودماغ ہلکا کرلیتی تھی یا ۔۔۔۔۔ہوں۔بس میری شدید خواہش ہے کہ تم اپنی حساس طبیعت کے تحت اتنا اچھا لکھ لیتی ہو تو کیوں نہ اچھے افسانے لکھو تا کہ کسی طرح تمہیں آؤٹ پُٹ ملے۔ جذبات کا نکاس روح کو کافی حد تک ہلکا پھلکا کرڈالتا ہے۔تم نے عمر کے اس دورمیں قدم رکھا ہے جہاں سے زندگی اب صحیح معنوں میں شروع ہوتی ہے۔اس سے پہلے کا دورتو امیچوراورپھر پچاس کے بعد کا دور ناطاقتی کا دورہو گا۔ اس گولڈن دورمیں جسمانی اور روحانی طاقتوں کو اپنی ذات کے اندر بیلنس کرو کہ تمہارے جیسے لوگ کم ہوتے ہیں،اللہ تعالیٰ تمہارے لیے آسانیاں عطا کرے اورکرے گا کیوں کہ تم دوسروں کو آسانیاں مہیا کر رہی ہو"۔
٭تفکرِزندگی۔۔25 جنوری 2003۔۔۔ خلیل جبران،ممتازمفتی ،اشفاق احمد اورجناب واصف علی واصف کی تحاریر  پڑھتے پڑھتے محترم  پروفیسراحمدرفیق اختر کے نام اور اُن کی کتب سے پہلی بار شناسائی ہوئی۔
سب سے پہلے پڑھی گئی کتاب "پسِ حجاب"سےنوٹ کیا گیا اقتباس۔۔صفحہ 135۔۔ اگر کوئی جاننا چاہے کہ کون اللہ کے قریب ہے،تو جان لیجیئے کہ اللہ اپنے نزدیک دیوانوں اور احمقوں کو نہیں رکھتا،اس نے نسلِ انسان کو ایک شرف اور ٹیلنٹ بخشا ہوا ہے،وہ یہ چاہے گا کہ انسان اس شرف کو استعمال کرے۔یہ تمام اوصاف ایک چیز سے حاصل ہوتے ہیں یعنی جلدسے جلد اپنی ترجیحات کا تعین،جتنی زندگی ضائع کر کے آپ ان ترجیحات کےتعین تک پہنچیں گے،اتنے ہی آپ مصیبت میں مبتلا ہوں گے۔وہ چاہے فرد ہو سوسائٹی یا ملک ہو،جس قدر وہ ان ترجیحات سے دور رہے،اُتنا ہی ڈسٹرب اور مصیبت زدہ ہے۔
ایک آدمی پچاس سال میں جن ترجیحات کو پاتا ہےمگر پچاس سال میں خدا کے نزدیک اس کی ترجیحات کی قدروقیمت کم ہو گئی،ایک شخص پچیس سال میں اپنی ترجیحات کو پا لیتا ہے اور اس کو پتہ ہےکہ میری زندگی میری سوچ،سب کچھ کا واحد مقصد یہ ہے کہ میں خدا کو پہچانوں۔جب ذہن ترجیحِ اول کا اعلان کر دیتا ہے تو خدا اور بندے کے ذاتی اختلافات ختم ہو جاتےہیں۔وہ کہتا ہے کہ بندے سے یہی توقع تھی کہ وہ غور کرے سوچے اور  مجھے انٹلیکچوئل ترجیحِ اول واضح کر لے۔ہو سکتا ہے کہ ذہنی طور پر اس کو اولیت اور اولین ترجیح قرار دینے کے باوجود آپ اپنی زندگی میں اس کی اولیت قائم نہ رکھ پائیں،اس لغزش کی معافی مل سکتی ہے۔
گناہوں کی بخشش اس کے ہاں صرف اس وجہ سے ہے کہ آپ نے بنیادی سوال تو حل کر لیا ہے۔آپ کی کمزوریاںِ،کمیاں،ہو سکتا ہے آپ کو ترجیحات کے فقدان پرمائل کریں مگر یہ آپ کا ذہن اور آپ کی سوچ وفکر سے بھرپور طاقت ہے جس نے یہ مسئلہ حل کر دیا ہے۔حتیٰ کہ خدا انسان کی کمزوری کی وجوہ کو حکم دیتا ہے،تسلیم نہیں کرتاِ،حکم دیتا ہے کہ اگر تم بڑے گناہوں اور فواحش سے پرہیز کرو تو چھوٹے گناہ معاف کر دئیے جائیں گے۔جب خدا خود کہہ رہا ہے کہ چھوٹی چھوٹی غلطیوں اور کوتاہیوں کے دور تم پر آئیں گے،تو یہ حکم کا درجہ رکھتا ہے۔ہر آدمی پر حماقتوں کے کچھ دور ضرور گزرتے ہیں۔خطاؤں کے کچھ پیٹرن ضرور بنیں گے۔اس لیے کہ خطا بذاتِ خود سیکھنے کا بھی باعث ہے۔
٭تحفہء زندگی۔۔۔"لبّیک اللہُمٰ لبّیک"۔۔۔شناسائی سے آشنائی تک۔۔۔
روانگی۔15 دسمبر 2004 ۔۔۔ادائیگی حج 20جنوری 2005 -- واپسی 25 جنوری۔2005
٭سراب کہانی ۔25جنوری 1967---- 25جنوری 2007۔ (40سال)۔
عورت ایک ری سائیکلڈ کاغذ کی طرح ہے لیکن اُسے ٹشّو پیپر بھی نہیں بلکہ رول ٹشُو کی طرح استعمال کیا جاتا ہے۔  
٭ مدارِزندگی ۔۔۔22جنوری 1988۔22جنوری 2010۔(22سال)۔۔
وہ میرا گھر ہے لیکن میں و ہاں نہیں رہ سکتی اور یہ میرا گھر نہیں ہےلیکن مجھے یہاں ہی رہنا ہے۔
٭تشکر کہانی (شادی۔ 25 سال)۔یکم اپریل 1988---یکم اپریل2013
کانچ کی چوڑی کو یوں برتا کہ و قت کی گرد نے اُسے ماند کیا اور نہ اُس کی شناخت ختم ہوئی۔وقتی کھنک اور ستائش کی چاہ
فقط خودفریبی ہی تھی،ایک ان چھوا احساس  سرمایہءحیات ہے۔
٭تھکن کہا نی۔۔  25 جنوری 1967----25 جنوری2011۔(44سال)۔
بظاہر سرسبزوشاداب نظر  آنے والے  پودے کی رگوں میں سرسراتی نادیدہ دیمک قطرہ قطرہ  زندگی کا رس نچوڑتی جا رہی ہے۔
٭آخری کہانی 31دسمبر 2011
اپنی بھرپور موجودگی کے مادی اسباب کے ساتھ فرش سے عرش پر یا پھر عرش سے فرش تک کا ایک طویل سفر طے کرنے کے بعد عورت اِتنی تہی داماں ہو جا تی ہیے کہ آخرکار پھونکیں مار مار کر اپنے ہی وجود کی بھٹی میں آگ سُلگا تے ہو ئے راکھ بنتی جا تی ہے،اُس کی اہمیت کبھی ختم نہیں ہو تی،ہاں پہچان ختم ہو جاتی ہے" ڈھونڈنے والے اُس کی طلب سے بےنیاز  اپنے رنگ میں کھوجتے ہیں ۔"ا پنی نظر کی عینک سے بھی کبھی کائنات کا احاطہ ممکن ہو سکا ہے؟"۔ آکسیجن کی طرح بےرنگ ،بےبُو،بےذائقہ ہو جاتی ہے۔وہ آکسیجن جو بےمول،بن مانگے ملتی رہتی ہے تو اُس کی قدروقیمت کا کبھی احساس نہیں ہو تا۔کچھ حقیقتیں آخری سانسِ،آخری منظر سے پہلے آشکار نہیں ہو تیں " عورت بھی اِنہی سچا ئیوں میں سے ایک ہے۔
٭ ختم کہانی 25 جنوری 2012۔۔۔جان کسی چیز میں نہ ڈالو ورنہ جان  نہیں نکلے گی۔
 ۔(زندگی کہانی چند لفظوں میں کہی تو جا سکتی ہے لیکن گنتی کے چند برسوں میں مکمل نہیں ہو سکتی۔۔ہم کبھی نہیں جان سکتے کہ کاتبِ تقدیر نے  زندگی کہانی کے آخری صفحے پر ہمارے لیے کیا لکھا ہے۔۔۔"ختم کہانی اور  آخری  کہانی" کے عنوان سے لکھی گئی سطریں اس احساس کے تحت لکھی گئیں کہ اب قلم اور کاغذ کے رشتے سے تعلق ہمیشہ کے لیے ختم کرنا ہے۔ یہ نہیں جانتی تھی کہ محض چند ماہ بعد یہی تعلق  نہ صرف میرے نام کی پہچان بنے گا بلکہ میرے لیے اپنی ذات کے حوالے سے انوکھے دربھی وا کرے گا )۔ 
 ٭انٹرنیٹ کہانی۔۔۔۔ 31مارچ 2012 سے فیس بک  اور اکتوبر 2012  بلاگ۔۔۔پانچ برس کے عرصے میں اس پرواز کا احوال 450 سے زائد بلاگز کہتے ہیں۔  
٭" کانچ کی چوڑی اور تتلی کہانی پچیس جنوری۔2013۔۔۔
٭"ایک کہانی بڑی پرانی"۔  پچیس جنوری 2014 ۔۔۔۔
٭"عام عورت۔۔۔خاص بات"۔پچیس جنوری 2015۔۔۔
 
