دل دریا سمندر از جناب واصف علی واصف
کتاب کے لفظ اور اس کے ادبی محاسن کے بارے میں کچھ بھی کہنے یا منتخب کرنے کی نہ ہمت ہے اور نہ ہی چند الفاظ میں اس
کا احاطہ ممکن ہے۔" دل دریا سمندر" پڑھنے کے بعد مجھ پر کس طور اثرانداز ہوئی ،اس کی جھلک آپ کو اس پوسٹ میں ملے گی۔یہ بارہ برس پہلے کی ایک تحریر ہے اس دوست کے نام خط کی صورت جو اس کی دی ہوئی کتاب کا شکریہ ادا کرنے کے لیے لکھی گئی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کتاب کے لفظ اور اس کے ادبی محاسن کے بارے میں کچھ بھی کہنے یا منتخب کرنے کی نہ ہمت ہے اور نہ ہی چند الفاظ میں اس
کا احاطہ ممکن ہے۔" دل دریا سمندر" پڑھنے کے بعد مجھ پر کس طور اثرانداز ہوئی ،اس کی جھلک آپ کو اس پوسٹ میں ملے گی۔یہ بارہ برس پہلے کی ایک تحریر ہے اس دوست کے نام خط کی صورت جو اس کی دی ہوئی کتاب کا شکریہ ادا کرنے کے لیے لکھی گئی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
! میرے بہت قریب دوست ۔۔۔۔۔۔۔
اللہ تعالٰی آپ کو دُنیا وآخرت میں سُرخرو کرے
آج تقریباً گیارہ روز ہو گئے ہیں پڑھتے ہوئے لیکن ذہن ہے کہ مسلسل حرکت میں ہے۔ایسی کیفیت ہے جیسے کسی مائع کو ایک بند بوتل میں ڈال کر ہلایا جائے۔اگر اس کتاب کو اپنے حوالے سے ایک لفظ میں بیان کروں تو وہ "انجیوگرافی"ہے۔ پہلی رات کتاب کا جائزہ لیتے ہوئے بلکہ شروع کے چند صفحات پڑھ کرجو حالت ہوئی وہ بیان سے باہر ہے۔ میں انجیو گرافی کے بارے میں تو زیادہ نہیں جانتی لیکن جو سرسری سا معلوم ہے کہ کوئی دوا انجیکٹ کرتے ہیں جس سے رگیں نمایاں ہو جاتی ہیں۔ جیسے جیسے کتاب پڑھتی گئی حانکہ یہ میرے لیے بڑا کھٹن مرحلہ تھا مجھے اپنے آپ پریقین ہے کہ میں کسی بھی کتاب کو ایک جھلک میں جانچ لیتی ہوں پھراس کو حرف حرف پڑھ کر لطف اُٹھاتی ہوں ۔ لیکن یہاں معاملہ بالکل برعکس تھا۔ سب سے پہلے تو کتاب کے لیے مکمل تنہائی درکار تھی جب وہ ملتی اورمیں کتاب پڑھنا شروع کرتی تو دماغ اتنا وزنی ہو جاتا اور بےآواز چیخوں کا ایسا شوراُٹھتا کہ کتاب چھوڑنےپرمجبور ہوجاتی ۔ بہرحال اس مرحلے سے گزر ہی گئی ۔۔۔ یہ صرف کتاب ختم کرنے کی حد تک کہہ رہی ہوں ورنہ یوں محسوس ہو رہا ہے کہ کتاب میں جو کچھ بھی تھا وہ سب اندر اُترکر کہیں غائب ہو گیا ہے اورمیں ابھی تک تشنہ لب دریا کنارے کھڑی ہو۔انجیوگرافی کی وضاحت میں اتنا کہوں گی کہ جیسے جیسے یہ کتاب پڑھتی گئی میرے اندرکا ایک ایک احساس ایک ایک جذبہ لفظ کی صورت سامنے آتا گیا جیسے ڈائسیکشن کرتے ہوئے طلباء انسانی جسم کو ریشہ ریشہ کردیں اِسی طرح میرے جسم یا میری شخصیت کو کھول کر رکھ دیا گیا۔ میری سوچ کو میرے سامنے بیان کیا گیا ۔ یہ عمل مسلسل ہوتا رہا آخری صفحے تک ۔ یہاں تک کہ نتیجے کا اعلان بھی میرے سامنے ہی ہوا۔ اب جو بات بتانے والی ہوں وہ میرے لیے خوش کن بھی ہے اوربہت عجیب بھی ۔ خوش کن اس لیے کہ اللہ کا شکر ہے مجھے کوئی ایسی بیماری نہیں جسے چھپاؤں اوریہ وہی بات ہے جس کا مجھے پتہ تو تھا پر احساس نہ تھا کہ اس کی وجہ سے باقی سب بیماریاں لاحق ہیں۔ اب آتے ہیں عجیب کی جانب۔۔۔ جیسے جیسے پڑھتی گئی یہ احساس شدت سے ہوتا گیا کہ یہ سب تو میں بھی سوچتی ہوں بالکل ایسے ہی اوراتنے بڑے لکھاری نے کیسے یہ برسوں پہلے لکھ دیا ہے۔اسی وجہ سے ذہن پراتنا دباؤ پڑا کہ میں جسمانی طور پر تھک گئی ۔ آپ کو بتاؤں کہ گزشتہ دس گیارہ روز سے میں یہاں ہوتے ہوئے بھی یہاں نہیں ہوں،اتنی سخت تھکن ہے جیسے دور دراز کا سفر کر کے گھر واپس آئی ہوں، میری سمجھ سے باہر ہے کہ کیسے روٹین میں آؤں ۔اس ٹرانس سے نکلنے کا راستہ یہی دکھائی دے رہا ہے کہ میں کچھ لکھ کر آپ سے باتیں کروں ۔ سب سے پہلے تو آپ کی قابلیت کی تعریف کہ مجھے اس طرح محسوس کیا جو میں خود بھی نہیں جانتی تھی ۔ میں ذہنی طور پراس مرحلے میں تھی کہ خود اپنے آپ کو ایک نفسیاتی مریض سمجھنے پر مجبور تھی ،میری سمجھ سے باہر تھی یہ بات کہ مجھے زندگی عام انداز سے گزارنا کیوں نہیں آتی ، کبھی کسی کو مورد ِالزام سمجھتی کبھی قسمت کا کھیل تو کبھی اللہ کی آزمائش ۔۔۔ غرض کہ لوہا اتنا گرم ہوچکا تھا کہ جب آپ نے ضرب لگائی تو اس نے اپنی اصل کو پہچان لیا اور پھر اپنی عقل ِسلیم پر ندامت بھی ہوئی ۔
بات صرف اتنی سی ہے کہ انسان کے اس دُنیا میں دو ساتھی ہیں ایک زندگی اور دوسرا محبت۔ نارمل انسان وہی ہے جو ان میں توازن برقرار رکھتا ہے۔ جب میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ زندگی اورمحبت تو مجھے ملتے ہی بچھڑ گئی تھی ۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں ساڑھے گیارہ برس کی تھی میری دادی جن کی میں جان تھی اُن کا برین ہیمریج سے اچانک انتقال ہو گیا ۔ اُس زندگی اُس محبت کی خوشبو،اُن کا لمس میں آج تک نہیں بھولی اوراُن کی موت کا لمحہ وہ دن اورپوری رات جب میں اُن کی ڈیڈ باڈی کے ساتھ بیٹھی رہی اور شاید روئی بھی نہیں۔ یہ وہ عمر تھی جب مجھے دُکھ کا مفہوم بھی معلوم نہ تھا کہ یہ میرے نصاب میں پہلے کبھی نہ آیا تھا ،اسی لیے یاداشت کے'آرکائیو" میں ہمیشہ کے لیے ثبت ہو گیا۔اُس وقت کا ہرمنظرایسے محفوظ ہے جیسے کل کی بات ہو۔ اس کے بعد میں جیسے ایک دم بڑی ہو گئی ۔ محبت میرے آس پاس ساون کی نرم پھوار کی صورت بکھرتی رہی اتنی محبت ملی کہ میں شرابور ہوگئی لیکن میرا من خالی ہی رہا ۔ میں نے ہرمحبت میں "اُس لمس" کو تلاش کیا۔پرجو چیز چلی جائے وہ لوٹ کر نہیں آتی۔ ملنے والی ہرمحبت کو شک کی نگاہ سے دیکھتی ۔
۔۔"بانو قدسیہ " کے الفاظ یہاں لکھنا چاہوں گی کہ یہی میرا تجربہ بھی ہے۔
۔۔"دولت اورمحبت کی ایک سی سرشت ہے۔ دولت کبھی انجانے میں چھپر پھاڑ کر ملتی ہے کبھی وراثت کا روپ دھار کر ایسے ڈھب سے ملتی ہے کہ چھوٹی انگلی تک ہلائی نہیں ہوتی اورآدمی مالامال ہو جاتا ہے پھر اکلوتے لاڈلے کی طرح دولت اجاڑنے برباد کرنے میں مزا آتا ہے۔ کبھی پائی پائی جوڑتے رہنے پر بھی پورا روپیہ نہیں ہوتا ۔ کبھی محبت اور دولت ملتی رہتی ہے لیکن سیری کی کیفیت پیدا نہیں ہوتی ۔ چادر پوری نہیں پڑتی تن پر۔ کبھی محبت رشوت کے روپے کی طرح ڈھکی چھپی ملتی ہے ۔لوگوں کو پتہ چل جائے تو بڑی تھڑی تھڑی ہوتی ہے کبھی کاسے میں پڑنے والی اکنی دونی کی خاطر ساری عمر تیرا بھلا ہو کہنا پڑتا ہے"۔۔۔۔۔(راجہ گدھ ۔۔۔صفحہ 302)۔
یہ تو میری زندگی کا پہلا دور تھا ۔اس کے اختتام پر میں نے باب ِمحبت کو خداحافظ کہا اورنئی زندگی کا فیصلہ قسمت پر چھوڑ دیا ۔ دوسرا دور پہلے کے بالکل برعکس ثابت ہوا.میرے خیال میں سب کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے لیکن میں نے اس بات کو بہت زیادہ محسوس کیا۔ اس دورمیں اتنا کچھ ملا کہ میں جس کے قابل بھی نہ تھی ۔۔۔ محبت ۔عزت۔ احترام .لیکن نہیں ملی تو وہ محبت نہیں ملی جس کو میں نے پہلے کبھی اہمیت ہی نہ دی تھی. کیونکہ وہ بن مانگے مل رہی تھی نا اس لیے۔اب احساس ہوا کہ وہ تو ایسا قیمتی خزانہ تھا جو خود بخود ہی ملتا ہے ہمارے والدین کی طرح ...جو پاس ہوں تو اُن کے ہونے کا پتہ بھی نہیں چلتا اوردور ہوں تو ہر سانس کے ساتھ ان کی پکار اُٹھتی ہے۔ خونی رشتوں کی محبت ہمیں اپنا ایسا عادی بنا دیتی ہے کہ پھر ہم اپنے بننے والے نئے رشتوں میں اس کی جھلک ڈھونڈتے رہ جاتے ہیں اورتھکن ہماری رگوں میں یوں اترتی چلی جاتی ہے کہ سیراب ہو کر بھی تشنگی کا احساس کم نہیں ہوتا۔ شروع میں بہت محسوس ہوا پھر سمجھ آیا کہ محبت ایسی چیز نہیں کہ جسے دینا ہمارے اختیار میں ہو۔یہ ہمارا وہ حق ہے جسے مانگنے کا ہم کبھی تصور بھی نہیں کر سکتے۔ محبت صرف ہوتی ہے یا پھر نہیں ہوتی ۔ یہ لین دین کا رشتہ ہے ہی نہیں اورزندگی میں جو نئے رشتے بنتے ہیں وہ صرف لین دین ہی کے بنتے ہیں بلکہ صرف دینے کے جتنا دیتے جاؤ کم ہے اور بدلے میں ذرہ بھی مل جائے تو بہت ہے ورنہ بیگار ہی زندگی کہانی کا حاصل ٹھہرتی ہے۔