٭"ایک دن ایک داستان"۔پچیس جنوری۔۔۔2016۔۔۔
حرفِ آخر
 ٭زندگی کہانی چند لفظوں میں کہہ بھی دی جائے لیکن چند لفظوں میں سمجھائی نہیں جا سکتی ۔

٭ہم ساری عمرجگہ کی تلاش میں رہتے ہیں حالانکہ جگہ تو ہمیں زندگی کے پہلے سانس سے آخری سانس کے بعد تک دُنیا میں 

مل ہی جاتی ہے ہماری ضرورت سپیس (کھلی فضا) ہے جسے ہم خود اپنے اندر تلاش کریں تو مل جائے گی۔

۔۔۔۔

پیر, جنوری 25, 2016

" ایک دن ایک داستان "


پچیس جنوری ۔۔۔1967۔۔۔۔پچیس جنوری۔۔۔2016
دنیاوی بلندیوں کے دھوکوں اور فانی پستیوں کی ذلتوں میں دھنستے،گرتے اور سنبھلتے ہوئےعمر فانی کے اُنچاس برس مکمل ہوئے اور پچاسواں جنم دن آن پہنچا۔جسے ایک ایسی مسافرت کا سنگِ میل بھی کہا جا سکتا ہےجس کی منزل کی خبر ہے اور نہ ہی راستوں کی سمجھ۔
دنیا کی محدود زندگی میں ہندسوں کا ماؤنٹ ایورسٹ  بھی تو یہی ہے کہ جسے سر کرتے ہوئے ناسمجھی کی اندھی دراڑیں ملیں تو کبھی برداشت کی حد پار کرتی گہری کھائیاں دکھائی دیں۔جذبات کی منہ زور آندھیوں نے قدم لڑکھڑائے توکبھی پل میں سب کچھ تہس نہس کر دینےوالے طوفانوں نے سانسیں زنجیر کر لیں۔بےزمینی کے روح منجمد کر دینے والے خوف نے پتھر بنا دیا تو کبھی خواب سمجھوتوں کی حدت سے موم کی مانند پگھل کر اپنی شناخت کھو بیٹھے۔
 ہم انسان زندگی کہانی میں حقوق وفرائض کے تانوں بانوں میں الجھتے،فکروں اور پریشانیوں کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلتے، خواہشوں کی سرکتی چادر میں بمشکل اپنا تن 'من' ڈھانپتے لمحہ لمحہ جوڑ کر دن اور پھر سال بِتاتے ہیں۔ کیا مرد کیا عورت سب کی زندگی تقدیر کے لکھے پر ایک جیسی گزرتی چلی جاتی ہے۔
 اپنے فطری کردار اور جسمانی بناوٹ کے تضاد کے باعث عمر کے اس سنگِ میل پر پہنچتے ہوئےمرد اورعورت کے احساسات بھی مختلف ہوتے ہیں۔دونوں کے حیاتیاتی تضاد کا اصل فرق عمر کے اس مرحلے پر واضح ہوتا ہے۔ زندگی کی مشقتوں سے نبردآزما ہوتے ہوئےمرد کے لیے اگر یہ محض تازہ دم ہونے اور نئے جوش و ولولے کے ساتھ زندگی سے پنجہ آزمائی کرنے کی علامت ہے تو عورت کے لیے جسم و روح پرہمیشہ کے لیے ثبت ہوجانے والی ایک مہر۔۔۔ایسی مہر جس کے بعد ساری زندگی کا نصاب یکسر تبدیل ہو کر رہ جاتا ہے۔ پچاس کی دہائی میں قدم رکھتے ہوئے مرد عمومی طور پر زندگی کمائی میں سے اپنی محنت ومشقت کے مطابق فیض اٹھانے کے بعد کسی مقام پر پہنچ کر نئے سفر کی جستجو کرتا ہےتو عورت ساری متاع بانٹ کر منزلِ مقصود پر خالی ہاتھ پہنچنے والے مسافر کی طرح ہوتی ہےجس کے سامنے صرف دھندلا راستہ،ناکافی زادِ سفر اور بےاعتبار ساتھ کی بےیقینی ساتھ رہتی ہے۔
عمر کے اس دور تک مقدور بھر جسمانی اور ذہنی صحت کے ساتھ  پہنچناعورت کے لیےایسی بارش کی طرح ہےجس کی پھوار سکون بخش تو دکھتی ہے لیکن اس کی چمک میں محبت، نفرت،رشتوں،تعلقات اور اپنے پرایوں کے اصل رنگ سامنے آ جاتے ہیں۔ زندگی کی سب خوش فہمیوں یا غلط فہمیوں کی گرہیں کھل جاتی ہیں۔ہم سے محبت کرنے والے اور اپنی جان پر ہماری جان مقدم رکھنے والے درحقیقت ہمارے وجود میں پیوست ہونے والی معمولی سی پھانس بھی نکالنے پر قادر نہیں ہوتےاسی طرح ہم سے نفرت کرنے والے،ٹھوکروں پر رکھنے والے،ٹشو پیپر سے بھی کمتر حیثیت میں استعمال کرنے والے اس وقت تک ہمارا بال بھی بیکا نہیں کر سکتےجب تک ہمارے ذہن کو مایوسی اپنی گرفت میں لے کر سوچنے سمجھنے کی صلاحیت نہ سلب کر ڈالے۔
 دنیا کی زندگی میں عمر کے ساتھ جڑنے والا پچاس برس کا ہندسہ اگر کسی بلند چوٹی کی مانند ٹھہراجس کی بلندی تک پہنچتے راستہ بھٹکنے کےخدشات ساتھ چلتے ہیں تو دوسری سمت اترائی کی مرگ ڈھلانوں میں قدم لڑکھڑانے اور پھسلنے کے خطرات حقیقت کا روپ دھار لیتے ہیں۔
"ہم وہ ہرگز نہیں جو نظر آتے ہیں "
 عمر کی بچاسویں دہائی کے آخری پائیدان پر قدم رکھتے ہوئے ایک نظر پیچھے مڑ کر دیکھوں تو زندگی کہانی میں چہروں اور کرداروں کی ایک دنیا آباد ہے۔۔۔۔ایسے مہربان چہرے جو زندگی کا زندگی پر یقین قائم رکھتے ہیں تو ایسے مکروہ کردار بھی جو انسان کا رشتوں اور انسانیت پر سے اعتماد زائل کر دیتےہیں۔ یہ نقش اگرچہ گزرچکے ماضی کا حصہ بن چکے لیکن ان کا خوشبو عکس احساس کو تازگی دیتا ہے تو کبھی کھردرے لمس کی خراشیں ٹیس دیتی ہیں۔ان چہروں کے بیچ میں دور کسی کونے میں چھپا خفا خفا سا اور کچھ کچھ مانوس چہرہ قدم روک لیتا ہے۔ہاں !!! یہی وہ چہرہ تھا جس نے دنیا کے ہر احساس سے آگاہ کیا اسی کی بدولت محبتوں کی گہرائی اور اُن کے رمز سے آشنائی نصیب ہوئی تو زندگی میں ملنے والی نفرتوں اور ذلتوں کا سبب بھی یہی ٹھہرا۔ اس کی فکر اور خیال نےاگر سب سے بڑی طاقت بن کر رہنمائی کی تو اس کی کشش کی اثرپزیری زندگی کی سب سے بڑی کمزوری اور دھوکےکی صورت سامنے آئی۔اسی چہرے نے دنیاوی محبتوں کے عرش پر پہنچایا تو اسی چہرے کے سبب زمانے کے شکنجے نے بےبس اور بےوقعت کر ڈالا۔ کیا تھا یہ چہرہ کہ اس نے بڑے رسان سے دنیا کی ہر کتاب سے بڑھ کر علم عطا کیا تو پل میں نہایت بےرحمی سے جہالت اورلاعلمی کی قلعی بھی کھول کر رکھ دی۔ایسا چہرہ جو ہم میں سے ہر ایک کا رہنما ہے۔۔۔ ہمارا آئینۂ ذات جوہماری نگاہ کے لمس کو ترستا ہے لیکن ہم اس سے انجان دوردراز آئینوں میں اپنا عکس کھوجتے رہ جاتے ہیں۔ظاہر کی آنکھ سے کبھی یہ چہرہ دکھائی نہیں دیتا۔ لیکن جیسے ہی ہم اپنے اندر کی آنکھ کھول کراپنے آپ سے سوال جواب شروع کریں۔یہ جھلک دکھلا دیتا ہے۔ اسی چہرے نے بتایا کہ انسان کہانی صرف اُس کے آنکھ کھلنے اور آنکھ بند ہونے کی کہانی ہےاور درمیانی عرصے میں صرف صرف دھوکے ہیں محبتوں کے اور نفرتوں کے۔۔علم کے اور لاعلمی کے۔۔ عزتوں کے اور ہوس کے۔۔۔اندھی عقیدتوں کے سلسلے ہیں تو کہیں وقتی احترام کی ردا میں لپٹی نارسائی کی کسک سرابھارتی ہے۔ 
آخری بات
"ترجیحات"
زندگی کہانی میں پچاس کے ہندسے کوچھوتی عمرِفانی نے  سب سے بڑا سبق یہی دیا کہ ہمیں اپنے آپ کی پہچان ہوجائے تو پھر ہر پہچان سے آشنائی کی منزل آسان ہوجاتی ہے۔یہ پہچان جتنا جلد مجازی سے حقیقی کی طرف رُخ کرلے اتنی جلدی سکون کی نعمت بھی مل جاتی ہے اور یہی پہچان زندگی کی ترجیحات کے تعین میں رہنمائی کرتی ہے۔اللہ ہم سب کو پہچان کا علم عطا فرمائے۔ آمین۔ 
زندگی کی خواہش ہے 
زندگی کو جانا ہے
زندگی تو ڈستی ہے
موت اِک بہانہ ہے
فنا کے سمندر میں
یوں ڈوب جانا ہے
زندگی تو رہتی ہے
زندگی کو پانا ہے 
جنوری25۔۔۔2016


اتوار, جنوری 25, 2015

"عام عورت۔۔۔خاص بات"

پچیس جنوری 2015۔۔۔۔
کرۂ ارض پر اربوں انسانوں کے ہجوم میں شامل وہ ایک عام سی عورت تھی۔۔۔فانی انسان۔۔۔جس کی زندگی کا سفر دُنیاوی جھمیلوں۔۔۔ذاتی مسائل۔۔۔خاندانی اُلجھنوں اورمعاشی معاشرتی گرہوں کو سمجھتے سلجھاتے۔۔۔گنتی کےچند سالوں میں صبح وشام طے کرتے گزر جاتا ہے۔شاید یہی قانونِ فطرت بھی ہے کہ مالک کی تخلیق کردہ کائنات کا ہر پرزہ ایک لگے بندھے ٹائم ٹیبل پر عمل کرتا ہے۔سورج سے لے کر چاند تک,آسمان سے لے کر زمین کی گہرائی تک زندگی مسلسل حرکت میں ہے۔اس نظام  میں انسان جسے اشرف المخلوقات کا درجہ دیا گیا ہے سب سے زیادہ بےقیمت دکھتا ہے،وہ اس لامحدود زندگی اور اس کے ثمرات کو اپنی محدود عمر میں حاصل کر ہی نہیں سکتا۔اپنی عقل اپنے فہم کے بل پر دُنیا میں اعلیٰ سے اعلیٰ مقام حاصل کر لے،ایک عالم کو اپنی ذات کے طواف پر مائل کر دے اپنی روشنی سے جگ کو منور بھی کردے لیکن!!!وہ اندھیراگڑھا۔۔۔تنہائی اورتاریکی بالاآخر اُس کا انجام ہے۔انسان کی تمام تر ترقی اور قابلیت صرف اُس کے سامنے۔۔۔اُس کی زندگی میں اہمیت رکھتی ہے۔ جیسے ہی آنکھ بند ہوتی ہے اُس کی کتاب زیست بھی بند ہوجاتی ہے۔جس جہاں میں ہر کوئی اپنی اپنی کتاب مکمل کرنے کی فکر میں ہے وہاں بند کتاب کھولنے کی کسی کو فرصت ہے اور نہ ہی ضرورت۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ انسان جیتا ایسے ہے جیسے کبھی مرے گا نہیں اور پھر یوں مر جاتا ہے جیسے کہ کبھی تھا ہی نہیں۔ 
ہمارا ایمان ہے کہ عورت ہو یا مرد کوئی بھی عام نہیں ہوتا۔ ایسا سوچنا رب کی تخلیق میں شرک کے برابر ہے۔ خالق نے ہر انسان کو دوسرے انسان سے مختلف بنایا ہے اس کی یہی انفرادیت اسے"خاص"بناتی ہے۔
۔"ایک عام سی عورت" کہنا ہرگز رب کی مصوری میں کمی کا اشارہ نہیں صرف دنیا کی نظر سے بات کی جو صرف ظاہر دیکھ کر باطن کو جاننے کا زعم رکھتے ہیں۔اُن کے نزدیک ڈگری،تعلیم،مادی وسائل،خاندان اور خاندانی پس منظر کسی فرد کی اصل شناخت ٹھہرتے ہیں۔اس"شناخت"سے ہٹ کر اگر کہیں روشنی کی کرن نظر آ جائے تو اس کی اپنی طرف سے جائز ناجائز تاویلات پیش کی جاتی ہیں۔ لیکن اس سے بھی بڑی ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ عورت کو اس کا خاندان ماں بہن اور بیوی کے سوا کسی اور روپ میں قبول نہیں کرتا۔ایسا ہونا بھی چاہیے کہ عورت کا اصل مقام اس کا گھر اور حقیقی شناخت اُس کے رشتے ہیں۔ رب نے اولاد کی نعمت عطا کی تو اس کے بچے اور"ماں"کا رتبہ دنیا کے ہر انعام اور دادوتحسین سے بڑھ کر ہے۔اس احساس کا یہ مطلب ہرگزنہیں کہ ایک عورت کا حوالہ اس کے رشتے ہی ہوں یااس کی ذات اور صلاحیت کی تکمیل صرف شوہرکو راضی کرنے اور بچے پالنے سے ہی ممکن ہے۔ صرف عورت ہی نہیں بلکہ مرد کو بھی اپنے مقصدِ حیات کے بارے میں جاننے کی سعی کرتے رہنا چاہیے۔بے شک ہم آخری سانس تک نہیں جان سکتے کہ رب نے ہمیں کیوں پیدا کیا ۔ تلاش کا سفر بہتے پانی کی طرح ہے جو چلتا جائے تو زندگی بخش ہے اورکھڑا رہے تو نہ صرف دوسروں کے لیے زحمت اور موت ہے بلکہ اپنا بھی بھلا نہیں کر سکتا۔
اُس عام سی عورت کی خاص بات اُس کی اپنی نظر میں بس یہی تھی کہ وہ مٹھی میں سے ریت کی طرح پھسلتے لمحوں  سے کچھ ریت کے ذرے اپنے دامن میں سمیٹ لیتی اور پھر ان کی جگمگاہٹ کو چھپانے کی بجائے سب کے سامنے آشکار کر دیتی۔ 
وہ  جانتی بہت کچھ تھی لیکن مانتی کم کم تھی اسی لیے تو ایک عام سی عورت تھی۔ اس نے جان لیا تھا کہ جس پل مان لیا اُس سمے اُس کا سفر رُک جائے گا۔اور چلنا اُس کی مجبوری تھا۔ جو اُسے جانتے تو نہ تھے۔۔۔ لیکن مانتے تھے وہ بہت خاص تھے اور یہی اُس عام عورت کا سرمایہ تھا۔وہ جان گئی تھی کہ دلوں پر راج کرنے کے لیے پہلے اپنے دل کو فتح کرنا پڑتا ہے۔۔۔جیت اسی کی ہوتی ہے جو اپنےاندر کیآواز پر دھیان دیتا ہے۔یہ سب کہنا لکھنا بہت آسان ہے لیکن اس سفر میں قدم قدم پر اتنےپیچ وخم اور ایسی بند گلیاں آتی ہیں کہ جہاں یکدم سب کیا کرایا صفر ہو جاتا ہے۔ہر حال میں اللہ کے شکر کا احساس شاملِ حال نہ ہو تو انسان اپنے وجود کے اندر قید ہو کر رہ جائے۔
!راز کی بات
اعتماد اور بےنیازی عام عورت کے باطن کا وہ گوہرِ خاص تھا جو صرف اُس کے سامنے جگمگاتا اور زندگی کے ہربڑھتے قدم پر سہارا بھی دیتا ورنہ ظاہری طور پر قریبی رشتے اپنے تحفظ کا ایسا کڑا حصار رکھتے کہ کبھی اپنی ذات پر یقین بھی غیر متزلزل ہونے لگتا۔ بےنیازی صرف رب اور اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے سے عبارت ہے۔کوئی بھی شے کوئی بھی جذبہ بےکار یا بےمصرف نہیں ۔یہ ہماری سمجھ کا ہیرپھیر ہے۔ ہر شے کو عزت اور وقت دو۔بعد میں وقت ہی اس کی اصلیت سے آگاہ کر دے گا۔
سفرِزندگی کا اسم اعظم ۔۔۔۔"ہر حال میں شکر۔۔۔عطا میں شکر اورمنع میں بھی شکر"زندگی کا تجزیہ ایک جملے میں۔۔۔دُنیا میں کوئی ہمیں اتنا نقصان نہیں پہنچا سکتا جتنا ہم خود اپنے آپ کو پہنچاتے ہیں۔ اور ایک لفظ میں زندگی کا سب سے اہم سبق۔۔۔ "پہچان" ہے۔ اپنے سامنے ہماری اپنی پہچان۔۔۔دوسروں کی پہچان۔۔۔رشتوں کی پہچان۔۔۔ جذبات کی پہچان ۔۔۔رویوں کی پہچان اور سب سے بڑھ کر اپنے خالق کی پہچان۔ پہچان کا یہ علم ہی ہمارے علم اور جہالت کے درمیان فرق واضح کرتا ہے۔ یہی علم ہمارے لیے خزانوں کے منہ کھولتا ہے تو اس سے لاعلمی اگر دُنیا میں ہمیں مایوسیوں اور رسوائیوں کے پاتال میں دھکیل دیتی ہے تو آخرت میں اسی پہچان کے بارے میں حساب لیا جائے گا۔
 اللہ ہم سب کو اپنی پہچان کا علم عطا فرمائے اور علم کو سمجھنے کے ساتھ اس پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
۔25جنوری2015