کتاب کے لفظ اور اس کے ادبی محاسن کے بارے میں کچھ بھی کہنے یا منتخب کرنے کی نہ ہمت ہے اور نہ ہی چند الفاظ میں اس کا احاطہ ممکن ہے۔" دل دریا سمندر" پڑھنے کے بعد مجھ پر کس طور اثرانداز ہوئی ،اس کی جھلک آپ کو اس پوسٹ میں ملے گی۔ اللہ تعالٰی آپ کو دُنیا وآخرت میں سُرخرو کرے
آج تقریباً گیارہ روز ہو گئے ہیں پڑھتے ہوئے لیکن ذہن ہے کہ مسلسل حرکت میں ہے۔ایسی کیفیت ہے جیسے کسی مائع کو ایک بند بوتل میں ڈال کر ہلایا جائے۔اگر اس کتاب کو اپنے حوالے سے ایک لفظ میں بیان کروں تو وہ "انجیوگرافی"ہے۔ پہلی رات کتاب کا جائزہ لیتے ہوئے بلکہ شروع کے چند صفحات پڑھ کرجو حالت ہوئی وہ بیان سے باہر ہے۔ میں انجیو گرافی کے بارے میں تو زیادہ نہیں جانتی لیکن جو سرسری سا معلوم ہے کہ کوئی دوا انجیکٹ کرتے ہیں جس سے رگیں نمایاں ہو جاتی ہیں۔ جیسے جیسے کتاب پڑھتی گئی حانکہ یہ میرے لیے بڑا کھٹن مرحلہ تھا مجھے اپنے آپ پریقین ہے کہ میں کسی بھی کتاب کو ایک جھلک میں جانچ لیتی ہوں پھراس کو حرف حرف پڑھ کر لطف اُٹھاتی ہوں ۔ لیکن یہاں معاملہ بالکل برعکس تھا۔ سب سے پہلے تو کتاب کے لیے مکمل تنہائی درکار تھی جب وہ ملتی اورمیں کتاب پڑھنا شروع کرتی تو دماغ اتنا وزنی ہو جاتا اور بےآواز چیخوں کا ایسا شوراُٹھتا کہ کتاب چھوڑنےپرمجبور ہوجاتی ۔ بہرحال اس مرحلے سے گزر ہی گئی ۔۔۔ یہ صرف کتاب ختم کرنے کی حد تک کہہ رہی ہوں ورنہ یوں محسوس ہو رہا ہے کہ کتاب میں جو کچھ بھی تھا وہ سب اندر اُترکر کہیں غائب ہو گیا ہے اورمیں ابھی تک تشنہ لب دریا کنارے کھڑی ہو۔انجیوگرافی کی وضاحت میں اتنا کہوں گی کہ جیسے جیسے یہ کتاب پڑھتی گئی میرے اندرکا ایک ایک احساس ایک ایک جذبہ لفظ کی صورت سامنے آتا گیا جیسے ڈائسیکشن کرتے ہوئے طلباء انسانی جسم کو ریشہ ریشہ کردیں اِسی طرح میرے جسم یا میری شخصیت کو کھول کر رکھ دیا گیا۔ میری سوچ کو میرے سامنے بیان کیا گیا ۔ یہ عمل مسلسل ہوتا رہا آخری صفحے تک ۔ یہاں تک کہ نتیجے کا اعلان بھی میرے سامنے ہی ہوا۔ اب جو بات بتانے والی ہوں وہ میرے لیے خوش کن بھی ہے اوربہت عجیب بھی ۔ خوش کن اس لیے کہ اللہ کا شکر ہے مجھے کوئی ایسی بیماری نہیں جسے چھپاؤں اوریہ وہی بات ہے جس کا مجھے پتہ تو تھا پر احساس نہ تھا کہ اس کی وجہ سے باقی سب بیماریاں لاحق ہیں۔ اب آتے ہیں عجیب کی جانب۔۔۔ جیسے جیسے پڑھتی گئی یہ احساس شدت سے ہوتا گیا کہ یہ سب تو میں بھی سوچتی ہوں بالکل ایسے ہی اوراتنے بڑے لکھاری نے کیسے یہ برسوں پہلے لکھ دیا ہے۔اسی وجہ سے ذہن پراتنا دباؤ پڑا کہ میں جسمانی طور پر تھک گئی ۔ آپ کو بتاؤں کہ گزشتہ دس گیارہ روز سے میں یہاں ہوتے ہوئے بھی یہاں نہیں ہوں،اتنی سخت تھکن ہے جیسے دور دراز کا سفر کر کے گھر واپس آئی ہوں، میری سمجھ سے باہر ہے کہ کیسے روٹین میں آؤں ۔اس ٹرانس سے نکلنے کا راستہ یہی دکھائی دے رہا ہے کہ میں کچھ لکھ کر آپ سے باتیں کروں ۔ سب سے پہلے تو آپ کی قابلیت کی تعریف کہ مجھے اس طرح محسوس کیا جو میں خود بھی نہیں جانتی تھی ۔ میں ذہنی طور پراس مرحلے میں تھی کہ خود اپنے آپ کو ایک نفسیاتی مریض سمجھنے پر مجبور تھی ،میری سمجھ سے باہر تھی یہ بات کہ مجھے زندگی عام انداز سے گزارنا کیوں نہیں آتی ، کبھی کسی کو مورد ِالزام سمجھتی کبھی قسمت کا کھیل تو کبھی اللہ کی آزمائش ۔۔۔ غرض کہ لوہا اتنا گرم ہوچکا تھا کہ جب آپ نے ضرب لگائی تو اس نے اپنی اصل کو پہچان لیا اور پھر اپنی عقل ِسلیم پر ندامت بھی ہوئی ۔
بات صرف اتنی سی ہے کہ انسان کے اس دُنیا میں دو ساتھی ہیں ایک زندگی اور دوسرا محبت۔ نارمل انسان وہی ہے جو ان میں توازن برقرار رکھتا ہے۔ جب میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ زندگی اورمحبت تو مجھے ملتے ہی بچھڑ گئی تھی ۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں ساڑھے گیارہ برس کی تھی میری دادی جن کی میں جان تھی اُن کا برین ہیمریج سے اچانک انتقال ہو گیا ۔ اُس زندگی اُس محبت کی خوشبو،اُن کا لمس میں آج تک نہیں بھولی اوراُن کی موت کا لمحہ وہ دن اورپوری رات جب میں اُن کی ڈیڈ باڈی کے ساتھ بیٹھی رہی اور شاید روئی بھی نہیں۔ یہ وہ عمر تھی جب مجھے دُکھ کا مفہوم بھی معلوم نہ تھا کہ یہ میرے نصاب میں پہلے کبھی نہ آیا تھا ،اسی لیے یاداشت کے'آرکائیو" میں ہمیشہ کے لیے ثبت ہو گیا۔اُس وقت کا ہرمنظرایسے محفوظ ہے جیسے کل کی بات ہو۔ اس کے بعد میں جیسے ایک دم بڑی ہو گئی ۔ محبت میرے آس پاس ساون کی نرم پھوار کی صورت بکھرتی رہی اتنی محبت ملی کہ میں شرابور ہوگئی لیکن میرا من خالی ہی رہا ۔ میں نے ہرمحبت میں "اُس لمس" کو تلاش کیا۔پرجو چیز چلی جائے وہ لوٹ کر نہیں آتی۔ ملنے والی ہرمحبت کو شک کی نگاہ سے دیکھتی ۔
۔۔"بانو قدسیہ " کے الفاظ یہاں لکھنا چاہوں گی کہ یہی میرا تجربہ بھی ہے۔