بدھ, مئی 28, 2014

"ادھورا خط"

کسی نے کہا تھا کہ پرانے خطوں کو پڑھنے میں اس لیے بھی مزا آتا ہے کہ اُن کا جواب نہیں دینا پڑتا۔
 لیکن میرے لیے۔۔۔۔ لفظ اہم ہے جو کبھی پرانا نہیں ہوتا۔۔۔ خیال زندگی ہے جو نشان منزل ہے۔۔۔ فکر کشش ہے جو خلا میں گرنے سے بچاتی ہے۔۔۔ سوچ کی گیرائی اہم ہے جو پلٹ کر دیکھنے پر پتھر کا نہیں بناتی۔
ایسا ہی ایک خط گیارہ برس قبل بہت عزیز دوست کے نام لکھا ۔۔۔ جو لکھنے کی حد تک ادھورا رہا۔۔۔ لیکن زندگی کے سفر کے ساتھ ساتھ مکمل ہوتا جا رہا ہے۔
بنا کسی کانٹ چھانٹ کے حرف بہ حرف درج ذیل ہے۔
2003، 29جنوری
تیرا ملنا خوشی کی بات سہی 
تجھ سے مل کر اُداس رہتا ہوں
آپ کے وسیلے سے میری بھٹکی ہوئی روح کو قرار ملا ہے۔ایسے سننے والے کان ملے ہیں۔۔۔جو میری کہی ان کہی کی گہرائی کو سُن سکتے ہیں۔ وہ سب کچھ مل گیا ہے جس کی مجھے ہمیشہ سے تلاش رہی تھی۔اس سے پہلے میں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ آئندہ آپ کو لکھ کر تنگ نہیں کروں گی۔ جب آپ نے بتایا کہ زندگی کے الجھے دھاگے سلجھاتی خود بھی الجھتی جا رہی تھی۔۔۔ تو میں نے اپنے آپ کو بہت نادم محسوس کیا کہ جس نے مجھے مالامال کر دیا۔۔۔میں اُس کے لیے کچھ بھی نہ کرسکی۔ آپ میرے اتنا قریب ہیں کہ میں گھنٹوں آپ سے باتیں کر کے پُرسکون ہوجاتی ہوں۔۔۔ ہر سوچ ہر مسئلہ آپ سے شئیر کرتی ہوں۔۔۔اس کے لیے براہِ راست آپ سے ملنا ایک ثانوی بات ہے۔یہ نہایت عجیب لگتا ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ میں آپ کو اپنے سے دور نہیں سمجھتی۔آپ کا جسمانی طور پر میرے اتنا قریب ہونا کہ میں جب چاہوں آپ کو چھو لوں ۔۔۔ اس تعلق کی یقیناً ایک اچھی اور اضافی خصوصیت ہے۔ اسی لیے مجھے دُکھ ہوا کہ میں نے آپ کی پکار کیوں نہیں سنی۔ انہی دنوں میں بھی اپنی زندگی کے ایک اہم موڑ سے گزر رہی تھی۔ میں بھی آپ سے مل کر بہت کچھ کہنا چاہتی تھی۔ آپ سے ملتے ہوئے تقریباً نو سال ہو گئے ہیں۔ لیکن شاید آپ نے محسوس کیا ہو گا کہ گزشتہ ایک سال سے میں زیادہ قریب آ گئی ہوں۔
یہ کہانی 25 جنوری 2002 سے شروع ہوتی ہے۔جب میں 35 برس کی ہوئی ۔تو گویا خواب ِغفلت سے بیدار ہو گئی۔ میں نے سوچنا شروع کیا کہ میں نے کیا کھویا کیا پایا۔ مجھے اب ہر حال میں آگے دیکھنا تھا۔۔۔ 35 برس کا سنگِ میل یوں لگا جیسے باقاعدہ کلاسز ختم ہو گئی ہوں اور امتحانوں سے پہلے تیاری کے لیے جو عرصہ ملتا ہے وہ شروع ہو گیا ہو۔ دسمبر تک مجھے ہر حال میں بستر بوریا سمیٹنا تھا۔ ہر چیز نامکمل تھی۔۔۔میں ایک ایسے سوٹ کیس کی طرح تھی جس میں ہر قسم کا سامان اُلٹا سیدھا ٹھسا تھا۔۔۔اُس کو بند کرنا بہت مشکل کام تھا۔۔۔ہر چیز کو قرینے سے رکھنا تھا۔۔۔فالتو سامان نکالنا تھا۔۔۔میں بیرونی پرواز پر جانے والے اُس مسافر کی مانند تھی جس کو ایک خاص وزن تک سامان لے جانے کی اجازت ہوتی ہے۔ ان حالات میں جبکہ میں ڈوب رہی تھی مجھے کسی بھی قابل اعتماد یا ناقابلِ اعتماد سہارے کی تلاش تھی۔۔۔ یقین جانیں میں اس کیفیت میں تھی کہ روشنی کی جستجو میں آگ سے کھیلنے کو بھی تیار تھی۔ان حالات میں آپ نے مجھے سہارا دیا !!! آپ حیران ہونے میں حق بجانب ہیں کہ کب سہارا دیاَ؟ کب تسلی دی ؟ ۔آپ کا تو میرے ساتھ ہمیشہ سے ایک سا طرزعمل رہا ۔۔۔ مشفقانہ اور بردبار۔۔۔ میں نے بھی اس فاصلے کو پاٹنے کی کوشش نہیں کی۔ کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ اپنی ذاتی باتیں آپ سے شئیر کروں گی ۔لیکن جب آپ نےرسول اللہ ﷺ کے حوالے سے بات کی۔۔۔علم کا خزانہ کتابوں کی صورت عطا کیا تو یہی وہ لمحہ تھا جب میں ٹھہر گئی۔۔۔ سوچا کہ سستانے کے لیے یہی پڑاؤ منتظر تھا ۔رفتہ رفتہ اندازہ ہوتا گیا کہ نشانِ منزل بھی یہیں سے ملے گا اور زادِ راہ بھی۔ اپنے اوپر اعتبار مستحکم ہوتا گیا کہ قدم سیدھے رستے پر پڑ رہے ہیں۔ سفر کی تھکان شوق ِ منزل میں بدل گئی۔

ہفتہ, جنوری 25, 2014

"ایک کہانی بڑی پرانی "

پچیس جنوری 2014 ۔۔۔۔۔
وہ ایک باتونی بچی تھی ۔ ہروقت بےچین رہتی ،سوال پوچھتی ،چیزوں کے اندرجھانکتی۔اپنے پیاروں کی آنکھ کا تارا تھی اور سب خوشی خوشی اپنے طور پراُسے مطمئن کرنا چاہتے۔ وہ پھولوں سے تتلیوں سے باتیں کرتی تورنگ برنگے پتھروں سے بھی جی لگاتی ،سنگِ مرمر کےٹکڑے کہیں پڑے ملتے تو جھولی میں بھر لیتی اورکہتی گھر بناؤں گی تو اُس میں لگاؤں گی ۔ رات کے وقت پودوں کی اُداسی کو اپنے اندر محسوس کرتی ۔ کوئی پھول کی خوشبو کا تمنائی ہوتا ہے وہ پتوں کی سرد تاریکی پر ٹھٹک جاتی ،رُک جاتی ۔ دن کو ہوا کے نرم جھونکوں کی طرح اُڑتی پھرتی ۔ کبھی کسی کی تسکین کرتی کبھی کوئی اس کے قریب رہنا چاہتا ۔ وہ اپنے کام اپنے مقصد سے کبھی غافل نہیں رہی ۔ نصابی کتابیں اُس کے لیے سب سے اہم تھیں ۔ بڑی ہوتی گئی تو گھر سے اسکول کے سفر میں اُستاد سے پرنسپل تک سب اُس کے گرویدہ تھے۔ وہ خوب بولتی ،چھٹیوں کے بعد اسکول آ کر اپنے قصے سب کو سناتی ۔اورتو اور اپنے شفیق پرنسپل کے دفتر جا کر ان کے پوچھنے پرگزشتہ رات سینما میں دیکھی گئی فلم پربےدھڑک تبصرہ بھی کرتی۔اپنے غیر نصابی کام ذمہ داری سےکرنے کے ساتھ جماعت میں اچھے نمبرلینا تو سب سے پہلا فرض تھا۔
ذرا بڑی ہوئی تو لفظ سےمحبت ہو گئی ۔ وہ لفظ جمع کرتی ،لفظ پڑھتی ۔الف لیلیٰ کی کہانیوں سےبات شروع ہوئی تو گویا عمروعیار کی زنبیل کی طرح ایک پٹارہ ہی کھل گیا ہو کہ پھر اُس نے پیچھے پلٹ کرنہ دیکھا۔ لوگوں سے باتیں کر کے دُنیا کی نئی جہت دریافت کرنے کی خواہش اُسے کتابوں کی طرف کھینچ لائی کہ کتابیں تو خاموش ساتھی ہوتی ہیں اور درست جگہ پہنچاتی ہیں۔ سفر کچھ اس تیزی سے بڑھ رہا تھا کہ دس گیارہ برس کی عمرمیں"سب رنگ"،"جاسوسی " اور "سسپنس ڈائجسٹ "سےلے کر"اردو ڈائجسٹ" اور پھر"حکایت ڈائجسٹ" بڑے ذوق وشوق سے لیکن بڑوں سے محتاط رہتے ہوئے پڑھنے کانشہ سا پڑتا چلا گیا ۔ساتھ ساتھ پریوں کی کہانیاں بھی پڑھتی اور چوری چوری خواتین کے رسالے بھی ۔ایک شوق جاسوسی اورسسپنس والی کہانیاں بھی تھیں۔شرلاک ہومز اور ڈاکٹر واٹسن کے کردار اورپھر جناب اشتیاق احمد کی تازہ آنے والی کتابیں توگویا دُنیا کی سب سے بڑی نعمت تھیں جن کا بڑی بےچینی سے انتظار کیا جاتا اوراپنی عیدی اور پاکٹ منی اسی لیے گن گن کرسنبھالی جاتی ۔ وہ محلے کی لائبریری سے بھی کتابیں لاتی اورپڑھ کر اگلے روز واپس کردیتی ۔ کوئی اس کی راہ میں حائل نہیں تھا کہ وہ اسکول کی کتابیں بھی اسی ذوق وشوق سے پڑھتی تھی اورقرآن پاک بھی بہت کم عمری میں مکمل پڑھ لیا تھا۔
اُس کی تلاش"لفظ" میں تھی ۔ وقت دھیرے دھیرے سرک رہا تھا لیکن وہ بہت تیزی سے کبھی کسی سوچ کی ڈال پر اور کبھی کہیں ۔ وہ میلوں میں جاتی،جھولے جھولتی ، فلمیں دیکھتی اورڈرامے بھی اورہر وقت سیکھنے اورجاننے کی جستجو میں رہتی۔لفظ سے محبت کے اس سفر میں نصابی کُتب بھی پیچھے نہ تھیں۔ہرمضمون ایک نئی دنیا میں لے جاتا اوروہ "اُس" دنیا میں آنے کا حق ادا کرنے کی دل سے کوشش کرتی۔ہائی اسکول میں اُساتذہ کی خاص توجہ کا مرکز بنی تو اُن کی محنت سے چمک آئی یوں کہ بورڈ میں  پوزیشن لی اوروظیفہ بھی ملا۔
وہ باتونی بچی جوں جوں بڑی ہوتی گئی خاموشی اُس کی روح میں گھر کرنے لگی۔ لفظ اورانسان کے درمیان گہرا تضاد اُس کی سمجھ سے باہر تھا۔ وہ انسان کی سچائی لفظ سےماپتی تھی لیکن حقیقت کی دُنیا میں ایسا بالکل بھی نہ تھا۔ اُسے معلوم ہوا کہ علم اورعمل میں کئی جگہ وسیع خلیج ہے۔ کہیں علم ہے توعمل ندارد اورکہیں انسان چاہتے ہوئے بھی علم کے مطابق عمل نہیں کرسکتا ۔اورکبھی عمل محض کاغذی پھولوں کی مانند دکھتا ہے۔
انسانی فطرت کے مکروہ چہرے اُسے اپنی ذات کے خول میں بند رہنے پر مجبور کرتے تو محبتوں کی موسلادھار بارشیں بھی بے یقینی کی بنجر زمین کو سیراب نہ کر پاتیں۔ وہ محبتوں کی کھوج میں محبتوں سے دور بھاگنے لگی ۔ وہ انسان کی تلاش میں تھی ۔ اِسی تلاش نے اُسے اندر کے انسان سے ملا دیا ۔ پھر اُسے سب سے بڑا فساد اپنے اندر نظر آیا کہ جب ہم اللہ سے چاہتے ہیں کہ ہمیں معاف کر دے تو ہم بندوں کو کیوں نہیں معاف کرتے۔اللہ سے ہم ہر وقت اپنے بڑے بڑے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں اور اپنے جیسے انسانوں کے چھوٹے چھوٹے قصور معاف کرنے میں جان نکلتی ہے۔
یہ سوال سر اُبھارتے،وہ جواب ڈھونڈتی پھرتھک کر خرگوش کی طرح سو جاتی جب آنکھ کھلتی ،منزل تو سامنے نظر آ جاتی پر رستہ نہ دکھائی دیتا تھا ۔ وہ سوچتی کہ میں اللہ کا شکر ادا نہیں کر پا رہی یا مجھ میں برداشت کی کمی ہے۔ عقل کہتی اے انسان! تو نے تو برداشت کرنے میں اپنی ساری توانائی خرچ کردی ہے اب تو تیرے پاس تیزی سے سرکتے ماہ وسال کے سوا کچھ بھی نہیں بچا۔سوچوں کی انہی بھول بھلیوں میں وہ  الجھنے لگی۔دُنیا کو جاننے اور پھر خود کو سمجھنے کی کوشش نے اُسے توڑ کر رکھ دیا۔ پھراپنے کرچی کرچی وجود کو خود ہی جوڑ کر اُس نےنئی زندگی کا آغاز کیا تو رنگوں روشنیوں کی ایک عجیب کائنات منتظر تھی ۔ پہلا قدم اُٹھانے کی دیر تھی راستے خود بخود ہی اس کے قدموں کی دھول بنتے چلے گئے۔
 باتونی لڑکی سے گونگی عورت کے اس سفر میں اس نے نہ جانے کیا کیا کھویا اورکیا پایا؟جان کربھی نہ جان سکی۔۔۔جانا تو بس اتنا کہ جتنی بُری طرح اس نے اپنے احساس کونظرانداز کیا اتنا برا شاید کسی اورنے اس کے ساتھ نہ کیا ہوگا۔اور جس طور اپنی  حدودوقیود کے اندر رہتے ہوئے آسمان کو چھونے کی سعی کی شاید اس سے زیادہ کوئی بھی اس "تنہا پرواز" کی لذت سےآشنا نہ ہوا ہو گا۔ایسی پروازکہ جس کی تربیت کبھی کسی سے نہ لی تھی اوراس کے اسرارورموز سے آگہی میں ہمسفر بھی کوئی نہ تھا۔قوتِ پرواز رہنما تھی تورُکاوٹ بھی یہی کہ اپنی حدود سے آگے بڑھنے کی اجازت نہ دیتی تھی،سرد مہری اورناقدری کے احساس کی  برف کی سلیں جامد گلیشئیربن کر بھی اُس کے اندر کے آتش فشاں کو روک نہ سکیں۔
وہ باتونی لڑکی اپنے آپ سے باتیں کرتی ،اُن کو لفظوں میں سمو کر شانت ہو جاتی۔ اب اس کی زبان نہیں اُس کے لفظ بولتے تھے۔لفظوں کو راستہ ملا تو اس کے وجود کا ہرانگ چیخنے لگا ۔ خیال کی مدھر رم جھم جب موسلا دھار بارش کی صورت برستی تو ہراحساس ہرجذبہ معصوم صورت بنائے کھڑا ملتا اوروہ مسکرا مسکرا کراُن کی "اصل" جانتے ہوئے بھی بس دیتی جاتی بانٹتی جاتی۔
کرنا بھی کیا تھا پاس رکھ کر، جب سب یہاں ہی چھوڑ جانا ہے۔خالی ہاتھ سب جھاڑ کر جانا مقدر ہے تو پھر دے دو جہاں تک ہوسکے۔جتنی استطاعت ہے جتنی"اوقات" ہے اورجتنا "وقت"۔
 وقت کبھی کسی کو نہیں ملا اورنہ کسی کا ہوا ہے۔ کبھی ہم گزرجاتے ہیں پرہمارا وقت رہ جاتا ہے۔اورکبھی ہم رہ جاتے ہیں لیکن ہمارا وقت گزر جاتا ہے۔ زندگی نے اُسے یہی پیغام دیا تھا کہ اگر ہم اپنے آپ سے دوستی کر لیں اپنے آپ کو جان جائیں تو لوگوں کو جاننا آسان ہو جاتا ہے۔