۔۔"دولت اورمحبت کی ایک سی سرشت ہے۔ دولت کبھی انجانے میں چھپر پھاڑ کر ملتی ہے کبھی وراثت کا روپ دھار کر ایسے ڈھب سے ملتی ہے کہ چھوٹی انگلی تک ہلائی نہیں ہوتی اورآدمی مالامال ہو جاتا ہے پھر اکلوتے لاڈلے کی طرح دولت اجاڑنے برباد کرنے میں مزا آتا ہے۔ کبھی پائی پائی جوڑتے رہنے پر بھی پورا روپیہ نہیں ہوتا ۔ کبھی محبت اور دولت ملتی رہتی ہے لیکن سیری کی کیفیت پیدا نہیں ہوتی ۔ چادر پوری نہیں پڑتی تن پر۔ کبھی محبت رشوت کے روپے کی طرح ڈھکی چھپی ملتی ہے ۔لوگوں کو پتہ چل جائے تو بڑی تھڑی تھڑی ہوتی ہے کبھی کاسے میں پڑنے والی اکنی دونی کی خاطر ساری عمر تیرا بھلا ہو کہنا پڑتا ہے"۔۔۔۔۔(راجہ گدھ ۔۔۔صفحہ 302)۔
یہ تو میری زندگی کا پہلا دور تھا ۔اس کے اختتام پر میں نے باب ِمحبت کو خداحافظ کہا اورنئی زندگی کا فیصلہ قسمت پر چھوڑ دیا ۔ دوسرا دور پہلے کے بالکل برعکس ثابت ہوا.میرے خیال میں سب کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے لیکن میں نے اس بات کو بہت زیادہ محسوس کیا۔ اس دورمیں اتنا کچھ ملا کہ میں جس کے قابل بھی نہ تھی ۔۔۔ محبت ۔عزت۔ احترام .لیکن نہیں ملی تو وہ محبت نہیں ملی جس کو میں نے پہلے کبھی اہمیت ہی نہ دی تھی. کیونکہ وہ بن مانگے مل رہی تھی نا اس لیے۔اب احساس ہوا کہ وہ تو ایسا قیمتی خزانہ تھا جو خود بخود ہی ملتا ہے ہمارے والدین کی طرح ...جو پاس ہوں تو اُن کے ہونے کا پتہ بھی نہیں چلتا اوردور ہوں تو ہر سانس کے ساتھ ان کی پکار اُٹھتی ہے۔ خونی رشتوں کی محبت ہمیں اپنا ایسا عادی بنا دیتی ہے کہ پھر ہم اپنے بننے والے نئے رشتوں میں اس کی جھلک ڈھونڈتے رہ جاتے ہیں اورتھکن ہماری رگوں میں یوں اترتی چلی جاتی ہے کہ سیراب ہو کر بھی تشنگی کا احساس کم نہیں ہوتا۔ شروع میں بہت محسوس ہوا پھر سمجھ آیا کہ محبت ایسی چیز نہیں کہ جسے دینا ہمارے اختیار میں ہو۔یہ ہمارا وہ حق ہے جسے مانگنے کا ہم کبھی تصور بھی نہیں کر سکتے۔ محبت صرف ہوتی ہے یا پھر نہیں ہوتی ۔ یہ لین دین کا رشتہ ہے ہی نہیں اورزندگی میں جو نئے رشتے بنتے ہیں وہ صرف لین دین ہی کے بنتے ہیں بلکہ صرف دینے کے جتنا دیتے جاؤ کم ہے اور بدلے میں ذرہ بھی مل جائے تو بہت ہے ورنہ بیگار ہی زندگی کہانی کا حاصل ٹھہرتی ہے۔
دل دریا سمندر آج کل میرے زیر مطالعہ ہے۔ کئی برس کے بعد دوبارہ اس کتاب کو پڑھنے کے بعد احساس ہوتا ہے کہ پہلی بار پڑھ رہا ہوں۔آپ کی تحاریر کو سمجھنا مجھے قطعا مشکل نہیں۔ ماشااللہ بہت خوبصورت لکھتی ہیں۔ اور میں بھی ٹوٹا پھوٹا اپنے خیال کو الفاظ کے رنگ میں ڈھالنے کی کوشش کرتا ہوں در دستک کے نام سے۔
جواب دیںحذف کریںاللہ کرے زور قلم اور زیادہ