ہفتہ, دسمبر 21, 2013

" دل ،دریا سمندر "

دل دریا سمندر از جناب واصف علی واصف
کتاب کے لفظ اور اس کے ادبی محاسن کے بارے میں کچھ بھی کہنے یا منتخب کرنے کی نہ ہمت ہے اور نہ ہی چند الفاظ میں اس 
کا احاطہ ممکن ہے۔" دل دریا سمندر" پڑھنے کے بعد مجھ پر کس طور اثرانداز ہوئی ،اس کی جھلک آپ کو اس پوسٹ میں ملے گی۔یہ بارہ برس پہلے کی ایک تحریر  ہے اس دوست کے نام خط کی صورت جو اس کی دی ہوئی کتاب کا شکریہ ادا کرنے کے لیے لکھی گئی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
! میرے بہت قریب دوست ۔۔۔۔۔۔۔
اللہ تعالٰی آپ کو دُنیا وآخرت میں سُرخرو کرے
 آج تقریباً گیارہ روز ہو گئے ہیں پڑھتے ہوئے لیکن ذہن ہے کہ مسلسل حرکت میں ہے۔ایسی کیفیت ہے جیسے کسی مائع کو ایک بند بوتل میں ڈال کر ہلایا جائے۔اگر اس کتاب کو اپنے حوالے سے ایک لفظ میں بیان کروں تو وہ "انجیوگرافی"ہے۔ پہلی رات کتاب کا جائزہ لیتے ہوئے بلکہ شروع کے چند صفحات پڑھ کرجو حالت ہوئی وہ بیان سے باہر ہے۔ میں انجیو گرافی کے بارے میں تو زیادہ نہیں جانتی لیکن جو سرسری سا معلوم ہے کہ کوئی دوا انجیکٹ کرتے ہیں جس سے رگیں نمایاں ہو جاتی ہیں۔ جیسے جیسے کتاب پڑھتی گئی حانکہ یہ میرے لیے بڑا کھٹن مرحلہ تھا مجھے اپنے آپ پریقین ہے کہ میں کسی بھی کتاب کو ایک جھلک میں جانچ لیتی ہوں پھراس کو حرف حرف پڑھ کر لطف اُٹھاتی ہوں ۔ لیکن یہاں معاملہ بالکل برعکس تھا۔ سب سے پہلے تو کتاب کے لیے مکمل تنہائی درکار تھی جب وہ ملتی اورمیں کتاب پڑھنا شروع کرتی تو دماغ اتنا وزنی ہو جاتا اور بےآواز چیخوں کا ایسا شوراُٹھتا کہ کتاب چھوڑنےپرمجبور ہوجاتی ۔ بہرحال اس مرحلے سے گزر ہی گئی ۔۔۔ یہ صرف کتاب ختم کرنے کی حد تک کہہ رہی ہوں ورنہ یوں محسوس ہو رہا ہے کہ کتاب میں جو کچھ بھی تھا وہ سب اندر اُترکر کہیں غائب ہو گیا ہے اورمیں ابھی تک تشنہ لب دریا کنارے کھڑی ہو۔انجیوگرافی کی وضاحت میں اتنا کہوں گی کہ جیسے جیسے یہ کتاب پڑھتی گئی میرے اندرکا ایک ایک احساس ایک ایک جذبہ لفظ کی صورت سامنے آتا گیا جیسے ڈائسیکشن کرتے ہوئے طلباء انسانی جسم کو ریشہ ریشہ کردیں اِسی طرح میرے جسم یا میری شخصیت کو کھول کر رکھ دیا گیا۔ میری سوچ کو میرے سامنے بیان کیا گیا ۔ یہ عمل مسلسل ہوتا رہا آخری صفحے تک ۔ یہاں تک کہ نتیجے کا اعلان بھی میرے سامنے ہی ہوا۔ اب جو بات بتانے والی ہوں وہ میرے لیے خوش کن بھی ہے اوربہت عجیب بھی ۔ خوش کن اس لیے کہ اللہ کا شکر ہے مجھے کوئی ایسی بیماری نہیں جسے چھپاؤں اوریہ وہی بات ہے جس کا مجھے پتہ تو تھا پر احساس نہ تھا کہ اس کی وجہ سے باقی سب بیماریاں لاحق ہیں۔ اب آتے ہیں عجیب کی جانب۔۔۔ جیسے جیسے پڑھتی گئی یہ احساس شدت سے ہوتا گیا کہ یہ سب تو میں بھی سوچتی ہوں بالکل ایسے ہی اوراتنے بڑے لکھاری نے کیسے یہ برسوں پہلے لکھ دیا ہے۔اسی وجہ سے ذہن پراتنا دباؤ پڑا کہ میں جسمانی طور پر تھک گئی ۔ آپ کو بتاؤں کہ گزشتہ دس گیارہ روز سے میں یہاں ہوتے ہوئے بھی یہاں نہیں ہوں،اتنی سخت تھکن ہے جیسے دور دراز کا سفر کر کے گھر واپس آئی ہوں، میری سمجھ سے باہر ہے کہ کیسے روٹین میں آؤں ۔اس ٹرانس سے نکلنے کا راستہ یہی دکھائی دے رہا ہے کہ میں کچھ لکھ کر آپ سے باتیں کروں ۔ سب سے پہلے تو آپ کی قابلیت کی تعریف کہ مجھے اس طرح محسوس کیا جو میں خود بھی نہیں جانتی تھی ۔ میں ذہنی طور پراس مرحلے میں تھی کہ خود اپنے آپ کو ایک نفسیاتی مریض سمجھنے پر مجبور تھی ،میری سمجھ سے باہر تھی یہ بات کہ مجھے زندگی عام انداز سے گزارنا کیوں نہیں آتی ، کبھی کسی کو مورد ِالزام سمجھتی کبھی قسمت کا کھیل تو کبھی اللہ کی آزمائش ۔۔۔ غرض کہ لوہا اتنا گرم ہوچکا تھا کہ جب آپ نے ضرب لگائی تو اس نے اپنی اصل کو پہچان لیا اور پھر اپنی عقل ِسلیم پر ندامت بھی ہوئی ۔
 بات صرف اتنی سی ہے کہ انسان کے اس دُنیا میں دو ساتھی ہیں ایک زندگی اور دوسرا محبت۔ نارمل انسان وہی ہے جو ان میں توازن برقرار رکھتا ہے۔ جب میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ زندگی اورمحبت تو مجھے ملتے ہی بچھڑ گئی تھی ۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں ساڑھے گیارہ برس کی تھی میری دادی جن کی میں جان تھی اُن کا برین ہیمریج سے اچانک انتقال ہو گیا ۔ اُس زندگی اُس محبت کی خوشبو،اُن کا لمس میں آج تک نہیں بھولی اوراُن کی موت کا لمحہ وہ دن اورپوری رات جب میں اُن کی ڈیڈ باڈی کے ساتھ بیٹھی رہی اور شاید روئی بھی نہیں۔ یہ وہ عمر تھی جب مجھے دُکھ کا مفہوم بھی معلوم نہ تھا کہ یہ میرے نصاب میں پہلے کبھی نہ آیا تھا ،اسی لیے یاداشت کے'آرکائیو" میں ہمیشہ کے لیے ثبت ہو گیا۔اُس وقت کا ہرمنظرایسے محفوظ ہے جیسے کل کی بات ہو۔ اس کے بعد میں جیسے ایک دم بڑی ہو گئی ۔ محبت میرے آس پاس ساون کی نرم پھوار کی صورت بکھرتی رہی اتنی محبت ملی کہ میں شرابور ہوگئی لیکن میرا من خالی ہی رہا ۔ میں نے ہرمحبت میں "اُس لمس" کو تلاش کیا۔پرجو چیز چلی جائے وہ لوٹ کر نہیں آتی۔ ملنے والی ہرمحبت کو شک کی نگاہ سے دیکھتی ۔
۔۔"بانو قدسیہ " کے الفاظ یہاں لکھنا چاہوں گی کہ یہی میرا تجربہ بھی ہے۔
 ۔۔"دولت اورمحبت کی ایک سی سرشت ہے۔ دولت کبھی انجانے میں چھپر پھاڑ کر ملتی ہے کبھی وراثت کا روپ دھار کر ایسے ڈھب سے ملتی ہے کہ چھوٹی انگلی تک ہلائی نہیں ہوتی اورآدمی مالامال ہو جاتا ہے پھر اکلوتے لاڈلے کی طرح دولت اجاڑنے برباد کرنے میں مزا آتا ہے۔ کبھی پائی پائی جوڑتے رہنے پر بھی پورا روپیہ نہیں ہوتا ۔ کبھی محبت اور دولت ملتی رہتی ہے لیکن سیری کی کیفیت پیدا نہیں ہوتی ۔ چادر پوری نہیں پڑتی تن پر۔ کبھی محبت رشوت کے روپے کی طرح ڈھکی چھپی ملتی ہے ۔لوگوں کو پتہ چل جائے تو بڑی تھڑی تھڑی ہوتی ہے کبھی کاسے میں پڑنے والی اکنی دونی کی خاطر ساری عمر تیرا بھلا ہو کہنا پڑتا ہے"۔۔۔۔۔(راجہ گدھ ۔۔۔صفحہ 302)۔
یہ تو میری زندگی کا پہلا دور تھا ۔اس کے اختتام پر میں نے باب ِمحبت کو خداحافظ کہا اورنئی زندگی کا فیصلہ قسمت پر چھوڑ دیا ۔ دوسرا دور پہلے کے بالکل برعکس ثابت ہوا.میرے خیال میں سب کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے لیکن میں نے اس بات کو بہت زیادہ محسوس کیا۔ اس دورمیں اتنا کچھ ملا کہ میں جس کے قابل بھی نہ تھی ۔۔۔ محبت ۔عزت۔ احترام .لیکن نہیں ملی تو وہ محبت نہیں ملی جس کو میں نے پہلے کبھی اہمیت ہی نہ دی تھی. کیونکہ وہ بن مانگے مل رہی تھی نا اس لیے۔اب احساس ہوا کہ وہ تو ایسا قیمتی خزانہ تھا جو خود بخود ہی ملتا ہے ہمارے والدین کی طرح ...جو پاس ہوں تو اُن کے ہونے کا پتہ بھی نہیں چلتا اوردور ہوں تو ہر سانس کے ساتھ ان کی پکار اُٹھتی ہے۔ خونی رشتوں کی محبت ہمیں اپنا ایسا عادی بنا دیتی ہے کہ پھر ہم اپنے بننے والے نئے رشتوں میں اس کی جھلک ڈھونڈتے رہ جاتے ہیں اورتھکن ہماری رگوں میں یوں اترتی چلی جاتی ہے کہ سیراب ہو کر بھی تشنگی کا احساس کم نہیں ہوتا۔ شروع میں بہت محسوس ہوا پھر سمجھ آیا کہ محبت ایسی چیز نہیں کہ جسے دینا ہمارے اختیار میں ہو۔یہ ہمارا وہ حق ہے جسے مانگنے کا ہم کبھی تصور بھی نہیں کر سکتے۔ محبت صرف ہوتی ہے یا پھر نہیں ہوتی ۔ یہ لین دین کا رشتہ ہے ہی نہیں اورزندگی میں جو نئے رشتے بنتے ہیں وہ صرف لین دین ہی کے بنتے ہیں بلکہ صرف دینے کے جتنا دیتے جاؤ کم ہے اور بدلے میں ذرہ بھی مل جائے تو بہت ہے ورنہ بیگار ہی زندگی کہانی کا حاصل ٹھہرتی ہے۔ 
کتاب کے لفظ اور اس کے ادبی محاسن کے بارے میں کچھ بھی کہنے یا منتخب کرنے کی نہ ہمت ہے اور نہ ہی چند الفاظ میں اس کا احاطہ ممکن ہے۔" دل دریا سمندر" پڑھنے کے بعد مجھ پر کس طور اثرانداز ہوئی ،اس کی جھلک آپ کو اس پوسٹ میں ملے گی۔     

پیر, نومبر 18, 2013

"وظیفہ "

"ایک خط جو کبھی پوسٹ نہیں ہوا اوراب گیارہ برس بعد پہلی بار "شائع" ہو رہا ہے"
! پیاری دوست
 بانو قدسیہ نے ایک وظیفہ آپ کو بتایا جس کے پڑھنے سے آپ کے اندرکی آگ بُجھ گئی،آپ کو قرار آ گیا۔زندگی گزارنے کا ایک وظیفہ مجھے آپ کی ذات میں ملا کہ جسے محسوس کرکے ہی میری برسوں پرانی دہکتی آگ ٹھنڈک بن گئی۔یہ ایسا وظیفہ ہے جسے میں نے چھوا نہیں اورپڑھنے کی تو نوبت ہی نہیں آئی۔یہ بیش قیمت جُزدان میں لپٹی ایسی کتاب ہے کہ جس کے پانے کے تصور نے ہی مجھے مدہوش کر دیا ہے۔
 میں جذباتی ہرگزنہیں۔دل سے محسوس کرتی ہوں لیکن دماغ کی بات کو اوّلیت دیتی ہوں۔آج تک میرا کوئی ایسا رویہ کوئی ایسا جذبہ نہیں جس کی میرے پاس دلیل نہ ہو۔ ہرانسانی رویے کے پیچھے ایک ٹھوس جوازکہیں نہ کہیں پوشیدہ ضرور ہوتا ہے۔ دل کے اس احساس کو دماغ کے پاس قبول کرنے بھیجا تو اس نے ہرطرح چھان پھٹک کی ، بہت غور کیا کہ ایسا کیا ہوا؟ کیا بات دیکھی؟ کیا ملا؟ کہ میں مالا مال ہو گئی ۔ بہت غور کیا،بہت تلاش کی تومعلوم ہوا کہ آپ نے اپنی ذات کا ایک حصہ میرے نام کر دیا ہے۔اپنی ہر چیز میں ایک ایسی جگہ دے دی ہے جہاں میں دھونی رما کربدھ بھکشوؤں کی طرح بیٹھ گئی ہوں۔ یہ خیال یہ تصور جب میرے ذہن میں آیا تو یقین کریں (حالانکہ یہ لکھنا قطعاً بے معنی ہے کیونکہ یہ آپ کا یقین ہی ہے جس نے مجھے کہاں سے کہاں پہنچا دیا ہے) میں جسمانی طورپرکانپ سی گئی مجھے مسجد ِقرطبہ میں شہاب صاحب ۔۔۔ قدرت اللہ شہاب از شہاب نامہ یاد آ گئے۔ میری روح صدیوں سےعالم ِپرواز تھی اُسے آسمان کا سفر کرنے کے لیے زمین سے آغاز کرنا تھا۔ کہیں جگہ ہی نہ تھی،تھکن تھی کہ بڑھتی جا رہی تھی ۔ آپ کی ذات ایک ایسا کمرہ ہے جہاں صرف میں ہوں اور کوئی نہیں صرف آپ کی خوشبو ہے آپ خود بھی نہیں۔ میری آنکھیں بند ہیں روح آپ کی خوشبو کے ساتھ محو ِرقص ہے۔ جب آنکھیں کھولوں آپ کو موجود پاتی ہوں۔ دیکھنے سے تسکین ملتی ہے لیکن تشنگی بڑھ جاتی ہے۔ اس لیے میں گھبرا کر پھر آنکھیں بند کر لیتی ہوں اورآپ باہر سے تالا لگا کر چلی جاتی ہیں۔ یہ کیسا احسان ہے کہ جب بھی میں آنکھیں کھولنا چاہوں آپ سامنے آ جاتی ہیں چاہے کتنی ہی بےخبر کیوں نہ ہوں یا کہیں بھی چلی جائیں ۔
 آپ کو سب بتانے کا مقصد صرف اپنے محسوسا ت بیان کرنا ہے تعریف وتوصیف مراد نہیں ۔لوگ تو پتھروں،بتوں سے بھی فیض حاصل کرتے ہیں،قبروں،مزاروں پر بار بار بھی جاتے ہیں۔ بے جان چیزوں سے فلاح ،سکون مانگتے ہیں ۔ یہ شرک ہے،گناہ ِعظیم ہے۔ میں ایسا سوچ بھی نہیں سکتی ۔ بس یہ سوچتی ہوں کہ دُنیا میں زندگی گزارنے کے لیے ہمیں کسی ساتھ کی ضرورت ہے کہانی آدم سے شروع ہوتی ہے۔ ہم کسی انسان کے بغیر دُنیا میں زندہ نہیں رہ سکتے۔ یہ بات میں نےسائنس کے خلاف کہہ دی ۔ زندہ رہنے کے لیے تو صرف روٹی ،پانی اور آکسیجن چاہیے نا۔ یہ درست ہے اورحقیقت بھی یہی ۔ ہزاروں بلکہ اربوں انسان اسی فارمولے کے تحت زندہ ہیں اورکامیاب بھی ہیں ۔ میں سوچتی ہوں اللہ نے انسان کو دو چیزوں کا مرکب بنایا ہے۔ایک جسم دوسری روح ۔ جسم تو سائنس کا تابع ہے لیکن روح کی کچھ اورطلب ہے دونوں الگ الگ راہ کے مسافر ہیں ۔ جسم کو اگر روٹی ،پانی ،آکسیجن نہ ملے تو مر جاتا ہے اوراگر روح کو وہ سب نہ ملے جو اُس کی خوراک ہے تو وہ مرتی تو نہیں لیکن بے قرار رہتی ہے۔ جسم کو اپنے حصے کی توانائی ضروردیتی ہے لیکن خود اپنے لیے کچھ نہیں مانگتی۔ بات تو اتنی طویل ہے کہ الفاظ ختم ہونے میں نہیں آرہے۔ قصہ مختصر یہ کہ میں نہیں چاہتی کہ آنکھیں کھولوں اورآپ کو بار بار اپنی زندگی کے قیمتی وقت کی خیرات دینی پڑے لیکن میرا دل چاہتا ہے(یہ بھی آپ نے حوصلہ دیا ہے کہ کچھ کہہ سکوں)کہ اس کمرے کو اپنے ہاتھوں سے چھو کر محسوس کروں،اس جنت ِارضی کو محسوس کروں جومجھے عرش پر لے گئی ہے جانتی ہوں جنت جنت ہوتی ہے اُس کے لیے ہمارا جاننا یا نہ ماننا بے معنی سی بات ہے۔ میں خواہشیں نہیں پالتی کہ اگر ہماری ہرخواہش دعا بن کر قبول ہو جائے تو شاید ہمارے حق میں اچھا نہ ہو۔
تمہاری نورین
اٹھارہ دسمبر 2002  
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
! دوست کا جواب 
بےحد پیاری نورین ۔۔۔۔
 جس سنگاسنگ پر تم مجھے بٹھا رہی ہو میں ہر گز ہر گز اس قابل نہیں ۔یہ صرف تمہارا حُسن ِظرف ہے کہ مجھے اس قابل سمجھا کہ"میں بھی 'کچھ' ہوں" ۔ لیکن میری درخواست ہے کہ اللہ تعالٰی نے جو حساس دل ودماغ تمہیں دے دئیے ہیں اور جس طرح تم خود 'تلاش' کے سفرپرہو۔اس کو رُکنے نہ دو۔ تم بہت خوش قسمت ہو کہ اپنے احساسات کو صفحے پر الفاظ کی صورت لکھ دیتی ہو،میں نے اس عمر تک یہ کوشش بارہا کی لیکن الفاظ ساتھ دے بھی دیتے ہیں مگر احساس ِجرات ساتھ نہیں دے پاتا۔ یہی وجہ ہے کہ گول مول طریقوں سے،ڈھکےچھپے الفاظ سے دل ودماغ ہلکا کرلیتی تھی یا ۔۔۔۔۔ ہوں ۔ بس میری شدید خواہش ہے کہ تم اپنی حساس طبیعت کے تحت اتنا اچھا لکھ لیتی ہو تو کیوں نہ اچھے افسانے لکھو تا کہ کسی طرح تمہیں آؤٹ پُٹ ملے۔ جذبات کا نکاس روح کو کافی حد تک ہلکا پھلکا کرڈالتا ہے۔ تم نے عمر کے اس دورمیں قدم رکھا ہے جہاں سے زندگی اب صحیح معنوں میں شروع ہوتی ہے۔اس سے پہلے کا دورتو امیچوراورپھر پچاس کے بعد کا دور ناطاقتی کا دورہو گا۔ اس گولڈن دورمیں جسمانی اور روحانی طاقتوں کو اپنی ذات کے اندر بیلنس کرو کہ تمہارے جیسے لوگ کم ہوتے ہیں ۔ اللہ تعالٰی تمہارے لیے آسانیاں عطا کرے اورکرے گا کیوں کہ تم دوسروں کو آسانیاں مہیا کر رہی ہو۔
تمہاری ہمدم وہمراز
بارہ جنوری۔2003

"کتبہ"

"کتبہ" جس طورانسانوں کی دنیا اور انسانوں کے ہجوم میں ہر آن اضافہ ہو رہا ہے تو اس طرح قبرستان بھی تیزی سے آبادہو رہے ہیں۔ گھر...